• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
259-بَاب فِي أَيِّ وَقْتٍ يُحَوِّلُ رِدَائَهُ إِذَا اسْتَسْقَى
۲۵۹-باب: آدمی استسقا میں اپنی چادر کس وقت پلٹے؟​



1166- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ بِلالٍ- عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي بَكْرِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺخَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى يَسْتَسْقِي، وَأَنَّهُ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ حَوَّلَ رِدَائَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۱۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۷) (صحیح)
۱۱۶۶- عبداللہ بن زیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف بارش طلب کرنے کی غرض سے نکلے، جب آپ نے دعا کرنے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہوئے پھر اپنی چادر پلٹی۔


1167- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الْمَازِنِيَّ يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْمُصَلَّى فَاسْتَسْقَى وَحَوَّلَ رِدَائَهُ حِينَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۱۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۷) (صحیح)
۱۱۶۷- عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید گاہ کی طرف نکلے ، اور (اللہ تعالیٰ سے) بارش طلب کی، اور جس وقت قبلہ رخ ہو ے، اپنی چادر پلٹی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
260-بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الاسْتِسْقَاءِ
۲۶۰-باب: صلاۃِ استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کردعا مانگنے کا بیان​



1168- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ وَعُمَرَ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ؛ عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى بَنِي آبِي اللَّحْمِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺيَسْتَسْقِي عِنْدَ أَحْجَارِ الزَّيْتِ قَرِيبًا مِنَ الزَّوْرَاءِ قَائِمًا يَدْعُو يَسْتَسْقِي رَافِعًا يَدَيْهِ قِبَلَ وَجْهِهِ، لا يُجَاوِزُ بِهِمَا رَأْسَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۰۰)، وقد أخرجہ: ت/الجمعۃ ۴۳ (۵۵۷)، حم (۵/۲۲۳) (صحیح)
۱۱۶۸- عمیر مولیٰ آبی اللحم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو زوراء کے قریب احجار زیت کے پاس کھڑے ہوکر ( اللہ تعالیٰ سے ) بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ چہرے کی طرف اٹھائے بارش کے لئے دعا کررہے تھے اور انہیں اپنے سر سے اوپر نہیں ہونے دیتے تھے ۔


1169- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ يَزِيدَ الْفَقِيرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ بَوَاكِي، فَقَالَ: < اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا مَرِيعًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلا، غَيْرَ آجِلٍ > قَالَ: فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۱) (صحیح)
۱۱۶۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس (بارش نہ ہو نے کی شکایت لے کر) روتے ہوئے آئے توآپ ﷺ نے یوں دعا کی: ’’اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا مَرِيعًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ، عَاجِلا، غَيْرَ آجِلٍ‘‘ یعنی اے اللہ ! ہمیں سیراب فرما، ایسی بارش سے جو ہماری فریاد رسی کرنے والی ہو، اچھے انجام والی ہو، سبزہ اگانے والی ہو، نفع بخش ہو، مضرت رساں نہ ہو، جلد آنے والی ہو، تاخیر سے نہ آنے والی ہو۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :یہ کہتے ہی ان پر با دل چھا گیا ۔


1170- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْئٍ مِنَ الدُّعَاءِ إِلا فِي الاسْتِسْقَاءِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبِطَيْهِ۔
* تخريج: خ/الاستسقاء ۲۲ (۱۰۳۱)، والمناقب ۲۳ (۳۵۶۵)، والدعوات ۲۳ (۶۳۴۱)، م/الاستسقاء ۱ (۸۹۵)، ن/الاستسقاء ۹ (۱۵۱۲)، وقیام اللیل ۵۲ (۱۷۴۹)، ق/إقامۃ ۱۱۸ (۱۱۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۸۱، ۲۸۲)، دي/الصلاۃ ۱۸۹ (۱۵۴۳) (صحیح)
۱۱۷۰- انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جاسکتی تھی ۱؎ ۔
وضاحت۱؎ : یہ روایت ان بہت سی روایتوں کے معارض ہے جن سے استسقا کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر دعا میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ آپ نے جو نفی کی ہے وہ اپنے علم کی حد تک کی ہے، جس سے دوسروں کے علم کی نفی لازم نہیں آتی، یا یہ کہا جائے کہ اس میں ہاتھ زیادہ اٹھانے (رفع بلیغ) کی نفی ہے، یعنی دوسری دعاؤں میں آپ ہاتھ اتنا اونچا نہیں اٹھاتے تھے جتنا استسقا میں اٹھاتے تھے’’حتى رأيت بياض إبطيه‘‘ کے ٹکڑے سے اس قول کی تائید ہورہی ہے ۔


1171- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَسْتَسْقِي هَكَذَا، يَعْنِي: وَمَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي الأَرْضَ، حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ۔
* تخريج: م/الاستسقاء ۱ (۸۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۳)، وقد أخرجہ: (۳/۱۵۳، ۲۴۱) (صحیح)
۱۱۷۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے،یعنی آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اورہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی ۔


1172- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ،أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يَدْعُو عِنْدَ أَحْجَارِ الزَّيْتِ بَاسِطًا كَفَّيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۰۰) (صحیح)
۱۱۷۲- محمد بن ابرا ہیم (تیمی ) کہتے ہیں : مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ احجار زیت کے پاس اپنی دونوں ہتھیلیاں پھیلائے دعا فرمارہے تھے۔


1173- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قُحُوطَ الْمَطَرِ، فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى، وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَبَّرَ ﷺ وَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ عَنْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ، وَقَدْ أَمَرَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَدْعُوهُ، وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ} لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ لاإِلَهَ إِلا أَنْتَ، أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلاغًا إِلَى حِينٍ >، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي الرَّفْعِ حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ، وَقَلَبَ -أَوْ حَوَّلَ- رِدَائَهُ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكِنِّ ضَحِكَ ﷺ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، فَقَالَ: < أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ >.
قَالَ أَبودَاود: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ، أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقْرَئُونَ {مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ} وَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ حُجَّةٌ لَهُمْ۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۴۰) (حسن)
۱۱۷۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارش نہ ہو نے کی شکایت کی تو آپ نے منبر (رکھنے) کا حکم دیا تو وہ آپ کے لئے عید گاہ میں لاکر رکھا گیا ، آپ ﷺ نے لوگوں سے ایک دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا وعدہ لیا، تو رسول اللہ ﷺ (حجرہ سے)اس وقت نکلے جب کہ آفتا ب کا کنا رہ ظاہرہوگیا، آپ ﷺ منبر پر بیٹھے، اللہ تعالی کی تکبیر وتحمید کی پھر فرمایا: ’’تم لوگوں نے بارش میں تاخیر کی وجہ سے اپنی آبادیوں میں قحط سالی کی شکایت کی ہے، اللہ تعالی نے تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس سے دعا کرو اور اس نے تم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ( اگر تم اسے پکاروگے) تو وہ تمہا ری دعا قبول کرے گا‘‘، اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ دعا فرما ئی:
’’{الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ} لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ لاإِلَهَ إِلا أَنْتَ،أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلاغًا إِلَى حِينٍ‘‘۔
(یعنی تما م تعریفیں اللہ رب العا لمین کے لئے ہیں جو رحمن و رحیم ہے اور روز جزا کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، و ہ جوچاہتا ہے، کرتا ہے، اے اللہ! تو ہی معبود حقیقی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی ہے اور ہم فقیر ہیں، تو ہم پر باران رحمت نازل فرمااورجو تو نازل فرما اسے ہمارے لئے قوت( رزق ) بنا دے اور ایک مدت تک اس سے فائدہ پہنچا)۔
پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اوراتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو نے لگی، پھر حاضرین کی طرف پشت کر کے اپنی چادر کو پلٹا، آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہو ے تھے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اتر کر دو رکعت پڑھی ، اسی وقت ( اللہ کے حکم سے) آسمان سے بادل اٹھے ،جن میں گرج اور چمک تھی ،پھر اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ابھی آپ ﷺ اپنی مسجد نہیں آسکے تھے کہ بارش کی کثرت سے نالے بہنے لگے، جب آپ نے لوگوں کو سائبانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور فرمایا : ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند جید ( عمدہ ) ہے، اہل مدینہ ’’مالك يوم الدين‘‘ پڑھتے ہیں اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔


1174- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَخْطُبُنَا يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلَكَ الْكُرَاعُ، هَلَكَ الشَّاءُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا، فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا، قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَائَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ، فَهَاجَتْ رِيحٌ، ثُمَّ أَنْشَأَتْ سَحَابَةً، ثُمَّ اجْتَمَعَتْ، ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا، فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا، فَلَمْ يَزَلِ الْمَطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الأُخْرَى، فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ، أَوْ غَيْرُهُ، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَحْبِسَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ: < حَوَالَيْنَا وَلا عَلَيْنَا > فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ يَتَصَدَّعُ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ ۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۳۴ (۹۳۲)، الاستسقاء ۶ (۱۰۱۳)، ۷ (۱۰۱۴)، ۸ (۱۰۱۵)، ۹ (۱۰۱۶)، ۱۰ (۱۰۱۷)، ۱۱ (۱۰۱۸)، ۱۲ (۱۰۱۹)، ۱۴ (۱۰۲۱)، ۲۱ (۱۰۲۹)، ۲۴ (۱۰۳۳)، المناقب ۲۵ (۳۵۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳)، وقد أخرجہ: الاستسقاء ۱ (۸۹۷)، ۲ (۸۹۷)، ن/الاستسقاء ۱ (۱۵۰۳) ۱۰، حم (۳/۱۰۴، ۱۸۲، ۱۹۴، ۲۴۵،۲۶۱، ۲۷۱) (صحیح)
۱۱۷۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زما نے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! گھوڑے مرگئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چنانچہ آپ ﷺنے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہو ا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہوگئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (صلاۃ پڑھ کر ) واپس ہو نے لگے تو پانی میں ہوکر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ ﷺ کے سامنے کھڑا ہوااوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! گھرگر گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، ( یہ سن کر ) آپ ﷺ مسکرائے پھر فرمایا: ’’اے اللہ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما‘‘۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تومیں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔


1175- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ؛ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ؛ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِالْعَزِيزِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَيْهِ بِحِذَاءِ وَجْهِهِ فَقَالَ: < اللَّهُمَّ اسْقِنَا > وَسَاقَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: خ/الاستسقاء ۶ (۱۰۱۳)، ۷ (۱۰۱۴)، ۹ (۱۰۱۶)، ۱۰ (۱۰۱۷)، م/الاستسقاء ۱ (۸۹۷)، ن/الاستسقاء ۱ (۱۵۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۶) (صحیح)
۱۱۷۵- شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے روایت ہے کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا، پھر راوی نے عبدالعزیز کی روایت کی طرح ذکر کیا اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہا تھوں کو اپنے چہرہ کے بالمقابل اٹھایا اور یہ دعا کی ’’اللَّهُمَّ اسْقِنَاْ‘‘ (اے اللہ! ہمیں سیراب فرما) اور آگے انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی۔


1176- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ [كَانَ يَقُولُ] (ح) وَحَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا اسْتَسْقَى قَالَ: < اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ >، هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ مَالِكٍ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۱۶)، وقد أخرجہ: ط/الاستسقاء عن عمرو بن شعیب مرسلاً ۲ (۳) (حسن)
۱۱۷۶- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش کے لئے دعا مانگتے تو فرماتے: ’’اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ‘‘ اے اللہ ! تو اپنے بندوں اور چوپایوں کو سیراب کر، اور اپنی رحمت عا م کر دے، اور اپنے مر دہ شہر کو زندگی عطافرما ، (یہ مالک کی روایت کے الفاظ ہیں)۔


* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
261- بَاب صَلاةِ الْكُسُوفِ
۲۶۱-باب: صلاۃِ کسوف کا بیان​



1177- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْماَعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ؛ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَخْبَرَنِي مَنْ أُصَدِّقُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ قِيَامًا شَدِيدًا، يَقُومُ بِالنَّاسِ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ: فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ثَلاثُ رَكَعَاتٍ، يَرْكَعُ الثَّالِثَةَ ثُمَّ يَسْجُدُ، حَتَّى إِنَّ رِجَالا يَوْمَئِذٍ لَيُغْشَى عَلَيْهِمْ مِمَّا قَامَ بِهِمْ، حَتَّى إِنَّ سِجَالَ الْمَاءِ لَتُصَبُّ عَلَيْهِمْ يَقُولُ إِذَا رَكَعَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَإِذَا رَفَعَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حَتَّى تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلالِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ، فَإِذَا كُسِفَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلاةِ >۔
* تخريج: م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، ن/الکسوف ۱۰ (۱۴۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۶) (صحیح)
(لیکن ’’تین رکوع ‘‘ والی بات صحیح نہیں ہے ، صحیح دو رکوع ہے ، جیسا کہ حدیث نمبر: (۱۱۸۰) میں آرہا ہے )
۱۱۷۷- عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ مجھے اس شخص نے خبردی ہے جس کو میں سچا جانتا ہوں (عطا کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ان کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں) کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ ﷺ نے لمبا قیام کیا، آپ لوگوں کے ساتھ قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے، پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے پھر قیام میں رہے پھر رکوع میں رہے اس طرح آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں ہر رکعت میں آپ نے تین تین رکوع کیا ۱؎ آپ ﷺتیسرا رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے یہاں تک کہ آپ کے لمبے قیام کے باعث اس دن کچھ لوگوں کو( کھڑے کھڑے) غشی طاری ہوگئی اور ان پر پانی کے ڈول ڈالے گئے، جب آپ ﷺ رکوع کرتے تو ’’الله أكبر‘‘کہتے اور جب رکوع سے سراٹھاتے تو ’’سمع الله لمن حمده‘‘ کہتے یہاں تک کہ سورج روشن ہوگیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی کے مرنے یاجینے کی وجہ سے سورج یا چاند میں گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوڈراتا ہے لہٰذا جب ان دونوں میں گرہن لگے توتم صلاۃ کی طرف دوڑو‘‘۔
وضاحت ۱؎: تین رکوع والی روایت شاذ ہے، صحیح روایت ’’ دو دو رکوع‘‘ کی ہے جیسا کہ حدیث نمبر ( ۱۱۸۰) میں آرہا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
262- بَاب مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ
۲۶۲-باب: صلاۃِ کسوف میں چار رکوع کے قائلین کی دلیل کا بیان​



1178- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنِي عَطَائٌ؛ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَكَانَ ذَلِكَ [فِي] الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا كُسِفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ [ابْنِهِ ﷺ ] فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ: كَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ دُونَ الْقِرَائَةِ الأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ الْقِرَائَةَ الثَّالِثَةَ دُونَ الْقِرَائَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَانْحَدَرَ لِلسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَلاثَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلاالَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنِ الَّتِي بَعْدَهَا؛ إِلا أَنَّ رُكُوعَهُ نَحْوٌ مِنْ قِيَامِهِ، قَالَ: ثُمَّ تَأَخَّرَ فِي صَلاتِهِ، فَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ مَعَهُ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَامَ فِي مَقَامِهِ وَتَقَدَّمَتِ الصُّفُوفُ، فَقَضَى الصَّلاةَ وَقَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لايَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ > وَسَاقَ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ ۔
* تخريج: م/الکسوف ۳ (۹۰۴)، ن/الکسوف ۱۲ (۱۴۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۷۴، ۳۸۲) (صحیح)
(چھ رکوع والی بات شاذ ہے، صحیح ’’ چار رکوع ‘‘ ہے)
۱۱۷۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گر ہن لگا، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گر ہن لگا ہے، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو صلاۃ (کسوف ) پڑھائی، چا ر سجدوں میں چھ رکوع کیا ۱؎ اللہ اکبر کہا ، پھر قرأت کی اور دیر تک قرأت کرتے رہے، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھا یا اور پہلی قرأت کی بہ نسبت مختصر قرأت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھا یا پھر تیسری قرأت کی جو دوسری قرأت کے بہ نسبت مختصر تھی اوراتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اس کے بعد سجدے کے لئے جھکے اور دوسجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیا، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا۔
آپ ﷺ صلاۃ میں پیچھے ہٹے توصفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھرآپ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو سورج (صاف ہو کر )نکل چکا تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگو!سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشا نیاں ہیں، کسی انسان کے مر نے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا، لہٰذ ا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو صلاۃ میں مشغول ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہو جائے‘‘، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔
وضاحت : یہ روایت بھی شاذ ہے ، صحیح روایت دو رکوع کی ہے ، جیسا کہ خود جابررضی اللہ عنہ کی اگلی روایت میں ہے ۔


1179- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبُوالزُّبَيْرِ؛ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِﷺ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ، فَكَانَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعُ سَجَدَاتٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: م/الکسوف ۳ (۹۰۴)، ن/الکسوف ۱۲ (۱۴۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۶)، وقد أخرجہ: (۳/۳۷۴، ۳۸۲، ۳۳۵، ۳۴۹) (صحیح)
۱۱۷۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سخت گرمی کے دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ٔ کرام کو صلاۃِ کسوف پڑھائی، (اس میں ) آپ نے لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے پھرآپ نے رکوع کیا تو لمبا (رکوع ) کیا پھر رکوع سے سراٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا (قیام ) کیا، پھر دو سجدے کئے پھر ( دوسری رکعت کے لئے ) کھڑے ہوئے تو ویسے ہی کیا، اس طرح ( دو رکعت میں ) چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ ۔
وضاحت : اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے دلیل ہے جو ہر رکعت میں دو رکوع کے قائل ہیں، اور یہ دوسری روایت ہی باب سے مطابقت رکھتی ہے لیکن چونکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے دونوں شاگرد عطاء اور ابو الزبیر نے اختلاف کیا ہے، عطا نے جابر رضی اللہ عنہ سے چھ رکوع کی روایت کی ہے اور ابوالزبیر نے ان سے چار رکوع کی روایت کی ہے، اسی لئے مصنف نے صرف دوسری روایت کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے عطا کی روایت بھی ذکر کردی اگرچہ وہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔
امام بخاری اور دوسرے ائمہ نے کہا ہے کہ کسوف (سورج گرہن) کی ان احادیث کو بیان جواز پر محمول کرنا درست نہیں جب تک کہ صلاۃِ استسقا میں تعدد واقعہ نہ ہو اور اس میں تعدد واقعہ نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ ان تمام روایات کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی سورج گرہن کی اس صلاۃ سے ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کے دن پڑھی تھی، ایسی صورت میں دورکوع والی روایتوں کی ترجیح واجب ہے کیونکہ وہ زیادہ صحیح اور مشہور ہیں، اس کے برخلاف ائمہ فقہ وحدیث کی ایک جماعت نے تعدد واقعہ قرار دے کر ان روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسوف کی مدت لمبی ہوجائے تو رکوع کی تعداد تین سے لے کر پانچ تک بڑھا دینا جائز ہے، امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اسے قوی کہا ہے ۔


1180- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ؛ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَتْ: خُسِفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ فَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَائَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قِرَائَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَائَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَائَةِ الأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۴ (۱۰۴۶)، ۵ (۱۰۴۷)، ۱۳ (۱۰۵۸)، والعمل في الصلاۃ ۱۱ (۱۲۱۲)، وبدء الخلق ۴ (۳۱۹۹)، م/ الکسوف ۱ (۹۰۱)، ن/ الکسوف ۱۱ (۱۴۷۶)، ق/ إقامۃ الصلاۃ ۱۵۲ (۱۲۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۲)، وقد أخرجہ: ت/ الصلاۃ ۲۷۹ (الجمعۃ ۴۴) (۵۶۱)، ط/صلاۃ الکسوف ۱ (۱)، حم (۶/۷۶، ۷۸، ۱۶۴،۱۶۸)، دي/ الصلاۃ ۱۸۷ (۱۵۶۸) (صحیح)
۱۱۸۰- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور (صلاۃ کے لئے ) کھڑے ہوئے ، آپ ﷺ نے ’’الله أكبر‘‘ کہا اورلوگوں نے آپ کے پیچھے صف لگا ئی ،آپ ﷺ نے لمبی قراءت کی پھر ’’الله أكبر‘‘ کہہ کر لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘ کہا، پھر کھڑے رہے اور لمبی قرأت کی، اور یہ پہلی قرأت سے کچھ مختصر تھی، پھر آپ ﷺ نے ’’الله أكبر‘‘ کہہ کر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، ( پھر رکوع سے سرا ٹھایا ) اور ’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘ کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا اس طرح ( دو رکعت میں) آپ نے پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے، اور آپ کے صلاۃ سے فارغ ہو نے سے پہلے سورج روشن ہو گیا۔


1181- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ، مِثْلَ حَدِيثِ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۴ (۱۰۵۲)، م/ الکسوف ۱ (۹۰۷)، ن/ الکسوف ۹ (۱۴۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۳۵) (صحیح)
۱۱۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی صلاۃ پڑھی، جیسے عروہ ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے دورکعت پڑھی اور ہر رکعت میں دو رکوع کیا۔


1182- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ بْنِ خَالِدٍ أَبُو مَسْعُودٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، قَالَ أَبودَاود: وَحُدِّثْتُ عَنْ عُمَرَ بْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، وَهَذَا لَفْظُهُ وَهُوَ أَتَمُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ؛ عَنْ أُبَيِّ ابْنِ كَعْبٍ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى بِهِمْ فَقَرَأَ بِسُورَةٍ مِنَ الطُّوَلِ، وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِيَةَ فَقَرَأَ سُورَةً مِنَ الطُّوَلِ، وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ كَمَا هُوَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ يَدْعُو حَتَّى انْجَلَى كُسُوفُهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۳۴) (ضعیف)
(بلکہ منکر ہے کیوں کہ ابو جعفر رازی ضعیف ہیں اور ثقات کی مخالفت کئے ہوئے ہیں )
۱۱۸۲- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا اورنبی اکرم ﷺ نے انہیں (دو رکعت ) پڑھائی تو آپ نے لمبی سورتوں میں سے ایک سورہ کی قرأت کی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے تو اس میں بھی لمبی سورتوں میں سے ایک سورت کی قرأت فر ما ئی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے، پھر قبلہ رخ بیٹھے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گرہن چھٹ گیا۔


1183- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ طَاوُسٍ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ: فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، وَالأُخْرَى مِثْلُهَا۔
* تخريج: م/الکسوف ۴ (۹۰۸)، ت/الصلاۃ ۲۷۹ (الجمعۃ ۴۴) (۵۶۰)، ن/الکسوف ۸ (۱۴۶۸-۱۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۲۱۶، ۲۲۵،۲۹۸، ۳۴۶، ۳۵۸)، دي/ الصلاۃ ۱۸۷(۱۵۳۴)
(تین طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں دو رکوع ، اور دو سجدہ کا تذکرہ ہے، اس لئے علماء کے قول کے مطابق حبیب نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اور یہ مدلس ہیں، اور ان کی روایت عنعنہ سے ہے) (ملاحظہ ہو: ضعیف سنن ابی داود ۲؍ ۲۰)
۱۱۸۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے سورج گرہن کی صلاۃ پڑھی توقرأت کی، پھر رکوع کیا ، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھرقرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا ،اور دوسری (رکعت) بھی اسی طرح پڑھی۔


1184- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ؛ حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ: بَيْنَمَا أَنَاوَغُلامٌ مِنَ الأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، فَاسْتَقْدَمَ فَصَلَّى، فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسُ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ سَاقَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۸۰ (الجمعۃ ۴۵) (۵۶۲)، ن/الکسوف ۱۵ (۱۴۸۵)، ۱۹ (۱۴۹۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۲ (۱۲۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۳) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ ثعلبہ ‘‘ لین الحدیث ہیں )
۱۱۸۴- اسود بن قیس کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن عباد عبدی (جو اہل بصرہ میں سے ہیں) نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر رہے، سمرہ رضی اللہ عنہ نے ( خطبہ میں ) کہا: میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو نیزہ یا تین نیزہ کے برابر رہ گیا تو اسی دوران وہ دفعۃً سیاہ ہوگیا پھر گویا وہ تنومہ ۱؎ ہوگیا، تو ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: تم ہمارے ساتھ مسجد چلو کیونکہ اللہ کی قسم سورج کا یہ حال ہونا رسول اللہ ﷺ کی امت میں کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، تو ہم چلے تو دیکھتے ہیں کہ مسجد بھری ۲؎ ہے پھرنبی اکرم ﷺ آگے بڑھے اور آپ نے صلاۃ پڑھائی، اور ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی صلاۃ میں اتنا لمبا قیام نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ اتنا لمبا رکوع کیا کہ اتنا لمبا رکوع کسی صلاۃ میں نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۳؎ پھر آپ ﷺ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی بھی کسی صلاۃ میں ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، پھر آپ ﷺ نے دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا ۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : دوسری رکعت پڑھ کر آپ ﷺ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج روشن ہوگیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور گواہی دی کہ ’’ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘، پھر احمد بن یونس نے نبی اکرم ﷺ کا پورا خطبہ بیان کیا ۔
وضاحت : یہ ایک قسم کا پودا ہے جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے ۔
وضاحت : ’’فإذا هو بَارِزٌ‘‘ میں غلطی ہوئی ہے،صحیح ’’فإذا هو بأُزُزٍ‘‘ ہے، ’ ’ أُزُزْ‘‘ جس کے معنی بھیڑ اور بڑے مجمع کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ لوگ مسجد میں جمع ہیں اور وہ بھری ہوئی ہے ۔
وضاحت : ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کو قرأت کی آواز دور ہونے کے سبب سنائی نہ دے رہی ہو ، ویسے یہ حدیث ضعیف ہے صحیح روایات میں جہری قرأت کا تذکرہ موجود ہے ۔


1185- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْماَعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ؛ عَنْ قَبِيصَةَ الْهِلالِيِّ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَخَرَجَ فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَانْجَلَتْ، فَقَالَ: < إِنَّمَا هَذِهِ الآيَاتُ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنَ الْمَكْتُوبَةِ > ۔
* تخريج: ن/الکسوف ۱۶ (۱۴۸۷، ۱۴۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۰) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابو قلابہ‘‘ مدلس ہیں، اور یہاں عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، نیز سند و متن میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، کبھی تو قبیصہ کا نام لیتے ہیں، کبھی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا جیسا کہ حدیث نمبر (۱۱۹۳) میں آرہا ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے ’’إرواء الغليل للألباني، نمبر: ۶۶۲)
۱۱۸۵- قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا توآپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے نکلے اس دن میں آپ کے ساتھ مدینہ ہی میں تھا، آپ ﷺ نے دو رکعت صلاۃ پڑھائی اوران میں لمبا قیام فرمایا، پھر صلاۃ سے فارغ ہوئے اور سورج روشن ہوگیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک یہ نشانیاں ہیں، جن کے ذریعہ اللہ ( بندوں کو ) ڈراتا ہے لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو صلاۃ پڑھو جیسے تم نے قریب کی فرض صلاۃ پڑھی ہو ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃِ کسوف اپنے سے پہلے فرض صلاۃ کے مطابق ہوگی، لیکن صاحب منتقی الأخبار امام عبدالسلام ابن تیمیہ نے ان احادیث کو ترجیح دی ہے جن میں تکرار رکوع کے ساتھ دو رکعتوں کا ذکر ہے کیونکہ وہ روایتیں صحیحین کی ہیں اور متعدد طرق سے مروی ہیں جب کہ یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے ۔


1186- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ؛ عَنْ هِلالِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ قَبِيصَةَ الْهِلالِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ الشَّمْسَ كُسِفَتْ، بِمَعْنَى حَدِيثِ مُوسَى، قَالَ: حَتَّى بَدَتِ النُّجُومُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۵) (ضعیف)
۱۱۸۶- ہلال بن عامر سے روایت ہے کہ قبیصہ ہلا لی نے ان سے بیان کیا ہے کہ سورج میں گرہن لگا، پھر انہوں نے موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی، اس میں ہے: یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
263- بَاب الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْكُسُوفِ
۲۶۳-باب: صلاۃ کسوف کی قرأت کا بیان​



1187- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، كُلُّهُمْ قَدْ حَدَّثَنِي عَنْ عُرْوَةَ؛ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَائَتَهُ فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَائَةَ، فَحَزَرْتُ قِرَائَتَهُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۴۵، ۱۶۳۵۲، ۱۷۱۸۵)، وقد أخرجہ: (حم ۶/۳۲) (حسن) صححه الحاكم (1/ 333)
۱۱۸۷- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گر ہن لگا توآپ نکلے اور لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، آپ ﷺ نے قیام کیا تومیں نے آپ کی قرأت کا اندازہ لگا یا تومجھے لگا کہ آپ نے سورہ بقرۃ کی قرأت کی ہے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ ﷺ نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرأت کی، میں نے آپ کی قرأت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورہ آل عمران کی قرأت کی ہے۔


1188- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ؛ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَأَ قِرَائَةً طَوِيلَةً فَجَهَرَ بِهَا، يَعْنِي فِي صَلاةِ الْكُسُوفِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۱۷) (صحیح
۱۱۸۸- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے لمبی قرأت کی اور اس میں جہر کیا یعنی صلاۃ کسوف میں ۱؎
وضاحت : اس سے معلوم ہوا کہ کسوف (گرہن) کی صلاۃ میں قرأت جہری ہونی چاہئے، یہی جمہور محدثین کا مذہب ہے۔


1189- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خُسِفَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلا بِنَحْوٍ مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: خ/ الصلاۃ ۵۱ (۴۳۱)، الکسوف ۹ (۱۰۵۲)، م/الکسوف ۳ (۹۰۷)، ن/الکسوف ۱۷ (۱۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۸، ۳۵۸) (صحیح)
۱۱۸۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تورسول اللہ ﷺ نے گرہن کی صلاۃ پڑھی اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی، آپ ﷺ نے سورہ بقرہ کی قرأت کے برابر طویل قیام کیا، پھر رکوع کیا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
264-بَاب يُنَادَى فِيهَا بِالصَّلاةِ​
۲۶۴-باب: صلاۃِ کسوف (سورج یا چاندگرہن کی صلاۃ) کے اعلان کا بیان​



1190- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ نَمِرٍ أَنَّهُ سَأَلَ الزُّهْرِيَّ، فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ؛ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَجُلا، فَنَادَى: أَنِ الصَّلاةُ جَامِعَةٌ۔
* تخريج: خ/الکسوف (۱۰۶۵)، م/الکسوف ۱ (۹۰۱)، ن/الکسوف ۱۸ (۱۴۹۵)، ۲۱ (۱۴۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲۸) (صحیح)
۱۱۹۰- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ صلاۃ( کسوف )جماعت سے ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
265-بَاب الصَّدَقَةِ فِيهَا
۲۶۵-باب: سورج یا چاند گرہن لگنے پر صدقہ کرنے کا بیان​




1191- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ؛ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لا يُخْسَفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلالِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ، وَكَبِّرُوا، وَتَصَدَّقُوا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۴۸، ۱۷۱۷۳) (صحیح)

۱۱۹۱- ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’سورج اور چاند میں گرہن کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں لگتا ہے، جب تم اسے دیکھو تو اللہ عزوجل سے دعا کرو اور اس کی بڑا ئی بیان کرو اور صدقہ و خیرات کرو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
266- بَاب الْعِتْقِ فِيهَا
۲۶۶-باب: گرہن لگنے پر غلام آزاد کرنے کا بیان​



1192- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ فَاطِمَةَ؛ عَنْ أَسْمَائَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْمُرُ بِالْعَتَاقَةِ فِي صَلاةِ الْكُسُوفِ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۱۱ (۱۰۵۴)، والعتق ۳ (۲۵۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۴۵)، دي/الصلاۃ ۱۸۷ (۱۵۳۹) (صحیح)

۱۱۹۲- اسما ء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صلاۃِ کسو ف میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
267-بَاب مَنْ قَالَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ
۲۶۷-باب: صلاۃِ کسوف کی ہررکعت میں ایک ایک رکوع ہے اس کے قائلین کی دلیل​


1193- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ؛ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَجَعَلَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، رَكْعَتَيْنِ، وَيَسْأَلُ عَنْهَا، حَتَّى انْجَلَتْ۔
* تخريج: ن/الکسوف ۱۶ (۱۴۸۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۲ (۱۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۱، ۲۷۷) (منکر) (دیکھئے حدیث نمبر : ۱۱۸۵)

۱۱۹۳- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ دو دو رکعتیں پڑھتے جاتے اور سورج کے متعلق پو چھتے جاتے یہاں تک کہ وہ صاف ہو گیا۔


1194- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ يَكَدْ يَرْكَعُ، ثُمَّ رَكَعَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ، فَلَمْ يَكَدْ يَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ، فَلَمْ يَكَدْ يَرْفَعُ ثُمَّ رَفَعَ، وَفَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ نَفَخَ فِي آخِرِ سُجُودِهِ، فَقَالَ: < أُفْ أُفْ >، ثُمَّ قَالَ: < رَبِّ، أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَافِيهِمْ؟ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؟ > فَفَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ صَلاتِهِ وَقَدْ أَمْحَصَتِ الشَّمْسُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: ن/الکسوف ۱۴ (۱۴۸۳)، ۲۰ (۱۴۹۷)، ت/الشمائل ۴۴ (۳۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۹)، وقد أخرجہ: خ/الکسوف ۳ (۱۰۴۵)، ۸ (۱۰۵۸)، م/الکسوف ۵ (۹۱۰)، حم (۲/۱۷۵) (صحیح)

(ہررکعت میں دورکوع کے ذکر کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے، جیساکہ صحیحین میں مروی ہے )
۱۱۹۴- عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا، توآپ صلاۃِ کسوف کے لئے کھڑے ہوئے توایسا لگا کہ آپ ﷺ رکوع ہی نہیں کریں گے، پھر رکوع کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ رکوع سے سراٹھائیں گے ہی نہیں، پھرسر اٹھایا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے، پھر سجدے سے سر اٹھا یا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدہ ہی نہیں کریں گے، پھر سجدہ کیا تو ایسا لگا کہ آپ ﷺ سجدے سے سر ہی نہیں اٹھائیں گے،پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھایا ،پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، پھر اخیر سجدے میں آپ ﷺ نے پھونک ماری اور ’’اف اف‘‘ کہا: پھر فرمایا : ’’اے میرے رب! کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں رہوں گا ؟ کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ تو انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے؟‘‘، پھر رسول اللہ ﷺ صلاۃ سے فارغ ہوئے اورحال یہ تھا کہ سورج بالکل صاف ہو گیا تھا، پھر راوی نے پو ری حدیث بیان کی۔


ٍ 1195- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ؛ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: بَيْنَمَا أَتَرَمَّى بِأَسْهُمٍ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ كُسِفَتِ الشَّمْسُ، فَنَبَذْتُهُنَّ وَقُلْتُ: لأَنْظُرَنَّ مَا أَحْدَثَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ كُسُوفُ الشَّمْسِ الْيَوْمَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، يُسَبِّحُ وَيُحَمِّدُ وَيُهَلِّلُ وَيَدْعُو، حَتَّى حُسِرَ عَنِ الشَّمْسِ، فَقَرَأَ بِسُورَتَيْنِ، وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: م/الکسوف ۵ (۹۱۳)، ن/ السکوف ۲ (۱۴۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/ ۶۱، ۶۲) (صحیح)

۱۱۹۵- عبدالر حمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تیراندازی کی مشق کررہا تھا کہ اسی دوران سورج گرہن لگا تو میں نے انہیں پھینک دیا اورکہا کہ میں ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے یہ سورج گرہن آج کیا نیا واقعہ رونما کرے گا، تو میں آپ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے اللہ کی تسبیح، تحمید اور تہلیل اور دعا کر رہے تھے یہاں تک کہ سورج سے گرہن چھٹ گیا، اس وقت آپ نے (صلاۃِ کسوف کی دونوں رکعتوں) میں دوسورتیں پڑھیں اور دو رکوع کئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
268- بَاب الصَّلاةِ عِنْدَ الظُّلْمَةِ وَنَحْوِهَا
۲۶۸-باب: تا ریکی اوراس جیسی حالت کے وقت صلاۃ پڑھنے کا بیان​


1196- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، حَدَّثَنِي حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ؛ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ النَّضْرِ، حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: كَانَتْ ظُلْمَةٌ عَلَى عَهْدِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُ أَنَسًا، فَقُلْتُ: يَاأَبَاحَمْزَةَ! هَلْ كَانَ يُصِيبُكُمْ مِثْلُ هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ قَالَ: مَعَاذَاللَّهِ، إِنْ كَانَتِ الرِّيحُ لَتَشْتَدُّ فَنُبَادِرُ الْمَسْجِدَ مَخَافَةَ الْقِيَامَةِ۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۵) (ضعیف)
(اس کے راوی’’نضر بن عبداللہ قیسی ‘‘ مجہول ہیں)
۱۱۹۶- نضر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تا ریکی چھا گئی، تو میں آپ کے پاس آیا اورکہا: ابو حمزہ! کیا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی آپ لوگوں پراس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی؟ انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ، اگر ہوا ذرا زور سے چلنے لگتی تو ہم قیامت کے خوف سے بھاگ کر مسجد آجاتے تھے۔
 
Top