• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الترمذي: حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبِي «جُنَادَةُ بْنُ سَلْمٍ» عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«آخِرُ قَرْيَةٍ مِنْ قُرَى الإِسْلَامِ خَرَابًا المَدِينَةُ»

ترجمہ: اسلامی شہروں میں سے سب سے آخر میں ویران ہونے والا شہر مدینہ ہے۔

۩تخريج: سنن الترمذي (٣٩١٩) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ صحيح ابن حبان (٦٧٧٦) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها لأبي عمرو الداني (٤٦٠) (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ الضعيفة (١٣٠٠) (ضعيف)

امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کو ہم صرف جنادہ کی ہی سند سے جانتے ہیں اور کہا کہ بخاری رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو سن کر تعجب کا اظہار کیا (کہ یہ کیسے صحیح ہو سکتی ہے)

مناوی رحمہ اللّٰہ نے فیض القدیر میں کہا ہے کہ "سیوطی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور یہ حدیث ضعیف ہی ہے کیونکہ ترمذی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب العلل میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ انہوں نے اس کے متعلق امام بخاری سے سوال کیا تو امام بخاری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ میں جنادہ کو مقارب الحدیث سمجھتا تھا۔ پھر مناوی کہتے ہیں کہ جنادہ کو محدثین کی جماعت نے ضعیف کہا ہے جن میں حافظ مزی وغیرہ ہیں"

شیخ البانی کہتے ہیں کہ تہذیب التہذیب میں ہے کہ:

ابو زرعہ نے اسے ضعیف اور ابو حاتم نے ضعیف الحدیث کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے روایت نہ کی جائے۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کا ذکر "الثقات" میں کیا ہے، ابن حجر کہتے ہیں کہ ساجی رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ جنادہ نے ہشام بن عروہ سے ایک منکر حدیث روایت کی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ شاید ساجی کی مراد یہی حدیث ہے۔

پھر کہا ہے کہ اس کی توثیق ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ نے بھی کی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جنادہ کی توثیق ابن حبان نے ابن خزیمہ رحمہ اللّٰہ ہی سے لی ہے کیونکہ وہ ان شیخ ہیں اور وہ دونوں ہی توثیق میں متساہل ( نرمی برتنے والے) ہیں جیسا کہ یہ بات اہل علم و تحقیق کے نزدیک مشہور و معروف ہے۔ پس جنادہ کی جنہوں نے تضعیف کی ہے وہ ابن خزیمہ اور ابن حبان رحمہما اللّٰہ کی توثیق پر بھاری ہے۔
 
شمولیت
مئی 15، 2015
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
13
قال الخطيب أبو بكر أحمد بن علي (المتوفى: 463 ھ) :
’’ أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَافِظُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْعَزَائِمِ، بِالْكُوفَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْخِضْرُ بْنُ أَبَانَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هُدْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنْسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ خَرَجَتْ مِنْ غَيْرِ أَمْرِ زَوْجِهَا، كَانَتْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى تَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهَا أَوْ يَرْضَى عَنْهَا "
تخريج: أخرجه الخطيب في " تاريخ بغداد " الضعيفة 1020؛

سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہے تو وہ گھر واپس لوٹنے تک یا شوہر کے راضی ہونے تک ﷲ تعالٰی کی ناراضگی میں ہوتی ہے۔
علامہ الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ روایت (موضوع ہے )
امام ابن ابن معين اور أبو حاتم نے إبراهيم بن هدبة کو کذاب کہا ہےاور علي بن ثابت نے کہا کہ« هو أكذب من حماري هذا» (وہ میرے اس گدھے سے زیادہ جھوٹا ہے) ابن حبان نے ابراہیم کو دجالوں میں سے ایک دجال کہا ہے۔ (
سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 88ـ3 )
ماشااللہ
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قَالَ العُقَيْلِي: حَدَّثَنَا أَبُو ذَرٍّ هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عَدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا «أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ» عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى أَصْحَابِ الْعَمَائِمِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ»

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے جمعہ کے دن عمامہ باندھنے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔

۩تخريج: الضعفاء الكبير للعقيلي (في ترجمة ١٣٤- أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ الْحَنَفِيُّ) (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (كما في المجمع) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٨٠- أيوب بْنُ مُدْرِكٍ الْحَنَفِيُّ) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ التدوين في أخبار قزوين لعبد الكريم الرافعي (المتوفى: ٦٢٣هـ)؛ الضعيفة (١٥٩) (موضوع)


[مترجم: اس حدیث کو «أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ» سے تین راویوں نے روایت کیا ہے:
۱) يُوسُفُ بْنُ عَدِي (جیسا کہ عقیلی، طبرانی اور ابو نعیم کی روایات میں ہے)، اور یوسف بن عدی ثقہ، بخاری کے راویوں میں سے ہیں، جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے۔

۲) أَبُو الْمُحَيَّاةِ (جیسا کہ ابن عدی اور عبدالکریم رافعی کی روایت میں ہے)، ان کا پورا نام يحيى ابن يعلى التيمي أبوالمحياة ہے، ثقہ، مسلم کے راویوں میں سے ہیں جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب میں کہا ہے۔

۳) الْعَلاءُ بْنُ عَمْرٍو الْحَنَفِيُّ (جیسا کہ ابن جوزی کی ایک روایت میں ہے)، متہم بالکذب ہے جیسا کہ شیخ البانی نے کہا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث کا دارومدار «أَيُّوبُ بْنُ مُدْرِكٍ» ہی پر ہے جیسا کہ ابن جوزی اور شیخ البانی رحمہما اللّٰہ نے کہا ہے]۔


عقیلی رحمہ اللّٰہ: ایوب بن مدرک کی متابعت نہیں کی جاتی اور وہ مناکیر روایت کرتا ہے۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ: یہ حدیث منکر ہے

ابو نعیم اصفہانی: یہ مکحول کی غریب روایات میں سے ہے اور مکحول سے اس حدیث کو صرف ایوب بن مدرک ہی نے روایت کیا ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللّٰہ: "اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، اس کا دارومدار ایوب بن مدرک پر ہے، ابو فتح ازدی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ایوب بن مدرک کی وضع کردہ ہے، یحییٰ بن معین رحمہ اللّٰہ نے ایوب کو کذاب کہا ہے اور ابو حاتم اور دار قطنی رحمہما اللّٰہ نے متروک کہا ہے"

ہیثمی رحمہ اللّٰہ: اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اس کی سند میں ایوب بن مدرک ہے اس کو ابن معین رحمہ اللّٰہ نے کذاب کہا ہے۔

امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ہیثمی رحمہ اللّٰہ کا قول نقل کیا ہے اور لسان المیزان میں عقیلی رحمہ اللّٰہ کا اوپر کا قول نقل کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْمُذَكِّرُ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا «طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو» عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَنْ قَلَّمَ أَظَافِيرَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَخْرَجَ اللَّهُ مِنْهُ كُلَّ دَاءٍ، وَأَدْخَلَ مَكَانَهُ الشِّفَاءَ وَالرَّحْمَةَ»

ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن نماز سے پہلے اپنے ناخن تراشتا ہے اللّٰہ اس سے ہر بیماری کو نکال دیتا ہے اور اس کی جگہ شفا اور رحمت داخل کر دیتا ہے۔

۩تخريج: تاريخ أصبهان لأبي نعيم (في ترجمة ٥٠٨ - جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَطَّانُ أَبُو مُحَمَّدٍ)؛ الضعيفة (٢٠٢١) (ضعيف جدًا)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے کیونکہ طلحہ بن عمرو (بن عثمان حضرمی مکی) متروک الحدیث، متہم بالوضع ہے

(محدثین کے طلحہ بن عمرو کے متعلق اقوال کے لیے ابن حجر رحمہ اللّٰہ کی تہذیب التہذیب دیکھیں)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال القضاعي: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ هُوَ ابْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ عَنْ «عِيسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ» عَنْ «مُقَاتِلٍ» عَنِ الضَّحَّاكِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«الْجُمُعَةُ حَجُّ الْفُقَرَاءِ»

ترجمہ: جمعہ فقراء کا حج ہے۔

۩تخريج «الْجُمُعَةُ حَجُّ الْفُقَرَاءِ»: مسند الشهاب القضاعي (٧٩) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (في ترجمة ٤٦١٢ - عثمان بن عبد الرحمن) (المتوفى: ٥٧١هـ)

قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ نَصْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا «عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهَاشِمِيُّ» عَنْ «مُقَاتِلٍ» عَنِ الضَّحَّاكِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«الْجُمُعَةُ حَجُّ الْمَسَاكِينِ»

ترجمہ: جمعہ مساکین کا حج ہے۔

۩تخريج «الْجُمُعَةُ حَجُّ الْمَسَاكِينِ»: الترغيب والترهيب لابن زنجويه (المتوفى: ٢٥١هـ)؛ مسند الحارث (كما قال المناوي في شرحه) (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (في ترجمة ١٣٥٢ - مُحَمَّد بن هارون أَبُو جعفر الرازي) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ مسند الشهاب القضاعي (٧٨) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٦١٤) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ ابن النجار (كما في جامع الأحاديث) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ الضعيفة (١٩١) (موضوع)

حافظ عراقی رحمہ اللّٰہ نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے، ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو میزان الاعتدال میں اس حدیث کو عیسیٰ کے تعارف میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث اور متروک ہے۔

سخاوی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ مقاتل ضعیف ہے اور اس سے روایت کرنے والا بھی ضعیف ہے۔


شیخ البانی کہتے ہیں کہ مقاتل ضعیف نہیں بلکہ کذاب ہے جیسا کہ ہم نے وکیع رحمہ اللّٰہ کا قول حدیث نمبر: ١٦٨ میں نقل کیا ہے۔ اور اس سے روایت کرنے والا عیسیٰ بن ابراہیم بہت زیادہ ضعیف ہے، بخاری اور نسائی رحمہما اللّٰہ نے اسے منکر الحدیث کہا ہے، اس لئے ابن جوزی رحمہ اللّٰہ اور ان کے بعد صغانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
أخرجه الحكيم الترمذي في " نوادر الأصول " من حديث «عبد الغفور بن عبد العزيز» عن أبيه عن جده قال: قال صلى الله عَلَيْهِ وَسلم

«تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيْسِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَ تُعْرَضُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَعَلَى الْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَيَفْرَحُوْنَ بِحَسَنَاتِهِمْ وَيَزْدَادُوْنَ وُجُوْهَهُمْ بيضًا وَنُزْهَةً فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُؤْذُوا مَوْتَاكُم»

ترجمہ: پیر اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور انبیائے کرام علیھم السلام اورماں باپ کے سامنے ہر جمعہ پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کی رونق (چمک دمک) بڑھ جاتی ہے، تو اللہ سے ڈرو اور اپنے وفات پانے والوں کو اپنے گناہوں سے رنج نہ پہنچاؤ۔

۩تخريج: نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم للحكيم الترمذي (المتوفى: نحو ٣٢٠هـ)؛ الضعيفة (١٤٨٠) (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند موضوع ہے، اس کو گڑھنے کا الزام عبدالغفور پر ہے، اس کے دادا کا نام سعید انصاری ہے جیسا کہ میزان الاعتدال میں اس کے تعارف کی بعض سندوں میں ہے، اور "الإصابة" میں ان کا نام سعید شامی بیان کیا گیا ہے۔

بخاری رحمہ اللّٰہ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے عبدالغفور کے متعلق کہا: " تركوه"، اور اس کا معنی بخاری رحمہ اللّٰہ کے نزدیک متہم اور سخت ضعیف کا ہے جیسا کہ ان کے متعلق یہ معروف ہے۔

ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ثقہ راویوں پر احادیث گڑھتے ہیں۔
ابن معین رحمہ اللّٰہ: اس کی حدیث کی کوئی حیثیت نہیں۔
ابو حاتم رحمہ اللّٰہ: ضعیف الحدیث
ابن عدی رحمہ اللّٰہ: منکر الحدیث۔

اس تفصیل سے آپ جان گئے کہ سیوطی نے اس حدیث کو "الجامع الصغير" میں بیان کرکے ٹھیک نہیں کیا (کیونکہ یہ ان کی شرط کے خلاف ہے)، اور اس حدیث سے استشہاد کرتے ہوئے انہوں نے اپنے فتاوی "الحاوي" میں یہ بات قطعی طور پر کہی ہے کہ مردوں کو زندہ لوگوں کے اعمال کا علم ہوتا ہے اور ان کے حالات بھی معلوم ہوتے ہیں۔

اس مسئلے میں دوسری احادیث بھی گزر چکی ہیں جن میں سے کسی سے بھی استدلال نہیں کیا جا سکتا، جیسے کہ ضعیفہ (حدیث نمبر: ٨٦٣، ٨٦٤) پر احادیث گزر چکی ہیں۔

اس حدیث پر مناوی رحمہ اللّٰہ نے کچھ بھی کلام نہیں کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس کی سند کا علم نہیں تھا، تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے مجھے اس کی سند پر (سیوطی ہی کے ذریعے) مطلع کیا۔ الحمد لله
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أبو الشيخ الأصبهاني: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيِّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا «عَمْرُو بْنُ زِيَادٍ الْبَقَالَيُّ الْخُرَاسَانِيُّ بِجُنْدِيسَابُورَ» قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«مَنْ زَارَ قَبْرَ وَالِدَيْهِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ أَوْ أَحَدِهِمَا، فَقَرَأَ عِنْدَهُمَا أَوْ عِنْدَهُ: يس، غُفِرَ لَهُ بِعَدَدِ ذَلِكَ آيَةً أَوْ حَرْفًا»

ترجمہ: جو ہر جمعہ والدین یا ان میں سے ایک کی قبر کی زیارت کر کے وہاں یٰس پڑھتا ہے، تو یٰس میں جتنے حرف یا آیات ہیں ان کی گنتی کے برابر اس کی مغفرت کی جاتی ہے۔

۩تخريج: طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها لأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم (في ترجمة ١٨٥١ - يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيُّ) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ سنن عبد الغني المقدسي (المتوفى: ٦٠٠هـ)؛ الضعيفة (٥٠)‌ (موضوع)

یہ حدیث درج ذیل الفاظ سے بھی مروی ہے:

قال ابن عدي: حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ الضَّحَّاكِ بْنُ عَمْرو بْنِ أَبِي عَاصِمٍ النبيل، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الأَصْبَهَانِيُّ حَدَّثَنا «عَمْرُو بْنُ زِيَادَ» حَدَّثَنا يَحْيى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَن أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«مَن زَارَ قَبْرَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدِهِمَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَرَأَ يس غُفِرَ لَهُ»


۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ) (في ترجمة ١٣١٦- عَمْرو بْن زياد بْن عَبد الرَّحْمَنِ بْن ثوبان)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ التدوين في أخبار قزوين لعبد الكريم الرافعي (المتوفى: ٦٢٣هـ)؛



شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں: بعض محدثین - میرا خیال ہے کہ ابن محب یا ذہبی - نے سنن مقدسی کے نسخے کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ "حدیث ثابت نہیں ہے"۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے، اس سند سے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اور ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے عمرو بن زیاد کے تعارف میں اس کی دوسری روایات کے ساتھ اس حدیث کو بھی روایت کیا ہے اور ایک روایت کے متعلق کہا ہے کہ یہ موضوع ہے، پھر کہا ہے کہ اس کی اور بھی روایات ہیں جن میں بعض اس نے ثقہ راویوں سے چوری کی ہیں اور بعض موضوع ہیں اور ان احادیث کو گڑھنے کا الزام اسی پر ہے۔

دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ عمرو بن زیاد احادیث گڑھتا تھا، اس لیے ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ابن عدی کی سند سے موضوعات میں بیان کیا ہے اور انہوں نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔

سیوطی نے "اللآليء" میں ابن جوزی کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا شاہد ہے، پھر اس سے پہلے کی حدیث کی سند بیان کی ہے، آپ نے یہ جان لیا کہ وہ بھی موضوع ہی ہے، بالفرض مان لیا جائے کہ یہ صرف ضعیف ہے تو بھی یہ روایت شاہد نہیں ہو سکتی، اس کے دو وجہ ہیں:

پہلی وجہ: اس کا معنی الگ ہے

دوسری وجہ: جیسا کہ مناوی رحمہ اللّٰہ نے جامع صغیر کی شرح میں کہا ہے کہ سیوطی رحمہ اللّٰہ کا اس کی شاہد روایت پیش کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ موضوع اور (سخت) ضعیف روایات کے شواہد پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔


فائدہ: یہ حدیث قبروں کے پاس تلاوتِ قرآن کے استحباب پر دلالت کرتی ہے، اور صحیح احادیث میں اس کے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں ہے، بلکہ صحیح احادیث سے صرف اتنا ہی ثابت ہے کہ زیارتِ قبور کے وقت ان کو سلام کیا جائے اور آخرت کی یاد کی جائے، اور سلف صالحین رضی اللّٰہ عنہم کا بھی یہی عمل رہا ہے، اور قبروں کے پاس قرآن کی تلاوت ایک مکروہ بدعت ہے جیسا کہ متقدمین علماء میں سے بعض نے اس کی وضاحت کی ہے جن میں امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہم اللّٰہ ہیں جیسا کہ زبیدی رحمہ اللّٰہ نے احیاء علوم الدین کی شرح میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بدعت ہے کیونکہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔

اور محمد بن حسن اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس میں کوئی کراہت نہیں ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کو دفن کرتے وقت ان کی قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ یہ اثر ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اور ثابت ہو بھی جائے تو یہ صرف دفن کے وقت تلاوت پر دلالت کرتا ہے مطلق تلاوت پر دلالت نہیں کرتا جیسا کہ اس اثر سے واضح ہے۔

پس اے مسلمان! تجھ پر سنت کی پیروی اور بدعت سے اجتناب لازم ہے چاہے لوگ بدعت کو اچھا ہی سمجھتے ہوں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے جیسا کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال إسماعيل أصبهاني: حَدَّثَنَا سليمان بن إبراهيم حَدَّثَنَا محمد بن عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نصر بن طالوت حَدَّثَنَا أبو بكر أَحْمَدَ بْنِ موسى الحريري حَدَّثَنَا عَبْدَانَ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَرِيشِ حَدَّثَنَا «الْأَغْلَبُ بْنُ تَمِيمٍ» حَدَّثَنَا أَيُّوبَ وَ يُونُسَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ قَرَأَ سُوْرَةَ يس فِي لَيْلَةِ الْجُمْعَةِ غُفِرَ لَهُ»

ترجمہ: جو شخص جمعہ کی رات سورہ یٰس پڑھتا ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔

۩تخريج: الترغيب والترهيب لإسماعيل الأصبهاني (٩٤٨) (المتوفى: ٥٣٥هـ)؛ الضعيفة (٥١١١) (ضعيف جدًا)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، اس کی علت اغلب بن تمیم ہے، اس کے متعلق ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے: "منکر الحدیث ہے، ثقہ راویوں سے ایسی احادیث روایت کرتا ہے جو ان کی احادیث نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ غلطیوں کی کثرت کی وجہ سے حدِ احتجاج سے خارج ہو گیا"۔
اور دوسروں نے اس کو ضعیف کہا ہے۔

زید بن حریش کے متعلق ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ کبھی کبھی غلطی کرتا ہے اور ابن قطان رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ مجہول الحال ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اسی سند سے ابن سنی رحمہ اللّٰہ نے "اليوم والليلة" (رقم ٦٦٨) میں اور ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے الکامل فی الضعفاء میں ایسی ہی حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں "جمعہ" کا ذکر نہیں ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
«مَنْ قَرَأَ يس فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ»
اس حدیث کی تخریج ہم نے "الروض النضير" (١١٤٦) میں کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٥٧٠٢) قال الطبراني: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا «ابْنُ لَهِيعَةَ» عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْيَزَنِيِّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«لَا تَدْخُلُوا عَلَى النِّسَاءِ وَإِنْ كُنَّ كَنَائِنَ» قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: «حَمْوُهُنَّ الْمَوْتُ»


ترجمہ: عورتوں کے پاس مت جاؤ چاہے وہ تمہاری بھابھیاں ہی کیوں نہ ہو، ہم نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم! دیور کے متعلق کیا حکم ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: دیور تو عورت کے لیے موت کی طرح خطرناک ہے۔

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (١ /٧٣٦) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الضعيفة (٥٧٠٢) (منكر بهذا اللفظ)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف اور متن منکر ہے اور یہ حدیث ابن لہیعہ کے اوہام میں سے ہے۔

ابن لہیعہ کی مخالفت ثقہ راویوں کی جماعت نے کی ہے، ثقہ راویوں نے یزید بن ابو حبیب سے ایسے ہی روایت کیا ہے مگر (الكنائن) لفظ کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح شیخین وغیرہما نے بھی روایت کیا ہے اور اس کی تخریج ہم نے غاية المرام، حدیث نمبر: ١٨١ میں کی ہے۔ اسی طرح یہ مسند احمد اور معجم کبیر میں بھی مروی ہے۔

یہ حدیث معجم کبیر (١٧/ ٧٦٤) میں درج ذیل الفاظ سے بھی مروی ہے:

قال الطبراني: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سَهْلٍ، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ، ثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَتَحَدَّثُوا عِنْدَ النِّسَاءِ»

شیخ کہتے ہیں یہ الفاظ بھی ثقات کی مخالفت کی وجہ سے منکر ہیں اگر ابن لہیعہ کی وجہ سے نہیں تو بکر بن سہل کی وجہ سے منکر ہے کیونکہ نسائی رحمہ اللّٰہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔

كنائن جمع ہے كنة کی اور اس کا معنی بیٹے کی یا بھائی کی بیوی ہے جیسا کہ القاموس وغیرہ میں ہے۔ اگر «وَإِنْ كُنَّ كَنَائِنَ» صحیح ہو تو اس کا معنی بھائی کی بیوی لیا جائے گا کیونکہ شوہر کے والد بیوی کے لئے محرم ہی ہیں مگر شوہر کا بھائی محرم نہیں ہے، اور صحیح حدیث میں ہے:

«لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ»

ترجمہ: محرم کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔

اس حدیث کو شیخین وغیرہما نے روایت کیا ہے اور اس کی تخریج ہم نے غابة المرام (١٨٢) میں کی ہے، مزید فتح الباری (٩ / ٣٣١ - ٣٣٢) بھی دیکھیں۔


تنبیہ: حمو کے معنی میں علماء کا اختلاف ہے جس کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں بیان کیا ہے جن میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد شوہر کا باپ ہے اور حافظ ابن حجر بھی اسی کی طرف مائل ہوئے ہیں اور اگر طبرانی کی یہ روایت جس پر ہم بحث کر رہے ہیں صحیح ہو جائے تو یہ حافظ ابن حجر کے بتائے ہوئے معنی کے خلاف حجت ہوگی، مگر طبرانی کی یہ حدیث دو وجہ سے باطل ہے:

پہلی وجہ: اس حدیث کے ایک راوی جنہوں نے یزید بن ابو حبیب سے روایت کی ہے وہ امام لیث بن سعد ہیں انہوں نے کہا ہے (جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے): حمو سے مراد شوہر کا بھائی، شوہر کے چچا کا بیٹا اور اسی جیسے شوہر کے دوسرے رشتے دار ہیں۔ ترمذی رحمہ نے بھی اسے بیان کیا ہے اور ان سے حافظ ابن حجر نے بھی نقل کیا ہے مگر بھول گئے اور اسی صفحے میں حمو کا معنی شوہر کے والد بیان کیا ہے۔

نووی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں: لغت کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حمو سے مراد شوہر کا باپ، چچا، بھائی، بھائی کا بیٹا، چچا کا بیٹا اور انہی جیسے رشتےدار ہیں۔

دوسری وجہ: شوہر کا باپ محارم میں سے ہے اور اس کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جیسا کہ آیت میں واضح طور پر ہے:
(. . وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ. .)

تو یہ بہت بعید بات ہے کہ بیٹے کی بیوی کے لئے اپنی زینت شوہر کے والد کو ظاہر کرنا تو جائز ہو مگر والد کے لئے بیٹے کی بیوی کے سامنے نکلنا جائز نہ ہو (جیسا کہ طبرانی کی روایت کا معنی ہے)، اس لئے یہ حدیث منکر ہے۔ والله اعلم
 
Top