262- بَاب مَنْ قَالَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ
۲۶۲-باب: صلاۃِ کسوف میں چار رکوع کے قائلین کی دلیل کا بیان
1178- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنِي عَطَائٌ؛ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَكَانَ ذَلِكَ [فِي] الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا كُسِفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ [ابْنِهِ ﷺ ] فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ: كَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَائَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ دُونَ الْقِرَائَةِ الأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَرَأَ الْقِرَائَةَ الثَّالِثَةَ دُونَ الْقِرَائَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَانْحَدَرَ لِلسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ ثَلاثَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلاالَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنِ الَّتِي بَعْدَهَا؛ إِلا أَنَّ رُكُوعَهُ نَحْوٌ مِنْ قِيَامِهِ، قَالَ: ثُمَّ تَأَخَّرَ فِي صَلاتِهِ، فَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ مَعَهُ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَامَ فِي مَقَامِهِ وَتَقَدَّمَتِ الصُّفُوفُ، فَقَضَى الصَّلاةَ وَقَدْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ: < يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لايَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ > وَسَاقَ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ ۔
* تخريج: م/الکسوف ۳ (۹۰۴)، ن/الکسوف ۱۲ (۱۴۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۷۴، ۳۸۲) (صحیح)
(چھ رکوع والی بات شاذ ہے، صحیح ’’ چار رکوع ‘‘ ہے)
۱۱۷۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں سورج گر ہن لگا، یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی، لوگ کہنے لگے کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گر ہن لگا ہے، نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو صلاۃ (کسوف ) پڑھائی، چا ر سجدوں میں چھ رکوع کیا ۱؎ اللہ اکبر کہا ، پھر قرأت کی اور دیر تک قرأت کرتے رہے، پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھا یا اور پہلی قرأت کی بہ نسبت مختصر قرأت کی پھر اتنی ہی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھا یا پھر تیسری قرأت کی جو دوسری قرأت کے بہ نسبت مختصر تھی اوراتنی دیر تک رکوع کیا جتنی دیر تک قیام کیا تھا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، اس کے بعد سجدے کے لئے جھکے اور دوسجدے کئے، پھر کھڑے ہوئے اور سجدے سے پہلے تین رکوع کیا، ہر رکوع اپنے بعد والے سے زیادہ لمبا ہوتا تھا، البتہ رکوع قیام کے برابر ہوتا تھا۔
آپ ﷺ صلاۃ میں پیچھے ہٹے توصفیں بھی آپ کے ساتھ پیچھے ہٹیں، پھر آپ آگے بڑھے اور اپنی جگہ چلے گئے تو صفیں بھی آگے بڑھ گئیں پھرآپ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو سورج (صاف ہو کر )نکل چکا تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگو!سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشا نیاں ہیں، کسی انسان کے مر نے کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا، لہٰذ ا جب تم اس میں سے کچھ دیکھو تو صلاۃ میں مشغول ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ صاف ہو کر روشن ہو جائے‘‘، اور راوی نے بقیہ حدیث بیان کی۔
وضاحت : یہ روایت بھی شاذ ہے ، صحیح روایت دو رکوع کی ہے ، جیسا کہ خود جابررضی اللہ عنہ کی اگلی روایت میں ہے ۔
1179- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبُوالزُّبَيْرِ؛ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِﷺ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَلِكَ، فَكَانَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعُ سَجَدَاتٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: م/الکسوف ۳ (۹۰۴)، ن/الکسوف ۱۲ (۱۴۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۶)، وقد أخرجہ: (۳/۳۷۴، ۳۸۲، ۳۳۵، ۳۴۹) (صحیح)
۱۱۷۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سخت گرمی کے دن میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ ٔ کرام کو صلاۃِ کسوف پڑھائی، (اس میں ) آپ نے لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے پھرآپ نے رکوع کیا تو لمبا (رکوع ) کیا پھر رکوع سے سراٹھایا تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو لمبا (قیام ) کیا، پھر دو سجدے کئے پھر ( دوسری رکعت کے لئے ) کھڑے ہوئے تو ویسے ہی کیا، اس طرح ( دو رکعت میں ) چار رکوع اور چار سجدے ہوئے اور راوی نے پوری حدیث بیان کی ۱؎ ۔
وضاحت : اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے دلیل ہے جو ہر رکعت میں دو رکوع کے قائل ہیں، اور یہ دوسری روایت ہی باب سے مطابقت رکھتی ہے لیکن چونکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے دونوں شاگرد عطاء اور ابو الزبیر نے اختلاف کیا ہے، عطا نے جابر رضی اللہ عنہ سے چھ رکوع کی روایت کی ہے اور ابوالزبیر نے ان سے چار رکوع کی روایت کی ہے، اسی لئے مصنف نے صرف دوسری روایت کے ذکر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے عطا کی روایت بھی ذکر کردی اگرچہ وہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔
امام بخاری اور دوسرے ائمہ نے کہا ہے کہ کسوف (سورج گرہن) کی ان احادیث کو بیان جواز پر محمول کرنا درست نہیں جب تک کہ صلاۃِ استسقا میں تعدد واقعہ نہ ہو اور اس میں تعدد واقعہ نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ ان تمام روایات کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی سورج گرہن کی اس صلاۃ سے ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کے دن پڑھی تھی، ایسی صورت میں دورکوع والی روایتوں کی ترجیح واجب ہے کیونکہ وہ زیادہ صحیح اور مشہور ہیں، اس کے برخلاف ائمہ فقہ وحدیث کی ایک جماعت نے تعدد واقعہ قرار دے کر ان روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسوف کی مدت لمبی ہوجائے تو رکوع کی تعداد تین سے لے کر پانچ تک بڑھا دینا جائز ہے، امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اسے قوی کہا ہے ۔
1180- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ؛ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَتْ: خُسِفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ فَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَائَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قِرَائَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَائَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَائَةِ الأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۴ (۱۰۴۶)، ۵ (۱۰۴۷)، ۱۳ (۱۰۵۸)، والعمل في الصلاۃ ۱۱ (۱۲۱۲)، وبدء الخلق ۴ (۳۱۹۹)، م/ الکسوف ۱ (۹۰۱)، ن/ الکسوف ۱۱ (۱۴۷۶)، ق/ إقامۃ الصلاۃ ۱۵۲ (۱۲۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۲)، وقد أخرجہ: ت/ الصلاۃ ۲۷۹ (الجمعۃ ۴۴) (۵۶۱)، ط/صلاۃ الکسوف ۱ (۱)، حم (۶/۷۶، ۷۸، ۱۶۴،۱۶۸)، دي/ الصلاۃ ۱۸۷ (۱۵۶۸) (صحیح)
۱۱۸۰- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن لگا تو آپ مسجد کی طرف نکلے اور (صلاۃ کے لئے ) کھڑے ہوئے ، آپ ﷺ نے ’’الله أكبر‘‘ کہا اورلوگوں نے آپ کے پیچھے صف لگا ئی ،آپ ﷺ نے لمبی قراءت کی پھر ’’الله أكبر‘‘ کہہ کر لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور
’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘ کہا، پھر کھڑے رہے اور لمبی قرأت کی، اور یہ پہلی قرأت سے کچھ مختصر تھی، پھر آپ ﷺ نے ’’الله أكبر‘‘ کہہ کر لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کچھ مختصر تھا، ( پھر رکوع سے سرا ٹھایا ) اور
’’سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ‘‘ کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا اس طرح ( دو رکعت میں) آپ نے پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے، اور آپ کے صلاۃ سے فارغ ہو نے سے پہلے سورج روشن ہو گیا۔
1181- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ، مِثْلَ حَدِيثِ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: خ/الکسوف ۴ (۱۰۵۲)، م/ الکسوف ۱ (۹۰۷)، ن/ الکسوف ۹ (۱۴۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۳۵) (صحیح)
۱۱۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کی صلاۃ پڑھی، جیسے عروہ ام المؤمنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے دورکعت پڑھی اور ہر رکعت میں دو رکوع کیا۔
1182- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ بْنِ خَالِدٍ أَبُو مَسْعُودٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، قَالَ أَبودَاود: وَحُدِّثْتُ عَنْ عُمَرَ بْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، وَهَذَا لَفْظُهُ وَهُوَ أَتَمُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ؛ عَنْ أُبَيِّ ابْنِ كَعْبٍ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى بِهِمْ فَقَرَأَ بِسُورَةٍ مِنَ الطُّوَلِ، وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِيَةَ فَقَرَأَ سُورَةً مِنَ الطُّوَلِ، وَرَكَعَ خَمْسَ رَكَعَاتٍ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ كَمَا هُوَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ يَدْعُو حَتَّى انْجَلَى كُسُوفُهَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۳۴) (ضعیف)
(بلکہ منکر ہے کیوں کہ ابو جعفر رازی ضعیف ہیں اور ثقات کی مخالفت کئے ہوئے ہیں )
۱۱۸۲- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا اورنبی اکرم ﷺ نے انہیں (دو رکعت ) پڑھائی تو آپ نے لمبی سورتوں میں سے ایک سورہ کی قرأت کی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے، پھر دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے تو اس میں بھی لمبی سورتوں میں سے ایک سورت کی قرأت فر ما ئی اور پانچ رکوع اور دو سجدے کئے، پھر قبلہ رخ بیٹھے دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گرہن چھٹ گیا۔
1183- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ طَاوُسٍ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ: فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، وَالأُخْرَى مِثْلُهَا۔
* تخريج: م/الکسوف ۴ (۹۰۸)، ت/الصلاۃ ۲۷۹ (الجمعۃ ۴۴) (۵۶۰)، ن/الکسوف ۸ (۱۴۶۸-۱۴۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۲۱۶، ۲۲۵،۲۹۸، ۳۴۶، ۳۵۸)، دي/ الصلاۃ ۱۸۷(۱۵۳۴)
(تین طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں دو رکوع ، اور دو سجدہ کا تذکرہ ہے، اس لئے علماء کے قول کے مطابق حبیب نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اور یہ مدلس ہیں، اور ان کی روایت عنعنہ سے ہے) (ملاحظہ ہو: ضعیف سنن ابی داود ۲؍ ۲۰)
۱۱۸۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے سورج گرہن کی صلاۃ پڑھی توقرأت کی، پھر رکوع کیا ، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھرقرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا ،اور دوسری (رکعت) بھی اسی طرح پڑھی۔
1184- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ؛ حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ: بَيْنَمَا أَنَاوَغُلامٌ مِنَ الأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، فَاسْتَقْدَمَ فَصَلَّى، فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلاةٍ قَطُّ، لا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسُ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ سَاقَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۸۰ (الجمعۃ ۴۵) (۵۶۲)، ن/الکسوف ۱۵ (۱۴۸۵)، ۱۹ (۱۴۹۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۵۲ (۱۲۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۳) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ ثعلبہ ‘‘ لین الحدیث ہیں )
۱۱۸۴- اسود بن قیس کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن عباد عبدی (جو اہل بصرہ میں سے ہیں) نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر رہے، سمرہ رضی اللہ عنہ نے ( خطبہ میں ) کہا: میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو نیزہ یا تین نیزہ کے برابر رہ گیا تو اسی دوران وہ دفعۃً سیاہ ہوگیا پھر گویا وہ تنومہ ۱؎ ہوگیا، تو ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: تم ہمارے ساتھ مسجد چلو کیونکہ اللہ کی قسم سورج کا یہ حال ہونا رسول اللہ ﷺ کی امت میں کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، تو ہم چلے تو دیکھتے ہیں کہ مسجد بھری ۲؎ ہے پھرنبی اکرم ﷺ آگے بڑھے اور آپ نے صلاۃ پڑھائی، اور ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی صلاۃ میں اتنا لمبا قیام نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ اتنا لمبا رکوع کیا کہ اتنا لمبا رکوع کسی صلاۃ میں نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۳؎ پھر آپ ﷺ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی بھی کسی صلاۃ میں ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ، پھر آپ ﷺ نے دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا ۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : دوسری رکعت پڑھ کر آپ ﷺ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج روشن ہوگیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور گواہی دی کہ ’’ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘، پھر احمد بن یونس نے نبی اکرم ﷺ کا پورا خطبہ بیان کیا ۔
وضاحت : یہ ایک قسم کا پودا ہے جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے ۔
وضاحت :
’’فإذا هو بَارِزٌ‘‘ میں غلطی ہوئی ہے،صحیح
’’فإذا هو بأُزُزٍ‘‘ ہے،
’ ’ أُزُزْ‘‘ جس کے معنی بھیڑ اور بڑے مجمع کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ لوگ مسجد میں جمع ہیں اور وہ بھری ہوئی ہے ۔
وضاحت : ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کو قرأت کی آواز دور ہونے کے سبب سنائی نہ دے رہی ہو ، ویسے یہ حدیث ضعیف ہے صحیح روایات میں جہری قرأت کا تذکرہ موجود ہے ۔
1185- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْماَعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ؛ عَنْ قَبِيصَةَ الْهِلالِيِّ، قَالَ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَخَرَجَ فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَانْجَلَتْ، فَقَالَ: < إِنَّمَا هَذِهِ الآيَاتُ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنَ الْمَكْتُوبَةِ > ۔
* تخريج: ن/الکسوف ۱۶ (۱۴۸۷، ۱۴۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۰) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ابو قلابہ‘‘ مدلس ہیں، اور یہاں عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، نیز سند و متن میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، کبھی تو قبیصہ کا نام لیتے ہیں، کبھی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا جیسا کہ حدیث نمبر (۱۱۹۳) میں آرہا ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے ’’إرواء الغليل للألباني، نمبر: ۶۶۲)
۱۱۸۵- قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن لگا توآپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے نکلے اس دن میں آپ کے ساتھ مدینہ ہی میں تھا، آپ ﷺ نے دو رکعت صلاۃ پڑھائی اوران میں لمبا قیام فرمایا، پھر صلاۃ سے فارغ ہوئے اور سورج روشن ہوگیا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک یہ نشانیاں ہیں، جن کے ذریعہ اللہ ( بندوں کو ) ڈراتا ہے لہٰذا جب تم ایسا دیکھو تو صلاۃ پڑھو جیسے تم نے قریب کی فرض صلاۃ پڑھی ہو ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃِ کسوف اپنے سے پہلے فرض صلاۃ کے مطابق ہوگی، لیکن صاحب منتقی الأخبار امام عبدالسلام ابن تیمیہ نے ان احادیث کو ترجیح دی ہے جن میں تکرار رکوع کے ساتھ دو رکعتوں کا ذکر ہے کیونکہ وہ روایتیں صحیحین کی ہیں اور متعدد طرق سے مروی ہیں جب کہ یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے ۔
1186- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ؛ عَنْ هِلالِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ قَبِيصَةَ الْهِلالِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ الشَّمْسَ كُسِفَتْ، بِمَعْنَى حَدِيثِ مُوسَى، قَالَ: حَتَّى بَدَتِ النُّجُومُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۵) (ضعیف)
۱۱۸۶- ہلال بن عامر سے روایت ہے کہ قبیصہ ہلا لی نے ان سے بیان کیا ہے کہ سورج میں گرہن لگا، پھر انہوں نے موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی، اس میں ہے: یہاں تک کہ ستارے دکھائی دینے لگے۔