7- بَاب فِي قَضَاءِ الْقَاضِي إِذَا أَخْطَأَ
۷-باب: اگرقاضی غلط فیصلہ کردے توجس کا اس میں فائدہ ہے اس کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا ناجائزہے
3583- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْئٍ فَلا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ > ۔
* تخريج: خ/المظالم ۱۶ (۲۴۵۸)، الشھادات ۲۷ (۲۶۸۰)، الحیل ۱۰ (۶۹۶۷)، الأحکام ۲۰ (۷۱۶۹)، ۲۹ (۷۱۸۱)، ۳۱ (۷۱۸۵)، م/الأقضیۃ ۳ (۱۷۱۳)، ت/الأحکام ۱۱ (۱۳۳۹)، ن/ القضاۃ ۱۲(۵۴۰۳)، ق/الأحکام ۵ (۲۳۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۶۱)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۱ (۱)، حم (۶/۳۰۷،۳۲۰) (صحیح)
۳۵۸۳- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں انسان ہی ہوں ۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انھیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو،تو جس شخص کے لئے میں اس کے بھا ئی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تووہ اس میں سے ہر گز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لئے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہاہوں‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہوگا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے،
آپ ﷺ کے فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے اور لوگوں کو غیب کا حال معلوم نہیں ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح آپ ﷺ کو بھی غیب کی ہر بات معلوم نہیں، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔
3584- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَجُلانِ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيثَ لَهُمَا، لَمْ تَكُنْ لَهُمَا بَيِّنَةٌ إِلا دَعْوَاهُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَبَكَى الرَّجُلانِ وَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: حَقِّي لَكَ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ ﷺ : < أَمَّا إِذْ فَعَلْتُمَا مَا فَعَلْتُمَا فَاقْتَسِمَا وَتَوَخَّيَا الْحَقَّ، ثُمَّ اسْتَهَمَا ثُمَّ تَحَالا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۲۰) (صحیح)
(سیاق حدیث میں زائد چیزیں ہیں، اس لئے شیخ البانی نے اسامۃ بن زید لیثی کے حفظ پر نقد کرتے ہوئے اس حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے) (الصحیحۃ : ۴۵۵)
۳۵۸۴- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو شخص اپنے میرا ث کے مسئلے میں جھگڑتے ہوئے آئے اور ان دونوں کے پاس بجز دعوی کے کوئی دلیل نہیں تھی، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا … (پھر راوی نے اسی کے مثل حدیث ذکر کی) تو دونوں روپڑے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا: میں نے اپنا حق تجھے دے دیا، آپ ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا:’’ جب تم ایسا کر رہے ہو تو حق کو پیش نظر رکھ کر ( مال ) کو تقسیم کر لو، پھر قرعہ اندازی کرلواورایک دوسرے کو معاف کر دو‘‘۔
3585- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَافِعٍ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيثَ وَأَشْيَاءَ قَدْ دُرِسَتْ، فَقَالَ: < [إِنِّي] إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِرَأْيِي فِيمَا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيَّ فِيهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۷۴) (صحیح)
(سابقہ حدیث کا نوٹ ملاحظہ ہو)
۳۵۸۵- اس سند سے بھی ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے‘‘۔
3586- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الرَّأْيَ إِنَّمَا كَانَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُصِيبًا؛ لأَنَّ اللَّهَ كَانَ يُرِيهِ، وَإِنَّمَا هُوَ مِنَّا الظَّنُّ وَالتَّكَلُّفُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۰۶) (ضعیف)
(زہری کی عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے )
۳۵۸۶- ابن شہا ب کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: ’’لوگو! رائے تو صرف رسول اللہ ﷺ کی درست تھی کیونکہ اللہ تعالی آپ کو سُجھاتا تھا، اور ہما ری رائے محض ایک گمان اور تکلف ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہم معاملہ کو سمجھ کر اور غور وفکر کرکے کوئی رائے قائم کرتے ہیں پھر اس پر بھی اطمینان نہیں کہ وہ درست ہو۔
3587- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ [مُعَاذٍ]، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوعُثْمَانَ الشَّامِيُّ، وَلا إِخَالُنِي رَأَيْتُ شَأْمِيًّا أَفْضَلَ مِنْهُ، يَعْنِي حُرَيْزَ بْنَ عُثْمَانَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۵۸۷- معاذ بن معاذ کہتے ہیں : ابو عثمان شامی نے مجھے خبر دی اور میری نظر میں ان سے (یعنی حریز بن عثمان سے) کوئی شامی افضل نہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ناسخین کی غلطی سے کسی دوسری حدیث کی سند کی بابت یہ کلام یہاں درج ہو گیا ہے، یااس سند سے مروی حدیث درج ہونے سے رہ گئی ہے ۔