• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26- بَاب لا يَجْنِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ
۲۶ -باب: دوسرے کے جرم اورگناہ میں کسی اور کے نہ پکڑا جائے گا ۱؎​
وضاحت ۱؎ : مجرم خوداپنے جرائم کا ذمہ دار ہوگا ، اس کے جرم کا دوسرے سے مواخذہ نہ ہوگا، یہی شرع کا حکم ہے اور یہی عدالت کا قانون ہے، یعنی یہ نہ ہوگا کہ باپ کے جرم میں بیٹا پکڑا جائے یا بیٹے کے جرم میں باپ جیسے ظالم لوگ کیا کرتے ہیں، زمانہء جاہلیت کے عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب ایک شخص نے کسی کو مار ڈالا تو مقتول کے قبیلے والے اس کے بدلے میں قاتل کے قبیلے میں سے ایک شخص کو مار ڈالتے خواہ وہ قاتل ہویا نہ ہو ، یہ کھلی بے انصافی اورظلم ہے ۔


2669- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ،عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " أَلا لا يَجْنِي جَانٍ إِلا عَلَى نَفْسِهِ ۱؎ ، لا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ، وَلا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۹۴)، وقد أخرجہ: ت/الفتن ۲ (۲۱۵۹) (صحیح)
۲۶۶۹- عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''خبر دار! مجرم اپنے جرم پرخودپکڑاجائے گا ، (یعنی جوقصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہوگا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کی شرح میں ابن الأثیر فرماتے ہیں: جنایہ :گناہ اورجرم انسان کے اس کا م کا نام ہے جس پر دنیا یا آخر ت میں وہ عذاب یا قصاص کا مستحق ہوتا ہے ، یعنی کسی رشتہ دار یا دوسرے آدمی کوغیر کے گناہ اورجرم پر نہیں پکڑا جائے گا ، توجب کوئی جرم کرے گا تو اس پر دوسرے کو سزانہ دی جائے گی ، جیسا کہ ارشادہے:{ لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [سورة الأنعام:164] ( کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا )یعنی اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا، اورجس نے اچھایا برا جوکچھ کیاہوگا ، اس کے مطابق جزا وسزادے گا، نیکی کا اچھابدلہ اوربرے کاموں پر سزادے گا، اورایک کا بوجھ دوسرے پرنہیں ڈالے گا۔


2670- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِيِّ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، يَقُولُ: " أَلا لا تَجْنِي أُمٌّ عَلَى وَلَدٍ، أَلا لا تَجْنِي أُمٌّ عَلَى وَلَدٍ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۹۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۱)، وقد أخرجہ: ن/القسامۃ ۳۵ (۴۸۳۷) (صحیح)
۲۶۷۰- طارق محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھا،یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺکی بغلوں کی سفیدی دیکھی، آپﷺ فرمارہے تھے خبردار! کوئی ماں اپنے بچے کے جرم میں نہیں پکڑی جائے گی ، خبردار!کوئی ماں اپنے بچے کے جرم میں نہیں پکڑی جائے گی ''۔


2671- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ يُونُسَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ أَبِي الْحُرِّ، عَنِ الْخَشْخَاشِ الْعَنْبَرِيِّ؛ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَمَعِيَ ابْنِي، فَقَالَ: " لا تَجْنِي عَلَيْهِ وَلا يَجْنِي عَلَيْكَ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۳۴، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۵،۵/۸۱) (صحیح)
۲۶۷۱- خشخاش عنبری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا،میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' تیری اس کے جرم پر اور اس کی تیرے جرم پر گرفت نہیں ہوگی ''۔


2672- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ الْقَطَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۱۳۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۳) (حسن صحیح )
۲۶۷۲- اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کوئی شخص کسی دوسرے شخْص کے جرم کا ذمہ دار نہ ہوگا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27- بَاب الْجُبَارِ
۲۷ -باب: جن چیز وں میں نہ دیت ہے نہ قصاص ان کا بیان​


2673- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ "۔
* تخريج : خ/الزکاۃ ۶۶ (۱۴۹۹)، المساقاۃ ۳ (۲۳۵۵)، الدیات ۲۸ (۶۹۱۲)، ۲۹ (۶۹۱۳)، م/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، د/الخراج ۴۰ (۳۰۸۵)، ت/الأحکام ۳۷ (۱۳۷۷)، ن/الزکاۃ ۲۸ (۲۴۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۴۷۱۳۱۲۸)، وقد أخرجہ: ط/العقول ۱۸ (۱۲)، حم (۲/۲۲۸، ۹ ۲۲، ۲۵۴، ۲۷۴، ۲۸۵، ۳۱۹، ۳۸۲، ۳۸۶، ۴۰۶ ،۴۱۱، ۴۱۴، ۴۵۴، ۴۵۶، ۴۶۷، ۴۷۵، ۴۸۲، ۴۹۲، ۴۹۵، ۴۹۹، ۵۰۱، ۵۰۷)، دي/الزکاۃ ۳۰ (۱۷۱۰) (صحیح)
۲۶۷۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' بے زبان (جانور ) کا زخم بے قیمت اور بے کار ہے،کان اور کنویں میں گر کر مرجائے تو وہ بھی بے کار ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جانور ، کان اور کنواں کے مالک سے دیت نہیں لی جائے گی، یہ جب ہے کہ کوئی اپنی زمین میں کنواں کھودے یا مباح زمین میں راستہ میں کنواں کھودے اور کوئی اس میں گر پڑے یا دوسرے کی زمین میں کھودے تو کھودنے والا پکڑا جائے گا ۔


2674- حَدَّثَنَا أَبو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۱۰۷۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۴) (صحیح)
( کثیر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہے، لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۲۶۷۴- عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''بے زبان (جانور) کا زخم بے کار ہے، اور کان میں گر کر مرجائے تو وہ بھی بے کار ہے '' ۔


2675- حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ خَالِدٍ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ؛ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّ الْمَعْدِنَ جُبَارٌ، وَالْبِئْرَ جُبَارٌ، وَالْعَجْمَاءَ جَرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْعَجْمَاءُ الْبَهِيمَةُ مِنَ الأَنْعَامِ وَغَيْرِهَا وَالْجُبَارُ هُوَ الْهَدْرُ الَّذِي لا يُغَرَّمُ۔
* تخريج : تفرد بہ ، ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۵۰۶۳، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۲۶، ۳۲۷) (صحیح)
(سند میں اسحاق بن یحییٰ اور عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)۔
۲۶۷۵- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا: '' کان بے کار ہے اور اور کنواں بے کار ورائیگاں ہے، اور عجماء چوپائے وغیرہ حیوانات کو کہتے ہیں، اور جبار ایسے نقصان کو کہتے ہیں جس میں جرمانہ اور تاوان نہیں ہوتا، کنواں بے کار ورائیگاں ہے ، اور بے زبان (جانور) کا زخم بیکار ورائیگاں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس میں تاوان اورجرمانہ نہیں ہے ۔


2676- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " النَّارُ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ "۔
* تخريج : د/الدیات ۳۱ (۴۵۹۴)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۴۶۹۹) (صحیح)
۲۶۷۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''آگ بے کار ہے، اور کنواں بے کار ہے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کسی نقصان کی صورت میں ان کا مالک ذمہ دار نہ ہوگا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28- بَاب الْقَسَامَةِ
۲۸ -باب: قسامہ کا بیان​


2677- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي أَبُو لَيْلَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ بْن حُنَيْفٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ؛ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ رِجَالٍ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ؛ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَأُلْقِيَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ بِخَيْبَرَ، فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ، وَاللَّهِ! قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ! مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ. ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ يَتَكَلَّمُ، وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِمُحَيِّصَةَ: "كَبِّرْ كَبِّرْ" يُرِيدُ السِّنّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ " فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَيْهِمْ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا: إِنَّا، وَاللَّهِ ! مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِحُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ: "تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟" قَالُوا: لا،قَالَ: " فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ؟ " قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِائَةَ نَاقَةٍ، حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، فَقَالَ سَهْلٌ: فَلَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ ۔
* تخريج : خ/الصلح ۷ (۲۷۰۲)، الجزیۃ ۱۲ (۳۱۷۳)، الأدب ۸۹ (۶۱۴۳)، الدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، الأحکام ۳۸ (۷۱۹۲)، م/القسامۃ ۱ (۱۶۶۹)، د/الدیات ۸ (۴۵۲۰)، ۹ (۴۵۲۳)، ت/الدیات ۲۳ (۱۴۴۲)، ن/القسامۃ ۳ (۴۷۱۴)، (تحفۃ الأ شراف: ۴۶۴۴)، وقد أخرجہ: ط/القسامۃ ۱ (۱)، حم (۴/۲، ۳)، دي/الدیات ۲ (۲۳۹۸) (صحیح)
۲۶۷۷- سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما دونوں محتاجی کی وجہ سے جو ان کو لاحق تھی (روزگار کی تلاش میں) اس یہودی بستی خیبر کی طرف نکلے ،محیصہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں خیبر کے ایک گڑھے یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، وہ یہودیوں کے پاس گئے، اور کہا: اللہ کی قسم، تم لوگوں نے ہی ان (عبداللہ بن سہل) کو قتل کیا ہے، وہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے ان کا قتل نہیں کیا ہے ،اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ خیبر سے واپس اپنی قوم کے پاس پہنچے، اور ان سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ، اور عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، اور محیصہ رضی اللہ عنہ جو کہ خیبر میں تھے بات کرنے بڑھے تو آپﷺ نے محیصہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: '' بڑے کا لحاظ کر '' آ پ ﷺکی مراد عمر میں بڑے سے تھی چنانچہ حو یصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی، اور اس کے بعد محیصہرضی اللہ عنہ نے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا: '' یا تو یہو د تمہارے آدمی کی دیت ادا کریں ور نہ اس کو اعلان جنگ سمجھیں ''اور یہود کو یہ بات لکھ کر بھیج دی، انہو ں نے بھی جواب لکھ بھیجا کہ اللہ کی قسم، ہم نے ان کو قتل نہیں کیا ہے،تو آپﷺ نے حویصہ ، محیصہ اور عبد الرحمن رضی اللہ عنہم سے کہا: ''تم قسم کھا کر اپنے ساتھی کی دیت کے مستحق ہو سکتے ہو''، انہوں نے انکار کیاتو آپﷺ نے فرمایا : ''پھریہود قسم کھا کر بری ہوجائیں گے'' وہ کہنے لگے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں،( کیا ان کی قسم کا اعتبار کیا جائے گا ) آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی دیت ادا کی، اور ان کے لئے سو اونٹنیا ں بھیجیں جنہیں ان کے گھر میں داخل کر دیا گیا۔
سہل رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک لال اونٹنی نے مجھے لات ماری۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب قاتل کا پتہ نہ لگے تو مقتول کی دیت بیت المال سے دی جائے گی ، اور مسلم نے ایک صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قسامت کی دیت کو باقی رکھا اسی طریقہ پر جیسے جاہلیت کے زمانہ میں رائج تھی، اور جاہلیت میں یہی طریقہ تھا کہ مقتول کے اولیاء مدعی علیہم میں سے لوگوں کو چنتے ، پھر ان کو اختیار دیتے ،چاہیں وہ قسم کھالیں چاہیں دیت ادا کریں، جیسے اس قسامت میں ہوا جو بنی ہاشم میں ہوئی ، علماء نے قسامت کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جب قاتل ایک معین جماعت میں سے ہو تو اس میں سے مقتول کا ولی قاتل کی جماعت سے لوگوں کو چن کر پچاس قسمیں کھلوائے ، اگر وہ حلف اٹھالیں تو بری ہوگئے ورنہ ان کو دیت دینی ہوگی ۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیہ ۳/۳۸۸)۔


2678- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ جَدِّهِ أَنَّ حُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ ابْنَيْ مَسْعُودٍ وَعَبْدَ اللَّهِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ ابْنَيْ سَهْلٍ خَرَجُوا يَمْتَارُونَ بِخَيْبَرَ؛ فَعُدِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقُتِلَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: " تُقْسِمُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ ؟ " فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ نُقْسِمُ وَلَمْ نَشْهَدْ؟ قَالَ: " فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ ؟ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذًا تَقْتُلَنَا، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عِنْدِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۸۶۷۸، ومصباح الزجاجۃ:۹۴۹)، وقد أخرجہ: ن/القسامۃ ۲ (۴۷۱۸) (صحیح)
(سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ) ۔لیکن شاہد کی بنا پر صحیح ہے۔
۲۶۷۸- عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسعود کے دو نوں بیٹے حویصہ و محیصہ رضی اللہ عنہما اورسہل کے دونوں بیٹے عبداللہ و عبدالرحمن رضی اللہ عنہم خیبر کی جانب تلاش رزق میںنکلے ،عبداللہ پرظلم ہوا، اور انہیں قتل کر دیا گیا، اس کا ذکر رسول اکرم ﷺ کے سامنے کیا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا : '' قسم کھائو اور (دیت کے) مستحق ہو جائو'' وہ کہنے لگے : اللہ کے رسول! جب ہم وہاں حاضر ہی نہیں تھے تو قسم کیوں کر کھا ئیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : '' تو یہو د (قسم کھا کر ) تم سے بری ہوجائیں گے'' وہ کہنے لگے : اللہ کے رسول! تب تو وہ ہمیں مار ہی ڈالیں گے ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کردی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَنْ مَثَّلَ بِعَبْدِهِ فَهُوَ حُرٌّ
۲۹ -باب: جس شخص نے اپنے غلام کا مثلہ کیا (یعنی اس کا کوئی عضو کاٹ دیا ) تو وہ آزاد ہوجائے گا​


2679- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ رَوْحِ بْنِ زِنْبَاعٍ، عَنْ جَدِّهِ؛ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ أَخْصَى غُلامًا لَهُ، فَأَعْتَقَهُ النَّبِيِّ ﷺ بِالْمُثْلَةِ۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف:۳۶۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۷) (حسن)
(سند میں اسحاق بن عبد اللہ ضعیف ہے، اور سلمہ بن روح مجہول ، لیکن عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر اور دوسرے شواہد سے حسن ہے)
۲۶۷۹- سلمہ بن روح بن زنباع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، انہو ں نے اپنے غلام کو خصی کر دیا تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے غلام کو مثلہ ( ناک کان یا کوئی عضو کاٹ دینا )کئے جانے کی بنا ء پر آزاد کر دیا۔


2680- حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ الْمُرَجَّى السَّمَرْقَنْدِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُوحَمْزَةَ الصَّيْرَفِيُّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ صَارِخًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا لَكَ ؟ " قَالَ: سَيِّدِي رَآنِي أُقَبِّلُ جَارِيَةً لَهُ، فَجَبَّ مَذَاكِيرِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " عَلَيَّ بِالرَّجُلِ " فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ " قَالَ: عَلَى مَنْ نُصْرَتِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ يَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنِ اسْتَرَقَّنِي مَوْلايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ أَوْ مُسْلِمٍ "۔
* تخريج : د/الدیات ۷ (۴۵۱۹)، (تحفۃ الأ شراف: ۸۷۱۶)، و قد أخرجہ: حم (۲/۱۸۲،۲۲۵) (حسن)
۲۶۸۰- عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس چیختا ہواآیا، آپﷺ نے اس سے فرمایا: '' کیا بات ہے''؟ وہ بولا: میرے مالک نے مجھے اپنی ایک لونڈی کا بوسہ لیتے ہو ئے دیکھ لیا، تو میرے اعضاء تناسل ہی کاٹ ڈالے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' اس آدمی کو میرے پاس لائو '' جب اسے ڈھونڈا گیا تو وہ نہیں مل سکا، تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا: '' جا ؤ تم آزادہو، غلام بولا :اللہ کے رسول! میری مدد کون کرے گا ؟ یعنی اگر میرا مالک مجھے پھر غلام بنالے ، تو آپﷺ نے فرمایا: '' ایسی صورت میں ہر مومن یا مسلمان پر تمہاری مدد لازم ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو سخت ایذا دے مثلاً اس کا کوئی عضو کاٹے یا اس کا بدن جلائے تو حاکم اس کو آزاد کرسکتا ہے ،اور اس کے مالک کو جو سزا مناسب سمجھے وہ دے سکتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30- بَاب أَعَفُّ النَّاسِ قِتْلَةً أَهْلُ الإِيمَانِ
۳۰ -باب: قاتلوں میں اہل ایمان کے سب سے بہتر ہونے کا بیان​


2681- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ ؛ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ مِنْ أَعَفِّ النَّاسِ قِتْلَةً أَهْلَ الإِيمَانِ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۴۱)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۱۲۰ (۲۶۶۶)، حم (۱/۳۹۳) (ضعیف)
(ہشیم بن بشیر اور شباک دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، نیز سند میں اضطراب ہے ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۱۲۳۲)
۲۶۸۱- عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے زیادہ پاکیزہ اور بہتر ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ وہ ناحق اور بے جا قتل نہیں کرتے، اور وہ انسان ہی نہیں بلکہ جانور کو بھی بری طرح تکلیف دے کر نہیں مارتے، اور وہ تیز چھری سے اللہ تعالی کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔


2682- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هُنَيِّ بْنِ نُوَيْرَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنَّ أَعَفَّ النَّاسِ قِتْلَةً أَهْلُ الإِيمَانِ "۔
* تخريج : د/ الجہاد ۱۲۰ (۲۶۶۶)، (تحفۃ الأ شراف: ۹۴۷۶) (ضعیف)
(ہنی بن نویرہ مقبول عند المتابعہ ہیں، اور سند میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۱۲۳۲)
۲۶۸۲- عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے پاکیزہ لوگ ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ بیجا قتل نہیں کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31- بَاب الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ
۳۱ -باب: مسلمانوں کے خون برابر ہیں​


2683- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ "الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَيُرَدُّ عَلَى أَقْصَاهُمْ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۶۰۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۸) وقد مضی تمامہ برقم : (۲۶۶۰) (صحیح)
(سند میں حنش ( حسین بن قیس) ضعیف ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۳۴۷۵)
۲۶۸۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : '' مسلمانوں کے خون برابر ہیں، اور وہ اپنے مخا لفوں کے لئے ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان میں سے ادنی شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے، اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہوگی، اور (لشکر میں ) سب سے دور والا شخص بھی مال غنیمت کا مستحق ہو گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک لشکر لڑائی کے لئے نکلا کچھ آگے کچھ پیچھے اب آگے والوں کو کچھ مال ملا تو پیچھے والے بھی گو ان سے دور ہوں اس میں شریک ہوں گے ، اس لئے کہ وہ ان کی مدد کے لئے آرہے تھے تو گویا انہی کے ساتھ تھے ۔


2684- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، أَبُو حَمْرَةَ، عَنْ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ أَبِي الْجَنُوبِ، عَنِ الْحَسَنِ،عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْمُسْلِمُونَ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، وَتَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف:۱۱۴۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۴۹) (صحیح)
(عبدالسلام بن أبی الجنوب ضعیف ہے ، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے )
۲۶۸۴- معقل بن یسا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مسلمان اپنے علاوہ (دوسرے مذہب ) والوں کے مقابلہ میں ایک ہاتھ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے خون برابر ہیں '' ۔


2685- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَدُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، وَيُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ، وَيَرُدُّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَقْصَاهُمْ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۸۷۳۹، ومصباح الزجاجۃ:۹۵۰)، وقد أخرجہ: د/الجہاد ۱۵۹ (۲۷۵۱)، حم (۲/۲۰۵، ۲۱۵، ۲۱۶) (حسن صحیح)
(یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، کماتقدم )
۲۶۸۵- عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ''مسلمانوں کا ہاتھ اپنے علاوہ دوسری قوم والوں پر ہے(یعنی ان سب سے لڑیں ، آپس میں نہ لڑیں) ان کے خون اور ان کے مال برابر ہیں، مسلمانوں کا ادنی شخص کسی کو پناہ دے سکتا ہے اور لشکر میں دور والا شخص بھی مال غنیمت کا مستحق ہوگا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا
۳۲ -باب: ذمی کافر کو قتل کرنے والے کے گناہ کا بیان​


2686- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا "۔
* تخريج : خ/الجزیۃ ۵ (۳۱۶۶)، الدیات ۲۰ (۶۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۱۷)، وقد أخرجہ: ن/القسامۃ ۱۰ (۴۷۵۳)، حم (۲/۱۸۶) (صحیح)
۲۶۸۶- عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس نے کسی ذمی کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا ، حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے ''۔


2687- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ، أَنْبَأَنَا ابْنُ عَجْلانَ عَنْ أَبِيهِ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : " مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا، لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا "۔
* تخريج : ت/الدیات ۱۱ (۱۴۰۳)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۴۱۴۰) (صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم: ( ۴۵۱)
۲۶۸۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا: '' جس نے کسی ایسے ذمی کو قتل کردیا جس کو اللہ تعالی اور اس کے رسول نے پناہ دے رکھی ہو، تووہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خو شبو سترسال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَنْ أَمِنَ رَجُلاً عَلَى دَمِهِ فَقَتَلَهُ
۳۳ -باب: کسی کو امان دینے کے بعدقتل کرنا کیساہے؟​


2688- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ شَدَّادٍ الْقِتْبَانِيِّ ؛ قَالَ: لَوْلا كَلِمَةٌ سَمِعْتُهَا مِنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ الْخُزَاعِيِّ، لَمَشَيْتُ فِيمَا بَيْنَ رَأْسِ الْمُخْتَارِ وَجَسَدِهِ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ أَمِنَ رَجُلا عَلَى دَمِهِ فَقَتَلَهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ لِوَاءَ غَدْرٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۳، ۲۲۴، ۴۳۶، ۴۳۷) (صحیح)
۲۶۸۸- رفاعہ بن شدادقتبانی کہتے ہیں کہ اگر وہ حدیث نہ ہوتی جو میں نے عمر و بن حمق خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنی ہے تو میں مختار ثقفی کے سراور جسم کے درمیان چلتا ۱؎ ، میں نے عمر و بن حمق خزاعی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے کسی کو جان کی امان دی، پھر اس کو قتل کر دیا تو قیامت کے دن دغابازی کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہو گا '' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا سربدن سے جدا کر دیتا ، مختار بن عبید ثققی نے قاتلین حسین کو چن چن کر قتل کیا اور مسلمانوں کو خوش کیا لیکن آگے چل کرخود نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اور مصعب بن زیبر رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں قتل ہوا۔


2689- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو لَيْلَى عَنْ أَبِي عُكَّاشَةَ، عَنْ رِفَاعَةَ؛ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الْمُخْتَارِ فِي قَصْرِهِ، فَقَالَ: قَامَ جِبْرَائِيلُ مِنْ عِنْدِيَ السَّاعَةَ، فَمَا مَنَعَنِي مِنْ ضَرْبِ عُنُقِهِ إِلا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ؛ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا أَمِنَكَ الرَّجُلُ عَلَى دَمِهِ، فَلا تَقْتُلْهُ " فَذَاكَ الَّذِي مَنَعَنِي مِنْهُ۔
* تخريج : حدیث رفاعۃ تقدم تخریجہ بمثل الحدیث السابق (۲۶۸۸)، وحدیث سلیمان بن صرد، تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۴۵۷۰ (الف)، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۴) (ضعیف)
(سند میں ابو لیلیٰ اور أبوعکاشہ مجہول ہیں ،نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۲۲۰۰)
۲۶۸۹- رفاعہ کہتے ہیں کہ میں مختار ثقفی کے پاس اس کے محل میں گیا ،تواس نے کہا : جبریل ابھی ابھی میرے پاس سے گئے ہیں ۱؎ ،اس و قت اس کی گردن اڑا دینے سے صرف اس حدیث نے مجھے باز رکھا جو میں نے سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے سنی تھی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : '' جب کو ئی شخص تم سے جان کی اما ن میں ہوتو اسے قتل نہ کرو، تو اسی بات نے مجھے اس کو قتل کرنے سے روکا '' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ رسالت کا دعوی کر رہاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
34- بَاب الْعَفْوِ عَنِ الْقَاتِلِ
۳۴ -باب: قاتل کو معاف کر دینے کا بیان​


2690- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؛ قَالَ: قَتَلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَاللَّهِ ! مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْوَلِيِّ: " أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ، دَخَلْتَ النَّارَ " قَالَ: فَخَلَّى سَبِيلَهُ قَالَ: فَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ، فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ، فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ۔
* تخريج : د/الدیات ۳ (۴۴۹۸)، ت/الدیات ۱۳ (۱۴۰۷)، ن/القسامۃ ۳ (۴۷۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۷) (صحیح)
۲۶۹۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے زمانے میں قتل کر دیاتواس کا مقدمہ آپ کے پاس لایا گیا، چنانچہ آپ ﷺنے قاتل کو مقتول کے ولی کے حوالے کردیا ، قاتل نے کہا : اللہ کے رسول! اللہ کی قسم، میرا اس کو قتل کرنے کا قطعاًارادہ نہیں تھا، آپﷺ نے ولی سے کہا: ''اگر یہ اپنی بات میں سچا ہے ،اور تم نے اس کو قتل کر دیا تو تم جہنم میں جائوگے'' تو مقتول کے ولی نے اس کو چھو ڑدیا، قاتل پٹے سے بندھا ہوا تھا ، وہ پٹا گھسیٹتا ہوا نکلا، اور اس کا نام ہی پٹے والا پڑ گیا۔


2691- حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ، عِيسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النَّحَّاسِ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِىِّ الْعَسْقَلانِيُّ قَالُوا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ بِقَاتِلِ وَلِيِّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " اعْفُ " فَأَبَى. فَقَالَ: " خُذْ أَرْشَكَ " فَأَبَى. قَالَ: " اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ " قَالَ: فَلُحِقَ بِهِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ قَالَ: " اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ " فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: فَرُئِيَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ ذَاهِبًا إِلَى أَهْلِهِ، قَالَ: كَأَنَّهُ قَدْ كَانَ أَوْثَقَهُ، قَالَ أَبُوعُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ ابْنُ شَوْذَبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ: فَلَيْسَ لأَحَدٍ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ أَنْ يَقُولُ: " اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ ".
قَالَ ابْن مَاجَةَ: هَذَا حَدِيثُ الرَّمْلِيِّينَ، لَيْسَ إِلا عِنْدَهُمْ۔
* تخريج : ن/القسامۃ ۳ (۴۷۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱) (صحیح)
۲۶۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے ولی کے قاتل کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسے معاف کر دو ''، اس نے انکار کیاتو آپﷺ نے فرمایا: '' دیت لے لو'' اس نے انکار کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: ''جاؤ اسے قتل کر دو اور تم بھی اسی کی طرح ہو جاؤ '' ۱؎ چنانچہ اس سے مل کرکہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:'' جاؤ تم اس کو قتل کر دو تم بھی اس کے مثل ہوجاؤ ''تو اس نے اسے چھوڑدیا، قاتل کو اپنے گھر والو ں کی طرف اپنا پٹا گھسیٹتے ہوئے جاتے دیکھا گیا، گویا کہ مقتول کے وارث نے اسے باندھ رکھا تھا ۱؎ ۔
ابو عمیر اپنی حدیث میں کہتے ہیں: ابن شوذب نے عبدالرحمن بن قاسم سے یہ قول نقل کیا ہے، نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کے لئے '' اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ'' کہنا درست نہیں ۔
ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ اہل رملہ کی حدیث ہے ، ان کے علاوہ کسی اور نے یہ روایت نہیں کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : علماء نے حدیث کے اس ٹکڑے کی تو ضیح یوں کی ہے کہ قاتل قتل کی وجہ سے خیر سے محروم ہوا، تم بھی اس کو قصاصاً قتل کرکے خیرسے محروم ہو جاؤ گے، کیونکہ اس کو قتل کرنے سے مقتول زندہ نہیں ہوگا، ایسی صورت میں اس پر رحم کرنا ہی بہتر ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ اس نے قتل کی نیت سے اسے نہیں مارا تھا، اس لئے دیا نۃ اس پر قصاص لازم نہیں تھا ،اگر چہ قضاء اً لازم تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس آدمی کو عمل کرنا چاہئے ، گرچہ آپ کا فرمانا بطور سفارش تھا،نہ کہ بطورحکم ، اگر وہ آپ کے اس ارشاد کے خلاف کرتا تو اپنے آپ کو محرومی اور بد نصیبی کا مستحق بنا لیتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
35- بَاب الْعَفْوِ فِي الْقِصَاصِ
۳۵ -باب: قصاص معاف کردینے کا بیان​


2692- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ (قَالَ: لا أَعْلَمُهُ إِلا عَنْ أَنَسِ بْنِ مالِكٍ ) قَالَ: مَارُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ شَيْئٌ فِيهِ الْقِصَاصُ، إِلا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ۔
* تخريج : د/الدیات ۳ (۴۴۹۷)، ن/القسامۃ ۲۳ (۴۷۸۷، ۴۷۸۸)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۰۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۳،۲۵۲) (صحیح)
۲۶۹۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی رسول اکرم ﷺ کے پاس قصاص کا کوئی مقدمہ آتا تو آپ اس کو معاف کردینے کا حکم دیتے ( یعنی سفارش کر تے ) ۔


2693- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحاقَ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُصَابُ بِشَيْئٍ مِنْ جَسَدِهِ، فَيَتَصَدَّقُ بِهِ إِلا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً، أَوْ حَطَّ عَنْهُ بِهِ خَطِيئَةً " سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي۔
* تخريج : ت/الدیات ۵ (۱۳۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۷۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۴۸) (ضعیف)
( سند میں ابو السفر سعید بن أحمد ابو الدرداء سے سنا نہیں ہے، اس لئے یہ انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، ترمذی نے حدیث پر ''غریب '' کا حکم لگایا ہے ، ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۴۴۸۲)
۲۶۹۳- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :'' کوئی بھی شخص جس کے جسم کو صدمہ پہنچے پھر وہ ثواب کی نیت سے معاف کردے، تو اللہ تعالی اس کے عوض اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے ''اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے، یہ میرے کانوں نے سنا اور دل نے یاد رکھا ۔
 
Top