• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

{ 23-كِتَاب الْفَرَائِضِ }
۲۳ -کتاب: وراثت کے احکام ومسائل


1- بَاب الْحَثِّ عَلَى تَعْلِيمِ الْفَرَائِضِ
۱ -باب: علم فرائض (میراث) سیکھنے سکھانے کی ترغیب​


2719- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْعِطَافِ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَهُوَ يُنْسَى، وَهُوَ أَوَّلُ شَيْئٍ يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۵۸، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۴)، وقد أخرجہ: ت/الفرائض ۲ (۲۰۹۱) (ضعیف)
(حفص بن عمر ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۴۵۶)۔
۲۷۱۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ابو ہریرہ ! علم فرائض سیکھو اور سکھائو ،اس لئے کہ وہ علم کا آدھا حصہ ہے، وہ بھلا دیا جائے گا، اورسب سے پہلے یہی علم میری امت سے اٹھا یا جائے گا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فَرَائِضِ الصُّلْبِ
۲-باب: (میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان​


2720- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْ سَعْدٍ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدٍ، قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ جَمِيعَ مَا تَرَكَ أَبُوهُمَا، وَإِنَّ الْمَرْأَةَ لا تُنْكَحُ إِلا عَلَى مَالِهَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَخَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ. فَقَالَ: " أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ ثُلُثَيْ مَالِهِ، وَأَعْطِ امْرَأَتَهُ الثُّمُنَ،وَخُذْ أَنْتَ مَا بَقِيَ "۔
* تخريج: د/الفرائض ۴ (۲۸۹۱، ۲۸۹۲)، ت/الفرائض ۳ (۲۰۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۵)، وقد أخرجہ: حم ۳/۳۵۲) (حسن)
(سند میں عبد اللہ بن محمد عقیل منکر الحدیث راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود : ۲۵۷۳- ۲۵۷۴)
۲۷۲۰- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کررسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں تھے اور مارے گئے، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کر لیا ( اب ان بچیوں کی شادی کا معاملہ ہے ) اور عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا توآپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہو ئی، اور آپ ﷺنے سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بھائی کو طلب کیا اورفرمایا: ''سعد کی دونوں بیٹیو ں کو ان کے مال کا دو تہائی حصہ اور ان کی بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو، پھر جو بچے وہ تم لے لو''۔


2721- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي قَيْسٍ الأَوْدِيِّ، عَنِ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ؛ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ الْبَاهِلِيِّ، فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ، وَأُخْتٍ لأَبٍ وَأُمٍّ، فَقَالا: لِلابْنَةِ النِّصْفُ، وَمَا بَقِيَ، فَلِلأُخْتِ، وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ، فَسَيُتَابِعُنَا، فَأَتَى الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَهُ، وَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالا، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي سَأَقْضِي بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، لِلابْنَةِ النِّصْفُ، وَلابْنَةِ الابْنِ السُّدُسُ، تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ۔
* تخريج: خ/الفرائض ۸ (۶۷۳۶)، د/الفرائض ۴ (۲۸۹۰)، ت/الفرائض ۴ (۲۰۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۲۸، ۴۴۰، ۴۶۳)، دي/الفرائض ۷ (۲۹۳۲) (صحیح)
۲۷۲۱- ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابو موسی اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی ، پوتی اور حقیقی بہن کے ( حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لئے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لئے ہے ، لیکن تم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جائو، اور ان سے بھی معلوم کرلو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابو موسی اشعری ، اورسلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے ، تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہو گیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا، لیکن میں وہ فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا ، بیٹی کے لئے آدھا، اور پوتی کے لئے چھٹا حصہ ہے ،اس طرح دوتہائی ۲-۳ پورے ہو جائیں ، اور جو ایک تہائی ۱- ۳ بچا وہ بہن کے لئے ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ترکہ کے مال کوچھ حصوں میں بانٹ دیاجائے ، تین حصہ بیٹی کو، ایک پوتی کو اور دوحصے بہن کو ملیں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کی پوتیاں بھی ہوں یا ایک ہی پوتی ہو تو آدھا حصہ بیٹی کو ملے گااور دوتہائی ۲-۳ پوتیوں پر برابر تقسیم ہوجائے گا ،اور بہنیں بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہیں یعنی بیٹیوں کے حصہ سے جو بچ رہے وہ بہنوں کو مل جاتا ہے ، دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنا تو کہا کہ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے، اور جمہور علماء اس فتوی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں ، لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن میراث سے محروم ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاہے: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ } [سورة النساء : 176] (اے رسول ! لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں ) فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خودتمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتاہے ،اگرکوئی آدمی مرجائے اور اس کی اولادنہ ہو اور اس کی ایک بہن ہوتواس کے چھوڑے ہوئے مال کاآدھاحصہ اس بہن کو(حقیقی ہویا علاتی) ترکہ ملے گا ، اوروہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا، اگراولادنہ ہوپس اگردوبہنیں ہوں توانہیں ترکہ کا دوتہائی ملے گا ، اوراگرکئی شخص اس رشتہ کے ہیں مردبھی اورعورتیں بھی تو مردکے لیے عورتوں کے دوگناحصہ ہے۔) اور ولدکا لفظ عام ہے، بیٹا اور بیٹی دونوں کوشامل ہے ،تو معلوم ہوا کہ بہن دونوں سے محروم ہوجاتی ہے ۔ جمہور کہتے ہیں کہ ولد سے یہاں بیٹا مراد ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے یوں فرمایا : { وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ } [ سورة النساء : 176] (...اوراگروہ بہن مرجائے تویہ بھائی اس کا وارث ہوگا، بشرطیکہ اس مرنے والی بہن کی اولادنہ ہو (اورنہ ہی باپ)...) اور یہاں بالاجماع ولد سے بیٹا مراد ہے ، اس لئے کہ اجماعاً مرنے والی کی لڑکی بھائی کو محروم نہیں کرسکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فَرَائِضِ الْجَدِّ
۳ -باب: وراثت میں دادا کے حصہ کا بیان​


2722- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحاقَ عَنْ أَبِي إِسْحاقَ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ الْمُزَنِيِّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِفَرِيضَةٍ فِيهَا جَدٌّ، فَأَعْطَاهُ ثُلُثًا، أَوْ سُدُسًا.
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف : ۱۱۴۷۲)، وقد أخرجہ: د/الفرائض ۶ (۲۸۹۷)، حم (۵/۲۷) (صحیح)
( یونس اور ان کے د ادا میں بعض کلام ہے، لیکن ا گلی سند سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۷۲۲- معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا،آپ کے پاس ترکے کا ایک ایسا مقد مہ لایا گیا جس میں داد ا بھی ( وراثت کا حق دار) تھا ،تو آپﷺ نے اسے ایک تہائی یا چھٹا حصہ دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : احمد ، ابو داود اور ترمذی نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے یوں روایت کی کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا پوتا مرگیا ہے تو مجھ کو اس کے ترکہ میں سے کیا ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: چھٹا حصہ ، جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو اس کو بلاکر فرمایا: ایک چھٹا حصہ سلوک کے طور پر (یعنی اصل میراث تیری صرف سدس (چھٹا حصہ) ہے اور ایک سدس اس صورت خاص کی وجہ سے تجھ کو ملا ہے) بخاری ومسلم نے حسن کی روایت مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور دادا کے باب میں صحابہ اور بعد کے علماء کے در میان اختلاف ہے ، بعضوں نے دادا کو باپ کے مثل رکھا ہے اور کبھی اس کوثلث (ایک تہائی) دلایا ہے کبھی سدس (چھٹا حصہ) کبھی عصبہ بھی کہا ہے، بعضوں نے ہمیشہ اس کے لئے سدس رکھا ہے ، اسی طرح اختلاف ہے کہ دادا کے ہوتے ہوئے بہن بھائی کو ترکہ ملے گا یا نہیں توصحابہ کی ایک جماعت جیسے علی ، ابن مسعود اور زید بن ثابت f کا یہ قول ہے کہ دادا بھائیوں کے ساتھ وراثت میں حصہ دارہو گا اور بعضوں نے کہا: بھائی بہن دادا کی وجہ سے محروم ہوں گے جیسے باپ کی وجہ سے محروم ہوتے ہیں ، ان مسائل کی تفصیل فرائض اورمواریث کی کتابوں میں ملے گی۔


2723- "ز" قال أبو الحسن القطان: حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الطَّبَّاعِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ يُونُسَ،عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ؛ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي جَدٍّ كَانَ فِينَا بِالسُّدُسِ۔
* تخريج: د/الفرائض ۶ (۲۸۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷) (صحیح) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود : ۲۵۷۶)۔
۲۷۲۳- (ز) معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے خاندان کے ایک دادا کے لئے چھٹے حصہ کا فیصلہ فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مِيرَاثِ الْجَدَّةِ
۴ -باب: میراث میں دادی اور نانی کے حصے کا بیان​


2724- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَهُ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، (ح) و حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحاقَ بْنِ خَرَشَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ؛ قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا فَقَالَ لَهَا أَبُوبَكْرٍ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْئٌ وَمَا عَلِمْتُ لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ فَسَأَلَ النَّاسَ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَاهَا السُّدُسَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، هَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: مِثْلَ مَا قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَأَنْفَذَهُ لَهَا أَبُوبَكْرٍ ثُمَّ جَاءَتِ الْجَدَّةُ الأُخْرَى مِنْ قِبَلِ الأَبِ إِلَى عُمَرَ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ شَيْئٌ وَمَا كَانَ الْقَضَاءُ الَّذِي قُضِيَ بِهِ إِلا لِغَيْرِكِ وَمَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ شَيْئًا وَلَكِنْ هُوَ ذَاكِ السُّدُسُ فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا۔
* تخريج: د/الفرائض ۵ (۲۸۹۴)، ت/الفرائض ۱۰ (۲۱۰۰، ۲۱۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۲، ۱۱۵۲۲)، وقد أخرجہ: ط/الفرائض ۸ (۴) حم (۴/ ۲۲۵) (ضعیف)
( قبیصہ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مابین سند میں انقطاع ہے، نیز سند میں بھی اختلاف ہے ، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۴۲۶)۔
۲۷۲۴- قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نانی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا حصہ مانگنے آئی، توآپ نے اس سے کہا: کتاب اللہ (قرآن) میں تمہارے حصے کا کوئی ذکر نہیں، اور رسو ل اکرم ﷺکی سنت میں بھی مجھے تمہارا کوئی حصہ معلوم نہیں، تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کرلوں، آپ نے لوگوں سے پو چھا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا آپﷺ نے اس کو چھٹا حصہ دلایا، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی تھا ؟ تو محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ،اور وہی بات بتائی جو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بتائی تھی، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کو نا فذ کر دیا ۔
پھر دوسری عورت جو دادی تھی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا حصہ مانگنے آئی، تو آپ نے کہا: کتاب اللہ (قرآن) میں تمہارا کوئی حصہ نہیں، اور جو فیصلہ پیشتر ہو چکا ہے وہ تمہارے لئے نہیں، بلکہ نانی کے لئے ہوا، اورمیں از خود فرائض میں کچھ بڑھا بھی نہیں سکتا ، وہی چھٹا حصہ ہے اگر دادی اور نانی دونوں ہوں تو دو نوں اس چھٹے حصے کو آدھا آدھا تقسیم کر لیں، اور دونوں میں سے ایک ہو تو وہ چھٹا حصہ پورا لے لے۔


2725- حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَرَّثَ جَدَّ ةً سُدُسًا۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۶، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۵)، وقد أخرجہ: دي/الفرائض ۱۸ (۲۹۷۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں لیث بن أبی سلیم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور شریک القاضی میں بھی ضعف ہے)
۲۷۲۵- عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے دادی ونانی کو چھٹے حصے کا وا رث بنایا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الْكَلالَةِ
۵ -باب: کلالہ کا بیان​


2726- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمُرِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَامَ خَطِيبًا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، أَوْ خَطَبَهُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ! مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلالَةِ، وَقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْئٍ، مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي جَنْبِي، أَوْ فِي صَدْرِي، ثُمَّ قَالَ: " يَا عُمَرُ ! تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَائِ "۔
* تخريج: م/الفرائض ۲ (۱۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۴۶)، وقد أخرجہ: ط/الفرائض ۹ (۷)، حم (۱/۱۵، ۲۶، ۲۷، ۴۸) (صحیح)
۲۷۲۶- معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہو ے، یا خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے بعد کلالہ (ایسا مرنے والا جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا) کے معاملے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں چھوڑ رہا ہوں،میں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی پوچھا ،تو آپﷺ نے اس قدر سختی سے جواب دیا کہ ویسی سختی آپ نے مجھ سے کبھی نہیں کی یہا ں تک کہ اپنی انگلی سے میری پسلی یا سینہ میں ٹھوکا مارا پھر فرمایا : '' اے عمر ! تمہارے لئے آیت صیف {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ } (آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں: آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے: سورۃ النساء : ۱۷۶) جو کہ سورہ نساء کے آخر میں نازل ہو ئی، وہی کافی ہے۔


2727- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ثَلاثٌ، لأَنْ يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيَّنَهُنَّ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا: الْكَلالَةُ وَالرِّبَا وَالْخِلافَةُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۴۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۷) (ضعیف)
(سندمیں مرہ بن شراحیل اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)
۲۷۲۷- مرہ بن شراحیل کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر رسول اللہﷺ ان کوبیان فرما دیتے تو میرے لئے یہ دنیا و مافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہو تا، یعنی کلا لہ ، سود اور خلا فت ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان تینوں مسائل کا تفصیلی علم دنیاوما فیہا سے پسندیدہ اورقیمتی چیز ہوتی، حقیقت میں ان مسئلوں کو آپ ﷺ مجمل چھوڑ گئے ، سود کی حرمت کی علت اور سبب میں مجتہدین کے درمیان اختلاف ہوا اور مسئلہ خلافت میں بھی اختلاف ہوا یہاں تک کہ روافض (شیعہ) شیخین (ابوبکروعمر) اور عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کا انکار کیا اور اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ گمراہ ہوگئے ، اگر نبی کریم ﷺ کھول کر بیان فرمادیتے کہ میرے بعد فلاں شخص خلیفہ ہے تو یہ اختلاف ہی نہ ہوتا ، مگر آپ حکم الہی کے تابع تھے اور اللہ کی مرضی یہی تھی کہ خلافت کا حکم مجمل رہے اور صحابہ اپنی رائے سے جس کو مناسب سمجھیں اپنا حاکم بنائیں ، اس میں دین ودنیا کے فائدے تھے اور یہ بھی حق تعالی کو منظور تھا کہ یہ چاروں خلفاء راشدین :ابو بکر، عمر،عثمان اور علی رضی اللہ عنہم خلافت سے فائدہ اٹھائیں اور ایسا ہی ہوا ، اگر سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوجاتے تو ان تینوں کو بالکل خلافت نہ ملتی ، پس جو کچھ ہوا وہی اچھا ہوا ، مرضی مولی از ہمہ اولی ، تعجب ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تو اتفاق رائے سے ایک آدمی یعنی ابوبکررضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا اور اس کی اطاعت قبول کی اور اس کے سایہ عاطفت میں دین کی ترقی میں مصروف رہے ، لیکن ان کے گزرجانے کے بعد چند بے وقوف ایسے پیدا ہوئے کہ اس خلافت کو ناحق سمجھنے لگے ، کہو تم کو کیا غرض؟ تم اپنے زمانہ کی فکر کرو ،اگلے زمانہ میں جو ہوا وہ اچھا ہوا ان کی خلافت سے تم کو کیا نقصان ہوسکتا ہے ؟۔


2728- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعُودُنِي هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ، وَهُمَا مَاشِيَانِ، وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ أَصْنَعُ؟ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي؟ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فِي آخِرِ النِّسَائِ { وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً} وَ {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ }الآيَةَ۔
* تخريج: خ/الفرائض ۱۳ (۶۷۴۳)، م/الفرائض ۲ (۱۶۱۶)، د/الفرائض ۲ (۲۸۸۶)، ت/الفرائض ۷ (۲۰۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۲۸)، وقد أخرجہ: دي/الطہارۃ ۵۵ (۷۳۹) (صحیح)
۲۷۲۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بیما ر ہوا تو میرے پا س رسول اللہﷺ عیادت کر نے آئے، ابوبکررضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے، دونوں پیدل آئے، مجھ پر بیہوشی طا ری تھی، تو رسول اللہﷺ نے وضو ء فرمایا، اور اپنے وضوء کا پانی مجھ پرچھڑکا( مجھے ہوش آگیا)تو میں نے کہا: اللہ کے رسول !میں کیا کروں ؟اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں ؟ یہاں تک کہ سورہ نساء کے اخیر میں میراث کی یہ آیت نا زل ہو ئی { وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً}(اورجن کی میراث لی جاتی ہے، وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو: سورۃالنساء: 12) اور {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ ْ} (آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں: آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے: سورۃ النساء : ۱۷۶) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مِيرَاثِ أَهْلِ الإِسْلامِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ
۶-باب: مسلمان اورکافر و مشرک ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے​


2729- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ : " لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ "۔
* تخريج: خ/الحج ۴۴ (۱۵۸۸)، المغازي ۴۸ (۴۲۸۳)، الفرائض ۲۶ (۶۷۶۴)، م/الفرائض ۱ (۱۶۱۴)، د/الفرائض ۱۰ (۲۹۰۹)، ت/الفرائض ۱۵ (۲۱۰۷)، (تحفۃ الأشراف :۱۱۳)، وقد أخرجہ: ط/الفرائض۱۳ (۱۰)، حم (۵/۲۰۰، ۲۰۱، ۲۰۸، ۲۰۹)، دي/الفرائض ۲۹ (۳۰۴۱) (صحیح)
۲۷۲۹- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' مسلمان کافر کا وا رث نہیں ہو گا، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کافر تو بالاجماع مسلمان کا وارث نہ ہوگا اور اکثر علماء کے نزدیک مسلمان کافرکا وارث نہ ہوگا ۔


2730- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ أَخْبَرَهُ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ؛ أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ ؟ قَالَ: " وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ؟ " وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ، هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ يَرِثْ جَعْفَرٌ وَلا عَلِيٌّ شَيْئًا، لأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ، فَكَانَ عُمَرُ، مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ يَقُولُ: لا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ. وَقَالَ أُسَامَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ "۔
* تخريج: حدیث '' لایرث المسلم الکافر '' تقدم تخریجہ بالحدیث السابق (۲۷۲۹)، وحدیث '' وہل ترک لنا عقیل '' أخرجہ: خ/الحج ۴۴ (۱۵۸۸)، الجہاد ۱۸۰ (۳۰۵۸)، المغازي ۴۸ (۴۲۸۲)، م/الحج ۸۰ (۱۳۵۱)، د/المناسک (۲۰۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴)، وقد أخرجہ: ط/الفرائض ۱۳ (۱۰)، حم (۲/۲۳۷، دي/الفرائض ۲۹ (۳۰۳۶) (صحیح)
۲۷۳۰- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ انہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول!کیا آپ مکہ میں اپنے گھر میں ٹھہر یں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ''عقیل نے ہما رے لئے گھر یا زمین چھو ڑی ہی کہا ں ہے''؟عقیل اور طا لب دونوں ابو طا لب کے وارث بنے اور جعفراورعلی رضی اللہ عنہما کوکچھ بھی تر کہ نہیں ملا اس لئے کہ یہ دونوں مسلمان تھے، اورعقیل و طا لب دونوں (ابو طا لب کے انتقال کے وقت) کافر تھے، اسی بنا ء پر عمر رضی اللہ عنہ کہا کر تے تھے کہ مو من کافر کا وارث نہیں ہو گا ۔
اور اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' نہ مسلمان کا فر کا وا رث ہو گا، اور نہ ہی کا فر مسلمان کا '' ۔


2731- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدَ أَنَّ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ، أَخْبَرَهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لايَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۸۷۸۰)، وقد أخرجہ: د/الفرائض ۱۰ (۲۹۱۱)، ت/الفرائض ۱۶ (۲۱۰۹)، حم (۲/۱۷۸، ۱۹۵) (حسن صحیح)
۲۷۳۱- عبداللہ بن عمرو بن العا ص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' دو مذہب والے (جیسے کافر اور مسلمان ) ایک دوسرے کے وا رث نہیں ہوں گے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7 - بَاب مِيرَاثِ الْوَلاء
۷-باب: ولا ء یعنی غلام آزاد کرنے پر حاصل ہونے والے حق وراثت کا بیان​


2732- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: تَزَوَّجَ رَبَابُ بْنُ حُذَيْفَةَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ سَهْمٍ أُمَّ وَائِلٍ بِنْتَ مَعْمَرٍ الْجُمَحِيَّةَ، فَوَلَدَتْ لَهُ ثَلاثَةً، فَتُوُفِّيَتْ أُمُّهُمْ، فَوَرِثَهَا بَنُوهَا، رِبَاعًا وَوَلاءَ مَوَالِيهَا، فَخَرَجَ بِهِمْ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى الشَّامِ، فَمَاتُوا فِي طَاعُونِ عَمْوَاسٍ، فَوَرِثَهُمْ عَمْرُو، وَكَانَ عَصَبَتَهُمْ، فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، جَاءَ بَنُو مَعْمَرٍ، يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلائِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ عُمَرُ : أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ، مَنْ كَانَ " قَالَ: فَقَضَى لَنَا بِهِ، وَكَتَبَ لَنَا بِهِ كِتَابًا، فِيهِ شَهَادَةُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَآخَرَ، حَتَّى إِذَا اسْتُخْلِفَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ، تُوُفِّيَ مَوْلًى لَهَا، وَتَرَكَ أَلْفَيْ دِينَارٍ، فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ الْقَضَاءَ قَدْ غُيِّرَ، فَخَاصَمُوا إِلَى هِشَامِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، فَرَفَعَنَا إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ، فَأَتَيْنَاهُ بِكِتَابِ عُمَرَ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتُ لأَرَى أَنَّ هَذَا مِنَ الْقَضَائِ الَّذِي لا يُشَكُّ فِيهِ، وَمَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَمْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَلَغَ هَذَا، أَنْ يَشُكُّوا فِي هَذَا الْقَضَائِ، فَقَضَى لَنَا فِيهِ، فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ بَعْدُ۔
* تخريج: د/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷) (حسن)
۲۷۳۲- عبداللہ بن عمرو بن العا ص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمحیہ سے نکاح کیا، اوران کے تین بچے ہوئے، پھر ان کی ما ں کا انتقال ہوا ، تو اس کے بیٹے زمین جا ئدا د اوران کے غلاموں کی ولا ء کے وارث ہو ئے، ان سب کولے کر عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ شام گئے، وہ سب طاعون عمو اس میں مر گئے تو ان کے وارث عمرو رضی اللہ عنہ ہوئے، جو ان کے عصبہ تھے، اس کے بعد جب عمر و بن العا ص رضی اللہ عنہ شام سے لو ٹے تو معمر کے بیٹے عمرو بن العا ص رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بہن کے ولاء (حق میراث) کا مقدمہ لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جو رسول اللہﷺ سے سنا ہے اسی کے مطا بق تمہارا فیصلہ کروں گا،میں نے آپﷺ کو فرماتے سنا: ''جس ولا ء کو لڑکا اور والد حا صل کریں وہ ان کے عصبہ کو ملے گا خواہ وہ کو ئی بھی ہو''، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے ہما رے حق میں فیصلہ کر دیا، اور ہما رے لئے ایک دستا ویز لکھ دی، جس میں عبدا لرحمن بن عوف، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک تیسرے شخص کی گو اہی درج تھی،جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہو ئے تو ام وائل کا ایک غلام مر گیا،جس نے دو ہزار دینا ر میراث میں چھو ڑے تھے، مجھے پتہ چلا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا کیا ہو افیصلہ بدل دیا گیا ہے، اور اس کا مقدمہ ہشام بن اسما عیل کے پاس گیا ہے ،توہم نے معاملہ عبدالملک کے سامنے اٹھا یا، اور ان کے سا منے عمر رضی اللہ عنہ کی دستا ویز پیش کی جس پر عبدالملک نے کہا :میر ے خیال سے تو یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں کسی کو بھی شک نہیں کر نا چا ہیے، اور میں یہ نہیں سمجھ رہاتھا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اس جیسے (واضح)فیصلے میں شک کررہے ہیں، آخر کا ر عبدالملک نے ہما ری مو افقت میں فیصلہ کیا، اور ہم برابر اس میراث پر قابض رہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ولا ء کا قاعدہ یہ ہے کہ اس غلام یا لونڈی کے ذوی الفروض سے جو بچ رہے گا وہ آزاد کرنے والے کو ملے گا ، اگر ذوی الفروض میں سے کوئی نہ ہو اور نہ قریبی عصبات میں سے تو کل مال آزاد کرنے والے کو مل جائے گا، اور جب ایک مرتبہ ام وائل کے غلاموں کی ولاء اس کے بیٹوں کی وجہ سے سسرال والوں میں آگئی تو وہ اب کبھی پھر ام وائل کے خاندان میں جانے والی نہیں تھی جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا۔


2733- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ مَوْلًى لِلنَّبِيِّ ﷺ وَقَعَ مِنْ نَخْلَةٍ فَمَاتَ، وَتَرَكَ مَالا وَلَمْ يَتْرُكْ وَلَدًا وَلا حَمِيمًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " أَعْطُوا مِيرَاثَهُ رَجُلا مِنْ أَهْلِ قَرْيَتِهِ "۔
* تخريج: د/الفرائض ۸ (۲۹۰۲)، ت/الفرائض ۱۳ (۲۱۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۷، ۱۷۴،۱۸۱) (صحیح)
۲۷۳۳- ام المو منین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کا ایک غلام کھجور کے درخت پر سے گرکر مرگیا ،اور کچھ مال چھوڑگیا ، اس نے کو ئی اولاد یا رشتہ دار نہیں چھوڑا،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اس کی میراث اس کے گا ئوں میں سے کسی کو دے دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ میراث رسول اکرم ﷺ کی تھی مگرانبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے اس لیے آپ نے میراث نہیں لی ، بیت المال میں ایسی میراث رکھنے کاامام کو اختیار ہے، آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کی بستی والے اس کے مال سے فائدہ اٹھائیں ۔


2734- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى: عَنِ الْحَكَمِ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ بِنْتِ حَمْزَةَ، قَالَ مُحَمَّدٌ، يَعْنِي ابْنَ أَبِي لَيْلَى، وَهِيَ أُخْتُ ابْنِ شَدَّادٍ، لأُمِّهِ قَالَتْ : مَاتَ مَوْلايَ وَتَرَكَ ابْنَةً، فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَالَهُ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنَتِهِ، فَجَعَلَ لِيَ النِّصْفَ، وَلَهَا النِّصْفَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۷۲، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۶)، وقد أخرجہ: دي/الفرائض ۳۱ (۳۰۵۶) (حسن)
(سند میں ابن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۶۹۶)
۲۷۳۴- عبداللہ بن شدادکی اخیا فی بہن بنت حمزہ کہتی ہیں کہ میرا ایک غلا م فو ت ہو گیا، اس نے ایک بیٹی چھوڑی، تو رسول اکرم ﷺ نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم کیا ،اور مجھے اور اس کی بیٹی کو آدھا آدھا دیا ،(بیٹی کو بطور فرض اور بہن کو بطور عصبہ)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مِيرَاثِ الْقَاتِلِ
۸-باب: قاتل کی میرا ث کے حکم کا بیان​


2735- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " الْقَاتِلُ لا يَرِثُ "۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۷(۲۱۰۹)، (تحفۃ الأ شراف: ۱۲۲۸۶) وقد مضی برقم: (۲۶۴۵) (صحیح)
۲۷۳۵- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' قاتل وا رث نہ ہو گا '' ۔


2736- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى؛ قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَقَالَ: " الْمَرْأَةُ تَرِثُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا وَمَالِهِ، وَهُوَ يَرِثُ مِنْ دِيَتِهَا وَمَالِهَا، مَا لَمْ يَقْتُلْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ عَمْدًا، لَمْ يَرِثْ مِنْ دِيَتِهِ وَمَالِهِ شَيْئًا، وَإِنْ قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ خَطَأً، وَرِثَ مِنْ مَالِهِ، وَلَمْ يَرِثْ مِنْ دِيَتِهِ"۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۶۶، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۸) (موضوع)
(سند میں محمد بن سعید ابو سعید مصلوب فی الزند قہ ہے، جو حدیثیں وضع کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۴۶۷۴)
۲۷۳۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روا یت ہے کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے دن خطبہ کے لئے کھڑے ہو ئے ، اور فرمایا: ''عورت اپنے شو ہر کی دیت اور مال دونوں میں وارث ہو گی، اور شو ہر بیوی کی دیت اور مال میں وارث ہوگا، جب کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل نہ کیا ہو، لیکن جب ایک نے دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کردیا ہو تو اس دیت اور مال سے کسی بھی چیز کا وارث نہیں ہوگا، اور اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو غلطی سے قتل کردیا ہو تو اس کے مال سے تو وارث ہوگا، لیکن دیت سے وارث نہ ہوگا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَابُ ذَوِى الأَرْحَامِ
۹-باب: ذوی الارحام کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : ذوی ا لأرحام : میت کا ایسا رشتہ دار جو نہ ذوی الفروض میں سے ہوا اورنہ عصبہ میں سے۔


2737- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الزُّرَقِيِّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ؛ أَنَّ رَجُلا رَمَى رَجُلا بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ، وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ إِلا خَالٌ، فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ إِلَى عُمَرَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ "۔
* تخريج: ت/الفرائض ۱۲ (۲۱۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸، ۴۶) (صحیح)
۲۷۳۷- ابو اما مہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو تیر مارا، جس سے وہ مرگیا، اور اس کا ما موں کے علا وہ کو ئی اور وا رث نہیں تھاتو ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو سا را قصہ لکھ بھیجا ،جس کے جو اب میں عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس کا کو ئی مو لی نہیں اس کا مو لی اللہ اور اس کے رسول ہیں ،اور جس کا کوئی وارث نہیں اس کا وارث اس کا ماموں ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالی نے فرمایا: { وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ }[ سورة الأنفال : 75] یعنی رشتے ناتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ،اور یہ شامل ہے ذوی الارحام کو بھی اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہوں گے، اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ عصبات اور ذوی الفروض نہ ہوں تو ذوی الارحام وارث ہوں گے اور وہ بیت المال پر مقدم ہیں ۔ (الروضۃ الندیۃ )


2738- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي بُدَيْلُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْهَوْزَنِيِّ، عَنِ الْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ ا للَّهِ ﷺ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ تَرَكَ مَالا فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ تَرَكَ كَلا فَإِلَيْنَا{وَرُبَّمَا قَالَ: فَإِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ} وَأَنَا وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ، أَعْقِلُ عَنْهُ وَأَرِثُهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لا وَارِثَ لَهُ، يَعْقِلُ عَنْهُ وَيَرِثُهُ "۔
* تخريج: د/الفرائض ۸ (۲۸۹۹، ۲۹۰۰)، (تحفۃ الأشراف:۱۱۵۶۹) (حسن صحیح)
۲۷۳۸- مقدام ابو کریمہ رضی اللہ عنہ (جو اہل شام میں سے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :''جس نے مال چھو ڑا تو وہ اس کے وا رثو ں کا ہے، اور جو شخص بو جھ ( قرض یا محتاج اہل وعیال ) چھو ڑ جائے تو وہ ہما رے ذمہ ہے ''،اور کبھی آپ ﷺنے فر مایا: '' اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ ہے، جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کا وارث میں ہوں،میں ہی اس کی دیت دوں گا، اور میں ہی میر اث لو ں گا، اورماموں اس شخص کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو ، وہی اس کی طرف سے دیت دے گا، اور وہی اس کا وا رث بھی ہو گا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مِيرَاثِ الْعَصَبَةِ
۱۰-باب: عصبہ کی میر اث کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : عصبہ وہ قوی وارث ہے جس کا حصہ اللہ تعالی کی کتاب میں مقرر نہیں ، لیکن حصہ والوں کو دے کر جو مال بچ رہے وہ سب اسی کا ہوتا ہے جیسے بیٹا ، باپ ، جب میت کا بیٹا نہ ہو چچا بھائی وغیرہ ۔


2739- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ،حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍالْبَكْرَاوِيُّ،حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ؛ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الأُمِّ يَتَوَارَثُونَ، دُونَ بَنِي الْعَلاتِ، يَرِثُ الرَّجُلُ أَخَاهُ، لأَبِيهِ وَأُمِّهِ، دُونَ إِخْوَتِهِ لأَبِيهِ۔
* تخريج: ت/الفرائض ۵ (۲۰۹۴، ۲۰۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۴۳)، وقد أخرجہ: دي/الفرائض ۲۸ (۳۰۲۷)، وقد مضی برقم: ۲۷۱۵ (حسن)
( سند میں ابو بحرالبکراوی اور الحارث الاعور دونوں ضعیف ہیں ، لیکن سعد بن الاطول رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
۲۷۳۹- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سگے بھا ئی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، علاتی ۱؎ کے نہیں ،آدمی اپنے سگے بھا ئی کا وا رث ہو گا علا تی بھا ئیوں کا نہیں '' ۔
وضاحت ۱؎ : حقیقی( سگے) بھائی یعنی وہ جن کے ماں اور باپ دونوں ایک ہوں ،اور علاتی سے مراد وہ بھائی ہیں جن کے باپ ایک ہو، اور ماں الگ الگ ہو، اور جن کی ماں ایک ہو باپ الگ الگ ہوں ، انہیں اخیا فی بھائی کہتے ہیں ۔


2740- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " اقْسِمُوا الْمَالَ بَيْنَ أَهْلِ الْفَرَائِضِ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، فَمَا تَرَكَتِ الْفَرَائِضُ، فَلأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ "۔
* تخريج: خ/الفرائض ۵ (۶۷۳۲)، م/الفرائض ۱ (۱۶۱۵)، د/الفرائض ۷ (۲۸۹۸)، ت/الفرائض ۸ (۲۰۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۲، ۳۱۳، ۳۲۵)، دي/الفرائض ۲۸ (۳۰۳۰) (صحیح)
۲۷۴۰- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' مال کو اللہ کی کتا ب(قرآن) کے مطا بق ذوی الفروض (میرا ث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جوان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مر د کا ہو گا جو میت کا ز یا دہ قریبی ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جیسے بھائی چچا کے بہ نسبت اور چچا زاد بھائی کی بہ نسبت اور بیٹا پوتے کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہے۔
 
Top