• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
310- بَاب مَنْ نَوَى الْقِيَامَ فَنَامَ
۳۱۰-باب: جس نے تہجد کی نیت کی پھر سویا رہ گیا​



1314- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ عِنْدَهُ رَضِيٍّ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَا مِنِ امْرِئٍ تَكُونُ لَهُ صَلاةٌ بِلَيْلٍ يَغْلِبُهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ إِلا كُتِبَ لَهُ أَجْرُ صَلاتِهِ، وَكَانَ نَوْمُهُ عَلَيْهِ صَدَقَةً >۔
* تخريج: ن/قیام اللیل ۵۲ (۱۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۰۷)، وقد أخرجہ: ط/ صلاۃ اللیل ۱ (۱)، حم (۶/۶۳، ۷۲، ۱۸۰) (صحیح)
۱۳۱۴- سعید بن جبیر نے ایک ایسے شخص سے جوان کے نزدیک پسندیدہ ہے روایت کی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص جو رات کو تہجد پڑھتا ہو اور کسی رات اس پر نیند غالب آجائے (اور وہ نہ اٹھ سکے) تو اس کے لئے صلاۃ کا ثواب لکھا جائے گا، اس کی نیند اس پر صدقہ ہوگی‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
311-بَاب أَيِّ اللَّيْلِ أَفْضَلُ
۳۱۱-باب: رات کا کون سا حصہ عبادت کے لئے زیادہ بہتر ہے؟​



1315- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَعَنْ أَبِي عَبْدِاللَّهِ الأَغَرِّ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، فَيَقُولُ: مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ >۔
* تخريج: خ/التھجد ۱۴ (۱۱۴۵)، والدعوات ۱۴ (۶۳۲۱)، والتوحید ۳۵ (۷۴۹۴)، م/المسافرین ۲۴ (۷۵۸)، ت/الصلاۃ ۲۱۲ (۴۴۶)، والدعوات ۷۹ (۳۴۹۸)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸۲ (۱۳۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۶۳، ۱۵۲۴۱)، وقد أخرجہ: ط/ القرآن ۸ (۳۰)، حم (۲/۲۶۴، ۲۶۷، ۲۸۳، ۴۱۹، ۴۸۷)، دي/الصلاۃ ۱۶۸ (۱۵۱۹)، ویأتي برقم (۴۷۳۳) (صحیح)
۱۳۱۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا رب ہر رات جس وقت رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جا تا ہے، آسمان د نیا پر اتر تا ہے ۱؎ ، پھر فرماتا ہے: کون مجھ سے دعا کر تا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں؟ کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں ؟ ‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے اللہ رب العزت کے لئے نزول کی صفت ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول سے اس سلسلے میں ثابت ہے اس پر ہم صدق دل سے ایمان لے آئیں اور ان صفات کا نہ تو انکار کریں، اور نہ ان کے حقیقی معانی کو معطل کریں، اور نہ ہی کسی صفت کو کسی مخلوق کی صفت کے مشابہ قرار دیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ}۔
بعض لوگوں نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ اللہ کی رحمت اترتی ہے یا اس کا حکم اترتا ہے، لیکن یہ سراسر غلط ہے، یہ تاویل کسی طور سے بھی حدیث کے الفاظ کے ساتھ میل نہیں کھاتی ، کیوں کہ اگر رحمت اترتی یا حکم اترتا تو وہ یہ کیسے کہتا کہ ’’جو مجھ سے دعا کرے گا میں اسے قبول کروں گا، جو مانگے گا میں دوں گا، جو استغفار کرے گا میں اس کی مغفرت کروں گا‘‘، یہ تو خاص شان کبریائی ہے ، دوسرے یہ کہ اللہ کی رحمت ہر جگہ موجود ہے {وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْئٍ} تو خاص تہائی رات میں نزول (اترنے) کے کیا معنیٰ ؟! تیسرے یہ کہ رحمت اتر کر آسمان دنیا ہی پر رہ گئی تو ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوا ! اگر ہم تک آتی تو ہمیں فائدہ پہنچتا، اس لئے بہتر طریقہ وہی ہے جو محققین اہل سنت واہل حدیث کا ہے کہ اس قسم کی حدیثیں یا آیتیں جن میں اللہ جل جلالہ کی صفات مذکور ہیں جیسے: اترنا، چڑھنا، ہنسنا، تعجب کرنا ، دیکھنا ، سننا ، عرش کے اوپر ہونا، وغیرہ وغیرہ، ان سب صفات وافعال باری تعالی کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، لیکن یہ مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں، جیسے اللہ تعالی کی ذات مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
312- بَاب وَقْتِ قِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ اللَّيْلِ
۳۱۲-باب: نبی اکرم ﷺ کے تہجد پڑھنے کے وقت کا بیان​



1316- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيُوقِظُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِاللَّيْلِ، فَمَا يَجِيئُ السَّحَرُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ حِزْبِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۹۲) (حسن)
۱۳۱۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کواللہ تعالی رات کو جگا دیتا پھر صبح نہ ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ اپنے معمول سے فارغ ہو جاتے۔


1317- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ (ح) وَحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، وَهَذَا حَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيَّ حِينٍ كَانَ يُصَلِّي؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا سَمِعَ الصُّرَاخَ قَامَ فَصَلَّى۔
* تخريج: خ/التھجد ۷ (۱۱۳۲)، والرقاق ۱۸ (۶۴۶۱)، م/المسافرین ۱۷ (۷۴۱)، ن/قیام اللیل ۸ (۱۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۱۰، ۱۴۷، ۲۰۳، ۲۷۹) (صحیح)
۱۳۱۷- مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ (تہجد) کے با رے میں پوچھا: میں نے ان سے کہا:آپ کس وقت صلاۃ پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جب آپ مر غ کی بانگ سنتے تو اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور صلاۃ شروع کردیتے۔


1318- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَاأَلْفَاهُ السَّحَرُ عِنْدِي إِلا نَائِمًا، تَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ ۔
* تخريج: خ/التھجد ۷ (۱۱۳۳)، م/المسافرین ۱۷ (۷۴۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۲۶ (۱۱۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۰) (صحیح)
۱۳۱۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:صبح ہوتی تو آپ یعنی نبی اکرم ﷺ میرے پاس سوئے ہوئے ہی ملتے۔


1319- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ الدُّؤَلِيِّ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ ابْنِ أَخِي حُذَيْفَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۸) (حسن)
۱۳۱۹- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ صلاۃ پڑھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تاکہ صلاۃ کی برکت سے وہ پریشانی دور ہوجائے۔


1320- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْهِقْلُ بْنُ زِيَادٍ السَّكْسَكِيُّ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَبِيعَةَ بْنَ كَعْبٍ الأَسْلَمِيَّ يَقُولُ: كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ آتِيهِ بِوَضُوئِهِ وَبِحَاجَتِهِ، فَقَالَ: <سَلْنِي>، فَقُلْتُ: مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ: < أَوَ غَيْرَ ذَلِكَ >، قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ، قَالَ: <فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ۴۳ (۴۸۹)، ت/الدعوات ۲۶ (۳۴۱۶)، ن/التطبیق ۷۹ (۱۱۳۹)، وقیام اللیل ۹ (۱۶۱۹)، ق/الدعاء ۱۶ (۳۸۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۱۶، ۳۶۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۵۷) (صحیح)
۱۳۲۰- ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات گزارتا تھا، آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کر دیتا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’مانگو مجھ سے‘‘، میں نے عرض کیا : میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے علا وہ اور کچھ؟‘‘، میں نے کہا: بس یہی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے ( یعنی صلاۃ پڑھ کر) میری مدد کرو‘‘۔


1321- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فِي هَذِهِ الآيَةِ: {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ} قَالَ: كَانُوا يَتَيَقَّظُونَ مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ يُصَلُّونَ، وَكَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ: قِيَامُ اللَّيْلِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر القرآن ۳۳ (۳۱۹۶) (صحیح)
۱۳۲۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ جو اللہ تعالی کا قول ہے{تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ} ۱؎ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان جاگتے اور صلاۃ پڑھتے ہیں۔
حسن کہتے ہیں:اس سے مراد تہجد پڑھنا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ’’ان کے پہلو بچھونوں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈر اوراُ مید کے ساتھ پکارتے ہیں، اورجو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا اس میں سے خرچ کر تے ہیں‘‘ (سورۃ السجدۃ:۱۶)


1322- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {كَانُوا قَلِيلا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ} قَالَ: كَانُوا يُصَلُّونَ فِيمَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى: وَكَذَلِكَ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳) (صحیح)
۱۳۲۲- انس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالی کے اس قول{ كَانُوا قَلِيلا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ} ۱؎ کے بارے میں روایت ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ مغرب اور عشاء کے درمیان صلاۃ پڑھتے تھے۔
یحییٰ کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ{ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ } سے بھی یہی مراد ہے۔
وضاحت ۱؎: ’’ وہ رات کو بہت تھوڑا سویا کرتے تھے ‘‘ (سورۃ الذاریات: ۱۷)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
313- بَاب افْتِتَاحِ صَلاةِ اللَّيْلِ بِرَكْعَتَيْنِ
۳۱۳-باب: تہجد دو رکعت سے شروع کرنے کا بیان​



1323- حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۷۲)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۲۶ (۷۶۸)، حم (۲/۲۳۲، ۲۷۹، ۳۹۹) (صحیح) (آگے کے ابوداود کے تبصرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرفوع قولی کی جگہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر وقف زیادہ صحیح ہے، نیز صحیح مسلم وغیرہ میں رسول ﷺ کے فعل سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: ۲؍ ۵۹- ۶۰)
۱۳۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی رات کو اٹھے تو دو ہلکی رکعتیں پڑھے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : غالبا ً اس سے تحیۃ الوضو مراد ہے، یعنی پہلے یہ دونوں رکعتیں پڑھ لے ، پھر تہجد شروع کرے، یا یہ تہجد ہی کی صلاۃ ہے، مگر ابتداء ہلکی سے شروع کرے، دوسری روایت میں ہے ’’ثم ليطول بعد ما شاء‘‘ یعنی پھر اس کے بعد جتنی چاہے لمبی کرے ۔


1324- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ -يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ- عَنْ رَبَاحِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: < إِذَا > بِمَعْنَاهُ، زَادَ: ثُمَّ لِيُطَوِّلْ بَعْدُ مَا شَاءَ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَجَمَاعَة عَنْ هِشَامٍ [عَنْ مُحَمَّدٍ]، أَوْقَفُوهُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ أَيُّوبُ وَابْنُ عَوْنٍ، أَوْقَفُوهُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَاهُ ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ: فِيهِمَا تَجَوَّزْ.
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۵۷۶) (صحیح)
(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا موقوف قول صحیح ہے)
۱۳۲۴- اس طریق سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے:’’پھر اس کے بعد جتنا چاہے طویل کرے‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں:اس حدیث کو حما د بن سلمہ، زہیربن معا ویہ اور ایک جماعت نے ہشام سے انہوں نے محمد سے روایت کیا ہے اوراسے لوگوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف قرار دیا ہے، اور اسی طرح اسے ایوب اور ابن عون نے روایت کیا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف قرار دیا ہے، نیز اسے ابن عون نے محمد سے روایت کیا ہے اس میں ہے:’’ان دونوں رکعتوں میں تخفیف کرے‘‘۔


1325- حَدَّثَنَا ابْنُ حَنْبَلٍ -يَعْنِي أَحْمَدَ- حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيٍّ الأَزْدِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ الْخَثْعَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: < طُولُ الْقِيَامِ >۔
* تخريج: ن/الزکاۃ ۴۹ (۲۵۲۷)، والإیمان وشرا ئعہ ۱ (۴۹۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۱۲)، دي/الصلاۃ ۱۳۵ (۱۴۶۴)، ویأتي برقم : (۱۴۴۹) (صحیح) بلفظ أي الصلاۃ
۱۳۲۵- عبداللہ بن حبشی خثعمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پو چھا گیا: کون ساعمل افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(صلاۃ میں) دیر تک کھڑے رہنا ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک لمبی صلاۃ پڑھنی زیادہ رکعتیں پڑھنے سے افضل اوربہتر ہے، قیام کو لمبا کرنا کثرت سجود سے افضل اور بہتر ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
314- بَاب صَلاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى
۳۱۴-باب: رات کی صلاۃ (تہجد) دودو رکعت ہے​



1326- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ؛ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى >۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۸۴ (۴۷۳)، والوتر ۱ (۹۹۰)، والتہجد ۱۰ (۱۱۳۷)، م/المسافرین ۲۰(۷۴۹)، ت/الصلاۃ ۲۱۰ (۴۳۷)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۱ (۱۳۲۰)، ن/قیام اللیل ۲۶ (۱۶۶۸)، ۳۵ (۱۶۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵، ۹، ۱۰، ۴۹، ۵۴، ۶۶)، وانظر ایضًا رقم : (۱۲۹۵) (صحیح)
۱۳۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے رات کی صلاۃ (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے، جب تم میں سے کسی کو یہ ڈر ہو کہ صبح ہوجائے گی تو ایک رکعت اور پڑھ لے، یہ اس کی ساری رکعتوں کو جو اس نے پڑھی ہیں طاق (وتر) کر دے گی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سلسلہ میں اختلاف ہے کہ نفل صلاۃ کیسے پڑھی جائے، امام شافعی کی رائے صحیح ہے کہ نفل صلاۃ دو دو کرکے پڑھنا افضل ہے، خواہ دن کی صلاۃ ہو یا رات کی، ان کی دلیل ’’صلاۃ اللیل والنہار مثنی مثنی‘‘ والی حدیث ہے جو صحیح ہے، دو دو رکعت کرکے پڑھنے میں بہت سے فوائد ہیں، اس میں دعا ، درود و سلام کی زیادتی ہے، نیز جماعت میں شامل ہونے کے لئے صلاۃ درمیان سے چھوڑنی نہیں پڑتی وغیرہ وغیرہ، ایسے چار چار کرکے پڑھنا بھی جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
315-بَاب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ اللَّيْلِ
۳۱۵-باب: تہجد میں بلند آواز سے قرأت کا بیان​



1327- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتْ قِرَائَةُ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى قَدْرِ مَا يَسْمَعُهُ مَنْ فِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ فِي الْبَيْتِ۔
* تخريج: ت/الشمائل (۳۲۱)، حم ۱/۲۷۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۷) (حسن صحیح)
۱۳۲۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی قرأت اتنی اونچی آواز سے ہوتی کہ آنگن میں رہنے والے کو سنائی دیتی اورحال یہ ہوتا کہ آپ اپنے گھر میں (صلاۃ پڑھ رہے) ہوتے۔


1328- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَتْ قِرَائَةُ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ يَرْفَعُ طَوْرًا وَيَخْفِضُ طَوْرًا.
قَالَ أَبودَاود: أَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ هُرْمُزُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۲) (حسن)
۱۳۲۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رات میں نبی اکرم ﷺ کی قرأ ت کبھی بلند آواز سے ہوتی تھی اور کبھی دھیمی آواز سے۔


1329- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ (ح) وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ لَيْلَةً فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه يُصَلِّي يَخْفِضُ مِنْ صَوْتِهِ، قَالَ: وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَهُوَ يُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَهُ، قَالَ: فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < يَا أَبَا بَكْرٍ! مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ >، قَالَ: قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: وَقَالَ لِعُمَرَ: < مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعًا صَوْتَكَ >، قَالَ: فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ.
زَادَ الْحَسَنُ فِي حَدِيثِهِ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا >، وَقَالَ لِعُمَرَ: < اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا > ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۱۳ (۴۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۶۵، ۱۲۰۸۸) (صحیح)
۱۳۲۹- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک رات باہرنکلے تو دیکھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ صلاۃ پڑھ رہے ہیں اور پست آواز سے قرأت کررہے ہیں، پھر آپ ﷺ عمر کے پاس سے گزرے اور وہ بلند آواز سے صلاۃ پڑھ رہے تھے، جب دونوں (ابو بکروعمر) نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے توآپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا اور دیکھا کہ تم دھیمی آواز سے صلاۃ پڑھ رہے ہو‘‘، آپ نے جواب دیا: اللہ کے رسول ! میں نے اس کو (یعنی اللہ تعالیٰ کو) سنا دیا ہے، جس سے میں سرگوشی کررہا تھا، اور آ پﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے صلاۃ پڑھ رہے تھے‘‘، تو انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں ۔
حسن بن الصباح کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ابو بکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کرلو‘‘، اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً} [سورۃ الاسراء: ۱۱۰) ’’نہ بلند آواز سے اور نہ ہی چپکے چپکے پڑھ بلکہ بیچ کی راہ تلاش کر‘‘۔


1330- حَدَّثَنَا أَبُو حُصَيْنِ بْنُ يَحْيَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، لَمْ يَذْكُرْ: <فَقَالَ لأَبِي بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًا وَلِعُمَرَ اخْفِضْ شَيْئًا > زَادَ: < وَقَدْ سَمِعْتُكَ يَابِلالُ وَأَنْتَ تَقْرَأُ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ وَمِنْ هَذِهِ السُّورَةِ >، قَالَ: كَلامٌ طَيِّبٌ يَجْمَعُ اللَّهُ تَعَالَى بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < كُلُّكُمْ قَدْ أَصَابَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۰۴) (حسن)
۱۳۳۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی واقعہ مرفوعاً مروی ہے، اس میں’’فقال لأبي بكر: ارفع من صوتك شيئًا ولعمر اخفض شيئًا‘‘ کے جملہ کا ذکر نہیں اور یہ اضافہ ہےـ: ’’اے بلال! میں نے تم کو سنا ہے کہ تم تھوڑا اس سورہ سے پڑھتے ہواور تھوڑا اس سورہ سے‘‘، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک پا کیزہ کلام ہے، اللہ بعض کوبعض کے ساتھ ملاتا ہے،اس پرنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم سب نے ٹھیک کیا‘‘۔


1331- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَجُلا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَ فَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَرْحَمُ اللَّهُ فُلانًا، كَأَيٍّ مِنْ آيَةٍ أَذْكَرَنِيهَا اللَّيْلَةَ كُنْتُ قَدْ أَسْقَطْتُهَا >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ هَارُونُ النَّحْوِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ فِي سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ [فِي الْحُرُوفِ] {وَكَأَيٍّ مِنْ نَبِيٍّ}۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۷۷)، وقد أخرجہ: خ/فضائل ۲۷ (۵۰۴۲)، والدعوات ۱۹ (۶۳۳۵)، م/المسافرین ۳۳،( فضائل القرآن) (۷۸۸) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۳۹۷۰) (صحیح)
۱۳۳۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص رات کی صلاۃ (تہجد) کے لئے اٹھا،اس نے قرأت کی، قرأت میں اپنی آواز بلند کی تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ فلاں شخص پر رحم فرمائے، کتنی ایسی آیتیں تھیں جنہیں میں بھول چلا تھا، اس نے انہیں آج رات مجھے یا د دلادیا‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں:یہ حدیث ہارون نحوی نے حماد بن سلمہ سے سورہ آل عمران کے سلسلہ میں روایت کی ہے کہ اللہ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے مجھے اس سورہ کے بعض ایسے الفاظ یاد دلادیے جنہیں میں بھول چکا تھا اور وہ {وَكَأَيٍّ مِنْ نَبِيٍّ} (آل عمران: ۱۴۶) والی آیت ہے۔


1332- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَائَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ وَقَالَ: < أَلا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَائَةِ >، أَوْ قَالَ: < فِي الصَّلاةِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۹۴) (صحیح)
۱۳۳۲- ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا، آپ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرأت کر تے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا: ’’لوگو! سنو، تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو کوئی کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور نہ قرأت میں ( یاکہا صلاۃ) میں اپنی آواز کو دوسرے کی آواز سے بلند کرے‘‘۔


1333- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ >۔
* تخريج: ت/فضائل القرآن ۲۰ (۲۹۱۹)، ن/قیام اللیل ۲۲ (۱۶۶۲)، والزکاۃ ۶۸ (۲۵۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۱، ۱۵۸،۲۰۱) (صحیح)
۱۳۳۳- عقبہ بن عا مر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلندآواز سے قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے اعلانیہ طور سے خیرات کرنے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے چپکے سے خیرات کرنے والا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
316- بَاب فِي صَلاةِ اللَّيْلِ
۳۱۶-باب: تہجد کی رکعتوں کا بیان​



1334- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ عَشْرَ رَكَعَاتٍ وَيُوتِرُ بِسَجْدَةٍ، وَيَسْجُدُ سَجْدَتَيِ الْفَجْرِ، فَذَلِكَ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً۔
* تخريج: خ/التھجد ۱۰ (۱۱۴۰)، م/المسافرین ۱۷ (۷۳۸) ن/قیام اللیل ۳۳ (۱۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۴۸)، حم (۴/۱۵۱، ۱۵۸،۲۰۱) (صحیح)
۱۳۳۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں ۔


1335- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۷(۷۳۶)، ت/الصلاۃ ۲۱۳ (۴۴۰، ۴۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۳)، وقد أخرجہ: خ/الوتر والتھجد ۳ (۱۱۲۳)، ن/قیام اللیل ۳۵ (۱۶۹۷)، ۴۴ (۱۷۲۷)، ق/ إقامۃ الصلاۃ ۱۸۱ (۱۳۵۸)،حم (۶/ ۳۴، ۳۵، ۸۳، ۱۴۳، ۱۶۷، ۱۶۸، ۱۸۲، ۲۱۵، ۲۲۸)، دي/الصلاۃ ۱۶۵(۱۵۱۴) (صحیح)
(اضطجاع یعنی دائیں کروٹ پر صلاۃ وتر سے فارغ ہوکر لیٹنے کا ٹکڑا شاذہے )۔
۱۳۳۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو گیا رہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، جب آپ اس سے فا رغ ہوجاتے تو داہنی کروٹ لیٹتے۔


1336- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَنَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، وَقَالَ نَصْرٌ: عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ وَالأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَنْصَدِعَ الْفَجْرُ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ مِنْ كُلِّ ثِنْتَيْنِ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، وَيَمْكُثُ فِي سُجُودِهِ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ بِالأُولَى مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ۔
* تخريج: ن/ الأذان ۴۱ (۶۸۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸۱ (۱۳۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۱۵، ۱۶۶۱۸)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۵ (۶۲۶)، والوتر ۹۹۴)، والتہجد ۳ (۱۱۲۳)، و ۲۳ (۱۱۶۰)، والدعوات ۵ (۶۳۱۰)، م/المسافرین ۱۷ (۷۳۶)، ق/اقامۃ الصلاۃ ۱۲۶ (۱۱۹۸)، حم (۶/۳۴، ۷۴، ۸۳، ۱۴۳، ۱۶۷، ۲۱۵، ۲۴۸، ۲۵۴)، دي/الصلاۃ ۱۴۷ (۱۴۸۶)، ۱۶۵ (۱۵۱۴، ۱۵۱۵) (صحیح)
۱۳۳۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء سے فارغ ہو کر فجرکی پو پھوٹنے تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر کی پڑھتے ،اپنے سجدوں میں اتنا ٹھہرتے کہ تم میں سے کوئی اتنی دیر میں سراٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے، جب مؤ ذن فجر کی پہلی اذان کہہ کر خاموش ہوتا تو آپ کھڑے ہو تے اور ہلکی سی دورکعتیں پڑھتے ،پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن (بلانے کے لے ) آتا۔


1337- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، وَيَسْجُدُ سَجْدَةً قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ، وَسَاقَ مَعْنَاهُ، قَالَ: وَبَعْضُهُمْ يَزِيدُ عَلَى بَعْضٍ ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۷ (۷۳۶)، ن/الأذان ۴۱ (۶۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۷۳، ۱۶۷۰۴، ۱۶۶۱۸) (صحیح)
۱۳۳۷- اس طریق سے بھی ابن شہاب زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھتے اور اتنی دیر تک سجدہ کرتے جتنی دیر میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں (رکوع سے )سر اٹھانے سے پہلے پڑھ لے ،پھر جب مؤذن فجر کی اذان کہہ کر خاموش ہوتا اور فجرظاہر ہوجاتی ،آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی البتہ بعض کی روایتوں میں بعض پرکچھ اضافہ ہے۔


1338- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِخَمْسٍ لا يَجْلِسُ فِي شَيْئٍ مِنَ الْخَمْسِ حَتَّى يَجْلِسَ فِي الآخِرَةِ فَيُسَلِّمُ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۹۴)، وقد أخرجہ: م/لمسافرین ۱۷ (۷۳۸)، ن/قیام اللیل ۳۹ (۱۷۱۸)، حم (۶/ ۱۲۳، ۱۶۱، ۲۰۵) (صحیح)
۱۳۳۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو میں تیرہ رکعتیں پڑھتے اور انہیں پانچ رکعتوں سے طاق بنا دیتے، ان پانچ رکعتوں میں سوائے قعدہ اخیرہ کے کوئی قعدہ نہیں ہوتا پھر سلام پھیر دیتے۔
ابوداود کہتے ہیں :اسے ابن نمیر نے ہشام سے اسی طرح روایت کیا ہے ۔


1339- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ يُصَلِّي إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ۔
* تخريج: خ/التھجد ۲۷ (۱۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۵۰)، وقد أخرجہ: ن/قیام اللیل ۴ (۱۶۰۵)، حم (۶/ ۱۷۷) (صحیح)
۱۳۳۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے پھر جب فجر کی اذان سنتے تو ہلکی سی دو رکعتیں اور پڑھتے ۔


1340- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، كَانَ يُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي، قَالَ مُسْلِمٌ: بَعْدَ الْوِتْرِ [ثُمَّ اتَّفَقَا] رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ، وَيُصَلِّي بَيْنَ أَذَانِ الْفَجْرِ وَالإِقَامَةِ رَكْعَتَيْنِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۷ (۷۳۸)، وانظر ایضا رقم : (۱۳۳۸، ۱۳۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۸۱) (صحیح)
۱۳۴۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے (پہلے) آٹھ رکعتیں پڑھتے (پھر) ایک رکعت سے وتر کرتے پھر خانہ پڑھتے، مسلم بن ابراہیم کی روایت میں ’’وتر کے بعد‘‘ کے الفاظ بھی ہیں (پھر موسیٰ اور مسلم ابن ابراہیم دونوں متفق ہیں کہ) دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، جب رکوع کر نا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے پھر رکوع کر تے اور دو رکعتیں فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔


1341- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً: يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاثًا، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ قَالَ: < يَاعَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ، وَلا يَنَامُ قَلْبِي >۔
* تخريج: خ/التھجد ۱۶(۱۱۴۷)، والتراویح ۱ (۲۰۱۳)، والمناقب ۲۴ (۳۵۶۹)، م/المسافرین ۱۷ (۷۳۸)، ت/الصلاۃ ۲۰۹ (۴۳۹)، ط/صلاٰۃ اللیل ۲(۹)، حم (۶/۳۶، ۷۳، ۱۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۱۹) (صحیح)
۱۳۴۱- ابو سلمہ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ (تہجد) کیسے ہوتی تھی؟ توانہوں نے جواب دیا:رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎ ، آپ چار رکعتیں پڑھتے، ان رکعتوں کی خوبی اور لمبائی کو نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں پڑھتے ، ان کے بھی حسن اور لمبائی کو نہ پوچھو ، پھر تین رکعتیں پڑھتے ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آٹھ رکعتیں تہجد یا تراویح کی اور تین وتر کی۔
وضاحت ۲؎ : یعنی میرا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اس وجہ سے سونے سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا ، میرا وضو اس سے نہیں ٹوٹتا، یہ بات آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے تھی۔


1342- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ ابْنِ هِشَامٍ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ لأَبِيعَ عَقَارًا كَانَ لِي بِهَا فَأَشْتَرِيَ بِهِ السِّلاحَ وَأَغْزُو، فَلَقِيتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالُوا: قَدْ أَرَادَ نَفَرٌ مِنَّا سِتَّةٌ أَنْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ ﷺ وَقَالَ: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ ] فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ النَّاسِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأْتِ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، فَأَتَيْتُهَا فَاسْتَتْبَعْتُ حَكِيمَ بْنَ أَفْلَحَ فَأَبَى، فَنَاشَدْتُهُ، فَانْطَلَقَ مَعِي، فَاسْتَأْذَنَّا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: حَكِيمُ بْنُ أَفْلَحَ، قَالَتْ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: هِشَامُ بْنُ عَامِرٍ الَّذِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! حَدِّثِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانَ الْقُرْآنَ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِينِي عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ أَوَّلَ هَذِهِ السُّورَةِ نَزَلَتْ، فَقَامَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَحُبِسَ خَاتِمَتُهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ نَزَلَ آخِرُهَا، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثِينِي عَنْ وِتْرِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَتْ: كَانَ يُوتِرُ بِثَمَانِ رَكَعَاتٍ، لا يَجْلِسُ إِلا فِي الثَّامِنَةِ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَةً أُخْرَى، لا يَجْلِسُ إِلا فِي الثَّامِنَةِ وَالتَّاسِعَةِ، وَلا يُسَلِّمُ إِلا فِي التَّاسِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ، لَمْ يَجْلِسْ إِلا فِي السَّادِسَةِ وَالسَّابِعَةِ، وَلَمْ يُسَلِّمْ إِلا فِي السَّابِعَةِ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ [هِيَ] تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَابُنَيَّ، وَلَمْ يَقُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةً يُتِمُّهَا إِلَى الصَّبَاحِ، وَلَمْ يَقْرَأِ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ قَطُّ، وَلَمْ يَصُمْ شَهْرًا يُتِمُّهُ غَيْرَ رَمَضَانَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاةً دَاوَمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ مِنَ اللَّيْلِ بِنَوْمٍ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: هَذَا وَاللَّهِ هُوَ الْحَدِيثُ، وَلَوْ كُنْتُ أُكَلِّمُهَا لأَتَيْتُهَا حَتَّى أُشَافِهَهَا بِهِ مُشَافَهَةً، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لا تُكَلِّمُهَا مَا حَدَّثْتُكَ ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۸ (۷۴۶)، ن/ قیام اللیل ۲ (۱۶۰۲)، ۱۷ (۱۶۴۲)، ۱۸ (۱۶۵۲)، ۴۲ (۱۷۲۱)، ۴۳ (۱۷۲۵)، ت/الصلاۃ ۲۱۶ (۴۴۵مختصراً)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۲۳ (۱۱۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۵۳، ۹۴، ۱۰۹، ۱۶۳، ۱۶۸، ۲۳۸، ۲۵۸) (صحیح)
۱۳۴۲- سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھرمیں مدینہ آیا تاکہ اپنی ایک زمین بیچ دوں اور اس سے ہتھیار خرید لوں اور جہاد کروں ،تو میری ملاقات نبی اکرم ﷺ کے چند صحابہ سے ہوئی، ان لوگوں نے کہا: ہم میں سے چھ افراد نے ایسا ہی کرنے کا ارادہ کیا تھا تونبی اکرم ﷺ نے انہیں اس سے منع کیا اورفرمایا: ’’تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے‘‘، تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا، آپ نے کہا: میں ایک ایسی ذات کی جانب تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے وتر کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والی ہے، تم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائو۔
چنانچہ میں ان کے پاس چلا اور حکیم بن افلح سے بھی ساتھ چلنے کو کہا، انہوں نے انکار کیا تو میں نے ان کو قسم دلائی، چنانچہ وہ میرے ساتھ ہولئے( پھر ہم دونوں ام المؤمنین عائشہ کے گھر پہنچے)، ان سے اندرآنے کی اجازت طلب کی، انہوں نے پو چھا: کون ہو؟ کہا: حکیم بن افلح، انہوں نے پوچھا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: سعد بن ہشام ، پو چھا: عامر کے بیٹے ہشام جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، وہ کہنے لگیں: عامر کیا ہی اچھے آدمی تھے، میں نے عرض کیا: ام المومنین مجھ سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کا حال بیان کیجئے، انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟رسول اللہ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا، میں نے عرض کیا: آپ کی رات کی صلاۃ (تہجد) کے بارے میں کچھ بیان کیجیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورہ ’’يا أيها المزمل‘‘نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا: جب اس سورہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کے پیروں میں ورم آگیا اور سورہ کی آخری آیات آسمان میں بارہ ماہ تک رکی رہیں پھر نازل ہوئیں تو رات کی صلاۃ نفل ہوگئی جب کہ وہ پہلے فرض تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں بیان کیجیے، انہوں نے کہا: آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اورآٹھویں رکعت کے بعد پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے، اس طرح آپ آٹھویں اور نویں رکعت ہی میں بیٹھتے اور آپ نویں رکعت کے بعد ہی سلام پھیرتے اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، اس طرح یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، میرے بیٹے! پھر جب آپ ﷺ سن رسیدہ ہوگئے اور بدن پرگوشت چڑھ گیا تو سات رکعتوں سے وتر کرنے لگے، اب صرف چھٹی اور ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور ساتویں میں سلام پھیرتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کر تے، اس طرح یہ کل نو رکعتیں ہو تیں، میرے بیٹے! اور رسول اللہ ﷺ نے کسی بھی رات کو (لگاتار)صبح تک قیام ۱؎ نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی ایک رات میں قرآن ختم کیا، اور نہ ہی رمضان کے علاوہ کبھی مہینہ بھر مکمل روزے رکھے، اور جب بھی آپ ﷺ کوئی صلاۃ پڑھتے تواس پر مداومت فرماتے، اور جب را ت کو آنکھوں میں نیند غالب آجاتی تو دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔
سعد بن ہشام کہتے ہیں: میں ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا : قسم اللہ کی! حدیث یہی ہے، اگر میں ان سے بات کرتا تو میں ان کے پاس جا کرخود ان کے ہی منہ سے بالمشافہہ یہ حدیث سنتا، میں نے ان سے کہا : اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان سے بات نہیں کرتے ہیں تو میں آپ سے یہ حدیث بیان ہی نہیں کرتا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی رات بھرعبادت نہیں کی بلکہ درمیان میں آرام بھی فرماتے تھے۔


1343- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ، قَالَ: يُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، لا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلا عِنْدَ الثَّامِنَةِ فَيَجْلِسُ، فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ، ثُمَّ يَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، بِمَعْنَاهُ إِلَى مُشَافَهَةً ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۴) (صحیح)
۱۳۴۳- اس طریق سے بھی قتادہ سے سابقہ سند سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، اس میں ہے :’’آپ ﷺ آٹھ رکعت پڑھتے تھے اورصرف آٹھویں رکعت ہی میں بیٹھتے تھے اور جب بیٹھتے تو اللہ تعالی کو یاد کر تے پھر دعا مانگتے پھر سلام ایسے پھیرتے کہ ہمیں بھی سنا دیتے، سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے ،پھر ایک رکعت پڑھتے ، اے میرے بیٹے! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوئیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ بوڑھے ہوگئے اور بدن پرگوشت چڑھ گیا تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے اورسلام پھیرنے کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر ادا کرتے‘‘ ،پھر اسی مفہوم کی روایت لفظِ ’’مشافھۃً‘‘ تک ذکر کی ۔


1344- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، كَمَا قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۳۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۴) (صحیح)
۱۳۴۴- اس سند سے بھی سعید نے یہی حدیث بیان کی ہے، اس میں ہے: ’’آپ اپنا سلام ہمیں سناتے جیسا‘‘ کہ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے۔


1345- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ؛ عَنْ سَعِيدٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ: بِنَحْوِ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ إِلا أَنَّهُ قَالَ: وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۳۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۴) (صحیح)
۱۳۴۵- اس سند سے بھی سعید نے یہی حدیث روایت کی ہے، ابن بشار نے یحییٰ بن سعید کی طرح حدیث نقل کی مگر اس میں ’’ويسلم تسليمة يُسمعنا‘‘کے الفاظ ہیں۔


1346- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ الدِّرْهَمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا سُئِلَتْ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ، فَيَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ وَيَنَامُ وَطَهُورُهُ مُغَطًّى عِنْدَ رَأْسِهِ، وَسِوَاكُهُ مَوْضُوعٌ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ سَاعَتَهُ الَّتِي يَبْعَثُهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ وَيُسْبِغُ الْوُضُوءَ، ثُمَّ يَقُومُ إِلَى مُصَلاهُ، فَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِأُمِّ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ، وَمَا شَاءَ اللَّهُ، وَلا يَقْعُدُ فِي شَيْئٍ مِنْهَا حَتَّى يَقْعُدَ فِي الثَّامِنَةِ، وَلايُسَلِّمُ، وَيَقْرَأُ فِي التَّاسِعَةِ، ثُمَّ يَقْعُدُ، فَيَدْعُو بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَهُ وَيَسْأَلَهُ وَيَرْغَبَ إِلَيْهِ، وَيُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً شَدِيدَةً يَكَادُ يُوقِظُ أَهْلَ الْبَيْتِ مِنْ شِدَّةِ تَسْلِيمِهِ، ثُمَّ يَقْرَأُ وَهُوَ قَاعِدٌ بِأُمِّ الْكِتَابِ، وَيَرْكَعُ وَهُوَ قَاعِدٌ، ثُمَّ يَقْرَأُ الثَّانِيَةَ فَيَرْكَعُ وَيَسْجُدُ وَهُوَ قَاعِدٌ، ثُمَّ يَدْعُو مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ وَيَنْصَرِفُ، فَلَمْ تَزَلْ تِلْكَ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى بَدَّنَ، فَنَقَّصَ مِنَ التِّسْعِ ثِنْتَيْنِ، فَجَعَلَهَا إِلَى السِّتِّ وَالسَّبْعِ وَرَكْعَتَيْهِ وَهُوَ قَاعِدٌ حَتَّى قُبِضَ عَلَى ذَلِكَ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۳۶) (صحیح)
(پچھلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں بظاہر زرارہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع ہے ، دراصل دونوں کے درمیان سعد بن ہشام کے ذریعہ یہ سند بھی متصل ہے )
۱۳۴۶- زرارہ بن اوفی سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی صلاۃ (تہجد) کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ عشاء جماعت کے ساتھ پڑھتے پھراپنے گھروالوں کے پاس واپس آتے اور چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پرجاتے اور سو جاتے، آپ ﷺ کے سرہانے آپ کے وضو کا پانی ڈھکا رکھا ہوتا اور مسواک رکھی ہوتی یہاں تک کہ اللہ تعالی رات کو جب چاہتا آپ کو اٹھا دیتا تو آپ (اٹھ کر) مسواک کرتے اور پوری طرح سے وضو کرتے، پھراپنی جائے صلاۃ پرکھڑے ہوتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، ان میں سے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ قرآن کی کوئی سورہ اور جو اللہ کو منظور ہوتا پڑھتے اور کسی رکعت کے بعد نہیں بیٹھتے یہاں تک کہ جب آٹھویں رکعت ہوجاتی تو قعدہ کرتے اور سلام نہیں پھیرتے بلکہ نویں رکعت پڑھتے پھر قعدہ کرتے، اور اللہ جو دعا آپ سے کروانا چاہتا، کر تے اور اس سے سوال کر تے اور اس کی طرف متوجہ ہوتے اور ایک سلام پھیرتے اس قدر بلند آواز سے کہ قریب ہوتا کہ گھر کے لوگ جاگ جائیں، پھر بیٹھ کر سورہ فاتحہ کی قراءت کرتے اور رکوع بھی بیٹھ کر کرتے، پھر دوسری رکعت پڑھتے اور بیٹھے بیٹھے رکوع اور سجدہ کرتے، پھر اللہ جتنی دعا آپ سے کروانا چاہتا کرتے پھر سلام پھیرتے اور صلاۃ سے فارغ ہوجاتے، رسول اللہ ﷺ کے صلاۃ پڑھنے کا معمول یہی رہا ، یہاں تک کہ آپ موٹے ہوگئے تو آپ نے نو میں سے دو رکعتیں کم کر دیں اوراسے چھ اور سات رکعتیں کرلیں اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔ وفات تک آپ کا یہی معمول رہا ۔


1347- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: يُصَلِّي الْعِشَاءَ ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ، لَمْ يَذْكُرِ [الأَرْبَعَ رَكَعَاتٍ] وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: فَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَائَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَلايَجْلِسُ فِي شَيْئٍ مِنْهُنَّ إِلا فِي الثَّامِنَةِ فَإِنَّهُ كَانَ يَجْلِسُ ثُمَّ يَقُومُ وَلا يُسَلِّمُ [فِيهِ] فَيُصَلِّي رَكْعَةً يُوتِرُ بِهَا، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ حَتَّى يُوقِظَنَا، ثُمَّ سَاقَ مَعْنَاهُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۸۶) (صحیح)
۱۳۴۷- یزید بن ہارون کہتے ہیں: ہمیں بہزبن حکیم نے خبردی ہے پھر انہوں نے یہی حدیث اسی سند سے ذکر کی، اس میں ہے: ’’آپ عشاء پڑھتے پھر اپنے بستر پرآتے ، انہوں نے چار رکعت کا ذکر نہیں کیا‘‘،آگے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے:’’پھرآپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اور ان میں قرأت، رکوع اور سجدہ میں برابری کرتے اور ان میں سے کسی میں نہیں بیٹھتے سوائے آٹھویں کے،اس میں بیٹھتے تھے پھر کھڑے ہوجاتے اور ان میں سلام نہیں پھیرتے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کو طاق کر دیتے پھر سلام پھیرتے اس میں اپنی آواز بلند کرتے یہاں تک کہ ہمیں بیدار کردیتے‘‘، پھر راوی نے اسی مفہوم کو بیان کیا۔


1348- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ -يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ- عَنْ بَهْزٍ، حَدَّثَنَا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا سُئِلَتْ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ فَيُصَلِّي أَرْبَعًا، ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ: < يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَائَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ > وَلَمْ يَذْكُرْ فِي التَّسْلِيمِ: < حَتَّى يُوقِظَنَا > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۳۴۶، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۸۶) (صحیح)
۱۳۴۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ (تہجد) کے با رے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہاـ: آپ لوگوں کو عشاء پڑھاتے پھراپنے گھروالوں کے پاس آکر چار رکعتیں پڑھتے پھر اپنے بستر پر آتے ، پھرراوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں انہوں نے قرأت اور رکوع و سجدہ میں برابری کا ذکرنہیں کیا ہے اور نہ یہ ذکر کیا ہے کہ آپ اتنی بلند آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم بیدار ہوجاتے ۔


1349- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَيْسَ فِي تَمَامِ حَدِيثِهِم۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۸۶، ۱۶۱۱۰ ) (صحیح)
۱۳۴۹- اس طریق سے بھی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے ،لیکن سند کے اعتبار سے یہ ان کی جید احادیث میں سے نہیں ہے ۱؎ ۔
وضاحت : کیونکہ ابن ابی عدی، یزید بن ہارون اور مروان بن معاویہ سبھی نے اسے بہز بن حکیم سے، انہوں نے زرارہ سے زرارۃ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بغیر سعد کے واسطہ کے روایت کیا ہے، صرف حماد بن سلمہ ہی نے زرارہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان سعد بن ہشام کاواسطہ بڑھایا ہے، اور یہ واسطہ ہی صحیح ہے کیوں کہ زرارہ کے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع میں اختلاف ہے، صحیح بات یہی ہے کہ سماع ثابت نہیں ہے ۔


1350- حَدَّثَنَا مُوسَى -يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ- حَدَّثَنَا حَمَّادٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ بِتِسْعٍ، أَوْ كَمَا قَالَتْ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، وَرَكْعَتَيِ الْفَجْرِ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۱۰، ۱۶۱۱۱، ۱۷۷۵۵) (حسن صحیح)
۱۳۵۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے، نو رکعتیں وتر کی ہوتیں، یا کچھ اسی طرح کہا اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے اور اذان و اقامت کے درمیان فجر کی دو رکعتیں پڑھتے۔


1351- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُوتِرُ بِتِسْعِ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ الْوِتْرِ يَقْرَأُ فِيهِمَا، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى الْحَدِيثَيْنِ خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ [عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو] مِثْلَهُ، قَالَ فِيهِ: قَالَ عَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ: يَا أُمَّتَاهُ، كَيْفَ كَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۱)، وقدأخرجہ: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۸) (حسن صحیح)
۱۳۵۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نو رکعتیں وتر کی پڑھتے، پھر سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔ ان میں قرأت کرتے،جب رکوع کرنا ہوتا تو کھڑے ہو جاتے، پھررکوع کرتے پھر سجدہ کرتے۔
ابوداود کہتے ہیں :یہ دونوں حدیثیں خالد بن عبداللہ واسطی نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کی ہیں ،اس میں ہے: کہ علقمہ بن وقاص نے کہا: اماں جان! آپ ﷺ دو رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی ۔


1352- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ؛ عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: أَخْبِرِينِي عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ صَلاةَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ فَيَنَامُ، فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى حَاجَتِهِ وَإِلَى طَهُورِهِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَائَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ، فَرُبَّمَا جَاءَ بِلالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلاةِ، ثُمَّ يُغْفِي وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَوْ لا، حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلاةِ، فَكَانَتْ تِلْكَ صَلاتُهُ حَتَّى أَسَنَّ وَلَحُمَ، فَذَكَرَتْ مِنْ لَحْمِهِ مَا شَاءَ اللَّهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/ ۹۱، ۹۷، ۱۶۸، ۲۱۶، ۲۲۷، ۲۳۵) ( صحیح)
۱۳۵۲- سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ (تہجد) کے بارے میں بتائیے، وہ بولیں: رسول اللہ ﷺ لوگوں کوعشاء پڑھاتے، پھر بستر پر آکر سوجاتے، جب آدھی رات ہو جاتی تو قضائے حاجت اور وضو کے لئے اٹھتے اور وضو کر کے مصلیٰ پرتشریف لے جاتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، میرے خیال میں آپ ﷺ ہر رکعت میں قرأت، رکوع اور سجدہ برابر برابر کرتے، پھر ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا دیتے ،پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے پھراپنا پہلو( زمین پر) رکھتے، کبھی ایسا ہوتا کہ بلا ل رضی اللہ عنہ آکر صلاۃ کی خبر دیتے پھر آپ ﷺ ہلکی نیند سوتے، بسا اوقات میں شبہ میں پڑ جاتی کہ آپ سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو صلاۃ کی خبر دیتے، یہی آپ کی صلاۃ (تہجد) ہے یہاں تک کہ آپ بوڑھے اورموٹے ہو گئے، پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے گو شت بڑھ جانے کا حال جو اللہ نے چاہا ذکر کیا پھرراوی نے پوری حدیث ذکر کی۔


1353- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، (ح) وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَقَدَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَرَآهُ اسْتَيْقَظَ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأَ وَهُوَ يَقُولُ: {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ} حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ أَطَالَ فِيهِمَا الْقِيَامَ وَالرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ بِسِتِّ رَكَعَاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ يَسْتَاكُ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وَيَقْرَأُ هَؤُلاءِ الآيَاتِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، قَالَ عُثْمَانُ: بِثَلاثِ رَكَعَاتٍ، فَأَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ، وَقَالَ ابْنُ عِيسَى: ثُمَّ أَوْتَرَ فَأَتَاهُ بِلالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلاةِ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَهُوَ يَقُولُ: < اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي لِسَانِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا، وَاجْعَلْ خَلْفِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، اللَّهُمَّ وَأَعْظِمْ لِي نُورًا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۵۸، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۸۷) ( صحیح)
۱۳۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سوے تو دیکھا کہ آپ بیدار ہوئے، تو مسواک اور وضو کیا اور آیت کریمہ{إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ} ۱؎ اخیر سورہ تک پڑھی، پھر کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں قیام ، رکوع اور سجدہ لمبا کیا، پھر آپ ﷺ فارغ ہوئے اور سوگئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے،پھر آپ ﷺ نے چھ رکعتوں میں تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار مسواک کرتے اور وضو کرتے اور انہیں آیتوں کو پڑھتے تھے پھر آپ ﷺ نے وتر پڑھی ۔
عثمان کی روایت میں ہے کہ وتر کی تین رکعتیں پڑھیں ۔ پھر مؤذن آیا تو آپ صلاۃ کے لئے نکلے۔
ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے:پھر آپ نے وتر پڑھی، پھرآپ کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آئے اورجس وقت فجر طلوع ہوئی آپ کو صلاۃ کی خبر دی تو آپ نے فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) پڑھیں ۔ اس کے بعد صلاۃ کے لئے نکلے ۔ آگے دونوں کی روایتیں ایک جیسی ہیں۔ آپ (اس وقت) فرما رہے تھے: ’’اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي لِسَانِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا، وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا، وَاجْعَلْ خَلْفِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا، وَمِنْ تَحْتِي نُورًا، اللَّهُمَّ وَأَعْظِمْ لِي نُورًا ‘‘( اے اللہ! تو نور پیدا فرما میرے دل میں، میری زبان میں ،میرے کان میں، میری نگاہ میں، میرے پیچھے، میرے آگے، میرے اوپر اور میرے نیچے۔ اور اے اللہ! میرے لئے نور کو بڑا بنا دے)۔
وضاحت ۱؎ : سورة آل عمران: (۱۹۰)۔


1354- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، نَحْوَهُ، قَالَ: < وَأَعْظِمْ لِي نُورًا >.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو خَالِدٍ الدَّالانِيُّ عَنْ حَبِيبٍ فِي هَذَا، وَكَذَلِكَ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي رِشْدِينَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۵۸، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۸۷) ( صحیح)
۱۳۵۴- اس طریق سے بھی حصین سے اسی جیسی روایت مروی ہے ، اس میں’’وأعظم لي نورًا‘‘ کا جملہ ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:اسی طرح ابو خالد دالانی نے اس حدیث میں ’’عن حبيبٍ‘‘ کہا ہے اور سلمہ بن کہیل نے’’عن أبي رشدين عن ابن عباس‘‘ کہا ہے۔


1355- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ كُرَيْبٍ؛ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ لأَنْظُرَ كَيْفَ يُصَلِّي، فَقَامَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، قِيَامُهُ مِثْلُ رُكُوعِهِ وَرُكُوعُهُ مِثْلُ سُجُودِهِ، ثُمَّ نَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ، ثُمَّ قَرَأَ بِخَمْسِ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ: {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ} فَلَمْ يَزَلْ يَفْعَلُ هَذَا حَتَّى صَلَّى عَشْرَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى سَجْدَةً وَاحِدَةً فَأَوْتَرَ بِهَا، وَنَادَى الْمُنَادِي عِنْدَ ذَلِكَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْدَمَاسَكَتَ الْمُؤَذِّنُ، فَصَلَّى سَجْدَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ حَتَّى صَلَّى الصُّبْحَ.
قَالَ أَبودَاود: خَفِيَ عَلَيَّ مِنِ ابْنِ بَشَّارٍ بَعْضُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۵۹) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ شریک ‘‘ اور ’’ زہیر ‘‘ میں کچھ کلام ہے )
۱۳۵۵- فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک رات گزاری تا کہ دیکھوں کہ آپ صلاۃ کیسے پڑھتے ہیں، تو آپ اٹھے اور وضو کیا ،پھر دو رکعتیں پڑھیں، آپ ﷺ کا قیام آپ کے رکوع کے برابر اور رکوع سجدے کے برابر تھا، پھر آپ ﷺ سوئے رہے، پھر جاگے تو وضو اورمسواک کیا، پھر سورہ آل عمران کی یہ پانچ آیتیں {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ} (آل عمران: ۱۹۰) اخیر تک پڑھیں اور پھر اسی طرح آپ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے دس رکعتیں ادا کیں، پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت پڑھی اور اس سے وتر (طاق) کر لیا، اس وقت مؤذن نے اذان دی، مؤذن خاموش ہو گیا تورسول اللہ ﷺ اٹھے اور ہلکی سی دو رکعتیں ادا کیں پھر بیٹھے رہے یہاں تک کہ فجر پڑھی۔
ابوداود کہتے ہیں : ابن بشار کی روایت کا بعض حصہ مجھ پر مخفی رہا۔


1356- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَيْسٍ الأَسَدِيُّ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْدَمَا أَمْسَى، فَقَالَ: < أَصَلَّى الْغُلامُ؟ > قَالُوا: نَعَمْ، فَاضْطَجَعَ حَتَّى إِذَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ قَامَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى سَبْعًا أَوْ خَمْسًا أَوْتَرَ بِهِنَّ لَمْ يُسَلِّمْ إِلا فِي آخِرِهِنَّ۔
* تخريج: خ/العلم ۴۱ (۱۱۷)، الأذان ۵۷ (۶۹۷)، ن/الإمامۃ ۲۲ (۸۰۷)، (تحفۃ الأشراف:۵۴۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۴۱، ۳۵۴)، دی/الطہارۃ ۳ (۶۸۴) ( صحیح)
۱۳۵۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ ام المومنین میمونہ کے پاس رہا، شام ہوجانے کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لا ئے اور پو چھا : ’’کیا بچے نے صلاۃ پڑھ لی؟‘‘ لوگوں نے کہا:ہاں، پھر آپ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ جب رات اس قدر گزر گئی جتنی اللہ کو منظور تھی تو آپ اٹھے اور وضو کر کے سات یا پانچ رکعتیں وتر کی پڑھیں اورصرف آخر میں سلام پھیرا۔


1357- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ فَصَلَّى النَّبِيُّ ﷺ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ فَصَلَّى أَرْبَعًا، ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَدَارَنِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ فَصَلَّى خَمْسًا ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ، أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْغَدَاةَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۹۶) ( صحیح)
۱۳۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المومنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ کے گھر رات گزاری تونبی اکرم ﷺ نے عشاء پڑھی پھر (گھر) تشریف لا ئے تو چار رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے پھر اٹھ کر صلاۃ پڑھنے لگے تو میں آپ ﷺ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ نے مجھے گھما کر اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا، پھر پانچ رکعتیں پڑھیں اور سوگئے یہاں تک کہ مجھے آپ ﷺ کے خراٹوں کی آواز سنا ئی دینے لگی، پھرآ پ ﷺ اٹھے اور دو رکعتیں پڑھیں پھرنکلے اور جاکر فجر پڑھی۔


1358- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِالْمَجِيدِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ، وَلَمْ يَجْلِسْ بَيْنَهُنَّ۔
* تخريج: ن/الإمامۃ ۲۲ (۸۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۴۴) ( صحیح)
۱۳۵۸- سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ قصہ ان سے بیان کیا ہے، اس میں ہے: آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور دودو کر کے آٹھ رکعتیں پڑھیں، پھرپانچ رکعتیں وتر کی پڑھیں اور ان کے بیچ میں بیٹھے نہیں۔


1359- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً بِرَكْعَتَيْهِ قَبْلَ الصُّبْحِ: يُصَلِّي سِتًّا مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِخَمْسٍ لا يَقْعُدُ بَيْنَهُنَّ إِلا فِي آخِرِهِنَّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۷۵) ( صحیح)
۱۳۵۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی سنتوں کو لے کر تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے: دودو کر کے چھ رکعتیں پڑھتے اور وتر کی پانچ رکعتیں پڑھتے اورصرف اُن کے آخر میں قعدہ کر تے۔


1360- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً بِرَكْعَتَيِ الْفَجْرِ۔
* تخريج: م /المسافرین ۱۷ (۷۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۷۱)، حم (۶/۲۲۲) ( صحیح)
۱۳۶۰- عروہ کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ رات کو فجر کی سنتوں کو لے کر کل تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔


1361- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَجَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الْمُقْرِءَ أَخْبَرَهُمَا عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ قَائِمًا، وَرَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الأَذَانَيْنِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدَعُهُمَا، قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ فِي حَدِيثِهِ: وَرَكْعَتَيْنِ جَالِسًا بَيْنَ الأَذَانَيْنِ، زَادَ: جَالِسًا۔
* تخريج: خ/التھجد ۲۲ (۱۱۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۳۵)، وانظر حدیث رقم : (۱۳۴۲) (صحیح) ’’وركعتين جالساً بين الأذانين‘‘
خطا ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ وتر کے بعد کی دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھیں (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۵؍ ۱۰۳- ۱۰۴)
۱۳۶۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی پھر کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں فجر کی دونوں اذانوں کے درمیان پڑھیں ، انہیں آپ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔
جعفربن مسافر کی روایت میں ہے: اور دو رکعتیں دونوں اذانوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھیں۔ انہوں نے ’’جالسًا‘‘ (بیٹھ کر) کا اضافہ کیا ہے۔


1362- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا: بِكَمْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُوتِرُ ؟ قَالَتْ: كَانَ يُوتِرُ بِأَرْبَعٍ وَثَلاثٍ، وَسِتٍّ وَثَلاثٍ، وَثَمَانٍ وَثَلاثٍ، وَعَشْرٍ وَثَلاثٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُوتِرُ بِأَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ، وَلا بِأَكْثَرَ مِنْ ثَلاثَ عَشْرَةَ .
قَالَ أَبودَاود: زَادَ أَحْمَدُ [بْنُ صَالِحٍ]: وَلَمْ يَكُنْ يُوتِرُ بِرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ. قُلْتُ: مَا يُوتِرُ؟ قَالَتْ: لَمْ يَكُنْ يَدَعُ ذَلِكَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ وَ< سِتٍّ وَثَلاثٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۸۲)، وقد أخرجہ: م/الحیض ۶ (۳۰۷)، مختصراً ت/فضائل القرآن ۲۳ (۱۶۲۸۲)، حم (۶/۱۴۹) ( صحیح)
۱۳۶۲- عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں: میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ وترکتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے جو اب دیا: کبھی چار اور تین، کبھی چھ اور تین، کبھی آٹھ اور تین اور کبھی دس اور تین، کبھی بھی آپ وتر میں سات سے کم اور تیرہ سے زائد رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔
ابوداود کہتے ہیں: احمد بن صالح نے اضافہ کیا ہے کہ آپ ﷺ فجرسے پہلے کی رکعتوں کو وتر نہیں کرتے تھے، میں نے پوچھا:انہیں وتر کرنے کا کیا مطلب؟ تو وہ بولیں : انہیں نہیں چھوڑتے تھے اور احمد نے چھ اور تین کا ذکر نہیں کیا ہے ۔


1363- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلَهَا عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِاللَّيْلِ، فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ إِنَّهُ صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَتَرَكَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُبِضَ ﷺ حِينَ قُبِضَ وَهُوَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ [وَكَانَ] آخِرُ صَلاتِهِ مِنَ اللَّيْلِ الْوِتْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۳۴) ( ضعیف)
(اس کے راوی ’’منصور ‘‘ کے حافظہ میں کچھ کمزوری ہے، نیز ابو اسحاق مختلط ہیں اور منصور کی ان سے روایت کے بارے میں پتہ نہیں کہ اختلاط سے پہلے ہے یا بعد میں )
۱۳۶۳- اسود بن یزید سے روایت ہے کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی رات کی صلاۃ (تہجد) کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: رات کو آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھرگیارہ رکعتیں پڑھنے لگے اور دو رکعتیں چھوڑ دیں، پھر وفات کے وقت آپ نو رکعتیں پڑھنے لگے تھے اور آپ کی رات کی آخری صلاۃ وتر ہوتی تھی۔


1364- حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلالٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: كَيْفَ كَانَتْ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِاللَّيْلِ؟ قَالَ: بِتُّ عِنْدَهُ لَيْلَةً وَهُوَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ، فَنَامَ حَتَّى [إِذَا] ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفُهُ اسْتَيْقَظَ، فَقَامَ إِلَى شَنٍّ فِيهِ مَائٌ، فَتَوَضَّأَ وَتَوَضَّأْتُ مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى يَسَارِهِ، فَجَعَلَنِي عَلَى يَمِينِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي كَأَنَّهُ يَمَسُّ أُذُنِي، كَأَنَّهُ يُوقِظُنِي، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَدْ قَرَأَ فِيهِمَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى حَتَّى صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ، ثُمَّ نَامَ، فَأَتَاهُ بِلالٌ. فَقَالَ: الصَّلاةُ يَارَسُولَ اللَّهِ، فَقَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى لِلنَّاسِ ۔
* تخريج: خ/الطہارۃ ۳۷ (۱۸۳)، الأذان ۵۸ (۶۹۸)، الوتر ۱ (۹۹۲)، التفسیر ۱۸ (۴۵۷۰)، ۱۹ (۴۵۷۱)، ۲۰ (۴۵۷۲)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، ت/الشمائل (۲۶۵)، ن/قیام اللیل ۹ (۱۶۲۱)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸۱ (۱۳۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۶۲)، وقد أخرجہ: ط/صلاۃ اللیل ۲ (۱۱)، حم ۱ (۲۲۲، ۳۵۸) ( صحیح)
۱۳۶۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کی رات کی صلاۃ (تہجد) کیسے ہوتی تھی؟ توانہوں نے کہا: ایک رات میں آپ کے پاس رہا ، آپ ﷺ ام المومنین میمونہ کے پاس تھے، آپ سو گئے، جب ایک تہائی یا آدھی رات گزر گئی تو بیدار ہوئے اور اٹھ کر مشکیزے کے پاس گئے، جس میں پانی رکھا تھا، وضو فرمایا، میں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ وضو کیا ، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں آپ ﷺ کے با ئیں پہلو میں کھڑا ہو گیا توآپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کرلیا،پھر اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا جیسے آپ میرے کان مل رہے ہوں گو یا مجھے بیدار کرنا چاہتے ہوں، پھر آپ ﷺ نے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں ان میں سے ہر رکعت میں آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی، پھر سلام پھیردیا، پھرآپ ﷺ نے صلاۃ پڑھی یہاں تک کہ مع وتر گیارہ رکعتیں ادا کیں، پھر سوگئے، اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ آئے اورکہنے لگے :اللہ کے رسول! صلاۃ، تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں پھرآپ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی۔


1365- حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّى ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْهَا رَكْعَتَا الْفَجْرِ، حَزَرْتُ قِيَامَهُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِقَدْرِ {يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ}، لَمْ يَقُلْ نُوحٌ: < مِنْهَا رَكْعَتَا الْفَجْرِ>۔
* تخريج: ن/الإمامۃ ۲۲ (۸۰۷)، والکبری/ الوتر ۵۹ (۱۴۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۸۴) ( صحیح)
۱۳۶۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المومنین میمو نہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک رات گزاری تو نبی اکرم ﷺ رات کو اٹھ کر صلاۃ پڑھنے لگے،آپ نے تیرہ رکعتیں پڑھیں، ان میں فجر کی دونوں رکعتیں بھی شامل تھیں، میرا اندازہ ہے کہ آپ ﷺ کا قیام ہر رکعت میں سورہ مزمل کے بقدر ہوتا تھا‘‘، نوح کی روایت میں یہ نہیں ہے:’’اس میں فجر کی دونوں رکعتیں بھی شامل تھیں‘‘۔


1366- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: لأَرْمُقَنَّ صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَتَوَسَّدْتُ عَتَبَتَهُ أَوْ فُسْطَاطَهُ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ، فَذَلِكَ ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۶ (۷۶۵)، ت/الشمائل (۲۶۹)، ن/الکبری/قیام اللیل ۲۶ (۱۳۳۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸۱ (۱۳۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۳)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۲ (۱۲)، حم (۵/۱۹۲) (صحیح)
۱۳۶۶- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ آج رات میں رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ (تہجد) ضرور دیکھ کر رہوں گا، چنانچہ میں آپ کی چوکھٹ یا دروازے پر ٹیک لگا کر سوئے رہا، رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں لمبی ، بہت لمبی بلکہ بہت زیادہ لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں ان سے کچھ ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی کچھ ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی ہلکی پڑھیں، پھر وتر پڑھی، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوئیں۔


1367- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مَخْرمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ اَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ -وَهِيَ خَالَتُهُ- قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى [إِذَا] انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَوَاتِمِ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، فَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، قَالَ الْقَعْنَبِيُّ: سِتَّ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَائَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۱۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۶۲) (صحیح)
۱۳۶۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ایک رات امّ المومنین میمو نہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری، وہ آپ کی خالہ تھیں، وہ کہتے ہیں:میں تکیے کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ اس کے طول میں لیٹیں، پھر نبی اکرم ﷺ سو گئے، جب آدھی رات یا کچھ کم وبیش گزری تو رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے منہ پر ہاتھ مل کر نیند دُور کی، پھر سورہ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد اٹھے اور لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور وضو کیا اور اچھی طرح سے کیا، پھر صلاۃ پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ ﷺ ہی کی طرح سارا کام کیا، پھر آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہوگیا، آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں ،پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں اور پھر دو رکعتیں، قعنبی کی روایت میں یوں ہے: دودو رکعتیں چھ مرتبہ پڑھیں، پھر وترپڑھی ، پھر لیٹ گئے یہاں تک کہ موذن آیا توآپ ﷺ اٹھے اورہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں پھر نکلے اور فجر پڑھائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
317- بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْقَصْدِ فِي الصَّلاةِ
۳۱۷-باب: صلاۃ میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے​



1368- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ > وَكَانَ إِذَا عَمِلَ عَمَلا أَثْبَتَهُ۔
* تخريج: خ/الإیمان ۳۲ (۴۳)، الأذان ۸۱ (۷۳۰)، والتھجد ۱۸ (۱۱۵۲)، واللباس ۴۳ (۵۸۶۱)، والرقاق ۱۸ (۶۴۶۵)، م/المسافرین ۳۰ (۷۸۲)، ن/القبلۃ ۱۳ (۷۶۳)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۳۶ (۹۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۲۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۰، ۵۱، ۶۱، ۲۴۱) (صحیح)
۱۳۶۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عمل کرتے رہو جتنا تم سے ہو سکے، اس لئے کہ اللہ تعالی(ثواب دینے سے) نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے ) تھک جائو، اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو پابندی کے ساتھ کیا جائے اگر چہ وہ کم ہو‘‘ ،چنانچہ آپ ﷺ جب کوئی کام شروع کرتے تو اس پر جمے رہتے۔


1369- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَجَائَهُ، فَقَالَ: < يَا عُثْمَانُ! أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي؟ > قَالَ: لا، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ، قَالَ: < فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ، فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ، فَإِنَّ لأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲۶، ۲۸۶) (صحیح)
۱۳۶۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، تو وہ آپ کے پاس آئے توآپ ﷺ نے فرمایا: ’’عثمان !کیا تم نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی ہے؟‘‘، انہوں نے جواب دیا : نہیں اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم، ایسی بات نہیں، میں تو آپ ہی کی سنت کا طالب رہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’میں تو سوتا بھی ہوں، صلاۃ بھی پڑھتا ہوں ، صوم بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، عثمان! تم اللہ سے ڈرو،کیونکہ تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا حق ہے، لہٰذا کبھی صوم رکھو اور کبھی نہ رکھو ، اسی طرح صلاۃ پڑھو اور سویا بھی کرو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی بہتر ہے اور بال بچوں سے کنارہ کشی اور رہبانیت اسلام کے خلاف ہے ۔


1370- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَ عَمَلُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ هَلْ كَانَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنَ الأَيَّامِ؟ قَالَتْ: لا، كَانَ [كُلُّ] عَمَلِهِ دِيمَةً، وَأَيُّكُمْ يَسْتَطِيعُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَطِيعُ ؟!.
* تخريج: خ/الرقاق ۱۸ (۶۴۶۶)، م/المسافرین ۳۰ (۷۸۳)، ت/الشمائل (۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۳، ۵۵، ۱۷۴، ۱۸۹، ۲۷۸) (صحیح)
۱۳۷۰- علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پو چھا : رسول اللہ ﷺ کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لئے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ ﷺ کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ ﷺ رکھتے تھے؟۔

* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ماہ رمضان کے احکام مسائل

{ بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ شَهْرِ رَمَضَانَ }

318- بَاب فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
۳۱۸-باب: ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان​




1371- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ الْحَسَنُ فِي حَدِيثِهِ: وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، ثُمَّ يَقُولُ: < مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ >، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلافَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِي اللَّه عَنْه، وَصَدْرًا مِنْ خِلافَةِ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَا رَوَاهُ عَقِيْلٌ وَيُونُسُ وَأَبُو أُوَيْسٍ: < مَنْ قَامَ رَمَضَانَ >، وَرَوَى عُقَيْلٌ: < مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَهُ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۵ (۷۵۹)، ت/الصوم ۱ (۶۸۳)، ۸۳ (۸۰۸)، ن/قیام اللیل ۳ (۱۶۰۴)، والصوم ۳۹ (۲۰۰۲)، والإیمان ۲۲ (۲۱۹۶)، ۲۲ (۵۰۲۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۲۲۷۷، ۱۵۲۷۰، ۱۵۲۴۸)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۲۷ (۳۷)، والصوم ۶ (۱۹۰۱)، والتراویح ۱ (۲۰۰۹)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۳ (۱۳۲۶)، ط/ الصلاۃ فی رمضان ۱ (۲)، حم (۲/۲۳۲، ۲۴۱، ۳۸۵، ۴۷۳، ۵۰۳)، دي/الصوم ۵۴ (۱۸۱۷) (صحیح)
۱۳۷۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بغیرتاکیدی حکم دئے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے : ’’جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تواس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردئے جائیں گے‘‘، رسول اللہ ﷺ کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلا فت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں:اور اسی طرح عقیل ، یونس اور ابو اویس نے ــ ’’من قام رمضان‘‘کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اورعقیل کی روایت میں’’من صام رمضان وقامه‘‘ ہے۔
وضاحت ۱؎ : پھر عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں کومسجد میں ایک امام کے پیچھے جمع کردیا، اسی وجہ سے اکثر علماء نے باجماعت تراویح کو افضل کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ گھر میں اکیلے پڑھنا افضل ہے۔


1372- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ [الْمَعْنَى]، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ : < مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ >.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَا رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ۔
* تخريج: خ/لیلۃ القدر ۱ (۲۰۱۴)، ن/الصیام ۲۲ (۲۲۰۴)، (تحفۃ الأشراف:۱۵۱۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴۱) (صحیح)
۱۳۷۲ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے صیامِ رمضان ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، اور جس نے شب قدرمیں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے بھی پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: اسی طرح اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے اور محمد بن عمرو نے ابو سلمہ سے روایت کیا ہے۔


1373- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى بِصَلاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: < قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ > وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ ۔
* تخريج: خ/الأذان ۸۰ (۷۲۹)، والجمعۃ ۲۹(۹۲۴)، والتہجد ۵ (۱۱۲۹)، والتراویح ۱ (۲۰۱۱)، م/المسافرین ۲۵ (۷۶۱)، ن/ قیام اللیل ۴ (۱۶۰۵)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۵۹۴)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ في رمضان ۱(۱)، حم (۶/۱۶۹، ۱۷۷) (صحیح)
۱۳۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں صلاۃ پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ ﷺ نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نکلے ہی نہیں،جب صبح ہوئی تو فرمایا: ’’میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎ ‘‘ اور یہ بات رمضان کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد اب یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لئے تراویح کی صلاۃ جماعت سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں تو دیگر (صحیح) روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے ان راتوں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں، اور رکعات وتر کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے، اور یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں۔


1374- حَدَّثَنَا هَنَّادُ [بْنُ السَّرِيِّ]، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ أَوْزَاعًا فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَضَرَبْتُ لَهُ حَصِيرًا فَصَلَّى عَلَيْهِ، بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَتْ فِيهِ: قَالَ -تَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ -: < أَيُّهَا النَّاسُ، أَمَا وَاللَّهِ مَا بِتُّ لَيْلَتِي هَذِهِ بِحَمْدِ اللَّهِ غَافِلا، وَلا خَفِيَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۷۷۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۶۷) (حسن صحیح)
۱۳۷۴ - ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ رمضان میں مسجد کے اندر الگ الگ صلاۃ پڑھا کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا، میں نے آپ کے لئے چٹائی بچھائی تو آپ ﷺ نے اس پر صلاۃ پڑھی، پھر آگے انہوں نے یہی واقعہ ذکر کیا، اس میں ہے: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :’’لوگو! اللہ کی قسم !میں نے بحمد اللہ یہ رات غفلت میں نہیں گذاری اور نہ ہی مجھ پر تمہارا یہاں ہونا مخفی رہا‘‘۔



1375- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ، حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، قَالَ: فَقَالَ: < إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ > قَالَ: فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَائَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاحُ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ۔
* تخريج: ت/الصوم ۸۱ (۸۰۶)، ن/السہو۱۰۳ (۱۳۶۵)، قیام اللیل ۴ (۱۶۰۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۳ (۱۳۲۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۱۹۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۵۹، ۱۶۳)، دي/ الصوم ۵۴ (۱۸۱۸) (صحیح)
۱۳۷۵- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صیامِ رمضان رکھے، آپ نے مہینے کی کسی رات میں بھی ہما رے ساتھ قیام نہیں فرمایا یہاں تک کہ(مہینے کی) سات راتیں رہ گئیں، پھرآپ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یعنی تیئیسویں (۲۳) یا چوبیسویں (۲۴) رات کو یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی اور جب چھ راتیں رہ گئیں یعنی (۲۴) ویں یا (۲۵) ویں رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، اس کے بعد( ۲۵) ویں یا (۲۶) ویں رات کو جب کہ پانچ راتیں باقی رہ گئیں آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے کہا:اللہ کے رسول! اس رات کاش آپ اور زیادہ قیام فرماتے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب آدمی امام کے ساتھ صلاۃ پڑھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے‘‘، پھر چھبیسویں (۲۶) یا ستائیسویں (۲۷) رات کو جب کہ چار راتیں باقی رہ گئیں آپ ﷺ نے پھر قیام نہیں کیا، پھر ستائیسویں(۲۷) یا اٹھائیسویں (۲۸) رات کو جب کہ تین راتیں باقی رہ گئیں آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ ہمیں خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا : فلا ح کیا ہے؟ ابوذر نے کہا :سحر کا کھانا، پھرا ٓپ ﷺ نے مہینے کی بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر مہینہ تیس دن کا شمار کیا جائے تو سات راتیں چوبیس سے رہتی ہیں، اور اگر انتیس دن کا مانا جائے تو تیئسویں سے سات راتیں رہتی ہیں، اس حساب سے نبی اکرم ﷺ نے تیئسویں، پچسویں اور ستائسویں رات میں قیام کیا،یہ راتیں طاق بھی ہیں اورمتبرک بھی، غالب یہی ہے کہ شب قدر بھی انہیں راتوں میں ہے۔



1376- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَدَاوُدُ بْنُ أُمَيَّةَ أَنَّ سُفْيَانَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، وَقَالَ دَاوُدُ: عَنِ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ أَحْيَا اللَّيْلَ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
قَالَ أَبودَاود: وَأَبُو يَعْفُورٍ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسٍ۔
* تخريج: خ/لیلۃ القدر ۵ (۲۰۲۴)، م/الاعتکاف ۳ (۱۱۷۴)، ت/الصوم ۷۳ (۷۹۵)، ن/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۰)، ق/الصوم ۵۷ (۱۷۶۸)، (تحفۃ الأشراف:۱۷۶۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۰، ۴۱) (صحیح)
۱۳۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی اکرم ﷺ راتوں کو جاگتے اور (عبادت کے لئے) کمر بستہ ہو جاتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے۔
ابوداود کہتے ہیں: ابو یعفو ر کا نام عبدالرحمن بن عبیدبن نسطاس ہے۔


1377- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِن عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: < مَا هَؤُلاءِ؟ > فَقِيلَ: هَؤُلاءِ نَاسٌ ليس مَعَهُمْ قُرْآنٌ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي وَهُمْ يُصَلُّونَ بِصَلاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَصَابُوا، وَنِعْمَ مَا صَنَعُوا >.
قَالَ أَبودَاود: لَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ بِالْقَوِيِّ، مُسْلِمُ ابْنُ خَالِدٍ ضَعِيفٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۴۰۹۴) (ضعیف)
( اس کے راوی ’’مسلم ‘‘ متکلم فیہ ہیں ، مولف نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے )
۱۳۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ( ایک بار) رسول اللہ ﷺ نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ رمضان میں مسجد کے ایک گوشے میں صلاۃ پڑھ رہے ہیں،آپ نے پوچھا: ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘، لوگوں نے عرض کیا : یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن یاد نہیں ہے، لہٰذا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے یہ لوگ صلاۃ پڑھ رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ’’انہوں نے ٹھیک کیا اور ایک بہتر کام کیا ‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے اس لئے کہ مسلم بن خالد ضعیف ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
319-بَاب فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
۳۱۹-باب: شب قدرکا بیان​



1378- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ [بْنُ زَيْدٍ]، عَنْ عَاصِمٍ؛ عَنْ زِرٍّ قَالَ: قُلْتُ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أَخْبِرْنِي عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ! فَإِنَّ صَاحِبَنَا سُئِلَ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْهَا، فَقَالَ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، زَادَ مُسَدَّدٌ: وَلَكِنْ كَرِهَ أَنْ يَتَّكِلُوا، أَوْ أَحَبَّ أَنْ لا يَتَّكِلُوا، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَفِي رَمَضَانَ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، لايَسْتَثْنِي، قُلْتُ: يَا أَبَا الْمُنْذِرِ! أَنَّى عَلِمْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: بِالآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، قُلْتُ لِزِرٍّ: مَا الآيَةُ؟ قَالَ: تُصْبِحُ الشَّمْسُ صَبِيحَةَ تِلْكَ اللَّيْلَةِ مِثْلَ الطَّسْتِ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ حَتَّى تَرْتَفِعَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۵ (۷۶۲)، ت/الصوم ۷۳ (۷۹۳)، ن/الاعتکاف (۳۴۰۶)، (تحفۃ الأشراف:۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۳۰، ۱۳۱) (حسن صحیح)
۱۳۷۸- زر کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: ابو منذر! مجھے شب قدر کے بارے میں بتائیے؟ اس لئے کہ ہمارے شیخ یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: جو پورے سال قیام کرے اسے پالے گا، ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ تعالی ابو عبدالرحمن پررحم فرمائے، اللہ کی قسم! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں ہے ( مسدد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے لیکن انہیں یہ ناپسند تھا کہ لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں یا ان کی خواہش تھی کہ لوگ بھروسہ نہ کرلیں، (آگے سلیمان بن حرب اور مسدد دونوں کی روایتوں میں اتفاق ہے) اللہ کی قسم! یہ رات رمضان میں ہے اور ستائیسویں رات ہے، اس سے باہر نہیں، میں نے پوچھا : اے ابومنذر !آپ کو یہ کیوں کر معلوم ہوا؟ انہوں نے جواب دیا : اس علامت سے جو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو بتائی تھی۔
( عاصم کہتے ہیں میں نے زر سے پوچھا: وہ علامت کیا تھی؟ جواب دیا:اس رات ( کے بعد جوصبح ہو تی ہے اس میں) سورج طشت کی طرح نکلتا ہے، جب تک بلندی کو نہ پہنچ جائے، اس میں کرنیں نہیں ہو تیں۔


1379- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ؛ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسِ بَنِي سَلَمَةَ وَأَنَا أَصْغَرُهُمْ، فَقَالُوا: مَنْ يَسْأَلُ لَنَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ؟ وَذَلِكَ صَبِيحَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ، فَخَرَجْتُ فَوَافَيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الْمَغْرِبِ، ثُمَّ قُمْتُ بِبَابِ بَيْتِهِ، فَمَرَّ بِي فَقَالَ: < ادْخُلْ > فَدَخَلْتُ، فَأُتِيَ بِعَشَائِهِ فَرَآنِي أَكُفُّ عَنْهُ مِنْ قِلَّتِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: < نَاوِلْنِي نَعْلِي > فَقَامَ وَقُمْتُ مَعَهُ، فَقَالَ: < كَأَنَّ لَكَ حَاجَةً >، قُلْتُ: أَجَلْ، أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ رَهْطٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ يَسْأَلُونَكَ عَنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَقَالَ: < كَمِ اللَّيْلَةُ؟ > فَقُلْتُ: اثْنَتَانِ وَعِشْرُونَ، قَالَ: <هِيَ اللَّيْلَةُ > ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: < أَوِ الْقَابِلَةُ > يُرِيدُ لَيْلَةَ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۵۱۴۳)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ الاعتکاف (۳۴۰۱، ۳۴۰۲)، حم (۳/۴۹۵) (حسن صحیح)
۱۳۷۹- عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی سلمہ کی مجلس میں تھا، اور ان میں سب سے چھوٹا تھا، لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے ہمارے لئے شب قدر کے بارے میں کون پوچھے گا؟ یہ رمضان کی اکیسویں صبح کی بات ہے، تو میں نکلا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب پڑھی، پھر آپ کے گھر کے دروازے پرکھڑا ہوگیا، توآپ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: ’’اندر آجاؤ ‘‘، میں اندر داخل ہوگیا، آپ کا شام کا کھانا آیا تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں کھانا تھوڑا ہونے کی وجہ سے کم کم کھا رہا ہوں، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’مجھے میرا جوتا دو‘‘، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لگتا ہے تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے؟‘‘، میں نے کہا : جی ہاں ، مجھے قبیلہ بنی سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ شب قدر کے سلسلے میں پوچھ رہے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’آج کون سی رات ہے؟‘‘ ، میں نے کہا : بائیسویں رات، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یہی شب قدر ہے‘‘، پھر لوٹے اور فرمایا: ’’یا کل کی رات ہو گی‘‘آپ کی مراد تیئسویں رات تھی۔


1380- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي بَادِيَةً أَكُونُ فِيهَا وَأَنَا أُصَلِّي فِيهَا بِحَمْدِ اللَّهِ، فَمُرْنِي بِلَيْلَةٍ أَنْزِلُهَا إِلَى هَذَا الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: < انْزِلْ لَيْلَةَ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ >، فَقُلْتُ لابْنِهِ: كَيْفَ كَانَ أَبُوكَ يَصْنَعُ؟ قَالَ: كَانَ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ فَلايَخْرُجُ مِنْهُ لِحَاجَةٍ حَتَّى يُصَلِّيَ الصُّبْحَ، فَإِذَا صَلَّى الصُّبْحَ وَجَدَ دَابَّتَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ فَجَلَسَ عَلَيْهَا فَلَحِقَ بِبَادِيَتِهِ۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۴۵)، وقد أخرجہ: ط/الاعتکاف ۶ (۱۲)، (کلاھما نحوہ) (حسن صحیح)
۱۳۸۰- عبداللہ بن انیس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک غیر آباد جگہ پر میرا گھر ہے میں اسی میں رہتا ہوں اور بحمداللہ وہیں صلاۃ پڑھتا ہوں، آپ مجھے کوئی ایسی رات بتا دیجئے کہ میں اس میں اس مسجد میں آیا کروں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تیئسویں شب کو آیا کرو ‘‘۔
محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے پوچھا: تمہارے والد کیسے کرتے تھے؟انہوں نے کہا: جب عصر پڑھنی ہوتی تو مسجد میں داخل ہو تے پھر کسی کام سے با ہر نہیں نکلتے یہاں تک کہ فجر پڑھ لیتے، پھر جب فجر پڑھ لیتے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر پاتے اور اس پر بیٹھ کراپنے بادیہ کو واپس آجاتے۔


1381- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ: فِي تَاسِعَةٍ تَبْقَى، وَفِي سَابِعَةٍ تَبْقَى، وَفِي خَامِسَةٍ تَبْقَى >۔
* تخريج: خ/لیلۃ القدر ۳ (۲۰۲۱) ۳ (۲۰۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۱، ۲۷۹، ۳۶۰، ۳۶۵) (صحیح)
۱۳۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے (یعنی شب قدر کو) رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو جب نو راتیں باقی رہ جائیں (یعنی اکیسویں شب کو) اور جب سات راتیں باقی رہ جائیں (یعنی تئیسویں شب کو) اور جب پانچ راتیں باقی رہ جائیں( یعنی پچیسویں شب کو)‘‘۔
 
Top