• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مِيقَاتِ الصَّلاةِ فِي الْغَيْمِ
۹ -باب: بادل میں صلاۃ کے وقت کا بیان​


694- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةٍ، فَقَالَ: <بَكِّرُوا بِالصَّلاةِ فِي الْيَوْمِ الْغَيْمِ، فَإِنَّهُ مَنْ فَاتَتْهُ صَلاةُ الْعَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۶۱) (ضعیف)
(سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں ،اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے ،لیکن ''مَنْ فَاتَتْهُ صَلاةُ الْعَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ'' کاجملہ صحیح بخاری میں ہے)
۶۹۴- بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوئہ میں تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''بادل کے ایّام میں صلاۃ جلد ی پڑھ لیاکرو ، کیوں کہ جس کی صلاۃِ عصر فوت ہوگئی، اس کا عمل برباد ہو گیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس دن کے اعمال کا پورا ثواب اس کو نہیں ملے گا کیونکہ عصر کی صلاۃ ہی ان اعمال میں ایک بڑا عمل تھا ،اسی کو اس نے برباد کردیا، یا اس دن کے کل اعمال لغو اوربیکار ہو جائیں گے ، اور اس کومطلق ثواب نہیں ملے گا، یا عمل سے مراد وہ عمل ہے جس میں وہ مصروف رہا، اور اس کی وجہ سے صلاۃ قضا کی، مطلب یہ ہے کہ اس عمل میں برکت ، اور منفعت نہ ہوگی ،بلکہ نحوست پیدا ہوگی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بادل کے دن صلاۃ میں جلدی کرنا چاہئے ،ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور خبرنہ ہو ، بعضوں نے کہا کہ بادل کے دن عصر اور عشاء میں جلدی کرے، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاةِ أَوْ نَسِيَهَا
۱۰ -باب: صلاۃ کے وقت سوجائے یا اسے پڑھنا بھول جائے توکیا کرے؟​


695- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الرَّجُلِ يَغْفُلُ عَنِ الصَّلاةِ أَوْ يَرْقُدُ عَنْهَا، قَالَ: < يُصَلِّيهَا إِذَا ذَكَرَهَا >۔
* تخريج: ن/المواقیت ۵۲ (۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱)، وقد أخرجہ: خ/الموا قیت ۳۷ (۵۹۷)، م/المساجد ۵۵ (۶۸۴)، د/الصلاۃ ۱۱ (۴۴۲)، ت/الصلاۃ ۱۷ (۱۷۸)، حم (۳/۱۰۰، ۲۴۳، ۲۶۶، ۲۶۹، ۲۸۲)، دي/الصلاۃ ۲۶ (۱۲۶۵) (صحیح)
۶۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو صلاۃ سے غافل ہوجائے، یا سوجائے تو آپﷺ نے فرمایا: '' جب یاد آجائے تو پڑھ لے'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے ''وہی اس کا وقت ہے'' یعنی جس وقت جاگ کر اٹھے یا جب صلاۃ یاد آجائے اسی وقت پڑھ لے، اگر چہ اس وقت سورج نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہویا ٹھیک دو پہر کا وقت ہو ، یا فجر یا عصر کے بعد یاد آئے ،کیونکہ یہ حدیث عام ہے ، اور اس سے ان احادیث کی تخصیص ہوگئی جس میں ان اوقات میں صلاۃ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، یہی قول امام احمد کا ہے، اور بعضوں نے کہا صلاۃ پڑھے جب تک سورج نہ نکلے یا ڈوب نہ جائے، اوریہ قول حنفیہ کا ہے، کیونکہ بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرما یا: ''جب سورج کا کنارہ نکلے تو صلاۃ میں دیر کر و، یہاں تک کہ سورج اونچا ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ غائب ہو جائے، تو صلاۃ میں دیر کرو یہاں تک کہ بالکل غائب ہو جائے''۔


696- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا >۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۴)، د/الصلاۃ ۱۱ (۴۴۲)، ت/الصلاۃ ۱۷ (۱۷۸)، ن/المواقیت ۵۱ (۶۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۰، ۲۴۳، ۲۶۷، ۲۶۹، ۲۸۲) (صحیح)
۶۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص صلاۃ پڑھنا بھول جائے، تو جب یاد آئے پڑھ لے '' ۔


697- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى،حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، فَسَارَ لَيْلَةً، حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلالٍ: < اكْلأْ لَنَا اللَّيْلَ > فَصَلَّى بِلالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، وَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، مُوَاجِهَ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْ بِلالا عَيْنَاهُ، وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ بِلالٌ وَلا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < أَيْ بِلالُ! > فَقَالَ بِلالٌ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: < اقْتَادُوا > فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَمَرَ بِلالا فَأَقَامَ الصَّلاةَ، فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ ﷺ الصَّلاةَ قَالَ: < مَنْ نَسِيَ صَلاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ +وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي" >.
قَالَ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا (لِلذِّكْرَى)۔
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۰)، د/الصلاۃ ۱۱ (۴۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۲۶)، وقد أخرجہ: ت/ التفسیر طہ ۲۱ (۳۱۶۳)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۲۰)، ط/وقوت الصلاۃ ۶ (۲۵) (صحیح)
۶۹۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات میں چلتے رہے ، یہاں تک کہ جب نیند آنے لگی تو رات کے آخری حصہ میں آرام کے لئے اتر گئے، اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: '' آج رات ہماری نگرانی کرو'' ،چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ کو جتنی توفیق ہوئی اتنی دیر صلاۃ پڑھتے رہے، اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوتے رہے، جب فجر کا وقت قریب ہوا تو بلال رضی اللہ عنہ نے مشرق کی جانب منہ کرکے اپنی سواری پر ٹیک لگالی، اسی ٹیک لگانے کی حالت میں ان کی آنکھ لگ گئی، نہ تووہ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اورکوئی، یہاں تک کہ انہیں دھوپ لگی تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے، اور گھبراکر فرمایا: ''بلال!''، بلال نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میری ماں اور میرے باپ آپ پر قربان ہوں، جس نے آپ کی جان کو روکے رکھا اسی نے میری جان کو روک لیا ۱؎ ،آپﷺ نے فرمایا: ''آگے چلو''، صحابہ کرام اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے ،پھر رسول اللہ ﷺ نے وضوء کیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے صلاۃ کے لئے اقامت کہی ، آپ ﷺ نے صبح کی صلاۃ پڑھائی، جب آپ ﷺ نے صلاۃ پوری کرلی تو فرمایا: '' جو شخص کوئی صلاۃ بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {أَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِي } [سورة: طه: 43] صلاۃ اس وقت قائم کرو جب یاد آجائے'' ۔
راوی کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس کو''لِذِكْرِيْ'' کے بجائے ''لِلذِّكْرَى'' پڑھتے تھے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں بھی نیند کی گرفت میں آگیا اور مجھ پر نیندبھی طاری ہوگئی ۔
وضاحت ۲؎ : مشہور قرأت +أَقِمٍ الصَّلاةَ لذكري" (طہٰ : ۱۲) ہی ہے، مذکورہ جگہ سے سواریوں کو ہا نک لے جانے اور کچھ دور پر جاکر صلاۃ پڑھنے کی تأ ویل میں علماء کے مختلف اقوال ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسااس وجہ سے کیا تھا تاکہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہوجائے جس میں صلاۃ پڑھنے کی ممانعت ہے ان کے نزدیک چھوٹی ہوئی صلاۃ بھی ان اوقات میں پڑھنی جائزنہیں، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ چھوٹی ہوئی صلاۃکی قضا ہروقت جائز ہے ،ممنوع اوقات میں صلاۃ ادا کرنے کی ممانعت نوافل کے ساتھ خاص ہے ، مالک ، اوزاعی، شافعی اور احمد بن حنبل وغیرہم ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے، ان لوگوں کے نزدیک اس کی صحیح تاویل یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ ایسی جگہ صلاۃ پڑھنا نہیں چاہتے تھے جہاں آپ کو غفلت ونسیان لاحق ہوا ہو، ابوداود کی ایک روایت میں ''تَحَوّلُوا عَنْ مَكَانِكُمُ الّذِيْ أصَابَتْكُمْ فِيْهِ الغَفْلَةُ'' ( اس جگہ سے ہٹ جاؤ جہاں پر تم غفلت کا شکار ہوگئے تھے) فرما کر نبی اکرمﷺ نے خوداس کی وجہ بیان فرمادی ہے۔


698- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: ذَكَرُوا تَفْرِيطَهُمْ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ: نَامُوا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ،إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلاةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، وَلِوَقْتِهَا مِنَ الْغَدِ > قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ: فَسَمِعَنِي عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ وَأَنَا أُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ فَقَالَ: يَا فَتًى! انْظُرْ كَيْفَ تُحَدِّثُ فَإِنِّي شَاهِدٌ لِلْحَدِيثِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ فَمَا أَنْكَرَ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱ (۴۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۹)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۵۵ (۶۸۱)، ت/الصلاۃ ۱۶ (۱۷۷)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۱۸)، حم (۵/۳۰۵) (صحیح)
۶۹۸- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نیند کی وجہ سے اپنی کوتاہی کا ذکرچھیڑا تو انہوں نے کہا: لوگ سوگئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' نیند میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی بیداری کی حالت میں ہے، لہٰذا جب کوئی شخص صلاۃ بھول جائے یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اور اگلے روز اس کے وقت میں پڑھ لے '' ۱؎ ۔
عبداللہ بن رباح کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سنا تو کہا: نوجوان! ذرا غور کرو، تم کیسے حدیث بیان کرر ہے ہو؟ اس حدیث کے وقت میں خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا، وہ کہتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہنے اس میںسے کسی بھی بات کا انکار نہیں کیا ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب یاد آئے یا سو نے کے بعد جاگتے ہی اسی وقت صلاۃ پڑھ لے ، اور دوسرے دن کوشش کرے کہ صلاۃ کو وقت ہی پر پڑھے، صلاۃ سے سستی کی عادت نہ ڈالے ، اگر چہ ظاہر لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ جاگنے کے بعد پڑھے ، اور دوسرے دن اس کے وقت میں بھی پڑھے ،لیکن اس کاکوئی قائل نہیں کہ صلاۃ دوبار پڑھی جائے ، نیز جو معنی ہم نے بتایا ہے اس کی تائید سنن دار قطنی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب وَقْتِ الصَّلاةِ فِي الْعُذْرِ وَالضَّرُورَةِ
۱۱ -باب: ضرورت اور معذوری کی حالت میں صلاۃ کے وقت کا بیان​


699- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنِ الأَعْرَجِ، يُحَدِّثُونَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَهَا>۔
* تخريج: خ/المواقیت ۲۸ (۵۷۹)، م/المساجد ۳۰ (۶۰۷)، (تحفۃ الأشراف: (۱۲۲۰۶ ، ۱۳۶۳۶، ۱۴۲۱۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۵ (۴۱۲)، ت/الصلاۃ ۲۳ (۱۸۶)، ن/المواقیت ۱۰ (۵۱۸)، ۲۸ (۵۵۱)، ط/وقوت الصلاۃ ۱ (۵)، حم (۲/۲۵۴،۲۶۰، ۲۸۲، ۳۴۸، ۳۹۹، ۴۶۲، ۴۷۴)، دي/الصلاۃ ۲۲ (۱۲۵۸) (صحیح)
۶۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے سورج کے ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی، اس نے عصر کی صلاۃ پالی، اور جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر کی صلاۃ پالی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملالے اس کی یہ صلاۃ ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری صلاۃ کے لیے کافی ہوگی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کے دوران سورج نکلنے سے اس کی صلاۃ فاسد ہوجائے گی وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ صلاۃ کا اہل ہوگیا ،اور وہ صلاۃ اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہو ا یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی یاکافراسلام لے آیا کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ صلاۃ اس پر واجب ہوگئی ،لیکن ابوداود کی حدیث رقم(۵۱۷) سے جس میں '' فليتم صلاته'' کے الفاظ آئے ہیں اس تاویل کی نفی ہورہی ہے۔


700- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، الْمِصْرِيَّانِ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا >.
* تخريج: م/المساجد ۳۰ (۶۰۹)، ن/المواقیت ۲۷ (۵۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۸) (صحیح)
۷۰۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی اس نے فجر کی صلاۃ پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی ،اس نے عصر کی صلاۃ پالی''۔
700/م - حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔اس سند سے بھی اسی جیسی حد یث مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب النَّهْيِ عَنِ النَّوْمِ قَبْلَ صَلاةِ الْعِشَائِ وَعَنِ الْحَدِيثِ بَعْدَهَا
۱۲ - باب: عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کی ممانعت​


701- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُالْوَهَّابِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، سَيَّارِ بْنِ سَلامَةَ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَائَ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۱ (۵۴۱)، ۱۳ (۵۴۷)، ۲۳ (۵۶۸)، ۳۸ (۵۹۹)، ت/الصلاۃ ۱۱ (۱۶۸)، ۲۰ (۵۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۶)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۴۰ (۶۴۷)، د/الصلاۃ ۳ (۳۹۸)، الأدب ۲۷ (۴۸۴۹)، ن/المواقیت ۱(۴۹۶)، ۱۶ (۵۲۶)، حم (۴/۴۲۰،۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵)، دي/الصلاۃ ۱۳۹(۱۴۶۹) (صحیح)
۷۰۱- ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عشاء کی صلاۃ سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو، اور صلاۃ کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں، نیز بات چیت سے مراد لایعنی بات چیت ہے جس سے دنیا اور آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔


702- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ،( ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا نَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ الْعِشَائِ، وَلا سَمَرَ بَعْدَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۲۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۶۴) (صحیح)
۷۰۲- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بیکار اورغیرضروری باتیں عشاء کے بعد کرنی مکروہ ہے، اور کراہت کی علت یہ ہے کہ شاید رات زیادہ گزر جائے اور تہجد کے لئے آنکھ نہ کھلے، یا فجر کی صلاۃ اول وقت اور باجماعت ادا نہ ہوسکے، اور یہ وجہ بھی ہے کہ سوتے میں گویا آدمی مرجاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ خاتمہ عبادت پر ہو، نہ دنیا کی باتوں پر، اگر دین یا دنیا کی ضروری باتیں ہوں تو ان کا کرنا جائز ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عشاء کے بعد مسلمانوں کے کاموں کے متعلق ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے باتیں کیں۔


703- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ؛ قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: جَدَبَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ السَّمَرَ بَعْدَ الْعِشَائِ، يَعْنِي زَجَرَنَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۸۶ ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۱۰) (صحیح)
(ملاحظہ ہو الصحیحہ: ۲۴۳۵)
۷۰۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے عشاء کے بعد بات چیت پر ہماری مذمت فرمائی یعنی اس پر ہمیں جھڑکا اور ڈانٹا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مشہور حسن کے نسخہ میں ''زجرنا عنه '' ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب النَّهْيِ أَنْ يُقَالَ صَلاةُ الْعَتَمَةِ
۱۳ -باب: عشاء کو عتمہ کی صلاۃ کہنے کی ممانعت​


704- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <لا تَغْلِبَنَّكُمُ الأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلاتِكُمْ، فَإِنَّهَا الْعِشَائُ، وَإِنَّهُمْ لَيُعْتِمُونَ بِالإِبِلِ>۔
* تخريج: م/المساجد ۳۹ (۶۴۴)، د/الأدب ۸۶ (۴۹۸۴)، ن/المواقیت ۲۲ (۵۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۰، ۱۹، ۴۹، ۱۴۴) (صحیح)
۷۰۴- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''اعراب (دیہاتی لوگ) تمہاری صلاۃ کے نام میں تم پر غالب نہ آجائیں ،اس لئے کہ (کتاب اللہ میں) اس کا نا م عشاء ہے، اور یہ لوگ اس وقت اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے اسے عتمہ کہتے ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عرب کے لوگ سورج ڈوبنے کے بعد جب اندھیرا ہوجاتا تو اپنے جانوروں کا دودھ دوہتے تھے، تاکہ مانگنے والے محتاج دیکھ نہ سکیں اور ان کو دودھ نہ دینا پڑے، پھروہی لوگ عشاء کی صلاۃ کو عتمہ کہنے لگے، کیونکہ اس کا وقت یہی تھا، نبی اکرم ﷺ نے اس نام کو مکروہ جانا، کیونکہ محتاجوں کو نہ دینا، اور صدقے کے ڈر سے مال کو چھپانا ،بخل اور ایک بری صفت ہے، اور صلاۃ ایک عمدہ عبادت ہے، لہذا اس کا یہ نام بالکل غیرموزوں ہے، اوراللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی اس صلاۃ کو ''عشاء'' کہا ہے نہ کہ عتمہ ،پس وہی نام بہتر ہے اس پر بھی علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی اولیٰ اور بہتریہ ہے کہ عتمہ کا لفظ نہ استعمال کیا جائے، اور اس کو اصطلاحی نام عشاء سے پکاراجائے، بعض حدیثوں میں خود '' عتمه '' کا لفظ عشاء کی صلاۃ کے لئے آیا ہے۔


705- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ( ح) وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <لا تَغْلِبَنَّكُمُ الأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلاتِكُمْ >.
زَادَ ابْنُ حَرْمَلَةَ: < فَإِنَّمَا هِيَ الْعِشَائُ، وَإِنَّمَا يَقُولُونَ الْعَتَمَةُ لإِعْتَامِهِمْ بِالإِبِلِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳۳، ۴۳۸) (حسن صحیح)
۷۰۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: '' اعراب (بدوی) تمہاری صلاۃ کے نام کے سلسلے میں تم پر غالب نہ آجائیں''، ابن حرملہ نے یہ اضافہ کیا ہے : اس کانام '' عشاء'' ہے، اور یہ اعرابی اسے اس وقت اپنی اونٹنیوں کے دوہنے کی وجہ سے '' عتمه'' کہتے ہیں ''۔



* * * *​
* * *​
* *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

{ 3- كِتَاب الأَذَانِ وَالسُّنَّةِ فِيهِ }
۳- کتاب: اذان کے احکام ومسائل اورسنن


1- بَاب بَدْئِ الأَذَانِ
۱ -باب: اذان کی ابتداکیسے ہوئی ؟ ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : اذان اسلام کی ایک بڑی نشانی اور دین کی عمدہ علامت ہے، نبی اکرم ﷺنے سفرو حضر میں ہمیشہ اذان دلوائی ، مشہور یہ ہے کہ اذان ہجرت کے پہلے سال میں شروع ہوئی، اور بعضوں نے کہا دوسرے سال میں، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس کو خواب میں دیکھا، بعض طرق میں عمر اور جابر رضی اللہ عنہما کا بھی ذکر ہے، اور اذان کی مشروعیت خواب کے بعد وحی سے ہوئی ، ابوداود نے مراسیل میں روایت کی ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اذان کا خواب بیان کیا ،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تم سے پہلے اس کی وحی آچکی'' ،اور اذان واجب ہے، بعضوں نے کہا کہ سنت ہے، لیکن وجوب کا قول قوی ہے، اور ظاہر یہ ہے کہ موذن بالغ اور مرد ہو، کیونکہ سلف سے یہ منقول نہیں کہ کبھی عورت نے اذان دی ہو، البتہ اگر نری عورتوں کی جماعت ہو اور کوئی عورت خاص اپنے لئے یا عورتوں کے لئے متوسط آواز سے اذان دے لے تو کچھ ممانعت نہیں ہے، اور اذان کے لئے باو ضوء ہونا شرط نہیں، اور جنبی کی بھی اذان صحیح ہے، مگر باوضوء افضل ہے، اس حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں ہے: ''برا معلوم ہوا کہ میں اللہ کا ذکر بغیر طہارت کے کروں'' (ابو داود، ابن خزیمہ، اور ابن حبان) ، اس سے بھی مستنبط ہوتا ہے کہ باوضو ء ہوکر اذان دینا افضل ہے، واللہ اعلم۔


706- حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ الْمَدَنِيّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَدْ هَمَّ بِالْبُوقِ، وَأَمَرَ بِالنَّاقُوسِ فَنُحِتَ، فَأُرِيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فِي الْمَنَامِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ، يَحْمِلُ نَاقُوسًا، فَقُلْتُ لَهُ: يَا عَبْدَاللَّهِ! تَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ قُلْتُ: أُنَادِي بِهِ إِلَى الصَّلاةِ، قَالَ: أَفَلا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، قَالَ: فَخَرَجَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ بِمَا رَأَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَأَيْتُ رَجُلا عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَخْضَرَانِ يَحْمِلُ نَاقُوسًا، فَقَصَّ عَلَيْهِ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ صَاحِبَكُمْ قَدْ رَأَى رُؤْيَا، فَاخْرُجْ مَعَ بِلالٍ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأَلْقِهَا عَلَيْهِ وَلْيُنَادِ بِلالٌ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ >، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ بِلالٍ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَعَلْتُ أُلْقِيهَا عَلَيْهِ وَهُوَ يُنَادِي بِهَا،قَالَ: فَسَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الصَّوْتِ، فَخَرَجَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى.
قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ الْحَكَمِيُّ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ قَالَ فِي ذَلِكَ:
أَحْمَدُ اللَّهَ ذَا الْجَلالِ وَذَا الإِكْ
إِذْ أَتَانِي بِهِ الْبَشِيرُ مِنَ اللَّـ
فِي لَيَالٍ وَالَى بِهِـنَّ ثَلاثٍ
رَامِ حَمْدًا عَلَى الأَذَانِ كَثِيرًا
ـه فَأَكْرِمْ بِهِ لَدَيَّ بَشِيرًا
كُلَّمَا جَائَ زَادَنِي تَوْقِيرًا
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۸ (۴۹۹)، ت/الصلاۃ ۲۵ (۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۰۹)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۳ (۳۷۹)، حم (۴/۴۲، ۴۳)، دي/الصلاۃ ۳ (۱۲۲۴) (حسن)
۷۰۶- عبداللہ بن زید ( بن عبدربہ ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا ( تاکہ لوگ صلاۃ کے لئے جمع ہوجائیں، لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑدیا)، پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا، وہ تراشا گیا ، (لیکن اسے بھی نصاری سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا)، اسی اثنا ء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب دکھایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دوسبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لئے ہوئے تھا ، میں نے اس سے کہا: اللہ کے بندے ! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا ؟ اس شخص نے کہا :تم اس کا کیا کروگے ؟ میں نے کہا : میں ا سے بجا کر لوگوں کو صلاۃ کے لئے بلاؤںگا، اس شخص نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتادوں ؟ میں نے پوچھا: وہ بہتر چیز کیا ہے؟ اس نے کہا: تم یہ کلمات کہو ''اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' (اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، آئو صلاۃ کے لئے ، آئو صلاۃ کے لئے، آئو کامیابی کی طرف ، آؤ کامیابی کی طرف، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑ ا ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)۔
راوی کہتے ہیں: عبداللہ بن زید نکلے اور رسول اکرم ﷺ کے پاس آکرپورا خواب بیان کیا: عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک آدمی کو دوسبز کپڑے پہنے دیکھا ، جو ناقوس لئے ہوئے تھا ، اور آپﷺ سے پورا واقعہ بیان کیا ، تو رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: '' تمہارے ساتھی نے ایک خواب دیکھا ہے''، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: '' تم بلال کے ساتھ مسجد جاؤ، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتے جاؤ، اور وہ اذان دیتے جائیں، کیوں کہ ان کی آواز تم سے بلند تر ہے''، عبداللہ بن زیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد گیا ، اور انہیں اذان کے کلمات بتاتا گیا اور وہ انہیں بلندآواز سے پکارتے گئے، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : توعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جو ں ہی یہ آواز سنی فوراً گھر سے نکلے، اورآکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے'' ۔
ابو عبید کہتے ہیں: مجھے ابوبکر حکمی نے خبر دی کہ عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں چند اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے : ''میں بزرگ وبرتر اللہ کی خوب خوب تعریف کرتا ہوں، جس نے اذان سکھائی، جب اللہ کی جانب سے میرے پاس اذان کی خوشخبری دینے والا (فرشتہ) آیا، وہ خوشخبری دینے والا میرے نزدیک کیا ہی باعزت تھا ، مسلسل تین رات تک میرے پاس آتارہا ، جب بھی وہ میرے پاس آیا اس نے میری عزت بڑھائی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ خواب سچا ہے، ان شا ء اللہ تعالی اور عمر رضی اللہ عنہ کے دیکھنے سے اس کی سچائی کا اور زیادہ یقین ہوا، اس پر بھی نبی اکرم ﷺ نے صرف خواب پر حکم نہیں دیا، بلکہ اس کے بعد آپ پروحی کی گئی کیونکہ دین کے احکام خواب سے ثابت نہیں ہوسکتے، مگرانبیاء کے خواب وحی میں داخل ہیں، تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جس شخص کو خواب میں دیکھا وہ اللہ تعالی کا فرشتہ تھا، اور صرف وحی پر جو اکتفا نہیں ہوئی، اور اذان کئی شخصوں کو خواب میں دکھلائی گئی تو اس میں بھی یہ راز تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی سچائی اور عظمت کا زیادہ ثبوت ہو۔


707- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَشَارَ النَّاسَ لِمَا يُهِمُّهُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَذَكَرُوا الْبُوقَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ الْيَهُودِ، ثُمَّ ذَكَرُوا النَّاقُوسَ، فَكَرِهَهُ مِنْ أَجْلِ النَّصَارَى، فَأُرِيَ النِّدَائَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ عَبْدُاللَّهِ ابْنُ زَيْدٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَطَرَقَ الأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَيْلا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِلالا بِهِ، فَأَذَّنَ. قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَزَادَ بِلالٌ فِي نِدَائِ صَلاةِ الْغَدَاةِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأَقَرَّهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي رَأَى، وَلَكِنَّهُ سَبَقَنِي۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۶۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۴۸) (ضعیف)
(یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک روای '' محمدبن خالد'' ضعیف ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے ، کیونکہ بخاری ومسلم میں آئی ہوئی حدیث کے ہم معنی ہے)
۷۰۷- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا کہ صلاۃ کے لئے لوگوں کو اکٹھاکرنے کی کیا صورت ہونی چاہئے، کچھ صحابہ نے بگل کا ذکر کیا ( کہ اسے صلاۃ کے وقت بجا دیا جائے) تو آپ ﷺ نے اسے یہود سے مشابہت کے بنیاد پر ناپسند فرمایا،پھر کچھ نے ناقوس کا ذکر کیا لیکن آپ ﷺ نے اسے بھی نصاریٰ سے تشبیہ کی بناء پر ناپسند فرمایا،اسی رات ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کوخواب میں اذان دکھائی گئی، انصاری صحابی رات ہی میں رسول اللہ ﷺ کے پا س پہنچے، آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے اذان دی۔
زہری کہتے ہیں: بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں ''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ''
( صلاۃ نیند سے بہتر ہے) کا اضافہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے برقرار رکھا ۔
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے بھی وہی خواب دیکھاہے جو عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے، لیکن وہ (آپ کے پاس پہنچنے میں) مجھ سے سبقت لے گئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ
۲ -باب: اذان میں ترجیع کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : اذان میں شہادتین کے کلمات کو دوبار آہستہ کہنے پھردوبار بلندآواز سے پکارکر کہنے کو ترجیع کہتے ہیں: ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں ترجیع کاذکرہے ،اور بلال رضی اللہ عنہ کی روایت میں ترجیع کاذکرنہیں ،اس سے ظاہرہوتا ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں، ترجیع کے ساتھ بھی اذان کہی جاسکتی ہے ،اور بغیر ترجیع کے بھی ۔


708- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي مَحْذُورَةَ بْنِ مِعْيَرٍ، حِينَ جَهَّزَهُ إِلَى الشَّامِ، فَقُلْتُ لأَبِي مَحْذُورَةَ: أَيْ عَمّ! إِنِّي خَارِجٌ إِلَى الشَّامِ، وَإِنِّي أُسْأَلُ عَنْ تَأْذِينِكَ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ قَالَ: خَرَجْتُ فِي نَفَرٍ، فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، فَأَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالصَّلاةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَسَمِعْنَا صَوْتَ الْمُؤَذِّنِ وَنَحْنُ عَنْهُ مُتَنَكِّبُونَ، فَصَرَخْنَا نَحْكِيهِ، نَهْزَأُ بِهِ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا قَوْمًا فَأَقْعَدُونَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: < أَيُّكُمِ الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ قَدِ ارْتَفَعَ؟ > فَأَشَارَ إِلَيَّ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، وَصَدَقُوا، فَأَرْسَلَ كُلَّهُمْ وَحَبَسَنِي، وَقَالَ لِي: < قُمْ فَأَذِّنْ >، فَقُمْتُ، وَلا شَيْئَ أَكْرَهُ إِلَيَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَلا مِمَّا يَأْمُرُنِي بِهِ، فَقُمْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَأَلْقَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ التَّأْذِينَ هُوَ بِنَفْسِهِ، فَقَالَ: < قُلِ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ >، ثُمَّ قَالَ لِي: < ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ >، ثُمَّ دَعَانِي حِينَ قَضَيْتُ التَّأْذِينَ فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيهَا شَيْئٌ مِنْ فِضَّةٍ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى نَاصِيَةِ أَبِي مَحْذُورَةَ، ثُمَّ أَمَرَّهَا عَلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ عَلَى ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ عَلَى كَبِدِهِ، ثُمَّ بَلَغَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سُرَّةَ أَبِي مَحْذُورَةَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < بَارَكَ اللَّهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ > فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَرْتَنِي بِالتَّأْذِينِ بِمَكَّةَ؟ قَالَ: <نَعَمْ، قَدْ أَمَرْتُكَ> فَذَهَبَ كُلُّ شَيْئٍ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ كَرَاهِيَةٍ، وَعَادَ ذَلِكَ كُلُّهُ مَحَبَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَدِمْتُ عَلَى عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، عَامِلِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِمَكَّةَ، فَأَذَّنْتُ مَعَهُ بِالصَّلاةِ عَنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ذَلِكَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَا مَحْذُورَةَ ، عَلَى مَا أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳ (۳۷۹)، د/الصلاۃ ۲۸ (۵۰۲)، ت/الصلاۃ ۲۶ (۱۹۱ ، ۱۹۲)، ن/الأذان ۳ (۶۳۰)، ۴ (۶۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹)، حم (۳/۴۰۸، ۴۰۹)، دي/الصلاۃ ۷ (۱۲۳۲) (حسن صحیح)
۷۰۸- عبداللہ بن محیریز جو یتیم تھے اور ابومحذورہ بن معیر کے زیر پرورش تھے، کہتے ہیں کہ جس وقت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سامان تجارت دے کر شام کی جانب روانہ کیا ، تو انہوں نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے کہا: چچا جان ! میں ملک شام جارہا ہوں، اور لوگ مجھ سے آپ کی اذان کے سلسلے میں پوچھیں گے، ابومحذورہ نے مجھ سے کہا کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ نکلا ، ہم راستے ہی میں تھے کہ اسی دوران رسول اکرم ﷺ کے مؤذن نے صلاۃ کے لئے اذان دی ۱؎ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہم نے مؤذن کی آواز سنی چوں کہ ہم اس (اذان یا اسلام ) سے متنفر تھے (کیوں کہ ہم کفر کی حالت میں تھے) اس لئے ہم چلا چلا کر اس کی نقلیں اتارنے اور اس کا ٹھٹھا کرنے لگے ، رسول اللہ ﷺ نے سن لیا، آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کو بھیجا ،انہوں نے ہمیں پکڑ کر آپ کے سامنے حاضر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں وہ کون شخص ہے جس کی آواز ابھی میں نے سنی کافی بلند تھی'' ، سب لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، اور وہ سچ بولے، آپ ﷺ نے سب کو چھوڑدیا اور صرف مجھے روک لیا، اور مجھ سے کہا : ''کھڑے ہو اذان دو''، میں اٹھا لیکن اس وقت میرے نزدیک نبی اکرم ﷺ سے اوراس چیز سے جس کا آپ مجھے حکم دے رہے تھے زیادہ بری کوئی اور چیز نہ تھی ، خیر میں آپﷺ کے سامنے کھڑا ہوا، آپ نے خود مجھے اذان سکھانی شروع کی ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''کہو: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ. أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ''، پھر آپﷺ نے مجھ سے کہا : ''بآواز بلند کہو: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ. أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ. اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ'' ، جب میں اذان دے چکا تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی ،پھر اپنا ہاتھ ابومحذورہ کی پیشانی پر رکھا اور اسے ان کے چہرہ، سینہ، پیٹ اور ناف تک پھیرا، پھر فرمایا: ''اللہ تمہیں برکت دے اور تم پر برکت نازل فرمائے''، پھر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ نے مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم دیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ہاں،تمہیں حکم دیا ہے'' بس اس کے ساتھ ہی جتنی بھی نفرت رسول اکرم ﷺ سے تھی وہ جاتی رہی، اور وہ آپ ﷺ کی محبت سے بدل گئی، ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے عامل عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان کی گورنری کے زمانہ میں میں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے صلاۃ کے لئے اذان دی۔
عبدالعزیز بن عبدالملک کہتے ہیں کہ جس طرح عبداللہ بن محیریز نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی اسی طرح اس شخص نے بھی بیان کی جو ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے ملا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ کا حال معلوم ہوتا ہے کہ آپ مخالفین کے ساتھ کس طرح نرمی اور شفقت سے برتائو کرتے تھے کہ ان کا دل خو د پسیج جاتا ،اور وہ اپنے کئے پرشرمندہ ہوتے ، جو کوئی برائی کرے اس کے ساتھ بھلائی کرنا یہی اس کو شرمندہ کرنا ہے۔


709- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَامِرٍ الأَحْوَلِ؛ أَنَّ مَكْحُولا حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَيْرِيزٍ حَدَّثَهُ،أَنَّ أَبَا مَحْذُورَةَ حَدَّثَهُ قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، وَالإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، الأَذَانُ: < اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ >، وَالإِقَامَةُ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً: < اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
۷۰۹- ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے اذان کے لئے اُنیس کلمات اور اقامت کے لئے سترہ کلمات سکھائے، اذان کے کلمات یہ ہیں: ''اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ . أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ''۔
(اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں،میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آئو صلاۃ کے لئے ، آئو صلاۃ کے لئے، آئو کامیابی کی طرف، آؤ کامیا بی کی طرف، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)۔
اور اقامت کے لئے سترہ کلمات یہ ہیں: ''اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' ۔
(اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں،میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ،آئو صلاۃ کے لئے،آئو صلاۃ کے لئے، آئو کامیابی کی طرف ، آو کامیا بی کی طرف،صلاۃ قائم ہوگئی، صلاۃ قائم ہو گئی، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں) ۱؎ ۔
( اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سو ا کوئی معبود برحق نہیں ، میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آئو صلاۃ کے لئے، آئو کامیابی کی طرف، صلاۃ قائم ہوگئی، صلاۃ قائم ہو گئی، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)۔
وضاحت ۱ ؎ : اور دوسری صحیح روایتوں میں یوں بھی آیا ہے کہ اقامت کے کلمے ایک ایک بار کہے ، قد قامت الصلوۃ اور اللہ اکبر کے سوا کہ وہ دو بار کہے، تو اقامت اس طرح سے ہوگی :''الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدًا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب السُّنَّةِ فِي الأَذَانِ
۳ -باب: اذان کی سنتوں کا بیان​


710- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ، مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِلالا أَنْ يَجْعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: < إِنَّهُ أَرْفَعُ لِصَوْتِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۳) (ضعیف)
(ابناء سعد ''عمار وسعد وعبد الرحمن'' کے ضعف کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
۷۱۰- مؤذن رسول اللہ ﷺ سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں ڈال لیں ،اور فرمایا: '' اس سے تمہاری آواز خوب بلند ہوگی ''۔


711- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِالأَبْطَحِ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَائَ فَخَرَجَ بِلالٌ، فَأَذَّنَ فَاسْتَدَارَ فِي أَذَانِهِ، وَجَعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۰۵)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۵ (۶۳۴)، م/الصلاۃ ۴۷ (۵۰۳)، د/الصلاۃ ۳۴ (۵۲۰)، ت/الصلاۃ ۳۰ (۱۹۷)، ن/الأذان ۱۳ (۶۴۴)، الزینۃ من المجتبیٰ ۶۹ (۵۳۸۰)، حم (۴/۳۰۸)، دي/الصلاۃ ۸ (۱۲۳۴) (صحیح)
( اس سند میں حجاج ضعیف ہیں، لیکن متن دوسرے طرق سے صحیح ہے ''كما في التخريج من طرق سفيان الثوري، و شعبة وغيرهما عن عون به'')
۷۱۱- ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا،آپ ایک سرخ خیمہ میں قیام پذیر تھے ، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور اذان دی، تواپنی اذان میں گھوم گئے (جس وقت انہوں نے ''حي على الصلاة'' اور ''حي على الفلاح'' کے کلمات کہے)، اور اپنی (شہادت کی) دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : موذن جب ''حي على الصلاة'' کہے ،تو دائیں طرف منہ پھیرے ،اور جب ''حي الفلاح'' کہے تو بائیں طرف منہ پھیرے، اگر اذان کے منارے میں منہ پھیر نے کی گنجائش نہ ہو تو صرف گھوم جائے۔


712- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <خَصْلَتَانِ مُعَلَّقَتَانِ فِي أَعْنَاقِ الْمُؤَذِّنِينَ لِلْمُسْلِمِينَ: صَلاتُهُمْ وَصِيَامُهُمْ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷۰ ، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۴) (موضوع)
(سند میں بقیہ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور مروان بن سالم وضع حدیث میں متہم راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۹۰۵)
۷۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' مسلمانوں کے دو کام مؤذنوں کی گردنوں میں لٹکے ہوتے ہیں :ایک صلاۃ، دوسرے صوم'' ۔


713- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ بِلالٌ لا يُؤَخِّرُ الأَذَانَ عَنِ الْوَقْتِ، وَرُبَّمَا أَخَّرَ الإِقَامَةَ شَيْئًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۷۸، ومصباح الزجاجۃ: )، وقد أخرجہ: م/المساجد ۲۹ (۶۰۶)، د/الصلاۃ ۴۴ (۵۳۷)، ت/الصلاۃ ۳۴ (۲۰۲) (حسن)
(سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲۲۷)
۷۱۳- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان وقت سے مؤخر نہ کرتے ،اور اقامت کبھی کبھی کچھ مؤخر کردیتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقامت اس وقت تک نہ ہوتی جب تک نبی اکرم ﷺ حجرئہ مبارکہ سے باہر نہ آجاتے، اور آپ کو دیکھ کر بلال رضی اللہ عنہ اقامت شروع کرتے۔


714- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ؛ قَالَ: كَانَ آخِرُ مَا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ لا أَتَّخِذَ مُؤَذِّنًا يَأْخُذُ عَلَى الأَذَانِ أَجْرًا۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۴۱ (۲۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، حم (۴/۲۱۷) (صحیح)
۷۱۴- عثمان بن ا بی ا لعاص ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے آخری وصیت یہ کی تھی کہ میں کوئی ایسا مؤذن نہ رکھوں جو اذان پر اجرت لیتا ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اذان ایک عبادت ہے اس پر اجرت مقرر کرنا اکثر علماء کے یہاں مکروہ ہے، اور بعضوں نے اس زمانے میں جائز قرار دیا ہے، کیونکہ ایسے مؤذن کہاں ملتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اذان دیں ، محدثین نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت میں سے کوئی ایسا شخص اذان دینے کے لئے مقرر کیا جائے جو اپنی روٹی محنت یا تجارت سے پیدا کرتا ہو تا کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اذان دے ۔


715- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَسَدِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ بِلالٍ؛ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ أُثَوِّبَ فِي الْفَجْرِ، وَنَهَانِي أَنْ أُثَوِّبَ فِي الْعِشَائِ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۳۱ (۱۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴، ۱۴۸) (ضعیف)
(سند میں ابو اسرائیل ضعیف ہیں ،ملاحظہ ہو: الإرواء: ۲۳۵)
۷۱۵- بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی اذان میں '' تثويب'' ۱؎ کہوں، اور آپ نے عشاء کی اذان میں '' تثويب'' سے مجھے منع فرمایا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''تثويب'' کہتے ہیںاعلان کے بعد اعلان کرنے یااطلاع دینے کو، اور مراد اس سے ''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' کو نبی ﷺ نے فجر کی اذان میں جاری کیا ، اور شیعہ جو کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمہ کو اذان میں بڑھایا یہ ان کا افتراء ہے، عمر رضی اللہ عنہ کا یہ منصب نہیں تھا کہ وہ اذان جیسی عبادت میں اپنی رائے سے گھٹاتے بڑھاتے، یہ منصب تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کا ہے، پس بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ مؤذن عمر رضی اللہ عنہ کو جگانے کے لئے آیا، اور اس نے کہا : ''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:'' اس کلمے کو اپنی اذان میں مقرر کر و''، اس سے یہ نہیں نکلتا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمے کو ایجاد کیا، بلکہ احتمال ہے کہ لوگوں نے یہ کلمہ فجر کی اذان میں کہنا چھوڑ دیا ہوگا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کے جاری کرنے کے لئے تنبیہ کی، یا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کلمہ اذان میں کہا کرو ،اذان کے باہر اس کے کہنے کا کیا موقع، بہر حال اتباع میں عمر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ سخت تھے، او ر بد عت کے بڑے دشمن تھے ، ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ انہوں نے دین میں کوئی بات کتاب وسنت کی دلیل کے بغیراپنی طرف سے بڑھائی ہو، جب عمر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب حاصل نہ ہوا حالانکہ دوسری حدیث میں ابو بکر اور عمر کی پیروی کا حکم ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ میری سنت کو لازم کرلو، اور خلفائے راشدین کی سنت کو، تو کسی صحابی، یا امام، یا مجتہد، یا پیر، یا ولی ، یا فقیر، یا غوث، یا قطب کو یہ منصب کیوں کر حاصل ہوگا، کہ وہ دین میں بغیر دلیل کے کوئی اضافہ کرے۔


716- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ بِلالٍ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يُؤْذِنُهُ بِصَلاةِ الْفَجْرِ، فَقِيلَ: هُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأُقِرَّتْ فِي تَأْذِينِ الْفَجْرِ، فَثَبَتَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۵) (صحیح)
(سند میں ابن المسیب اوربلال رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے ، لیکن ان کی مراسیل علماء کے یہاں مقبول ہیں، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ)
۷۱۶- بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس صلاۃ فجر کی اطلاع دینے کے لئے آئے ،ان کو بتایا گیا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں ، توبلال رضی اللہ عنہ نے دوبار ''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ،الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' کہا (صلاۃ نیند سے بہتر ہے ، صلاۃ نیند سے بہتر ہے) تو یہ کلمات فجر کی اذان میں برقرار رکھے گئے ،پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۔


717- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ،حَدَّثَنَا الإفْرِيقِيُّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَمَرَنِي فَأَذَّنْتُ، فَأَرَادَ بِلالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ أَخَا صُدَائٍ قَدْ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۰ (۵۱۴)، ت/الصلاۃ ۳۲ (۱۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۹) (ضعیف)
(اس کی سند میں '' عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی'' ضعیف ہیں،نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۰ ۳۳۷)
۷۱۷- زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے مجھے اذان کا حکم دیا، میں نے اذان دی، (پھر جب صلاۃ کا وقت ہوا) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: '' صداء کے بھائی ( زیاد بن حارث صدائی) نے اذان دی ہے اور جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا يُقَالُ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ
۴ -باب: مؤ ذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟​


718- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّافِعِيُّ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ رَجَائٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَقُولُوا مِثْلَ قَوْلِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۶)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ۴۰ (۲۰۸ تعلیقاً) ن/الیوم وللیلۃ (۳۳) (صحیح)
(سند میں عباد بن اسحاق ہیں، جو عبد الرحمن بن اسحاق المدنی ہیں، ان کی حدیث کو نسائی نے خطاء کہا ہے ، اور مالک وغیرہ کی زہری سے روایت جسے ا نہوں نے عطاء بن یزید سے اورعطار نے ابو سعید الخدری سے مرفوعاً روایت کی ہے، اس کو خواب بتایا،اور یہ آگے کی حدیث (۷۲۰) نمبر کی ہے لیکن اصل حدیث صحیح ہے، ابن خزیمہ اور بوصیری نے حدیث کی تصحیح کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابن خزیمہ: ۴۱۲)
۷۱۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب مؤذن اذان دے تو تم بھی انہیں کلمات کو دہراؤ'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : البتہ کوئی عذر ہو یا ضرورت ہو تو دوسرا شخص تکبیر کہہ سکتا ہے، بلا ضرورت ایسا کرنا کہ ا ذان کوئی دے اور اقامت کوئی کہے مکروہ ہے، یہ امام شافعی کا قول ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔


719- حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ أَبُو الْفَضْلِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ حَبِيبَةَ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ -إِذَا كَانَ عِنْدَهَا فِي يَوْمِهَا وَلَيْلَتِهَا، فَسَمِعَ الْمُؤَذِّنَ يُؤَذِّنُ قَالَ- كَمَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۵۳، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۲۵) (ضعیف)
(سند میں ہشیم مدلس ہیں، اور عبید اللہ بن عتبہ کے بارے میں ذہبی نے کہا: لایکاد یعرف پہنچانے نہیں جاتے )
۷۱۹- ام المومنین امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب ان کی باری کے دن ورات ان کے پاس ہوتے، اور مؤذن کی آواز سنتے تو انہی کلمات کو دہراتے جو مؤذن کہتا ۔


720- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍالْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَائَ فَقُولُوا كَمَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ >۔
* تخريج:خ/الأذان ۷ (۶۱۱)، م/الصلاۃ ۷ (۳۸۳)، د/الصلاۃ ۳۶ (۵۲۲)، ت/الصلاۃ ۴۰ (۲۰۸)، ن/الاذان ۳۳ (۶۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۰)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۱ (۲)، حم (۳/۶، ۵۳، ۷۸)، دي/الصلاۃ ۱۰ (۱۲۳۷) (صحیح)
۷۲۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان تما م احادیث سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اذان کے وقت سننے والوں کو سوائے اذان کے کلمات دہرانے کے کچھ نہ کہنا چاہئے انگوٹھے چومنا یا ''قر عيني بك يا رسول الله'' کہنا ان احادیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی ہے، نیز اس حکم سے ''حي على الصلاة'' اور '' حي على الفلاح'' کے کلمات مستثنیٰ ہیں، سننے والا اس کے جواب میں ''لا حول ولا قوة إلا با لله'' کہے گا ، جیساکہ نسائی کی (حدیث رقم: ۶۷۸) میں وارد ہے۔


721- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِىُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ: وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا -غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۷ (۳۸۶)، د/الصلاۃ ۳۶ (۵۲۵)، ت/الصلاۃ ۴۲ (۲۱۰)، ن/الأذان ۳۸ (۶۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۱) (صحیح)
۷۲۱- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے مؤذن کی اذان سن کر یہ دعا پڑھی: «وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ،وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا» (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، وہ تن تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے سے راضی ہوں) تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صغیرہ گناہ اور کیا عجب ہے کہ اللہ جل جلالہ کبائر بخش دے، کیونکہ وہ أرحم الراحمین ہے۔


722- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَالْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْحُسَيْنِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الأَلْهَانِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَائَ: اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، إِلا حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج:خ/الأذان ۸ (۶۱۴)، تفسیر الإسراء ۱۱ (۴۷۱۹)، د/الصلاۃ ۳۸ (۵۲۹)، ت/الصلاۃ ۴۳ (۲۱۱)، ن/الأذان ۳۸ (۶۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۴) (صحیح)
۷۲۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی : «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ» ( اے اللہ! اس مکمل پکار اور قائم ہونے والی صلاۃ کے مالک، محمد ﷺ کو وسیلہ ۱؎ اور فضیلت ۲؎ عطا فرما، آپ کو اس مقام محمود ۳؎ تک پہنچا جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے) تو اس کے لئے قیامت کے دن شفاعت حلال ہو گئی ۴؎ '' ۔
وضاحت ۱؎ : اذان سن کر نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ وسلام (درود) پڑھنا ،اور پھر یہ دعا پڑھنا جیسا کہ صحیح روا یات میں وارد ہے باعث اجروثواب ہے، اس کے برخلاف اذان سے پہلے اوربعد میں جوکلمات ایجاد کر لئے گئے ہیں، رسول اکرم ﷺ کی صریح مخالفت ہے، جو شفاعت رسول سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے، ( أعاذنا الله منها)۔
وضاحت ۲؎ : وسیلہ کے معنی قرب کے اوراس طریقے کے ہیں جس سے انسان اپنے مقصود تک پہنچ جاتا ہو، یہاں مراد جنت کا وہ درجہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو عطا کیاجائے گا ۔
وضاحت ۳؎ : فضیلۃ :یہ بھی ایک اعلیٰ مرتبہ ہے ،جو نبی اکرم ﷺ کو خصوصیت کے ساتھ تمام مخلوقات پر حاصل ہوگا نیز یہ بھی احتمال ہے کہ یہ وسیلہ کی تفسیر ہو ۔
وضاحت ۴؎ : مقام محمود: یہ وہ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبی کریمﷺ کو عطا فرمائے گا، اور اس جگہ آپ شفاعت عظمیٰ فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب وکتاب ہوگا ۔
الذی وعدتہ : یہ وعدہ آیت کریمہ: {عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا} [ سورة الإسراء : 79] میں کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فَضْلِ الأَذَانِ وَثَوَابِ الْمُؤَذِّنِينَ
۵ -باب: اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کابیان​


723- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ،عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَبُوهُ فِي حِجْرِ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ لِي أَبُو سَعِيدٍ: إِذَا كُنْتَ، فِي الْبَوَادِي، فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالأَذَانِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَسْمَعُهُ جِنٌّ وَلا إِنْسٌ وَلاشَجَرٌ وَلا حَجَرٌ، إِلا شَهِدَ لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۰۵، ومصباح الزجاجۃ: 268)، وأخرجہ: خ/الأذان ۵ (۶۰۸)، بدء الخلق ۱۲ (۳۲۹۶)، التوحید ۵۲ (۷۵۴۸)، ن/الأذان ۱۴ (۶۴۵)، ط/الصلاۃ ۱ (۵)، حم (۳/۳۵، ۴۳) (صحیح) ( ''وَلا حَجَرٌ وَلاشَجَرٌ''
کا لفظ صرف ابن ماجہ میں ہے ،اور ابن خزیمہ میں بھی ایسے ہی ہے)
۷۲۳- عبدالرحمن بن ابوصعصعہ (جوابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لئے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے : ''اذان کو جنات ، انسان ، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لئے گوا ہی دیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تو جتنی دور آواز پہنچے گی گواہ زیادہ ہوں گے، اور صحراء وبیا بان کی قید اس لئے ہے کہ آبادی میں گواہوں کی کمی نہیں ہوتی، آدمی ہی بہت ہوتے ہیں اس لئے زیادہ آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ آواز بلند کرنا مستحب ہے مگر نہ اس قدر کہ لوگ ڈر جائیں۔


724- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "الْمُؤَذِّنُ يُغْفَرُ لَهُ مَدَى صَوْتِهِ، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ، وَشَاهِدُ الصَّلاةِ يُكْتَبُ لَهُ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حَسَنَةً، وَيُكَفَّرُ لَهُ مَا بَيْنَهُمَا>۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۱ (۵۱۵)، ن/الأذان ۱۴ (۶۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۲۹، ۴۵۸) (حسن صحیح)
(اس حدیث کو بوصیری نے زوائد ابن ماجہ میں داخل کیا ہے، اور فرمایاہے کہ ابو داود اور نسائی نے اسے مختصراً ذکر کیا ہے، نیز احمد اور ابن حبان نے بھی اس کی تخریج کی ہے، جب کہ ابو داود میں مکمل سیا ق سے ہے، نسائی میں مختصراً ہے اس لئے یہ حدیث زوائد میں نہیں ہے)
۷۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :''مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے، اور ہر خشک وتر اس کے لئے مغفرت طلب کرتا ہے ،اور اذان سن کر صلاۃ میں حاضر ہونے والے کے لئے پچیس (۲۵) نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور دو صلاتوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں''۔


725- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ ابْنَ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۸ (۳۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۵، ۹۸) (صحیح)
۷۲۵- معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مؤذنوں کی گردنیں قیامت کے دن سب سے زیادہ لمبی ہوں گی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور یہ ان کے شرف و اعزاز اور بلند رتبہ کی دلیل ہوگی، اور گردن لمبی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان کے اعمال زیادہ ہوں گے، یا حقیقت میں گردنیں لمبی ہوں گی ، اور وہ جنت کو دیکھتے ہوں گے، یا وہ لوگوں کے سردار ہوں گے، عرب لوگ سردار کو لمبی گردن والا کہتے ہیں، یا وہ پیاسے نہ ہوں گے، اس وجہ سے کہ گردن اٹھی ہوگی، اور لوگ پیاس کے مارے گردن موڑے ہوں گے۔


726- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، أَخُو سُلَيْمٍ الْقَارِيُّ، عَنِ الْحَكَمِ ابْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ ، وَلْيَؤُمَّكُمْ قُرَّاؤُكُمْ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۶۱ (۵۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۹) (ضعیف)
(اس کی سند میں حسین بن عیسیٰ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود : ۹۱)
۷۲۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم میں سے اچھے لوگ اذان دیں، اور جو لوگ قاری عالم ہوں وہ امامت کریں ''۔


727- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُخْتَارُ بْنُ غَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الأَزْرَقُ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (ح) وحَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ ابْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَذَّنَ مُحْتَسِبًا سَبْعَ سِنِينَ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَائَةً مِنَ النَّارِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۱۷)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۳۸ (۲۰۶) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں جابر بن یزید الجعفی ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۸۵۰)
۷۲۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے طلب ثواب کی نیت سے سات سال اذان دی تو اللہ تعالی اس کے لئے جہنم سے نجات لکھ دے گا '' ۔


728- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَذَّنَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَكُتِبَ لَهُ، بِتَأْذِينِهِ، فِي كُلِّ يَوْمٍ، سِتُّونَ حَسَنَةً، وَلِكُلِّ إِقَامَةٍ ثَلاثُونَ حَسَنَةً >۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۸۸ ، ومصباح الزجاجۃ: ۲۷۰) (صحیح)
۷۲۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے بارہ سال اذان دی، اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، اور اس کے لئے ہر روزکی اذان کے بدلے ساٹھ نیکیاں ،اور ہر اقامت پہ تیس نیکیاں لکھ دی گئیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اوپر حدیث میں سات برس کا ذکر ہے ، اور اس میں بارہ برس کا یہ تعارض نہیں ہے، کیونکہ سات برس کی اذان دینے میں جب جہنم سے برأت حاصل ہوگئی، تو بارہ برس کی اذان دینے میں جنت ضرور حاصل ہوگی، ان شاء اللہ اور بعضوں نے کہا سات برس خلوص نیت کے ساتھ کافی ہیں، اور بارہ برس ہر طرح کافی ہیں، اگرچہ نیت میں صفائی کامل نہ ہو، واللہ اعلم۔
 
Top