• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24-بَاب النَّفْخِ فِي الشَّرَابِ
۲۴ -باب: مشروب میں پھونکنے کا بیان​


3429- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلاَّدٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ،عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسُ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُنْفَخَ فِي الإِنَاءِ۔
* تخريج: (انظر حدیث رقم: ۳۲۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۴۹) (صحیح)
۳۴۲۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے برتن میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اندیشہ ہے کہ منہ سے کچھ گرے اور پانی میں پڑجائے اس سے دوسروں کو نفرت ہو۔


3430- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْفُخُ فِي الشَّرَابِ۔
* تخريج: ( أنظر حدیث رقم: ۳۲۸۸) (ضعیف)
(سند میں شریک القاضی ضعیف الحفظ ہے )
۳۴۳۰- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مشروب میں پھونک نہیں مارتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب الشُّرْبِ بِالأَكُفِّ وَالْكَرْعِ
۲۵ -باب: پانی چلّو سے پینے اور منہ لگا کر پینے کا بیان​


3431- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ زِيَادِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: َهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَشْرَبَ عَلَى بُطُونِنَا، وَهُوَ الْكَرْعُ، وَنَهَانَا أَنْ نَغْتَرِفَ بِالْيَدِ الْوَاحِدَةِ، وَقَالَ: " لا يَلَغْ أَحَدُكُمْ كَمَا يَلَغُ الْكَلْبُ، وَلا يَشْرَبْ بِالْيَدِ الْوَاحِدَةِ كَمَا يَشْرَبُ الْقَوْمُ الَّذِينَ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ، وَلا يَشْرَبْ بِاللَّيْلِ مِنْ إِنَائٍ حَتَّى يُحَرِّكَهُ، إِلا أَنْ يَكُونَ إِنَائً مُخَمَّرًا، وَمَنْ شَرِبَ بِيَدِهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى إِنَائٍ يُرِيدُ التَّوَاضُعَ؛ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِعَدَدِ أَصَابِعِهِ حَسَنَاتٍ، وَهُوَ إِنَاءُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلام، إِذْ طَرَحَ الْقَدَحَ فَقَالَ: أُفٍّ ! هَذَا مَعَ الدُّنْيَا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۸۷) (ضعیف)
(سند میں بقیہ بن ولید مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز مسلم بن عبد اللہ مجہول راوی ہیں)
۳۴۳۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اوندھے منہ پیٹ کے بل لیٹ کر پینے سے منع "فرمایا ہے، اور یہی کرع ہے، اور ہمیں اس بات سے بھی منع فرمایا کہ ایک ہاتھ سے چلو لیں، اور ارشاد فرمایا:'' تم میں سے کوئی کتے کی طرح برتن میں منہ نہ ڈالے، اور نہ ایک ہاتھ سے پئے، جیسا کہ وہ لوگ پیا کرتے تھے جن سے اللہ ناراض ہوا ، رات میں برتن کو ہلائے بغیر اس میں سے نہ پئے مگریہ کہ وہ ڈھکا ہوا ہو، اور جو شخص محض عاجزی وانکساری کی وجہ سے اپنے ہاتھ سے پانی پیتا ہے حالاں کہ وہ برتن سے پینے کی استطاعت رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کی انگلیوں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھتا ہے ، یہی عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا برتن تھا جب انہوں نے یہ کہہ کرپیالہ پھینک دیا : اف ! یہ بھی دنیا کا سامان ہے'' ۔


3432- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَبُو بَكْرٍ،حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ،حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، وَهُوَ يُحَوِّلُ الْمَائَ فِي حَائِطِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " إِنْ كَانَ عِنْدَكَ مَائٌ بَاتَ فِي شَنٍّ فَاسْقِنَا وَإِلا كَرَعْنَا " قَالَ: عِنْدِي مَائٌ بَاتَ فِي شَنٍّ،فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْنَا مَعَهُ إِلَى الْعَرِيشِ، فَحَلَبَ لَهُ شَاةً عَلَى مَائٍ بَاتَ فِي شَنٍّ، فَشَرِبَ، ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ بِصَاحِبِهِ الَّذِي مَعَهُ۔
* تخريج: خ/الأشربۃ ۲۰ (۵۶۱۳)، د/الأشربۃ ۱۸ (۳۷۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۸، ۳۴۳، ۳۴۴، ۳۴۲)، ۳۵۵، دي/الأشربۃ ۲۲ (۲۱۶۹) (صحیح)
۳۴۳۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انصار کے ایک شخص کے پاس تشریف لے گئے، وہ اپنے باغ میں پانی دے رہا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اس سیفرمایا: ''اگر تمہارے پاس مشک میں باسی پانی ہو تو ہمیں پلاؤ، ورنہ ہم بہتے پانی میں منہ لگا کر پئیں گے ، اس نے جواب دیا : میرے پاس مشک میں باسی پانی ہے، چنانچہ وہ اور اس کے ساتھ ساتھ ہم چھپر کی طرف گئے، تو اس نے نبی اکرم ﷺ کی خاطر بکری کا دودھ دوہ کر اس باسی پانی میں ملایا جو مشک میں رکھا ہواتھا، چنانچہ آپ ﷺ نے اسے پیا ، پھر اس نے ایسا ہی آپ کے ساتھ موجود صحابی کے ساتھ کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ ساتھ والے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔


3433- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ لَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى بِرْكَةٍ،فَجَعَلْنَا نَكْرَعُ فِيهَا،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاتَكْرَعُوا، وَلَكِنِ اغْسِلُوا أَيْدِيَكُمْ، ثُمَّ اشْرَبُوا فِيهَا، فَإِنَّهُ لَيْسَ إِنَائٌ أَطْيَبَ مِنَ الْيَدِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۸۸) (ضعیف)
(سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف اور سعید بن عامر مجہول راوی ہے)
۳۴۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک حوض کے پاس سے ہمارا گزر ہوا تو ہم منہ لگا کے پانی پینے لگے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''منہ لگا کر پانی نہ پیو ،بلکہ اپنے ہاتھوں کو دھولو پھر ان سے پیو ، اس لئے کہ ہاتھ سے زیادہ پاکیزہ کوئی برتن نہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کرع : منہ سے پینا،اس میں ایک عیب یہ بھی ہے کہ اکثر کوڑاکرکٹ یا کیڑا مکوڑا بھی پانی کے ساتھ منہ میں چلا جاتا ہے ، اور ہاتھ سے پینے میں یہ بات نہیں ہوتی آدمی پانی کو ہاتھ میں لے کر دیکھ لیتا ہے، پھر اس کو پیتا ہے ،حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت محفوظ ہو تو نہی تنز یہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا
۲۶ -باب: ساقی (پلانے والا) سب سے آخر میں پیئے​


3434- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا "۔
* تخريج: ت/الأشربۃ ۲۰ (۱۸۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۶)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۵۵ (۶۸۱)، حم (۵/۳۰۳)، دي/الأشربۃ ۲۸ (۲۱۸۱) (صحیح)
۳۴۳۴- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قوم کا ساقی (پلانے والا) سب سے آخر میں پیتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب الشُّرْبِ فِي الزُّجَاجِ
۲۷ -باب: شیشے کے برتن میں پینے کا بیان​


3435- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ،حَدَّثَنَا مَنْدَلُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَدَحٌ مِنْ قَوَارِيرَ يَشْرَبُ فِيهِ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۸۹) (ضعیف)
(سند میں مندل بن علی ضعیف اور ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے )
۳۴۳۵ - عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس شیشے کا ایک پیالہ تھا جس میں آپ پیتے تھے ۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

{ 31-كِتَاب الطِّبِّ }
۳۱ - کتاب: طب کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَائً إِلا أَنْزَلَ لَهُ شِفَائً
۱-باب: اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو​


3436- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ؛ قَالَ: شَهِدْتُ الأَعْرَابَ يَسْأَلُونَ النَّبِيَّ ﷺ: أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا؟ أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا؟ فَقَالَ لَهُمْ: " عِبَادَ اللَّهِ ! وَضَعَ اللَّهُ الْحَرَجَ إِلا مَنِ اقْتَرَضَ مِنْ عِرْضِ أَخِيهِ شَيْئًا، فَذَاكَ الَّذِي حَرِجَ " فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ عَلَيْنَا جُنَاحٌ أَنْ لا نَتَدَاوَى؟ قَالَ: " تَدَاوَوْا،عِبَادَاللَّهِ ! فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ يَضَعْ دَائً إِلا وَضَعَ مَعَهُ شِفَائً،إِلا الْهَرَمَ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا خَيْرُ مَا أُعْطِيَ الْعَبْدُ؟ قَالَ: "خُلُقٌ حَسَنٌ "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲۷)، وقد أخرجہ: د/الطب ۱ (۳۸۵۵)، ت/الطب ۲ (۲۰۳۸)، حم (۴/۲۷۸) (صحیح)
۳۴۳۶- اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اعرابیوں کو نبی اکرم ﷺ سے سوال کرتے دیکھا کہ کیا فلاں معاملے میں ہم پر گناہ ہے؟ کیا فلاں معاملے میں ہم پر گناہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے بندو! ان میں سے کسی میں بھی اللہ تعالیٰ نے گناہ نہیں رکھا سوائے اس کے کہ کوئی اپنے بھائی کی عزت سے کچھ بھی کھیلے، تو در اصل یہی گناہ ہے''، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ! اگر ہم دوا علاج نہ کریں تو اس میں بھی گناہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے بندو ! دوا علاج کرو، اس لئے کہ اللہ تعالی نے کوئی ایسا مرض نہیں بنایا جس کی شفا اس کے ساتھ نہ بنائی ہو سوائے بڑھاپے کے'' ، انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بندے کو جو چیز یں اللہ تعالی نے عطا کی ہیں ان میں سے سب بہتر چیز کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' حسن اخلاق ''۔


3437- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي خِزَامَةَ، عَنْ أَبِي خِزَامَةَ؛ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَرَأَيْتَ أَدْوِيَةً نَتَدَاوَى بِهَا، وَرُقًى نَسْتَرْقِي بِهَا، وَتُقًى نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: " هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ "۔
* تخريج: ت/الطب ۲۱ (۲۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۱) (ضعیف)
(تراجع الألبانی: رقم: ۳۴۵)
۳۴۳۷- ابوخزامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا : بتائیے ان دواؤں کے بارے میں جن سے ہم علاج کرتے ہیں ، ان منتروں کے بارے میں جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، او ر ان بچاؤ کی چیزوں کے بارے میں جن سے ہم بچاؤ کرتے ہیں،کیا یہ چیزیں اللہ تعالی کی تقدیر کو کچھ بدل سکتی ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:''یہ خود اللہ تعالی کی تقدیر میں شامل ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : سبحان اللہ، کیا عمدہ جواب دیا کہ سوال کرنے والے کو اب کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہی، مطلب آپ ﷺ کے جواب کا یہ ہے کہ سپر یا ڈھال رکھنا یا دو ا یا علاج کرنا تقدیر الہی کے خلاف نہیں ہے، جو فعل دنیا میں واقع ہو وہی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی تقدیر میں تھا، پس انسان کے لیے ضروری ہے کہ تدبیر اور علاج میں کوتاہی نہ کرے ، ہوگا تو وہی جو تقدیر میں ہے، اسی طرح جو کوئی علاج نہ کرے ،تو سمجھنا چاہئے کہ اس کی تقدیر میں یہی ہے ، غرض اللہ تعالی کی تقدیر بندے کو معلوم نہیں ہوسکتی جب کوئی فعل بندے سے ظاہر ہو جاتا ہے اس وقت تقدیر معلوم ہوتی ہے ، حدیث میں '' وَتُقًى نَتَّقِيهَا '' سے پرہیز مراد ہے جو بعض بیماریوں میں بعض کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں ،اور اس حدیث میں یہی معنی زیادہ مناسب ہے ۔


3438- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ،عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَائً إِلا أَنْزَلَ لَهُ دَوَائً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۷۷، ۴۱۳، ۴۴۳، ۴۴۶، ۴۵۳) (صحیح)
۳۴۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو ''۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہو اکہ بیماری اور علاج دونوں اللہ کی طرف سے اترتے ہیں۔


3439- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنَا عَطَائٌ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَائً إِلا أَنْزَلَ لَهُ شِفَائً "۔
* تخريج: خ/الطب ۱ (۵۶۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۷) (صحیح)
۳۴۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالی نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہر بیماری کی دوا ہے پھرجب وہ دوا جسم میں پہنچتی ہے تو بیمار اللہ تعالی کے حکم سے اچھاہو جاتا ہے، یہ کہنا کہ دوا کی تاثیر سے صحت ہوئی شرک ہے ، اوراگر یہ سمجھ کر دوا کھائے کہ اللہ تعالی کے حکم سے یہ موثر ہو تی ہے تو شرک نہیں ہے، اسی طرح ہر چیز کے بارے میں اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اس کا نفع اور نقصان اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے، اور جوکوئی نفع ونقصان کے بارے میں یہ اعتقادرکھ کر کہے کہ فلاں چیز سے نفع ہوا یعنی اللہ کے حکم سے توو ہ شرک نہ ہوگا،اور جب اس چیز کو مستقل نفع بخش سمجھے گا تو وہ شرک ہوجائے گا، مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بعض اپنے مقبول بندوں کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں ،اب وہ جس کو چاہیں اپنے اختیار سے نفع پہنچاتے ہیں، اور اللہ تعالی کا حکم ہر معاملہ میں نہیں لیتے یہ اعتقاد شرک ہے، اور مسلمان یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک آدمی سے دوسرے آدمی کو نفع یا نقصان ہوتا ہے ،لیکن یہ نفع اور نقصان اللہ تعالی کے حکم سے ہوتا ہے تو وہ شرک نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب الْمَرِيضِ يَشْتَهِي الشَّيْئَ
۲ -باب: مریض اگر کسی چیز کی خواہش کرے توکیا کیا جائے؟​


3440- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ، حَدَّثَنَا أَبُومَكِينٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَادَ رَجُلا، فَقَالَ: " لَهُ مَا تَشْتَهِي؟ " فَقَالَ: أَشْتَهِي خُبْزَ بُرٍّ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ " مَنْ كَانَ عِنْدَهُ خُبْزُ بُرٍّ فَلْيَبْعَثْ إِلَى أَخِيهِ " ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ " إِذَا اشْتَهَى مَرِيضُ أَحَدِكُمْ شَيْئًا فَلْيُطْعِمْهُ "۔
* تخريج: أنظر حدیث رقم: ۱۴۳۹، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۲) (ضعیف)
(سند میں صفوان بن ھبیرہ لین الحدیث راوی ہیں)
۳۴۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کی عیادت فرمائی، اور اس سے پوچھا : ''تمہارا کیا کھانے کا جی چاہتا ہے '' ؟ تو اس نے جواب دیا کہ گیہوں کی روٹی ، آپ ﷺ نے فرمایا:''تم میں سے جس کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اپنے بھائی کے پاس بھیجے''، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی مریض کسی چیز کی خواہش کرے تو وہ اسے کھلائے ''۔


3441- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ: "أَتَشْتَهِي شَيْئًا؟ " قَالَ: أَشْتَهِي كَعْكًا، قَالَ: " نَعَمْ "، فَطَلَبُوا لَهُ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۴۴۰ (مصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۳) (ضعیف)
(سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں)
۳۴۴۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، اور اس سے پوچھا: '' کیا تمہارا جی کسی چیز کی خواہش رکھتا ہے '' ؟ جواب دیا : میرا جی کیک (کھانے کو) چاہتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ٹھیک ہے، پھر صحابہ نے اس کے لیے کیک منگوایا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب الْحِمْيَةِ
۳-باب: ( کھانے پینے میں ) پرہیز اور احتیاط کا بیان​


3442- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ،(ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَأَبُودَاوُدَ، قَالا: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ بِنْتِ قَيْسٍ الأَنْصَارِيَّةِ،قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَمَعَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَعَلِيٌّ نَاقِهٌ مِنْ مَرَضٍ، وَلَنَا دَوَالِي مُعَلَّقَةٌ، وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْكُلُ مِنْهَا، فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ لِيَأْكُلَ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ "مَهْ،يَا عَلِيُّ! إِنَّكَ نَاقِهٌ " قَالَتْ: فَصَنَعْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ سِلْقًا وَشَعِيرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ "يَاعَلِيُّ ! مِنْ هَذَا فَأَصِبْ، فَإِنَّهُ أَنْفَعُ لَكَ "۔
* تخريج: د/الطب ۲ (۳۸۵۶)، ت/الطب ۱ (۲۰۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶۳، ۳۶۴) (حسن)
(سند میں فلیح بن سلیمان ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے ،ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۵۹)
۳۴۴۲- ام المنذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ کے ساتھ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے ،وہ اس وقت ایک بیماری کی وجہ سے ناتواں ولاغر ہوگئے تھے ، ہمارے پاس کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے ، نبی اکرم ﷺ اس میں سے کھا رہے تھے، تو علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھانے کے لئے لیا ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:علی ٹھہرو! تم بیماری سے کمزور ہوگئے ہو، ام منذر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لئے چقندر اور جوپکائے ، توآپ نے فرمایا:'' علی ! اس میں سے کھاؤ ، یہ تمہارے لئے مفید ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پرہیز کرنا چاہئے ، ایک دوسرے حدیث میں پرہیز واحتیاط کو ہر علاج کا راز بتایا گیا ہے ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پرہیز ی سے اللہ کے حکم سے دوا کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے،جب کہ بد پرہیزی دوائوں کی تاثیر کو معطل کر کے جسم میں دوسری خرابیاں پیدا کردیتی ہے۔


3443- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ (صَيْفِيٍّ مِنْ وَلَدِ صُهَيْبٍ) عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ صُهَيْبٍ؛ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ خُبْزٌ وَتَمْرٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ " ادْنُ فَكُلْ " فَأَخَذْتُ آكُلُ مِنَ التَّمْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ " تَأْكُلُ تَمْرًا وَبِكَ رَمَدٌ ؟ " قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أَمْضُغُ مِنْ نَاحِيَةٍ أُخْرَى، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۶۱) (حسن)
۳۴۴۳- صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے سامنے روٹی اور کھجور رکھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا:''قریب آؤ اور کھاؤ''، میں کھجور یں کھانے لگا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''تم کھجور کھارہے ہو حالاں کہ تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے'' ، میں نے عرض کیا : میں دوسری جانب سے چبا رہا ہوں تو رسول اللہ ﷺ مسکرادیے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب لا تُكْرِهُوا الْمَرِيضَ عَلَى الطَّعَامِ
۴-باب: مریض کو کھانے پر مجبور نہ کرنے کا بیان​


3444- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لاتُكْرِهُوا مَرْضَاكُمْ عَلَى الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ، فَإِنَّ اللَّهَ يُطْعِمُهُمْ وَيَسْقِيهِمْ "۔
* تخريج: ت/الطب ۴ (۲۰۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۴۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۵) (حسن)
(سند میں بکر بن یونس ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۷۲۷)
۳۴۴۴- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم اپنے مریضوں کو کھانے اور پینے پر مجبور نہ کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا اور پلاتا ہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : کھانے پینے کا مقصد یہی ہے کہ روح کا تعلق جسم سیباقی رہے، اورآدمی کو تسلی اورسکون حاصل ہو ،چونکہ اللہ تعالیٰ سب کا محافظ اورسب کا رازق ہے ، اس لیے وہ بیماروں کی دوسری طرح خبر گیری کرتا ہے کہ ان کو غذا کی ضرورت نہیں پڑتی ، بس جب وہ اپنی خوشی سے کھانا چاہیں ان کو کھلا ؤ زبردستی مت کر و، اور جو غذا زبر دستی سے کھائی جائے، اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب التَّلْبِينَةِ
۵ -باب: حریرہ کابیان​


3445- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ بَرَكَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَخَذَ أَهْلَهُ الْوَعْكُ، أَمَرَ بِالْحَسَاءِ، قَالَتْ: وَكَانَ يَقُولُ " إِنَّهُ لَيَرْتُو فُؤَادَ الْحَزِينِ، وَيَسْرُو عَنْ فُؤَادِ السَّقِيمِ، كَمَا تَسْرُو إِحْدَاكُنَّ الْوَسَخَ عَنْ وَجْهِهَا بِالْمَاءِ "۔
* تخريج: ت/الطب ۳ (۲۰۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۲) (ضعیف) (سند میں ام محمد بن سائب ضعیف ہیں)
۳۴۴۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کو جب بخار آتا تو آپ حریرہ کھانے کا حکم دیتے، اور فرماتے :''یہ غمگین کے دل کو سنبھالتا ہے، اور بیمار کے دل سے اسی طرح رنج وغم دور کردیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی عورت اپنے چہرے سے میل کو پانی سے دور کردیتی ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حسایعنی حریرہ آٹا ، پانی ، گھی یا تیل وغیرہ سے بنایا جاتا ہے، اس میں کبھی میٹھا بھی ڈالتے ہیں، اور کبھی شہد اور کبھی آٹے کے بدلے میں آٹے کا چھان ڈالتے ہیں، اس کو تلبینہ کہتے ہیں، اردو میں حریرہ مشہور ہے۔


3446- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيبِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ، عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ، (يُقَالَ لَهَا كُلْثُمٌ) عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ " عَلَيْكُمْ بِالْبَغِيضِ النَّافِعِ، التَّلْبِينَةِ " يَعْنِي: الْحَسَائَ، قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، إِذَا اشْتَكَى أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ لَمْ تَزَلِ الْبُرْمَةُ عَلَى النَّارِ، حَتَّى يَنْتَهِيَ أَحَدُ طَرَفَيْهِ، يَعْنِي: يَبْرَأُ أَوْ يَمُوتُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۸۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۹، ۱۳۸، ۱۵۲، ۲۴۲) (ضعیف)
(سند میں ام کلثم غیر معروف راوی ہیں)
۳۴۴۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم ایک ایسی چیز کو لازماً کھاؤ جس کو دل نہیں چاہتا، لیکن وہ نفع بخش ہے یعنی حریرہ چنانچہ جب آپ ﷺ کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو ہانڈی برابر چولھے پر چڑھی رہتی یعنی حریرہ تیار رہتا یہاں تک کہ دو میں سے کوئی ایک بات ہوتی یعنی یا تو وہ شفا یاب ہوجاتا یا انتقال کرجاتا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب الْحَبَّةُ السَّوْدَاءُ
۶-باب: کلو نجی کا بیان​


3447- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ الْمِصْرِيَّانِ، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ فِي الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَائً مِنْ كُلِّ دَائٍ إِلا السَّامَ،وَالسَّامُ: الْمَوْتُ،وَالْحَبَّةُ السَّوْدَاءُ: الشُّونِيزُ "۔
* تخريج: خ/الطب ۷ (۵۶۸۸)، م/السلام ۲۹ (۲۲۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۱۰)، وقد أخرجہ: ت/الطب ۵ (۲۰۴۱)، حم (۲/۴۲۳، ۶/۱۴۶) (صحیح)
۳۴۴۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے ، سوائے سام کے، اور سام موت ہے، اور کالا دانہ شونیز (یعنی کلونجی) ہے'' ۔


3448- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ، فَإِنَّ فِيهَا شِفَائً مِنْ كُلِّ دَائٍ إِلا السَّامَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۷۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱۹۷) (صحیح)
۳۴۴۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم اس کالے دانے کا استعمال پابندی سے کرو اس لئے کہ اس میں سوائے موت کے ہر مرض کا علاج ہے'' ۔


3449- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعْدٍ؛ قَالَ: خَرَجْنَا وَمَعَنَا غَالِبُ بْنُ أَبْجَرَ، فَمَرِضَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَعَادَهُ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ وَقَالَ لَنَا: عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ فَخُذُوا مِنْهَا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا، فَاسْحَقُوهَا، ثُمَّ اقْطُرُوهَا فِي أَنْفِهِ بِقَطَرَاتِ زَيْتٍ، فِي هَذَا الْجَانِبِ، وَفِي هَذَا الْجَانِبِ فَإِنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُمْ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ هَذِهِ الْحَبَّةَ السَّوْدَائَ شِفَائٌ مِنْ كُلِّ دَائٍ، إِلا أَنْ يَكُونَ السَّامُ " قُلْتُ: وَمَا السَّامُ ؟ قَالَ: " الْمَوْتُ "۔
* تخريج: خ/الطب ۷ (۵۶۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۸) (صحیح)
۳۴۴۹- خالد بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سفر پر نکلے ، ہمارے ساتھ غالب بن ابجر بھی تھے ، وہ راستے میں بیمار پڑگئے ، پھر ہم مدینہ آئے، ابھی وہ بیمارہی تھے، تو ان کی عیادت کے لئے ابن ابی عتیق آئے ، اور ہم سے کہا:تم اس کالے دانے کا استعمال اپنے اوپر لازم کرلو، تم اس کے پانچ یا سات دانے لو ، انہیں پیس لو پھر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ان کی ناک میں ڈالو، اس نتھنے میں بھی اور اس نتھنے میں بھی ، اس لئے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس کالے دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے، سوائے اس کے کہ وہ'' سام'' ہو'' ، میں نے عرض کیا کہ ''سام'' کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' موت ''۔
 
Top