4- بَاب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الصُّلْبِ
۴-باب: صلبی(حقیقی)اولاد کی میراث کا بیان
2890- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الأَوْدِيِّ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ الأَوْدِيِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ وَسَلْمَانَ ابْنِ رَبِيعَةَ فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ لأَبٍّ وَأُمٍّ، فَقَالا: لابْنَتِهِ النِّصْفُ، وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ النِّصْفُ، وَلَمْ يُوَرِّثَا ابْنَةَ الابْنِ شَيْئًا، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَإِنَّهُ سَيُتَابِعُنَا، فَأَتَاهُ الرَّجُلُ فَسَأَلَهُ وَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، وَلَكِنِّي سَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَائِ النَّبِيِّ ﷺ: لابْنَتِهِ النِّصْفُ، وَلابْنَةِ الابْنِ سَهْمٌ تَكْمِلَةُ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ۔
* تخريج: خ/الفرائض ۸ (۶۷۳۶)، ت/الفرائض ۴ (۲۰۹۳)، ق/الفرائض ۲ (۲۷۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۲۸، ۴۴۰، ۴۶۳)، دي/الفرائض ۷ (۲۹۳۲) (صحیح)
۲۸۹۰- ہزیل بن شر حبیل اودی کہتے ہیں: ایک شخص ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن ( یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پو تی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پو چھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتائی تو انہوں نے کہا:تب تو میں بھٹکا ہوا ہوں گا اور راہ یاب لوگوں میں سے نہ ہو ں گا، لیکن میں تو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور وہ یہ کہ ''بیٹی کا آدھا ہوگا'' اور پوتی کا چھٹا حصہ ہوگا دو تہائی پورا کرنے کے لئے(یعنی جب ایک بیٹی نے آدھا پایا تو چھٹا حصہ پوتی کو دے کر دو تہائی پورا کردیں گے) اور جو باقی رہے گا وہ سگی بہن کا ہوگا۔
2891- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى جِئْنَا امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ فِي الأَسْوَاف، فَجَائَتِ الْمَرْأَةُ بِابْنَتَيْنِ [لَهَا] فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَاتَانِ بِنْتَا ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَقَدِ اسْتَفَائَ عَمُّهُمَا مَالَهُمَا وَمِيرَاثَهُمَا كُلَّهُ، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالا إِلا أَخَذَهُ، فَمَا تَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاللَّهِ لا تُنْكَحَانِ أَبَدًا إِلا وَلَهُمَا مَالٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ > قَالَ: وَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَائِ: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ} الآيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ادْعُوا لِيَ الْمَرْأَةَ وَصَاحِبَهَا > فَقَالَ لِعَمِّهِمَا: < أَعْطِهِمَا الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَلَكَ >.
قَالَ أَبو دَاود: أَخْطَأَ [بِشْرٌ] فِيهِ [إِنَّمَا] هُمَا ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، وَثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ قُتِلَ يَوْمَ الْيَمَامَةِ ۔
* تخريج: ت/الفرائض ۳ (۲۰۹۲)، ق/الفرائض ۲ (۲۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۲) (حسن)
(اس روایت میں ثابت بن قیس کا تذکرہ صحیح نہیں ہے جیساکہ مؤلف نے بیان کیاہے)
۲۸۹۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تو اسواف(مدینہ کے حرم) میں ایک انصاری عورت کے پا س پہنچے، وہ عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کرآئی، اور کہنے لگی: اللہ کے رسول! یہ دونوں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں،جوجنگ احد میں آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا سارا مال اور میراث لے لیا، ان کے لئے کچھ بھی نہ چھوڑا، اب آپ کیا فرماتے ہیں ؟ اللہ کے رسول!قسم اللہ کی ! ان کا نکاح نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان کے پاس مال نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمائے گا''، پھرسو رہ نساء کی یہ آیتیں
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ} نازل ہوئیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس عورت کو اور اس کے دیو ر کو بلا ؤ ''، تو آپ ﷺ نے ان دونوں لڑکیوں کے چچا سے کہا: ''دو تہائی مال انہیں دے دو، اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دو، اور جو انہیں دینے کے بعد بچارہے وہ تمہارا ہے'' ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: اس میں بشر نے غلطی کی ہے، یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی تھیں، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ تو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے ۔
وضاحت ۱؎ : لہذا مسئلہ (۲۴) سے ہوگا، (۱۶) دونوں بیٹیوں کے اور (۳) ان کی ماں کے اور (۵) ان کے چچا کے ہوں گے ۔
2892- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ وَغَيْرُهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ امْرَأَةَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ سَعْدًا هَلَكَ وَتَرَكَ ابْنَتَيْنِ، وَسَاقَ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا هُوَ أَصَحُّ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۶۵) (حسن)
۲۸۹۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی عورت نے کہا: اللہ کے رسول! سعد مر گئے اور دوبیٹیاں چھوڑ گئے ہیں، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ روایت زیادہ صحیح ہے ۔
2893- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو حَسَّانَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً، فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ، وَنَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمَئِذٍ حَيٌّ۔
* تخريج: خ/الفرائض ۶، ۱۲ (۶۷۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۰۷)، وقد أخرجہ: دي/الفرائض ۴ (۲۹۲۱) (صحیح)
۲۸۹۳- اسود بن یزید کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بہن اور بیٹی میں اس طرح ترکہ تقسیم کیا کہ آدھا مال بیٹی کو ملا اور آدھا بہن کو (کیونکہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہے) اور وہ یمن میں تھے، اور اللہ کے نبی ﷺ اس وقت باحیات تھے۔