• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
269-بَاب السُّجُودِ عِنْدَ الآيَاتِ
۲۶۹-باب: نشانیوں اور حادثات کے ظہور کے وقت سجدہ کرنے کا بیان​


1197- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ؛ عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: قِيلَ لابْنِ عَبَّاسٍ: مَاتَتْ فُلانَةُ، بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فَخَرَّ سَاجِدًا، فَقِيلَ لَهُ: [أَ] تَسْجُدُ هَذِهِ السَّاعَةَ؟ فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِذَا رَأَيْتُمْ آيَةً فَاسْجُدُوا >، وَأَيُّ آيَةٍ أَعْظَمُ مِنْ ذَهَابِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ ؟
* تخريج: ت/ المنا قب ۶۴ (۳۸۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۷) (حسن)
۱۱۹۷- عکرمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ نبی اکرم ﷺ کی فلاں بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، تو وہ یہ سن کر سجدے میں گر پڑے، ان سے کہا گیا:کیا اس وقت آپ سجدہ کررہے ہیں ؟ توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم کوئی نشانی (یعنی بڑا حادثہ) دیکھو توسجدہ کرو اور رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی موت سے بڑھ کر کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سفر میں صلاۃ کے احکام ومسائل

{ تَفْرِيعِ صَلاةِ السَّفَرِ }

270- بَاب صَلاةِ الْمُسَافِرِ
۲۷۰-باب: مسافر کی صلاۃ کا بیان​



1198- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: فُرِضَتِ الصَّلاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلاةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلاةِ الْحَضَرِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱ (۳۵۰)، وتقصیر الصلاۃ ۵ (۱۰۹۰)، فضائل الصحابۃ ۷۶ (۳۷۲۰)، م/المسافرین ۱ (۶۸۵)، ن/الصلاۃ ۳ (۴۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۸)، وقد أخرجہ: ط/قصر الصلاۃ ۱ (۹)، حم (۶/۲۳۴، ۲۴۱، ۲۶۵، ۲۷۲)، دي/الصلاۃ ۱۷۹(۱۵۵۰) (صحیح)
۱۱۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سفر اور حضر دونوں میں دو دو رکعت صلاۃ فرض کی گئی تھی، پھر سفر کی صلاۃ (حسب معمول) برقرار رکھی گئی اور حضر کی صلاۃ میں اضافہ کر دیاگیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اضافہ صرف چار رکعت والی صلاۃِ ظہر،عصر اور عشاء میں کیا گیا، مغرب کی حیثیت دن کے وتر کی ہے، اور فجر میں لمبی قرأت مسنون ہے اس لئے ان دونوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
بعض علماء کے نزدیک سفر میں قصر واجب ہے اور بعض کے نزدیک رخصت ہے چاہے تو پوری پڑھے اور چاہے تو قصر کرے مگر قصر افضل ہے۔


1199- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ (ح) وَحَدَّثَنَا خُشَيْشٌ -يَعْنِي ابْنَ أَصْرَمَ- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ [بْنِ أَبِي عَمَّارٍ]، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ؛ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَرَأَيْتَ إِقْصَارَ النَّاسِ الصَّلاةَ، وَإِنَّمَا قَالَ تَعَالَى: {إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمِ الَّذِينَ كَفَرُوا} فَقَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ الْيَوْمَ، فَقَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: < صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ > ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱ (۶۸۶)، ت/تفسیر سورۃ النساء ۵ (۳۰۳۴)، ن/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۴۳۴)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۳ (۱۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵، ۳۶)، دي/الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۴۶) (صحیح)
۱۱۹۹- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا:مجھے بتائیے کہ(سفر میں) لوگوں کے صلاۃ قصر کرنے کا کیا مسئلہ ہے اللہ تعالیٰ تو فرمارہا ہے: ’’ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں مبتلا کردیں گے‘‘، تواب تو وہ دن گزر چکا ہے توآپ نے کہا: جس با ت پر تمہیں تعجب ہوا ہے اس پر مجھے بھی تعجب ہوا تھاتو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیاہے لہٰذاتم اس کے صدقے کو قبول کرو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قصر صلاۃ حالت خوف کے ساتھ خاص نہیں بلکہ امت کی آسانی کے لئے اسے سفر میں مشروع قرار دیا گیا خواہ سفر پُر امن ہی کیوں نہ ہو۔


1200- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ، فَذَكَرَهُ [نَحْوَهُ].
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ وَحَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ كَمَا رَوَاهُ ابْنُ بَكْرٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۹) (صحیح)
۱۲۰۰- ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی عمار کو بیان کرتے ہوئے سنا، پھر انہوں نے اسی طرح کی روایت ذکر کی۔
ابو داود کہتے ہیں : اس حدیث کو ابو عاصم اور حماد بن مسعدہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے اسے ابن بکر نے کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
271- بَاب مَتَى يَقْصُرُ الْمُسَافِرُ
۲۷۱-باب: مسافر قصر کب کرے؟​




1201- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَزِيدَ الْهُنَائِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ قَصْرِ الصَّلاةِ فَقَالَ أَنَسٌ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلاثَةِ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلاثَةِ فَرَاسِخَ [شَكَّ شُعْبَةُ] يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱ (۶۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۱)، وقد أخرجہ: حم(۳/ ۱۲۹) (صحیح)
۱۲۰۱- یحییٰ بن یزید ہنا ئی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صلاۃ قصر کر نے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فر سخ(یہ شک شعبہ کو ہو اہے)کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قصر کے لئے مسافت کی تحدید میں رسول اکرم ﷺ کا کوئی صریح قول نہیں ہے، فعلی احادیث میں سب سے صحیح یہی حدیث ہے ، اس کے مطابق (اکثر مسافت تین فرسخ کے مطابق) نومیل کی مسافت سے قصر کی جاسکتی ہے ، جو کیلو میٹر کے حساب سے ساڑھے چودہ کیلومیٹر ہوتی ہے ۔



1202- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا، وَالْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۵ (۱۰۸۹)، والحج ۲۴ (۱۵۴۶)، ۲۵ (۱۵۴۸)، ۱۱۹ (۱۷۱۴)، والجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، م/المسافرین ۱ (۶۹۰)، ت/الصلاۃ ۲۷۴ (۵۴۶)، ن/الصلاۃ ۱۱ (۴۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶، ۱۵۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/ ۱۱۰، ۱۱۱، ۱۷۷، ۱۸۶، ۲۳۷، ۲۶۸)، دي/الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۴۸)، ویأتي في الحج برقم ۱۷۷۳) (صحیح)
۱۲۰۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینے میں ظہر چاررکعت پڑھی اور ذو الحلیفہ میں عصر دورکعت ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مسافر جب شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے تواس کے لئے قصر کرنا جائز ہوجاتا ہے، ذوالحلیفہ مدینہ سے (مکہ کے راستے میں)تیرہ کیلو میٹر کی دوری پر ہے ، جواہل مدینہ کی میقات ہے ، اس وقت یہ ’’ابیارعلی‘‘سے بھی مشہورہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
272- بَاب الأَذَانِ فِي السَّفَرِ
۲۷۲-باب: سفر میں اذان دینے کا بیان​



1203- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ أَبَا عُشَّانَةَ الْمَعَافِرِيَّ حَدَّثَهُ؛ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَعْجَبُ رَبُّكُمْ مِنْ رَاعِي غَنَمٍ فِي رَأْسِ شَظِيَّةٍ بِجَبَلٍ يُؤَذِّنُ بِالصَّلاةِ وَيُصَلِّي، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ الصَّلاةَ، يَخَافُ مِنِّي، قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، وَأَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ >۔
* تخريج: ن/الأذان (۲۶/۶۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۵، ۱۵۷) (صحیح)
۱۲۰۳- عقبہ بن عا مررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: ’’تمہارا رب بکری کے اس چروا ہے سے خوش ہوتاہے جو کسی پہاڑ کی چو ٹی میں رہ کر صلاۃ کے لئے اذان د یتا ۱؎ اور صلاۃ ادا کر تا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو، یہ اذان دے رہا ہے اور صلاۃ قائم کر رہا ہے، مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل کردیا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں تنہا آدمی کے لیے بھی اذان مشروع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
273-بَاب الْمُسَافِرِ يُصَلِّي وَهُوَ يَشُكُّ فِي الْوَقْتِ
۲۷۳-باب: مسافرکوشک ہو کہ صلاۃ کا وقت ہوا یا نہیں پھروہ صلاۃ پڑھ لے تویہ جائز ہے​



1204- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْمِسْحَاجِ بْنِ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لأنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: كُنَّا إِذَا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي السَّفَرِ، فَقُلْنَا: زَالَتِ الشَّمْسُ أَوْ لَمْ تَزُلْ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ ارْتَحَلَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۶)، وقد أخرجہ: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۵ (۱۱۱۱)، ۱۶ (۱۱۱۲)، م/المسافرین ۵ (۷۰۴)، ن/المواقیت ۴۱ (۵۸۷)، حم (۳/ ۱۱۳، ۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
۱۲۰۴- مسحاج بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا:ہم سے آپ کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو، انہوں نے کہا:جب ہم لوگ سفر میں رسول اللہ ﷺ کے سا تھ ہو تے توہم کہتے: سورج ڈھل گیا یا نہیں ۱؎ توآپ ظہرپڑھتے پھر کوچ کرتے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر امام کووقت ہوجانے کایقین ہے تومقتدیوں کے شک کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔


1205- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي حَمْزَةُ الْعَائِذِيُّ [رَجُلٌ مِنْ بَنِي ضَبَّةَ] قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلا لَمْ يَرْتَحِلْ حَتَّى يُصَلِّيَ الظُّهْرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ؟ قَالَ: وَإِنْ كَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ۔
* تخريج: ن/المواقیت ۲ (۴۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۲۰، ۱۲۹) (صحیح)
۱۲۰۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مقام پر قیام فرماتے تو ظہر پڑھ کر ہی کوچ فرماتے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: گرچہ نصف النہار ہوتا؟ انہوں نے کہا:اگر چہ نصف النہارہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
274- بَاب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ
۲۷۴-باب: دو صلاۃ کوجمع کر نے کا بیان ۱ ؎​




1206- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَأَخَّرَ الصَّلاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۶)، والفضائل ۳ (۷۰۶/۱۰)، ن/المواقیت ۴۱ (۵۸۸)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۴ (۱۰۷۰)، وانظر مایأتي برقم : ۱۲۲۰ ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۰)، وقد أخرجہ: ت/الجمعۃ ۴۲ (۵۵۳)، ط/قصرالصلاۃ ۱(۲)، حم (۵/۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳، ۲۳۶، ۲۳۷)، دي/الصلاۃ ۱۸۲(۱۵۵۶) (صحیح)
۱۲۰۶- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو آپ ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے، ایک دن آپ ﷺ نے صلاۃ مؤخرکی پھر نکلے اور ظہر و عصرایک ساتھ پڑھی ۲؎ پھراندر (قیام گا ہ میں) ۳؎ چلے گئے، پھر نکلے اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
وضاحت ۱ ؎ : جمع کی دوقسمیں ہیں: ایک صوری، دوسری حقیقی،پہلی صلاۃ کوآخروقت میں اور دوسری صلاۃ کواوّل وقت میں پڑھنے کوجمع صوری کہتے ہیں، اور ایک صلاۃ کودوسری کے وقت میںجمع کرکے پڑھنے کوجمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دوصورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر،جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اورمغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے یہ دونوں جمع رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لئے ہوئی ہے، اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے، کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا مشکل ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جمع بین الصلاتین (دو صلاۃ کو ایک وقت میں ادا کرنے) کی رخصت ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بھی دونوں کوایک ساتھ جمع کیاہے۔
وضاحت ۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جمع بین الصلاتین کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی جمع بین الصلاتین جائز ہے۔


1207- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ وَهُوَ بِمَكَّةَ، فَسَارَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَبَدَتِ النُّجُومُ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ فِي سَفَرٍ جَمَعَ بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلاتَيْنِ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ، فَنَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ((تحفۃ الأشراف: ۷۵۸۴)، وقد أخرجہ: خ/تقصیر الصلاۃ ۶ (۱۰۹۱)، والعمرۃ۲۰ (۱۸۰۵)، والجہاد ۱۳۶ (۳۰۰۰)، م/المسافرین ۵ (۷۰۳)، ت/الصلاۃ ۲۷۷ (۵۵۵)، ن/المواقیت ۴۳ (۵۹۶)، ط/قصر الصلاۃ ۱(۳)، حم (۲/۵۱، ۸۰، ۱۰۲، ۱۰۶، ۱۵۰)، دي/الصلاۃ ۱۸۲(۱۵۵۸) (صحیح)
۱۲۰۷- نافع کہتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کوصفیہ ۱؎ کی موت کی خبر دی گئی اس وقت مکہ میں تھے تو آپ چلے (اور چلتے رہے) یہاں تک کہ سور ج ڈوب گیا اور ستارے نظرآنے لگے، توعرض کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو سفر میں جب کسی کام کی عجلت ہوتی تو آپ یہ دونوں (مغرب اور عشا) ایک سا تھ ادا کرتے، پھروہ شفق غائب ہونے تک چلتے رہے ٹھہرکر دونوں کوایک ساتھ ادا کیا۔
وضاحت ۱ ؎ : صفیہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیوی تھیں، مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک یہ ہے کہ ’’ حالت نزع کی خبر دی گئی‘‘، نسائی کی ایک روایت میں یہ ہے کہ صفیہ نے خود خط لکھا کہ میں حالت نزع میں ہوں جلدی ملیں۔


1208- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، [وَإِنْ يَرْتَحِلْ] قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعَصْرِ، وَفِي الْمَغْرِبِ مِثْلُ ذَلِكَ: إِنْ غَابَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَإِنْ يَرْتَحِلْ قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ، ثُمَّ جَمَعَ بَيْنَهُمَا.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ عَنْ كُرَيْبٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَ حَدِيثِ الْمُفَضَّلِ وَاللَّيْثِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۲۰۶، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۰) (صحیح)
۱۲۰۸- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفرسے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ ﷺ عصر کوظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سو رج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو موخر کر دیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لئے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا توعشاء کومغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ عشاء کے لئے قیام کر تے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے ،کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔


1209- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ قَطُّ فِي السَّفَرِ إِلا مَرَّةً.
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۹۳) (منکر)
(عبد اللہ بن نافع حافظہ کے کمزور راوی ہیں ، اسی لئے موقوف کو مرفوع بنا ڈالا ہے)


قَالَ أَبودَاود: وَهَذَا يُرْوَى عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ لَمْ يَرَ ابْنَ عُمَرَ جَمَعَ بَيْنَهُمَا قَطُّ إِلا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، يَعْنِي لَيْلَةَ اسْتُصْرِخَ عَلَى صَفِيَّةَ، وَرُوِيَ مِنْ حَدِيثِ مَكْحُولٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ فَعَلَ ذَلِكَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۲۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۹۳) (صحیح)
۱۲۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں ایک با ر کے علاوہ کبھی بھی مغرب اور عشاء کو ایک سا تھ ادا نہیں کیا۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ حدیث ایوب عن نافع عن ابن عمرسے موقوفاً روایت کی جاتی ہے کہ نافع نے ابن عمررضی اللہ عنہما کو ایک رات کے سوا کبھی بھی ان دونوںصلاتوں کو جمع کرتے نہیں دیکھا ، یعنی اس رات جس میں انہیں صفیہ کی وفات کی خبر دی گئی ، اور مکحول کی حدیث نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو اس طرح ایک یا دو بار کر تے دیکھا۔


1210- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا، فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ.
قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: أَرَى ذَلِكَ كَانَ فِي مَطَرٍ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ نَحْوَهُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، وَرَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ: [فِي] سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا إِلَى تَبُوكَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۵) ن/المواقیت ۴۶ (۶۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۰۸)، وقد أخرجہ: خ/المواقیت ۱۲ (۵۴۳)، ت/الصلاۃ ۱ (۱۸۷)، ط/قصر الصلاۃ ۱(۴)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۳، ۲۸۳، ۳۴۹) (صحیح)
۱۲۱۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلا کسی خوف اور سفر کے ظہر اور عصرکوایک سا تھ اور مغرب وعشاء کو ایک ساتھ ادا کیا ۱؎ ۔
مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ایسا بارش میں ہو ا ہو گا ۲؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں :اسے حماد بن سلمہ نے مالک ہی کی طرح ابوالزبیر سے روایت کیا ہے، نیز اسے قرہ بن خالد نے بھی ابوالزبیر سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ یہ ایک سفر میں ہوا تھا جوہم نے تبوک کی جانب کیا تھا۔
وضاحت وضاحت ۱ ؎ : اس سے ثابت ہوا کہ حالت حضر (قیام کی حالت) میں بھی ضرورت کے وقت دوصلاۃ کوایک ساتھ جمع کیاجاسکتا ہے، البتہ اس کو عادت نہیں بنانا چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت میں’’من غير خوف ولا مطر‘‘ (یعنی بغیر کسی خوف اور بارش)کے الفاظ بھی آئے ہیں۔


1211- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ، فَقِيلَ لابْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لايُحْرِجَ أُمَّتَهُ۔
* تخريج: م/المسافرین ۶ (۷۰۵) ت/ الصلاۃ ۱ (۱۸۷)، ن/المواقیت ۴۶ (۶۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۵۴) (صحیح)
۱۲۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں بلا کسی خو ف اور با رش کے ظہر وعصراور مغرب وعشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا ؟ انہوں نے کہا:آپ ﷺ نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ حالت قیام میں بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع بین الصلاتین بوقت ضرورت جائز ہے، سنن ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی یہ روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو دوصلاۃ کو بغیر کسی عذر کے جمع کرے تو وہ بڑے گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوگیا‘‘ ضعیف ہے، اس کی اسناد میں حنش بن قیس راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ استدلال کے لائق نہیں، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکرکیا ہے، اور یہ ضعیف حدیث ان صحیح روایات کی معارض نہیں ہوسکتی جن سے جمع کرنا ثابت ہوتا ہے، اور بعض لوگ جو یہ تاویل کرتے ہیں کہ شاید آپ ﷺ نے کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا ہوتو یہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے منافی ہے کہ اس (جمع بین الصلاتین) سے مقصود یہ تھا کہ امت حرج میں نہ پڑے۔


1212- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ أَنَّ مُؤَذِّنَ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الصَّلاةُ، قَالَ: سِرْ، سِرْ، حَتَّى إِذَا كَانَ قَبْلَ غُيُوبِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا عَجِلَ بِهِ أَمْرٌ صَنَعَ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتُ، فَسَارَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ مَسِيرَةَ ثَلاثٍ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ جَابِرٍ عَنْ نَافِعٍ نَحْوَ هَذَا بِإِسْنَادِهِ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۹۰) (صحیح)
(لیکن اس حدیث میں وارد لفظ ’’قبل غیوب الشفق‘‘ ’’ شفق غائب ہونے سے قبل‘‘ شاذ ہے، صحیح لفظ ’’حتی غاب الشفق‘‘ ’’شفق غائب ہونے کے بعد ‘‘ ہے جیسا کہ حدیث نمبر: ۱۲۰۷ میں ہے )
۱۲۱۲- نافع اور عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کے مؤذن نے کہا: صلاۃ(پڑھ لی جائے)(تو)ابن عمر نے کہا: چلتے رہو پھر شفق غائب ہونے سے پہلے اترے اور مغرب پڑھی پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی تو عشاء پڑھی، پھر کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کو جب کسی کام کی جلدی ہوتی تو آپ ایسا ہی کرتے جیسے میں نے کیاہے،چنا نچہ انہوں نے اس دن اوررات میں تین دن کی مسا فت طے کی۔
ابوداود کہتے ہیں : اسے ابن جابر نے بھی نا فع سے اسی سند سے اسی کی طرح روایت کیا ہے۔


1213- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ -بِهَذَا الْمَعْنَى- قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَلاءِ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ ذَهَابِ الشَّفَقِ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: ن/ المواقیت ۴۴ (۵۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۵۹) (صحیح)
۱۲۱۳- اس طریق سے بھی ابن جابر سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: اور عبداللہ بن علاء نے نافع سے یہ حدیث روایت کی ہے : اس میں ہے یہاں تک کہ جب شفق غائب ہونے کا وقت ہوا تو وہ اترے اور مغرب اورعشاء ایک سا تھ پڑھی۔


1214- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا وَسَبْعًا، الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، وَلَمْ يَقُلْ سُلَيْمَانُ وَمُسَدَّدٌ < بِنَا >.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فِي غَيْرِ مَطَرٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۲۱۰، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۷) (صحیح)
۱۲۱۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں ہما رے سا تھ ظہروعصر ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب وعشاء ملا کر سات رکعتیں پڑھیں ۔
سلیمان اور مسدد کی روایت میں’’بنا‘‘ یعنی ہمارے سا تھ کا لفظ نہیں ہے ۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے صالح مولیٰ تو أمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے ، اس میں’’بغير مطر‘‘ (بغیر بارش) کے الفاظ ہیں۔


1215- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ غَابَتْ لَهُ الشَّمْسُ بِمَكَّةَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِسَرِفٍ ۔
* تخريج: ن/المواقیت ۴۴ (۵۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۵، ۳۸۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’یحییٰ بن محمد الجاری ‘‘ کے بارے میں کلام ہے )
۱۲۱۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے کہ سورج ڈوب گیا تو آپ نے مقام سرف میں دونوں (مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ادا کی۔


1216- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ جَارُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: بَيْنَهُمَا عَشَرَةُ أَمْيَالٍ يَعْنِي بَيْنَ مَكَّةَ وَسَرِفٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۰۹) (مقطوع)
۱۲۱۶- ہشام بن سعد کہتے ہیں کہ دونوں یعنی مکہ اور سرف کے درمیان دس میل کا فاصلہ ہے ۔


1217- حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، قَالَ: قَالَ رَبِيعَةُ -يَعْنِي كَتَبَ إِلَيْهِ- حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ دِينَارٍ قَالَ: غَابَتِ الشَّمْسُ وَأَنَا عِنْدَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَسِرْنَا، فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قَدْ أَمْسَى قُلْنَا: الصَّلاةُ، فَسَارَ حَتَّى غَابَ الشَّفَقُ وَتَصَوَّبَتِ النُّجُومُ، ثُمَّ إِنَّهُ نَزَلَ فَصَلَّى الصَّلاتَيْنِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ صَلَّى صَلاتِي هَذِهِ، يَقُولُ: يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا بَعْدَ لَيْلٍ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَخِيهِ عَنْ سَالِمٍ، وَرَوَاهُ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ذُؤَيْبٍ أَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَهُمَا مِنِ ابْنِ عُمَرَ كَانَ بَعْدَ غُيُوبِ الشَّفَقِ.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۴۹) (صحیح)
۱۲۱۷- عبداللہ بن دینارکہتے ہیں کہ سورج ڈوب گیا،اس وقت میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے پاس تھا،پھر ہم چلے، جب دیکھا کہ رات آگئی ہے توہم نے کہا: صلاۃ( ادا کر لیں) لیکن آپ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی اور تارے پو ری طرح جگمگا نے لگے ، پھر آپ اترے، اور دونوں صلاتیں(مغرب اورعشاء) ایک سا تھ ادا کیں،پھر کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب چلتے رہنا ہوتا تو میری اس صلاۃ کی طرح آپ بھی صلاۃ ادا کر تے یعنی دونوں کو رات ہوجانے پر ایک ساتھ پڑھتے۔
ابوداود کہتے ہیں:یہ حدیث عاصم بن محمد نے اپنے بھا ئی سے اور انہوں نے سالم سے روایت کی ہے، اورابن ابی نجیح نے اسماعیل بن عبدالرحمن بن ذویب سے روایت کی ہے کہ ان دونوں صلاتوں کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شفق غائب ہونے کے بعد جمع کیا۔


1218- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ مَوْهَبٍ [الْمَعْنَى]، قَالا: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ، ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ ﷺ .
قَالَ أَبودَاود: كَانَ مُفَضَّلٌ قَاضِيَ مِصْرَ، وَكَانَ مُجَابَ الدَّعْوَةِ، وَهُوَ ابْنُ فَضَالَةَ ۔
* تخريج: خ/ تقصیر الصلاۃ ۱۵ (۱۱۱۱)، ۱۶ (۱۱۱۲)، م/المسافرین ۵ (۷۰۴)، ن/المواقیت ۴۱ (۵۸۷)،(تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۴۷، ۲۶۵) (صحیح)
۱۲۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ فرماتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے پھر قیام فرماتے اور دونوں کوجمع کرتے، اور اگر کوچ کر نے سے پہلے سو رج ڈھل جاتا تو آپ ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔
ابو داود کہتے ہیں: مفضل مصر کے قاضی اور مستجاب الدعوات تھے ، وہ فضالہ کے لڑکے ہیں۔


1219- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عُقَيْلٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ حِينَ يَغِيبُ الشَّفَقُ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۵) (صحیح)
۱۲۱۹- اس طریق سے بھی عقیل سے یہی روایت اسی سندسے منقول ہے، البتہ اس میں اضافہ ہے کہ مغرب کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ جب شفق غا ئب ہو جاتی تو اسے اور عشاء کو ملا کر پڑھتے۔


1220- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبَ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلاَّهَا مَعَ الْمَغْرِبِ.
قَالَ أَبودَاود: وَلَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ إِلا قُتَيْبَةُ وَحْدَهُ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۷۷ (۵۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم(۵/۲۴۱) (صحیح)
۱۲۲۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک میں سورج ڈھلنے سے پہلے کو چ فرماتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ اسے عصر سے ملا دیتے، اور دونوں کو ایک ساتھ ادا کر تے، اورجب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہو تے، اورجب مغرب سے پہلے کو چ فرما تے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے سا تھ ملا کر ادا کر تے، اور اگر مغرب کے بعد کو چ کرتے تو عشاء میں جلدی فرماتے اور اسے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ حدیث سوا ئے قتیبہ کے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس سند اور متن میں قتیبہ منفرد ہیں ، دونوں سندوں اور متنوں میں فرق کے لئے دیکھئے حدیث نمبر: (۱۲۰۶ )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
275-بَاب قَصْرِ قِرَائَةِ الصَّلاةِ فِي السَّفَرِ
۲۷۵-باب: سفرکی صلاۃ میں قرأت مختصر کرنے کا بیان​


1221- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَصَلَّى بِنَا الْعِشَاءَ الآخِرَةَ فَقَرَأَ فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۰ (۷۶۷)، ۱۰۲ (۷۶۹)، وتفسیر التین ۱ (۴۹۵۲)، والتوحید ۵۲ (۷۵۴۶)، م/الصلاۃ ۳۶ (۴۶۴)، ت/الصلاۃ ۱۱۵ (۳۱۰)، ن/الافتتاح ۷۳ (۱۰۰۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۰ (۸۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۱)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۵ (۲۷)، حم (۴/۲۸۴، ۲۸۶، ۲۹۱، ۳۰۲، ۳۰۳) (صحیح)
۱۲۲۱- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفرمیں نکلے آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی اور دونوں رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں {والتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ}پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
276-بَاب التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
۲۷۶-باب: سفر میں نفل پڑھنے کا بیان​



1222- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَفَرًا، فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ رَكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۷۶ (الجمعۃ ۴۱) (۵۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۹۲، ۲۹۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ابو بسرۃ غفاری ‘‘ لین الحدیث ہیں )
۱۲۲۲- براء بن عازب انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اٹھارہ سفروں میں رہا، لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے آپ نے دو رکعتیں ترک کی ہوں۔


1223- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، فَرَأَى نَاسًا قِيَامًا، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا أَتْمَمْتُ صَلاتِي، يَا ابْنَ أَخِي إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي السَّفَرِ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَصَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَصَحِبْتُ عُمَرَ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَصَحِبْتُ عُثْمَانَ، فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: { لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۱ (۱۱۰۱)، م/المسافرین ۱ (۶۸۹)، ن/تقصیر الصلاۃ ۴ (۱۴۵۹)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۵ (۱۰۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۹۳)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۷۴ (الجمعۃ ۳۹) (۵۴۴)، حم (۲/۲۴، ۵۶)، دي/المناسک ۴۷ (۱۹۱۶) (صحیح)
۱۲۲۳- حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمررضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا تو آپ نے ہم کو دو رکعت صلاۃ پڑھائی پھرمتوجہ ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لو گ (صلاۃ کی حالت میں) کھڑے ہیں، پو چھا: یہ لو گ کیا کر رہے ہیں؟میں نے کہا : یہ نفل پڑھ رہے ہیں، توآپ نے کہا:بھتیجے! اگر مجھے نفل ۱؎ پڑھنی ہوتی تومیں اپنی صلاۃ ہی پوری پڑھتا، میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا لیکن آپ نے دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکررضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دورکعت سے زیا دہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، مجھے (سفر میں) عثمان رضی اللہ عنہ کی رفاقت بھی ملی لیکن انہوں نے بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی، اور اللہ عز وجل فرماچکا ہے: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
وضاحت ۱؎ : نفل کی دوقسمیں ہیں:راتب سنتیں اور غیر راتب سنتیں، راتب سنتیں فرض صلاۃ سے پہلے یا بعد میں پڑھی جاتی ہیں، اور غیر راتب عام نفلی صلاۃ کو کہا جاتا ہے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسافر عام نفلی صلاۃ پڑھ سکتا ہے، البتہ سنن رواتب میں اختلاف ہے اور اس حدیث سے راتب سنتیں ہی مراد ہیں، اس سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ سفر میں سنن رواتب کا نہ پڑھنا افضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
277- بَاب التَّطَوُّع عَلَى الرَّاحِلَةِ وَالْوِتْرِ
۲۷۷-باب: سواری پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان​



1224- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَيَّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ، وَيُوتِرُ عَلَيْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لايُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ عَلَيْهَا۔
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۷ (۱۰۹۷)، م/المسافرین ۴ (۷۰۰)، ن/الصلاۃ ۲۳ (۴۹۱)، والمساجد ۴۶ (۷۴۰)، والقبلۃ ۲ (۷۴۵)، دي/الصلاۃ ۲۱۳ (۱۶۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۷۸)، وقد أخرجہ: ت/الصلاۃ ۲۲۸ (۴۷۲)، ن/قیام اللیل ۳۱ (۱۶۸۷)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۲۷(۱۲۰۰)، ط/ قصر الصلاۃ ۳ (۱۵)، حم (۲/۵۷، ۱۳۸) (صحیح)
۱۲۲۴- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل پڑھتے تھے، خواہ آپ کسی بھی طرف متوجہ ہوتے اور اسی پر وتر پڑھتے، البتہ اس پرفرض صلاۃ نہیں پڑھتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ثابت ہوا کہ فرض کے سوا نفلی صلاۃ اور وتر بھی سواری پر ادا کی جاسکتی ہے، ان کے لئے قبلہ رخ ہونے کی شرط نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حالت سفر میں عام نفل پڑھ سکتے ہیں ، اور وتر اور فجر کی سنت سفر اور حضر دونوں میں تاکیداً پڑھنی چاہئے ۔


1225- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْجَارُودِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنِي الْجَارُودُ بْنُ أَبِي سَبْرَةَ؛ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا سَافَرَ فَأَرَادَ أَنْ يَتَطَوَّعَ اسْتَقْبَلَ بِنَاقَتِهِ الْقِبْلَةَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ صَلَّى حَيْثُ وَجَّهَهُ رِكَابُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲)، وقد أخرجہ: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۰ (۱۱۰۰)، م/المسافرین ۴ (۷۰۰)، ن/المساجد ۴۶ (۷۴۲)، ط/ قصر الصلاۃ ۷ (۲۶)، حم (۳/۲۰۳) (حسن)
۱۲۲۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کر تے اور نفل پڑھنے کا ارا دہ کر تے تو اپنی اونٹنی قبلہ رخ کر لیتے اور تکبیر کہتے پھر صلاۃ پڑھتے رہتے خواہ آپ کی سواری کا رخ کسی بھی طرف ہو جا ئے۔


1226- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِي الْحُبَابِ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ مُتَوَجِّهٌ إِلَى خَيْبَرَ۔
* تخريج: م/ المسافرین ۴ (۷۰۰)، ن/الصلاۃ ۲۳ (۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۸۶)، وقد أخرجہ: ط/قصر الصلاۃ ۷ (۲۵)، حم (۲/۷، ۴۹، ۵۲، ۵۷، ۷۵، ۸۳، ۱۲۸) (صحیح)
۱۲۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو گدھے پر صلاۃ پڑھتے دیکھا آپ کا رخ خیبر کی جانب تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خیبرمدینہ منورہ سے اتری سمت کا علاقہ ہے۔


1227- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي حَاجَةٍ، قَالَ: فَجِئْتُ وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، وَالسُّجُودُ أَخْفَضُ مِنَ الرُّكُوعِ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۴۳ (۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۳ ۳۳۲، ۳۷۹، ۳۸۸) (صحیح)
۱۲۲۷- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا، میں( واپس )آیا تو دیکھا کہ آپ اپنی سواری پر مشرق کی جانب رخ کر کے صلاۃ پڑھ رہے ہیں (آپ کا) سجدہ رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھک کر ہوتا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی رکوع اور سجدہ دونوں اشارے سے کرتے اور دونوں میں جھکتے تھے، لیکن سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
278- بَاب الْفَرِيضَةِ عَلَى الرَّاحِلَةِ مِنْ عُذْرٍ
۲۷۸-باب: عذر کی وجہ سے فرض صلاۃ سواری پر پڑھنے کا بیان​


1228- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا: هَلْ رُخِّصَ لِلنِّسَاءِ أَنْ يُصَلِّينَ عَلَى الدَّوَابِّ؟ قَالَتْ: لَمْ يُرَخَّصْ لَهُنَّ فِي ذَلِكَ فِي شِدَّةٍ وَلا رَخَائٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا فِي الْمَكْتُوبَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۹۴) (صحیح)
۱۲۲۸- عطا بن ابی رباح کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا: کیا عورتوں کو چو پایوں پر صلاۃ ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟ آپ نے کہا: مشکل میں ہوں یا سہولت میں،انہیں کسی حالت میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ محمدبن شعیب کہتے ہیں: یہ بات فرض صلاۃ کے سلسلے میں ہے۔
 
Top