• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب الْعَسَلِ
۷ -باب: شہد کا بیان​


3450- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَكَرِيَّائَ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَاشِمِيُّ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ لَعِقَ الْعَسَلَ ثَلاثَ غَدَوَاتٍ، كُلَّ شَهْرٍ، لَمْ يُصِبْهُ عَظِيمٌ مِنَ الْبَلاءِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۸۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۸) (ضعیف)
(سند میں عبد الحمید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے، عبد الحمید مجہول بھی ہیں، اور سند میں زبیر ہاشمی بھی لین الحدیث ہیں)
۳۴۵۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص ہر ماہ تین روز صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے، وہ کسی بڑی آفت بیماری سے دو چار نہ ہوگا''۔


3451- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ الْعَطَّارُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ ﷺ عَسَلٌ، فَقَسَمَ بَيْنَنَا لُعْقَةً لُعْقَةً، فَأَخَذْتُ لُعْقَتِي، ثُمَّ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَزْدَادُ أُخْرَى؟ قَالَ: " نَعَمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۹) (ضعیف)
(سند میں ابوحمزہ ، عمربن سہل ضعیف ہیں، اور حسن بصری کا جابر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۳۴۵۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شہد ہدیہ میں آیا تو آپ نے تھوڑا تھوڑا ہم سب کے درمیان تقسیم فرمایا، مجھے اپنا حصہ ملا تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا میں مزید لے سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں ''۔


3452- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " عَلَيْكُمْ بِالشِّفَائَيْنِ: الْعَسَلِ وَالْقُرْآنِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۰) (ضعیف)
(سند میں زید بن الحباب ہیں، جو سفیان ثوری کی احادیث میں غلطیاں کرتے ہیں، اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ موقوفاً ثابت ہے)
۳۴۵۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم دو شفا ؤں یعنی شہداور قرآن کو لازم پکڑو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب الْكَمْأَةِ وَالْعَجْوَةِ
۸-باب: کھمبی اور عجوہ کھجور کا بیان​


3453- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ؛ قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَائٌ لِلْعَيْنِ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَائٌ مِنَ الْجِنَّةِ ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸۱، ۲۲۸۲، ۴۰۷۴، ۴۰۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۸) (صحیح)
(''شِفَائٌ مِنَ السم'' کے لفظ سے صحیح ہے ، '' مِنَ الْجِنَّةِ '' کے لفظ سے منکر ہے ،ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ بتحقیق مشہور حسن ،نیز ملا حظہ ہو: آگے والی حدیث ۳۴۵۵)
۳۴۵۳- ابوسعید خدری اور جابر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کھمبی ۱؎ منّ میں سے ہے ،اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج ، اور عجوہ (کھجور) جنت کا میوہ ہے اور اس میں پاگل پن اور دیوانگی کا علاج ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : كَمْأَةُ : جمع ہے،اس کی واحد '' كمئٌ '' ہے،ابن اثیرنے اس کے بارے میں کہا کہ یہ معروف چیز ہے ، لیکن اردو زبان میں اس کا ترجمہ کھمبی ،ککرمتاسے کیا جاتاہے ،صاحب فیروز اللغات لکھتے ہیں: یہ ایک قسم کی سفید نباتات جواکثربرسات میں ازخودپیداہوجاتی ہے ، اوراسے تل کرکھاتے ہیں، سانپ کی چھتری ، جمع: کھمبیاں ، کھمبیوں (۱۱۲۱)،مصباح اللغات میں '' كمئٌ '' کا ترجمہ یہ ہے : سانپ کی چھتری اوراس کو'' شحم الأرض ''کہتے ہیں، جمع : أكمؤٌ ، و كَمْأَةُ (۷۵۰-۷۵۱)
لسان العرب میں'' كمء'' کی تعریف یوں ہے : یہ ایسی نبات ہے جو زمین کوپھاڑکرویسے ہی نکلتی ہے جیسے کہ'' فُطر'' یعنی زمین سے اُگنے والی نبات اورمزیدفرمایا : یہ بھی کہا گیا ہے کہ كمء مٹ میلی اورکالی سرخی مائل چیز اورسفید ''فَقْعَه''ہے، اوراس کے بعد یہی حدیث ذکرفرمائی ۔
اور'' فُطر'' نامی نبات کو مشروم بھی کہتے ہیں ، ملاحظہ ہو: قاموس الغذاء والتداوی بالنبات لاحمدقدامہ : صفحہ ۴۸۹
حدیث میں وارد''كمء''سے مراد وہ پھل ہے جوزمین کے اندرآلوکی شکل میں اوراسی کی طرح پیداہوتا ہے ، اوراس کو سعودی عرب میں ''فَقْعَه'' کہتے ہیں ، جاڑے میں بارش کے بعدیہ پیداہوتا ہے ، صحراء کے لوگ اس کی جائے پیدائش سے واقف ہوتے ہیں، اور اسے زمین سے نکال کرلے آتے ہیں، یہ بازارمیں بھی بھاری قیمت سے فروخت ہوتا ہے ، جس کی قیمت تین سو ریال فی کلو تک پہنچ جاتی ہے ، یہ آلو کی شکل کا ہوتا ہے، اس کی لذت پکاکرکھانے میں بالکل گوشت کی طرح ہوتی ہے ، اس لیے اس کو زمین کے اندراُگنے والا ''مَن '' کہاجائے توبیجانہ ہوگا، حدیث میں اس کو ''مَن ''میں شمارکیا گیا ہے ، اوراس کے عرق کو آنکھ کا علاج بتایا گیا ہے ، اور اس کا ذکر عجوہ کھجورکے ساتھ آیا ہے ، صحیح یہی ہے کہ کمئَہ سے مراد سعودی عرب میں مشہور ''فَقْعَه'' نامی پھل ہے ، جوآلو کے ہم شکل اوراسی کی طرح زمین میں پیداہوتا ہے ۔
حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں اس کی تعریف یوں کی ہے : کمئہ ایسی نبات ہے جو تنا (ڈنٹھل)اورپتوں کے بغیرہوتی ہے ، اور یہ زمین میں بغیربوئے پائی جاتی ہے ، اوریہ عرب علاقوں میں بہت پائی جاتی ہے اورمصروشام میں بھی پائی جاتی ہے ، حافظ ابن حجرنے جوتفصیلی بتائی ہے اس کے مطابق بھی یہ وہی ''فَقْعَه'' ہے جس کی تشریح اوپرگزری ۔(ملاحظہ ہو: فتح الباری حدیث نمبر: ۵۷۰۸)
حکیم مظفرحسین اعوان نے کھمبی کی تعریف یوں کی ہے : اردو: کھمب ، ہندی: کھم ، سندھی: کھنبہی ، انگریزی : مش روم : یہ بغیرتنا اور بغیرپتوں کے خودرو پوداہے جوگرمی کے موسم میں بارش کے بعدپیداہوتا ہے ، اس میں جوہرارضی زیادہ اورجوہرمائی کم ہوتا ہے ، لیکن جب یہ خشک ہوجاتی ہے تواس کی مائیت زائل ہوجا تی ہے ، اورصرف ارضیت کے باقی رہنے سے غلظت بڑھ جاتی ہے ... قابض ونفاخ ہے ، بلغم اورسودا پیداکرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امراض سوداوی اوربلغمی میں مضرہے ...کھمب کا بڑا وصف صرف یہ ہے کہ یہ بہت لذیذہوتی ہے اس لیے لوگ اسے پکاکرکھاتے ہیں (کتاب المفردات : صفحہ ۳۸۶)
احمدقدامہ نے لفظ كَمْأَةُ کے تحت جو تفاصیل ذکرکی ہیں وہ سابقہ خودروزیرزمین آلوکی مانندپھل کی ہے ، مولف نے آنکھ کے علاج سے متعلق طبی فوائد کابھی ذکرکیا ہے ، اورجدیدتحقیقات کی روشنی میں اس کے اندرپائی جانے والی چیزوں کی تفصیلی بتائی ہے ، اورآخرمیں لکھاہے کہ زمین میں اُگنے والی ساری خودرو نباتات میں قوت باہ کو زیادہ کرنے میں یہ سب سے فائق ہے ، اس میں کاربن ، اکسیجن اور ہیڈروجن کے ساتھ ساتھ نٹروجین کی بھی ایک مقدارپائی جاتی ہے ، اس لیے یہ اپنی ترکیب میں گوشت کی مانندہے ، اور پکانے کے بعداس کا مزہ بکری کے گردے کی طرح ہوتا ہے۔(قاموس الغذاء : ۶۰۲-۶۰۴) ، نیز ملاحظہ ہو: المعجم الوسیط : مادہ الکمأ ۔
ککرمتاجسے سانپ کی چھتری بھی کہتے ہیں اورکھمبی سے بھی یہ جانا جاتاہے ، جس کی تفصیل اوپرگزری یہ ایک دوسرا خود رو چھوٹا پوداہے جو برصغیرکے مرطوب علاقوں میں گرمی کے موسم میں بارش کے بعد اُگتاہے، خاص کران علاقوں میں جہاں سرکنڈا (جسے سینٹھا،نرسل ، نرکل اور نئے بھی کہتے ہیں)ہوتا ہے ، اوریہ زمین پر خود بخود اگتا ہے، اس کا تعلق حدیث میں وارد کھمبی سے نہیں ہے ۔واللہ اعلم۔
وضاحت ۲ ؎ : عجوہ کھجور سے دیوانگی اورپاگل پن کے علاج کا لفظ حدیث میں صحیح نہیں ہے ، صحیح حدیث میں زہر کا علاج آیا ہے ۔ (ملاحظہ ہو: حدیث نمبر ۳۴۵۵)۔


3453/ أ- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الرَّقِّيَّان، قَالا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنُ هِشَامٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النِّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۰۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۲) (صحیح)
۵۳ ۳۴/أ- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے ۔


3454- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، سَمِعَ عَمْرَو بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: " أَنَّ الْكَمْأَةَ مِنَ الْمَنِّ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ،وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ "۔
* تخريج: خ/الطب ۲۰ (۵۷۰۸)، م/الأشربۃ ۲۸ (۲۰۴۹)، ت/الطب ۲۲ (۲۰۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۷، ۱۸۸) (صحیح)
۴۳۵۴- سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کھمبی من میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کھمبی اس من کے ہم مثل ہے جو بلا محنت ومشقت آسمان سے بنی ا سرائیل کے لیے نازل ہوتا تھا، کھمبی ایک چھوٹا سا پودا ہے جو زمین سے نکلتا ہے۔


3455- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَذَكَرْنَا الْكَمْأَةَ، فَقَالُوا: هُوَ جُدَرِيُّ الأَرْضِ، فَنُمِيَ الْحَدِيثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: "الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَالْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَهِيَ شِفَائٌ مِنَ السَّمِّ " ۔
* تخريج: ت/الطب ۲۲ (۲۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۱، ۳۰۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۴۲۱، ۴۸۸،۴۹۰، ۵۱۱)، دي/الرقاق ۱۱۵ (۲۸۸۲) (صحیح)
۳۴۵۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس گفتگو کررہے تھے کہ کھمبی کا ذکر آگیا ، تو لوگوں نے کہا: وہ تو زمین کی چیچک ہے ، یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' کھمبی منّ میں سے ہے، اور عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے ، اور اس میں زہر سے شفا ہے ''۔


3456- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُشْمَعِلُّ بْنُ إِيَاسٍ الْمُزَنِيُّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ عَمْرٍو الْمُزَنِيَّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " الْعَجْوَةُ وَالصَّخْرَةُ مِنَ الْجَنَّةِ " قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: حَفِظْتُ الصَّخْرَةَ مِنْ فِيهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶، ۵/۳۱، ۶۵) (ضعیف)
(مشعمل نے کبھی ''الصخرۃ '' کہا اور کبھی ''الشجرہ'' ا س اضطراب کی وجہ سے یہ ضعیف ہے )
۳۴۵۶- رافع بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: ''عجوہ کھجور اور صخرہ یعنی بیت المقدس کا پتھر جنت کی چیزیں ہیں ''۔
عبدالرحمن بن مہد ی کہتے ہیں : لفظ '' صخرہ '' میں نے ان کے منہ سے سن کریاد کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب السَّنَا وَالسَّنُّوتِ
۹ -باب: سنا اور سنوت کا بیان​


3457- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ سَرْحٍ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ بَكْرٍ السَّكْسَكِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي عَبْلَةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُبَيِّ بْنَ أُمِّ حَرَامٍ - وَكَانَ قَدْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الْقِبْلَتَيْنِ - يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "عَلَيْكُمْ بِالسَّنَى وَالسَّنُّوتِ، فَإِنَّ فِيهِمَا شِفَائً مِنْ كُلِّ دَائٍ إِلا السَّامَ "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا السَّامُ؟ قَالَ: "الْمَوْتُ " قَالَ عَمْرٌو: قَالَ ابْنُ أَبِي عَبْلَةَ: السَّنُّوتُ الشِّبِتُّ، و قَالَ آخَرُونَ: بَلْ هُوَ الْعَسَلُ الَّذِي يَكُونُ فِي زِقَاقِ السَّمْنِ،وَهُوَ قَوْلُ الشَّاعِرِ:
هُمُ السّمْنُ بِالسَّنُّوتِ لا أَلْسَ فِيهمْ
وَهُمْ يَمْنَعُونَ جَارَهُمْ أَنْ يُقَرَّدَا
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۵۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۴) (صحیح)
۳۴۵۷- ابوابی بن ام حرام رضی اللہ عنہ (وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف صلاۃ پڑھ چکے ہیں)کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: '' تمسنااور سنوت ۱؎ کا استعمال لازم کرلو، اس لئے کہ سام کے سوا ان میں ہر مرض کے لئے شفا ہے'' عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! سام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' موت''۔
عمرو کہتے ہیں کہ ابن ابی عبلہ نے کہا: سنوت: سویے کو کہتے ہیں، بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ وہ شہد ہے جو گھی کی مشکوں میں ہوتا ہے، شاعرکایہ شعر اسی معنی میں وارد ہے ۔


هُمُ السّمْنُ بِالسَّنُّوتِ لا أَلْسَ فِيهمْ
وَهُمْ يَمْنَعُونَ جَارَهُمْ أَنْ يُقَرَّدَا


وہ لوگ ملے ہوئے گھی اور شہد کی طرح ہیں ان میں خیانت نہیں، اور وہ لوگ تو اپنے پڑوسی کو بھی دھوکا دینے سے منع کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سنا: ایک مسہل (دست لانے والی) دو ا کانام ہے ، اور سنوت : سویا یا بعض لوگوں کے بقول شہد کو کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب الصَّلاةُ شِفَائٌ
۱۰-باب: صلاۃ کے شفا ہونے کا بیان​


3458- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ، حَدَّثَنَا السَّرِيُّ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا ذَوَّادُ بْنُ عُلْبَةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: هَجَّرَ النَّبِيُّ ﷺ فَهَجَّرْتُ، فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: " اشِكَمَتْ دَرْدْ "؟ قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " قُمْ فَصَلِّ، فَإِنَّ فِي الصَّلاةِ شِفَائً ".
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۵۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۰، ۴۰۳) (ضعیف)
(سند میں ذوّاد بن علبہ اور لیث بن ابی سلیم دونوں ضعیف ہیں)
۳۴۵۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار دو پہر کو چلے، میں بھی چلا، تو میں نے صلاۃ پڑھی پھر بیٹھ گیا، اتنے میں نبی اکرم ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا : " اشِكَمَتْ دَرْدْ " ( کیا پیٹ میں درد ہے ؟ ) میں نے کہا: ہاں ، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا:'' اٹھو اور صلاۃ پڑھو، اس لئے کہ صلاۃ میں شفا ہے'' ۔
[ز] 3458/أ- حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُوسَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ذَوَّادُ بْنُ عُلْبَةَ،فَذَكَرَ نَحْوَهُ،وَقَالَ فِيهِ: اشِكَمَتْ دَرْدْ ؟ -يَعْنِي: تَشْتَكِي بَطْنَكَ، بِالْفَارِسِيَّةِ -.۳۴۵۸/أ - اس سند سے بھی ذوّاد بن علبہ نے اسی طرح کی روایت ذکر کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ''اشِكَمَتْ دَرْدْ'' فارسی زبان کا جملہ ہے جس کے معنی ہیں ؛ کیا تیرے پیٹ میں درد ہے ؟۔
قَالَ أَبو عَبْداللَّهِ: حَدَّثَ بِهِ رَجُلٌ لأَهْلِهِ، فَاسْتَعْدَوْا عَلَيْهِ۔( مصباح الزجاجة: 1206)
ابو عبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث ایک شخص نے اپنے گھروالوں سے بیان کی تو انہوں نے اس کی تادیب کے لئے حاکم کی طرف رجوع کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب النَّهْيِ عَنِ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ
۱۱-باب: ناپاک دواؤں سے علاج کرنے کی ممانعت​


3459- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحاقَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ،يَعْنِي السُّمَّ۔
* تخريج: د/الطب ۱۰ (۳۸۷۰)، ت/الطب ۷ (۲۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۰۵، ۴۴۶، ۴۷۸) (صحیح)
۳۴۵۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپاک (یا حرام) دوا سے منع فرمایا، یعنی زہر سے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری روایت میں ہے کہ حرام سے دوامت کرو ،اور زہر سب حرام ہے اس مقدار میں جس سے مرنے کا اندیشہ ہو، بیہقی نے کہا: اگر یہ دونوں حدیثیں صحیح ہوں، تو مراد خبیث حرام سے مسکرہے، یعنی جس چیز میں نشہ ہو ۔


3460- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " مَنْ شَرِبَ سُمًّا،فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا "۔
* تخريج: م/الإیمان ۴۷ (۱۷۵)، ت/الطب ۷ (۲۰۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶۶)، وقد أخرجہ: خ/الطب ۵۶ (۵۷۷۸)، د/الطب ۱۱ (۳۸۷۲)، ن/الجنائز ۶۸ (۱۹۷۶)، حم (۲/۲۵۴، ۴۷۸، ۴۸۸)، دي/الدیات ۱۰ (۲۴۰۷) (صحیح)
۳۴۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے زہر پی کر اپنے آپ کومارڈالا، تو وہ اسے جہنم میں بھی پیتا رہے گاجہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اکثر علماء نے کہا ہے کہ یہ تشدید اور سختی کے طور پر ہے، اور مومن اگرچہ کیسا ہی سخت گناہ کرے ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رہے گا،بلکہ کبھی نہ کبھی جہنم سے ضرور نکالا جائے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب دَوَاءِ الْمَشِيِّ
۱۲ -باب: دست لانے والی دوا کا بیان​


3461- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مَوْلًى لِمَعْمَرٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ مَعْمَرٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ؛ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " بِمَاذَا كُنْتِ تَسْتَمْشِينَ؟ " قُلْتُ بِالشُّبْرُمِ، قَالَ: " حَارٌّ جَارٌّ " ثُمَّ اسْتَمْشَيْتُ بِالسَّنَى فَقَالَ: " لَوْ كَانَ شَيْئٌ يَشْفِي مِنَ الْمَوْتِ كَانَ السَّنَي، وَالسَّنَي شِفَائٌ مِنَ الْمَوْتِ "۔
* تخريج: ت/الطب ۳۰ (۲۰۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶۹) (ضعیف)
(زرعہ بن عبد الرحمن مجہول اورمولی معمر مبہم راوی ہیں)
۶۱ ۳۴- اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا :'' تم مسہل کس چیز کالیتی تھی ؟'' میں نے عرض کیا : شبر م سے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''وہ تو بہت گرم ہے ''، پھر میں سنا کا مسہل لینے لگی ، توآپ ﷺ نے فرمایا:'' اگر کوئی چیزموت سے نجات دے سکتی تو وہ سنا ہوتی ، سنا ہر قسم کی جان لیوا امراض سے شفا دیتی ہے ''۔
وضاحت ۱ ؎ : ایک گرم اور سخت قسم کا چنے کے برا بر دانہ ہوتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب دَوَاءِ الْعُذْرَةِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْغَمْزِ
۱۳ -باب: حلق کے ورم کی دوا کا بیان اور حلق دبانے کی ممانعت​


3462- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ؛ قَالَتْ: دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ أَعْلَقْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْعُذْرَةِ، فَقَالَ: " عَلامَ تَدْغَرْنَ أَوْلادَكُنَّ بِهَذَا الْعِلاقِ؟، عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْعُودِ الْهِنْدِيِّ،فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ، يُسْعَطُ بِهِ مِنَ الْعُذْرَةِ، وَيُلَدُّ بِهِ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ "
* تخريج: خ/الطب ۱۰ (۵۶۹۲)، ۲۱ (۵۷۱۳)، ۲۳ (۵۷۱۵)، ۲۶ (۵۷۱۸)، م/السلام ۲۸ (۲۲۱۴)، د/الطب ۱۳ (۳۸۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۵۵، ۳۵۶) (صحیح)
۳۴۶۲- ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور اس سے پہلے میں نے عذرہ(ورم حلق) کی شکایت سے اس کا حلق دبایا تھا ، آپ ﷺ نے پوچھا :'' آخر کیوں تم لوگ اپنے بچوں کے حلق دباتی ہو ؟ تم یہ ہندی عود اپنے لئے لازم کرلو ، اس لئے کہ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے ، اگر عذرہ ۱؎ (ورم حلق)کی شکایت ہو تو اس کی نسوار دی جائے، اور اگر ذات الجنب ۲ ؎ (نمو نیہ ) کی شکایت ہو تواسے منہ سے پلایا جائے'' ۔
وضاحت ۱؎ : عذرہ : ایک ورم ہے حلق میں بچوں کو اکثر ہو جاتا ہے ، عورتیں دبا کر انگلی سے اس کا علاج کرتی ہیں۔
وضاحت ۲ ؎ : ذات الجنب : ایک بیماری ہے جسے نمونیہ کہا جاتا ہے۔
3462/أ- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، بِنَحْوِهِ، قَالَ يُونُسُ: أَعْلَقْتُ يَعْنِي غَمَزْتُ۔
۳۴۶۲/أ - اس سند سے بھی ام قیس رضی اللہ عنہا سے اسی طرح روایت مرفوعاً وارد ہے، یونس کہتے ہیں : أَعْلَقْتُ کے معنی ہیں غَمَزْتُ یعنی میں نے دبایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-بَاب دَوَاءِ عِرْقِ النَّسَا
۱۴ -باب: عرق النسا کی دوا کا بیان​


3463- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَرَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " شِفَاءُ عِرْقِ النَّسَا أَلْيَةُ شَاةٍ أَعْرَابِيَّةٍ تُذَابُ، ثُمَّ تُجَزَّأُ ثَلاثَةَ أَجْزَائٍ، ثُمَّ يُشْرَبُ عَلَى الرِّيقِ فِي كُلِّ يَوْمٍ جُزْئٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۱۹) (صحیح)
۳۴۶۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' عرق النسا ۱؎ کا علاج یہ ہے کہ جنگلی بکری کی (چربی )کی چکتی لی جائے اور اسے پگھلایا جائے ، پھر اس کے تین حصے کئے جائیں ، اور ہر حصے کو روزانہ نہار منہ پیا جائے''۔
وضاحت ۱ ؎ : عرق النسا ایک قسم کا درد ہے جو پیر کی ایک رگ میں ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب دَوَاءِ الْجِرَاحَةِ
۱۵-باب: زخم کے علاج کا بیان​


3464- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ؛ قَالَ: جُرِحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ،فَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْهُ، وَعَلِيٌّ يَسْكِبُ عَلَيْهِ الْمَائَ بِالْمِجَنِّ، فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ أَنَّ الْمَائَ لا يَزِيدُ الدَّمَ إِلا كَثْرَةً، أَخَذَتْ قِطْعَةَ حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهَا، حَتَّى إِذَا صَارَ رَمَادًا، أَلْزَمَتْهُ الْجُرْحَ فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۷۳ (۲۴۳)، الجہاد ۸۵ (۲۹۱۱)، الطب/۲۷ (۵۷۲۲)، م/الجہاد ۳۷ (۱۷۹۰)، ت/الطب ۳۴ (۲۰۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۰۶) (صحیح)
۳۴۶۴- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوئہ احد کے دن زخمی ہوگئے ، آپ کے سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا، اور خود آ پ کے سر میں گھس گیا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کا خون دھور ہی تھیں اورعلی رضی اللہ عنہ ڈھال سے پانی لالا کر ڈال رہے تھے ، جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی کی وجہ سے خون بجائے رکنے کے بڑھتا ہی جاتا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا، جب وہ راکھ ہوگیا تو اسے زخم میں بھر دیا، اور اس طرح خون رک گیا ۔


3465- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِالْمُهَيْمِنِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: إِنِّي لأَعْرِفُ يَوْمَ أُحُدٍ مَنْ جَرَحَ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَمَنْ كَانَ يُرْقِئُ الْكَلْمَ مِنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَيُدَاوِيهِ، وَمَنْ يَحْمِلُ الْمَائَ فِي الْمِجَنِّ، وَبِمَا دُووِيَ بِهِ الْكَلْمُ حَتَّى رَقَأَ، قَالَ: أَمَّا مَنْ كَانَ يَحْمِلُ الْمَائَ فِي الْمِجَنِّ فَعَلِيٌّ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ يُدَاوِي الْكَلْمَ فَفَاطِمَةُ، أَحْرَقَتْ لَهُ حِينَ لَمْ يَرْقَأْ قِطْعَةَ حَصِيرٍ خَلَقٍ، فَوَضَعَتْ رَمَادَهُ عَلَيْهِ فَرَقَأَ الْكَلْمُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۳) (صحیح)
(سند میں عبد ا لمہیمن ضعیف ہیں ، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۴۶۵- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ غزوئہ احد کے دن کس نے رسول اللہ ﷺ کے چہرئہ مبارک کو زخمی کیا تھا ؟ اورکون آپ ﷺ کے چہرئہ مبارک سے زخموں کو دھو رہاتھا، اور ان کا علاج کررہاتھا ؟ کون تھا جو ڈھال میں پانی بھرکر لارہاتھا؟ اور کس چیز کے ذریعے آپ کے زخم کا علاج کیا گیا، یہاں تک کہ خون تھما، ڈھال میں پانی بھر کرلانے والے علی رضی اللہ عنہ تھے ، زخموں کا علاج کرنے والی فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں ، جب خون نہیں رکا تو انہوں نے پرانی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا، اور اس کی راکھ زخم پر لگا دی ، اس طرح زخم سے خون کا بہنا بند ہوا ۔
وضاحت ۱ ؎ : مشہور یہ ہے کہ عبد اللہ بن قمیہ نے آپ ﷺ کو زخمی کیا ، اور بعضوں نے کہا کہ چار ملعون کا فروں(یعنی عبد اللہ بن قمیہ اور عتبہ بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن شہاب زہری ،اور ابی بن خلف ) نے آپ ﷺ کے قتل کا عہد کیا تھا، امام نووی تہذیب الأسماء واللغات میں کہتے ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص وہی ہے جس نے رسول اکرم ﷺ کا چہرئہ مبارک زخمی کیا ، اور احد کے دن آپ کا دانت توڑا میں نہیں جانتا کہ وہ مسلمان ہوا ہو، ا ور نہ آگے اس کو صحابہ میں ذکر کیا، اور بعضوں نے کہا وہ کافر مرا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ
۱۶-باب: طب نہ جانتے ہوئے علاج معالجہ کرنے والے کا بیان​


3466- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَرَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍالرَّمْلِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ تَطَبَّبَ، وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ قَبْلَ ذَلِكَ فَهُوَ ضَامِنٌ "۔
* تخريج: د/الدیات ۲۵ (۴۵۸۶)، ن/القسامۃ ۳۴ (۴۸۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۶) (حسن)
(سند میں ابن جریج مدلس راوی ہیں،اور عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے )
۳۴۶۶- عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جوشخص علاج کرنے لگے حالانکہ اس سے پہلے اس کے طبیب ہونے کا کسی کو علم نہیں تھا، تو وہ ضامن (ذمہ دار )ہوگا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اگر جان جاتی رہی تو اس کو آدھی دیت دینی ہوگی، اور جو کوئی عضو بیکار ہو جأے اس کی بھی دیت دینا ہوگی۔
 
Top