• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
140- بَاب تَمَامِ التَّكْبِيرِ
۱۴۰-باب: تکبیر پوری کہنے کا بیان​


835- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ غَيْلانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّه عَنْه، فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَكَعَ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي وَقَالَ: لَقَدْ صَلَّى هَذَا قَبْلُ، أَوْ قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا قَبْل صَلاة مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۶ (۷۸۶)، ۱۴۴ (۸۲۶)، م/الصلاۃ ۱۰ (۳۹۳)، ن/الافتتاح ۱۲۴ (۱۰۸۳)، والسھو ۱ (۱۱۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۴۲۹، ۴۳۲،۴۰۰، ۴۴۴) (صحیح)

۸۳۵- مطرف کہتے ہیں: میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے صلاۃ پڑھی تو جب وہ سجدہ کر تے تو ’’ الله أكبر‘‘ کہتے، جب رکوع کرتے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لئے اٹھتے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہا تھ پکڑااور کہا: ابھی انہوں نے ایسی صلاۃ پڑھی ہے(راوی کو شک ہے) یاابھی ہمیں ایسی صلاۃ پڑھائی ہے، جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ ہوتی تھی۔

836- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أُبَيٌّ، وَبَقِيَّةُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَأَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاةٍ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ وَغَيْرِهَا: يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الْجُلُوسِ فِي اثْنَتَيْنِ، فَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاةِ، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، إِنْ كَانَتْ [هَذِهِ] لَصَلاتُهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا.
قَالَ ابو داود : هَذَا الْكَلامُ الأَخِيرُ يَجْعَلُهُ مَالِكٌ [وَالزُّبَيْدِيُّ] وَغَيْرُهُمَا عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ حُسَيْنٍ، وَوَافَقَ عَبْدُ الأَعْلَى عَنْ مَعْمَرٍ شُعَيْبَ بْنَ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۵ (۷۸۵)، ۱۲۸ (۸۰۳)، ن/الافتتاح ۸۴ (۱۰۲۴)، والتطبیق ۹۴ (۱۱۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۴)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۴ (۱۹)، حم (۲/۲۳۶، ۲۷۰، ۳۰۰، ۳۱۹، ۴۵۲، ۴۹۷، ۵۰۲، ۵۲۷، ۵۳۳)، دي/الصلاۃ ۴۰ (۱۲۸۳) (صحیح)

۸۳۶- زہری کہتے ہیں: مجھے ابو بکر بن عبدالرحمن اور ابو سلمہ نے خبردی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرض ہو یا نفل ہر صلاۃ میں تکبیر کہتے تھے خواہ فرض ہو یا نفل، صلاۃ کے لئے کھڑے ہو تے وقت تکبیر (تحریمہ ) کہتے، پھر رکو ع کر تے وقت تکبیر کہتے ، پھر ’’سمع الله لمن حمده‘‘ کہتے ،اس کے بعدسجدہ کر نے سے پہلے ’’ربنا ولك الحمد‘‘ کہتے، پھر جب سجدے میں جانے لگتے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے، پھر جب سجدے سے سر اٹھا تے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے ، پھر جب (دوسرے) سجدے میں جاتے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے، جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ’’الله أكبر‘‘کہتے ،پھر جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے، ایسے ہی ہر رکعت میں صلاۃ سے فا رغ ہو نے تک (تکبیر ) کہتے ۱؎ ، پھر جب صلاۃ سے فا رغ ہو جا تے تو کہتے : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تم میں سب سے زیا دہ مشابہت رکھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ سے، اسی طرح آپ کی صلاۃ تھی یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ابو داود کہتے ہیں:اس کے آخری ٹکڑے یعنی ’’إِنْ كَانَتْ [هَذِهِ] لَصَلاتُهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا‘‘ کو مالک اور زبیدی وغیرہ زہری کے واسطہ سے علی بن حسین سے مرسلاً نقل کرتے ہیں اورعبدالا علی نے بواسطہ معمر زہری کے دونوں شیوخ ابو بکر بن عبدالرحمن اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن کے ذکر کرنے میں شعیب بن ابی حمزہ کی موافقت کی ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : اس طرح دورکعت والی صلاۃ میں کل گیارہ تکبیریں اور چار رکعت کی صلاۃ میں ۲۲ تکبیریں ہوئیں اور پانچوں فرض صلاۃ میں کل (۹۴) تکبیریں ہوئیں جس میں سے صرف تکبیرتحریمہ فرض ہے اور باقی سبھی سنت ہیں اگر وہ کسی سے چھوٹ جائیں توصلاۃ ہوجائے گی البتہ فضیلت اور سنت کی موافقت اس سے فوت ہوجائے گی۔
وضاحت ۲؎ : جب کہ عقیل نے ابن شہاب سے روایت کی ہے اس میںانہوں نے صرف’’أخبرني أبو بكر بن عبدالرحمن‘‘ کہا ہے ابوسلمہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور مالک نے ابن شہاب سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے صرف ’’عن أبي سلمة بن عبدالرحمن‘‘ کہا ہے ابوبکر بن عبدالرحمن کا ذکر نہیں کیا ہے اس کے برخلاف ابن شہاب کے تلامذہ میں سے شعیب بن ابی حمزہ نے ابن شہاب کے دونوں شیوخ کا ذکر کیا ہے اسی طرح عبدالاعلیٰ نے بواسطہ معمر عن زہری دونوں کا ذکر کیا ہے۔

837- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَابْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ: الشَّامِيِّ، وقَالَ ابو داود : أَبُو عَبْدِاللَّهِ الْعَسْقَلانِيُّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَكَانَ لا يُتِمُّ التَّكْبِيرَ.
قَالَ أَبودَاود: مَعْنَاهُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَأَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ لَمْ يُكَبِّرْ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يُكَبِّرْ۔
* تخريج:تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۰۷) (ضعیف)

(اس کے راوی’’حسن بن عمران‘‘لین الحدیث ہیں، نیز حدیث میں اضطراب ہے)
۸۳۷- عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ پڑھی اور آپ تکبیر مکمل نہیں کر تے تھے ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکو ع سے سر اٹھا تے اورجب سجدہ کر نے کا ارا دہ کر تے اور جب سجدے سے کھڑے ہو تے تو تکبیر نہیں کہتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ :صحیح روایتوں سے سوائے رکوع سے سراٹھانے کے باقی سبھی حرکات میں اللہ اکبر کہنا ثابت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
141-بَاب كَيْفَ يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ ؟
۱۴۱-باب: آدمی زمین پر ہا تھوں سے پہلے گھٹنے کس طرح رکھے ؟​


838- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ ۔
* تخريج: ت/ الصلاۃ ۸۴ (۲۶۸)، ن/الإفتتاح ۱۲۸ (۱۰۹۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۹(۸۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۰) (ضعیف)
(شریک جب متفرد ہوں توان کی روایت مقبول نہیں)
۸۳۸- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے ۱؎ اور جب اٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھا تے ۔
وضاحت ۱؎ : امام دار قطنی کہتے ہیں: اس حدیث کو عاصم سے شریک کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور شریک تفرد کی صورت میں قوی نہیں ہیں، علامہ البانی کہتے ہیں: اس حدیث کے متن کو عاصم بن کلیب سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ کا طریقہ شریک کی نسبت زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے،اس کے باوجود ان لوگوں نے سجدہ میں جانے اور اٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیا ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث میں شریک کووہم ہواہے۔

839- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ عَبْدِالْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَذَكَرَ حَدِيثَ الصَّلاةِ، قَالَ: فَلَمَّا سَجَدَ وَقَعَتَا رُكْبَتَاهُ إِلَى الأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ كَفَّاهُ.
قَالَ هَمَّامٌ: وَحَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِمِثْلِ هَذَا، وَفِي حَدِيثِ أَحَدِهِمَا -وَأَكْبَرُ عِلْمِي أَنَّهُ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ-: وَإِذَا نَهَضَ نَهَضَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَاعْتَمَدَ عَلَى فَخِذِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۲) (ضعیف) قد تقدم ہذا الحدیث برقم (۷۳۶)
(عبدالجبارکا اپنے والد وائل سے سماع ثابت نہیں ہے)
۸۳۹- اس سند سے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ کی کیفیت مروی ہے، اس میں ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑتے ۔
ہمام کہتے ہیں: مجھ سے شقیق نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں : مجھ سے عا صم بن کلیب نے اور عاصم نے اپنے والد سے کلیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے او ران دونوں میں سے کسی کی حدیث میں اور میرا غالب گمان یہی ہے کہ محمدبن جحادہ کی حدیث میں یہ ہے: ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو اپنی ران پر ٹیک لگا کراپنے دونوں گھٹنوں کے بل اٹھتے ‘‘۔

840- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۸۸ (۲۶۹)، ن/التطبیق ۳۸ (۱۰۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۱)، دي/الصلاۃ ۷۴ (۱۳۶۰) (صحیح)

۸۴۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کو ئی شخص سجدہ کرے تواس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ اپنے ہا تھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر ) رکھے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علامہ ابن القیم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مقلوب کہا ہے اور کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے ’’وليضع ركبتيه قبل يديه‘‘ (یعنی وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھے) لیکن محدث عبدالرحمن مبارک پوری ، علامہ احمد شاکر، شیخ البانی وغیرہ نے ابن القیم کے اس خیال کی تردید کی ہے اور ابن خزیمہ کا کہنا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہناصحیح نہیں ہے کیونکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت ’’كنا نضع اليدين قبل الركبتين فأمرنا بالركبتين قبل اليدين‘‘ (پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا)انتہائی ضعیف ہے قطعاً قابل استدلال نہیں ۔

841- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فِي صَلاتِهِ فَيَبْرُكُ كَمَا يَبْرُكُ الْجَمَلُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۶۶) (صحیح)

۸۴۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا ۱؎ تم میں سے ایک شخص اپنی صلاۃ میں بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس طرح بیٹھتا ہے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے ؟‘‘۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں لفظ ’’یعمد‘‘ سے پہلے ہمزۂ استفہام مقدر ہے اسی وجہ سے ترجمہ میں’’کیا‘‘ کااضافہ کیاگیاہے اور یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ اس طرح نہ بیٹھا کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
142- بَاب النُّهُوضِ فِي الْفَرْدِ
۱۴۲-باب: پہلی اور تیسری رکعت سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان​


842- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ- عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، قَالَ: جَائَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لأُصَلِّي [بِكُمْ] وَمَا أُرِيدُ الصَّلاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي قِلابَةَ: كَيْفَ صَلَّى؟ قَالَ: مِثْلَ صَلاةِ شَيْخِنَا هَذَا، يَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلَمَةَ إِمَامَهُمْ، وَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الآخِرَةِ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى قَعَدَ ثُمَّ قَامَ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۲۷ (۸۰۲)، ۱۴۲ (۸۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۵)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۰۱ (۲۸۷)، ن/الافتتاح ۱۸۱ (۱۱۵۲)، حم (۳/۴۳۶، ۵/۵۳) (صحیح)

۸۴۲- ابو قلابہ کہتے ہیں کہ ابو سلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں تمہیں صلاۃ پڑھائوں گا، میرے پیش نظر صلاۃ پڑھانا نہیں بلکہ میں تم لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح صلاۃ پڑھتے دیکھا ہے۔
راوی کہتے ہیں :میں نے ابو قلا بہ سے پو چھا: انہوں نے کس طرح صلاۃ پڑھی ؟ تو ابو قلابہ نے کہا: ہمارے اس شیخ- یعنی عمرو بن سلمہ - کی طرح، جو ان کے امام تھے اور ابو قلابہ نے ذکر کیا کہ ابو قلابہ نے مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے اپنا سر اٹھا تے تو ( تھو ڑی دیر ) بیٹھتے پھر کھڑے ہو تے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس بیٹھنے کو جلسہ ٔ استراحت کہتے ہیں، جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ موٹاپے اور کبر سنی کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکیا تھا، لیکن یہ تاویل بلادلیل ہے، شیخ البانی کہتے ہیں: جلسہ ٔ استراحت کو اس امر پر محمول کرنا کہ یہ حاجت کی بنا پر تھا عبادت کی غرض سے نہیں ؛لہٰذا یہ مشروع نہیں ہے -جیسا کہ احناف وغیرہ کا قول ہے- باطل ہے اور اس کے بطلان کے لئے یہی کافی ہے کہ دس صحابہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ ٔ صلاۃ میں داخل کرنے کو تسلیم کیا ہے، اگر انہیں یہ علم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضرورت کی بنا پر کیا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ ٔ صلاۃ میں اسے داخل کرنے پر خاموشی اختیار نہ کرتے ۔

843- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، قَالَ: جَائَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ إِلَى مَسْجِدِنَا فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لأُصَلِّي وَمَا أُرِيدُ الصَّلاةَ، وَلَكِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي، قَالَ: فَقَعَدَ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى حِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ [الآخِرَةِ]۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۵) (صحیح)

۸۴۳- ابو قلا بہ کہتے ہیں کہ ابو سلیمان مالک بن حویر ث رضی اللہ عنہ ہماری مسجد میں آئے، انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! میں صلاۃ پڑھوں گا مگرمیرے پیش نظر صلاۃ پڑھنا نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح صلاۃ پڑھتے ہو ئے دیکھا ہے؟ ابو قلا بہ کہتے ہیں: پھر وہ پہلی رکعت میں بیٹھے جس وقت انہوں نے اپنا سر دوسرے سجدے سے اٹھایا ۔

844- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ؛ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا كَانَ فِي وِتْرٍ مِنْ صَلاتِهِ لَمْ يَنْهَضْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۸۴۲، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۳) (صحیح)

۸۴۴- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ جب آپ اپنی صلاۃ کی طاق رکعت میں ہو تے تو اس وقت تک کھڑ ے نہ ہو تے جب تک سیدھے بیٹھ نہ جاتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
143- بَاب الإِقْعَاءِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
۱۴۳-باب: دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کرنے یعنی ایڑیوں پر بیٹھنے کا حکم​


845- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: قُلْنَا لابْنِ عَبَّاسٍ فِي الإِقْعَاءِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ فِي السُّجُودِ، فَقَالَ: هِيَ السُّنَّةُ قَالَ: قُلْنَا: إِنَّا لَنَرَاهُ جُفَائً بِالرَّجُلِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكَ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
* تخريج: م/المساجد ۶ (۵۳۶)، ت/الصلاۃ ۹۸ (۲۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱۳) (صحیح)

۸۴۵- طا ئوس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: دونوں سجدوں کے بیچ میں دونوں قدموں پر اقعا ء ۱؎ (سرین کوایڑیوں پر رکھ کر پنجے کو کھڑا کرکے بیٹھنا) کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔
طاؤس کہتے ہیں: ہم نے کہا: ہم تو اسے آدمی کے ساتھ زیادتی سمجھتے تھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ اقعاء کی مسنون صورت ہے جو دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک کے ساتھ مخصوص ہے، رہی اقعاء کی ممنوع صورت جس سے حدیث میں روکا گیا ہے، تو وہ کتے کی طرح چوتڑ اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں پنڈلیوں اور رانوں کو کھڑا کرکے بیٹھنا ہے یا تشہد کی حالت میں دونوں قدموں کو گاڑ کر ایڑیوں پر بیٹھنا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
144- بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
۱۴۴-باب: جب آدمی رکوع سے سر اٹھا ئے تو کیا کہے ؟​


846- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، كُلُّهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، [قَالَ:] سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ يَقُولُ: < سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ >.
قَالَ أَبودَاود: قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ فِيهِ: < بَعْدَ الرُّكُوعِ >.
قَالَ سُفْيَانُ: لَقِينَا الشَّيْخَ عُبَيْدًا أَبَا الْحَسَنِ بَعْدُ فَلَمْ يَقُلْ فِيهِ: < بَعْدَ الرُّكُوعِ >.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي عِصْمَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ عُبَيْدٍ قَالَ: < بَعْدَ الرُّكُوعِ > ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۰ (۴۷۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸ (۸۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۳، ۳۵۴، ۳۵۶، ۳۸۱) (صحیح)

۸۴۶- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اٹھا تے تھے تو ’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْئُ السَّمَوَاتِ وَمِلْئُ الأَرْضِ وَمِلْئُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ‘‘ کہتے تھے۔
ابو داود کہتے ہیں: سفیا ن ثو ری اور شعبہ بن حجا ج نے اس حدیث کو عبید بن الحسن ابو الحسن سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں ’’بعد الركوع‘‘ نہیں ہے، سفیا ن کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کے بعد شیخ عبیدا بو الحسن سے ملا قات کی تو انہوں نے بھی اس حدیث میں ’’بعد الركوع‘‘ کے الفاظ نہیں کہے ۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے شعبہ نے ابو عصمہ سے، ابوعصمہ نے اعمش سے اور اعمش نے عبید سے روایت کیا ہے، اس میں ’’بعد الركوع‘‘کے الفاظ موجود ہیں۔

847- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ (ح) وَحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ يُوسُفَ، كُلُّهُمْ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَزَعَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَقُولُ حِينَ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ: < اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَاءِ >، قَالَ مُؤَمَّلٌ: < مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ: لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ >، زَادَ مَحْمُودٌ: < وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ >، ثُمَّ اتَّفَقُوا: < وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ >، وَقَالَ بِشْرٌ: < رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ > [لَمْ يَقُلِ: < اللَّهُمَّ >] لَمْ يَقُلْ مَحْمُودٌ: < اللَّهُمَّ > قَالَ: < رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۰ (۴۷۷)، ن/الافتتاح ۱۱۵ (۱۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۸۱)، وقد أخرجہ: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸ (۸۷۷)، حم (۳/۸۷)، دي/ الصلاۃ ۷۱ (۱۳۵۲) (صحیح)

۸۴۷- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سمع الله لمن حمده‘‘ کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے: ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَاءِ‘‘، مؤمل کی روایت میں یوں ہے: ’’مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ ،لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ‘‘، محمود نے اپنی روایت میں: ’’وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ‘‘ کا اضافہ کیا ہے، پھر: ’’لا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ‘‘ میں سب متفق ہیں، بشر نے اپنی روایت میں: ’’ربنا لك الحمد‘‘ کہا ’’اللهم‘‘نہیں کہا، اور محمود نے ’’اللهم‘‘ نہیں کہا، اور ’’ربنا ولك الحمد‘‘ کہا۔

848- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ >۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۲۴ (۷۹۵)، ۱۲۵ (۷۹۶)، م/الصلاۃ ۱۸ (۴۰۹)، ت/الصلاۃ ۸۶ (۲۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۶۸)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۱۱۳ (۱۰۶۴)،ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸ (۸۷۶)، حم (۲/۲۳۶، ۲۷۰، ۳۰۰، ۳۱۹، ۴۵۲، ۴۹۷، ۵۰۲، ۵۲۷، ۵۳۳) (صحیح)

۸۴۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ’’جب امام’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ‘‘ کہے تو تم ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ‘‘کہو، کیو نکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے مو افق ہو جا ئے گا اس کے پچھلے گنا ہ بخش دیئے جائیں گے‘‘۔

849- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: لايَقُولُ الْقَوْمُ خَلْفَ الإِمَامِ: < سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ > وَلَكِنْ يَقُولُونَ: < رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۶۸) (حسن)

۸۴۹- عا مرشعبی کہتے ہیں: لو گ امام کے پیچھے:’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ‘‘ نہ کہیں، بلکہ ’’رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ‘‘ کہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ کی تعلیم سے متعلق ’’ مسئ صلاۃ‘‘ کی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پیٹھ اوپر کرتے ہوئے: ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کسی آدمی کی صلاۃ پوری نہیں ہوتی حتی کہ وہ یہ اور یہ کرے، اس حدیث میں کہ پھر رکوع کرے پھر : ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہے حتی کہ اچھی طرح کھڑا ہوجائے (ابو داود ) ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت قیام میں ’’ربنا ولک الحمد‘‘ پڑھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم امام اور مقتدی سب کو یہ فرما کر دیا کہ : ’’صلوا كما رأيتموني أصلي‘‘ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: امام کو اس کی اقتداء ہی کے لئے بنایا گیا ہے، فرمایا : اور جب امام ’’سمع اللہ لمن حمد ہ‘‘ کہے تو ’’اللہم ربنا ولک الحمد‘‘ کہو، اور اس کی تعلیل ایک دوسری حدیث میں یوں کی ہے کہ جس آدمی کا قول ملائکہ کے قول کے موافق ہوگیا تو اس کے ماضی کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
اس تفصیل کے مطابق اما م اور مقتدی سب کو دونوں دعاء پڑھنی چاہئے، بعض ائمہ جیسے شعبی کا مذہب ہے کہ مقتدی ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ نہ کہیں صرف ’’ربنا ولک الحمد‘‘ پر اکتفا کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
145-بَاب الدُّعَاءِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
۱۴۵-باب: دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا کا بیان​


850- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا كَامِلٌ أَبُو الْعَلاءِ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ ابْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ: < اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۹۵ (۲۸۴، ۲۸۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۴ (۸۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱۵، ۳۷۱) (حسن)

ٍ ۸۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان ’’اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي‘‘ (یعنی اے اللہ !مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عا فیت دے، مجھے ہدا یت دے اور مجھے رزق دے)کہتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
146- بَاب رَفْعِ النِّسَاءِ إِذَا كُنَّ مَعَ الرِّجَالِ رُئُوسَهُنَّ مِنَ السَّجْدَةِ
۱۴۶-باب: عورتیں جب مردوں کے سا تھ ہوں تو سجدے سے اپنا سرکب اٹھا ئیں؟​


851- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَوْلًى لأَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < مَنْ كَانَ مِنْكُنَّ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلا تَرْفَعْ رَأْسَهَا حَتَّى يَرْفَعَ الرِّجَالُ رُئُوسَهُمْ > كَرَاهَةَ أَنْ يَرَيْنَ مِنْ عَوْرَاتِ الرِّجَالِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۴۸، ۳۴۹) (صحیح)
(عروہ نے اسماء کے مولی کی متابعت کی ہے اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
۸۵۱- اسما ء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ تم میں سے جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، وہ اپنا سر ( سجدے سے ) اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک کہ مرد نہ اٹھالیں، اس اندیشہ سے کہ ان کی نظر کہیں مردوں کے ستر پر نہ پڑے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابتداءِ اسلام میں لوگ بڑی تنگدستی اور محتاجی میں تھے، اکثر کو ایک تہبند یا چادر کے علاوہ دوسرا کپڑا میسر نہ ہوتا تھا، جسے وہ اپنی گردن پر باندھ لیتے تھے، جو بیک وقت کُرتے اور تہبند کا کام دیتا تھا، کپڑوں کی تنگی کے باعث سجدہ میں ستر کے کھل جانے کا اندیشہ رہتا تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مردوں کے بعد سر اٹھانے کا حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
147- بَاب طُول الْقِيَامِ مِنَ الرُّكُوعِ وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
۱۴۷-باب: رکو ع سے اٹھ کر کھڑے ر ہنے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کی مقدار کا بیان​


852- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْبَرَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ سُجُودُهُ وَرُكُوعُهُ [وَقُعُودُهُ] وَمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۲۱ (۷۹۲)، ۱۲۷ (۸۰۱)، ۱۴۰ (۸۲۰)، م/الصلاۃ ۳۸ (۴۷۶)، ت/الصلاۃ ۹۲ (۲۷۹)، ن/الافتتاح ۱۱۴ (۱۰۶۶)، ۴۹ (۱۱۴۹)، والسھو ۷۷ (۱۳۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۰، ۲۸۵، ۲۸۸، دي/الصلاۃ ۸۰ (۱۳۷۲) (صحیح)

۸۵۲- برا ء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکو ع، سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا سب قریب قریب برابر ہوتے تھے۔

853- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: مَا صَلَّيْتُ خَلْفَ رَجُلٍ أَوْجَزَ صَلاةً مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي تَمَامٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا قَالَ: < سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ > قَامَ حَتَّى نَقُولَ قَدْ [أَ] وْهَمَ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَسْجُدُ، وَكَانَ يَقْعُدُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى نَقُولَ قَدْ [أَ] وْهَمَ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲، ۶۲۱)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۶۴ (۷۰۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۴۸ (۹۸۵)، حم (۳/۲۰۳، ۲۴۷)، دي/ الصلاۃ ۴۶ (۱۲۹۵) (صحیح)

۸۵۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مختصر اور مکمل صلاۃ کسی کے پیچھے نہیں پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’سمع الله لمن حمده‘‘ کہتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم لو گ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم ہو گیا ہے، پھر آپ اللہ اکبر کہتے اور سجدہ کر تے اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم ہو گیا ہے۔

854- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو كَامِلٍ -دَخَلَ حَدِيثُ أَحَدِهِمَا فِي الآخَرِ- قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى؛ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: رَمَقْتُ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم -وَقَالَ أَبُو كَامِلٍ: رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الصَّلاةِ- فَوَجَدْتُ قِيَامَهُ كَرَكْعَتِهِ، وَسَجْدَتِهِ وَاعْتِدَالَهُ فِي الرَّكْعَةِ كَسَجْدَتِهِ، وَجِلْسَتَهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ وَسَجْدَتَهُ مَا بَيْنَ التَّسْلِيمِ وَالانْصِرَافِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ.
قَالَ أَبودَاود: قَالَ مُسَدَّدٌ: فَرَكْعَتُهُ وَاعْتِدَالُهُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ فَسَجْدَتُهُ فَجِلْسَتُهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ فَسَجْدَتُهُ فَجِلْسَتَهُ بَيْنَ التَّسْلِيمِ وَالانْصِرَافِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۸۵۲، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۱) (صحیح)

۸۵۴- برا ء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (اور ابو کامل کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) حالت صلاۃ میں بغور دیکھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کوآپ کے رکوع اور سجدے کی طرح ،اور رکو ع سے آپ کے سیدھے ہونے کوآپ کے سجدے کی طرح، اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ کے بیٹھنے کو، اور سلام پھیرنے اور مصلیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنے کو، پھر دوسرے سجدہ سے قریب قریب برابر پا یا۔
ابو داود کہتے ہیں: اور مسدد کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع اور دونوں رکعتوں کے درمیان آپ کا اعتدال پھر آپ کا سجدہ پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور پھر دوسرا سجدہ پھر آپ کا سلام پھیرنے اورلو گوں کی طرف چہرہ کرنے کے درمیان بیٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہو تے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
148- بَاب صَلاةِ مَنْ لا يُقِيمُ صُلْبَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
۱۴۸-باب: رکوع اور سجدہ میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھنے والے کی صلاۃ کا حکم​


855- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < لا تُجْزِءُ صَلاةُ الرَّجُلِ حَتَّى يُقِيمَ ظَهْرَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۸۴ (۲۶۵)، ن/الافتتاح ۸۸ (۱۰۲۸) والتطبیق ۱۴۴ (۱۱۱۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۶ (۸۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۹، ۱۲۲)، دي/الصلاۃ ۷۸ (۱۳۶۰) (صحیح)

۸۵۵- ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی کی صلاۃ درست نہیں، جب تک کہ وہ رکوع و سجو د میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ کرلے ‘‘۔

856- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ -يَعْنِي ابْنَ عَيَاضٍ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي يَحْيَى ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ -وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْمُثَنَّى- حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم [عَلَيْهِ] السَّلامَ وَقَالَ: < ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ >، فَرَجَعَ الرَّجُلُ فَصَلَّى كَمَا كَانَ صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < وَعَلَيْكَ السَّلامُ > ثُمَّ قَالَ: < ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ>، حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا فَعَلِّمْنِي، قَالَ: < إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ اجْلِسْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاتِكَ كُلِّهَا >.
قَالَ الْقَعْنَبِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَالَ فِي آخِرِهِ: <فَإِذَا فَعَلْتَ هَذَا فَقَدْ تَمَّتْ صَلاتُكَ وَمَا انْتَقَصْتَ مِنْ هَذَا شَيْئًا فَإِنَّمَا انْتَقَصْتَهُ مِنْ صَلاتِكَ > وَقَالَ فِيهِ: < إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ >۔
* تخريج: خ/الأذان ۹۵ (۷۵۷)، ۱۲۲ (۷۹۳)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۲۵۱)، م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۷)، ت/الصلاۃ ۱۱۴ (۳۰۲)، ن/الافتتاح ۷ (۸۸۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۲ (۱۰۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۸۳، ۱۴۳۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۳۷) (صحیح)

۸۵۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شخص اس نے صلاۃ پڑھی پھر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرما یا: ’’واپس جا ئو ، پھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی‘‘، وہ شخص واپس گیا اور پھر سے اسی طرح صلاۃ پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، پھر آکر سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور تم پر بھی سلامتی ہو، واپس جا ئو اور پھر سے صلاۃ پڑھو، کیوں کہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی ہے‘‘، یہا ں تک کہ تین با ر ایسا ہوا، پھر اس شخص نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے !میں اس سے اچھی صلاۃ پڑھنا نہیں جا نتا توآپ مجھے سکھادیجئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جب تم صلاۃ کے لئے کھڑے ہو تو ( پہلے ) تکبیر کہو، پھر جتنا قرآن بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھو، اس کے بعد اطمینان سے رکو ع کرو، پھر رکوع سے سرا ٹھائو یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جا ئو، اس کے بعد اطمینان سے سجدہ کرو، پھر اطمینان سے قعدہ میں بیٹھو، اسی طرح اپنی پو ری صلاۃ میں کرو‘‘۔
قعنبی نے ’’عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة‘‘کہا ہے اور اس کے اخیر میں یوں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم نے ایسا کر لیا تو تمہاری صلاۃ مکمل ہو گئی، اور اگرتم نے اس میں کچھ کم کیا تو اپنی صلاۃ میں کم کیا‘‘، اوراس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم صلاۃ کے لئے کھڑے ہو تو کامل وضو کرو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے تعدیل ارکان کی فرضیت ثابت ہوتی ہے ۔

857- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلادٍ، عَنْ عَمِّهِ أَنَّ رَجُلا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ فِيهِ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم : < إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ -يَعْنِي مَوَاضِعَهُ- ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ، وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيُكَبِّرُ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ [فَقَدْ] تَمَّتْ صَلاتُهُ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۱۴ (۳۰۲)، ن/الأذان ۲۸ (۶۶۸)، الافتتاح ۱۶۷ (۱۱۳۷)، ق/الطھارۃ ۵۷ (۴۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۴ مسند رفاعۃ بن رافع الأنصاري)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۱۰۰، ۱۰۲، ۴/۳۴۰)، دي/الصلاۃ ۷۸ (۱۳۶۸) (صحیح)

۸۵۷- علی بن یحییٰ بن خلا د اپنے چچا سے روایت کر تے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا،پھر راوی نے گذشتہ حدیث کے مانند روایت ذکرکی، اس میں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی شخص کی صلاۃ مکمل نہیں ہو تی، جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرے، پھر ’’الله أكبر‘‘ کہے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے اور قرآن سے جتنا آسان ہو پڑھے پھر’’الله أكبر‘‘ کہے پھراطمینان وسکون کے ساتھ اس طرح رکوع کر ے کہ سب جو ڑ اپنی جگہ پرآجا ئیں، پھر ’’سمع الله لمن حمده‘‘ کہے اور سیدھا کھڑا ہوجائے، پھر’’الله أكبر‘‘ کہے، پھراطمینان سے اس طرح سجدہ کرے کہ اس کے جسم کے سارے جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں، پھر’’الله أكبر‘‘ کہے اور اپنا سر سجدے سے اٹھائے یہاں تک کہ سیدھا بیٹھ جائے پھر ’’الله أكبر‘‘کہے پھر (دوسرا) سجدہ اطمینان سے اس طرح کرے کہ سب جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور ’’الله أكبر‘‘کہے، جب اس نے ایسا کر لیا توا س کی صلاۃ پوری ہو گئی‘‘۔

858- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ قَالا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ -بِمَعْنَاهُ- قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِنَّهَا لا تَتِمُّ صَلاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَ[هُ] اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَيَغْسِلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ وَيَمْسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُكَبِّرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَحْمَدَهُ، ثُمَّ يَقْرَأَ مِنَ الْقُرْآنِ مَا أَذِنَ لَهُ فِيهِ وَتَيَسَّرَ >، فَذَكَرَ نَحْوَ [حَدِيثِ] حَمَّادٍ، قَالَ: < ثُمَّ يُكَبِّرَ فَيَسْجُدَ فَيُمَكِّنَ وَجْهَهُ >، قَالَ هَمَّامٌ: وَرُبَّمَا قَالَ: < جَبْهَتَهُ مِنَ الأَرْضِ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ وَتَسْتَرْخِيَ، ثُمَّ يُكَبِّرَ فَيَسْتَوِيَ قَاعِدًا عَلَى مَقْعَدِهِ وَيُقِيمَ صُلْبَهُ > فَوَصَفَ الصَّلاةَ هَكَذَا أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ حَتَّى تَفْرُغَ لا تَتِمُّ صَلاةُ أَحَدِكُمْ حَتَّى يَفْعَلَ ذَلِكَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۴) (صحیح)

۸۵۸- رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے کسی کی صلاۃ پوری (مکمل) نہیں ہو تی یہاں تک کہ وہ اچھی طرح وضو کرے جس طرح اللہ تعالی نے اسے حکم دیا ہے، (یعنی) وہ اپنا منہ اور دونوں ہا تھ کہنیوں تک دھوئے اور اپنے سر کا مسح کرے اوردونوں پا ئوں ٹخنوں تک دھو ئے، پھر’’الله أكبر‘‘کہے، اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر قرآن میں سے جو آسان ہو اسے پڑھے‘‘، پھر راوی نے حماد کی حدیث کے مانند ذکر کیا اور کہا: ’’پھر وہ’’الله أكبر‘‘ کہے اور سجدہ کرے تو اپنا چہر ہ زمین پرٹکا دے‘‘ ۔
ہمام کہتے ہیں: اسحاق بن عبداللہ نے کبھی یوں کہا: اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دے یہاں تک کہ اس کے جو ڑ آرام پالیں اور ڈھیلے ہوجا ئیں، پھر’’الله أكبر‘‘ کہے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر سیدھابیٹھ جائے اور اپنی پیٹھ سیدھی کر لے پھر صلاۃ کی چا روں رکعتوں کی کیفیت فارغ ہونے تک اسی طرح بیان کی (پھر فرمایا): ’’تم میں سے کسی کی نما زاس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ایسا نہ کرے‘‘۔

859- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلادٍ [عَنْ أَبِيهِ]؛ عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ -بِهَذِهِ الْقِصَّةِ- قَالَ: < إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَبِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَقْرَأَ، وَإِذَا رَكَعْتَ فَضَعْ رَاحَتَيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ وَامْدُدْ ظَهْرَكَ >، وَقَالَ: < إِذَا سَجَدْتَ فَمَكِّنْ لِسُجُودِكَ، فَإِذَا رَفَعْتَ فَاقْعُدْ عَلَى فَخِذِكَ الْيُسْرَى >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۸۵۷، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۴) (حسن)

۸۵۹- اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مر وی ہے اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم صلاۃ کے لئے کھڑے ہو اور اپنا رخ ( چہر ہ ) قبلہ کی طرف کرلو تو تکبیر(تحریمہ) کہو، پھر سورہ فا تحہ پڑھو اور قرآن مجید میں سے جس کی اللہ تو فیق دے پڑھو، پھر جب رکو ع میں جاؤ تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھو اور اپنی پیٹھ برابر رکھو‘‘، اور فرمایا: ’’جب تم سجدہ میں جاؤ تو اپنے سجدوں میں (پیشانی کو) ٹکائے رکھو اور جب سجدے سے سرا ٹھائو تو اپنی با ئیں ران پر بیٹھو ‘‘۔

860- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَحْيَى ابْنِ خَلَّادِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: < إِذَا أَنْتَ قُمْتَ فِي صَلاتِكَ فَكَبِّرِ اللَّهَ تَعَالَى، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ عَلَيْكَ مِنَ الْقُرْآنِ >، وَقَالَ فِيهِ: < فَإِذَا جَلَسْتَ فِي وَسَطِ الصَّلاةِ فَاطْمَئِنَّ وَافْتَرِشْ فَخِذَكَ الْيُسْرَى، ثُمَّ تَشَهَّدْ، ثُمَّ إِذَا قُمْتَ فَمِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى تَفْرُغَ مِنْ صَلاتِكَ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۸۵۷، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۴) (حسن)

۸۶۰- اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی قصہ روایت کرتے ہیں، اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم صلاۃ کے لئے کھڑے ہو تو ( پہلے ) ’’الله أكبر‘‘ کہو، پھر قرآن مجید میں سے جو تمہارے لئے آسان ہو پڑھو‘‘، اور اس میں ہے: ’’جب تم صلاۃ کے بیچ میں بیٹھو تو اطمینان وسکو ن سے بیٹھو اور اپنی با ئیں ران کو بچھا لو، پھر تشہد پڑھو ، پھر جب کھڑے ہو تو ایسا ہی کرو یہاں تک کہ تم اپنی صلاۃ سے فا رغ ہو جا ئو ‘‘۔

861- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الْخُتَّلِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلادِ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَقَصَّ هَذَا الْحَدِيثَ قَالَ فِيهِ: < فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ، ثُمَّ تَشَهَّدْ فَأَقِمْ، ثُمَّ كَبِّرْ، فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهِ، وَإِلا فَاحْمَدِ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ >، وَقَالَ فِيهِ: < وَإِنِ انْتَقَصْتَ مِنْهُ شَيْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلاتِكَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۸۵۷، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۴) (صحیح)

۸۶۱- اس سند سے بھی رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(فرمایا)، پھر انہوں نے یہی حدیث بیان کی اس میں ہے: ’’پھر وضو کروجس طرح اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے، پھر تشہد پڑھو ۱؎ ، پھراقامت کہو، پھر’’الله أكبر‘‘ کہو، پھر اگر تمہیں کچھ قرآن یاد ہو تو اسے پڑھو، ورنہ ’’الحمد لله، الله أكبر، لا إله إلا الله‘‘ کہو‘‘، اور اس میں ہے کہ: ’’اگر تم نے اس میں سے کچھ کم کیا تو اپنی صلاۃ میں سے کم کیا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : تشہد سے مراد وضو کے بعد کی دعا ہے۔

862- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ الْحَكَمِ (ح) وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ مَحْمُودٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ نَقْرَةِ الْغُرَابِ، وَافْتِرَاشِ السَّبْعِ، وَأَنْ يُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَكَانَ فِي الْمَسْجِدِ كَمَا يُوَطِّنُ الْبَعِيرُ. هَذَا لَفْظُ قُتَيْبَةَ۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۱۴۵ (۱۱۱۳)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۰۴ (۱۴۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۸، ۴۴۴)، دي/الصلاۃ ۷۵ (۱۳۶۲) (حسن)

۸۶۲- عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوّے کی طرح چونچ ما رنے ۱؎ ، درندے کی طرح بازو بچھا نے ۲؎ ، اور اونٹ کے مانند آدمی کے مسجد میں اپنے لئے ایک جگہ متعین کر لینے سے (جیسے اونٹ متعین کرلیتا ہے) منع فرما یا ہے (یہ قتیبہ کے الفاظ ہیں )۔
وضاحت ۱؎ : کوّے کی طرح چونچ مارنے سے مراد ارکانِ صلاۃ کی ادائیگی جلدی جلدی کرنا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : درندے کی طرح بازو بچھانے سے مراد سجدے میں دونوں ہاتھ کو زمین سے لگا نا اور پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھنا ہے ۔

863- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ؛ عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ قَالَ: أَتَيْنَا عُقْبَةَ بْنَ عَمْرٍو الأَنْصَارِيَّ أَبَا مَسْعُودٍ فَقُلْنَا لَهُ: حَدِّثْنَا عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَقَامَ بَيْنَ أَيْدِينَا فِي الْمَسْجِدِ، فَكَبَّرَ، فَلَمَّا رَكَعَ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ، وَجَعَلَ أَصَابِعَهُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ، وَجَافَى بَيْنَ مِرْفَقَيْهِ، حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْئٍ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقَامَ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْئٍ مِنْهُ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ جَافَى بَيْنَ مِرْفَقَيْهِ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْئٍ مِنْهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَجَلَسَ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْئٍ مِنْهُ، فَفَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا، ثُمَّ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ مِثْلَ هَذِهِ الرَّكْعَةِ، فَصَلَّى صَلاتَهُ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۹۳ (۱۰۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۹، ۱۲۰، ۵/۲۴۷)، دي/الصلاۃ ۶۸(۱۳۴۳) (صحیح)

۸۶۳- سا لم براد کہتے ہیں کہ ہم ابو مسعود عقبہ بن عمر و انصا ری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ کے متعلق بتا ئیے تو وہ مسجد میں ہما رے سا منے کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے’’الله أكبر‘‘ کہا، پھر جب وہ رکوع میں گئے توانہوں نے اپنے دونوں ہا تھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے اور اپنی انگلیاں اس سے نیچے رکھیں اوراپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر ایک عضو اپنے اپنے مقام پر جم گیا، پھر انہوں نے ’’سمع الله لمن حمده‘‘ کہا اور کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہرعضو اپنی جگہ پرآکر ٹھہر گیا، پھر’’الله أكبر‘‘ کہہ کر سجدہ کیا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھیں اوراپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پرآکر ٹھہر گیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور بیٹھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آکر ٹھہر گیا، پھر دوبارہ ایسا ہی کیا، پھر چا روں رکعتیں اسی کی طرح پڑھیں (اس طرح) انہوں نے اپنی صلاۃ پوری کی پھر کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح صلاۃ پڑھتے ہو ے دیکھا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
149- بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم : < كُلُّ صلاة لا يُتِمُّهَا صَاحِبُهَا تُتَمُّ مِنْ تَطَوُّعِهِ >
۱۴۹-باب: فرمان نبوی : جس شخص کی فرض صلاۃ نا مکمل ہوگی اس کو نفل سے پورا کیا جائے گا​


864- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ؛ عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ: خَافَ مِنْ زِيَادٍ أَوِ ابْنِ زِيَادٍ، فَأَتَى الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: فَنَسَبَنِي [فَانْتَسَبْتُ لَهُ] فَقَالَ يَا فَتَى! أَلا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى رَحِمَكَ اللَّهُ، قَالَ يُونُسُ: وَأَحْسَبُهُ ذَكَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ النَّاسُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَعْمَالِهِمُ: الصَّلاةُ، قَالَ: يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلائِكَتِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ: انْظُرُوا فِي صَلاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا، فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً، وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا قَالَ: انْظُرُوا، هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ قَالَ: أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُمْ ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۰۲ (۱۴۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۰،۱۵۵۰۳)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۱۸۹ (۴۱۳)، ن/الصلاۃ ۹ (۴۶۴)، حم (۲/۴۲۵، ۲/۹۰، ۴/۱۰۳) (صحیح)

۸۶۴- انس بن حکیم ضبی کہتے ہیں کہ وہ زیاد یا ابن زیاد سے ڈر کر مدینہ آئے تو ان کی ملاقات ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، انس کہتے ہیں : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا نسب مجھ سے جوڑا تو میں ان سے جڑ گیا، پھر وہ کہنے لگے: اے نوجو ان ! کیا میں تم سے ایک حدیث نہ بیان کروں ؟ انس کہتے ہیں: میں نے کہا :کیو ں نہیں! ضرور بیان کیجئے، اللہ آپ پر رحم فرمائے، یونس کہتے ہیں: میں یہی سمجھتا ہوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگوں سے ان کے اعمال میں سے جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے پوچھ تاچھ کی جائے گی وہ صلاۃ ہوگی، ہمارا رب اپنے فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے میرے بندے کی صلاۃ کو دیکھو وہ پوری ہے یا اس میں کوئی کمی ہے؟ اگر پوری ہوگی تو پورا ثواب لکھا جائے گا اور اگر کمی ہوگی تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرمائے گا: دیکھو، میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے؟ اگر نفل ہوگی تو فرمائے گا: میرے بندے کے فرض کو اس کی نفلوں سے پورا کرو، پھر تمام اعمال کا یہی حال ہوگا‘‘۔

865- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَلِيطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، بِنَحْوِهِ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۰) (صحیح)

(پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے،ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم راوی ’’رجل من بنی سلیط‘‘ ہے)
۸۶۵- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذشتہ حدیث کے ہم معنی حدیث مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔

866- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى؛ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بِهَذَا الْمَعْنَى، قَالَ: ثُمَّ الزَّكَاةُ مِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۰۲ (۱۴۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰۳) (صحیح)

۸۶۶- تمیم دا ری رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاًروایت کی ہے، اس میں ہے: ’’پھر زکاۃ کا یہی حال ہو گا، پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح سے ہو گا ‘‘۔


* * * * *
* * *
*
 
Top