• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
87- بَاب فِي الْعُمْرَى
۸۷-باب: عمر بھر کے لیے عطیہ دینا جائز ہے​


3548- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْعُمْرَى جَائِزَةٌ >۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۳۲ (۲۶۲۶)، م/الھبات ۴ (۱۶۲۶)، ن/العمری ۴ (۳۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۴۷، ۴۲۹، ۴۶۸، ۴۸۹، ۳/۳۱۹) (صحیح)
۳۵۴۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’عمر بھر ۱؎کے لے عطیہ دینا جائز ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ’’عُمْرى‘‘ ہبہ ہی کی ایک قسم ہے اس میں ہبہ کرنے والا ہبہ کی جانے والی چیز کو جسے ہبہ کر رہا ہے اس کی زندگی بھرکے لئے ہبہ کردیتا ہے۔


3549- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۱۵ (۱۳۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸، ۱۳، ۲۲) (صحیح)
۳۵۴۹- سمرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔


3550- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < الْعُمْرَى لِمَنْ وُهِبَتْ لَهُ >۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۳۲ (۲۶۲۵)، م/الھبات ۴ (۱۶۲۵)، ت/الأحکام ۱۵ (۱۳۵۰)، ن/العمری ۲ (۳۷۷۲)، ق/الھبات ۳ (۲۳۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۲، ۳۰۴، ۳۶۰، ۳۹۳، ۳۹۹) (صحیح)
۳۵۵۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ فرماتے تھے:’’ زندگی بھر کے لئے دی ہوئی چیز کا وہی مالک ہے جس کو چیز دے دی گئی ہے‘‘۔


3551- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أُعْمِرَ عُمْرَى فَهِيَ لَهُ وَلِعَقِبِهِ يَرِثُهَا مَنْ يَرِثُهُ مِنْ عَقِبِهِ >۔
* تخريج: ن/ العمری (۳۷۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۲، ۳۰۴، ۳۶۰، ۳۹۳، ۳۹۹) (صحیح)
۳۵۵۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جسے عمر بھر کے لئے کوئی چیز دی گئی تو وہ اس کی ہوگی اوراس کے مرنے کے بعد اس کے اولاد کی ہوگی ۱؎،اس کی اولاد میں سے جو اس کے وارث ہوں گے وہی اس چیز کے بھی وارث ہوں گے ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : امام مالک کے نزدیک موہوب لہ کے مرنے کے بعد موہوب واہب کے پاس واپس آجائے گی اس لئے کہ اس نے منفعت کا اختیار دیا تھا نہ کہ اس چیز کا مالک بنا دیا تھا۔


3552- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعُرْوَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَكَذَا رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۸) (صحیح)
۳۵۵۲- اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ۔
ابوداود کہتے ہیں: اسے لیث بن سعدنے زہری سے زہری نے ابو سلمہ سے اور ابوسلمہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
88- بَاب مَنْ قَالَ فِيهِ وَلِعَقِبِهِ
۸۸-باب: کوئی چیز کسی کو دے کر یہ کہنا کہ یہ چیز تمہاری اور تمہارے اولاد کے لئے ہے​


3553- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ -يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ- عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ فَإِنَّهَا لِلَّذِي يُعْطَاهَا لا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا لأَنَّهُ أَعْطَى عَطَائً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۸) (صحیح)
۳۵۵۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس شخص کو عمر بھر کے لئے کوئی چیزدے دی گئی اور اس کے بعد اس کے آنے والوں کے لئے بھی کہہ دی گئی ہو تو وہ عمریٰ اس کے اور اس کی اولاد کے لئے ہے ، جس نے دیا ہے اسے واپس نہ ہو گی ، اس لئے کہ دینے والے نے اس انداز سے دیا ہے جس میں وراثت شروع ہوگئی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمری کرنے والے کو اب واپس لینے کا کوئی حق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا کوئی عذر مقبول ہوگا۔


3554- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عٌقيلٌ [عَنِ ابْنِ شِهَابٍ] وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، وَاخْتُلِفَ عَلَى الأَوْزَاعِيِّ فِي لَفْظِهِ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، وَرَوَاهُ فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۸) (صحیح)
۳۵۵۴- ابن شہاب زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: اسی طرح اسے عقیل اور یزید ابن حبیب نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے، اور اوزاعی پر اختلاف کیا گیا ہے کہ کبھی انہوں نے ابن شہاب سے ''وَلِعَقِبِهِ'' کے الفاظ کی روایت کی ہے اور کبھی نہیں اور اسے فلیح بن سلیمان نے بھی مالک کی حدیث کے مثل روایت کیا ہے۔


3555- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: < إِنَّمَا الْعُمْرَى الَّتِي أَجَازَ[هَا] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَقُولَ: هِيَ لَكَ وَلِعَقِبِكَ، فَأَمَّا إِذَا قَالَ: هِيَ لَكَ مَا عِشْتَ، فَإِنَّهَا تَرْجِعُ إِلَى صَاحِبِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۰)، وقد أخرجہ: م/الھبات ۴ (۱۶۲۶)، حم (۳/۲۹۶) (صحیح)
۳۵۵۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس عمریٰ کی رسول اللہﷺ نے اجازت دی ہے وہ ہے کہ دینے والا کہے کہ یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی ہے( تو اس میں وراثت جاری ہو گی اور دینے والے کی ملکیت ختم ہو جائے گی) لیکن اگر دینے والا کہے کہ یہ تمہارے لئے ہے جب تک تم زندہ رہو (تو اس سے استفادہ کرو) تو وہ چیز (اس کے مر نے کے بعد) اس کے دینے والے کو لوٹا دی جائے گی۔


3556- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْماَعِيلَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا تُرْقِبُوا، وَلا تُعْمِرُوا، فَمَنْ أُرْقِبَ شَيْئًا أَوْ أُعْمِرَهُ فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ>۔
* تخريج: ن/العمري (۳۷۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۵۸) (صحیح)
۳۵۵۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیاگیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہو جائے گا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رقبیٰ یہ ہے کہ کسی مکان وغیرہ کو یہ کہہ کر دے کہ اگر میں پہلے مر گیا تو یہ مکان تمہارا ہو جائے گا اور اگر تم پہلے مر گئے تو میں واپس لے لوں گا اور عمری بھی قریب قریب یہی ہے کہ کسی کو مکان ، زمین وغیرہ عمر بھر کے لئے دے، یہ روکنا غالباً دینے والوں اور ورثاء کے درمیان فتنے اور لڑا ئی کے ڈر سے ہے۔


3557- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاِويَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبٍ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي ثَابِتٍ- عَنْ حُمَيْدٍ الأَعْرَجِ، عَنْ طَارِقٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي امْرَأَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ أَعْطَاهَا ابْنُهَا حَدِيقَةً مِنْ نَخْلٍ فَمَاتَتْ، فَقَالَ ابْنُهَا: إِنَّمَا أَعْطَيْتُهَا حَيَاتَهَا وَلَهُ إِخْوَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < هِيَ لَهَا حَيَاتَهَا وَمَوْتَهَا >، قَالَ: كُنْتُ تَصَدَّقْتُ بِهَا عَلَيْهَا، قَالَ: < ذَلِكَ أَبْعَدُ لَكَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۹) (ضعیف)
(حبیب مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، او ر حمید کے بارے میں بھی بعض کلام ہے، ملاحظہ ہو: الارواء ۶؍۵۱)
۳۵۵۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی ایک عورت کے سلسلہ میں فیصلہ کیا جسے اس کے بیٹے نے کھجور کا ایک باغ دیا تھا پھر وہ مرگئی تو اس کے بیٹے نے کہا کہ یہ میں نے اسے اس کی زندگی تک کے لئے دیا تھا اور اس کے اور بھائی بھی تھے (جو اپنا حق مانگ رہے تھے) رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' یہ باغ زندگی اورموت دونوں میں اسی عورت کا ہے''، پھر وہ کہنے لگا: میں نے یہ باغ اسے صدقہ میں دیا تھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :''پھر تو یہ (واپسی) تمہارے لئے اور بھی ناممکن بات ہے'' ( کہیں صدقہ بھی واپس لیا جاتا ہے) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
89- بَاب فِي الرُّقْبَى
۸۹-باب: رقبی کا (تفصیلی ) بیان​


3558- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا، وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا >۔
* تخريج: ت/الأحکام ۱۶ (۱۳۵۱)، ن/العمری (۳۷۶۹)، ق/الھبات ۴ (۲۳۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۵)، وقد أخرجہ: م/الھبات ۴ (۱۶۲۶)، حم (۳/۳۰۲، ۳۰۳، ۳۱۲) (صحیح)
۳۵۵۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' عمریٰ جس کو دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہو جاتا ہے ، اور رقبیٰ ۱؎ ( بھی) اُسی کے اہل کا حق ہے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ کہنا کہ میں پہلے مرا تو یہ چیز تیری ہوگی اور تو پہلے مرا تو یہ میری ہوگی، ایسی شرط بیکار ہوجائے گی۔


3559- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَعْقِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنْ حُجْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَعْمَرَ شَيْئًا فَهُوَ لِمُعْمَرِهِ مَحْيَاهُ وَمَمَاتَهُ، وَلا تُرْقِبُوا فَمَنْ أَرْقَبَ شَيْئًا فَهُوَ سَبِيلُهُ >۔
* تخريج: ن/الرقبی ۱ (۳۷۴۶)، ق/الہبات ۳ (۲۳۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۰) (حسن صحیح الإسناد)
۳۵۵۹- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے کوئی چیز کسی کو عمر بھر کے لئے دی تو وہ چیز اسی کی ہو گئی جسے دی گئی اس کی زندگی میں اور اس کے مر نے کے بعد بھی'' ۔
اور فرمایا:'' رقبی نہ کروجس نے رقبیٰ کیا تو وہ میراث کے طریق پر جاری ہوگی''( یعنی اس کے ورثاء کی مانی جائے گی دینے والے کو واپس نہ ملے گی)۔


3560- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ مُوسَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الْعُمْرَى أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: هُوَ لَكَ مَا عِشْتَ، فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ فَهُوَ لَهُ وَلِوَرَثَتِهِ، وَالرُّقْبَى [هُوَ] أَنْ يَقُولَ الإِنْسَانُ: هُوَ لِلآخِرِ مِنِّي وَمِنْكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۷۱) (صحیح الإسناد)
۳۵۶۰- مجا ہد کہتے ہیں : عمری یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے کہ یہ چیز تمہاری ہے جب تک تم زندہ رہے، توجب اس نے ایسا کہہ دیا تو وہ چیز اس کی ہوگئی اور اس کے مر نے کے بعد اس کے ورثاء کی ہو گی، اور رقبی یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کسی کو دے کر کہے کہ ہم دونوں میں سے جو آخر میں زندہ رہے یہ چیز اس کی ہو گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : میں پہلے مرگیا تو یہ تم پاس ہے اور رہے گی اور تم پہلے مر گئے اور میں بچا تو وہ چیز میرے پاس واپس آجائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
90- بَاب فِي تَضْمِينِ الْعَارِيَةِ
۹۰-باب: مانگی ہوئی چیز ضائع اور برباد ہو جائے تو ضامن کون ہو گا ؟​


3561- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ >، ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ فَقَالَ: هُوَ أَمِينُكَ، لا ضَمَانَ عَلَيْهِ۔
* تخريج: ت/البیوع ۳۹ (۱۲۶۶)، ق/الصدقات ۵ (۲۴۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲، ۱۳)، دي/البیوع ۵۶ (۲۶۳۸) (ضعیف)
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں )
۳۵۶۱- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ لینے والے ہا تھ کی ذمہ داری ہے کہ جو لیا ہے اسے واپس کرے‘‘ ، پھر حسن بھول گئے اور یہ کہنے لگے کہ جس کو تو ما نگنے پر چیز دے تو وہ تمہاری طرف سے اس چیز کا امین ہے (اگر وہ چیز خو د سے ضا ئع ہو جائے تواس پر کوئی تاوان ( معاوضہ و بدلہ) نہ ہوگا۔


3562- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَعَارَ مِنْهُ أَدْرَاعًا يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَقَالَ: أَغَصْبٌ يَا مُحَمَّدُ؟ فَقَالَ: < لا، بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذِهِ رِوَايَةُ يَزِيدَ بِبَغْدَادَ، وَفِي رِوَايَتِهِ بِوَاسِطٍ تَغَيُّرٌ عَلَى غَيْرِ هَذَا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۱، ۶/۴۶۵) (صحیح)
۳۵۶۲- صفوان بن امیّہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حنین کی لڑائی کے دن ان سے کچھ زرہیں عاریۃ ً لیں تووہ کہنے لگے: اے محمد ! کیا آپ زبر دستی لے رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’نہیں عاریت کے طورپر لے رہا ہوں، جس کی واپسی کی ذمہ داری میرے اوپر ہوگی‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ یز ید کی بغداد کی روایت ہے اور واسط ۱؎میں ان کی جو روایت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔
وضاحت ۱؎ : واسط عراق کا ایک مشہور شہر ہے۔


3563- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ آلِ عَبدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَا صَفْوَانُ، هَلْ عِنْدَكَ مِنْ سِلاحٍ؟>، قَالَ: عَارِيَةً أَمْ غَصْبًا؟ قَالَ: < لا، بَلْ عَارِيَةً > فَأَعَارَهُ مَا بَيْنَ الثَّلاثِينَ إِلَى الأَرْبَعِينَ دِرْعًا، وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حُنَيْنًا، فَلَمَّا هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ جُمِعَتْ دُرُوعُ صَفْوَانَ، فَفَقَدَ مِنْهَا أَدْرَاعًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِصَفْوَانَ: <إِنَّا قَدْ فَقَدْنَا مِنْ أَدْرَاعِكَ أَدْرَاعًا، فَهَلْ نَغْرَمُ لَكَ؟>، قَالَ: لايَارَسُولَ اللَّهِ! لأَنَّ فِي قَلْبِي الْيَوْمَ مَا لَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَكَانَ أَعَارَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ ثُمَّ أَسْلَمَ] ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۵) (صحیح)
(پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواۃ ہیں )
۳۵۶۳- عبداللہ بن صفوان کے خا ندان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ اے صفوان! کیا تیرے پاس کچھ ہتھیار ہیں؟‘‘، انہوں نے کہا:عاریۃً چا ہتے ہیں یا زبر دستی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’زبردستی نہیں عاریۃً‘‘، چنانچہ اس نے آپ کو بطور عاریۃً تیس سے چالیس کے درمیان زرہیں دیں اور رسول اللہ ﷺ نے حنین کی لڑا ئی لڑی، پھر جب مشرکین ہارگئے اور صفوان رضی اللہ عنہ کی زرہیں اکٹھا کی گئیں تو ان میں سے کچھ زرہیں کھو گئی تھیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’صفوان! تمہاری زرہوں میں سے ہم نے کچھ زرہیں کھو دی ہیں، تو کیا ہم تمہیں ان کا تاوان دے دیں؟‘‘، انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول! آج میرے دل میں جو بات ہے( جو میں دیکھ رہا اور سوچ رہا ہوں) وہ بات اس وقت نہ تھی۔
ابو داود کہتے ہیں: انہوں نے اسلام لا نے سے پہلے نبی اکرم ﷺ کو وہ زرہیں عاریۃً دی تھیں پھر اسلام لے آئے (تواسلام لے آنے کے بعد رسول اللہ ﷺسے کون تاوان لیتا ؟)۔


3564- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ نَاسٍ مِنْ آلِ صَفْوَانَ، قَالَ: اسْتَعَارَ النَّبِيُّ ﷺ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۵۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۵)(صحیح)
( روایت نمبر ۳۵۶۲سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں مجہول رواۃ ہیں )
۳۵۶۴- اس سند سے بھی آل صفوان کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ زرہیں عاریۃً لیں ، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔


3565- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، وَلا تُنْفِقُ الْمَرْأَةُ شَيْئًا مِنْ بَيْتِهَا إِلا بِإِذْنِ زَوْجِهَا >، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَلاالطَّعَامَ؟ قَالَ: < ذَاكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا >، ثُمَّ قَالَ: < الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ >۔
* تخريج: ت/الزکاۃ ۳۴ (۱۲۶۵)، الوصایا ۵ (۲۱۲۰)، ق/الوصایا ۶ (۲۷۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۷) (صحیح)
۳۵۶۵- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے تو اب وارث کے واسطے وصیت نہیں ہے، اور عورت اپنے گھر میں شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے‘‘، عرض کیا گیا:اللہ کے رسول! کھانا بھی نہ دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ تو ہم مردوں کا بہترین مال ہے‘‘ ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عاریۃً دی ہوئی چیز کی واپسی ہو گی ( اگر چیز موجود ہے تو چیز، ورنہ اس کی قیمت دی جائے گی) دودھ استعمال کرنے کے لئے دیا جانے والا جانور ( دودھ ختم ہو جانے کے بعد) واپس کر دیا جائے گا، قرض کی ادائیگی کی جائے گی اور کفیل ضامن ہے‘‘( یعنی جس قرض کا ذمہ لیا ہے اس کا ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوگا)۔


3566- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُسْتَمِرِّ [الْعُصْفُرِيُّ]، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ [لِي] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَتَتْكَ رُسُلِي فَأَعْطِهِمْ ثَلاثِينَ دِرْعًا، وَثَلاثِينَ بَعِيرًا >، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ أَوْ عَارِيَةٌ مُؤَدَّاةٌ؟ قَالَ: < بَلْ مُؤَدَّاةٌ >.
[قَالَ أَبو دَاود: حَبَّانُ خَالُ هِلالٍ الرَّائِيِّ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۲) (صحیح)
۳۵۶۶- یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھ سے فرمایا:’’ جب تمہارے پاس میرے فرستادہ پہنچیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا‘‘، میں نے کہا: کیا اس عاریت کے طور پر دوں جس کا ضمان لازم آتا ہے یا اس عاریت کے طور پر جو مالک کو واپس دلائی جاتی ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مالک کو واپس دلائی جانے والی عاریت کے طور پر‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: حبان ہلال الرائی کے ماموں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عاریہ مضمونہ یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع ہو جائے گی تو اس کی قیمت ادا کی جائے گی ، اور عاریہ موداۃ یہ ہے کہ اگر چیز بعینہٖ موجود ہے تو اسے واپس دینا ہوگا، اور اگر وہ چیز ضائع ہو گئی تو قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری نہ ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
91- بَاب فِيمَنْ أَفْسَدَ شَيْئًا يَغْرَمُ مِثْلَهُ
۹۱-باب: جوشخص دوسرے کی چیز ضائع اور برباد کردے تو ویسی ہی چیز تاوان میں دے​


3567- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ عِنْدَ بَعْضِ نِسَائِهِ فَأَرْسَلَتْ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ مَعَ خَادِمِهَا قَصْعَةً فِيهَا طَعَامٌ، قَالَ: فَضَرَبَتْ بِيَدِهَا فَكَسَرَتِ الْقَصْعَةَ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: فَأَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ الْكِسْرَتَيْنِ، فَضَمَّ إِحْدَاهُمَا إِلَى الأُخْرَى، فَجَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ وَيَقُولُ: < غَارَتْ أُمُّكُمْ >، زَادَ ابْنُ الْمُثَنَّى: < كُلُوا > فَأَكَلُوا حَتَّى جَائَتْ قَصْعَتُهَا الَّتِي فِي بَيْتِهَا، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى لَفْظِ [حَدِيثِ] مُسَدَّدٍ، قَالَ: < كُلُوا >، وَحَبَسَ الرَّسُولَ وَالْقَصْعَةَ حَتَّى فَرَغُوا، فَدَفَعَ الْقَصْعَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الرَّسُولِ وَحَبَسَ الْمَكْسُورَةَ فِي بَيْتِهِ۔
* تخريج: خ/المظالم ۳۴ (۲۴۸۱)، والنکاح ۱۰۷ (۵۲۲۵)، ت/الأحکام ۲۳ (۱۳۵۹)، ن/عشرۃ النساء ۴ (۳۴۰۷)، ق/الأحکام ۱۴ (۲۳۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۳، ۸۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۰۵، ۲۶۳)، دي/البیوع ۵۸ (۲۶۴۰) (صحیح)
۳۵۶۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس تھے ، امہات المومنین میں سے ایک نے اپنے خادم کے ہاتھ آپ کے پاس ایک پیا لے میں کھانا رکھ کر بھیجا، تو اس بیوی نے ( جس کے گھر میں آپ تھے) ہا تھ مار کر پیالہ توڑ دیا (وہ دو ٹکڑے ہو گیا)، ابن مثنیٰ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا لیا اور ایک کو دوسرے سے ملاکر پیالے کی شکل دے لی ، اور اس میں کھانا اٹھا کر رکھنے لگے اور فرمانے لگے:''تمہاری ماں کو غیرت آگئی''، ابن مثنیٰ نے اضافہ کیا ہے ( کہ آپ نے فرمایا:)''کھائو'' تو لو گ کھانے لگے، یہاں تک کہ جس گھر میں آپ موجود تھے اس گھر سے کھانے کا پیالہ آیا (اب ہم پھر مسدد کی حدیث کی طرف واپس لو ٹ رہے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا:'' کھائو''، اور خادم کو (جو کھانا لے کر آیا تھا) اور پیالے کو روکے رکھا، یہاں تک کہ لو گ کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے صحیح و سالم پیالہ قاصد کو پکڑا دیا (کہ یہ لے کر جائو اور دے دو) اور ٹوٹا ہوا پیالہ اپنے اس گھر میں روک لیا( جس میں آپ قیام فرما تھے)۔


3568- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي فُلَيْتٌ الْعَامِرِيُّ، عَنْ جَسْرَةَ بِنْتِ دَجَاجَةَ، قَالَتْ: [قَالَتْ] عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: مَا رَأَيْتُ صَانِعًا طَعَامًا مِثْلَ صَفِيَّةَ، صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ طَعَامًا فَبَعَثَتْ بِهِ، فَأَخَذَنِي أَفْكَلٌ فَكَسَرْتُ الإِنَائَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَاكَفَّارَةُ مَا صَنَعْتُ؟ قَالَ: < إِنَائٌ مِثْلُ إِنَائٍ، وَطَعَامٌ مِثْلُ طَعَامٍ >۔
* تخريج: ن/عشرۃ النساء ۴ (۳۴۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۸، ۲۷۷) (ضعیف)
اس کی روایہ ''جسرۃ '' لین الحدیث ہیں ، صحیح یہ ہے کہ کھانا بھیجنے والی ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں جیسا کہ نسائی کی ایک صحیح روایت (نمبر ۳۴۰۸) میں ہے )
۳۵۶۸- جسرہ بنت دجاجہ کہتی ہیں: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے صفیہ رضی اللہ عنہا جیسا( اچھا ) کھانا پکاتے کسی کو نہیں دیکھا ، ایک دن انہوں نے رسول اللہﷺ کے لئے کھانا پکا کر آپ کے پا س بھیجا ( اس وقت آپ میرے یہاں تھے) میں غصہ سے کانپنے لگی (کہ آپ میرے یہاں ہوں اور کھانا کہیں اور سے پک کر آئے) تو میں نے ( وہ) برتن توڑ دیا ( جس میں کھانا آیا تھا)، پھر میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھ سے جو حرکت سرزد ہو گئی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''برتن کے بدلے ویسا ہی برتن اور کھانے کے بدلے ویسا ہی دوسرا کھانا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
92- بَاب الْمَوَاشِي تُفْسِدُ زَرْعَ قَوْمٍ
۹۲-باب: مویشی دوسروں کے کھیت برباد کر دیں تواس کے حکم کا بیان​


3569- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَيِّصَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ نَاقَةً لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ دَخَلَتْ حَائِطَ رَجُلٍ فَأَفْسَدَتْهُ [عَلَيْهِمْ]، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى أَهْلِ الأَمْوَالِ حِفْظَهَا بِالنَّهَارِ، وَعَلَى أَهْلِ الْمَوَاشِي حِفْظَهَا بِاللَّيْلِ۔
* تخريج: ق/الأحکام ۱۳ (۲۳۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳، ۲۳۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۶)، ط/الأقضیۃ ۲۸(۳۷) (صحیح)
۳۵۶۹- محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی اونٹنی ایک شخص کے باغ میں گھس گئی اور اسے تباہ و برباد کر دیا، آپ ﷺ نے اس کا فیصلہ کیا کہ دن میں مال والوں پر مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور رات میں جانوروں کی حفاظت کی ذمہ داری جانوروں کے مالکان پر ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اگر اونٹنی نے رات میں باغ کو نقصان پہنچایا ہے تو اونٹنی کا مالک اس نقصان کو پورا کرے گا، اور اگر دن میں نقصان پہنچائے تو باغ کا مالک اس نقصان کو برداشت کرے، کیونکہ باغ کی حفاظت خود اسی کی اپنی ذمہ داری تھی۔


3570- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَرَامِ ابْنِ مُحَيِّصَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كَانَتْ لَهُ نَاقَةٌ ضَارِيَةٌ، فَدَخَلَتْ حَائِطًا فَأَفْسَدَتْ فِيهِ، فَكُلِّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِيهَا، فَقَضَى أَنَّ حِفْظَ الْحَوَائِطِ بِالنَّهَارِ عَلَى أَهْلِهَا، وَأَنَّ حِفْظَ الْمَاشِيَةِ بِاللَّيْلِ عَلَى أَهْلِهَا، وَأَنَّ عَلَى أَهْلِ الْمَاشِيَةِ مَا أَصَابَتْ مَاشِيَتُهُمْ بِاللَّيْلِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳) (صحیح)
۳۵۷۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے پاس ایک ہرہٹ اونٹنی تھی ، وہ ایک باغ میں گھس گئی اور اسے بر باد کر دیا، اس کے بارے میں رسول اللہﷺسے بات کی گئی تو آپ نے فیصلہ فرمایا:'' دن میں باغ کی حفاظت کی ذمہ داری باغ کے مالک پر ہے، اور رات میں جانور کی حفاظت کی ذمہ داری جانور کے مالک پر ہے''۔
(اگر جانور کے مالک نے را ت میں جانور کو آزاد چھوڑ دیا) اور اس نے کسی کا باغ یا کھیت چرلیا تو نقصان کا معاوضہ جانور کے مالک سے لیا جائے گا ۔


 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 27- أوَّلُ كِتَاب التَّرَجُّلِ }
۲۷-کتاب: کنگھی کر نے کے احکام ومسائل


1- باب
۱-باب: (کبھی کبھار کنگھی کرنے کا بیان)​


4159- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: نَهَى [رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ] عَنِ التَّرَجُّلِ إِلا غِبًّا۔
* تخريج: ت/اللباس ۲۲ (۱۷۵۶)، ن/الزینۃ ۷ (۵۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۶) (صحیح)
۴۱۵۹-عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے(پابندی سے) کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے البتّہ ناغہ کے ساتھ ہو (توجائزہے)۔


4160- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ [المازني]، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ رَحَلَ إِلَى فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَهُوَ بِمِصْرَ، فَقَدِمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الأَرْضِ؟ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الإِرْفَاهِ، قَالَ: فَمَا لِي لا أَرَى عَلَيْكَ حِذَائً؟ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲) (صحیح)
۴۱۶۰- عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے پاس مصر گئے، جب وہاں پہنچے تو عرض کیا: میں یہاں آپ سے ملا قات کے لئے نہیں آیا ہوں، ہم نے اور آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے متعلق آپ کو کچھ ( مزید ) علم ہو، انہوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ فرمایا: وہ اس اس طرح ہے، پھر انہوں نے فضالہ سے کہا: کیا با ت ہے میں آپ کو پر اگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالا نکہ آپ اس سرزمین کے حاکم ہیں؟ تو ارشادفرمایاکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں زیادہ عیش عشرت سے منع فرماتے تھے،پھر انہوں نے پوچھا: آپ کے پیر میں جوتیاں کیو ں نظرنہیں آتیں؟ تووہ بولے:نبی اکرمﷺ ہمیں کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کا بھی حکم دیتے تھے۔


4161- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: ذَكَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا عِنْدَهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَلا تَسْمَعُونَ، أَلا تَسْمَعُونَ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الإِيمَانِ > يَعْنِي التَّقَحُّلَ.
قَالَ أَبو دَاود: هُوَ أَبُو أُمَامَةَ بْنُ ثَعْلَبَةَ الأَنْصَارِيُّ۔
* تخريج: ق/الزھد ۴ (۴۱۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵) (صحیح)
۴۱۶۱- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ نے ایک روز آپ کے پاس دنیا کا ذکر کیا توآپ نے فرمایا :’’ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟بیشک سادگی و پرا گندہ حالی ایمان کی دلیل ہے، بیشک سا دگی و پرا گندہ حالی ایمان کی دلیل ہے‘‘، اس سے مراد ترک زینت وآرائش اور خستہ حالی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: وہ ابو امامہ بن ثعلبہ انصاری ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي اسْتِحْبَابِ الطِّيبِ
۲-باب: خوشبو کا استعمال مستحب ہے​


4162- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ شَيْبَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَتْ لِلنَّبِيِّ ﷺ سُكَّةٌ يَتَطَيَّبُ مِنْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ت/الشمائل (۲۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۱) (صحیح)
۴۱۶۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس خوشبو کی ایک ڈبیہ تھی جس سے آپ خوشبو لگا یا کرتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي إِصْلاحِ الشَّعَرِ
۳-باب: بالوں کو سنوارنے اور آراستہ کرنے کا بیان​


4163- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۹۱) (حسن صحیح)
۴۱۶۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس کے پاس بال ہوں تواسے چاہئے کہ وہ انہیں اچھی طرح رکھے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي الْخِضَابِ لِلنِّسَاءِ
۴-باب: عورتوں کے لئے خضاب (مہندی ) کے استعمال کا بیان​


4164- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، [عن يحيى بن أبي كثير] قَالَ: حَدَّثَتْنِي كَرِيمَةُ بِنْتُ هَمَّامٍ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا فَسَأَلَتْهَا عَنْ خِضَابِ الْحِنَّائِ، فَقَالَتْ: لا بَأْسَ بِهِ، وَلَكِنْ أَكْرَهُهُ، كَانَ حَبِيبِي [رَسُولُ اللَّهِ] ﷺ يَكْرَهُ رِيحَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: تَعْنِي خِضَابَ شَعْرِ الرَّأْسِ۔
* تخريج: ن/الزینۃ ۱۹ (۵۰۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۱۷، ۲۱۰) (ضعیف)
۴۱۶۴- کریمہ بنت ہمام کا بیان ہے کہ ایک عورت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے مہندی کے خضاب کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا : اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن میں اسے نا پسند کرتی ہوں، میرے محبوب رسول اللہ ﷺ اس کی بو نا پسند فرماتے تھے۔
ابو داود کہتے ہیں: مراد سر کے بال کا خضاب ہے۔


4165- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَتْنِي غِبْطَةُ بِنْتُ عَمْرٍو الْمُجَاشِعِيَّةُ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ الْحَسَنِ، عَنْ جَدَّتِهَا، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ بَايِعْنِي، قَالَ: < لاأُبَايِعُكِ حَتَّى تُغَيِّرِي كَفَّيْكِ كَأَنَّهُمَا كَفَّا سَبُعٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۴) (ضعیف)
۴۱۶۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہندبنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: الل ہ کے نبی!مجھ سے بیعت لے لیجیے، تو آپ نے فرمایا:'' جب تک تم اپنی دونوں ہتھیلیوں کا رنگ نہیں بدلو گی میں تم سے بیعت نہیں لوں گا ، گویا وہ دونوں کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں''۔


4166- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُطِيعُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عِصْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: أَوْمَتِ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَائِ سِتْرٍ بِيَدِهَا كِتَابٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَبَضَ النَّبِيُّ ﷺ يَدَهُ، فَقَالَ: <مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ > قَالَتْ: بَلِ امْرَأَةٌ، قَالَ: < لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ > يَعْنِي بِالْحِنَّائِ۔
* تخريج: ن/الزینۃ ۱۸ (۵۰۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۶۲) (حسن)
۴۱۶۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے اشارہ کیا، اس کے ہاتھ میں رسول اللہ ﷺ کے نام کا ایک خط تھا، آپ نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا، اور فرمایا:''مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا ''، تو اس نے عرض کیا:نہیں، بلکہ یہ عورت کا ہاتھ ہے، تو آپ نے فرمایا :'' اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخن کے رنگ بدلے ہوتی''، یعنی مہندی سے۔
 
Top