- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ابن بطوطہ کا سفرنامہ ملک فأس ابو عنان المرینی کے کاتب خاص ابن جزی نے ابن بطوطہ سے براہ راست تمام تفصیلات سن کر مرتب کیا ہے ( أزہار الریاض ج3 ص 195 ) ۔ابن جزی چونکہ بذات خود شاعر او رصاحب طرز ادیب تھا لہذا اس نے موقعہ کی مناسبت سے اپنی طرف سے بھی اضافات کیے ہیں اور کئی چیزیں ابن جبیر کے رحلہ سے نقل کی ہیں ۔ ایک مہم جو مسافر کی بیان کردہ حکایات اور صاحب ذوق ادیب و شاعر کی ملمع کاریوں نے اس سفرنامے کو بڑا مقام عطا کیا ہے لہذا یورپ میں ابن بطوطہ کو دنیائے سیاحت کا رئیس تصور کیا جاتا ہے ۔
لیکن ان سب چیزوں کے باوصف استنادی حیثیت سے یہ سفرنامہ کوئی خاص مقام حاصل نہیں کرسکا یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے تاریخی واقعات میں اس پر اعتماد نہیں کیا چنانچہ آپ علامہ ذہبی کی تاریخات ، ابن حجر کی کتابیں ، سخاوی اور سیوطی وغیرہ کی مصنفات دیکھیں شاید ہی آپ کو ابن بطوطہ کے سفرنامے کا کہیں حوالہ مل جائے ۔ وجہ اس کی یہ ہے اس کو تحقیقی و مستند بنانے کی بجائے اس کے دلچسپ ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس کی ترتیب کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے جب ابن بطوطہ اپنے سفرسے واپس لوٹا اور فاس کے بادشاہ نے اس سے عجیب و غریب حکایات سنیں اور ان کو پسند کیاتو اس نے اپنے کاتب خاص ابن جزی کو اس کی ترتیب و تہذیب پر لگادیا ۔ بہر صورت اس سفرنامے میں صحیح کیا ہے غلط کیا ہے اور اس کی استنادی حیثیت کیسی ہے اس کے بارے میں گفتگو کرنے کا فی الوقت ارادہ نہیں ہے بلکہ مطلوب اس میں موجود ایک حکایت (رحلۃ ابن بطوطہ ص 316۔17 )کی حقیقت واضح کرنا ہے جس کو لے کر بعض لوگوں نے شیخ الإسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ و أسکنہ فسیح جنانہ پر اللہ کی صفات میں تشبیہ و تکییف اور تجسیم جیسی قبیح تہمتیں لگانے کی کوشش کی ہےوہ ابن تیمیہ جس کی ساری عمر عقیدہ اہل سنت والجماعت کی نشر و اشاعت اور معطلہ و ممثلہ کے رد میں گزری ہے ۔
ابن بطوطہ کہتے ہیں میں جامع دمشق میں گیا تو تقی الدین ابن تیمیہ کو دیکھا وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کررہا تھا جب اس حدیث کا تذکرہ آیا کہ ینزل ربنا تبارک و تعالی فی کل لیلۃ إلی سماء الدنیاء کہ اللہ ہر رات آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں، تو وہ منبر کی ایک سیڑھی نیچے اترا اور کہنے لگا اس طرح جیسے میں نیچے اترا ہوں ۔ ۔۔۔۔ الخ
حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے ابن تیمیہ سے اس طرح کا عقیدہ بالکل بھی ثابت نہیں ۔ پہلے تو اس حکایت کا باطل ہونا واضح کرتے ہیں اور پھر ابن تیمیہ کا اس مسئلہ میں موقف پیش کریں گے ۔ان شاء اللہ
لیکن ان سب چیزوں کے باوصف استنادی حیثیت سے یہ سفرنامہ کوئی خاص مقام حاصل نہیں کرسکا یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے تاریخی واقعات میں اس پر اعتماد نہیں کیا چنانچہ آپ علامہ ذہبی کی تاریخات ، ابن حجر کی کتابیں ، سخاوی اور سیوطی وغیرہ کی مصنفات دیکھیں شاید ہی آپ کو ابن بطوطہ کے سفرنامے کا کہیں حوالہ مل جائے ۔ وجہ اس کی یہ ہے اس کو تحقیقی و مستند بنانے کی بجائے اس کے دلچسپ ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس کی ترتیب کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے جب ابن بطوطہ اپنے سفرسے واپس لوٹا اور فاس کے بادشاہ نے اس سے عجیب و غریب حکایات سنیں اور ان کو پسند کیاتو اس نے اپنے کاتب خاص ابن جزی کو اس کی ترتیب و تہذیب پر لگادیا ۔ بہر صورت اس سفرنامے میں صحیح کیا ہے غلط کیا ہے اور اس کی استنادی حیثیت کیسی ہے اس کے بارے میں گفتگو کرنے کا فی الوقت ارادہ نہیں ہے بلکہ مطلوب اس میں موجود ایک حکایت (رحلۃ ابن بطوطہ ص 316۔17 )کی حقیقت واضح کرنا ہے جس کو لے کر بعض لوگوں نے شیخ الإسلام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ و أسکنہ فسیح جنانہ پر اللہ کی صفات میں تشبیہ و تکییف اور تجسیم جیسی قبیح تہمتیں لگانے کی کوشش کی ہےوہ ابن تیمیہ جس کی ساری عمر عقیدہ اہل سنت والجماعت کی نشر و اشاعت اور معطلہ و ممثلہ کے رد میں گزری ہے ۔
حکایت کا خلاصہ :
ابن بطوطہ کہتے ہیں میں جامع دمشق میں گیا تو تقی الدین ابن تیمیہ کو دیکھا وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کررہا تھا جب اس حدیث کا تذکرہ آیا کہ ینزل ربنا تبارک و تعالی فی کل لیلۃ إلی سماء الدنیاء کہ اللہ ہر رات آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں، تو وہ منبر کی ایک سیڑھی نیچے اترا اور کہنے لگا اس طرح جیسے میں نیچے اترا ہوں ۔ ۔۔۔۔ الخ
حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے ابن تیمیہ سے اس طرح کا عقیدہ بالکل بھی ثابت نہیں ۔ پہلے تو اس حکایت کا باطل ہونا واضح کرتے ہیں اور پھر ابن تیمیہ کا اس مسئلہ میں موقف پیش کریں گے ۔ان شاء اللہ