5- بَاب فِي الْعِرَافَةِ
۵-باب: عرافت کا بیان ۱؎
2933- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ [يَحْيَى بْنِ] الْمِقْدَامِ، عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ: < أَفْلَحْتَ يَا قُدَيْمُ، إِنْ مُتَّ وَلَمْ تَكُنْ أَمِيرًا، وَلا كَاتِبًا، وَلا عَرِيفًا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ''صالح بن یحییٰ بن مقدام'' ضعیف ہیں)
۲۹۳۳- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا : ''قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مرگئے تو تم نے نجات پالی'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : عریف: اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔
2934- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا غَالِبٌ [ الْقَطَّانُ ]، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُمْ كَانُوا عَلَى مَنْهَلٍ مِنَ الْمَنَاهِلِ، فَلَمَّا بَلَغَهُمُ الإِسْلامُ جَعَلَ صَاحِبُ الْمَاءِ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا، وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، فَأَرْسَلَ ابْنَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ: ائْتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَإِنَّهُ جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا، وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَإِنْ قَالَ لَكَ: نَعَمْ [أَوْ لا]، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ، وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِيَ الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلامَ، فَقَالَ: < وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلامُ >، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا، وَحَسُنَ إِسْلامُهُمْ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَقَالَ: < إِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُسْلِمَهَا لَهُمْ فَلْيُسْلِمْهَا، وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنْهُمْ، فَإِنْ [هُمْ] أَسْلَمُوا فَلَهُمْ إِسْلامُهُمْ، وَإِنْ لَمْ يُسْلِمُوا قُوتِلُوا عَلَى الإِسْلامِ >، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ، وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِيَ الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَقَالَ: < إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ، وَلا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ، وَلَكِنَّ الْعُرَفَائَ فِي النَّارِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۶) (ضعیف)
(اس کی سند میں کئی مجہول ومبہم راوی ہیں)
۲۹۳۴- غالب قطان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عرب کے ایک چشمے پر رہتے تھے جب ان کے پاس اسلام پہنچا تو چشمے والے نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا،چنانچہ وہ سب مسلمان ہو گئے تو اس نے اونٹوں کو ان میں تقسیم کر دیا، اس کے بعد اس نے اپنے اونٹوں کو ان سے واپس لے لینا چاہا تو اپنے بیٹے کو بلا کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور اس سے کہا: تم نبی اکرم ﷺ کے پاس جاؤ اور نبی ﷺ سے کہو کہ میرے والد نے آپ کو سلام پیش کیا ہے، اور میرے والد نے اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سواونٹ دے گا چنانچہ وہ اسلام لے آئے اور والدنے ان میں اونٹ تقسیم بھی کر دیئے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا وہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ اب اگر آپ ہاں فرمائیں یانہیں فرمائیں تو فرما دیجئے میرے والد بہت بو ڑھے ہیں، اس چشمے کے وہ عریف ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ مجھے وہاں کا عریف بنا دیں، چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو''۔
پھرانہوں نے کہا :میرے والد نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں، تو وہ انہیں سو اونٹ دیں گے چنانچہ وہ سب اسلام لے آئے اور اچھے مسلمان ہو گئے، اب میرے والد چاہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو ان سے واپس لے لیں تو کیا میرے والد ان اونٹوں کا حق رکھتے ہیں یا وہی لو گ حقدار ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : '' اگر تمہارے والد چاہیں کہ ان اونٹوں کو ان لوگوں کو دے دیں تو دے دیں اور اگر چاہیں کہ واپس لے لیں تو وہ ان کے ان سے زیادہ حقدارہیں اور جو مسلمان ہوئے تو اپنے اسلام کا فائدہ آپ اٹھائیں گے اور اگر مسلمان نہ ہوں گے تومسلمان نہ ہونے کے سبب قتل کئے جائیں گے ( یعنی اسلام سے پھر جانے کے باعث )''۔
پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اور اس چشمے کے عریف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کا عہدہ مجھے دے دیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''عرافت تو ضروری ( حق ) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن ( یہ جان لو ) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے)''۔