• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
330-بَاب مَنْ رَأَى فِيهَا السُّجُودَ
۳۳۰-باب: سورہ والنجم میں سجدہ ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان​



1406- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ فِيهَا، وَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلا سَجَدَ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى وَجْهِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا، قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا۔
* تخريج: خ/سجود القرآن ۱ (۱۰۷۲)، ۴ (۱۰۷۳)، ومناقب الأنصار ۲۹ (۳۸۵۳)، والمغازي ۸ (۳۹۷۲)، وتفسیر النجم ۴ (۴۸۶۲)، م/المساجد۲۰ (۵۷۶)، ن/الافتتاح ۴۹ (۹۶۰)، (تحفۃ الأشراف:۹۱۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۸، ۴۰۱، ۴۴۳، ۴۶۲) دي /الصلاۃ ۱۶۰ (۱۵۰۶) (صحیح)
۱۴۰۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورہ نجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھا یا اور کہنے لگا:میرے لئے اتنا ہی کا فی ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
331- بَاب السُّجُودِ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ وَ اقْرَأْ
۳۳۱-باب: سورہ’’ انشقاق‘‘ اور سورہ ’’علق‘‘ میں سجدے کا بیان​



1407- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَجَدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي {إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ} وَ{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ}.
قَالَ أَبودَاود: أَسْلَمَ أَبُو هُرَيْرَةَ سَنَةَ سِتٍّ عَامَ خَيْبَرَ، وَهَذَا السُّجُودُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ آخِرُ فِعْلِهِ۔
* تخريج: م/المساجد ۲۰ (۵۷۸)، ت/الصلاۃ ۲۸۵ (الجمعۃ ۵۰) (۵۷۳ و ۵۷۴)، ن/الافتتاح ۵۲ (۹۶۸)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۱ (۱۰۵۸و ۱۰۵۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۴۲۰۶)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۰۰(۷۶۶)، ط/القرآن ۵ (۱۲)، حم (۲/۲۴۹، ۴۶۱)، دي/الصلاۃ ۱۶۳ (۱۵۱۲) (صحیح)
۱۴۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سورہ {إِذَاْ السَّمَاْءُ انْشَقَّتْ} اور {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ} میں سجدہ کیا۔
ابوداود کہتے ہیں: ابوہریرہ ۶ھ ؁میں غزوۂ خیبر کے سال اسلام لائے اور رسول اللہ ﷺ کے یہ سجدے آپ کے آخری فعل ہیں۔


1408- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا بَكْرٌ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ الْعَتَمَةَ، فَقَرَأَ: {إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ} فَسَجَدَ، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ السَّجْدَةُ؟ قَالَ: سَجَدْتُ بِهَا خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ ﷺ ، فَلا أَزَالُ أَسْجُدُ بِهَا حَتَّى أَلْقَاهُ ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۰(۷۶۶)، م/المساجد ۲۰ (۵۷۸)، ن/الافتتاح ۵۳ (۹۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲۹، ۲۵۶، ۲۶۶) (صحیح)
۱۴۰۸- ابو رافع نفیع الصائغ بصری کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاء پڑھی، آپ نے{إِذَاْ السَّمَاْءُ انْشَقَّتْ} کی تلاوت کی اور سجدہ کیا، میں نے کہا: یہ سجدہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے یہ سجدہ ابوالقاسم ﷺ کے پیچھے (صلاۃ پڑھتے ہوئے) کیا ہے اور میں برابر اسے کرتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ سے جا ملوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
32- بَاب السُّجُودِ فِي «ص»
۳۳۲-باب: سورہ ’’ص‘‘ میں سجدے کا بیان​



1409- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَيْسَ (ص) مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَسْجُدُ فِيهَا۔
* تخريج: خ/سجود القرآن ۳ (۱۰۶۹)، ت/الصلاۃ ۲۸۸ (الجمعۃ ۵۳) (۵۷۷)، ن/الافتتاح ۴۸ (۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف:۵۹۸۸)، وقد أخرجہ: دي/الصلاۃ ۱۶۱ (۱۵۰۸) (صحیح)
۱۴۰۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سورہ ’’ص‘‘ کا سجدہ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔


1410- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو -يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ- عَنِ ابْنِ أَبِي هِلالٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ (ص) فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمٌ آخَرُ قَرَأَهَا فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ تَشَزَّنَ النَّاسُ لِلسُّجُودِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < إِنَّمَا هِيَ تَوْبَةُ نَبِيٍّ، وَلَكِنِّي رَأَيْتُكُمْ تَشَزَّنْتُمْ لِلسُّجُودِ >، فَنَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدُوا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داو د، (تحفۃ الأشراف:۴۲۷۶)، وقد أخرجہ: دي/الصلاۃ ۱۶۱ (۱۵۰۷) (صحیح)
۱۴۱۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورہ ’’ص‘‘ پڑھی ، آپ منبر پر تھے جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو اترے ، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر ایک دن کی بات ہے کہ آپ نے اس سورہ کی تلاوت کی، جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لئے تیار ہو گئے، اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’یہ سجدہ دراصل ایک نبی ۱؎ کی توبہ تھی، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لئے تیار ہو رہے ہو‘‘، چنانچہ آپ اترے، سجدہ کیا، لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد داود علیہ السلام ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
333- بَاب فِي الرَّجُلِ يَسْمَعُ السَّجْدَةَ وَهُوَ رَاكِبٌ [أَوْفِي غَيْرِ الصَّلاةِ]
۳۳۳-باب: سوار یا وہ شخص جو صلاۃ میں نہ ہو سجدے کی آیت سنے تو کیا کرے؟​



1411- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو الْجَمَاهِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَأَ عَامَ الْفَتْحِ سَجْدَةً، فَسَجَدَ النَّاسُ كُلُّهُمْ: مِنْهُمُ الرَّاكِبُ وَالسَّاجِدُ فِي الأَرْضِ، حَتَّى إِنَّ الرَّاكِبَ لَيَسْجُدُ عَلَى يَدِهِ۔
* تخريج: تفرد به أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۸۴۴۴) (ضعیف)
(اس کے راوی’’ مصعب‘‘ لین الحدیث ہیں مگر صحیحین میں یہی روایت قدرے مختصرسیاق میں موجود ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے )
۱۴۱۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال سجدے والی آیت پڑھی تو تمام لوگوں نے سجدہ کیا، کچھ ان میں سوار تھے اورکچھ زمین پر سجدہ کرنے والے تھے حتّی کہ سوار اپنے ہاتھ پر سجدہ کررہے تھے ۔


1412- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، الْمَعْنَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ؛ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ عَلَيْنَا السُّورَةَ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: فِي غَيْرِ الصَّلاةِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ، حَتَّى لايَجِدَ أَحَدُنَا مَكَانًا لِمَوْضِعِ جَبْهَتِهِ۔
* تخريج: خ/سجود القرآن ۸ (۱۰۷۵)، م/المساجد ۲۰ (۵۷۵)، (تحفۃ الأشراف:۸۰۰۸، ۸۰۱۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵۷)، دي/الصلاۃ ۱۶۱ (۱۵۰۷) (صحیح)
۱۴۱۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں سورہ پڑھ کر سناتے (ابن نمیر کی روایت میں ہے) ’’صلاۃ کے علاوہ میں‘‘(آگے یحییٰ بن سعید اور ابن نمیرسیاق حدیث میں متفق ہیں) ، پھر آپ ﷺ (سجدہ کی آیت آنے پر) سجدہ کرتے، ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ مل پاتی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایسی صورت میں وہ اپنے ہاتھ، یا ران، یا دوسرے کی پشت پر سجدہ کرلیتے تھے۔


1413- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ أَبُو مَسْعُودٍ الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْرَأُ عَلَيْنَا الْقُرْآنَ، فَإِذَا مَرَّ بِالسَّجْدَةِ كَبَّرَ وَسَجَدَ وَسَجَدْنَا مَعَهُ .
قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ: وَكَانَ الثَّوْرِيُّ يُعْجِبُهُ هَذَا الْحَدِيثُ.
قَالَ أَبودَاود: يُعْجِبُهُ لأَنَّهُ كَبَّرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۷۷۲۶) (منکر)
(سجدہ کے لئے تکبیر کا تذکرہ منکر ہے ، نافع سے روایت کرنے والے عبداللہ العمری ضعیف ہیں، بغیر تکبیر کے تذکرے کے یہ حدیث ثابت ہے جیسا کہ پچھلی حدیث میں ہے،البتہ دوسروے دلائل سے تکبیر ثابت ہے)
۱۴۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو قرآن سناتے، جب کسی سجدے کی آیت سے گزرتے تو ’’الله أكبر‘‘ کہتے اور سجدہ کرتے اور آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے۔
عبدا لرزاق کہتے ہیں: یہ حدیث ثوری کو اچھی لگتی تھی۔
ابو داود کہتے ہیں: انہیں یہ اس لئے پسند تھی کہ اس میں ’’الله أكبر‘‘ کا ذکر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
334-بَاب مَا يَقُولُ إِذَا سَجَدَ
۳۳۴-باب: سجدۂ تلاوت میں کیا پڑھے ؟​



1414- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ؛ عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ، يَقُولُ فِي السَّجْدَةِ مِرَارًا: < سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۹۰ (الجمعۃ ۵۵) (۵۸۰)، والدعوات ۳۳ (۳۴۲۵)، ن/التطبیق ۷۰ (۱۱۳۰)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۰۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۰، ۲۱۷) (صحیح)
(ترمذی اورنسائی کے یہاں سند میں ’’عن رجل‘‘ (مجہول راوی) نہیں ہے ، اور خالد الخداء کی روایت ابوالعالیہ سے ثابت ہے اس لئے اس حدیث کی صحت میں کوئی کلام نہیں )
۱۴۱۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں قرآن کے سجدوں میں کئی بار ’’سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ‘‘ (یعنی میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اپنی قوت وطاقت سے اسے پیدا کیا اور اس کے کان اور آنکھ بنا ئے) کہتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
335- بَاب فِيمَنْ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ
۳۳۵-باب: جوشخص فجر کے بعد سجدہ والی آیت پڑھے تو وہ کب سجدہ کرے؟​



1415- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَحْرٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيُّ قَالَ: لَمَّا بَعَثْنَا الرَّكْبَ - قَالَ أَبودَاود: يَعْنِي إِلَى الْمَدِينَةِ - قَالَ: كُنْتُ أَقُصُّ بَعْدَ صَلاةِ الصُّبْحِ فَأَسْجُدُ، فَنَهَانِي ابْنُ عُمَرَ فَلَمْ أَنْتَهِ، ثَلاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ عَادَ فَقَالَ: إِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِي اللَّه عَنْهمْ فَلَمْ يَسْجُدُوا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۷۱۱۰)، وقد أخرجہ: (حم (۲/۲۴، ۱۰۶) (ضعیف)
( اس کے راوی ’’ابوبحر عبدا لرحمن بن عثمان ‘‘ ضعیف ہیں )
۱۴۱۵- ابوتمیمہ طریف بن مجالد ہجیمی کہتے ہیں کہ جب ہم قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے تومیں فجر کے بعد وعظ کہا کرتا تھا، اور( سجدہ کی آیت پڑھنے کے بعد) سجدہ کرتا تھا تو مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے تین مر تبہ منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا، آپ نے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے صلاۃ پڑھی لیکن کسی نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا ۔

* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وتر کے احکام و مسائل

{ بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ }

336- بَاب اسْتِحْبَابِ الْوِتْرِ
۳۳۶-باب: وترکے مستحب ہونے کا بیان​




1416- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۱۶، (۴۵۳)، ن/قیام اللیل ۲۵ (۱۶۷۴)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۴ (۱۱۶۹)،(تحفۃ الأشراف:۱۰۱۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۰، ۱۱۵، ۱۲۰، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۴۸)، دي/الصلاۃ ۲۰۹ (۱۶۲۱) (صحیح)
(ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے ، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۴۱۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے قرآن والو! ۱؎ وتر پڑھا کرو اس لئے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کر تا ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یہاں اہل قرآن سے مراد قرّاء وحفاظ کی جماعت ہے نہ کہ عام مسلمان، اس سے علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں، اگر وتر واجب ہوتی تویہ حکم عام ہوتا، اہل قرآن (یعنی قراء وحفاظ وعلماء) کے ساتھ خاص نہ ہوتا، نیز آپ ﷺ نے اعرابی سے ’’ليس لك ولا لأصحابك‘‘ جوفرمایا وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، امام طیبی کے نزدیک وتر سے مراد تہجد ہے اسی لئے قراء سے خطاب فرمایا ہے ۔


1417- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الأَبَّارُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ، زَادَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا تَقُولُ؟ فَقَالَ: < لَيْسَ لَكَ وَلا لأَصْحَابِكَ >۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۴ (۱۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف:۹۶۲۷) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۱۴۱۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں اتنا مزید ہے: ایک اعرابی نے کہا: آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: یہ حکم تمہارے اور تمہا رے ساتھیوں کے لئے نہیں ہے۔


1418- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ -الْمَعْنَى-، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: قال: الْعَدَوِيُّ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ أَمَدَّكُمْ بِصَلاةٍ وَهِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، وَهِيَ الْوِتْرُ، فَجَعَلَهَا لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۱۵، الوتر ۱ (۴۵۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۴ (۱۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۴۵۰)، وقد أخرجہ: دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۱۷) (صحیح)
(لیکن ’’هي خير لكم من حمر النعم‘‘ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ اس ٹکڑے کے متابعات اور شواہد موجود نہیں ہیں ، یعنی یہ حدیث خود ضعیف ہے ، اس کے راوی ’’ عبد اللہ بن راشد ‘‘ مجہول ہیں لیکن متابعات اور شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۴۱۸- خا رجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہما رے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اللہ نے ایک ایسی صلاۃ کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے جو سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور وہ وتر ہے، اس کا وقت اس نے تمہارے لئے عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیا ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
337-بَاب فِيمَنْ لَمْ يُوتِرْ
۳۳۷-باب: جو شخص وتر نہ پڑھے وہ کیسا ہے؟​



1419- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الطَّالْقَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْعَتَكِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا >۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۹۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عبیداللہ العتکی‘‘ ضعیف ہیں)
۱۴۱۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’وتر حق ہے ۱؎ جو اسے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے ،جو اسے نہ پڑھے ہم میں سے نہیں، وتر حق ہے، جو اسے نہ پڑھے ہم سے نہیں‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ضعیف ہے، اگر صحیح ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وتر کا پڑھنا ثابت ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کی تخریج ابن المنذر نے ان الفاظ میں کی ہے’’الوتر حق وليس بواجب‘‘ یعنی وتر ایک ثابت شدہ امر ہے لیکن واجب نہیں۔


1420- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ؛ عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ أَنَّ رَجُلا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُدْعَى الْمَخْدَجِيَّ سَمِعَ رَجُلا بِالشَّامِ يُدْعَى أَبَا مُحَمَّدٍ يَقُولُ: إِنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، قَالَ الْمَخْدَجِيُّ: فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ عُبَادَةُ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، فَمَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ: إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ >۔
* تخريج: ن/الصلاۃ ۶ (۴۶۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۹۴ (۱۴۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۲)، وقد أخرجہ: ط/ صلاۃ اللیل ۳ (۱۴)، حم (۵/۳۱۵، ۳۱۹، ۳۲۲)، دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۱۸) (صحیح)
۱۴۲۰- ابن محیریز کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا: وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا: میں یہ سن کر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا: ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرما تے سنا ہے : ’’پانچ صلاتیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہوگا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہوگی تو اس کے لئے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہوگا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لئے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے وتر کا ذکر نہیں کیا ہے، اگر یہ واجب ہوتی تو آپ ﷺ اسے بھی ضرور بیان فرماتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
338- بَاب كَمِ الْوِتْرُ
۳۳۸-باب: وتر میں کتنی رکعت ہے؟​



1421- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ عُمرَ أَنَّ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ بِأُصْبُعَيْهِ هَكَذَا، مَثْنَى مَثْنَى، وَالْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، ن/ قیام اللیل ۳۲ (۱۶۹۲)، (تحفۃ الأشراف:۷۲۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۰، ۵۸، ۷۱، ۷۶، ۷۹، ۸۱، ۱۰۰) (صحیح)
۱۴۲۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دیہات کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے تہجد کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس طرح دو دو رکعتیں ہیں اور آخر رات میں وتر ایک رکعت ہے‘‘۔
وضاحت : وتر کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں متعدد روایتیں آئی ہیں جن میں ایک رکعت سے لے کرتیرہ رکعت تک کا ذکر ہے ان روایات کو صحیح مان کر انہیں اختلاف احوال پر محمول کرنا مناسب ہوگا، اور یہ واضح رہے کہ وتر کا مطلب دن بھر کی سنن و نوافل اور تہجد( اگر پڑھتا ہے تو) کو طاق بنا دینا ہے، اب چاہے اخیر میں ایک رکعت پڑھ کر طاق بنا دے یا تین یا پانچ ، اور اسی طرح طاق رکعتیں ایک ساتھ پڑھ کر،اور یہ سب صورتیں اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہیں ، نیز یہ بھی واضح رہے کہ وتر کا لفظ تہجد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، پانچ ، سات ، نو، یا تیرہ رکعت وتر کا یہی مطلب ہے ، نہ کہ تہجد کے علاوہ مزید پانچ تا تیرہ وتر الگ ہے ۔


1422- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي قُرَيْشُ بْنُ حَيَّانَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ وَائِلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِثَلاثٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ >۔
* تخريج: ن/قیام اللیل ۳۴ (۱۷۱)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۲۳ (۱۱۹۰)، (تحفۃ الأشراف:۳۴۸۰)، وقد أخرجہ: حم ۵/۴۱۸، دي/الصلاۃ ۲۱۰(۱۶۲۶) (صحیح)
۱۴۲۲- ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وتر ہر مسلمان پرحق ہے جو پانچ پڑھنا چاہے پانچ پڑھے، جو تین پڑھنا چاہے تین پڑھے اور جو ایک پڑھنا چاہے ایک پڑھے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
339- بَاب مَا يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ
۳۳۹-باب: وتر میں کون سی سورہ پڑھے؟​



1423- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُوحَفْصٍ الأَبَّارُ (ح) وَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَنَسٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ وَزُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُوتِرُ بِـ{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} وَ{قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا} وَ {قُلْ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ}۔
* تخريج: ن/قیام اللیل ۳۴ (۱۷۰۰، ۱۷۰۱، ۱۷۰۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۵ (۱۱۷۲)، (تحفۃ الأشراف:۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲۳) (صحیح)
۱۴۲۳- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر میں {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} اور ’’قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا‘‘ (یعنی{قل يا أيها الكافرون}) اور’’اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ‘‘ یعنی { قل هو الله أحد} پڑھا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ مستحب ہے اگر کوئی شخص ان رکعتوں میں مذکورہ سورتوں کے علاوہ دوسری سورتیں پڑھے توکوئی حرج کی بات نہیں۔


1424- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ: بِأَيِّ شَيْئٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ؟ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، قَالَ: وَفِي الثَّالِثَةِ بِـ { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۲۳ (الوتر ۹) (۴۶۳)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۵ (۱۱۷۳)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۳۰۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲۷) (صحیح)
(متابعات کی بنا پر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ عبدالعزیز ابن جریج کی ملاقات عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں)
۱۴۲۴- عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ وتر میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی، اور کہا تیسری رکعت میں آپ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدْ} اور معوذتین ۱؎ پڑھتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} اور {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاْسِ}۔
 
Top