• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
17- بَاب الأَرْنَبِ
۱۷- باب: خرگوش کا بیان​


3243- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: مَرَرْنَا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَأَنْفَجْنَا أَرْنَبًا، فَسَعَوْا عَلَيْهَا، فَلَغَبُوا، فَسَعَيْتُ حَتَّى أَدْرَكْتُهَا،فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ، فَذَبَحَهَا، فَبَعَثَ بِعَجُزِهَا وَوَرِكِهَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَبِلَهَا۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۵ (۲۵۷۲)، الصید ۱۰ (۵۴۸۹)، ۳۲ (۵۵۳۵)، م/الصید ۹ (۱۹۵۳)، د/الأطعمۃ ۲۷ (۳۷۹۱)، ت/الأطعمۃ ۲ (۱۷۹۰)، ن/الصید ۲۵ (۴۳۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۸، ۱۷۱، ۲۹۱)، دي/الصید ۷ (۲۰۵۶) (صحیح)
۳۲۴۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مرالظہران ۱؎ سے گزرے، تو ہم نے ایک خرگوش کو چھیڑا ، لوگ اس پر دوڑے اور تھک گئے، پھر میں نے بھی دوڑلگائی یہاں تک کہ میں نے اسے پالیا،اور اسے لے کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے اس کو ذبح کیا ،اور اس کی پٹھ اور دم گزا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مکہ کے قریب ایک وادی کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : جمہوراہل سنت خرگوش کے گوشت کی حلّت کے قائل ہیں، روافض اسے حرام کہتے ہیں لیکن حدیث صحیح سے اس کی حلت ثابت ہے ۔


3244- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ أَنَّهُ مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ بِأَرْنَبَيْنِ، مُعَلِّقَهُمَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أَصَبْتُ هَذَيْنِ الأَرْنَبَيْنِ، فَلَمْ أَجِدْ حَدِيدَةً أُذَكِّيهِمَا بِهَا، فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ أَفَآكُلُ؟ قَالَ: " كُلْ "۔
* تخريج: د/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۲)، ن/الصید و الذبائح ۲۵ (۴۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۱)، دي/الصید ۷ (۲۰۵۷) (صحیح)
۳۲۴۴- محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دو خرگوش لٹکائے ہوئے گزرے ، اور آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے یہ دونوں خرگوش ملے، اور مجھے کوئی لوہا نہیں ملا،جس سے میں انہیں ذبح کرتا، اس لئے میں نے ایک (تیز ) پتھر سے انہیں ذبح کردیا، کیا میں انہیں کھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کھاؤ '' ۔


3245- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاقَ، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْئٍ، عَنْ أَخِيهِ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْئٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! جِئْتُكَ لأَسْأَلَكَ عَنْ أَحْنَاشِ الأَرْضِ؟ مَاتَقُولُ فِي الضَّبِّ؟ قَالَ: " لا آكُلُهُ، وَلا أُحَرِّمُهُ " قَالَ: قُلْتُ: " فَإِنِّي آكُلُ مِمَّا لَمْ تُحَرِّمْ وَلِمَ يَارَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنَ الأُمَمِ، وَرَأَيْتُ خَلْقًا رَابَنِي " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا تَقُولُ فِي الأَرْنَبِ؟ قَالَ: " لا آكُلُهُ وَلا أُحَرِّمُهُ " قُلْتُ: فَإِنِّي آكُلُ مِمَّا لَمْ تُحَرِّمْ. وَلِمَ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ: " نُبِّئْتُ أَنَّهَا تَدْمَى "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۴) (ضعیف)
(سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد الکریم ضعیف ہیں )
۳۲۴۵- خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوا کہ آپ سے زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کروں ، آپ ضب( گوہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں '' میں نے عرض کیا: میں تو صرف ان چیزوں کو کھاؤںگا جسے آپ نے حرام نہیں کیا ہے، اور آپ (ضب ) کیوں نہیں کھاتے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''قوموں میں ایک گروہ گم ہوگیا تھا اور میں نے اس کی خلقت کچھ ایسی دیکھی کہ مجھے شک ہوا'' ( یعنی شاید یہ ضب- گوہ- وہی گم شدہ گروہ ہو ) میں نے عرض کیا: آپ خرگوش کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی حرام قراردیتا ہوں''،میں نے عرض کیا: میں تو ان چیزوں میں سے کھاؤں گا جسے آپ حرام نہ کریں، اور آپ خرگوش کھانا کیوں نہیں پسند کرتے ؟ اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے خبردی گئی ہے کہ اسے حیض آتا ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
18-بَاب الطَّافِي مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ
۱۸- باب: پانی پر تیرنے والے مردہ سمندری شکا ر کا بیان​


3246- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ، مِنْ آلِ ابْنِ الأَزْرَقِ؛ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِالدَّارِ، حَدَّثَهُ؛ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْبَحْرُ الطَّهُورُ مَاؤُهُ: الْحِلُّ مَيْتَتُهُ "، قَالَ أَبوعَبْداللَّهِ بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْجَوَادِ أَنَّهُ قَالَ: هَذَا نِصْفُ الْعِلْمِ،لأَنَّ الدُّنْيَا بَرٌّ وَبَحْرٌ فَقَدْ أَفْتَاكَ فِي الْبَحْرِ، وَبَقِيَ الْبَرُّ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۴۱ (۸۳)، ت/الطہارۃ ۵۲ (۶۹)، ن/الطہارۃ ۴۷ (۵۹)، الصید ۳۵ (۴۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۸)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۳ (۱۲)، حم (۲/۳۷، ۳۶۱، ۳۷۳)، دي/الطہارۃ ۵۲ (۷۵۵) (صحیح)
۳۲۴۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے'' ۔
ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آدھا علم ہے اس لئے کہ دنیا بحروبر یعنی خشکی اور تری کانام ہے ،تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتا دیا ،اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صحابہ کی ایک جماعت ، تابعین ، مالک ، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں : سمندر کے سب مردے حلال ہیں ، خواہ خود بخود مرجائیں یا شکار سے مریں، اورمچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مرکر خود بخود پانی پر تیر آئے ) میں اختلاف ہے، ہمارے اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈ ک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں ،ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری ، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں،ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور ۔واللہ اعلم۔


3247- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا أَلْقَى الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ، فَكُلُوهُ،وَمَا مَاتَ فِيهِ فَطَفَا، فَلا تَأْكُلُوهُ "۔
* تخريج:د/الأطعمۃ ۳۶ (۳۸۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵۷) (ضعیف)
(سند میں یحییٰ بن سلیم طائفی ضعیف راوی ہیں )
۳۲۴۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال د یا ہویا پانی کم ہوجانے سے وہ مرجائے تو اسے کھاؤ ، اور جو سمندر میں مر کراوپر آجائے اسے مت کھاؤ ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
19-بَاب الْغُرَابِ
۱۹ - باب: کوے کا بیان​


3248- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: مَنْ يَأْكُلُ الْغُرَابَ؟ وَقَدْ سَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " فَاسِقًا "، وَاللَّهِ ! مَا هُوَ مِنَ الطَّيِّبَاتِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۵) (صحیح)
(شریک القاضی سئی الحفظ ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، الصحیحہ : ۱۸۲۵)
۳۲۴۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کوّا کون کھائے گا ؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فاسق کہا، اللہ کی قسم وہ پاک چیزوں میں سے نہیں ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی طیبات میں سے جو حلال ہے بلکہ یہ خبائث میں سے ہے اس سے کوے کی حرمت ثابت ہوئی۔


3249- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ،حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ عَاءِشَةَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الْحَيَّةُ فَاسِقَةٌ، وَالْعَقْرَبُ فَاسِقَةٌ، وَالْفَأْرَةُ فَاسِقَةٌ، وَالْغُرَابُ فَاسِقٌ " فَقِيلَ لِلْقَاسِمِ: أَيُؤْكَلُ الْغُرَابُ ؟ قَالَ: مَنْ يَأْكُلُهُ ؟ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ "فَاسِقًا "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۰۹،۲۳۸) (صحیح)
( ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۱۸۲۵)
۳۲۴۹- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' سانپ فاسق ہے ، بچھو فاسق ہے ، چوہا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے ''۔
قاسم سے پوچھا گیا : کیا کوا کھایا جاتا ہے ؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فاسق کہنے کے بعد اسے کون کھائے گا ؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
20- بَاب الْهِرَّةِ
۲۰- باب: بلی کا بیان​


3250- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ،أَنْبَأَنَا عُمَرُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْهِرَّةِ وَثَمَنِهَا۔
* تخريج: د/البیوع ۶۴ (۳۴۸۰)، ت/البیوع ۴۹ (۱۲۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۹۴) (ضعیف)
(سندمیں عمربن زید ضعیف ہیں، اسی لئے ترمذی نے حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے، سنن ابن ماجہ کے دارالمعارف کے نسخہ میں البانی صاحب نے ضعیف کہا ہے، اور الإرواء : کا حوالہ دیا ہے،( ۲۴۸۷)، اور سنن أبی داود کے دارالمعارف کے نسخہ میں صحیح کہا ہے ، اور احادیث البیوع کا حوالہ دیا ہے، جب کہ ارواء الغلیل میں حدیث کی تخریج کے بعد ضعیف کا حکم لگایا ہے)
۳۲۵۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایاہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 29- كِتَاب الأَطْعِمَةِ }
۲۹-کتاب: کھانے کے آداب واحکام


1- بَاب إِطْعَامِ الطَّعَامِ
۱- باب: کھانا کھلانے کا بیان​


3251- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا أَبُوأُسَامَةَ عَنْ عَوْفٍ،عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَلامٍ؛ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَهُ، وَقِيلَ: قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ،ثَلاثًا،فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لأَنْظُرَ فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ،فَكَانَ أَوَّلُ شَيْئٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَفْشُوا السَّلامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلامٍ "۔
* تخريج: أنظرحدیث رقم: ۱۳۳۴، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۱) (صحیح)
۳۲۵۱- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف تیزی سے بڑھے، اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول آگئے ، اللہ کے رسول آگئے ، اللہ کے رسول آگئے ،یہ تین بار کہا، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ پہنچا تاکہ (آپ کو ) دیکھوں ، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیاکہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ ،رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں توصلاۃ ادا کرو، ( ایسا کرنے سے ) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب یہ سارے اچھے کام کرو گے تو ضرور تم کو جنت ملے گی ،سبحان اللہ کیا عمدہ نصیحتیں ہیں، اور یہ سب اصولی ہیں، سعادت و نیک بختی اور خوش اخلاقی کے ناتے جوڑ نا، یعنی اپنے عزیزواقارب کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا، امام نووی کہتے ہیں کہ ابتداً سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر جماعت کو سلام کرے تو بعضوں کا جواب دینا کافی ہو گا، اور افضل یہ ہے کہ جماعت میں ہر ایک ا بتداء سلام کرے ، اور ہرایک جواب ضروری دے اور کم درجہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہے اور کامل یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ کہے ،اور السلام علیکم تو اتنی آواز سے کہنا کہ مخاطب سنے، اسی طرح سلام کا فوری جواب دینا ضروری ہے، جب کوئی شخص غائب کی طرف سے سلام پہنچائے اور بہتر ہے کہ یوں کہے علیک وعلیہ السلام،السلام علیکم الف ولام کے ساتھ افضل ہے، سلام علیکم بغیر الف اورلام کے بھی درست ہے ، اور قرآن شریف میں ہے: {سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ} [ سورة الزمر : 73] .


3252- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ،حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ؛ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " أَفْشُوا السَّلامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَكُونُوا إِخْوَانًا كَمَا أَمَرَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۶) (صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم: ۵۸۷)
۳۲۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' سلام کو پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ، اور بھائی بھائی ہوجاؤ جیسا کہ اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے '' ۔


3253- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ،أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الإِسْلامِ خَيْرٌ ؟ قَالَ: " تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۶ (۱۲)، ۲۰ (۲۸)، الاستئذان ۹ (۶۲۳۶)، م/الإیمان ۱۴ (۳۹)، د/الأدب ۱۴۲ (۵۱۹۴)، ن/الإیمان ۱۲ (۵۰۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۶) (صحیح)
۳۲۵۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! کون سا اسلام بہتر ہے ۱؎ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کھانا کھلانا، ہر شخص کو سلام کرنا، چاہے اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو ''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسلام میں کون سا عمل بہتر ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب طَعَامِ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاثْنَيْنِ
۲ - باب: ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہو تا ہے​


3254- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زِيَادٍ الأَسَدِيُّ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ،أَنْبَأَنَا أَبُوالزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاثْنَيْنِ،وَطَعَامُ الاثْنَيْنِ يَكْفِي الأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ "۔
* تخريج: م/الأشربۃ ۳۳ (۲۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۲۸)، وقد أخرجہ: ت/الأطعمۃ ۲۱ (۱۸۲۰)، حم (۲/۴۰۷، ۳/۳۰۱، ۳۰۵، ۳۸۲)، دي/الأطعمۃ ۱۴، ۲۰۸۷) (صحیح)
۳۲۵۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لئے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لئے کافی ہوتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب ایک آدمی پیٹ بھر کھاتا ہو، تو وہ دو آدمیوں کو کافی ہو جائے گا، اس پر گزارہ کر سکتے ہیں گوخوب آسودہ نہ ہوں، بعضوں نے کہا: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کھانے کی قلت ہو، اور مسلمان بھوکے ہوں، تو ہرایک آدمی کو مستحب ہے کہ اپنے کھانے میں ایک اور بھائی کو شریک کرے ، اس صورت میں دونوں زندہ رسکتے ہیں اور کم کھانے میں فائدہ بھی ہے کہ آدمی چست چالاک رہتا ہے اور صحت عمدہ رہتی ہے، بعضوں نے کہا: مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کے کھانے میں دو بھائی مسلمان شریک ہوںگے ،اور اللہ تعالی کا نام لے کر کھائیں گے، تو وہ کھانا دونوں کو کفایت کرجائے گا، اور برکت ہوگی، واللہ اعلم۔


3255- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ،حَدَّثَنَاالْحَسَنُ بْنُ مُوسَى،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ،حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَهْرَمَانُ آلِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ "إِنَّ طَعَامَ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاثْنَيْنِ وَإِنَّ طَعَامَ الاثْنَيْنِ يَكْفِي الثَّلاثَةَ وَالأَرْبَعَةَ،وَإِنَّ طَعَامَ الأَرْبَعَةِ يَكْفِي الْخَمْسَةَ وَالسِّتَّةَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۳۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۸) (ضعیف جدا)
(سند میں عمرو بن دینار ہیں ،جنہوں نے سالم سے منکر احادیث روایت کی ہے، ملاحظہ ہو : تراجع الألبانی: رقم: ۵۶۱)
۳۲۵۵- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ایک آدمی کا کھانا دو کے لئے کافی ہوتا ہے ، دوکا کھانا تین اور چار کے لئے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا پانچ اور چھ کے لئے کافی ہوتا ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ
۳ - باب: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : جس مومن میں ایمان کا مل ہوتا ہے ،تو اس کی برکت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں سے حرص اور طمع بالکل نکل جاتی ہے، اور دل اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہتا ہے، وہ لامحالہ کھانا کم کھاتا ہے، اورکم خوری کو عمدہ سمجھتا ہے ،اور کافر و فاسق، اوربعض مسلمانوں کا جن کا نور ایمان پورا نہیں یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت پیٹ بھر کر کھاناضروری سمجھتے ہیں ، بلکہ ناکوں ناک کھانا کھاتے ہیں کہ عبادت اور شب بیداری کی بالکل طاقت نہیں رہتی ،بعضوں نے کہا: ا س کا مطلب یہ ہے کہ کافر کے ساتھ شیطان بھی کھاتا ہے تو وہ زیادہ کھانا کھا جاتا ہے ، لیکن سیر نہیں ہوتا، اور مسلمان اللہ کا نام لے کر کھاتا ہے، شیطان اس کے ساتھ نہیں کھاتا تو کم کھانے میں سیرہوجاتا ہے، اور یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی جب ایک کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک بکری کا دودھ پلایا، وہ سیر نہیں ہوا ،دوسری بکری کا دودھ پلایا تب بھی سیر نہیں ہوا ، آخر سات بکریوں کا دودھ پی گیا ،پھر وہ مسلمان ہوا، تو دوسرے روز ایک ہی بکری کے دودھ میں سیر ہو گیا،تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی۔


3256- حَدَّثَنَاأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ،(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ "۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۲ (۵۳۷۶، ۵۳۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱۲)، وقد أخرجہ: م/الأشربۃ ۳۴ (۲۰۶۲، ۲۰۶۳)، ت/الأطعمۃ ۲۰ (۱۸۱۸، ۱۸۱۹)، ط/صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۶ (۹)، حم (۲/۲۱، ۴۳، ۷۴، ۱۴۵، ۲۵۷،۴۱۵، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۵۵، ۳/۳۳۳، ۳۴۶، ۳۵۷، ۳۹۲، ۴/۳۳۶، ۵/۳۷۰، ۶/۳۳۵، ۳۹۷)، دي/الأطعمۃ ۱۳ (۲۰۸۶) (صحیح)
۳۲۵۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن ایک آنت میں کھاتا ہے،اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر کئی طرح کا کھاناکھاتا ہے ،سود کا، رشوت کا، غبن کا،چوری کا، ڈاکہ کا ،بددیانتی کا ،ملاوٹ کا، اور مومن صرف حلال کا کھانا کھاتا ہے۔
حدیث کا مقصود یہ ہے کہ کافر بہت کھاتا ہے اور مومن کم کھاتا ہے نیز یہ بات بطور اکثر کے ہے یہ مطلب نہیں کہ بہت کھانے والے کافر ہی ہوتے ہیں بعض مسلمان بھی بہت کھاتے ہیں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے پس مومن کی شان ہے کہ وہ کھانا کم کھاتا ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔


3257- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ، وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ "۔
* تخريج: م/الأشربۃ ۳۴ (۲۰۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۵۰)، وقد أخرجہ: خ/الأطعمۃ ۱۲ (۵۳۹۴، ۵۳۹۵)، ت/الأطعمۃ ۲۰ (۱۸۱۸)، حم (۲/۲۱)، دي /الأطعمۃ ۱۳ (۲۰۸۴) (صحیح)
۳۲۵۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے، اور مومن صرف ایک آنت میں کھاتا ہے ''۔


3258- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ،عَنْ أَبِي مُوسَى؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ "۔
* تخريج: م/الأشربۃ ۳۴ (۲۰۶۱)، (تحقۃ الأشراف: ۹۰۵۰)، وقد أخرجہ: ت/الأطعمۃ ۲۰ (۱۸۱۸) (صحیح)
۳۲۵۸- ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن صرف ایک آنت میں کھاتا ہے ، اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُعَابَ الطَّعَامُ
۴ - باب: کھانے میں عیب نکالنا منع ہے​


3259- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ طَعَامًا قَطُّ. إِنْ رَضِيَهُ أَكَلَهُ، وَإِلا تَرَكَهُ .
* تخريج: خ/المناقب ۲۳(۳۵۶۴)، الأطعمۃ ۲۱ (۵۴۰۹)، م/الأشربۃ ۳۵ (۲۰۶۴)، د/الأطعمۃ ۱۴ (۳۷۶۳)، ت/البروالصلۃ ۸۴ (۲۰۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۷۴، ۴۷۹، ۴۸۱) (صحیح)
۳۲۵۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھالیتے ورنہ چھوڑ دیتے ۔


3259/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مِثْلَهُ . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: نُخَالِفُ فِيهِ، يَقُولُونَ: عَنْ أَبِي حَازِمٍ۔
* تخريج: م/الأشربۃ ۳۵ (۲۰۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۵)
۳۲۵۹/أ- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
ابوبکر بن أبی شیبہ کہتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں، لوگ ( الأعمش عن أبي حازم (عن أبي هريرة ) کہتے ہیں( اس کے بجائے میں الأَعْمَشِ،عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ روایت کرتا ہوں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب الْوُضُوءِ عِنْدَ الطَّعَامِ
۵- باب: کھانے کے وقت وضوکرنے کا بیان​


3260- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُكْثِرَ اللَّهُ خَيْرَ بَيْتِهِ، فَلْيَتَوَضَّأْ إِذَا حَضَرَ غَدَاؤُهُ، وَإِذَا رُفِعَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۱۹) (ضعیف)
(سند میں جبارہ بن المغلس اور کثیر بن سلیم دونوں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۱۱۷)
۳۲۶۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو یہ پسند کرے کہ اللہ تعالی اس کے گھر میں خیر وبرکت زیادہ کرے ، اسے چاہئے کہ وضو کرے جب دو پہر کا کھانا آجائے ،اور جب اسے اٹھا کر واپس لے جایا جائے ''۔


3261- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا صَاعِدُ بْنُ عُبَيْدٍالْجَزَرِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ الْمَكِّيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ خَرَجَ مِنَ الْغَائِطِ فَأُتِيَ بِطَعَامٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ ! أَلا آتِيكَ بِوَضُوئٍ ؟ قَالَ: " أُرِيدُ الصَّلاةَ "؟۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۲۰) (حسن صحیح)
(سند میں صاعد بن عبید مقبول ہیں ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
۳۲۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے تو کھانا لایا گیا ، ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں آپ کے لئے وضوء کا پانی نہ لاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا میں صلاۃ ادا کرنا چاہتا ہوں '' ؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : جو وضوء ضروری ہو، معلوم ہوا کہ کھانے سے پہلے وضوء ضروری نہیں صرف ہاتھ دھونا ہی کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب الأَكْلُ مُتَّكِئًا
۶ - باب: ٹیک لگا کر کھانے کا بیان​


3262- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " لا آكُلُ مُتَّكِئًا "۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۳ (۵۳۹۸، ۵۳۹۹)، د/الأطعمۃ ۱۷ (۳۷۶۹)، ت/الاطعمۃ ۲۸ (۱۸۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۰۸، ۳۰۹)، دي/الأطعمۃ ۳۱ (۲۱۱۵) (صحیح)
۳۲۶۲- ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : تکیہ لگا کر کھانا تکبر اور گھمنڈ کی نشانی ہے، اس وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پرہیز کیا، اور بعضوں نے کہا :عجمیوں کی نشانی ہے جو تکلف میں پھنسے ہوئے ہیں، اور آپ عرب میں پیدا ہوئے تھے بے تکلفی کو پسند کرتے تھے ۔


3263- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عِرْقٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُسْرٍ قَالَ: أَهْدَيْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ شَاةً، فَجَثَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى رُكْبَتَيْهِ يَأْكُلُ،فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا هَذِهِ الْجِلْسَةُ ؟ فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ جَعَلَنِي عَبْدًا كَرِيمًا، وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا عَنِيدًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۰۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۲۱)، وقد أخرج بعضہ: د/الأطعمۃ ۱۸ (۳۷۷۳) (صحیح)
۳۲۶۳- عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بکری ہدئیے کے طورپر بھیجی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے کھانے لگے، اس پر ایک اعرابی( دیہاتی) نے کہا : بیٹھنے کا یہ کون سا انداز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ تعالی نے مجھے ایک مہربان وشفیق بندہ بنایا ہے، ناکہ مغرور اور عناد رکھنے والا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی دونوں زانو کھڑے کر کے بیٹھنا عاجزی اور انکساری کی علامت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیٹھ کر کھانا پسند فرمایا ۔
 
Top