3- بَاب السُّنَّةِ فِي الأَذَانِ
۳ -باب: اذان کی سنتوں کا بیان
710- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ، مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِلالا أَنْ يَجْعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَقَالَ: < إِنَّهُ أَرْفَعُ لِصَوْتِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۳) (ضعیف)
(ابناء سعد ''عمار وسعد وعبد الرحمن'' کے ضعف کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
۷۱۰- مؤذن رسول اللہ ﷺ سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں ڈال لیں ،اور فرمایا: '' اس سے تمہاری آواز خوب بلند ہوگی ''۔
711- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بِالأَبْطَحِ، وَهُوَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَائَ فَخَرَجَ بِلالٌ، فَأَذَّنَ فَاسْتَدَارَ فِي أَذَانِهِ، وَجَعَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۰۵)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۵ (۶۳۴)، م/الصلاۃ ۴۷ (۵۰۳)، د/الصلاۃ ۳۴ (۵۲۰)، ت/الصلاۃ ۳۰ (۱۹۷)، ن/الأذان ۱۳ (۶۴۴)، الزینۃ من المجتبیٰ ۶۹ (۵۳۸۰)، حم (۴/۳۰۸)، دي/الصلاۃ ۸ (۱۲۳۴) (صحیح)
( اس سند میں حجاج ضعیف ہیں، لیکن متن دوسرے طرق سے صحیح ہے
''كما في التخريج من طرق سفيان الثوري، و شعبة وغيرهما عن عون به'')
۷۱۱- ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وادی بطحاء میں رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا،آپ ایک سرخ خیمہ میں قیام پذیر تھے ، بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور اذان دی، تواپنی اذان میں گھوم گئے (جس وقت انہوں نے
''حي على الصلاة'' اور ''حي على الفلاح'' کے کلمات کہے)، اور اپنی (شہادت کی) دونوں انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : موذن جب
''حي على الصلاة'' کہے ،تو دائیں طرف منہ پھیرے ،اور جب
''حي الفلاح'' کہے تو بائیں طرف منہ پھیرے، اگر اذان کے منارے میں منہ پھیر نے کی گنجائش نہ ہو تو صرف گھوم جائے۔
712- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <خَصْلَتَانِ مُعَلَّقَتَانِ فِي أَعْنَاقِ الْمُؤَذِّنِينَ لِلْمُسْلِمِينَ: صَلاتُهُمْ وَصِيَامُهُمْ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷۰ ، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۴) (موضوع)
(سند میں بقیہ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور مروان بن سالم وضع حدیث میں متہم راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۹۰۵)
۷۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' مسلمانوں کے دو کام مؤذنوں کی گردنوں میں لٹکے ہوتے ہیں :ایک صلاۃ، دوسرے صوم'' ۔
713- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ بِلالٌ لا يُؤَخِّرُ الأَذَانَ عَنِ الْوَقْتِ، وَرُبَّمَا أَخَّرَ الإِقَامَةَ شَيْئًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۷۸، ومصباح الزجاجۃ: )، وقد أخرجہ: م/المساجد ۲۹ (۶۰۶)، د/الصلاۃ ۴۴ (۵۳۷)، ت/الصلاۃ ۳۴ (۲۰۲) (حسن)
(سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲۲۷)
۷۱۳- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان وقت سے مؤخر نہ کرتے ،اور اقامت کبھی کبھی کچھ مؤخر کردیتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقامت اس وقت تک نہ ہوتی جب تک نبی اکرم ﷺ حجرئہ مبارکہ سے باہر نہ آجاتے، اور آپ کو دیکھ کر بلال رضی اللہ عنہ اقامت شروع کرتے۔
714- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ؛ قَالَ: كَانَ آخِرُ مَا عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ لا أَتَّخِذَ مُؤَذِّنًا يَأْخُذُ عَلَى الأَذَانِ أَجْرًا۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۴۱ (۲۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۳)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، حم (۴/۲۱۷) (صحیح)
۷۱۴- عثمان بن ا بی ا لعاص ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے آخری وصیت یہ کی تھی کہ میں کوئی ایسا مؤذن نہ رکھوں جو اذان پر اجرت لیتا ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اذان ایک عبادت ہے اس پر اجرت مقرر کرنا اکثر علماء کے یہاں مکروہ ہے، اور بعضوں نے اس زمانے میں جائز قرار دیا ہے، کیونکہ ایسے مؤذن کہاں ملتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اذان دیں ، محدثین نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت میں سے کوئی ایسا شخص اذان دینے کے لئے مقرر کیا جائے جو اپنی روٹی محنت یا تجارت سے پیدا کرتا ہو تا کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اذان دے ۔
715- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَسَدِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ بِلالٍ؛ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ أُثَوِّبَ فِي الْفَجْرِ، وَنَهَانِي أَنْ أُثَوِّبَ فِي الْعِشَائِ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۳۱ (۱۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴، ۱۴۸) (ضعیف)
(سند میں ابو اسرائیل ضعیف ہیں ،ملاحظہ ہو: الإرواء: ۲۳۵)
۷۱۵- بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں فجر کی اذان میں
'' تثويب'' ۱؎ کہوں، اور آپ نے عشاء کی اذان میں
'' تثويب'' سے مجھے منع فرمایا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''تثويب'' کہتے ہیںاعلان کے بعد اعلان کرنے یااطلاع دینے کو، اور مراد اس سے
''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ
''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' کو نبی ﷺ نے فجر کی اذان میں جاری کیا ، اور شیعہ جو کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمہ کو اذان میں بڑھایا یہ ان کا افتراء ہے، عمر رضی اللہ عنہ کا یہ منصب نہیں تھا کہ وہ اذان جیسی عبادت میں اپنی رائے سے گھٹاتے بڑھاتے، یہ منصب تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کا ہے، پس بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ مؤذن عمر رضی اللہ عنہ کو جگانے کے لئے آیا، اور اس نے کہا :
''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:'' اس کلمے کو اپنی اذان میں مقرر کر و''، اس سے یہ نہیں نکلتا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کلمے کو ایجاد کیا، بلکہ احتمال ہے کہ لوگوں نے یہ کلمہ فجر کی اذان میں کہنا چھوڑ دیا ہوگا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کے جاری کرنے کے لئے تنبیہ کی، یا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کلمہ اذان میں کہا کرو ،اذان کے باہر اس کے کہنے کا کیا موقع، بہر حال اتباع میں عمر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ سخت تھے، او ر بد عت کے بڑے دشمن تھے ، ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ انہوں نے دین میں کوئی بات کتاب وسنت کی دلیل کے بغیراپنی طرف سے بڑھائی ہو، جب عمر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب حاصل نہ ہوا حالانکہ دوسری حدیث میں ابو بکر اور عمر کی پیروی کا حکم ہے، اور ایک حدیث میں ہے کہ میری سنت کو لازم کرلو، اور خلفائے راشدین کی سنت کو، تو کسی صحابی، یا امام، یا مجتہد، یا پیر، یا ولی ، یا فقیر، یا غوث، یا قطب کو یہ منصب کیوں کر حاصل ہوگا، کہ وہ دین میں بغیر دلیل کے کوئی اضافہ کرے۔
716- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ بِلالٍ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ يُؤْذِنُهُ بِصَلاةِ الْفَجْرِ، فَقِيلَ: هُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ: الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فَأُقِرَّتْ فِي تَأْذِينِ الْفَجْرِ، فَثَبَتَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۳، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶۵) (صحیح)
(سند میں ابن المسیب اوربلال رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے ، لیکن ان کی مراسیل علماء کے یہاں مقبول ہیں، نیز اس کے شواہد بھی ہیں، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ)
۷۱۶- بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس صلاۃ فجر کی اطلاع دینے کے لئے آئے ،ان کو بتایا گیا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں ، توبلال رضی اللہ عنہ نے دوبار
''الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ،الصَّلاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ'' کہا (صلاۃ نیند سے بہتر ہے ، صلاۃ نیند سے بہتر ہے) تو یہ کلمات فجر کی اذان میں برقرار رکھے گئے ،پھر معاملہ اسی پر قائم رہا ۔
717- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ،حَدَّثَنَا الإفْرِيقِيُّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَمَرَنِي فَأَذَّنْتُ، فَأَرَادَ بِلالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ أَخَا صُدَائٍ قَدْ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۰ (۵۱۴)، ت/الصلاۃ ۳۲ (۱۹۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۶۹) (ضعیف)
(اس کی سند میں '' عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی'' ضعیف ہیں،نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۰ ۳۳۷)
۷۱۷- زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ نے مجھے اذان کا حکم دیا، میں نے اذان دی، (پھر جب صلاۃ کا وقت ہوا) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: '' صداء کے بھائی ( زیاد بن حارث صدائی) نے اذان دی ہے اور جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے '' ۔