• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّرِيِّ الْقَنْطَرِيُّ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَيْسٍ السَّامِرِيُّ حَدَّثَنَا «عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ يَحْيَى الْأَرْمَنِيُّ» حَدَّثَنَا «عُثْمَانُ بْنُ عُمَارَةَ» حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلَّهِ تَعَالَى فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهُ عَلَى قَلْبِ إِسْرَافِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْخَمْسَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ السَّبْعَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْأَرْبَعِينَ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ تَعَالَى مَكَانَهُ مِنَ الْعَامَّةِ، فَبِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَيُمْطِرُ وَيُنْبِتُ، وَيَدْفَعُ الْبَلَاءَ»

قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: كَيْفَ بِهِمْ يُحْيِي وَيُمِيتُ؟ قَالَ: لِأَنَّهُمْ يَسْأَلُونَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ إِكْثَارَ الْأُمَمِ فَيَكْثُرُونَ، وَيَدْعُونَ عَلَى الْجَبَابِرَةِ فَيُقْصَمُونَ، وَيَسْتَسْقَوْنَ فَيُسْقَوْنَ، وَيَسْأَلُونَ فَتُنْبِتُ لَهُمُ الْأَرْضُ، وَيَدْعُونَ فَيَدْفَعُ بِهِمْ أَنْوَاعَ الْبَلَاءِ»


ترجمہ: بے شک اللّٰہ کی مخلوق میں تین سو لوگ ایسے ہیں جن کے دل آدم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، چالیس ایسے ہیں جن کے دل موسیٰ علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، سات لوگ ایسے ہیں جن کے دل ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، پانچ لوگ ایسے ہیں جن کے دل جبریل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، تین لوگ ایسے ہیں جن کے دل میکائیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہیں، اور ایک آدمی ایسا ہے جس کا دل اسرافیل علیہ السلام کے دل کی طرح ہے۔ جب کوئی ایک مرتا ہے تو اللّٰہ اس کی جگہ تین لے آتا ہے اور جب تین میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ پانچ کو لاتا ہے اور جب پانچ میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ سات کو لاتا ہے اور جب سات میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ ان کی جگہ چالیس کو لاتا ہے اور جب چالیس میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی ان کی جگہ تین سو کو لاتا ہے اور جب تین سو میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی ان کی جگہ عام لوگوں کو لاتا ہے، انہی کی وجہ سے زندگی اور موت دی جاتی ہے، بارش برسایا جاتا ہے نباتات اگائے جاتے ہیں اور مصیبتیں دور کی جاتی ہیں۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا گیا ان کی وجہ سے کیسے موت اور زندگی دی جاتی ہے؟ تو ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: کیونکہ وہ اللّٰہ سے امت کی کثرت کی دعا کرتے ہیں تو کثرت کی جاتی ہے، وہ ظالموں کے لیے بددعا کرتے ہیں....... وہ بارش طلب کرتے ہیں تو دیا جاتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو ان کے لیے زمین کو سرسبز کیا جاتا ہے اور وہ دعا کرتے ہیں تو مختلف قسم کی مصیبتیں دور کی جاتی ہیں۔

۩تخريج: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ ميزان الاعتدال للذهبي (في ترجمة ٥٥٤٩ - عثمان بن عمارة) (المتوفى: ٧٤٨هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٩) (موضوع)


ذہبی رحمہ اللّٰہ نے اس روایت کو عثمان بن عمارہ کے تعارف میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ جھوٹی روایت ہے اللّٰہ اس شخص کو برباد کرے جس نے یہ حدیث گڑھی ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے لسان المیزان میں اسی طرح کہا ہے لیکن اس کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث عبدالرحیم یا عثمان نے گڑھی ہے۔ یعنی اس حدیث کو گڑھنے کا الزام عبدالرحیم ارمنی اور عثمان دونوں میں سے کسی ایک پر ہے کیونکہ وہ دونوں ہی مجہول ہیں اور صرف اسی باطل حدیث سے جانے جاتے ہیں۔


فائدہ: شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے گزشتہ اکثر احادیث کی اسانید سیوطی کے رسالے " الخبر الدال على وجود القطب والأوتاد والنجباء والأبدال " سے نقل کی ہیں جو ضعیف احادیث اور واہیات آثار سے بھری ہوئی ہے جن میں بعض بعض سے زیادہ ضعیف ہیں جیسا کہ اوپر کی تخریج سے معلوم ہوا۔

عجیب بات یہ ہے کہ اس رسالے میں سیوطی نے ایک بھی حدیث مزعوم قطب کے متعلق ذکر نہیں کی اور صوفیوں کی اتباع کرتے ہوئے قطب کو غوث بھی کہا ہے اور اسی طرح اوتاد اور نجباء کے متعلق بھی کوئی مرفوع حدیث بیان نہیں کی، یہ سب صرف نام ہے جن کو صوفیوں نے گھڑھا ہے اور سلف صالحین کے پاس یہ نام معروف نہیں تھے۔ و اللّٰہ اعلم

پھر سیوطی نے یافعی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ بعض عارفین نے کہا ہے کہ قطب وہی ہے جس کا ذکر عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ وہ اسرافیل کے دل پر ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں پہلے حدیث ثابت تو کرو، یہ حدیث جھوٹی ہے جیسا کہ امام ذہبی اور عسقلانی رحمہما اللّٰہ نے کہا ہے، اور تعجب یافعی پر نہیں بلکہ سیوطی پر ہوتا کہ ان سے یہ بات کیسے مخفی رہی۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال «أبو عبد الرحمن السلمي» في " سنن الصوفية ": حدثنا أحمد بن علي بن الحسن: حدثنا «جعفر بن عبد الوهاب السرخسي» حدثنا عبيد بن آدم عن أبيه عن أبي حمزة عن «ميسرة بن عبد ربه» عن المغيرة بن قيس عن «شهر بن حوشب» عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

«ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مِنَ الأَبْدَالِ الَّذِيْنَ بِهِمْ قوام الدُّنْيَا وَأَهْلهَا: الرِّضَا بِالْقضَاءِ وَالصَّبْرُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ وَالْغَضَبُ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»


ترجمہ: تین خصلتیں جس میں ہوں گی وہ ان ابدال میں سے ہوگا جن کی وجہ سے دنیا اور اس میں رہنے والوں کا وجود ہے: قسمت پر راضی ہونا، اللّٰہ کے محارم سے رکنا اور اللّٰہ تعالٰی کی ذات کے متعلق (اگر کوئی غلط بات کہے تو) غصہ ہونا۔

۩تخريج: الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٤٥٧) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٤) (موضوع)


شیخ البانی کہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اس کی علت میسرہ بن عبدربہ ہے کیونکہ وہ مشہور کذاب وضاع (گھڑنے والا) ہے اور اس کی احادیث گزر چکی ہیں جیسا کہ حدیث نمبر (١٤٥٩) ہے۔


اور شہر بن حوشب ضعیف ہے، جعفر بن عبدالوہاب سرخسی کو میں نہیں جانتا ۔

ابو عبدالرحمن سلمی خود متہم بالکذب ہے اور اس کا نام محمد بن حسین بن محمد ہے اس کا ذکر امام ذہبی نے الضعفاء میں کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ متکلم فیہ راوی ہے، اور خطیب بغدادی نے کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن یوسف قطان نے کہا ہے کہ وہ صوفیوں کے لیے احادیث گڑھتا تھا۔

مناوی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کی علت صرف ابن عبد ربہ اور شہر بن حوشب بتائی ہے اور سیوطی نے اس کی سند (کی علت) معلوم ہونے کے باوجود الجامع الصغیر میں اس کو بیان کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الذهبي: أخبرنا سليمان الحاكم أخبرنا جعفر أخبرنا السلفي أخبرنا المبارك بن الطيورى أخبرنا العتيقي أخبرنا محمد بن عدي كتابة حدثنا أبو عبيد الآجرى حدثنا أبو داود السجستاني حدثنا محمد بن عيسى بن الطباع حدثنا ابن فضيل عن أبيه عن «الرجال بن سالم» عن عطاء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

«الأَبْدَالُ مِنَ الْمَوَالِي وَلَا يَبْغَضُ الْمَوَالِي إِلَّا مُنَافِقٌ»


ترجمہ: ابدال ولیوں میں سے ہیں اور ولیوں سے سوائے منافق کے کوئی بغض نہیں رکھتا۔

۩تخريج: سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل لأبي داود السَِّجِسْتاني (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ الكنى للحاكم (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ ميزان الاعتدال للذهبي (المتوفى: ٧٤٨هـ)؛ الضعيفة (١٤٧٦) (منكر)

امام ذہبی نے اس حدیث کو رجال بن سالم کے تعارف میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کون ہے میں نہیں جانتا، یہ حدیث منکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے لسان المیزان میں امام ذہبی کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا نام سالم بن عطاء ہے اور ابو رجال کنیت ہے یعنی سالم اس کا نام ہے اس کے والد کا نہیں، ابو رجال اس کی کنیت ہے نام نہیں اور عطاء اس کے والد کا نام ہے شیخ کا نہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أبو داود: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ صَاحِبٍ لَهُ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ، فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ، فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ، وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا، فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ، وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ، وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ، فَيَقْسِمُ الْمَالَ، وَيَعْمَلُ فِي النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ فِي الْأَرْضِ، فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ، ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ»

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: قَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ: «تِسْعَ سِنِينَ»، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: «سَبْعَ سِنِينَ»


ترجمہ: ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں (اگلا خلیفہ منتخب کرنے میں) اختلاف ہوجائے گا اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا لوگ اسے خلافت کے لئے نکالیں گے لیکن وہ اسے ناپسند کرتے ہوں گے پھر لوگ ان کے ہاتھ پر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے پھر وہ ایک لشکر شام سے بھیجیں گے تو وہ لشکر" بیداء" کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جب لوگ اس لشکر کو دیکھیں گے تو اہل شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں ان کے پاس آئیں گی ان سے بیعت کریں گی پھر ایک آدمی اٹھے گا قریش میں سے جس کی ننھیال بنی کلب میں سے ہوگی وہ ان کی طرف ایک لشکر بھیجے گا تو وہ اس لشکر پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور وہ بنوکلب کا لشکر ہوگا اور ناکامی ہو اس شخص کے لئے جو بنوکلب کے اموال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو، وہ خلیفہ مال غنیمت تقسیم کریں گے اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کریں گے اور اسلام پر اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (سارے کرہ ارض پر اسلام پھیل جائے گا) پھر اس کے بعد سات سال تک وہ زندہ رہیں گے پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔

امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ بعض نے ہشام کے حوالہ سے یہ کہا کہ وہ نوسال تک زندہ رہیں گے جبکہ بعض نے کہا کہ سات سال تک رہیں گے۔

۩تخريج: الضعيفة (١٩٦٥) (ضعيف)

یہ حدیث درج ذیل طرق سے مروی ہے ان میں قتادہ پر اضطراب ہے:

(شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے چار طرق بیان کئے ہیں، آخری دو طرق شیخ نے بیان نہیں کئے لیکن وہ بھی معلول ہی ہیں- شیخ نے مسند اسحاق کی سند بیان نہیں کی اور وہ مجھے حسن لگتی ہے -مترجم)

١) قال ابن راهوية: أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنِي هِشَامٌ صَاحِبُ الدَّسْتُوَائِيِّ، [عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحِ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ «صَاحِبٍ لَهُ» عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

۩تخريج: مسند إسحاق بن راهويه (١٩٥٤) (المتوفى: ٢٣٨هـ)؛ مسند أحمد (٢٦٦٨٩) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ سنن أبي داود (٤٢٨٦، ٤٢٨٧) (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (باب ما جاء أن بالشام يكون الأبدال) (المتوفى: ٥٧١هـ)



شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے ابو خلیل کے صاحب (دوست) کے، ان کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے اس لیے وہ مجہول ہے۔


٢) قال ابن أبي شيبة: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ حَدَّثَنَا «عِمْرَانُ الْقَطَّانُ» [عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

مصنف ابن أبي شيبة (٣٧٢٢٣) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ سنن أبي داود (٤٢٨٨) (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ المعجم الكبير (٦٥٦، ٩٣٠) و الأوسط (٩٤٥٩) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٨٣٢٨) (المتوفى: ٤٠٥هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں یہ سند پہلی سند کی ہی طرح ہے لیکن اس میں ابو خلیل کے صاحب(دوست) کا نام عبداللہ بن حارث بیان کیا گیا ہے۔ ان کا پورا نام عبداللہ بن حارث بن نوفل مدنی ہے، ثقہ، صحیحین کے راوی ہیں لیکن سند میں ابو عوام عمران بن داور قطان ہے وہ کمزور حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے، بخاری رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے " صدوق يهم " اور دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے " كان كثير المخالفة والوهم " اور حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں بخاری رحمہ اللّٰہ کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے "صدوق يهم "۔

اسی سند سے حاکم رحمہ اللّٰہ نے بھی روایت کی ہے لیکن اس کی سند پر کلام نہیں کیا، امام ذہبی نے کہا ہے کہ ابو عوام عمران بن داور قطان کو کئی لوگوں نے ضعیف کہا ہے، اور وہ خارجی تھا۔

٣) قال ابن راهوية: أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، [عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحِ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ مِثْلَ ذَلِك

تخريج: مسند إسحاق بن راهويه (١٩٥٥) (المتوفى: ٢٣٨هـ)؛ مسند أبي يعلى (٦٩٤٠) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ صحيح ابن حبان (٦٧٥٧) (المتوفى: ٣٥٤هـ)

(اس سند میں ابو خلیل نے مجاہد سے روایت کیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے مسند اسحاق کی اس سند پر کلام نہیں کیا اور نہ ہی یہ سند بیان کی ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ سند حسن ہے اس کے تمام راوی ثقہ، شیخین کے راوی ہیں، معاذ بن ہشام صدوق راوی ہے، ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ معاذ کی ان کے والد کے علاوہ دوسروں سے صالح احادیث ہیں، معاذ نے یہاں اپنے والد سے ہی روایت کیا ہے ۔والله اعلم -مترجم)

قال أبو يعلى: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ صَاحِبٍ لَهُ - وَرُبَّمَا قَالَ صَالِحٌ: - عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

ابو یعلی کی سند کے تمام راوی ثقہ، شیخین کے راوی ہیں سوائے ابو ہشام رفاعی کے، وہ ضعیف ہے اور اس نے سند میں مجاہد کی زیادتی کی ہے اور اس کی زیادتی قابل قبول نہیں ہے۔


٤) قال الطبراني: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الصَّبَّاحِ الرَّقِّيُّ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مَعْمَرٍ، [عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌

تخريج: المعجم الكبير (٩٣١) والأوسط (١١٥٣) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛

قتادہ اور مجاہد کے درمیان سے ابو خلیل ساقط ہے۔
طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن عمرو نے کہا کہ میں نے یہ حدیث لیث کو بیان کی تو لیث نے کہا کہ مجھے یہ حدیث مجاہد نے بیان کی ہے۔

طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو معمر سے عبیداللہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔

شیخ البانی کہتے ہیں وہ ثقہ ہے لیکن اس کی سند میں قتادہ پر اضطراب ہے (جیسا کہ اوپر مختلف روایات سے معلوم ہوا -مترجم)


٥) قال أبو عمر الداني: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مَعْمَرٍ،[ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ الْخَلِيلِ أَوْ أَبِي الْخَلِيلِ - عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: موقوفا

تخريج: السنن الواردة في الفتن لأبي عمرو لداني (٥٩٥) (المتوفى: ٤٤٤هـ)

اس میں قتادہ نے مجاہد سے اور انہوں نے ابو خلیل سے روایت کی ہے، ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا سے موقوفا روایت ہے۔

٦) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
۩تخريج: مصنف عبد الرزاق (عَنْ قَتَادَةَ مرسلًا) (٢٠٧٦٩) (المتوفى: ٢١١هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں اس کی سند میں شدید اختلاف ہے، اور ان کو غور سے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کی تین سندیں اس بات پر متفق ہیں کہ قتادہ اور ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا کے درمیان دو راوی ہیں اور چوتھی سند میں درمیان میں صرف ایک ہی راوی ہے اس لیے چوتھی سند جماعت کی روایت کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔

باقی تین سندوں کو دیکھنے سے بالکل واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تیسری سند ساقط الاعتبار ہے کیونکہ اس میں ابن رفاعہ ضعیف ہے۔

دوسری سند بھی عمران قطان کے ضعف کی وجہ سے ساقط الاعتبار ہے۔

باقی بچی پہلی سند تو یہی سند تمام سندوں میں راجح معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا دار ومدار ابو خلیل کے صاحب پر ہے اور وہ مجہول ہے۔ والله أعلم


یہ حدیث دوسرے طرق سے ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا اور دوسروں سے مختصرا مروی ہے لیکن اس میں بیعت، ابدال اور بنو کلب کے لشکر کا ذکر نہیں ہے۔اس کی تخریج ہم نے صحیحہ (حدیث نمبر: ١٩٢٤) میں کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الإمام أحمد: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:

«الْأَبْدَالُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ ثَلَاثُونَ مِثْلُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهُ رَجُلًا»


ترجمہ: اس امت میں تیس ابدال ہیں جو ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کی طرح ہیں، جب بھی ان میں سے کسی کو موت آتی ہے اللّٰہ اس کی جگہ کسی اور کو لے آتا ہے۔

۩تخريج: مسند أحمد (٢٢٧٥١) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ المسند الشاشي (١٣١٤) (المتوفى: ٣٣٥هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ كرامات الأولياء للخَلَّال (٣) (المتوفى: ٤٣٩هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الضعيفة (٩٣٦) (منكر)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں اس میں دو علتیں ہیں:

پہلی علت: عبدالواحد بن قیس مختلف فیہ راوی ہیں ان کی توثیق ابو زرعہ رحمہ اللّٰہ اور ایک روایت کے مطابق ابن معین نے بھی کی ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق ابن معین رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے "لم يكن بذاك ولا قريب" اور ابو حاتم رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے "ليس بالقوي" ( اتنا زیادہ قوی نہیں ہے) اسی طرح صالح بن محمد بغدادی نے بھی کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کرتا ہے حالانکہ ان سے سنا نہيں ہے، امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس نے ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا اور اس کی ان سے روایات مرسل ہیں، اس نے عروہ اور نافع رحمہما اللّٰہ کو پایا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبدالواحد بن قیس نے عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ کو بھی نہیں پایا اور یہ سند ضعیف ہونے کے ساتھ "منقطع" بھی ہے۔

دوسری علت: حسن بن ذکوان مختلف فیہ راوی ہیں اور جمہور نے انہیں ضعیف کہا ہے، احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس کی احادیث باطل ہیں، ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب میں کہا ہے کہ وہ صدوق راوی ہے، غلطی کرتا ہے اور مدلس ہے اور کہا ہے کہ وہ بخاری کے رجال میں سے ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ حسن ابن ذکوان نے یہاں روایت عنعنہ سے کی ہے۔

اس سے ہیثمی رحمہ اللّٰہ کے وہم کا علم ہوتا ہے جو انہوں نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور سیوطی نے " الحاوي " میں ان کی تقلید کی ہے کہ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں سوائے عبدالواحد بن قیس کے، اس کی توثیق عجلی اور ابو زرعہ رحمہما اللّٰہ نے کی ہے اور دوسروں نے تضعیف کی ہے، سیوطی نے "دوسروں نے تضعیف کی ہے" والا جملہ نقل نہیں کیا۔

ہیثمی رحمہ اللّٰہ کے کلام میں دو شبہات ہیں:

پہلاشبہ: کہ عبدالواحد اور عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ کے درمیان انقطاع نہیں ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا۔

دوسرا شبہ: کہ حسن بن ذکوان ثقہ ہے اور اس کو صحیح کے راویوں میں سے کہا ہے اور اس کی تضعیف و تدلیس میں جو کلام ہے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اوپر کی تحقیق سے سیوطی رحمہ اللّٰہ کی غلطی واضح ہو گئی جو انہوں نے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور ابن عراق رحمہ اللّٰہ کی غلطی بھی معلوم ہوئی کیونکہ انہوں نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔


شیخ البانی کہتے ہیں یہ حدیث عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ سے دوسرے الفاظ سے طبرانی رحمہ اللّٰہ نے المعجم الکبیر میں روایت کی ہے ( لیکن مجھے یہ حدیث المعجم الکبیر میں نہیں ملی-مترجم)

قَالَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنِي محمد بن الفرج حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ أَخْبَرَنِي «عَمرو الْبَزَّارُ» عَنْ «عَنْبَسَةَ الْخَوَاصِّ» عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أبي قلابة عَنْ أبي الأشعث عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -:

[ «لَا يَزَالُ] الْأَبْدَالُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ، بِهِمْ تَقُومُ الْأَرْضُ وَبِهِمْ تُمْطَرُونَ وَبِهِمْ تُنْصَرُونَ»


ترجمہ: میری امت میں ہمیشہ تیس ابدال ہوں گے انہی کی وجہ سے دنیا قائم ہے، انہی کی وجہ سے بارش برسائی جاتی ہے اور انہی کی وجہ سے مدد کی جاتی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بھی ضعیف ہی ہے اس میں بعض راویوں کو ہم نہیں جانتے اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں عمرو البزار اور عنبسہ خواص دونوں کو نہیں جانتا، باقی راوی صحیح کے راوی ہیں۔


قال الطبراني: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ الصُّورِيُّ، حَدَّثَنَا «عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ» عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ «شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ» قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ، سَبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، فَأَخْرَجَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ رَأْسَهُ مِنْ تُرْسٍ ثُمَّ قَالَ: يَا أَهْلَ مِصْرَ أَنَا عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ، لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «فِيهِمُ الْأَبْدَالُ، وَبِهِمْ تُنْصَرُونَ، وَبِهِمْ تُرْزَقُونَ»

تخريج: المعجم الكبير للطبراني (١٢٠) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے شہر بن حوشب کمزور حافظے والے ہیں اور عمرو بن واقد متروک ہے جیسا کہ تقریب التہذیب میں ہے۔
ہیثمی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں "اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کی سند میں عمرو بن واقد ہے اس کو جمہور ائمہ نے ضعیف کہا ہے اور محمد بن مبارک صوری نے اس کی توثیق کی ہے، شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہیں اور باقی تمام راوی ثقہ ہیں"۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني في الأوسط: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْخَوَّاصُ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَبِي الزَّرْقَاءِ قَالَ: ‌«ابْنُ لَهِيعَةَ» قَالَ: حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَرِيرٍ الْغَافِقِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ فِتْنَةٌ، يُحَصَّلُ النَّاسُ كَمَا يُحَصَّلُ الذَّهَبُ فِي الْمَعْدِنِ، فَلَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، وَلَكِنْ سُبُّوا شِرَارَهُمْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالَ، يُوشِكُ أَنْ يُرْسَلَ عَلَى أَهْلِ الشَّامِ سَبَبٌ مِنَ السَّمَاءِ، فَيُفَرِّقَ جَمَاعَتَهُمْ، حَتَّى لَوْ قَاتَلَهُمُ الثَّعَالِبُ غَلَبَتْهُمْ، فَعِنْدَ ذَلِكَ يَخْرُجُ خَارِجٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فِي ثَلَاثِ رَايَاتٍ، الْمُكْثِرُ يَقُولُ: هُمْ خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفًا، وَالْمُقِلُّ يَقُولُ: هُمُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا، أَمَارَتُهُمْ أَمِتْ أَمِتْ، يَلْقُونَ سَبْعَ رَايَاتٍ، تَحْتَ كُلِّ رَايَةٍ مِنْهَا رَجُلٌ يَطْلُبُ الْمُلْكَ، فَيَقْتُلُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا، وَيَرُدُّ اللَّهُ إِلَى الْمُسْلِمِينَ أُلْفَتَهُمْ، وَنِعْمَتَهُمْ، وَقَاصِيَهُمْ وَدَانِيَهُمْ»


ترجمہ: آخری زمانے میں ایک فتنہ ہوگا جو لوگوں کو ایسے گھیرے گا جیسے سونا کان میں گھیرتا ہے، تم اہل شام کو گالی مت دو کیونکہ ان میں ابدال ہیں لیکن تم ان کے شریر لوگوں کو گالی دے سکتے ہو۔ قریب ہے کہ اہل شام پر آسمان سے بارش نازل کی جائے اور وہ ان کی جماعت کو متفرق کر دے یہاں تک کہ اگر ان سے لومڑیاں بھی قتال کریں تو ان پر غالب آ جائے، اس وقت میرے اہل بیت میں سے ایک شخص تین جَھنڈوں میں نکلے گا، زیادہ کہنے والا پندرہ ہزار اور کم کہنے والا بارہ ہزار کہے گا ان کی نشانی اَمِت اَمِت ہوگی۔ وہ سات جھنڈوں سے ملیں گے اس میں سے ہر جھنڈے کے نیچے ایک ایسا شخص ہوگا جس کو بادشاہت کی لالچ ہوگی پس اللّٰہ تعالی ان سب کو ہلاک کر دے گا اور مسلمانوں کو ان کی الفت، نعمت اور قریب و دور کی تمام چیزیں لوٹا دے گا۔

۩تخريج: المعجم الأوسط (٣٩٠٥) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (عن علي موقوفًا) (٨٦٥٨) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (باب النهي عن سب أهل الشام) (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الضعيفة (٤٧٧٩) (ضعيف)

طبرانی رحمہ اللّٰہ نے اس روایت کے بعد کہا ہے کہ اس کو ابن لہیعہ سے صرف زید بن ابی زرقاء نے ہی روایت کیا ہے

ابن عساکر رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ولید بن مسلم کی سند سے روایت کرنے کے بعد طبرانی رحمہ اللّٰہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ طبرانی رحمہ اللّٰہ کا وہم ہے کیونکہ اس حدیث کو ابن لہیعہ سے ولید بن مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ اور حارث بن یزید مصری نے عبداللہ بن زریر غافقی کی سند سے علی رضی اللّٰہ عنہ سے موقوفا روایت کیا ہے"۔

حارث بن یزید مصری کی سند سے علی رضی اللّٰہ عنہ کی موقوف روایت مستدرک حاکم اور تاریخ دمشق میں موجود ہے۔ حاکم رحمہ اللّٰہ نے اس کو صحیح الاسناد کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں اس کی سند موقوفا صحیح ہے جیسا کہ ان دو اماموں نے کہا ہے لیکن مرفوع روایت کی سند میں ابن لہیعہ ہے اور وہ ضعیف ہے اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں اس کی یہی علت بتائی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں ابن عساکر رحمہ اللّٰہ نے علی رضی اللّٰہ عنہ سے درج ذیل سند سے موقوفا روایت کی ہے:

قال ابن عساكر: أخبرنا أبو بكر محمد بن محمد بن علي بن كرتيلا أنا محمد بن علي المقرئ أنا أحمد بن عبد الله بن الخضر السوسنجردي أنا أبو جعفر أحمد بن علي بن محمد أنا ابي أبو طالب علي بن محمد أنا أبو عمرو محمد بن مروان القرشي نا زياد بن يحيى أبو الخطاب نا أبو داود الطيالسي عن الفرج بن فضالة نا عروة بن رويم اللخمي عن رجاء بن حيوة عن «الحارث بن حرمل» عن علي بن أبي طالب قال

«لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ فَإِنَّ فِيهِمُ الْأَبْدَالُ»


شیخ البانی کہتے ہیں اس کی سند میں حارث بن حرمل ہے، اس کا تعارف ابن ابی حاتم نے صرف رجاء بن حیوہ کی روایت سے بیان کیا ہے اور ابن عساکر نے اس پر کئی لوگوں کا اضافہ کیا ہے لیکن جرح و تعدیل بیان نہیں کی۔


تنبیہ: سیوطی رحمہ اللّٰہ نے الجامع الصغیر میں کہا ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور مناوی رحمہ اللّٰہ نے اس کی شرح میں ہیثمی رحمہ اللّٰہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس کی سند میں عمرو بن واقد ہے اس کو جمہور نے ضعیف کہا ہے، باقی راوی صحیح کے راوی ہیں۔


شیخ البانی کہتے ہیں یہ مناوی رحمہ اللّٰہ کا وہم ہے کیونکہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے یہ شہر بن حوشب کی درج ذیل سند کے متعلق کہا تھا جو کہ المعجم الکبیر میں ہے:

قال الطبراني في الكبير: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ الصُّورِيُّ حَدَّثَنَا «عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ» عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ عَنْ «شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ» قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مِصْرُ، سَبُّوا أَهْلَ الشَّامِ، فَأَخْرَجَ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ رَأْسَهُ مِنْ تُرْسٍ ثُمَّ قَالَ: يَا أَهْلَ مِصْرَ أَنَا عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ، لَا تَسُبُّوا أَهْلَ الشَّامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «فِيهِمُ الْأَبْدَالُ، وَبِهِمْ تُنْصَرُونَ، وَبِهِمْ تُرْزَقُونَ»

تخريج: المعجم الكبير (١٢٠) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)

ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ "اس سند میں عمرو بن واقد ہے اس کو جمہور نے ضعیف کہا ہے اور صرف محمد بن مبارک صوری نے توثیق کی ہے اور دوسرے راوی شہر بن حوشب مختلف فیہ ہیں، باقی تمام راوی ثقہ ہیں"۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن عساکر نے طبرانی کی ہی سند سے روایت کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْخَلَّالُ: حَدَّثَنَا «أَبُو بَكْرِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ شَاذَانَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنُ سَعْدٍ الصَّابُونِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنُ أَيُّوْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الْغَدَانِيُّ ( الغدائي) حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ (الخراساني)» عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«الأَبْدَالُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا وَأَرْبَعُونَ امْرَأَةً، كُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ بَدَّلَ اللَّهُ مَكَانَهُ رَجُلًا، وَكُلَّمَا مَاتَتِ امْرَأَةٌ بَدَّلَ اللَّهُ مَكَانَهَا امْرَأَةً»

ترجمہ: ابدال چالیس مرد اور چالیس عورتیں ہیں جب بھی ان میں سے کوئی آدمی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی اس کی جگہ دوسرے آدمی کو لے آتا ہے اور جب ان میں سے کوئی عورت مرتی ہے تو اللّٰہ تعالی اس کی جگہ دوسری عورت کو لے آتا ہے۔

۩تخريج: كرامات الأولياء للحسن الخَلَّال (١) (المتوفى: ٤٣٩هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٠٥) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (٢٤٩٨) (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں یہ سند ضعیف مظلم ہے، میں سوائے عطاء کے اس میں کسی کو نہیں جانتا۔ اور ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس کی سند میں مجاہیل (مجہول راوی) ہیں۔

اس مضمون کی ایک حدیث درج ذیل الفاظ اور سند سے بھی مروی ہے لیکن یہ موضوع ہے:

قال ابن عدي: حَدَّثَنَا مُحَمد بن زهير بن الفضل الأُبَلِيُّ، حَدَّثَنا عُمَر بْنُ يَحْيى الأبلي، قَال: حَدَّثَنا الْعَلاءُ بْنُ زَيْدَلٍ، عَن أَنَس بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وسَلَّم قَال:



«الْبُدَلاءُ أَرْبَعُونَ، اثْنَانِ وَعِشْرُونَ بِالشَّامِ وَثَمَانِيَةَ عَشَرَ بِالْعِرَاقِ كُلَّمَا مَاتَ مِنْهُمْ وَاحِدٌ بَدَّلَ اللَّهُ مَكَانَهُ آخَرَ فَإِذَا جَاءَ الأَمْرُ قُبِضُوا كُلُّهُمْ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُومُ السَّاعَةُ»

ترجمہ: ابدال چالیس ہیں، بائیس شام میں ہیں اور اٹھارہ عراق میں، جب بھی ان میں کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ اس کی جگہ دوسرے کو لے آتا ہے، جب قیامت کا وقت آئے گا تو ان تمام کی روح قبض کر لی جائے گی پھر قیامت قائم ہوگی۔

تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٢٢٤) (المتوفى: ٥٠٩هـ)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اس کی علت علاء بن زیدل ہے، علی بن مدینی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ احادیث گڑھتا تھا۔


فائدہ: شیخ البانی کہتے ہیں یہ تمام روایات ابدال کے وجود کے اعتراف کی تلقین کرتی ہیں اور اس کی گواہی حدیث کے ائمہ جیسے امام شافعی امام احمد اور امام بخاری رحمہم اللّٰہ سے ملتی ہے کیونکہ انہوں نے اس لفظ "ابدال" کا استعمال کیا ہے ان کے کلام میں اکثر ملتا ہے وہ کہتے ہیں کہ "فلاں ابدال میں سے ہے"۔ وغیرہ
رہا ان کی تعداد اور جگہ کا تعلق تو اس بارے میں روایات بہت زیادہ مضطرب ہیں ان میں سے کسی بھی روایت پر اعتماد ممکن نہیں ہے اس لیے ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے مجموع الفتاویٰ میں ابدال کی احادیث کے متعلق کہا ہے کہ "یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ نبی ﷺ کا کلام نہیں ہے"۔ والله اعلم

اور ایک جگہ ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے ابدال کا معنی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے دو معانی بیان کئے جاتے ہیں ایک یہ کہ وہ انبیاء کا بدل ہیں جب بھی ان میں سے کوئی مرتا ہے تو اللّٰہ تعالی اس کی جگہ کسی اور کو لے آتا ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ابدال برئیوں کو اپنے اخلاق، اعمال اور عقائد سے اچھائی میں بدل دیتے ہیں۔

اور یہ صفات چالیس لوگوں یا ان سے کم یا زیادہ کے ساتھ خاص نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی مخصوص جگہ میں محصور ہیں اور ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے اپنے کلام کے آخر میں " الأبدال في أهل الشام.. " کی طرف اشارہ کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عساكر: أخبرنا عاليا أبو محمد هبة الله بن أحمد المزكي وعبد الكريم بن حمزة قالا أنبأنا أبو القاسم الحنائي حدثنا أبو الحسين الكلابي أنبأنا «أبو» سعيد بن عبد العزيز حدثنا «أبو نعيم عبيد بن هشام» حدثنا ابن المبارك عن مالك بن أنس عن محمد بن الْمُنْكَدِرِ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَنْ قَعَدَ إِلَى قَيْنَةٍ يَسْتَمِعُ مِنْهَا صَبَّ اللَّهُ فِي أُذُنَيْهِ الآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»

ترجمہ: جو شخص گانا سنے کے لیے بیٹھے گا قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالے گا۔

۩تخريج: الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (في ترجمة ٦٠٦٤ - محمد بن إبراهيم أبو بكر الصوري) (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (١٣١١) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (٤٥٤٩) (باطل)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ "اس حدیث کو ابن عساکر رحمہ اللّٰہ نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے جیسا کہ "الجامع الصغير" میں ہے اور مناوی رحمہ اللّٰہ نے اس پر کچھ بھی کلام نہیں کیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی سند سے واقف نہیں ہیں اور میں بھی ابھی تک اس کی سند سے واقف نہیں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کو اس کے ایک راوی محمد بن منکدر کے تعارف میں تاریخ دمشق میں تلاش کیا لیکن مجھے یہ حدیث وہاں بھی نہیں ملی"۔

ابن قدامہ کی "المنتخب" میں ہے کہ ابو عبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ کو اس حدیث کے متعلق سوال کیا گیا اور کہا گیا کہ اس کو ایک حلبی آدمی نے روایت کیا ہے اور اس کی تعریف بیان کی گئی تو امام احمد بن حنبل نے کہا: یہ حدیث باطل ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس میں اس بات کی طرف قوی اشارہ ہے کہ اس سند کی علت وہ حلبی آدمی ہی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔

اور ہو سکتا ہے کہ حلبی آدمی کو غلط فہمی ہو گئی ہو (اختلاط ہو گیا ہو) اور انہوں نے درج ذیل صحیح حدیث کے بجائے یہ حدیث بیان کر دی ہو:

«مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ، وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ، صُبَّ فِي أُذُنِهِ الآنُكُ يَوْمَ القِيَامَةِ»

ترجمہ: جو شخص دوسروں کی بات سننے کے لیے کان لگائے جو اسے پسند نہیں کرتے یا اس سے بھاگتے ہیں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔

تخريج: صحيح البخاري (٧٠٤٢) وغيره


[مترجم: میں کہتا ہوں کہ اس حلبی آدمی کا نام ابو نعیم عبید بن ہشام حلبی ہے جیسا کہ ابن عساکر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

میزان الاعتدال میں عبید بن ہشام حلبی کے تعارف میں ہے:
ابو داود رحمہ اللّٰہ نے کہا: ثقہ ہے، لیکن آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا۔
نسائی رحمہ اللّٰہ: "ليس بالقوي" (اتنا قوی نہیں ہے)۔
ابو احمد حاکم رحمہ اللّٰہ: وہ ایسی احادیث روایت کرتا ہے جن کی متابعت نہیں کی جاتی۔
پھر امام ذہبی نے اس کی مناکیر میں سے ایک حدیث بیان کی ہے۔


عبید بن ہشام حلبی سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز ہیں، ابن عساکر کی سند میں «ابو سعید» طباعت کی غلطی ہو سکتی ہے کیونکہ عبید بن ہشام حلبی سے روایت کرنے والوں میں ابو سعید کوئی نہیں ہے بلکہ سعید بن عبدالعزیز بن مروان ابو عثمان حلبی ہیں (مزید دیکھیں تاریخ دمشق، ترجمہ: ٢٥١٣ - سعيد بن عبد العزيز بن مروان أبو عثمان الحلبي الزاهد) ]
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أحمد: حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا «ابْنُ لَهِيعَةَ» حَدَّثَنَا «زَبَّانُ» عَنْ سَهْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«لَا تَزَالُ الْأُمَّةُ عَلَى الشَّرِيعَةِ مَا لَمْ يَظْهَرْ فِيهَا ثَلَاثٌ: مَا لَمْ يُقْبَضِ الْعِلْمُ مِنْهُمْ، وَيَكْثُرْ فِيهِمْ وَلَدُ الْحِنْثِ، وَيَظْهَرْ فِيهِمُ الصَّقَّارُونَ " قَالَ: وَمَا الصَّقَّارُونَ - أَوِ الصَّقْلَاوُونَ - يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " بَشَرٌ يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ تَحِيَّتُهُم ْبَيْنَهُمُ التَّلَاعُنُ»

ترجمہ: یہ امت اس وقت تک شریعت پر قائم رہے گی جب تک کہ اس میں تین چیزیں ظاہر نہیں ہو جاتی: ان میں سے علم کا اٹھا لیا جانا، ولد الزنا کی کثرت اور صقاروں کا ظاہر ہونا۔ سوال کیا گیا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم صقار سے کیا مراد ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: اس سے مراد آخری زمانے کے ایسے لوگ ہیں جن کا سلام ایک دوسرے پر لعن طعن ہوگا۔

۩تخريج: مسند أحمد (١٥٦٢٨) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ فتوح مصر والمغرب لابن عبد الحكم (المتوفى: ٢٥٧هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (٤٣٩) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ٦٦٩- رشدين بْن سعد) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٨٣٧١) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ الضعيفة (٣٤٧) (منكر)

الفاظ مختلف ہیں: مسند أحمد و المعجم الكبير (الصَّقَّارُونَ)؛ الكامل (الصَّغَارُونَ)؛ المستدرك( السَّقَّارُونَ)

حاکم رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے، شیخین نے زَبَّان سے روایت نہیں کی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ حافظ ابن حجر نے زبان کے متعلق تقریب التہذیب میں کہا ہے کہ وہ نیک اور عبادت گزار ہونے کے باوجود ضعیف الحدیث ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الامام أحمد: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ الْمَعَافِرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي «عَبْدُ اللهِ بْنُ بِشْرٍ الْخَثْعَمِيُّ» عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ، فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»

قَالَ: فَدَعَانِي مَسْلَمَةُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ فَسَأَلَنِي، فَحَدَّثْتُهُ، فَغَزَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ»

ترجمہ: تم ضرور قسطنطینیہ کو فتح کرو گے، کتنا بہترین اس فوج کا امیر (سپہ سالار) ہے اور کتنی بہترین وہ فوج ہے۔

ایک راوی (عبداللہ بن بشر) کہتے ہیں کہ مجھے مسلمہ بن عبدالملک نے بلا کر اس حدیث کے متعلق پوچھا تو میں نے اس سے یہ حدیث بیان کی، تو اس نے قسطنطینیہ کی جنگ کی۔

۩تخريج: مسند أحمد (١٨٩٥٧) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ التاريخ الكبير للبخاري (المتوفى: ٢٥٦هـ)؛ تاريخ ابن أبي خيثمة- السفر الثاني (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ زوائد مسند البزار (١٨٤٨) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ معجم الصحابة لابن قانع (المتوفى: ٣٥١هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (١٢١٦) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٨٣٠٠) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني (١١٧٧، ١١٧٨) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ تلخيص المتشابه في الرسم للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الضعيفة (٨٧٨) (ضعيف)


حاکم رحمہ اللّٰہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اور ذہبی رحمہ اللّٰہ نے ان کی موافقت کی ہے اور خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو صرف زید بن حباب نے روایت کیا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: میں کہتا ہوں کہ زید بن حباب ثقہ ہیں مگر سفیان ثوری سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں اور یہ حدیث انہوں نے سفیان ثوری سے روایت نہیں کی ہے اور تقریب التہذیب میں ہے کہ وہ صدوق راوی ہیں مگر سفیان ثوری سے روایت کرنے میں غلطی کرتے ہیں۔


شیخ البانی کہتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن بشر غنوی کا تعارف نہیں ملا، مگر عبداللہ بن بشر خثعمی کے نام کا تعارف ملا اسے ابن حبان نے " ثقات أتباع التابعين " میں بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ "وہ اہل کوفہ میں سے ہیں، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر سے روایت کرتے ہیں اور ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے‌"۔

شیخ البانی کہتے ہیں خثعمی کی احادیث ترمذی اور نسائی رحمہما اللّٰہ نے اپنی سنن میں لائی ہے اور وہ غنوی کے بعد کے زمانے کے ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو مسند بشر بن سحیم میں روایت کیا ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس سند میں بشر غنوی ہیں۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو اس بات میں امام احمد رحمہ اللّٰہ کی موافقت کرتے نہیں پایا۔ والله اعلم

مسند احمد کی سند میں عبداللہ بن بشر خثعمی ہے اور دوسروں کی سند میں غنوی ہے۔

پھر میں نے حافظ ابن حجر کی " تعجيل المنفعة " دیکھی، اس میں انہوں نے عبداللہ بن بشر غنوی کا طویل تعارف پیش کیا ہے اور ان کے نام اور نسبت میں اختلاف کو بیان کیا ہے، اس تعلق سے محدثین کے اقوال پیش کئے ہیں اور آخر میں اس بات کی طرف مائل ہوئے ہیں کہ اس سند میں خثعمی نہیں کوئی دوسرے ہے اور اس سند کے راوی کی توثیق صرف ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے کی ہے۔ (خثعمی ثقہ راوی ہیں ان کی روایات ترمذی اور نسائی نے اپنی سنن میں لائی ہیں)۔ والله اعلم


الغرض یہ حدیث میرے نزدیک صحیح نہیں ہے کیونکہ مجھے ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے جو غنوی کی توثیق کی ہے اس پر اطمینان نہیں ہے، اور میں یہ مانتا ہوں کہ یہ خثعمی نہیں ہے جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے۔ والله اعلم



[مترجم: اس سند میں جو عبداللہ بن بشر خثعمی ہیں ان کے نام اور نسبت میں بہت زیادہ اختلاف ہے( روایات میں تین نام آئے ہیں: عبداللّٰہ، عبیداللّٰہ اور عبید؛ نسبتیں دو آئی ہیں: الْخَثْعَمِيُّ، الْغَنَوِيُّ)

١) مسند أحمد، معرفة الصحابة، تاريخ دمشق: عَبْدُ اللهِ بْنُ بِشْرٍ الْخَثْعَمِيُّ

٢) التاريخ الكبير للبخاري؛ تاريخ ابن أبي خيثمة، معرفة الصحابة، تاريخ دمشق: عُبَيْدِ بْنِ بِشْرٍ الْغَنَوِيِّ

٣‌) مسند البزار: عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ بشر

٤) معجم الصحابة، تاريخ دمشق: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ بِشْرٍ الْغَنَوِيُّ

٥) المعجم الكبير، المستدرك، تلخيص المتشابه، تاريخ دمشق: عَبْدُ اللهِ بْنُ بِشْرٍ الْغَنَوِيُّ

٦) تاريخ دمشق: عبيد الله بن بشر الخثعمي]
 
Top