274- بَاب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ
۲۷۴-باب: دو صلاۃ کوجمع کر نے کا بیان ۱ ؎
1206- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَأَخَّرَ الصَّلاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۶)، والفضائل ۳ (۷۰۶/۱۰)، ن/المواقیت ۴۱ (۵۸۸)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۴ (۱۰۷۰)، وانظر مایأتي برقم : ۱۲۲۰ ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۰)، وقد أخرجہ: ت/الجمعۃ ۴۲ (۵۵۳)، ط/قصرالصلاۃ ۱(۲)، حم (۵/۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳، ۲۳۶، ۲۳۷)، دي/الصلاۃ ۱۸۲(۱۵۵۶) (صحیح)
۱۲۰۶- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو آپ ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے، ایک دن آپ ﷺ نے صلاۃ مؤخرکی پھر نکلے اور ظہر و عصرایک ساتھ پڑھی ۲؎ پھراندر (قیام گا ہ میں) ۳؎ چلے گئے، پھر نکلے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
وضاحت ۱ ؎ : جمع کی دوقسمیں ہیں: ایک صوری، دوسری حقیقی،پہلی صلاۃ کوآخروقت میں اور دوسری صلاۃ کواوّل وقت میں پڑھنے کوجمع صوری کہتے ہیں، اور ایک صلاۃ کودوسری کے وقت میںجمع کرکے پڑھنے کوجمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دوصورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر،جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اورمغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے یہ دونوں جمع رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لئے ہوئی ہے، اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے، کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا مشکل ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین (دو صلاۃ کو ایک وقت میں ادا کرنے) کی رخصت ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بھی دونوں کوایک ساتھ جمع کیاہے۔
وضاحت ۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔
1207- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَسَارَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُومُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِي سَفَرٍ جَمَعَ بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلاتَيْنِ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، فَنَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ((تحفۃ الأشراف: ۷۵۸۴)، وقد أخرجہ: خ/تقصیر الصلاۃ ۶ (۱۰۹۱)، والعمرۃ۲۰ (۱۸۰۵)، والجہاد ۱۳۶ (۳۰۰۰)، م/المسافرین ۵ (۷۰۳)، ت/الصلاۃ ۲۷۷ (۵۵۵)، ن/المواقیت ۴۳ (۵۹۶)، ط/قصر الصلاۃ ۱(۳)، حم (۲/۵۱، ۸۰، ۱۰۲، ۱۰۶، ۱۵۰)، دي/الصلاۃ ۱۸۲(۱۵۵۸) (صحیح)
۱۲۰۷- نافع کہتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کوصفیہ ۱؎ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے (اور چلتے رہے) یہاں تک کہ سور ج ڈوب گیا اور ستارے نظرآنے لگے، توعرض کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں (مغرب اور عشا) ایک سا تھ ادا کرتے، پھروہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے ٹھہرکر دونوں کوایک ساتھ ادا کیا۔
وضاحت ۱ ؎ : صفیہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیوی تھیں، مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک یہ ہے کہ ’’ حالت نزع کی خبر دی گئی‘‘، نسائی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ صفیہ نے خود خط لکھا کہ میں حالت نزع میں ہوں جلدی ملیں۔
1208- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، [وَإِنْ يَرْتَحِلْ] قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعَصْرِ، وَفِي الْمَغْرِبِ مِثْلُ ذَلِكَ: إِنْ غَابَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَإِنْ يَرْتَحِلْ قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ، ثُمَّ جَمَعَ بَيْنَهُمَا.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ عَنْ كُرَيْبٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَ حَدِيثِ الْمُفَضَّلِ وَاللَّيْثِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۲۰۶، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۰) (صحیح)
۱۲۰۸- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفرسے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ ﷺ عصر کوظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سو رج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو موخر کر دیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لئے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا توعشاء کومغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ عشاء کے لئے قیام کر تے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے ،کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔
1209- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ قَطُّ فِي السَّفَرِ إِلا مَرَّةً.
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۹۳) (منکر)
(عبد اللہ بن نافع حافظہ کے کمزور راوی ہیں ، اسی لئے موقوف کو مرفوع بنا ڈالا ہے)
قَالَ أَبودَاود: وَهَذَا يُرْوَى عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ لَمْ يَرَ ابْنَ عُمَرَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا قَطُّ إِلا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، يَعْنِي لَيْلَةَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ، وَرُوِيَ مِنْ حَدِيثِ مَكْحُولٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ فَعَلَ ذَلِكَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۲۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۹۳) (صحیح)
۱۲۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں ایک با ر کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک سا تھ ادا نہیں کیا۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ حدیث ایوب عن نافع عن ابن عمرسے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمررضی اللہ عنہما کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوںصلاتوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا ، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی ، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کر تے دیکھا۔
1210- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ.
قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: أَرَى ذَلِكَ كَانَ فِي مَطَرٍ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ نَحْوَهُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، وَرَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ: [فِي] سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا إِلَى تَبُوكَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۵) ن/المواقیت ۴۶ (۶۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۰۸)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۱۲ (۵۴۳)، ت/الصلاۃ ۱ (۱۸۷)، ط/قصر الصلاۃ ۱(۴)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۳، ۲۸۳، ۳۴۹) (صحیح)
۱۲۱۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلا کسی خوف اور سفر کے ظہر اور عصرکوایک سا تھ اور مغرب وعشاء کو ایک ساتھ ادا کیا ۱؎ ۔
مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ایسا بارش میں ہو ا ہو گا ۲؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں :اسے حماد بن سلمہ نے مالک ہی کی طرح ابوالزبیر سے روایت کیا ہے، نیز اسے قرہ بن خالد نے بھی ابوالزبیر سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ یہ ایک سفر میں ہوا تھا جوہم نے تبوک کی جانب کیا تھا۔
وضاحت وضاحت ۱ ؎ : اس سے ثابت ہوا کہ حالت حضر (قیام کی حالت) میں بھی ضرورت کے وقت دوصلاۃ کوایک ساتھ جمع کیاجاسکتا ہے، البتہ اس کو عادت نہیں بنانا چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت میں
’’من غير خوف ولا مطر‘‘ (یعنی بغیر کسی خوف اور بارش)کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
1211- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، فَقِيلَ لابْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لايُحْرِجَ أُمَّتَهُ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۵) ت/ الصلاۃ ۱ (۱۸۷)، ن/المواقیت ۴۶ (۶۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۵۴) (صحیح)
۱۲۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں بلا کسی خو ف اور با رش کے ظہر وعصراور مغرب وعشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا ؟ انہوں نے کہا:آپ ﷺ نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو دوصلاۃ کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوگیا‘‘ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکرکیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہوسکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ ﷺ نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہوتو یہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔
1212- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ أَنَّ مُؤَذِّنَ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الصَّلاةُ، قَالَ: سِرْ، سِرْ، حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ صَنَعَ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتُ، فَسَارَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ مَسِيرَةَ ثَلاثٍ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ جَابِرٍ عَنْ نَافِعٍ نَحْوَ هَذَا بِإِسْنَادِهِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۹۰) (صحیح)
(لیکن اس حدیث میں وارد لفظ
’’قبل غیوب الشفق‘‘ ’’ شفق غائب ہونے سے قبل‘‘ شاذ ہے، صحیح لفظ
’’حتی غاب الشفق‘‘ ’’شفق غائب ہونے کے بعد ‘‘ ہے جیسا کہ حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں ہے )
۱۲۱۲- نافع اور عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کے مؤذن نے کہا: صلاۃ(پڑھ لی جائے)(تو)ابن عمر نے کہا: چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیاہے،چنا نچہ انہوں نے اس دن اوررات میں تین دن کی مسا فت طے کی۔
ابوداود کہتے ہیں : اسے ابن جابر نے بھی نا فع سے اسی سند سے اسی کی طرح روایت کیا ہے۔
1213- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ -بِهَذَا الْمَعْنَى- قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَلاءِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ ذَهَابِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: ن/ المواقیت ۴۴ (۵۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۵۹) (صحیح)
۱۲۱۳- اس طریق سے بھی ابن جابر سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: اور عبداللہ بن علاء نے نافع سے یہ حدیث روایت کی ہے : اس میں ہے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہونے کا وقت ہوا تو وہ اترے اور مغرب اورعشاء ایک سا تھ پڑھی۔
1214- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا، الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، وَلَمْ يَقُلْ سُلَيْمَانُ وَمُسَدَّدٌ < بِنَا >.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فِي غَيْرِ مَطَرٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۲۱۰، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۷) (صحیح)
۱۲۱۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں ہما رے سا تھ ظہروعصر ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب وعشاء ملا کر سات رکعتیں پڑھیں ۔
سلیمان اور مسدد کی روایت میں’’بنا‘‘ یعنی ہمارے سا تھ کا لفظ نہیں ہے ۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے صالح مولیٰ تو أمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے ، اس میں
’’بغير مطر‘‘ (بغیر بارش) کے الفاظ ہیں۔
1215- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَابَتْ لَهُ الشَّمْسُ بِمَكَّةَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِسَرِفٍ ۔
* تخريج: ن/المواقیت ۴۴ (۵۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۵، ۳۸۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’یحییٰ بن محمد الجاری ‘‘ کے بارے میں کلام ہے )
۱۲۱۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے کہ سورج ڈوب گیا تو آپ نے مقام سرف میں دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کی۔
1216- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ جَارُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: بَيْنَهُمَا عَشَرَةُ أَمْيَالٍ يَعْنِي بَيْنَ مَكَّةَ وَسَرِفٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۰۹) (مقطوع)
۱۲۱۶- ہشام بن سعد کہتے ہیں کہ دونوں یعنی مکہ اور سرف کے درمیان دس میل کا فاصلہ ہے ۔
1217- حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، قَالَ: قَالَ رَبِيعَةُ -يَعْنِي كَتَبَ إِلَيْهِ- حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ دِينَارٍ قَالَ: غَابَتِ الشَّمْسُ وَأَنَا عِنْدَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَسِرْنَا، فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قَدْ أَمْسَى قُلْنَا: الصَّلاةُ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَتَصَوَّبَتِ النُّجُومُ، ثُمَّ إِنَّهُ نَزَلَ فَصَلَّى الصَّلاتَيْنِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ صَلَّى صَلاتِي هَذِهِ، يَقُولُ: يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا بَعْدَ لَيْلٍ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَخِيهِ عَنْ سَالِمٍ، وَرَوَاهُ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ذُؤَيْبٍ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَهُمَا مِنِ ابْنِ عُمَرَ كَانَ بَعْدَ غُيُوبِ الشَّفَقِ.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۴۹) (صحیح)
۱۲۱۷- عبداللہ بن دینارکہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا،اس وقت میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے پاس تھا،پھر ہم چلے، جب دیکھا کہ رات آگئی ہے توہم نے کہا: صلاۃ( ادا کر لیں) لیکن آپ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی اور تارے پو ری طرح جگمگا نے لگے ، پھر آپ اترے، اور دونوں صلاتیں(مغرب اورعشاء) ایک سا تھ ادا کیں،پھر کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چلتے رہنا ہوتا تو میری اس صلاۃ کی طرح آپ بھی صلاۃ ادا کر تے یعنی دونوں کو رات ہوجانے پر ایک ساتھ پڑھتے۔
ابوداود کہتے ہیں:یہ حدیث عاصم بن محمد نے اپنے بھا ئی سے اور انہوں نے سالم سے روایت کی ہے، اورابن ابی نجیح نے اسماعیل بن عبدالرحمن بن ذویب سے روایت کی ہے کہ ان دونوں صلاتوں کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شفق غائب ہونے کے بعد جمع کیا۔
1218- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ مَوْهَبٍ [الْمَعْنَى]، قَالا: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ ﷺ .
قَالَ أَبودَاود: كَانَ مُفَضَّلٌ قَاضِيَ مِصْرَ، وَكَانَ مُجَابَ الدَّعْوَةِ، وَهُوَ ابْنُ فَضَالَةَ ۔
* تخريج: خ/ تقصیر الصلاۃ ۱۵ (۱۱۱۱)، ۱۶ (۱۱۱۲)، م/المسافرین ۵ (۷۰۴)، ن/المواقیت ۴۱ (۵۸۷)،(تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
۱۲۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کوجمع کرتے، اور اگر کوچ کر نے سے پہلے سو رج ڈھل جاتا تو آپ ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔
ابو داود کہتے ہیں: مفضل مصر کے قاضی اور مستجاب الدعوات تھے ، وہ فضالہ کے لڑکے ہیں۔
1219- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عُقَيْلٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۵) (صحیح)
۱۲۱۹- اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سندسے منقول ہے، البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غا ئب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔
1220- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبَ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلاَّهَا مَعَ الْمَغْرِبِ.
قَالَ أَبودَاود: وَلَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ إِلا قُتَيْبَةُ وَحْدَهُ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۷۷ (۵۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم(۵/۲۴۱) (صحیح)
۱۲۲۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں سورج ڈھلنے سے پہلے کو چ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ اسے عصر سے ملا دیتے، اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کر تے، اورجب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہو تے، اورجب مغرب سے پہلے کو چ فرما تے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے سا تھ ملا کر ادا کر تے، اور اگر مغرب کے بعد کو چ کرتے تو عشاء میں جلدی فرماتے اور اسے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث سوا ئے قتیبہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس سند اور متن میں قتیبہ منفرد ہیں ، دونوں سندوں اور متنوں میں فرق کے لئے دیکھئے حدیث نمبر: (۱۲۰۶ )۔