5- بَاب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ
۵-باب: ضیا فت (مہمان نوازی) کا بیان
3748- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، جَائِزَتُهُ يَوْمُهُ وَلَيْلَتُهُ، الضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ >.
[قَالَ أَبو دَاود] قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكُمْ أَشْهَبُ، قَالَ: وَسُئِلَ مَالِكٌ عَنْ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : < جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ >، قَالَ: يُكْرِمُهُ وَيُتْحِفُهُ وَيَحْفَظُهُ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَثَلاثَةَ أَيَّامٍ ضِيَافَةً۔
* تخريج: خ/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹)، ۸۵ (۶۱۳۵)، الرقاق ۲۳ (۶۴۷۶)، م/الإیمان ۱۹ (۴۸)، ت/البر والصلۃ ۴۳ (۱۹۶۷)، ق/الأدب ۵ (۳۶۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۶)، وقد أخرجہ: ط/صفۃ النبيﷺ۱۰ (۲۲) حم (۴/۳۱، ۶/۳۸۴، ۳۸۵)، دي/الأطعمۃ ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
۳۷۴۸- ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی خاطر تواضع کر نی چاہئے، اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور ضیا فت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے، اوراس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنے عرصے تک قیام کرے کہ وہ اسے مشقت اور تنگی میں ڈال دے‘‘ ۔
ابو داود کہتے ہیں:حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: امام مالک سے نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان
’’جائزته يوم وليلة‘‘کے متعلق پوچھا گیا: تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میزبان ایک دن اور ایک رات تک اس کی عزت و اکرام کرے، تحفہ و تحائف سے نوازے، اور اس کی حفاظت کر ے اور تین دن تک ضیافت کرے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پہلے دن اپنی حیثیت کے مطابق خصوصی اہتمام کرے اور باقی دو دنوں میں بغیر تکلف واہتمام کے ماحضر پیش کرے۔
3749- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْماَعِيلَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < الضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۰۸)، وقد أخرجہ: حم(۲/۳۵۴) (حسن، صحیح الإسناد)
۳۷۴۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مہمانداری تین روز تک ہے، اورجو اس کے علاوہ ہو وہ صدقہ ہے‘‘۔
3750- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي كَرِيمَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لَيْلَةُ الضَّيْفِ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَمَنْ أَصْبَحَ بِفِنَائِهِ فَهُوَ عَلَيْهِ دَيْنٌ، إِنْ شَاءَ اقْتَضَى، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ >۔
* تخريج: ق/الأدب ۵ (۳۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۸) (صحیح)
۳۷۵۰- ابو کریمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر مہمان کی ایک رات کی ضیافت حق ہے، جو کسی مسلمان کے گھر میں رات گزارے تو ایک دن کی مہمانی اس پرقرض ہے، چا ہے تو اسے وصول کرلے اور چاہے تو چھوڑ دے‘‘۔
3751- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو الْجُودِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنِ الْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَيُّمَا رَجُلٍ أَضَافَ قَوْمًا فَأَصْبَحَ الضَّيْفُ مَحْرُومًا فَإِنَّ نَصْرَهُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَتَّى يَأْخُذَ بِقِرَى لَيْلَةٍ مِنْ زَرْعِهِ وَمَالِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۱، ۱۳۳)، دی/ الأطعمۃ ۱۱ (۲۰۸۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ سعید بن ابی المہاجر ‘‘مجہول ہیں )
۳۷۵۱- ابو کریمہ مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی قوم کے پاس بطور مہمان آئے اور صبح تک ویسے ہی محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد لازم ہے یہاں تک کہ وہ ایک رات کی مہمانی اس کی زراعت اور مال سے لے لے‘‘۔
3752- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَمَا يَقْرُونَنَا، فَمَا تَرَى؟ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ >.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهَذِهِ حُجَّةٌ لِلرَّجُلِ يَأْخُذُ الشَّيْئَ إِذَا كَانَ لَهُ حَقًّا]۔
* تخريج: خ/المظالم ۱۸ (۲۴۶۱)، الأدب ۸۵ (۶۱۳۷)، م/اللقطۃ ۳ (۱۷۲۷)، ت/السیر ۳۲ (۱۵۸۹)، ق/الأدب ۵ (۳۶۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۹) (صحیح)
۳۷۵۲- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ ہمیں(جہاد یا کسی دوسرے کام کے لئے) بھیجتے ہیں تو(بسا اوقات) ہم کسی قوم میں اترتے ہیں اوروہ لوگ ہما ری مہمان نوازی نہیں کرتے تو اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ’’اگر تم کسی قوم میں جائو اوروہ لوگ تمہا رے لئے ان چیزوں کا انتظام کر دیں جومہمان کے لئے چا ہئے تو اسے تم قبول کر و اور اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جو ان کے حسب حال ہو لے لو‘‘ ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لئے دلیل ہے جس کا حق کسی کے ذمہ ہو تو وہ اپنا حق لے سکتاہے۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہ ﷺ نے جب کافروں سے صلح کی تھی تو اس صلح میں یہ بھی طے ہواتھا کہ اگر مسلمان تمہارے ملک میں آئیں جائیں تو ان کی ضیافت لازمی ہے، اس حدیث میں وہی لوگ مراد ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافرمسلمانوں کو اپنی مہمان نوازی پر مجبور کرے، یہ اور بات ہے کہ مہمان نوازی اور ضیافت مسنون و مستحب ہے۔