• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب صَيْدِ الْمِعْرَاضِ
۷- باب: ہتھیار کی چوڑان سے کیے ہوئے شکار کاحکم​


3214- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،(ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ؛ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الصَّيْدِ بِالْمِعْرَاضِ، قَالَ: " مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ "۔
* تخريج: خ/الصید ۱ (۵۴۷۵)، م/الصید ۱ (۱۹۲۹)، ت/الصید ۷ (۱۴۷۱)، (تحفۃ الأشراف:۹۸۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۶، ۳۷۹، دي/الصید ۱ (۲۰۴۵) (صحیح)
۳۲۱۴- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہتھیار کی چوڑان سے شکار کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو تیر کی نوک سے مرے اسے کھائو، اورجو اس کے عرض (چوڑان )سے مرے وہ مردار ہے '' ۔


3215- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ؛ قَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْمِعْرَاضِ، فَقَالَ : " لا تَأْكُلْ إِلا أَنْ يَخْزِقَ "۔
* تخريج: خ/الصید ۳ (۵۴۷۷)، التوحید ۱۳(۷۳۹۷)، م/الصید ۱ (۱۹۲۹)، ت/الصید ا (۱۴۶۵)، ن/الصید ۳ (۴۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۶، ۲۵۸، ۳۷۷، ۳۸۰) (صحیح)
۳۲۱۵- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہتھیار کی چوڑان سے شکارکے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شکار میں تیر پیوست ہواہو صرف اسی کو کھاؤ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ
۸- باب: زندہ جانور سے کاٹ لئے جانے والے حصے کی حرمت کا بیان​


3216- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ، فَمَا قُطِعَ مِنْهَا فَهُوَ مَيْتَةٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۰۵) (صحیح)
۳۲۱۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے تو کاٹا گیا حصہ مردار کے حکم میں ہے ''۔


3217- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ: يُجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الإِبِلِ، وَيَقْطَعُونَ أَذْنَابَ الْغَنَمِ،أَلا، فَمَا قُطِعَ مِنْ حَيٍّ فَهُوَ مَيِّتٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۰۶) (ضعیف جدا)
(سند میں ابو بکر الہذلی سخت ضعیف، اور شہربن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں)
۳۲۱۷- تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اخیر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اونٹوں کی کوہان اور بکریوں کی دُمیں کاٹیں گے، آ گاہ رہو! زندہ جانور کا جو حصہ کاٹ لیا جائے وہ مردار کے (حکم میں) ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب صَيْدِ الْحِيتَانِ وَالْجَرَادِ
۹- باب: مچھلی اور ٹڈی کا شکار​


3218- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ: الْحُوتُ وَالْجَرَادُ "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۹۷) (صحیح)
(عبد الرحمن ضعیف راوی ہیں، لیکن ان کے اخوان اسامہ و عبد اللہ نے ان کی متابعت کی ہے، اس لئے حدیث صحیح ہے )
۳۲۱۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ہمارے لئے دو مردار: مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں''۔


3219- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَاأَبُوالْعَوَّامِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْجَرَادِ، فَقَالَ: " أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ لا آكُلُهُ وَلا أُحَرِّمُهُ "۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۳۵ (۳۸۱۳، ۳۸۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹۵) (ضعیف)
(حدیث کے موصول اور مرسل ہو نے میں اختلاف ہے، اور اصل یہ ہے کہ یہ مرسل ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۱۵۳۳)
۳۲۱۹- سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ٹڈی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا لشکر ہے ، نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ''۔


3220- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ سَعْدٍ الْبَقَّالِ ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ يَتَهَادَيْنَ الْجَرَادَ عَلَى الأَطْبَاقِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۰۸) (ضعیف)
(سند میں ابوسعید البقال ضعیف ہیں)۔
۳۲۲۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ٹڈیوں کو پلیٹوں میں رکھ کر بطور ہدیہ بھیجتی تھیں ۔


3221- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُلاثَةَ عَنْ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَعَاعَلَى الْجَرَادِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِكْ كِبَارَهُ،وَاقْتُلْ صِغَارَهُ، وَأَفْسِدْ بَيْضَهُ،وَاقْطَعْ دَابِرَهُ، وَخُذْ بِأَفْوَاهِهَا عَنْ مَعَايِشِنَا وَأَرْزَاقِنَا، إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ " فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تَدْعُو عَلَى جُنْدٍ مِنْ أَجْنَادِ اللَّهِ بِقَطْعِ دَابِرهِ؟ قَالَ: إِنَّ الْجَرَادَ نَثْرَةُ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، قَالَ هَاشِمٌ: قَالَ زِيَادٌ: فَحَدَّثَنِي مَنْ رَأَى الْحُوتَ يَنْثُرُهُ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۱، ۲۵۸۵)، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۰۹، وقد أخرجہ: ت/الأطعمۃ ۲۳(۱۸۲۳) (موضوع)
( سند میں موسیٰ بن محمد ضعیف اور منکر احادیث والے ہیں، ابن الجوز ی نے حدیث کو الموضوعات میں داخل کیا ہے، اور موسیٰ کو متہم قراردیا ہے، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۱۱۲)
۳۲۲۱- جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈیوں کے لئے بد دعا کرتے تو فرماتے: اے اللہ ! بڑی ٹڈیوں کو ہلاک کردے ، چھوٹی ٹڈیوں کو مارڈال ،ان کے انڈے خراب کردے، اور ان کی اصل (جڑ) کو کاٹ ڈال اور ان کے منہ کو ہماری روزیوں اور غلوں سے پکڑ لے( انہیں ان تک پہنچنے نہ دے )، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے'' ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول! آپ کیسے اللہ کی ایک فوج کی اصل اور جڑ کاٹنے کے لئے بد دعا فرمارہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ٹڈی دریاکی مچھلی کی چھینک ہے '' ۔
ہاشم کہتے ہیں کہ زیاد (راوی حدیث ) نے کہا: تو مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس نے مچھلی اسے (ٹڈی کو ) چھینکتے دیکھا ۔


3222- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَاحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ،فَاسْتَقْبَلَنَارِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ، أَوْ ضَرْبٌ مِنْ جَرَادٍ،فَجَعَلْنَا نَضْرِبُهُنَّ بِأَسْوَاطِنَا وَنِعَالِنَا،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "كُلُوهُ فَإِنَّهُ مِنْ صَيْدِالْبَحْرِ"۔
* تخريج: د/المناسک ۴۲ (۱۸۵۴)، ت/الحج ۲۷ (۸۵۰)، (تحفۃ الأشراف:۱۴۸۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۶، ۳۶۴، ۳۷۴، ۴۰۷) (ضعیف)
(سند میں ابو المہزم متروک راوی ہیں)
۳۲۲۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرہ کے لئے نکلے، تو ہمارے سامنے ٹڈیوں کا ایک گروہ آیا ،یاایک قسم کی ٹڈیاں آئیں، تو ہم انہیں اپنے کوڑوں اور جوتوں سے مارنے لگے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''انہیں کھاؤ یہ دریا کا شکار ہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا يُنْهَى عَنْ قَتْلِهِ
۱۰ - باب: جن جانوروں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے​


3223- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوعَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ قَتْلِ الصُّرَدِ وَالضِّفْدَعِ وَالنَّمْلَةِ وَالْهُدْهُدِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۰) (صحیح)
(ابراہیم بن الفضل ضعیف ہیں،لیکن حدیث آگے کی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے)
۳۲۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹورا(ایک چھوٹا سا پرندہ)،مینڈک ، چیونٹی اور ہُد ہُد کو قتل کرنے سے منع فرمایاہے۔


3224- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ،أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ،عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ: النَّمْلَةِ وَالنَّحْلِ وَالْهُدْهُدِ وَالصُّرَدِ۔
* تخريج: د/الأدب ۱۶۴ (۵۲۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۳۲،۳۴۷)، دي/الأضاحي ۲۶ (۲۱۴۲) (صحیح)
۳۲۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چارجانوروں: چیونٹی ، شہدکی مکھی ، ہد ہد اور لٹورا کو قتل کرنے سے منع فرمایاہے۔


3225- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْمِصْرِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ ﷺ؛ قَالَ: " إِنَّ نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ قَرَصَتْهُ نَمْلَةٌ،فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ: فِي أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ،أَهْلَكْتَ أُمَّةً مِنَ الأُمَمِ تُسَبِّحُ ؟ "
* تخريج: خ/الجہاد ۱۵۳ (۳۰۱۹)، بدء الخلق ۱۶ (۳۳۱۹)، م/السلام ۳۹ (۲۲۴۱)، د/الأدب ۱۷۶ (۵۲۶۶)، ن/الصید والذبائح ۳۸ (۴۳۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۱۹، ۱۵۳۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۰۳) (صحیح)
۳۲۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''انبیاء میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا،تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر جلادینے کا حکم دیا، تو وہ جلادیئے گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی نازل کی کہ آپ نے ایک چیونٹی کے کاٹنے کی وجہ سے امتوں ( مخلوقات )میں سے ایک امت (مخلوق )کو تباہ کردیا، جو اللہ تعالی کی تسبیح کرتی تھی '' ؟ ۔
3225/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِهِ، نَحْوَهُ، وَقَالَ: قَرَصَتْ۔
۳۲۲۵/أ- اس سند سے بھی ابن شہاب نے سابقہ طریق سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے،اس میں 'قَرَصَتْه' کی بجائے 'قَرَصَتْ ' کا لفظ وارد ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب النَّهْيِ عَنِ الْخَذْفِ
۱۱- باب: خذف یعنی چھوٹی کنکریاں مارنے کی ممانعت ۱؎​
وضاحت ۱؎ : جیسے اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کھیل کے طور پر انگلیوں یا غلیل سے کنکریاںمار اکرتے ہیں، اس سے منع کیا کیونکہ یہ بے فائدہ اوقات ضائع کرنا ہے، اور اس میں ضرر کا احتمال ہے کہ کسی کی آنکھ یا دانت میں لگ جائے، اور آنکھ پھوٹ جائے یا دانت ٹوٹ جائے۔


3226- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ أَنَّ قَرِيبًا لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ خَذَفَ،فَنَهَاهُ، وَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الْخَذْفِ،وَقَالَ: "إِنَّهَا لا تَصِيدُ صَيْدًا وَلا تَنْكَأُ عَدُوًّا،وَلَكِنَّهَا تَكْسِرُ السِّنَّ وَتَفْقَأُ الْعَيْنَ " قَالَ: فَعَادَ،فَقَالَ: أُحَدِّثُكَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْهُ ثُمَّ عُدْتَ ؟ لا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا۔
* تخريج: خ/الذبائح ۵ (۵۴۷۹)، الأدب ۱۲۲ (۶۲۲۰)، م/الصید ۵۴ (۱۹۵۴)، د/الأدب ۱۶۸ (۵۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۴،۵/۵۴)، دي/المقدمۃ ۴۰ (۴۵۴) (صحیح)
۳۲۲۶- سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے ایک رشتہ دارنے کنکری ماری ،تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری مارنے سے منع فرمایا ہے، اور فرمایاہے : '' نہ اس (کنکری مارنے ) سے شکار ہوتا ہے ، اور نہ یہ دشمن کوزخمی کرتی ہے ، ہاں البتہ اس سے دانت ٹوٹ جاتا ہے، اورآنکھ پھوٹ جاتی ہے''، اس شخص نے پھر کنکری ماری تو عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے حدیث بیان کررہا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے، اور تم پھر وہی کام کررہے ہو ، اب میں تم سے کبھی بھی بات چیت نہیں کروں گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے غصہ سے کہا، معلوم ہوا کہ جو کوئی حدیث کو سن کر یا جان کربھی اس کے خلاف پر اصرار کرے اس سے ترک تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے، اورابن عمررضی اللہ عنہما نے حدیث کے خلاف ایک بات کہنے پراپنے بیٹے کو بُرا کہا، اور ساری عمر اس سے بات نہ کرنے کی بات کہی۔


3227- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ؛ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْخَذْفِ، وَقَالَ: " إِنَّهَا لا تَقْتُلُ الصَّيْدَ، وَلا تَنْكِي الْعَدُوَّ، وَلَكِنَّهَا تَفْقَأُ الْعَيْنَ وَتَكْسِرُ السِّنَّ "۔
* تخريج: خ/التفسیر ۵ (۴۸۴۱)، الأدب ۱۲۲ (۶۲۲۰)، م/الصید ۱۰ (۱۹۵۴)، د/الأدب ۱۷۸ (۵۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۶۳)، وقد أخرجہ: ن/القسامۃ ۳۳ (۴۸۱۹)، حم (۴/۸۶، ۵/۴۶، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۷) (صحیح)
۳۲۲۷- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری مارنے سے منع کرتے ہوئے فرمایاہے: ''اس سے نہ تو شکار مرتا ہے، اور نہ ہی یہ دشمن کوزخمی کرتی ہے ، ہاں البتہ اس سے آنکھ پھوٹ جاتی ہے، اور دانت ٹوٹ جاتا ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب قَتْلِ الْوَزَغِ
۱۲- باب: چھپکلی مارنے کا حکم​


3228- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهَا بِقَتْلِ الأَوْزَاغِ۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۷)، أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۹)، م/السلام ۳۸ (۲۲۳۷)، ن/الحج ۱۱۵ (۲۸۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۲۱، ۴۶۲)، دي/الأضاحی ۲۷ (۲۰۴۳) (صحیح)
۳۲۲۸- ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلیوں کے مارنے کا حکم دیا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہر چند یہ جانور کسی کو کاٹتے نہیں نہ ایذادیتے ہیں، لیکن ان سے دل کو نفرت پیدا ہوتی ہے ،اور بعضوں نے کہا: یہ زہریلی ہوتی ہیں، بعضوں نے کہا: وہ عرب کے ملک میں اونٹنی کاتھن پکڑ کردودھ چوس لیتی ہے۔


3229- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؛ قَالَ: " مَنْ قَتَلَ وَزَغًا فِي أَوَّلِ ضَرْبَةٍ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، وَمَنْ قَتَلَهَا فِي الثَّانِيَةِ، فَلَهُ كَذَا وَكَذَا (أَدْنَى مِنَ الأُولَى) وَمَنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ، فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً {أَدْنَى مِنِ الَّذِي ذَكَرَهُ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ}۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃالأشراف: ۱۲۷۳۱)، وقد أخرجہ: م/السلام ۳۸ (۲۲۴۰)، د/الأدب ۱۷۵ (۵۲۶۳)، ت/الأحکام ۱ (۱۴۸۲)، حم (۲/۳۵۵) (صحیح)
۳۲۲۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص چھپکلی ایک ہی وار میں مار ڈالے تو اس کے لئے اتنی اور اتنی نیکیاں ہیں، اور جس نے دوسرے وار میں ماری تو اس کے لئے اتنی اوراتنی ( پہلے سے کم ) نیکیاں ہیں، اور جس نے تیسرے وار میں ماری تو اس کے لئے اتنی اور اتنی ( دوسرے سے کم ) ہیں۔


3230- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لِلْوَزَغِ " الْفُوَيْسِقَةُ "۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۷ (۱۸۳۱)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۶)، م/السلام ۳۸ (۲۲۴۰)، ن/الحج ۱۱۵ (۲۸۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۷، ۱۵۵، ۲۷۱، ۲۷۹) (صحیح)
۳۲۳۰- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو فویسقہ چھوٹا فاسق (یعنی مؤذی) کہا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : فو یسقہ اس کی تحقیر اور تذلیل کے لئے کہا ہے ۔


3231- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَائِبَةَ، مَوْلاةِ الْفَاكِهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ؛ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى عَاءِشَةَ فَرَأَتْ فِي بَيْتِهَا رُمْحًا مَوْضُوعًا، فَقَالَتْ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! مَا تَصْنَعِينَ بِهَذَا؟ قَالَتْ: نَقْتُلُ بِهِ هَذِهِ الأَوْزَاغَ، فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ أَخْبَرَنَا أَنَّ إِبْرَاهِيمَ، لَمَّا أُلْقِيَ فِي النَّارِ لَمْ تَكُنْ فِي الأَرْضِ دَابَّةٌ إِلا أَطْفَأَتِ النَّارَ،غَيْرَ الْوَزَغِ، فَإِنَّهَا كَانَتْ تَنْفُخُ عَلَيْهِ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِقَتْلِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۳، ۱۰۹) (صحیح)
۳۲۳۱- فاکہ بن مغیرہ کی لونڈی سائبہ کہتی ہیں کہ وہ ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں تو انہوں نے آپ کے گھر ایک برچھا رکھا ہوا دیکھا، تو عرض کیا : اُم المو ٔ منین ! آپ اس برچھے سے کیا کرتی ہیں؟ کہا: ہم اس سے ان چھپکلیوں کو مارتے ہیں ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاگیا تو روئے زمین کے تمام جانوروں نے آگ بجھائی سوائے چھپکلی کے کہ یہ اسے ( مزید ) پھونک مارتی تھی ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھپکلی کا قتل مذہبی عداوت کی وجہ سے ہے، چونکہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی دشمن تھی، تو سارے مسلمانوں کو اس کا دشمن ہونا چاہئے ،اور بعضوں نے کہا: شیطان چھپکلی کی شکل بن کر آگ پھونکتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شکل کو برُا جانا،اور اس کے ہلاک کرنے کا حکم دیا،حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دشمن کے برے کام کرنے سے کبھی اس کی ساری قوم مطعون ہوجاتی ہے، اور وہ مکرو ہ سمجھی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ
۱۳- باب: کچلیوں والے درندوں کو کھانا حرام ہے​


3232- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيُّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ . قَالَ الزُّهْرِيُّ : وَلَمْ أَسْمَعْ بِهَذَا حَتَّى دَخَلْتُ الشَّامَ۔
* تخريج: خ/الصید ۲۹ (۵۵۳۰)، الطب ۵۷ (۵۷۸۰)، م/الصید ۳ (۱۹۳۲)، د/الاطعمۃ ۳۳ (۳۸۰۲)، ت/الصید ۱۱ (۱۴۷۷)، ن/الصید ۲۸ (۴۳۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۴)، وقد أخرجہ: ط/الصید ۴ (۱۳)، حم (۴/۱۹۳، ۱۹۴)، دي/الأضاحي ۱۸ (۲۰۲۳) (صحیح)
۳۲۳۲- ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی (نوک داردانت) والے درندے کے کھانے سے منع فرمایاہے ۱؎ ۔
زہری کہتے ہیں کہ شام جانے سے پہلے میں نے یہ حدیث نہیں سنی۔
وضاحت ۱ ؎ : ناب اس دانت کوکہتے ہیں جورباعیہ کے پیچھے ہوتاہے،اوررباعیہ ثنایاکے ساتھ ہوتے ہیں، ناب کو ہم کچلی (نوک دار اورکتادانت) کہتے ہیں، کچلیوں والے جانورسے مرادوہ درندہ ہے جس کی کچلیاں ہوںجوشکارکرنے میں قوت کاباعث بنیںمثلاً شیر، بھیڑیا ، چیتااورتندوا وغیرہ۔


3233- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ،(ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ،عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: " أَكْلُ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ حَرَامٌ ".
* تخريج: ن/الصید ۲۸ (۴۳۲۹)،(تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۳۲)، وقد أخرجہ: ط/الصید ۴ (۱۴)، م/الصید ۳ (۱۹۳۳)، ت/الصید ۳ (۱۴۶۷)، حم (۲/۴۱۸) (صحیح)
۳۲۳۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ہر کچلی (نوک داردانت) والے درندے کا کھانا حرام ہے '' ۔


3234- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ خَيْبَرَ، عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۳۳ (۳۸۰۵)، ن/الصید ۳۳ (۴۳۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۳۹)، وقد أخرجہ: م/الصید ۳ (۱۹۳۴)، حم (۱/۲۴۴)، دي/الأضاحی ۱۸ (۲۰۲۵) (صحیح)
۳۲۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے اور پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرمادیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پنجہ والے پرندے سے مراد وہ پرندے ہیں جو پنچہ سے شکار کرتے ہیں، جیسے باز بحری،شکرہ ، عقاب، چیل ،گدھ وغیرہ، اور الوبھی پنجہ سے شکار کرتا ہے پس وہ اس قاعدے کے موافق حرام ہوگا، لیکن افسوس ہے کہ بعض فقہاحنفیہ کو اس کی خبر نہیں ہوئی،اور انہوں نے اپنی کتابوں میں الو کو حلال لکھا ہے،چنانچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ الو کھایا جائے گا ، روضہ ندیہ میں ہے کہ کبوتر بھی پنجہ رکھتا ہے لیکن وہ حلال ہے، اسی طرح چڑیا کیونکہ وہ پاک اور نفیس ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب الذّ ئبِ وَالثَّعْلَبِ
۱۴- باب: بھیڑ ئیے اور لومڑی کا بیان​


3235- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاقَ،عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْئٍ، عَنْ أَخِيهِ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْئٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! جِئْتُكَ لأَسْأَلَكَ عَنْ أَحْنَاشِ الأَرْضِ، مَاتَقُولُ فِي الثَّعْلَبِ؟ قَالَ: " وَمَنْ يَأْكُلُ الثَّعْلَبَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا تَقُولُ فِي الذِّئْبِ؟ قَالَ: وَيَأْكُلُ الذِّئْبَ أَحَدٌ فِيهِ خَيْرٌ ؟ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۲)، وقد أخرجہ: ت/الأطعمۃ ۴ (۱۷۹۲)، مقتصراً علی الجملۃ الأخیرۃ) (ضعیف)
(سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز عبد الکریم ضعیف ہیں)
۳۲۳۵- خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں آپ کی خدمت میں زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کرنے آیا ہوں، آپ لومڑی کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''لومڑی کون کھاتا ہے''؟ پھر میں نے عرض کیا: آپ بھیڑئیے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کہیں کوئی آدمی جس میں خیر ہو بھیڑیا کھاتا ہے''؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث تو ضعیف ہے لیکن لومڑی شکار کرتی ہے، تو وہ دانت والے درندوں میں سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب الضَّبُعِ
۱۵- باب: لکڑبگھا کا بیان​


3236- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَجَائٍ الْمَكِّيُّ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ (وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ) قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ عَنِ الضَّبُعِ، أَصَيْدٌ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: آكُلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَشَيْئٌ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ_ ﷺ؟ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۳۲ (۳۸۰۱)، ت/الحج ۲۸ (۸۵۱)، الأطعمۃ ۴ (۱۷۹۲)، ن/الحج ۸۹ (۲۸۳۹)، الصید ۲۷ (۴۳۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۷، ۳۱۸)، دي/المناسک۹۰ (۱۹۸۴) (صحیح)
۳۲۳۶- عبد الرحمن بن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے ضبع( لکڑبگھا) ۱؎ کے متعلق سوال کیا ، کیا وہ شکار ہے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، میں نے عرض کیا: کیا میں اسے کھاؤں ؟ کہا: ہاں، پھر میں نے عرض کیا: کیاآپ نے ( اس سلسلے میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا :ہاں ۔
وضاحت ۱؎ : ضبع : ایک درندہ ہے ، جوکتے سے بڑا اوراس سے زیادہ مضبوط ہوتاہے ، اس کا سربڑا اورجبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع ا ضبع ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندوپاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں،جوبھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے ، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے ، اوراس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اورراکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتاہے ، اس کا سر چیتے کے سرکی طرح ہوتاہے ، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے ،وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیراورچیتوں کے سر کوتوڑسکتاہے ، اکثررات میں نکلتاہے ، اوراپنے مجموعے کے ساتھ رہتاہے ،یہ جانورزمین میں سوراخ کرکے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں ، اور بیچ میں ایک ہال ہوتاہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں ، اورایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتاہے ، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں ، ماںپورے خاندان کی نگران ہوتی ہے ، اورسب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتاہے ، یہ جانورمردہ کھاتاہے ، لیکن شکارکبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آورہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتاہے ، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے ، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہوسکتا۔
اہل نجدکے یہاں یہ جانور کھایا جاتاتھا اورلوگ اس کا شکارکرتے تھے ، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اورغذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں ، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں ،سے پوچھاتوانہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندرکے گھرکا نقشہ بھی بناکردکھایا ۔اس کے گھرکوماند اورکھوہ سے بھی تعبیرکیا جاسکتاہے ۔یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے ضبع کا ترجمہ بجوسے کیا ہے ،فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے ''کفتار''اورہندی میں بجوکہتے ہیں، یہ گو شت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکارکیا جاتاہے ، اوراس کو لکڑبگڑکھا کہاجاتاہے ، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پا یا جاتاہے۔اوپرکی تفصیل سے پتہ چلتاہے کہ حدیث میں مذکورضبع سے مراد لکڑبگھا ہے ، بجونہیں ، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجوسے کی گئی ہے ، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کرکے یہی لکھاہے ، مولانا وحید الزماں بجوکے بارے میں فرماتے ہیں:'' اس سے صاف نکلتاہے کہ بجو حلال ہے ، امام شافعی کا یہی قول ہے ، اورابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے ، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا ، اورجب حلت اورحرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے ''،سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے ، اور اس کا شکار کرنا اوراس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے ۔
واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے ، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے ، اورجس سے وہ چیرپھاڑکرتا ہے ، جیسے : کتا ، بلی جن کا شمار گھریلویا پالتو جانورمیں ہے اور وحشی جانورجیسے : شیر ، بھیڑیا ، چیتا، تیندوا ، لومڑی ، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور(نیولے کے مشابہ اوراس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل )گیدڑوغیرہ وغیرہ ۔حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانورحرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھااورلومڑی ابویوسف اورمحمدبن حسن کے نزدیک حلال ہے ، جمہورعلماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرکچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطاامام مالک)
لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بناپر حلال ہے ، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھاکو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث وآثارہیں، جن میں سے زیرنظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، جوصحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے ( كما في التلخيص الحبير ۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمرکو یہ بتایا کہ سعدبن ابی وقاص لکڑبگھاکھاتے ہیں توابن عمرنے اس پر نکیرنہیں فرمائی ۔
مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے ، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے : {قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ} [ سورة الأنعام:145] ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکرنہیں کیاگیا ہے ، اس لیے یہ حلال ہوںگے اورہرکچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی ۔خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بناپر لکڑبگھاحلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ۵/۱۳۳-۱۳۴)


3237- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحاقَ، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْئٍ ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْئٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا تَقُولُ فِي الضَّبُعِ؟ قَالَ: " وَمَنْ يَأْكُلُ الضَّبُعَ "۔
* تخريج: ت/الأطعمۃ ۴ (۱۷۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۳۳) (ضعیف)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، نیز عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف راوی ہیں)
۳۲۳۷- خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! آپ لکڑبگھاکے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' لکڑبگھا کون کھاتا ہے ''؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب الضَّبِّ
۱۶- باب: ضب (صحرائے نجدمیں پائے جانے والے گوہ) کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسما ر بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یاطلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔
جس جانورکو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خودحدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجدکے علاقہ میں پایا جانے والا جانورہے ، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھاناحرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے ۔
نجدکے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے :
- ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتاہے ،اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈازرعی اورپانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتاہے۔
- نجدی ضب (گوہ ) پانی نہیںپیتا اور بلاکھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتاہے،کبھی طویل صبرکے بعد اپنے بچوں کو کھاجاتاہے، جب کہ برصغیرکا گوہ پانی کے کناروں پرپایا جاتاہے ، اورخوب پانی پیتاہے ۔
- نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے ، جلدشکارہوجاتاہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ کاپکڑنا نہایت مشکل ہوتاہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اوراس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اوراس کے ناخن اس قدرسخت ہوتے ہیں کہ اگروہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتاہے ، ترقی یافتہ دورسے پہلے مشہورہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اوریہ جانور مکان کی منڈیرکے ساتھ جاکرمضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اورچوری کرتے ،جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی ۔
- ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اورپھنکارتی ہے ، جب کہ نجدی ضب( گوہ) ایسانہیں کرتی ۔
- ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانورہے اوراس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے ،جب کہ نجدی ضب( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے ، اورکیڑے مکوڑے بھی ، نجدی ضب( گوہ) کیڑے مکوڑے اورخاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے ، لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجودنہیں ہوتا اوراگرہوبھی تومعمولی اورکبھی کبھار ، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کوبھی وہ کھاتاہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کی کھال کوپکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے ، جس کو'' ضبة'' کہتے ہیں اورہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسااستعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے ۔
- نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اورٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں)میں اس طرح رہتاہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اوراسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجودہے ، اوریہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال باریک بینی اور کمالِ بلاغت پر دال ہے ، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اورضلالتوں کا شکارہوگی ، حتی کہ اگرسابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی ، اسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا کہ اگرسابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیارکریں گے اوریہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے ، اورصحراء نجدکے واقف کار خاص کرضب ( گوہ) کاشکارکرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں ،اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہر آجاتی ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اوربلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے ۔
ضب اورورل میں کیا فرق ہے؟۔
صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اوراس سے بڑا بالو، اورصحراء میں پائے جانے والے جانورکو ''وَرَل'' کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانورہے ، جوضب کی خلقت پر ہے ، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتاہے ، بالواورصحراء میںپایاجاتاہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانورہے ،جس کی دم لمبی اورسرچھوٹا ہوتاہے ، ازہری کہتے ہیں: ''وَرَل''عمدہ قامت اورلمبی دم والاجانورہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے،بسااوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے ، اورضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے ،اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اوراس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکارکرنے اوراس کے کھانے کے حریص اورشوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری ، سخت اورگانٹھ والی ہوتی ہے ،دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتاہے ، اورخود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے ،اورموٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتاہے ،اوریہ صرف ٹڈی ،چھوٹے کیڑے اورسبزگھاس کھاتی ہے ، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی ، اورورل بچھو ، سانپ ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتاہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتاہے ، تریاق ہے ، بہت تیز موٹاکرتا ہے ، اسی لیے عورتیں اس کواستعمال کرتی ہیں، اوراس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کوتیز کرتا ہے ، اوراس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتاہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس : مادہ ورل ، و لسان العرب )
سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اورورل اورہندوستان پائے جانے والے جانورجس کو گوہ یا سانڈاکہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے،بایں ہمہ نجدی ضب( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اورکراہت کی کوئی بات نہیں ، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے ، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غورکرنے کی ہے ، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کاکھانا منع ہے ، اس کو اصطلاح میں ''جلالہ''کہتے ہیں،تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیرکے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا ۔
ضب اورورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اورغذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں ، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوںلکھ کر دی :
نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتاہے ، اور''ورل ''نہیں کھایا جاتاہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتاہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے ،ضب گھاس کھاتا ہے ، اورورل گوشت کھاتاہے ،ضب چیرپھاڑکرنے والا جانور نہیں ہے ،جب کہ ورل چیرپھاڑکرنے والا جانور ہے ، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتاہے ،ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے ، ضب کا سر چوڑا ہوتاہے ، اوروَرل کا سر دم نما ہوتاہے ، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے ،اورورل کی گردن لمبی ہوتی ہے ، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے ،ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے ، اور ورل نرم ہوتاہے ، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتاہے ، اورورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتاہے ،اوردُم سے شکاربھی کرتاہے ، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا ، اورورل ضب اورگرگٹ سب کھاجاتاہے ، ضب تیز جانورہے ،اورورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجودہے ،وہ دانتوں سے کاٹتاہے ،اوردم اور ہاتھ سے حملہ کرتاہے ، ضب ضرورت پڑنے پر اپنادفاع کاٹ کراورہاتھوں سے نوچ کر یا دُم سے مارکرتاہے ،اوروَرل بھی ایسا ہی کرتاہے ،ضب میں کچلی دانت نہیں ہے ،اوروَرل میں کچلی دانت ہے ، ضب حلال ہے ، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ زہریلا جانورہے ۔
صحرائے عرب کا ضب ، وَرل اورہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانورکے بارے میں صحیح صورتِ حال سامنے آجائے ، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اوردوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے ، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اورمشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑسے محبت ہے اورجب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتاہے ، اگربھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہئے ،اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پرغورکرنا چاہئے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے ۔
گوہ کی کئی قسمیں ہیں اورہوسکتاہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔
حکیم مظفر حسین اعو ان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانندایک جنگلی جانورہے ، دم سخت اورچھوٹی ، قد بلی کے برابرہوتا ہے ، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے ، رنگ زرد سیاہی مائل ، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ...اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔(کتاب المفردات : ۴۲۷) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے ۔
گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہورجانور ہے ، جوگرگٹ یا گلہری کی مانندلیکن اس سے بڑاہوتاہے ،اس کی چربی اورتیل دواء مستعمل ہے ، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت ، معظم ذکر، اورمہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ۲۷۵)


3238- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ؛ قَالَ: كُنَّامَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَأَصَابَ النَّاسُ ضِبَابًا، فَاشْتَوَوْهَا فَأَكَلُوا مِنْهَا، فَأَصَبْتُ مِنْهَا ضَبًّا فَشَوَيْتُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ، فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَجَعَلَ يَعُدُّ بِهَا أَصَابِعَهُ فَقَالَ: " إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الأَرْضِ، وَإِنِّي لاأَدْرِي لَعَلَّهَا هِيَ " فَقُلْتُ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اشْتَوَوْهَا فَأَكَلُوهَا، فَلَمْ يَأْكُلْ وَلَمْ يَنْهَ۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۵)، ن/الصید والذبائح ۲۶ (۴۳۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۰)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۹) (صحیح)
۳۲۳۸- ثابت بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑ ے اور انہیں بھونا، اور اس میں سے کھایا ، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی لی، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا: '' بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا جانور بن گیا، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو '' ، میں نے عرض کیا: لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا ۔


3239- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحاقَ الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُحَرِّمِ الضَّبَّ، وَلَكِنْ قَذِرَهُ، وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ الرِّعَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لأَكَلْتُهُ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۷۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۳) (ضعیف)
(سندمیں قتادہ اور سلیمان بن قیس کے درمیان انقطاع ہے)
۳۲۳۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب(گوہ) کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے اس سے گھن کیا، اور وہ عام چرواہوں کا کھانا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ متعدد بہت سارے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، اور وہ اگر میرے پاس ہوتی تو اسے میں ضرور کھاتا ۔
3239/أ- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَهُ۔۳۲۳۹/أ - اس سند سے بھی عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی مرفوع روایت آئی ہے ۔


3240- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ؛ قَالَ: نَادَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلاةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ مَضَبَّةٌ، فَمَا تَرَى فِي الضِّبَابِ؟ قَالَ: " بَلَغَنِي أَنَّهُ أُمَّةً مُسِخَتْ " فَلَمْ يَأْمُرْ بِهِ،وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ۔
* تخريج: م/الصید والذبائح ۷ (۱۹۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵، ۱۹، ۶۶) (صحیح)
۳۲۴۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صلاۃ پڑ ھ کر لوٹے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے آپ کو آواز دی ، اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے ملک میں ضب(گوہ) بہت ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟آپ نے فرمایا: '' مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ کوئی امت ہے جو مسخ کردی گئی ہے '' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کے کھانے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شاید اس وقت تک آپ کو یہ معلوم نہ ہوا ہو گا کہ جو لوگ مسخ ہوئے تھے ،ان کی نسل باقی نہیں رہی بلکہ وہ سب تین دن میں مرگئے ۔


3241- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ،عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ " أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ،فَقَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ ! أَحَرَامٌ الضَّبُّ ؟ قَالَ: لا،وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ " قَالَ: فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ، فَأَكَلَ مِنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْظُرُ إِلَيْهِ۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۰ (۵۳۹۱)، ۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۴)، ن/الصید و الذبائح ۲۶ (۴۳۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۴)، وقد أخرجہ: ط/الإستئذان ۴ (۱۰)، حم (۴/۸۸، ۸۹)، دي/الصید ۸ (۲۰۶۰) (صحیح)
۳۲۴۱- خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب( گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لئے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎ ، تو وہاں موجودایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ ضب( گوہ) کا گوشت ہے ( یہ سن کر ) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا ضب(گوہ) حرام ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' نہیں ، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لئے میں اس سے گھِن محسوس کرتا ہوں'' ، ( یہ سن کر ) خالد رضی اللہ عنہ نے ضب( گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتادیا جاتا ، اسحاق بن راہویہ اوربیہقی نے شعب الإیمان میں عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضرہوا اورآپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے ، جب وہ کھالیتا تو آپ بھی کھاتے ،ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبرمیں آپ کے پاس (مسموم ) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اوراس سے آپ متاثرہوگئے تھے توبعد میں احتیاطی تدبیرکے طورپرہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداکراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے ) (حافظ ابن حجرنے اس حدیث کی سندکو حسن کہا ہے )
وضاحت ۲؎ : صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالدبن ولیدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرگئے ،اورصحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب( گوہ) کا گوشت ہے ، اورصحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب( گوہ) نہ کھاکرپنیرکھائی اوردودھ پیا ۔اس حدیث میں آپ کے گھن اورکراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب( گوہ) نہیں پائی جاتی تھی ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب(گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا ، حافظ ابن حجرحدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد '' بأرض قومي'' کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب(گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہوگا ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب( گوہ) موجودہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیںدعوتِ ولیمہ دی اورہمارے سامنے تیرہ ضب(گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اورکسی نے نہیں کھایا ، حافظ ابن حجرکہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتاہے کہ علاقہ حجاز میں ضب(گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے ، اس حدیث میں صرف خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب(گوہ) کا گوشت کھایا ، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب(گوہ) کا گوشت کھاؤتو فضل بن عباس ،خالداورمذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا : ضب(گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے یا فرمایا کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ میری خوراک نہیں ،ان تصر یحات سے پتہ چلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب( گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی ۔(الفریوائی)


3242- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " لا أُحَرِّمُ " يَعْنِي الضَّبَّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۷۸)، وقد أخرجہ: خ/الصید ۳۳ اتم منہ (۵۵۳۶)، م/الصید ۷ اتم منہ (۱۹۴۳)، ت/الأطعمۃ ۳ (۱۷۹۰)، ط/الإستئذان ۴ (۱۱)، حم (۲/۹، ۱۰،۳۳، ۴۱، ۴۶،۶۰، ۶۲، ۷۴، ۱۱۵)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۸) (صحیح)
۳۲۴۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں حرام نہیں کرتا '' یعنی ضب( گوہ) کو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ۱- جمہورعلماء کے نزدیک ضب( گوہ) کا گوشت کھاناحلال ہے ،ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کاذکرکیا ہے ، جس سے اس کی حلت واضح ہے ،ضب(گوہ) امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی ، ساتھ میں دودھ اورپنیربھی تھا،دسترخوان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے ، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملادینے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر ہوجانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجودچیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے ، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی ،امہات المومنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی ، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے ، جبریل علیہ السلام قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہرطرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی ،یہ بھی ہوسکتاہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی ، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب(گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا ، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طورپر بدؤں اوردیہاتیوں کی غذاتھی تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب(گوہ) کا گوشت ہے ، توآپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذرکیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے ، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اورپنیرپر اکتفا کیا ، ضب(گوہ) کے دسترخوان پرہونے کامطلب ہی یہ تھا کہ امہات المومنین کے یہاں اوردوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالدبن ولیدنے اسے مزے لے کر کھایا بھی ، اس طرح سے آپ نے اس پر صادکیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگرضب(گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتااس لیے اس واقعہ سے ضب( گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔
شافعی ، مالک ، احمداوراکثرفقہاء اوراہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے ، اوراس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں ، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے ، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب( گوہ) کھانے سے منع کیا ، اس کی سند ضعیف ہے ۔
ابن ماجہ نے اوپر۳۲۴۲نمبرکی حدیث ذکرفرمائی ہے ، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: الضب لست آكله ولا أحرمه (۵۵۳۶) ( ضب- گوہ- نہ میں کھاتاہوں نہ اسے حرام قراردیتاہوں)۔
صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب( گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا ۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال وجواب منبررسول پرہوا ، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جواوپر(۳۲۴۱) نمبرپرگزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے ۔
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ضب(گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے ، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے ، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے ، نووی اس نقل کا انکارکرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے)کاقول صحیح اورثابت نہیں ہے ، اوراگرصحیح بھی ہوتوجواز وحلت کے نصوص سے اورپہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے ۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں: ابن المنذر نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا؟۔
نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے ۔
امام طحاوی معانی الأثارمیں کہتے ہیں: ایک جماعت نے ضب( گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے ، ان میں ابوحنیفہ ، ابویوسف ، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا : محمدبن الحسن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے ، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی،تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہرضی اللہ عنہا نے اسے ضب(گوہ) کودینا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا جوچیز تم نہیں کھارہی ہووہ سائل کودوگی ''۔
طحاوی کہتے ہیں: اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہرضی اللہ عنہا نے ضب(گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھاناہی پیش کیا جائے ، جیسا کہ ردّی کھجوردینے سے آپ نے منع فرمایاہے ۔
عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کا شکارہوئے ، اورصحابہ کرام کوکچھ ضب(گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا ،ابھی یہ ہانڈیوںپر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے اسے اُڈیل دینے کا حکم دیا ، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کرکے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنادی گئی تھی تو مجھے ڈرہے کہ کہیںیہ ضب(گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے اُنڈیل دو ( اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے ،اورابن حبان نے اس کو صحیح کہاہے،اورطحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے ۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں : اس کی سندشیخین (بخاری ومسلم ) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری ومسلم نے روایت نہیں کی ہے،طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کوبھونا اور اسے کھایا تو نہ توآپ نے کھایا اورنہ اس کے کھانے سے منع کیا ۔
مذکورہ بالا احادیث سے ہرطرح سے ضب(گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے ،اس بارے میں نصوص صریح ہیں، توجن احادیث میں ضب(گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے ، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق وتطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو اُلٹ دینے کا حکم دیا تھا تووہ اس خیال کی بناپر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تونہیں ہے ، پھربعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اورنہ اس کے کھانے سے روکا ، اورجب آپ کو اس بات کا علم ہوگیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی ،پھراس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قراردیتے تھے ،اورجب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہوناثابت ہوگیا ، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہوگی ، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہترہے ، اورجن لوگوں کو ضب(گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب ( گوہ) کا کھانا جائز اورمباح ٹھہرا ، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔
امام طحاوی ضب( گوہ) سے متعلق احادیث وآثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں : ان آثار سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ضب(گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اورمیں بھی اس کا قائل ہوں، اوپرعائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جوچیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دوگی! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمدبن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے ، محمدبن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اوردوسروں کے لیے مکروہ سمجھا ،امام طحاوی اس پرتعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ: { وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ } [ سورة البقرة:267]کے قبیل سے ہو،پھرخراب کھجورکوصدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکرکیں اوربراء بن عازبرضی اللہ عنہما کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسندکرتے تھے توآیت کریمہ: { أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ }[ سورة البقرة:267]نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب( گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے ۔
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمدبن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا ، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے ، بعض لوگوں کا میلا ن تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ ''احادیث مختلف ہیں، اورپہلے کون ہے اوربعد میں کون ؟اس کا جاننا مشکل ہے ، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قراردیا ''۔
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں: تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعدمیں کون ؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بناپر ممنوع ہے ۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری شرح صحیح البخاری ، حدیث نمبر ۵۵۳۷)،( نیز: المحلی لإبن حزم ۶/۱۱۲، مسألہ نمبر۱۰۳۲، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/۱۴۲، توضیح الأحکام للبسام) (حررہ الفریوائی)
 
Top