• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف صالحین سے کیا مراد ہے؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم شیخ
السلام علیکم

ایک بات واضح کردیں کہ سلف کا دور کہاں تک محیط ہے ۔ دوسرا سوال آپ کے اقتباس کے تحت ہے ۔
مسئلہ ایک ہی رہے گا ، البتہ اس مسئلہ کا شکار ہونے والے لوگوں کی مجبوری ، عذر یا کسی تاویل کےسبب حکم میں فرق رکھا جائے گا ۔
کیا لوگوں کی مجبوری ، عذر کی وجہ سے اسلام کے احکام میں تفریق کی جاسکتی ہے ؟آپ کا یہ اقتباس اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ زمانے کے حساب سے احکام میں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔ یعنی اس کا امکان ہے ۔ اور انسان اپنی بڑھتی ہوئی ذہنی صلاحیت کی بناء پر اس کا حل نکال سکتا ہے ۔

ورنہ اگر فہم سلف کے تحت مقید ہوجائے تو پھر معاشرہ جمود کا شکار ہوجائے گا۔ میرے ذہن میں اس کی مثال یہ ہے کہ زکوۃ کیلئے مالی نصاب ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے 52 تولہ چاندی ہے ۔
جس وقت یہ نصاب لاگو کیا گیا اس وقت ان دونوں نصاب کی مالیت کی رقم ایک ہی بنتی تھی اب دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ساڑھے باون تولہ چاندی اب ایک تولہ سونے کے مساوی ہے تو کیا اس کو تبدیل کرنے اور اس کی نئی تشریح کی ضرورت نہیں ۔
میری تکرار وہی ہے کہ زمانے کے مطابق تبدیلیاں ناگزیر ہیں اس کو ارتقائی سفر کہتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ
ایک بات واضح کردیں کہ سلف کا دور کہاں تک محیط ہے ۔
ہر پہلے آنے والابعد میں آنے والے کے لحاظ سے سلف ہے،لیکن جب سلف مطلق طور پر بولا جاتا ہےتواس سے مراد بہترین تین زمانے کے لوگ ہیں،جن کی گواہی نبی کریمﷺنےدی ہے،لہذا سلف سے مراد صحابہ،تابعین اور تبع تابعین ہیں۔یہی سلف صالحین ہیں۔ان کے بعد آنے والےجو ان کے منہج کو اختیار کریں وہ سلفی کہلاتے ہیں۔
آپ کا یہ اقتباس اس بات کی تائید کر رہا ہے کہ زمانے کے حساب سے احکام میں تبدیلی ہوسکتی ہے ۔
بالکل غلط ، کم از کم اس اقتباس سے تو یہ بات نہ نکالیں ۔ اس میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ شرعی حکم ایک ہی رہے گا ، یعنی صحیح اور غلط صحیح اور غلط ہی رہیں گے ، البتہ کسی غلطی میں مبتلا ہونے والے شخص کے حالات کو دیکھ کر اس کی ذات پر حکم مختلف ہوسکتا ہے ۔ ایک بندہ چھوٹے سے بڑا بنگلہ بنانے کے لیے یہ کاروبار وسیع کرنے کے لیے سود لیتا ہے ، دوسرا گاڑی خریدتے ہوئے یا علاج کرواتے ہوئے فری میں انشورنس کے نام پر سود کے لین دین میں دھنسا دیا جاتا ہے ، سود کا حکم دونوں جگہ ایک ہی ہے یعنی حرام ، البتہ دونوں کے حالات دیکھ کر ان کی ذات پر حکم مختلف ہوگا ۔
سور کھانا حرام ہے ، کوئی مرتا کیا نہ کرتا ہوا مجبورا کھالے ، اور کوئی شوق سے سینڈوچ بنوا کر کھائے ، سور دونوں جگہ حرام ہی ہے ، البتہ دونوں کھانے والوں کا حکم مختلف ہوگا ۔ واللہ اعلم۔
ورنہ اگر فہم سلف کے تحت مقید ہوجائے تو پھر معاشرہ جمود کا شکار ہوجائے گا۔
جمود سے کیا مراد ؟ اسلام کی بنیاد ہی اطاعت ، فرمانبرداری اور سر تسلیم خم کرنے پر ہے ۔ اگر کوئی اسی کو جمود سمجھتا ہے ، تو اس کا اپنا مسئلہ ہے ، ہمارے لیے اسلام پر یوں جمے رہنا یا جامد رہنا ایک قابل فخر بات ہے ۔
دوسری طرف فہم سلف سے نکل کر ، کیا اسلام باقی رہ جائے گا ؟ جو فہم سلف سے نکلے ہیں ، بتادیں ان کے ہاں حجاب ، سود ، جہاد ، ختم نبوت ، حدودو وغیرہ جیسے بڑے بڑے مسائل میں الجھنیں پیدا ہوئی ہیں کہ نہیں ؟ ، اور تو اور ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کو بھی ضروری خیال نہیں کرتے ۔
میرے ذہن میں اس کی مثال یہ ہے کہ زکوۃ کیلئے مالی نصاب ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے 52 تولہ چاندی ہے ۔
جس وقت یہ نصاب لاگو کیا گیا اس وقت ان دونوں نصاب کی مالیت کی رقم ایک ہی بنتی تھی اب دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ساڑھے باون تولہ چاندی اب ایک تولہ سونے کے مساوی ہے تو کیا اس کو تبدیل کرنے اور اس کی نئی تشریح کی ضرورت نہیں ۔
یہ تو آسان سی بات ہے ، جس کے پاس سونا چاندی میں سے جو چیز ہے ، اس کا اعتبار کرکے زکاۃ دے دے ، اگر کسی کے پاس پیسے ہیں ، وہ چاہے تو سونے سے ملا لے ، چاہے تو چاندی سے ، جس سے ملائے گا ، اسی حساب سے زکاۃ بھی نکالے گا ۔ جو سونے سے ملائے گا ، اس پر زکاۃ فرض ہونے میں زیادہ مالیت کی ضرورت ہے ، تو زکاۃ ادا کرتے ہوئے فیصد بھی زیادہ نکلیں گے ، جو چاندی سے ملائے ، نسبتا تھوری مالیت پر زکاۃ فرض ہوجائے گی ، لیکن جو مقدار بطور زکاۃ نکالی جائےگی ، وہ بذات خود بھی تو تھوڑی ہی ہوگی ۔ اس کی نئی تشریح کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
میری تکرار وہی ہے کہ زمانے کے مطابق تبدیلیاں ناگزیر ہیں اس کو ارتقائی سفر کہتے ہیں۔
اس بحث کو جس قدر لمبا کرلیا جائے ، اصولی بات ایک ہی ہے ، قرآن وسنت سے اصول استنباط و استدلال میں سلف کی پیروی ضروری ہے ، اور سلف کی پیروی یہ معنی قطعا نہیں کہ جو مسائل ان کے دور کے بعد کی پیداوار ہیں ، ہم ان کے احترام میں ان مسائل کا حل ہی نہ تلاش کریں ۔ حل تلاش کریں ، لیکن ’ فہم سلف ‘ کی پابندی کرتے ہوئے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
nasim.jpg

بنکاری نیا مسئلہ ہے ، لیکن سود کی حرمت پرانا مسئلہ ہے ، آپ سود کو حلال نہ کریں ، جیسے مرضی بنکاری کریں ،
میڈیا وغیرہ کی جدید صورتیں ایک نئی چیز ہے ، لیکن تصویر کی حرمت ، فحاشی و عریانی وغیرہ ، یہ سب پرانی چیزیں ہیں ، محرمات و ممنوعات سے بچ کر اگر میڈیا استعمال کرسکتے ہیں ، تو کوئی نہیں روکے گا ۔
محترم شیخ خضر بھائی میرے خیال میں اوپر سرخ دائرے میں الفاظ پہ ان بھائی کو اشکال تھا جس کا جواب شاید واضح نہیں ہوا
دیکھیں بینکاری والے مسئلے تک تو آپ کی بات درست بنتی ہے مگر جب آپ بھی کہ رہے ہیں کہ تصویر کی حرمت پرانی چیز ہے اور آگے آپ کہ رہے ہیں کہ اس تصویر سے بچ کر اگر میڈیا استعمال کر سکتے ہیں تو کوئی نہیں روکے گا لیکن اوپر دائرہ میں لکھی بات میں ہمارے وہ بھائی کہنا چاہ رہے ہیں کہ پھر یہ علماء اس تصویر سے بچ کر میڈیا کیوں نہیں استعمال کر رہے اور آج کل میڈیا کو جائز کیوں کہ رہے ہیں پس اگر ان مخلص علماء کے ہاں (جو خود تصویریں بنانا جائز سمجھتے ہیں) یہ اجتہاد کیا جا سکتا ہے کہ پرانے سلف کے فہم کو تبدیل کر دیا جائے تو پھر باقی معاملات میں کیوں نہیں کیا جا سکتا
اس میں اخف الضررین یا اھون البلیتین والے فقہی قواعد کو بنیاد بنا کر علماء مفسدہ اور مصلحت کا موازنہ کرتے ہیں پس وہ اصل میں سلف کے فہم سے نہیں نکلتے اسکی تفصیل سے وضاحت کی ضرورت ہے
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم خضرحیات صاحب
السلام علیکم
یہ تو آسان سی بات ہے ، جس کے پاس سونا چاندی میں سے جو چیز ہے ، اس کا اعتبار کرکے زکاۃ دے دے ، اگر کسی کے پاس پیسے ہیں ، وہ چاہے تو سونے سے ملا لے ، چاہے تو چاندی سے ، جس سے ملائے گا ، اسی حساب سے زکاۃ بھی نکالے گا ۔ جو سونے سے ملائے گا ، اس پر زکاۃ فرض ہونے میں زیادہ مالیت کی ضرورت ہے ، تو زکاۃ ادا کرتے ہوئے فیصد بھی زیادہ نکلیں گے ، جو چاندی سے ملائے ، نسبتا تھوری مالیت پر زکاۃ فرض ہوجائے گی ، لیکن جو مقدار بطور زکاۃ نکالی جائےگی ، وہ بذات خود بھی تو تھوڑی ہی ہوگی ۔ اس کی نئی تشریح کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
شاید میں آپ کو اپنا سوال سمجھانے میں ناکام رہا ہوں۔ میری مراد یہ تھی کہ چاندی کے حساب سے ایک شخص آج کے دور میں تقریبا 42000 روپے کی رقم پر صاحب نصاب ہوجائے گا اور سونے کی مالیت تقریبا 3 لاکھ روپے سے اوپر بنتی ہے ۔

جس دور میں یہ نصاب مقرر ہوا تھا اس میں کیا سونے اور چاندی کی مالیت میں اسی طرح کا فرق تھا۔ اگر ایسا تھا تو پھر میرا سوال عبث ہے ۔ اور اگر نہیں بلکہ دونوں نصاب برابر تھے تو پھر میرا سوال برقرار رہے گا۔

جہاں تک آپ نے مجبوری کی بات کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہم گناہ کر نے پر مجبور ہیں ۔ تو جب نظام ایسا ہے کہ ہم سے جبراً گناہ کروایا جارہاہے تو ہم گناہ گار نہیں ہوئے۔
دوسری بات یہ سمجھ آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں فتنوں کو وہ دور آچکا ہے جس میں انسان آبادی چھوڑ کر جنگل میں پناہ گزیں ہوجائے اور دنیا سے کنارہ کش ہوجائے ۔
ہمارا پورا ملک ہی سودی قرضوں پر چل رہا ہے اور ہم سب اپنے ٹیکسوں سے اس سود کو ادا کر نے میں حکومت وقت کی مدد کرتے ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں پر دور جدید کو دیکھ کر زندگی کو گناہوں سے بچاکر گذارنے کیلئے تحقیق کی جائے ۔ ورنہ ہم سب تو اس وقت اللہ اور اس کے رسول سے حالت جنگ میں ہے ۔ اب اس کی کتنی ہی تاویلیں کریں حقیقت تو یہی ہے،
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم شیخ

انسانی ذہنی ارتقاء کی ایک اور مثال امام بخاری کا صحیح احادیث کا جمع کرنا ہے۔ سلف میں ان سے زیادہ صاحب تقوی لوگ یقینا موجود ہوں گے لیکن کسی کے بھی حصے میں یہ سعادت نہیں آئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ترین ارشادات کو ایک مجموعے کی شکل دی جائے۔ ان سے پہلے بھی لوگوں نے کوشش کی لیکن اس حد کامیابی نہ ملی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شاید میں آپ کو اپنا سوال سمجھانے میں ناکام رہا ہوں۔ میری مراد یہ تھی کہ چاندی کے حساب سے ایک شخص آج کے دور میں تقریبا 42000 روپے کی رقم پر صاحب نصاب ہوجائے گا اور سونے کی مالیت تقریبا 3 لاکھ روپے سے اوپر بنتی ہے ۔
جس دور میں یہ نصاب مقرر ہوا تھا اس میں کیا سونے اور چاندی کی مالیت میں اسی طرح کا فرق تھا۔ اگر ایسا تھا تو پھر میرا سوال عبث ہے ۔ اور اگر نہیں بلکہ دونوں نصاب برابر تھے تو پھر میرا سوال برقرار رہے گا۔
سونے اور چاندی میں فرق تو اس دور میں بھی تھا ، لیکن بہر صورت اس وقت فرق بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔
میں آپ کی بات پہلے بھی سمجھ گیا تھا ، اور جواب اسی کے مطابق عرض کیا تھا ۔ لیکن میری بات شاید آپ کو سمجھ نہیں آسکی ۔
نصاب چاہے چاندی کے اعتبار سے بنائیں یا سونے کے اعتبار سے دونوں طرح سے کم از کم مجھے کوئی پریشانی یا مشکل سمجھ نہیں آرہی ۔
جب زکاۃ بیالیس ہزار پر فرض ہوگی تو اس میں مقدار زکاۃ بھی اسی حساب سے کم ہوگی ، جب تین لاکھ پر فرض ہوگی تو مقدار زکاۃ بھی زیادہ ہوگی ۔ گویا جس پر جلدی زکاۃ فرض ہوگی وہ ادائیگی کم کرے گا ، جس پر دیر بعد فرض ہوگی ، وہ نسبتا زیادہ ادائیگی کرے گا ۔
جہاں تک آپ نے مجبوری کی بات کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ہم گناہ کر نے پر مجبور ہیں ۔ تو جب نظام ایسا ہے کہ ہم سے جبراً گناہ کروایا جارہاہے تو ہم گناہ گار نہیں ہوئے۔
دوسری بات یہ سمجھ آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں فتنوں کو وہ دور آچکا ہے جس میں انسان آبادی چھوڑ کر جنگل میں پناہ گزیں ہوجائے اور دنیا سے کنارہ کش ہوجائے ۔
ہمارا پورا ملک ہی سودی قرضوں پر چل رہا ہے اور ہم سب اپنے ٹیکسوں سے اس سود کو ادا کر نے میں حکومت وقت کی مدد کرتے ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں پر دور جدید کو دیکھ کر زندگی کو گناہوں سے بچاکر گذارنے کیلئے تحقیق کی جائے ۔ ورنہ ہم سب تو اس وقت اللہ اور اس کے رسول سے حالت جنگ میں ہے ۔ اب اس کی کتنی ہی تاویلیں کریں حقیقت تو یہی ہے،
آپ نے جو یہ صورت حال بیان کی ہے ، اس کا حل کیا ہے ؟ یعنی جن گناہوں کو ہم مجبوری سمجھ کر کر رہے ہیں ، انہیں سند جواز بخش کر فخر سے کریں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم شیخ
انسانی ذہنی ارتقاء کی ایک اور مثال امام بخاری کا صحیح احادیث کا جمع کرنا ہے۔ سلف میں ان سے زیادہ صاحب تقوی لوگ یقینا موجود ہوں گے لیکن کسی کے بھی حصے میں یہ سعادت نہیں آئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ترین ارشادات کو ایک مجموعے کی شکل دی جائے۔ ان سے پہلے بھی لوگوں نے کوشش کی لیکن اس حد کامیابی نہ ملی۔
اگر ارتقا سے آپ کی یہی مراد ہے ، تو اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ، امام صاحب نے پہلے سے موجود احادیث کو ایک جگہ جمع کردیا ۔
ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق دین کی خدمت مطلوب و مقصود ہے ، آج بھی یہ کام ہورہا ہے ، اور ہوتا رہے گا ، لیکن جدیدیت کے نام پر روایت سے رشتہ توڑ لینا ، یہ کسی طور درست نہیں ، اور سراسر گمراہی و ضلالت ہے ، جو زندقہ و کفر تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سونے اور چاندی میں فرق تو اس دور میں بھی تھا ، لیکن بہر صورت اس وقت فرق بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔
میں آپ کی بات پہلے بھی سمجھ گیا تھا ، اور جواب اسی کے مطابق عرض کیا تھا ۔ لیکن میری بات شاید آپ کو سمجھ نہیں آسکی ۔
نصاب چاہے چاندی کے اعتبار سے بنائیں یا سونے کے اعتبار سے دونوں طرح سے کم از کم مجھے کوئی پریشانی یا مشکل سمجھ نہیں آرہی ۔
جب زکاۃ بیالیس ہزار پر فرض ہوگی تو اس میں مقدار زکاۃ بھی اسی حساب سے کم ہوگی ، جب تین لاکھ پر فرض ہوگی تو مقدار زکاۃ بھی زیادہ ہوگی ۔ گویا جس پر جلدی زکاۃ فرض ہوگی وہ ادائیگی کم کرے گا ، جس پر دیر بعد فرض ہوگی ، وہ نسبتا زیادہ ادائیگی کرے گا ۔

آپ نے جو یہ صورت حال بیان کی ہے ، اس کا حل کیا ہے ؟ یعنی جن گناہوں کو ہم مجبوری سمجھ کر کر رہے ہیں ، انہیں سند جواز بخش کر فخر سے کریں ؟
محترم خضرحیات
السلام علیکم
یعنی اگر میرے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے مساوی رقم ہے تو میرا اختیار ہے کہ میں زکوۃ نہ دوں ۔ کیونکہ وہ تو ایک تولہ سونے کے برابر ہے اور ایک تولہ سونے پر زکوۃ نہیں ہے ۔(فہم سلف کے مطابق)

صورت حال کا حل تو علماء کرام نے ہی پیش کرنا ہے۔ جب اسلام رہتی دنیا تک کیلئے ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی ایسا نکتہ ہونا چاہیے جس سے ہم ان گناہوں سے بری الذمہ ہوسکیں۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے ہم کبائر گناہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملوث ہوچکے ہیں ۔اب وہ تصویر کی صورت میں ہو یا سود کی صورت میں ۔
دو ہی چیزیں ہوسکتی ہیں یا تو حرام یا حلال اس کے علاوہ کوئی تیسری چیز میرے ناقص علم میں نہیں ہے ۔

جب آپ کے منہج کا ماننا ہے کہ حجت صرف قران و حدیث ہیں تو اس میں فہم سلف کیوں ناگزیر ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ

بوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔ (بخاری، ۴۰۵۴)
’’سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنھوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں۔‘‘
(عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابو سعید (مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) حارث بن عمرو (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی فی الاوسط وابو یعلی، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) حجیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) سراء بنت نبہان (المعجم الاوسط، ۲۴۳۰))
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ: ایہا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ہذا بمکانی ہذا فرحم اللہ من سمع مقالتی الیوم فوعاہا فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ہو افقہ منہ۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴) ’
’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انھیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انھیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔‘‘


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یعنی اگر میرے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے مساوی رقم ہے تو میرا اختیار ہے کہ میں زکوۃ نہ دوں ۔ کیونکہ وہ تو ایک تولہ سونے کے برابر ہے اور ایک تولہ سونے پر زکوۃ نہیں ہے ۔(فہم سلف کے مطابق)
درست ۔
صورت حال کا حل تو علماء کرام نے ہی پیش کرنا ہے۔ جب اسلام رہتی دنیا تک کیلئے ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی ایسا نکتہ ہونا چاہیے جس سے ہم ان گناہوں سے بری الذمہ ہوسکیں۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے ہم کبائر گناہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملوث ہوچکے ہیں ۔اب وہ تصویر کی صورت میں ہو یا سود کی صورت میں ۔
مجھے آپ کی اس طرح باتیں عجیب و غریب محسوس ہوتی ہیں ، علماء حل نکالنے کے لیے سود کو جائز کریں ؟ میڈیا پر اعلی پیمانے پر کام ہو لہذا علماء تصویر کو جواز ہی نہیں بلکہ کار ثواب قرار دیں ، جو چیز گناہ ہے ، اسے گناہ ہی بولا جائے گا ، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ لوگوں کا دل رکھنے کے لیے ، اور تاکہ کوئی احساس جرم میں مبتلا نہ ہو ، ان چیزوں کو حلال قرار دے دیا جائے ۔
اس طرح کی چیزوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے ، کہ یہ گناہ کا کام ہے ، اس سے بچیں ، جو کسی اضطرار یا مجبوری کے سبب نہیں بچ سکتا ہے ، اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے ، بہر صورت وہ ایک غلط کام کا مرتکب ہے ۔
جب آپ کے منہج کا ماننا ہے کہ حجت صرف قران و حدیث ہیں تو اس میں فہم سلف کیوں ناگزیر ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ
بوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔ (بخاری، ۴۰۵۴)
حجت تو قرآن وسنت ہی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بات ذہن کے اندر رکھیے ، اگر فہم سلف کو ایک طرف کردیا جائے ، تو قرآن وسنت کی بعض نصوص دستخط شدہ خالی چیک ثابت ہوگا ، اس سے جو مرضی جیسے مرضی فائدہ اٹھالے ، میں نے آپ کو پہلے ہی مثالیں دی ہیں ، کہ لوگوں نے قرآن کو براہ راست سمجھنے کے لیے نام پر فہم سلف کو ٹھکرا کر کیا کیا گل کھلائے ہیں ، آپ کے خیال میں غامدی اور اس طرز کے جو مفکرین ہیں ، انہوں نے دین کی جو تعبیر پیش کی ہے ، بالکل درست ہے ؟ اس میں دین کا نام تو باقی ہے ، لیکن چودہ صدیوں سے دین کا حصہ رہنے والے اعمال ، دین سے باہر ہوچکے ہیں ۔ پتہ نہیں آپ کس ارتقا کی بات کرتے ہیں ، حیرانی کی بات ہے کہ تیرہ صدیوں تک انسانی عقل میں ارتقا نہیں آیا ، لیکن چودہویں صدی آتے ہی ، ایسے ایسے ارتقاء آنے شروع ہوئے کہ الامان و الحفیظ ۔
آپ نے جو حدیث پیش کی ہے ، اسی مفہوم کو میں پہلے گزارش کر چکا ہوں ، کہ چند اشخاص کو چند اشخاص پر فضیلت اور فوقیت ہوسکتی ہے ، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ تابعین کا مکمل طبقہ صحابہ کے مکمل طبقہ سے افضل ہو ، یا بعد میں آنے والی صدیاں خیر القرون یعنی صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے طبقات سے افضل ہوں ۔
اور پھر بعد والوں کی سمجھداری ان کی باتوں سے ظاہر ہوگی ، لیکن خالی دعووں سے کچھ نہیں ہوتا ، سمجھداری فہم نصوص قرآن وسنت میں ہوگی ، نہ کہ قرآن وسنت کی نصوص کی تاویل و تردید میں ۔
اب اس طرح کے ’ فہم ‘ اور ’ سمجھ ‘ کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ صرف قرآن حجت ہے ، جبکہ سنت یا حدیث چونکہ راویوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی ، لہذا اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تھا کہ ممکن ہے بعد میں میری حدیث کو کوئی زیادہ سمجھنے والا ہو ، یا یہ کہا تھا کہ ممکن ہے بعد والا میرا فرمان رد کرنے کے لیے حجت بازی میں زیادہ مہارت رکھتا ہو ۔
 
Last edited:
Top