• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَنْ لا وَارِثَ لَهُ
۱۱-باب: لا وارث میت کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : نہ ذوی الفروض ،نہ عصبات ،نہ ذوی الارحا م میں سے نہ معتق (یعنی آزاد کردہ) نہ اور کوئی تو اس کا مال بیت المال میں داخل ہونا چاہئے ،نیز امام کو تصرف کا اختیار ہے کہ بیت المال کا مال جس مستحق کو مناسب سمجھے دے ۔


2741- حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَوْسَجَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: وَلَمْ يَدَعْ لَهُ وَارِثًا، إِلا عَبْدًا، هُوَ أَعْتَقَهُ، فَدَفَعَ النَّبِيُّ ﷺ مِيرَاثَهُ إِلَيْهِ۔
* تخريج: د/الفرائض ۸ (۲۹۰۵)، ت/الفرائض ۱۴ (۲۱۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۱، ۳۵۸) (ضعیف)
(سند میں عوسجہ کی وجہ سے ضعف ہے،نیزملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۶۶۹)۔
۲۷۴۱- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص مرگیا، اور اس نے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے ، جس کو اس نے آزاد کردیاتھا تو آپ نے اس کی میراث اسی غلام کو دلادی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
12- بَاب تُحرِزُ الْمَرْأَةُ ثَلاثَ مَوَارِيثَ
۱۲-باب: عورت تین آدمیوں کا ترکہ پاتی ہے​


2742- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيُّ، عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ النَّصْرِيِّ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " الْمَرْأَةُ تَحُوزُ ثَلاثَ مَوَارِيثَ، عَتِيقِهَا، وَلَقِيطِهَا، وَوَلَدِهَا الَّذِي لاعَنَتْ عَلَيْهِ " قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ: مَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ هِشَامٍ۔
* تخريج: د/الفرائض ۹ (۲۹۰۶)، ت/الفرائض ۲۳ (۲۱۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۹۰، ۴/۱۰۶،۱۰۷) (ضعیف)
(سند میں عمر بن رؤبہ التغلبی کی وجہ سے ضعف ہے)
۲۷۴۲- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' عورت تین میراث حاصل کرتی ہے، ایک تو اپنے اس غلا م یا لو نڈی کی میراث جس کو وہ آزاد کرے، دو سرے اس بچے کی میراث جس کو راستہ میں لاوارث پا کر پرورش کرے، تیسرے اس بچے کی میراث جس پر اپنے شوہر سے لعان کرے''۔
محمد بن یزید کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہشام کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَنْ أَنْكَرَ وَلَدَهُ
۱۳-باب: جو اپنے بچے کے بارے میں یہ کہہ دے کہ یہ میرا نہیں ہے اس پر وارد وعید کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : شوہر اس بچہ کا وارث نہ ہوگا جس کو اس نے غیر کا بچہ ظاہر کیا ، اور اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی ۔


2743- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَلْحَقَتْ بِقَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْئٍ . وَلَنْ يُدْخِلَهَا جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ أَنْكَرَ وَلَدَهُ، وَقَدْ عَرَفَهُ، احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَفَضَحَهُ عَلَى رُئُوسِ الأَشْهَادِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۹۶۹)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۲۹ (۲۲۶۳)، ن/الطلاق ۴۷ (۳۵۱۱)، دي/النکاح ۴۲ (۲۲۸۴) (ضعیف)
(سند میں یحییٰ بن حرب مجہول ، اور موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں )
۲۷۴۳- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب لعان کی آیت نا زل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جس عورت نے کسی قوم میں ایسے ( بچہ ) کو ملا دیا جو ان میں سے نہیں تھا، تو اس کا اللہ تعالی سے کو ئی تعلق نہیں ،اور وہ اس کی جنت میں ہرگز دا خل نہ ہو گی، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کو پہچان لینے کے با وجو د انکا ر کر دیا، قیامت کے دن اللہ تعالی اس سے پردہ کرے گا ، اور سب کے سامنے اس کو ذلیل و رسوا کر ے گا ''۔


2744- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ،عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " كُفْرٌ بِامْرِئٍ ادِّعَاءُ نَسَبٍ لا يَعْرِفُهُ، أَوْجَحْدُهُ وَإِنْ دَقَّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأ شراف: ۸۸۱۷ ألف، ومصباح الزجاجۃ: ۹۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۵) (حسن صحیح)
۲۷۴۴- عبداللہ بن عمر و بن العا ص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''کسی شخص کا ایسے نسب کا دعوی کرنا جس کو وہ پہچا نتا نہیں کفر ہے ۱؎ یا اپنے نسب کا انکا ر کر دینا گر چہ اس کا سبب باریک (دقیق) ہو یہ بھی کفر ہے''۔
وضاحت ۱؎ : یہاں پرکفر سے مراد نسب کی نا شکری ہے ،کیونکہ وہ اپنے باپ کو چھوڑ کر جو کہ اس کے وجو د کا سبب ہے، دوسرے کا بیٹا بنا چاہتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي ادِّعَاءِ الْوَلَدِ
۱۴-باب: بچے کا دعو ی کرنا اس کے حکم کا بیان​


2745- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ عَاهَرَ أَمَةً أَوْ حُرَّةً، فَوَلَدُهُ وَلَدُ زِنًا، لا يَرِثُ وَلا يُورَثُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۸)، وقد أخرجہ: ت/الفرائض ۲۱ (۲۱۱۳) (حسن)
(سند میں مثنی بن الصباح ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد سے تقو یت پاکر یہ حسن ہے)
۲۷۴۵- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے کسی لونڈی یا آزاد عورت سے زنا کیا ،پھر اس سے بچہ پیدا ہوا تو وہ ولدالزنا ہے ، نہ وہ مرد اس بچے کا وارث ہوگا ، نہ وہ بچہ اس مرد کا۔


2746- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلالٍ الدِّمَشْقِيُّ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " كُلُّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ، ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ مِنْ بَعْدِهِ، فَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا، فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ، وَلَيْسَ لَهُ فِيمَا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْئٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ، فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لا يَمْلِكُهَا، أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا، فَإِنَّهُ لا يَلْحَقُ وَلا يُورَثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ، فَهُوَ وَلَدُ زِنًا، لأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً ".
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: يَعْنِي بِذَلِكَ مَا قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الإِسْلامِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۱۲ألف، ومصباح الزجاجۃ: ۹۷۱)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۳۰ (۲۲۶۵)، حم (۲/۱۸۱، ۲۱۹)، دي/الفرائض ۴۵ (۳۱۵۴) (حسن)
(بوصیری نے کہا کہ ابو داود اور ترمذی نے بعض حدیث ذکر کی ہے)۔
۲۷۴۶- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس بچے کا نسب اس کے والد کے مرنے کے بعد اس سے ملا یا جا ئے مثلاً اس کے بعد اس کے وا رث دعو ی کریں ( کہ یہ ہما رے مورث کا بچہ ہے) تو آپﷺ نے اس میں یہ فیصلہ فرمایا: ''اگر وہ بچہ لونڈی کے پیٹ سے ہو لیکن وہ لونڈی اس کے والد کی ملکیت رہی ہو جس دن اس نے اس سے جماع کیا تھا تو ایسا بچہ یقینا اپنے والد سے مل جائے گا، لیکن اس کو اس میراث میں سے حصہ نہ ملے گا جو اسلام کے زمانے سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں اس کے والد کے دوسرے وارثوں نے تقسیم کرلی ہو ، البتہ اگر ایسی میراث ہو جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو تو اس میں سے وہ بھی حصہ پائے گا، لیکن اگر اس کے والد نے جس سے وہ اب ملایا جاتا ہے ، اپنی زندگی میں اس سے انکار کیا ہو یعنی یوں کہا ہو کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے ، تو وارثوں کے ملانے سے وہ اب اس کا بچہ نہ ہوگا ، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہو جو اس مرد کی ملکیت نہ تھی، یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہوگا، گو اس مرد کے وارث اس بچے کو اس مرد سے ملادیں، اور وہ بچہ اس مرد کا وارث بھی نہ ہوگا ،(اس لئے کہ وہ ولدالزنا ہے ) گوکہ اس مرد نے خود اپنی زندگی میں بھی یہ کہا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے ، جب بھی وہ ولدالزنا ہی ہوگا، اور عورت کے کنبے والوں کے پاس رہے گا، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی '' ۔
محمد بن راشد کہتے ہیں: اس سے مراد وہ میراث ہے جو اسلام سے پہلے جاہلیت میں تقسیم کردی گئی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
15- بَاب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْوَلاءِ وَعَنْ هِبَتِهِ
۱۵-باب: حق ولا ء (میراث) کو بیچنا اور ہبہ کرنا ممنوع ہے​


2747- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْوَلاءِ وَعَنْ هِبَتِهِ۔
* تخريج: خ/العتق ۱۰ (۲۵۳۵)، الفرائض ۲۱ (۶۷۵۶)، م/العتق ۳ (۱۵۰۶)، د/الفرائض ۱۴ (۲۹۱۹)، ت/البیوع ۲۰، (۱۲۳۶)، ن/البیوع ۸۵ (۴۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۵، ۷۱۸۹)، وقد أخرجہ: ط/العتق والولاء ۱۰ (۲۰)، حم (۳/۹، ۷۹، ۱۰۷)، دي/البیوع ۳۶ (۲۶۱۴) (صحیح)
۲۷۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حق ولا ء (میراث) کو بیچنے اور اس کے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ولاء (میراث) ایک طرح کی رشتہ داری ہے اس کا بیچنا اور ہبہ کرنا کیونکر جائز ہوگا ، جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔


2748- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْوَلاءِ وَعَنْ هِبَتِهِ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأ شراف: ۸۲۲۲)،وقد أخرجہ: ت/البیوع ۲۰ (۱۲۳۶)، ۵۴ (۱۲۸۷)، (صحیح)
(سند میں محمد بن عبد الملک صدوق ہیں، اس لئے یہ اسناد حسن ہے ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۷۴۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حق ولا ء (میراث) کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایاہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
16- بَاب قِسْمَةِ الْمَوَارِيثِ
۱۶-باب: میراث( تر کہ) کی تقسیم کا بیان​


2749- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُقَيْلٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ نَافِعًا يُخْبِرُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ : " مَا كَانَ مِنْ مِيرَاثٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَهُوَ عَلَى قِسْمَةِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَا كَانَ مِنْ مِيرَاثٍ أَدْرَكَهُ الإِسْلامُ، فَهُوَ عَلَى قِسْمَةِ الإِسْلامِ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۳۲ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۷۲) (صحیح)
(سند میں ابن لہیعہ ضعیف الحفظ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے ، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۷۱۷، تراجع الألبانی: رقم: ۴۸۶)
۲۷۴۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جو میر اث زما نہ جا ہلیت میں تقسیم ہو چکی، وہ بدستور اس تقسیم پر رہے گی، اور جو میراث زما نہ اسلام آنے تک تقسیم نہیں ہو ئی اسے اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کیا جا ئے گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے کیسا عمدہ مسئلہ حل ہوا کہ ہر قانون کا عمل اس کے نفاذ کے بعد سے جو مقدمات پیدا ہوں ان پر ہوتا ہے اور جن مقدمات کے فیصلے قانون کے نفاذ سے پہلے ہوچکے ہوں ان میں اس قانون کے نفاذ سے کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
17- بَاب إِذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ وَرِثَ
۱۷-باب: پیدا ہوتے ہی رونے والے بچہ کے وارث ہونے کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : پیدا ہوتے ہی رونے والے بچے کی میراث اس کے وارث پائیں گے لیکن اگر بچہ مردہ پیدا ہو،اور روئے نہیں تو وہ وارث نہ ہوگا، نہ اس کا کوئی وارث ہوگا گو یا کہ وہ پیدا ہی نہیں ہوا ۔


2750- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَيْهِ، وَوَرِثَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۸)، وقد أخرجہ: ت/الجنائز ۴۳ (۱۰۳۲)، دي/الفرائض ۴۷ (۳۱۶۸)، وقد مضی برقم: (۱۵۰۸) (صحیح)
۲۷۵۰- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بچہ پیدائش کے وقت رو دے تو اس پر صلاۃ جنا زہ پڑھی جائے گی، اور وہ وا رث بھی ہو گا ''۔


2751- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ،حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ وَالْمِسْوَرِبْنِ مَخْرَمَةَ؛ قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَرِثُ الصَّبِيُّ حَتَّى يَسْتَهِلَّ صَارِخًا "، قَالَ: وَاسْتِهْلالُهُ، أَنْ يَبْكِيَ وَيَصِيحَ أَوْ يَعْطِسَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۵۷، (الف) ۱۲۶۶ (الف) (صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم: ۵۸۴)
۲۷۵۱- جا بر بن عبداللہ اورمسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' ( ولادت کے وقت) بچہ وارث نہیں ہو گا جب تک کہ وہ زور سے استہلا ل نہ کرے '' ۱؎ ۔
روای کہتے ہیں: بچے کے استہلال کا مطلب یہ ہے کہ وہ روے یا چیخے یا چھینکے۔
وضاحت ۱؎ : غرض کوئی کام ایسا کرے جس سے اس کی زندگی ثابت ہو تو وہ وارث ہوگا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
18- بَاب الرَّجُل يُسْلِمُ عَلَى يَدَيِ الرَّجُلِ
۱۸-باب: نومسلم کا وارث وہ ہے جس کے ہاتھ پر اس نے اسلام قبول کیاہے​


2752- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ تَمِيمًا الدَّارِيَّ يَقُولُ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا السُّنَّةُ فِي الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، يُسْلِمُ عَلَى يَدَيِ الرَّجُلِ؟ قَالَ: " هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَحْيَاهُ وَمَمَاتِهِ "۔
* تخريج: د/الفرائض ۱۳ (۲۹۱۸)، ت/الفرائض۲۰ (۲۱۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰۴، ۱۰۳)، دي/الفرائض ۳۴ (۳۰۷۶) (حسن صحیح)
۲۷۵۲- عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ میں نے تمیم داری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اہل کتاب کا کو ئی آدمی اگر کسی کے ہا تھ پرمسلمان ہو تا ہے تو اس میں شرعی حکم کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: '' زندگی اور موت دونوں حا لتوں میں وہ اس کا زیا دہ قریبی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر نو مسلم کا کوئی وارث نہ تو اس کی میراث کا حق دار وہ شخص ہے جس نے اس کو مسلمان کیا۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

{ 24- كِتَاب الْجِهَادِ }
۲۴-کتاب: جہا د کے فضائل و احکام​

1- بَاب فَضْلِ الْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
۱- باب: اللہ کی راہ میں جہاد کی فضیلت​


2753- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ،عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " أَعَدَّ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لايُخْرِجُهُ إِلا جِهَادٌ فِي سَبِيلِي، وَإِيمَانٌ بِي، وَتَصْدِيقٌ بِرُسُلِي، فَهُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ أَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ، نَائِلا مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ " ثُمَّ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَوْلا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، مَا قَعَدْتُ خِلافَ سَرِيَّةٍ تَخْرُجُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ لا أَجِدُ سَعَةً فَأَحْمِلَهُمْ، وَلا يَجِدُونَ سَعَةً فَيَتَّبِعُونِي، وَلا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ فَيَتَخَلَّفُونَ بَعْدِي، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَوَدِدْتُ أَنْ أَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأُقْتَلَ، ثُمَّ أَغْزُوَ فَأُقْتَلَ ثُمَّ أَغْزُوَ فَأُقْتَلَ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۶ (۳۶ مطولاً)، الجہاد ۲ ۲۷۸۷)، فرض الخمس ۸ (۳۱۲۳)، التوحید ۲۸ (۷۴۵۷)، م/الإمارۃ ۲۸ (۱۸۷۶)، ن/الجہاد ۱۴ (۳۱۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۰۱)، وقد أخرجہ: ط/الجہاد ۱ (۲)، حم (۲/۲۳۱، ۳۸۴، ۳۹۹، ۴۲۴، ۴۹۴)، دي/الجہاد ۲ (۲۴۳۶) (صحیح)
۲۷۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لئے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالی پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو، (تو اللہ تعالی فرماتا ہے ) میں اس کے لئے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجروثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا''، پھر آپ ﷺنے فرمایا: '' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے ،اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑجانے کا ڈر نہ ہو تا تو میں کسی بھی سریہ( لشکر) کا جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے سا تھ نہ چھوڑتا، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ سب کی سواری کا انتظام کر سکوں، نہ لو گوں کے پاس اتنی فراخی ہے کہ وہ ہر جہا د میں میر ے ساتھ رہیں، اور نہ ہی انہیں یہ پسند ہے کہ میںچلا جاؤں ،اور وہ نہ جا سکیں، پیچھے رہ جائیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہا تھ میں محمد کی جان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں، اور قتل کر دیا جا ئوں، پھر جہا د کروں، اور قتل کر دیا جا ئوں، پھر جہا د کروں، اور قتل کر دیا جائوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے دین کے لیے اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی بڑی فضیلت ثابت ہو تی ہے ، اور جہاداسلام کا ایک رکن ہے جس کی فرضیت میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، لیکن وہ فرض کفایہ ہے ، اور اگر نیت خالص ہو تو اس سے سوائے فرائض اور حقوق العباد کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور جہاد کی فضیلت میں بے شمار حدیثیں وارد ہیں، علمائے کرام نے اس باب میں مستقل رسالے لکھے ہیں ،اور جہاد ہر نیک وصالح یا فاسق وفاجرمسلم حکمراں کے جھنڈے تلے صحیح ہے ، جہاد میں یہ شرط و قید نہیں ہے کہ حاکم و امام یا بادشاہ جس کی قیادت میں دشمنوں کے خلاف جنگ لڑی جا ری ہو وہ نیک اور صالح ہو ، کیونکہ سلف صالحین نے خلفاء بنی امیہ اور ظالم حکمرانوں کی قیادت میں جہادکیا، اور کسی نے ان پر انکار نہیں کیا ، ابو دا و د میں حدیث ہے کہ جب سے اللہ تعالی نے مجھ کو نبی بناکر بھیجا جہاد قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا یہاں تک کہ میری آخری امت دجال سے لڑے گی اور جہاد کسی ظالم کے ظلم سے یا کسی عادل کے عدل سے باطل نہیں ہوگا، اور صحیح بخاری میں مرفوعا ً ہے کہ جس کے پاؤں پراللہ کے راستہ کی گرد پڑے تو اللہ تعالی اس کو جہنم پرحرام کردے گا اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن دشمن کے مقابلہ میں مورچہ پر رہنا ساری دنیا وما فیہا سے بہتر ہے، اور دوسر ی حدیث میں ہے کہ جس نے فروں سے جنگ کی اونٹنی کے دودھ دوہنے میں جو ٹھہر جاتے ہیں اتنی دیر بھی تواس کے لئے جنت واجب ہوگئی ، غرض مومن کے لئے جہاد سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں کہ جس کے ساتھ جنت میں جانے کی توقع زیادہ ہو ،اور جب سے مسلمانوں نے حقیقی اور شرعی جہاد کو جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے، چھوڑ دیا ذلیل اور خوار ہوئے ، اے اللہ! مسلمانوں کو ہدایت دے کہ وہ قرآن اور حدیث میں غور کریں اور اس پر عمل کریں، آمین یا رب العالمین۔


2754- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَضْمُونٌ عَلَى اللَّهِ! إِمَّا أَنْ يَكْفِتَهُ إِلَى مَغْفِرَتِهِ وَرَحْمَتِهِ، وَإِمَّا أَنْ يَرْجِعَهُ بِأَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَمَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الَّذِي لا يَفْتُرُ، حَتَّى يَرْجِعَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۲۴ ، ومصباح الزجاجۃ: ۹۷۳) (صحیح)
(سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ واردہے ، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب : ۱۳۰۴ و ۱۳۲۰)
۲۷۵۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' اللہ کے راستہ میں جہا د کر نے والے شخص کا اللہ تعالی ضا من ہے ،یا تو اسے ا پنی رحمت ومغفرت میں ڈھانپ لے ،یا ثواب اور مال غنیمت کے سا تھ اسے (گھر) واپس کرے ،اللہ کے راستہ میں جہا د کر نے والے کی مثال نہ تھکنے والے صائم تہجد گزار کی ہے یہاں تک کہ وہ مجاہد گھر لو ٹ آئے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فَضْلِ الْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۲- باب: اللہ کی راہ میں صبح شام چلنے کی فضیلت​


2755- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "غَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "۔
* تخريج: ت/فضائل الجہاد ۱۷ (۱۶۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۲۸)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۵ (۲۷۹۲)، حم (۲/۵۳۲، ۵۳۳) (صحیح)
۲۷۵۵- ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی کے را ستے میں ایک صبح یا ایک شام (کاوقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ''۔


2756- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " غَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۷۳)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۵ (۲۷۹۴)، ۷۳ (۲۸۹۲)، الرقاق ۲ (۶۴۱۵)، م/الإمارۃ ۳۰ (۱۸۸۱)، ت/فضائل الجہاد ۱۷ (۱۶۴۸)، ۲۶ (۱۶۶۴)، ن/الجہاد ۱۱ (۳۱۲۰)، حم (۳/۴۳۳، ۵/۳۳۵، ۳۳۷، ۳۳۹)، دي/الجہاد ۹ (۲۴۴۳) (صحیح)
۲۷۵۶- سہل بن سعد سا عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کا وقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ''۔


2757- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۷۲۶)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۵ (۲۷۹۲)،م/الإمارۃ ۳۰ (۱۸۸۰)، ت/فضائل الجہاد ۱۷ (۱۶۵۱) (صحیح)
۲۷۵۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کاوقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ''۔
 
Top