- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
54- بَاب فَضْلِ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ
۵۴-باب: لاالہ الا اللہ کی فضیلت
3794- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ أَنَّهُ شَهِدَ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " إِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ،قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: صَدَقَ عَبْدِي، لا إِلَهَ إِلا أَنَا وَأَنَا أَكْبَرُ، وَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لاإِلَهَ إِلا أَنَا وَحْدِي، وَإِذَا قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا شَرِيكَ لَهُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لا إِلَهَ إِلا أَنَا، وَلا شَرِيكَ لِي، وَإِذَا قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ "، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لا إِلَهَ إِلا أَنَا، لِيَ الْمُلْكُ وَلِيَ الْحَمْدُ وَإِذَا قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ، قَالَ: " صَدَقَ عَبْدِي، لا إِلَهَ إِلا أَنَا، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِي ". قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: ثُمَّ قَالَ الأَغَرُّ شَيْئًا لَمْ أَفْهَمْهُ، قَالَ: فَقُلْتُ لأَبِي جَعْفَرٍ: مَا قَالَ:؟ فَقَالَ: مَنْ رُزِقَهُنَّ عِنْدَ مَوْتِهِ لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ۔
* تخريج: ت/الدعوات ۳۷ (۳۴۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۶۶، ۱۲۱۹۶) (صحیح)
۳۷۹۴- اغر ابو مسلم سے روایت ہے اور انہوں نے شہادت دی کہ ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما دونوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب بندہ'' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ '' یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے،کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا ، میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں ہی سب سے بڑا ہوں ، اور جب بندہ'' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ '' یعنی صرف تنہا اللہ ہی عبادت کے لائق ہے، کہتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا ، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، میں ہی اکیلا معبود برحق ہوں،اور جب بندہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ لا شَرِيكَ لَهُ '' کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، اور میرا کوئی شریک اورساجھی نہیں، اور جب بندہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ،لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ '' یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہت اور ہر قسم کی تعریف ہے ، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں،بادشاہت اور تعریف ( یعنی ملک اور حمد ) میرے ہی لئے ہے ، اور جب بندہ '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ '' یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اس کے علاوہ کسی میں کوئی طاقت و قوت نہیں، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا ، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرے علاوہ کسی میں کوئی قوت وطاقت نہیں ۱؎ ۔
ابواسحاق کہتے ہیں : پھر اغر نے ایک بات کہی جسے میں نہ سمجھ سکا ، میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ انہوں نے کیاکہا ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مرتے وقت ان کلمات کے کہنے کی توفیق بخشی تو اسے جہنم کی آگ نہ چھوئے گی'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس میں کلمہ تمجید کے علیحدہ علیحدہ کلمات مذکور ہیں، پورا کلمہ یوں ہے جو ہر صلاۃ کے بعد پڑھنا مسنون ہے : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ،َلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ،العلى العظيم ۔
3795- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ سُعْدَى الْمُرِّيَّةِ قَالَتْ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ،بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا لَكَ كَئِيبًا؟ أَسَائَتْكَ إِمْرَةُ بْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: لا، وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنِّي لأَعْلَمُ كَلِمَةً، لايَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ، إِلا كَانَتْ نُورًا لِصَحِيفَتِهِ، وَإِنَّ جَسَدَهُ وَرُوحَهُ لَيَجِدَانِ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ " فَلَمْ أَسْأَلْهُ حَتَّى تُوُفِّيَ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُهَا، هِيَ الَّتِي أَرَادَ عَمَّهُ عَلَيْهَا، وَلَوْ عَلِمَ أَنَّ شَيْئًا أَنْجَى لَهُ مِنْهَا لأَمَرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۲۱، ۱۰۶۷۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۱) (صحیح)
۳۷۹۵- سعدیٰ مریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گزرے ، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کورنجیدہ پاتا ہوں ؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی ( ابو بکر رضی اللہ عنہ ) کی خلافت گراں گزری ہے ؟ ، انہوں نے کہا :نہیں ، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :'' میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہوگی، اور موت کے وقت اس کے بد ن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے'' ، لیکن میں یہ کلمہ آپ سے دریافت نہ کر سکا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کلمہ کو جانتا ہوں، یہ وہی کلمہ ہے جو آپ ﷺ نے اپنے چچا ( ابوطالب ) سے مرتے وقت پڑھنے کے لئے کہا تھا، اور اگر آپ کو اس سے بہتر اور باعث نجات کسی کلمہ کا علم ہوتا تو وہی پڑھنے کے لئے فرماتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ نبی اکرم ﷺ کو اپنے چچا سے جو الفت ومحبت تھی ، اور جس طرح آپ انہیں آخری وقت میں قیامت کے دن کے عذاب سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، اور کلمہ '' لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہنے کا حکم دیتے رہے، اس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ نہیں ہوسکتا جسے مرتے وقت کوئی اپنی زبان سے ادا کرے ۔
3796- حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِلِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ تَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، يَرْجِعُ ذَلِكَ إِلَى قَلْبِ مُوقِنٍ،إِلا غَفَرَ اللَّهُ لَهَا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۳۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۹) (حسن صحیح)
۳۷۹۶- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس شخص کی موت اس گواہی پر ہو کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ گواہی سچے دل سے ہو تو اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمادے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : وعدوں سے متعلق بہت ساری احادیث آئی ہیں:
۱- بعض ایسی احادیث ہیں جس میں کسی نیکی کے کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔
۲- اور بعض میں کسی کام کے کرنے پرجنت کے حرام ہونے کی وعید اور دھمکی ہے۔
اور وعید سے متعلق بھی متعدد احادیث آئی ہیں:
۱- بعض احادیث میں بعض کبیرہ گناہوں پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔
۲- بعض کبائر کے مرتکب سے ایمان کی نفی آئی ہے۔
۳- بعض احادیث میں ان کبائر کے مرتکب سے نبی اکرم ﷺ نے اپنی براء ت کا اظہار فرمایا ہے۔
۴- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
۵- بعض میں بعض کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جہنم کی دھمکی ہے۔
۶- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کو لعنت سنائی گئی ہے، یعنی رحمت سے دوری کی دھمکی۔
وعید کی یہ ساری احادیث ایسے مسلمان کے بارے میں ہیں، جس کے پاس اصل ایمان وتوحید کی دولت موجود ہے، لیکن اس سے بعض کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، اور وعدوں سے متعلق ساری احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان جنت میں داخل ہوگا، اور جہنم سے نجات پائے گا، اس لئے وہ لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ کی شہادت دینے والا ہے، اور فی الجملہ مسلمان ہے۔
اور وعید کی احادیث میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب اور جنت سے محرومی کی دھمکی سنائی گئی ہے، اور بعض میں اس سے ایمان کی نفی ہے، بعض میں رسول اکرم ﷺ نے اس سے اپنی برا ء ت کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ بعض میں اس پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔
وعد ہ اور وعید سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اور اس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔
اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ نصوص متواتر ہ کا مفاد ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد اپنے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی سزا میں داخل جہنم ہوں گے، پھر سزا بھگتنے کے بعد اصل توحید وایمان کی برکت سے وہاں سے نکل کر داخل جنت ہوں گے، جیسا کہ شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔
علماء کا اس مسئلہ میں ایک مسلک یہ ہے کہ وعدوں سے متعلق احادیث کا ظاہری معنی ہی مراد ہے، اور کلمہء توحید ورسالت کے شروط اور تقاضوں کے پورے ہونے اور اس راہ کے موانع (رکاوٹوں) کے دور ہونے کے بعد ان وعدوں کا متحقق ہونا ضروری ولابدی ہے، اس لئے ان نصوص کو اسی طرح بیان کیا جائے گا، مثلاً حدیث میں ہے کہ جس شخص نے لا الہ إلا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کردیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ، تو جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہوگا جب کلمہء توحید کی شرائط اورتقاضے پورے کیے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی، ان احادیث میں صرف یہ ہے کہ یہ جنت میں جانے یا جہنم سے نجات کا سبب ہیں، اور سبب کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کے ہونے سے مسبب (نتیجہ) کا برآمد ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وعدہ کے پورا ہونے کے لئے شروط وقیود کا پایا جانا، اور موانع (رکاوٹوں) کا دور ہونا ضروری ہے۔
لیکن ان احادیث کو کسی خاص آدمی پر چسپا ں کرکے اس کو جنت یا جہنم کا مستحق قرار دینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس مخصوص بندے نے کیا اس کلمہ کی شرائط اورتقاضے پورے کیے ہیں؟ جس سے وہ جنت کامستحق ہے، اوردخول جنت سے مانع چیزوں کو دور کردیا ہے یا نہیں ؟۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مسلک ہے، امام بخاری نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث: "ما من عبدٍ قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة " کے بارے میں فرمایا : هذا عند الموت أو قبله، إذا تاب، وندم وقال: لا إله إلا الله غفر له، یہ موت کے وقت یا موت سے پہلے جب بندہ نے توبہ کی، نادم ہوا، اور'' لا إله إلا الله'' کہا، تو اس کو بخش دیا جائے گاچنانچہ توبہ وندامت، اور کلمہ '' لا إله إلا الله''پر موت سے جنت میں داخلہ کی شروط اور شہادت میں قدح کرنے والی رکاوٹوں کی نفی ہوگئی، اور بندہ جنت میں چلا گیا۔
علامہ سلیمان بن عبداللہ تیسیرالعزیز الحمید (۷۲) میں فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس کلمہء توحید کو اس کے معنی کی معرفت وسمجھ کے ساتھ کہا، اور ظاہر وباطن میں اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ یہ احادیث مطلق ہیں، دوسری احادیث میں ان کی قیود وشروط آئی ہیں، اس لئے قید وشرط پر ان مطلق احادیث کو پیش کرنا ضروری ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو لا الہ إلا اللہ کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو''۔
جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مرگیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے لا إلہ الا اللہ کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا،نیز فرمایا: ''وہ جنت میں داخل ہوگا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی''۔
امام ابن رجب فرماتے ہیں: اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندہ کا '' لا إله إلا الله'' کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر اللہ کے معبود ہونے کی نفی کرے، اور ''إلــه'' ایسی قابل اطاعت (مطاع) ذات ہے کہ اس کی اہمیت کے سامنے، اس کی جلالت شان کے آگے، اس سے محبت کرکے، اس سے ڈر کر، اس سے امید کرکے، اس پر توکل کرکے، اس سے سوال کرکے، اوراس کو پکار کر اس کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی، یہ ساری چیزیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں ، تو جس نے ان الٰہی خصوصیات وامتیازات میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کے لاالہ الا اللہ کے کہنے کے اخلاص میں یہ قدح وطعن کی بات ہوئی، اور اس کی توحید میں نقص آیا، اور اس میں اسی مقدار میں مخلوق کی عبودیت متحقق ہوئی، اور یہ سب شرک کی شاخیں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ وعدہ سے متعلق احادیث کو اس کے ظاہر پر رکھا جائے ، اور اس کو ویسے ہی بیان کیا جائے ، اور اس کو کسی مخصوص آدمی پر منطبق (چسپاں) نہیں کیا جائے گا، اور اس وعدے یعنی دخول جنت کے وجود کے تحقق کے لئے ایسی شروط وقیود ہیں جن کا وجود ضروری ہے، اور اس کی تنفیذ کی راہ میں جو موانع اوررکاوٹیں حائل ہوں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔
بعض علماء نے ان احادیث کو اس کے عام اور ظاہری معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وہ اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں، مثلاً کلمہ گو مسلمان (''لاإله إلا الله'' کے قائل) پر جہنم کے حرام ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اس کا ہمیشہ ہمیش اور ابد الآباد تک جہنم میں نہ رہنا ہے، بلکہ اس میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سے باہر نکلے گا، یا یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ کفار ومنافقین کے جہنم کے ٹھکانوں میں داخل نہ کیا جائے گا، جب کہ بہت سے گنہگار موحد (مسلمان) جہنم کے اوپری طبقہ میں اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل ہوں گے، اور اہل شفاعت کی شفاعت اور ارحم الراحمین کی رحمت سے وہ اس سے باہر نکل کر جنت میں جائیں گے ،امام ابن قتیبہ اور قاضی عیاض انہی مذکورہ معانی کے اعتبار سے لا الہ إلا اللہ کے قائلین کے جنت میں داخل ہونے کے استحقاق کی احادیث کے معنی ومراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخری انجام وعاقبت کے اعتبار سے عذاب پانے کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔
بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامر ونواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات وفرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی)
3797- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، لا يَسْبِقُهَا عَمَلٌ، وَلا تَتْرُكُ ذَنْبًا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۱۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۲۶) (ضعیف)
(زکریا بن منظور ضعیف راوی ہیں ہے)
۳۷۹۷- اُم ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لا إله إلا الله''سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ، اور یہ کلمہ کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑتا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب کافر '' لا إله إلا الله'' کہہ کر مسلمان ہو جائے تواس سے زمانہ کفر کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
3798- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، أَخْبَرَنِي سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ قَالَ: فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ،وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، كَانَ لَهُ عَدْلُ عَشْرِ رِقَابٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمُحِيَ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَكُنَّ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ سَائِرَ يَوْمِهِ إِلَى اللَّيْلِ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا أَتَى بِهِ، إِلا مَنْ قَالَ: أَكْثَرَ "۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۹۳)، الدعوات ۶۵ (۶۴۰۳)، م/الذکر والدعاء ۱۰ (۲۶۹۱)، ت/الدعوات ۶۰ (۳۴۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۷۱)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۷ (۲۰)، حم (۲/۳۰۲، ۳۷۵) (صحیح)
۳۷۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے ایک دن میں سو بار '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَ هُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ '' یعنی اللہ کے علاوہ کو ئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں ، اس کے لئے بادشاہت اور تمام تعریفیں ہیں ،اور وہ ہرچیز پر قادر ہے ، کہا تو اس کے لئے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے ، اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں ،اور اس کی سو برائیاں مٹائی جاتی ہیں ، اور وہ پورے دن رات تک شیطان سے بچا رہتا ہے، اور کسی کا عمل اس کے عمل سے افضل نہ ہوگا مگر جو کوئی اسی کلمہ کو سوبار سے زیادہ کہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے زیادہ ثواب ہوگا اسی طرح جو کوئی اورزیادہ کہے اس کو اور زیادہ ثواب ہوگا۔
3799- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: " مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلاةِ الْغَدَاةِ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، كَانَ كَعَتَاقِ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْماعِيلَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۳۸) (ضعیف)
(سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، ''عشرمرات''کے لفظ سے اس طرح کی دعاثابت ہے، کمافی صحیح الترغیب و الترھیب: ۴۷۲ - ۴۷۵)
۳۷۹۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص صلاۃ صبح (فجر) کے بعد '' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ'' کہے تو اسے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ''۔