• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- بَاب دَوَاءِ ذَاتِ الْجَنْبِ
۱۷ -باب: ذات الجنب کی دوا کا بیان​


3467- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحاقَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ؛ قَالَ: نَعَتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ وَرْسًا وَقُسْطًا وَزَيْتًا، يُلَدُّ بِهِ۔
* تخريج: ت/الطب ۲۸ (۲۰۷۸، ۲۰۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۹، ۳۷۲)، (ضعیف)
(عبد الرحمن بن میمون اور ان کے والد میمون دونوں ضعیف راوی ہیں)
۳۴۶۷- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ذات الجنب کے علاج کے لئے یہ نسخہ بتایا کہ ورس اور قُسط (عود ہندی) کو زیتون کے تیل میں ملا کر منہ میں ڈال دیا جائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ذات الجنب : یعنی الوہ ایک ورم ہے جو پسلی میں ہوتا ہے، اور یہ مرض بہت سخت ہے جس سے اکثر موت ہوجاتی ہے۔
ورس : ایک زرد رنگ کی خوشبو دار گھاس ،ان تینوں دواؤں کو ملا کر منہ میں ایک طرف ڈال دئیے جائیں ،لدود اس دوا کو کہتے ہیں، جو بیمار کے منہ میں لگا ئی جائے تاکہ پیٹ میں چلی جائے۔


3468- حَدَّثَنَا أَبُو طَاهِرٍ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ وَابْنُ سَمْعَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " عَلَيْكُمْ بِالْعُودِ الْهِنْدِيِّ (يَعْنِي: بِهِ الْكُسْتَ) فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ، مِنْهَا ذَاتُ الْجَنْبِ " قَالَ ابْنُ سَمْعَانَ فِي الْحَدِيثِ " فَإِنَّ فِيهِ شِفَائً مِنْ سَبْعَةِ أَدْوَائٍ،مِنْهَا ذَاتُ الْجَنْبِ "۔
* تخريج: خ/الطب ۲۱ (۵۷۱۳)، م/السلام ۲۸ (۲۲۱۴)، د/الطب ۱۳ (۳۸۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۵۵، ۳۵۶) (صحیح)
۳۴۶۸- ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ـ'' تمہارے لئے عود ہندی کا استعمال لازمی ہے کست کا اس لئے کہ اس میں سات بیماریوں سے شفا ہے، ان میں ایک ذات الجنب بھی ہے'' ۔
ابن سمعان کے الفاظ اس حدیث میں یہ ہیں: " فَإِنَّ فِيهِ شِفَائً مِنْ سَبْعَةِ أَدْوَائٍ،مِنْهَا ذَاتُ الْجَنْبِ" ( اس میں سات امراض کا علاج ہے ، ان میں سے ایک مرض ذات الجنب ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب الْحُمَّى
۱۸-باب: بخار کا بیان​


3469- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: ذُكِرَتِ الْحُمَّى عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَسَبَّهَا رَجُلٌ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " لا تَسُبَّهَا، فَإِنَّهَا تَنْفِي الذُّنُوبَ، كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۸) (صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم: ۳۹۴)
۳۴۶۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بخار کا ذکر آیا تو ایک شخص نے بخار کو گالی دی (برا بھلا کہا)، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اسے گالی نہ دو (برا بھلا نہ کہو) اس لئے کہ اس سے گناہ اس طرح ختم ہوجاتے ہیں جیسے آگ سے لوہے کا کچرا صاف ہوجاتا ہے''۔


3470- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الأَشْعَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهُ عَادَ مَرِيضًا، وَمَعَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، مِنْ وَعْكٍ كَانَ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " أَبْشِرْ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: هِيَ نَارِي أُسَلِّطُهَا عَلَى عَبْدِي الْمُؤْمِنِ، فِي الدُّنْيَا، لِتَكُونَ حَظَّهُ مِنَ النَّارِ فِي الآخِرَةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۴۰) (صحیح)
۳۴۷۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بخار کے ایک مریض کی عیادت کی، آپ کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' خوش ہو جاو ٔ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میری آگ ہے، میں اسے اپنے مومن بندے پر اس دنیا میں اس لئے مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ آخرت کی آگ کا بدل بن جائے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19- بَاب الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَابْرُدُوهَا بِالْمَاءِ
۱۹ -باب: بخارجہنم کی بھاپ ہے ،اسے پانی سے ٹھنڈا کرو​


3471- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ،فَابْرُدُوهَا بِالْمَاءِ ".
* تخريج: م/السلام ۲۶ (۲۲۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۸۷)، وقد أخرجہ: خ/الطب ۲۸ (۵۷۲۵)، وبدء الخلق ۱۰ (۳۲۶۳)، ت/الطب ۲۵ (۲۰۷۴)، حم (۶/۵۰) (صحیح)
۳۴۷۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : خود حدیث دلالت کرتی ہے کہ یہاں وہ بخار مراد ہے جو گرمی سے ہو، کیونکہ پانی سے وہی ٹھنڈا ہوگا ،اور جو بخار سردی سے ہوگا اس میں تو آگ سے گرم کرنا مفید ہوگا، اور بخارجہنم کی آگ سے ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ گرمی اور سردی دونوں جہنم کی سانس سے ہوتی ہیں،گرمی تو اس حصہ جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہیں جو گرم انگارہے ، اور سردی اس حصے کی بھاپ سے ہے جو زمہریر ہے ، اور بخار ہمیشہ یا گرمی کی وجہ سے ہوتا ہے یاسردی سے پس یہ کہنا بالکل صحیح ہوا کہ بخار جہنم کی بھاپ سے ہے کیونکہ سبب کا ایک سبب ہوتا ہے، اور علت کی علت خود علت ہوتی ہے۔


3472- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ شِدَّةَ الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَابْرُدُوهَا بِالْمَاءِ "۔
* تخريج: م/السلام ۲۶ (۲۲۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۵۴)، وقد أخرجہ: خ/الطب ۲۸ (۵۷۲۳)، بدء الخلق ۱۰ (۳۲۶۴)، ط/العین ۶ (۱۶) (صحیح)
۳۴۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' بخار کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ''۔


3473- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَابْرُدُوهَا بِالْمَاءِ " فَدَخَلَ عَلَى ابْنٍ لِعَمَّارٍ فَقَالَ: " اكْشِفِ الْبَاسْ،رَبَّ النَّاسْ،إِلَهَ النَّاسْ "۔
* تخريج: خ/ بدء الخلق ۱۰ (۳۲۶۲)، م/السلام ۲۶ (۲۲۱۲)، ت/الطب ۲۵ (۲۰۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۳، ۴/۱۴۱)، دي/الرقاق ۵۵ (۲۸۱۱) (صحیح)
۳۴۷۳- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ، پھر آپ ﷺ عمار کے ایک لڑکے کے پاس تشریف لے گئے ( وہ بیمار تھے ) اور یوں دعا فرمائی : ''لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود ! (اے اللہ)تو اس بیماری کو دور فرما'' ۔


3474- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ؛ أَنَّهَا كَانَتْ تُؤْتَى بِالْمَرْأَةِ الْمَوْعُوكَةِ، فَتَدْعُو بِالْمَاءِ، فَتَصُبُّهُ فِي جَيْبِهَا، وَتَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " ابْرُدُوهَا بِالْمَاءِ "، وَقَالَ: " إِنَّهَا مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ "۔
* تخريج: خ/الطب ۲۸ (۵۷۲۴)، م/السلام ۲۶ (۲۲۱۱)، ت/الطب ۲۵ (۲۰۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۴۴) وقد أخرجہ: ط/العین ۶ (۱۵)، حم (۶/۳۴۶) (صحیح)
۳۴۷۴- اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے پاس بخار کی مریضہ ایک عورت لائی جاتی تھی، تو وہ پانی منگواتیں ، پھر اسے اس کے گریبان میں ڈالتیں، اور کہتیں کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ'' اسے پانی سے ٹھنڈا کرو'' نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ''یہ جہنم کی بھاپ ہے ''۔


3475- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " الْحُمَّى كِيرٌ مِنْ كِيرِ جَهَنَّمَ، فَنَحُّوهَا عَنْكُمْ بِالْمَاءِ الْبَارِدِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۶۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۰) (صحیح)
۳۴۷۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بخار جہنم کی بھٹیوں میں سے ایک بھٹی ہے لہٰذااسے ٹھنڈے پانی سے دور کرو ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20- بَاب الْحِجَامَةُ
۲۰ -باب: حجا مت( پچھنا لگوانے) کا بیان​


3476- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: قَالَ: " إِنْ كَانَ فِي شَيْئٍ مِمَّا تَدَاوَوْنَ بِهِ خَيْرٌ، فَالْحِجَامَةُ "۔
* تخريج: د/الطب ۳ (۳۸۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۱۱)، وقد أخرجہ، حم (۲/۲۴۲، ۴۲۳) (صحیح)
۳۴۷۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی میں خیر ہے تو پچھنے میں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : پچھنا لگوانے کے کافی فوائد ہیں، بالخصوص جب بدن میں خون کی کثرت ہو تویہ نہایت مفید ہوتا ہے، اور بعض امراض میں اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فوراً آرام ہوجاتا ہے۔


3477- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمَلإٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ، إِلا كُلُّهُمْ يَقُولُ لِي: عَلَيْكَ، يَا مُحَمَّدُ ! بِالْحِجَامَةِ "۔
* تخريج: ت/الطب ۱۲ (۲۰۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۸)، وقد أخرجہ: (۱/۳۵۴) (صحیح)
(سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی پیدا ہوگئی تھی ، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: حدیث ۳۴۷۹، وحدیث ابن عمر فی مسند البزار و الصحیحہ: ۲۲۶۳)
۳۴۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' معراج کی رات میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا اس نے یہی کہا : محمد ! تم پچھنے کو لازم کرلو ''۔


3478- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " نِعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ، يَذْهَبُ بِالدَّمِ، وَيُخِفُّ الصُّلْبَ وَيَجْلُو الْبَصَرَ "۔
* تخريج: ت/الطب ۱۲(۲۰۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۳) (ضعیف)
(سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، نیز آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی آگئی تھی، ترمذی نے حدیث کی تحسین کی ہے ، اور حاکم نے تصحیح، اور ان کی موافقت ذہبی نے ایک جگہ (۴؍۲۱۲)کی ہے ، اور دوسری جگہ نہیں (۴؍۴۱۰)، البانی صاحب نے اس کو ذہبی کا وہم بتا یا ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۲۰۳۶)
۳۴۷۸- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''پچھنا لگانے والا بہت بہتر شخص ہے کہ وہ خون نکال دیتا ہے ، کمرکو ہلکا اور نگا ہ کو تیز کرتا ہے ''۔


3479- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمَلإٍ، إِلا قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ! مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۱) (صحیح)
(سند میں جبارہ اور کثیر بن سلیم ضعیف راوی ہیں ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: حدیث: ۳۴۷۸)
۳۴۷۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس رات معراج ہوئی میرا گزرفرشتوں کی جس جماعت پرہوا اس نے کہا:'' محمد ! اپنی امت کو پچھنا لگانے کا حکم دو ''۔


3480- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ،اسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي الْحِجَامَةِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ أَبَا طَيْبَةَ أَنْ يَحْجُمَهَا، وَقَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهُ كَانَ أَخَاهَا مِنَ الرِّضَاعَةِ، أَوْ غُلامًا لَمْ يَحْتَلِمْ۔
* تخريج: م/السلام ۲۶ (۲۲۰۶)، د/اللباس ۳۵ (۴۱۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۳۴۸۰- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے پچھنا لگانے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم ﷺ نے ابو طیبہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں پچھنا لگائے ، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابو طیبہ یا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے یا پھر نابالغ لڑکے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ورنہ اجنبی مرد کو آپ پچھنے لگانے کا کیسے حکم دیتے ، اگر چہ ضرورت کے وقت بیماری کے مقام کو طبیب کا دیکھنا جائز ہے بیماری کے مقام کی طرف ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَوْضِعِ الْحِجَامَةِ
۲۱ -باب: حجامت( پچھنا لگوانے) کی جگہ کا بیان​


3481- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ الأَعْرَجَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ بُحَيْنَةَ يَقُولُ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِلَحْيِ جَمَلٍ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَسَطَ رَأْسِهِ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۶)، الطب ۱۴ (۵۶۹۸)، م/الحج ۱۱ (۱۲۰۳)، ن/الحج ۹۵ (۲۸۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۵) ، دي/المناسک ۲۰ (۱۸۶۱) (صحیح)
۳۴۸۱- عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احرام کی حالت میں مقام لحی جمل میں اپنے سر کے بیچ میں پچھنا لگوایا ۔


3482- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ سَعْدٍ الإِسْكَافِ، عَنِ الأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ بِحِجَامَةِ الأَخْدَعَيْنِ وَالْكَاهِلِ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۲) (ضعیف جدا)
(سند میں سوید بن سعید ، سعد الاسکاف دونوں ضعیف ہیں، اوراصبغ بن نباتہ متروک ہے)
۳۴۸۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جبرئیل علیہ السلام گردن کی دونوں رگوں اوردونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ پر پچھنا لگانے کا حکم لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے۔


3483- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيب، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ فِي الأَخْدَعَيْنِ، وَعَلَى الْكَاهِلِ۔
* تخريج: د/الطب ۴ (۳۸۶۰)، ت/الطب ۱۲ (۲۰۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۷) (صحیح)
۳۴۸۳- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے گردن کی رگوں اور مونڈھے کے درمیان کی جگہ پچھنا لگوایا۔


3484- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ الأَنْمَارِيِّ؛ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَحْتَجِمُ عَلَى هَامَتِهِ، وَبَيْنَ كَتِفَيْهِ، وَيَقُولُ: " مَنْ أَهْرَاقَ مِنْهُ هَذِهِ الدِّمَائَ، فَلا يَضُرُّهُ أَنْ لا يَتَدَاوَى بِشَيْئٍ لِشَيْئٍ "۔
* تخريج: د/الطب ۴ (۳۸۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۳) (ضعیف)
(ملاحظہ ہو : الضعیفہ: ۱۸۶۷، تراجع الألبانی: رقم: ۱۹۴)۔
۳۴۸۴- ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سرپر اور دونوں کندھوں کے درمیان پچھنا لگواتے اور فرماتے تھے: ''جو ان مقامات سے خون بہادے، تو اگر وہ کسی بیماری کا کسی چیزسے علاج نہ کرے تو اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہوسکتا ''۔


3485- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ عَلَى جِذْعٍ، فَانْفَكَّتْ قَدَمُهُ، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ عَلَيْهَا مِنْ وَثْئٍ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۱۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۶۹ (۶۰۲)، الطب ۵ (۳۸۶۳)، ن/الحج ۹۳ (۲۸۵۱)، حم (۳/۳۰۵، ۳۵۷، ۳۶۳، ۳۸۲) (صحیح)
۳۴۸۵- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک بار اپنے گھوڑے سے کھجور کے درخت کی پیڑی پر گرپڑے، اس سے آپ کے پیر میں موچ آگئی ۔
وکیع کہتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صرف درد کی وجہ سے وہاں پر پچھنا لگوایا ۔
وضاحت ۱ ؎ : وثء : عربی میں اس درد کو کہتے جو کسی عضو میں عضو ٹوٹنے کے بغیر پیدا ہو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22- بَاب فِي أَيِّ الأَيَّامِ يُحْتَجَمُ ؟
۲۲ -باب: کن دنوں میں پچھنا لگوایا جائے ؟​


3486- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنِ النَّهَّاسِ ابْنِ قَهْمٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنْ أَرَادَ الْحِجَامَةَ فَلْيَتَحَرَّ سَبْعَةَ عَشَرَ، أَوْ تِسْعَةَ عَشَرَ، أَوْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَلا يَتَبَيَّغْ بِأَحَدِكُمُ الدَّمُ، فَيَقْتُلَهُ "۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۴)، وقد أخرجہ: ت/الطب ۱۲ (۲۰۵۱) (صحیح)
(تراجع الألبانی: رقم: ۳۸۵)
۳۴۸۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص پچھنا لگوانا چاہے تو (ہجری) مہینے کی سترہویں ،انیسویں یا اکیسویں تاریخ کو لگوائے، اور ( کسی ایسے دن نہ لگوائے ) جب اس کا خون جو ش میں ہو کہ یہ اس کے لئے موجب ہلاکت بن جائے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ابو داود نے کبشہ سے روایت کی کہ ان کے باپ منگل کے دن پچھنا لگوانے کو منع کرتے تھے اور کہتے تھے رسول اکرم نے فرمایا: منگل کے دن ایک ساعت ایسی ہے جس میں خون بند نہیں ہوتا، اور منگل کا دن خون کا دن ہے ،اور آگے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آتا ہے کہ پیر اور منگل کے دن پچھنے لگوا ؤ، پس دونوں میں تعارض ہو گیا، اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو مہینے کی سترھویں تاریخ کو پڑے کیونکہ طبرانی میں معقل بن یسا ر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاّ مروی ہے کہ جس نے منگل کے دن سترھویں تاریخ کو پچھنے لگوائے، وہ اس کے لئے سال بھر تک دوا ہوں گے ، اورکبشہ کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو ستر ہویں تاریخ کے سوا اورکسی تاریخ میں پڑے اور سنن ابی داود میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مر وی ہے جس نے پچھنے لگوائے سترھویں، یا انیسویں، یا اکیسویں کو وہ ہر بیماری سے شفا پائیں گے۔


3487- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: يَا نَافِعُ! قَدْ تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ، فَالْتَمِسْ لِي حَجَّامًا ، وَاجْعَلْهُ رَفِيقًا إِنِ اسْتَطَعْتَ، وَلا تَجْعَلْهُ شَيْخًا كَبِيرًا وَلاصَبِيًّا صَغِيرًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ، وَفِيهِ شِفَائٌ وَبَرَكَةٌ، وَتَزِيدُ فِي الْعَقْلِ وَفِي الْحِفْظِ،فَاحْتَجِمُوا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ وَالْجُمُعَةِ وَالسَّبْتِ وَيَوْمَ الأَحَدِ تَحَرِّيًا، وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَالثُّلاثَاءِ، فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي عَافَى اللَّهُ فِيهِ أَيُّوبَ مِنَ الْبَلاءِ وَضَرَبَهُ بِالْبَلاءِ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ، فَإِنَّهُ لا يَبْدُو جُذَامٌ وَلا بَرَصٌ إِلا يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ،أَوْ لَيْلَةَ الأَرْبِعَاءِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۵) (حسن)
(تراجع الألبانی: رقم: ۴۷۴ )
۳۴۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے غلام ) نافع سے کہا : نافع ! میرے خون میں جوش ہے ، لہٰذا کسی پچھنا لگانے والے کو میرے لئے تلاش کرو ، اور اگر ہو سکے تو کسی نرم مزاج کو لاؤ ، زیادہ بوڑھا اور کم سن بچہ نہ ہو ، اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :'' پچھنا نہار منہ لگانا بہتر ہے ، اس میں شفا اور برکت ہے ، اس سے عقل بڑھتی ہے اور قوت حافظہ تیز ہوتی ہے ، تو جمعرات کو پچھنا لگواؤ، اللہ برکت دے گا ،البتہ بدھ ، جمعہ ،سنیچر اور اتوار کو پچھنا لگوانے سے بچو، اور ان دنوں کا قصد نہ کرو ،پھر سوموار (دوشنبہ) اور منگل کے دن پچھنا لگواؤ ، اس لئے کہ منگل وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کو بیماری سے نجات دی، اور بدھ کے دن آپ کو اس بیماری میں مبتلا کیا تھا، چنانچہ جذام (کوڑھ) اور برص (سفید داغ) کی بیماریاں (عام طور سے ) بد ھ کے دن یا بدھ کی رات میں پیداہوتی ہیں'' ۔


3488- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ نَافِعٍ؛ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَا نَافِعُ! تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ،فَأْتِنِي بِحَجَّامٍ، وَاجْعَلْهُ شَابًّا وَلا تَجْعَلْهُ شَيْخًا وَلا صَبِيًّا، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ، وَهِيَ تَزِيدُ فِي الْعَقْلِ وَتَزِيدُ فِي الْحِفْظِ وَتَزِيدُ الْحَافِظَ حِفْظًا، فَمَنْ كَانَ مُحْتَجِمًا فَيَوْمَ الْخَمِيسِ،عَلَى اسْمِ اللَّهِ، وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَوْمَ السَّبْتِ وَيَوْمَ الأَحَدِ، وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَالثُّلاثَاءِ، وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ، فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ أَيُّوبُ بِالْبَلاءِ، وَمَا يَبْدُو جُذَامٌ وَلا بَرَصٌ إِلا فِي يَوْمِ الأَرْبِعَاءِ أَوْ لَيْلَةِ الأَرْبِعَاءِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۶۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۶) (حسن)
(سند میں عثمان و عبد اللہ بن عصمہ اور سعید بن میمون مجہول ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے حسن ہے،نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۷۶۶)
۳۴۸۸- نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نافع ! میرا خون جوش میں ہے ، لہٰذا کوئی پچھنا لگانے والا لاؤ، جو جوان ہو، ناکہ بوڑھا یا بچہ ، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :'' نہار منہ پچھنا لگانا بہتر ہے ، اس سے عقل بڑھتی ہے ، حافظہ تیزہوتا ہے، اوریہ حافظ کے حافظے کوبڑھاتی ہے ، لہٰذا جو شخص پچھنا لگائے تو اللہ کا نام لے کر جمعرات کے دن لگائے، جمعہ، ہفتہ (سنیچر) اور اتوار کو پچھنا لگانے سے بچو، پیر (دوشنبہ) اور منگل کو لگاؤ پھر چہار شنبہ (بدھ) سے بھی بچو ، اس لییکہ یہی وہ دن ہے جس میں ایوب علیہ السلام بیماری سے دوچار ہوئے، اور جذام وبرص کی بیماریاں بھی بدھ کے دن یا بدھ کی رات ہی کو نمودار ہوتی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-بَاب الْكَيِّ
۲۳ -باب: آگ یا لوہا سے بدن داغنے کا بیان​


3489- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَنِ اكْتَوَى أَوِ اسْتَرْقَى، فَقَدْ بَرِئَ مِنَ التَّوَكُّلِ " ۔
* تخريج: ت/الطب ۱۴ (۲۰۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴۹، ۲۵۱، ۲۵۳) (صحیح)
۳۴۸۹- مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے (آگ یا لوہا سے بدن ) داغنے یا منتر (جھاڑ پھونک) سے علاج کیا، وہ توکل سے بری ہوگیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : وہ دم (جھاڑ پھونک) ممنوع ہے جس میں شرکیہ الفاظ یا ایسے الفاظ ہوں جو معنی ومفہوم کے لحاظ سے واضح نہ ہوں ۔


3490- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ وَيُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ ابنِ الْحُصَيْنِ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْكَيِّ، فَاكْتَوَيْتُ فَمَا أَفْلَحْتُ، وَلاأَنْجَحْتُ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۰۹، ۱۰۸۱۴)، وقد أخرجہ: د/الطب ۷ (۳۸۶۵)، ت/الطب ۱۰ (۲۰۴۹)، حم (۴/۴۲۷، ۴۴۴، ۴۴۶) (صحیح)
۳۴۹۰- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (آگ یا لوہے سے جسم ) داغنے سے منع فرمایا، لیکن میں نے داغ لگایا، تو نہ میں کامیاب ہو ا،اور نہ ہی میری بیماری دور ہوئی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ نہی کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ پر محمول ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے خود سعد بن معاذ اور اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہما کو اپنے ہاتھ سے داغا، اگر حرام ہوتا تو ایسا نہ کرتے، کراہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ آگ کا عذاب ہے جو اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، یہ عمل نہ کرنا اولیٰ وافضل ہے۔


3491- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنَا سَالِمٌ الأَفْطَسُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " الشِّفَاءُ فِي ثَلاثٍ: شَرْبَةِ عَسَلٍ، وَشَرْطَةِ مِحْجَمٍ، وَكَيَّةٍ بِنَارٍ، وَأَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ "، رَفَعَهُ ۔
* تخريج: خ/الطب ۳ (۵۶۸۰، ۵۶۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۰۹) (صحیح)
۳۴۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ شفا تین چیزوں میں ہے : گھونٹ بھر شہد پینے میں ، پچھنا لگانے میں اور انگار سے ہلکا سا داغ دینے میں، اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتا ہوں ،یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مرفوع روایت کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دونوں طرف کی حدیثوں میں تطبیق یوں ہے کہ جب تک کوئی اور علاج ممکن ہو، تو وہ علاج کرلے نہ داغے جب دوسرے علاجوں سے فائدہ نہ ہو تو اخیر میں داغ دینا بھی جائز ہے جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آخری علاج داغ دینا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَنِ اكْتَوَى
۲۴ -باب: جو داغ لگوائے اس کے حکم کابیان​


3492- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،(ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ الأَنْصَارِيُّ (سَمِعَهُ عَمِّي يَحْيَى،وَمَا أَدْرَكْتُ رَجُلا مِنَّا بِهِ شَبِيهًا) يُحَدِّثُ النَّاسَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ زُرَارَةَ، وَهُوَ جَدُّ مُحَمَّدٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ، أَنَّهُ أَخَذَهُ وَجَعٌ فِي حَلْقِهِ، يُقَالُ لَهُ: الذُّبْحَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " لأُبْلِغَنَّ أَوْ لأُبْلِيَنَّ فِي أَبِي أُمَامَةَ عُذْرًا " فَكَوَاهُ بِيَدِهِ فَمَاتَ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " مِيتَةَ سَوْئٍ لِلْيَهُودِ! يَقُولُونَ: أَفَلا دَفَعَ عَنْ صَاحِبِهِ ! وَمَا أَمْلِكُ لَهُ وَلا لِنَفْسِي شَيْئًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۲۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۷)، وقد أخرجہ: ط/العین ۵ (۱۳) (حسن) دون قولہ: '' لأبلغن ۔۔۔''
۳۴۹۲- محمد بن عبدالرحمن بن اسعد بن زرارہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا یحییٰ بن اسعد بن زرارہ سے سنا، اور ان کا کہنا ہے کہ اپنوں میں ان جیسا - متقی وپرہیز گار- مجھے کوئی نہیں ملا لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ سعد بن زرارہ ۱ ؎ ( جو محمد کے نانا تھے ) کو ایک بار حلق کا درد ہوا ، اس درد کو ذُبحہ کہا جاتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میں ابوامامہ( یعنی! اسعد رضی اللہ عنہ ) کے علاج میں اخیر تک کوشش کرتا رہوں گا تاکہ کوئی عذر نہ رہے'' ، چنانچہ آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا، پھر ان کانتقال ہوگیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''یہود بری موت مریں، اب ان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد نے اپنے ساتھی کو موت سے کیوں نہ بچالیا، حالانکہ نہ میں اس کی جان کا مالک تھا، اور نہ اپنی جان کا ذرا بھی مالک ہوں '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اسعد بن زرارہ یا سعد بن زرارہ اس کے لئے دیکھئے: تحفۃ الاشراف والاصابہ۔
وضاحت ۲ ؎ : اسعد بن زرارہ انصار کے سردار تھے، بڑے مومن کامل تھے، آپ ﷺ نے جہاں تک ہو سکا ان کا علاج کیا، لیکن موت میں کسی کازرونہیں چلتا، رسول اکرم ﷺ کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ کسی کی موت آئے اور وہ روک دیں، لیکن یہودیوں کو جو شروع سے بے ایمان تھے، یہکہنے کا موقع ملا کہ اگر یہ سچے رسول ہوتے تو اپنے ساتھی سے موت کو دور کر دیتے ،آپ ﷺ نے ان کا رد کیا، اور فرمایا : رسول کو اس سے کیا علاقہ ؟ مجھ کو خود اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، تو بھلا دوسرے کی جان پر کیا ہوگا،اور افسوس ہے کہ یہودی اتنا نہ سمجھے کہ اگلے تمام انبیاء ورسل جب ان کی موت آئی مر گئے بلکہ ہارون علیہ السلام جو موسیٰ کے بھائی تھے، موسیٰ کی زندگی میں مرے اور موسیٰ علیہ السلام ان کونہ بچاسکے ،بھلا امر الٰہی کو کوئی روک سکتا ہے، ولی ہوں یا نبی ،اللہ تعالی کے سامنے سب عاجز بندے اور غلام ہیں۔


3493- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: مَرِضَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ مَرَضًا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ طَبِيبًا، فَكَوَاهُ عَلَى أَكْحَلِهِ۔
* تخريج: م/السلام ۲۶ (۲۲۰۷)، د/الطب ۶ (۳۸۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۵، ۳۷۱) (صحیح)
۳۴۹۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک بار بیمار پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک طبیب بھیجا ، اس نے ان کے ہاتھ کی رگ پر داغ دیا ۔


3494- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيبِ، حَدَّثَنَا وَكيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَوَى سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فِي أَكْحَلِهِ مَرَّتَيْنِ۔
* تخريج: تفرد ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۸)، وقد أخرجہ: م/السلام ۲۶ (۲۲۰۸)، د/الطب ۷ (۳۸۶۶)، ت/السیر ۲۹ (۱۵۸۲)، حم (۳/۳۶۳)، دي/السیر ۶۶ (۲۵۵۱) (صحیح)
۳۴۹۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ والی رگ میں دومرتبہ داغا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرم ﷺ سے علاج ومعالجہ کے لئے اعضاء بدن کو داغنے کے سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو بظاہر باہم متعارض نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلافات ہیں۔
۱- بعض احادیث سے اعضاء جسم کو داغنا ثابت ہے جیسے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے زخم کو داغنے کا واقعہ۔
۲- بعض میں اس سلسلہ میں آپ کی ناپسندیدگی کا ذکر ہے۔
۳- بعض میں اس کے چھوڑ دینے کی تعریف کی گئی ہے۔
۴- بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
واضح رہے کہ جن احادیث میں اعضاء جسم کو داغنے سے علاج اور شفاء کی بات آئی ہے اس سے اس کے جواز ومشروعیت کا ثبوت ملتا ہے، اور رسول اکرم ﷺ کے اس کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام ممنوع ہے، بلکہ اس کا معاملہ ضبکے ناپسند ہونے کی طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اسے نہ کھایا، لیکن یہ آپ ﷺ کے دسترخوان پر کھائی گئی، اور آپ نے اس پر سکوت اختیار کیا، اور اس کی حلت کا اقرار فرمایا، اور آپ کے ضب نہ کھانے کا تعلق آپ کی ذاتی ناپسندیدگی سے ہے جس کا ضب کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ہے،اور اس کے ترک کردینے پر پسندیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ اعضاء جسم کو داغ کر علاج نہ کرنا زیادہ بہتر بات ہے۔
اور ممانعت کی احادیث کراہت کے قبیل سے ہیں، یا ایسی صورت سے ممانعت کی بات ہے جس کی ضرورت وحاجت نہ ہو، بلکہ بیماری کے لاحق ہونے کے خوف کی بنا پر ہو۔
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ اعضاء جسم کے داغنے کے ذریعہ علاج بلا کراہت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے ،ایک یہ کہ اس علاج کے علاوہ اور کوئی صورت علاج کی باقی نہ ہو، بلکہ متعین طور پر اس علاج ہی کی تشخیص کی گئی ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اعضاء جسم کا داغنا شفا اور علاج کا مستقل سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے جو شفا دینے والا ہے، جب دوسری صورتیں علاج کی موجود ہوں تو آگ سے داغنے کا علاج مکروہ ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ علمائے دین نے اعضاء جسم کو داغ کر اس سے علاج کے جواز کی بات کہی ہے کہ یہ بھی علاج ومعالجہ کا ایک مجرب طریقہ ہے، بعض علماء نے اس اعتقاد سے صحت مند آدمی کو داغنے سے منع کیا ہے کہ وہ اس کے بعد دوبارہ بیمار نہ ہو، تو ایسی صورت حرام اور ممنوع ہے، اور دوسری علاج کی صورتیں جن میں زخم کے فساد کا علاج یا اعضاء جسم کے کٹنے کے بعد اس کے علاج کا مسئلہ ہو جائز ہے۔
یہ واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں (ا ور آج بھی لوگوں میں یہ رواج ہے) لوگوں کایہ اعتقاد تھا کہ صحت مند آدمی کو اس واسطے داغتے تھے کہ وہ اس کے بعد بیمار نہ ہو، اگر یہ صورت ہو تو احادیث نہی اس طرح کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، اسلام نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی شافی وکافی ہے۔ {إذا مرضت فهو يشفين}
اوپر کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہوا کہ اعضاء جسم کے ''داغنے'' کا طریقہء علاج مختلف صورتوں میں مختلف احکام رکھتا ہے، نہ تو ہمیشہ اس کا ترک صحیح ہے، اور نہ اس علاج کا ہمیشہ اختیار کرنا ہی صحیح ہے، کبھی کراہت کے ساتھ یہ جائز ہے، کبھی یہ علاج مکروہ ہے، اور کبھی یہ حرمت کے دائرہ میں آجاتا ہے، جواز کی صورت اس کی ضرورت کے پیش نظر ہے، بایں طور کہ علاج کی دوسری صورت باقی نہ ہو بلکہ متعین طور پر کسی بیماری میں یہی علاج موثر ہو جیسے تیزی سے جسم سے خون کے نکلنے میں داغنے کے علاوہ کوئی اس کو روکنے کی ترکیب نہ ہو، ورنہ بیمار کے مرجانے کا خدشہ ہو، اس صورت میں اس علاج کو اپنانا ضروری ہے، چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جسم سے خون نہ رکنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کے خوف سے ان کے جسم کوداغا۔
یہ واضح رہے کہ اس علاج میں یہ اعتقاد بھی ہونا چاہئے کہ یہ ایک سبب علاج ہے، اصل شافی اللہ تعالیٰ ہے۔
کراہت کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ دوسرے علاج کی موجودگی میں یہ علاج کیا جائے، اس لئے کہ اس علاج میں مریض کو سخت درد بلکہ اصل مرض سے زیادہ سخت درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کراہت کی ایک صورت یہ ہے کہ بیماری آنے سے پہلے حفظان صحت کے لئے یہ طریقۂ علاج اپنایا جائے، اس لئے کہ اس میں اللہ پر توکل واعتماد میں کمی اور کمزوری آجاتی ہے، اور مرض کے واقع ہونے سے پہلے ہی ''داغنے کے درد'' کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف اس خدشہ سے کہ ایسا مستقبل میں ممکن ہے، آگ کا عذاب اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس لئے اس صورت میں اس پر حرمت کا اطلاق بھی ہوسکتا ہے، داغنے کے علاج میں شفا ڈھونڈھنے میں غلو اور مبالغہ کی صورت میں آدمی حقیقی مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو بھول جاتا ہے، اور دنیاوی اسباب کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ اسباب کی طرف توجہ والتفات توحید میں شرک ہے۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ صحیح احادیث میں علاج کا حکم ہے، جو توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کو اس کے اضداد کے ذریعہ دور کیا جائے، بلکہ توحید کی حقیقت کا اتمام اسی وقت ہوگا جب آدمی اللہ تعالی کی شریعت میں اور سنن کونیہ (کائناتی نظام) میں نتائج تک پہنچنے کے لئے جو اسباب فراہم کئے ہیں ان کو استعمال کرے ،اور ان شرعی اور کونی اسباب کو معطل کر دینا دراصل نفس توکل میں قدح ہے۔
اور ایسے ہی امر الٰہی اور حکمت ربانی کا قادح اور اس میں کمزوری پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ان اسباب کو معطل کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ ان کا ترک توکل کے باب میں زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔
پس ان اسباب کا ترک عاجزی ہے، جو اس توکل کے منافی ہے جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ پر اپنے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں اور دینی ودنیاوی نقصانات سے دور رہنے میں اعتماد کرے۔
اس اعتماد وتوکل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، ورنہ آدمی حکمت الٰہی اور شریعت کے اوامر کو معطل کرنے والا ہوگا، لہذا آدمی اپنی عاجزی کو توکل نہ بنائے، اور نہ ہی توکل کو عاجزی کا عنوان دے۔(زاد المعاد: ۴؍۱۵) (حررہ الفریوائی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25- بَاب الْكُحْلِ بِالإِثْمِدِ
۲۵ -باب: اثمد کا سرمہ لگانے کا بیان​


3495- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : "عَلَيْكُمْ بِالإِثْمِدِ،فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ"۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۷۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۱۹) (صحیح)
(سند میں عثمان بن عبدالملک لین الحدیث ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، جب کہ باب کی احادیث میں ہے، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۷۲۴)
۳۴۹۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم لوگ اپنے او پر اثمد ۲؎ کو لازم کرلو ، اس لئے کہ وہ بینائی تیز کرتا ہے اور بال اگاتا ہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : ثرمد: ایک پتھر ہے جو اصفہا ن (ایران) میں پایا جاتا ہے ۔اس سے تیار کردہ سرمہ بہترین اور مفید ہوتا ہے۔


3496- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ إِسْماَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " عَلَيْكُمْ بِالإِثْمِدِ عِنْدَ النَّوْمِ، فَإِنَّهُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۰۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۲۰) (صحیح)
(سند اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن متابعت کثیرہ کی وجہ سے حدیث صحیح ہے کما تقدم )
۳۴۹۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''سوتے وقت اثمد کا سرمہ ضرور لگاؤ، کیونکہ اس سے نظر( نگاہ) تیز ہوتی ہے اور بال اُگتے ہیں''۔


3497- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ "خَيْرُ أَكْحَالِكُمُ الإِثْمِدُ، يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعَرَ "۔
* تخريج: ت/ الجنائز ۱۸ (۹۹۴)، الشمائل ۵۱، د/الطب ۱۴ (۳۸۷۸)، ن/الزینۃ ۲۸ (۵۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۱، ۲۴۷، ۲۷۴، ۳۲۸، ۳۵۵، ۶۳ ۳) (صحیح)
۳۴۹۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے بہتر سرمہ اثمد کا ہے،وہ نظر (بینائی) تیز کرتا، اور بالوں کواگاتا ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَنِ اكْتَحَلَ وِتْرًا
۲۶ -باب: سرمہ طاق لگانے کا بیان​


3498- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ،حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُصَيْنٍ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدِ الْخَيْرِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " مَنِ اكْتَحَلَ، فَلْيُوتِرْ مَنْ فَعَلَ، فَقَدْ أَحْسَنَ، وَمَنْ لا، فَلا حَرَجَ "۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۲۳ (۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۳۸)، وقد أخرجہ: ط/الطہارۃ ۱ (۲)، حم (۲/۳۷۱، دي/الطہارۃ ۵ (۶۸۹) (ضعیف)
(حصین حمیری اور ابوسعد الخیر دونوں مجہول ہیں)
۳۴۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص سرمہ لگائے تو طاق لگائے، اگر ایسا کرے گا تو بہتر ہوگا، او راگر نہ کیا تو حرج کی بات نہیں'' ۔


3499- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَتْ لِلنَّبِيِّ ﷺ مُكْحُلَةٌ يَكْتَحِلُ مِنْهَا ثَلاثًا فِي كُلِّ عَيْنٍ۔
* تخريج: ت/اللباس ۲۳ (۱۷۵۷)، الطب ۹ (۲۰۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۵۴) (ضعیف)
(سند میں عباد بن منصور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
۳۴۹۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی ، آپ اس میں سے ہر آنکھ میں تین بار سرمہ لگاتے ۔
 
Top