وتر کے احکام و مسائل
{ بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْوِتْرِ }
336- بَاب اسْتِحْبَابِ الْوِتْرِ
۳۳۶-باب: وترکے مستحب ہونے کا بیان
1416- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۱۶، (۴۵۳)، ن/قیام اللیل ۲۵ (۱۶۷۴)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۴ (۱۱۶۹)،(تحفۃ الأشراف:۱۰۱۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۰، ۱۱۵، ۱۲۰، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۴۸)، دي/الصلاۃ ۲۰۹ (۱۶۲۱) (صحیح)
(ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے ، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۴۱۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے قرآن والو! ۱؎ وتر پڑھا کرو اس لئے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کر تا ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یہاں اہل قرآن سے مراد قرّاء وحفاظ کی جماعت ہے نہ کہ عام مسلمان، اس سے علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں، اگر وتر واجب ہوتی تویہ حکم عام ہوتا، اہل قرآن (یعنی قراء وحفاظ وعلماء) کے ساتھ خاص نہ ہوتا، نیز آپ ﷺ نے اعرابی سے
’’ليس لك ولا لأصحابك‘‘ جوفرمایا وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، امام طیبی کے نزدیک وتر سے مراد تہجد ہے اسی لئے قراء سے خطاب فرمایا ہے ۔
1417- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الأَبَّارُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ، زَادَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا تَقُولُ؟ فَقَالَ: < لَيْسَ لَكَ وَلا لأَصْحَابِكَ >۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۴ (۱۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف:۹۶۲۷) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ ابوعبیدہ کا اپنے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے )
۱۴۱۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے اس میں اتنا مزید ہے: ایک اعرابی نے کہا: آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: یہ حکم تمہارے اور تمہا رے ساتھیوں کے لئے نہیں ہے۔
1418- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ -الْمَعْنَى-، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: قال: الْعَدَوِيُّ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ أَمَدَّكُمْ بِصَلاةٍ وَهِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، وَهِيَ الْوِتْرُ، فَجَعَلَهَا لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ >۔
* تخريج: ت/الصلاۃ ۲۱۵، الوتر ۱ (۴۵۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۴ (۱۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۴۵۰)، وقد أخرجہ: دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۱۷) (صحیح)
(لیکن
’’هي خير لكم من حمر النعم‘‘ کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ اس ٹکڑے کے متابعات اور شواہد موجود نہیں ہیں ، یعنی یہ حدیث خود ضعیف ہے ، اس کے راوی ’’ عبد اللہ بن راشد ‘‘ مجہول ہیں لیکن متابعات اور شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۴۱۸- خا رجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہما رے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اللہ نے ایک ایسی صلاۃ کے ذریعے تمہاری مدد کی ہے جو سرخ اونٹوں سے بھی تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور وہ وتر ہے، اس کا وقت اس نے تمہارے لئے عشاء سے طلوع فجر تک مقرر کیا ہے‘‘۔