326-بَاب تَحْزِيبِ الْقُرْآنِ
۳۲۶-باب: قرآن کے حصے اور پارے مقرر کرنے کا بیان
1392- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ؛ عَنِ ابْنِ الْهَادِ قَالَ: سَأَلَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، فَقَالَ [لِي]: فِي كَمْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَقُلْتُ: مَا أُحَزِّبُهُ، فَقَالَ لِي نَافِعٌ: لا تَقُلْ مَا أُحَزِّبُهُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < قَرَأْتُ جُزْئًا مِنَ الْقُرْآنِ >، قَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهُ ذَكَرَهُ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۱۵۳۲) (صحیح)
۱۳۹۲- ابن الہاد کہتے ہیں کہ مجھ سے نافع بن جبیر بن مطعم نے پوچھا : تم کتنے دنوں میں قرآن پڑھتے ہو؟ تو میں نے کہا: میں اس کے حصے نہیں کرتا، یہ سن کر مجھ سے نافع نے کہا: ایسا نہ کہو کہ میں اس کے حصے نہیں کرتا، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے قرآن کا ایک حصہ پڑھا ‘‘ ۱؎ ۔
ابن الہاد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ بن شعبہ سے نقل کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے قرآن مجید کو تیس حصوں میں تقسیم کرنے اور اس کے تیس پارے بنا لینے کا جواز ثابت ہوا، اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قرآن کے اس طرح سے تیس پارے نہیں تھے، جس طرح اس وقت رائج ہیں۔
1393- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَالِدٍ -هَذَا لَفْظُهُ- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ فِي حَدِيثِهِ: أَوْسُ بْنُ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ، قَالَ: فَنَزَلَتِ الأَحْلافُ عَلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَأَنْزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَنِي مَالِكٍ فِي قُبَّةٍ لَهُ، قَالَ مُسَدَّدٌ: وَكَانَ فِي الْوَفْدِ الَّذِينَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ ثَقِيفٍ، قَالَ: كَانَ كُلَّ لَيْلَةٍ يَأْتِينَا بَعْدَ الْعِشَاءِ يُحَدِّثُنَا، و قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: قَائِمًا عَلَى رِجْلَيْهِ حَتَّى يُرَاوِحُ بَيْنَ رِجْلَيْهِ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَأَكْثَرُ مَا يُحَدِّثُنَا مَا لَقِيَ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ قُرَيْشٍ، ثُمَّ يَقُولُ: <لا سَوَاءَ، كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ مُسْتَذَلِّينَ -قَالَ مُسَدَّدٌ: بِمَكَّةَ- فَلَمَّا خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ كَانَتْ سِجَالُ الْحَرْبِ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ: نُدَالُ عَلَيْهِمْ وَيُدَالُونَ عَلَيْنَا >، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةً أَبْطَأَ عَنِ الْوَقْتِ الَّذِي كَانَ يَأْتِينَا فِيهِ، فَقُلْنَا:لَقَدْ أَبْطَأْتَ عَنَّا اللَّيْلَةَ، قَالَ: < إِنَّهُ طَرَأَ عَلَيَّ جُزْئِي مِنَ الْقُرْآنِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَ حَتَّى أُتِمَّهُ >.
قَالَ أَوْسٌ: سَأَلْتُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَيْفَ يُحَزِّبُونَ الْقُرْآنَ؟ قَالُوا: ثَلاثٌ، وَخَمْسٌ، وَسَبْعٌ، وَتِسْعٌ، وَإِحْدَى عَشْرَةَ، وَثَلاثَ عَشْرَةَ، وَحِزْبُ الْمُفَصَّلِ وَحْدَهُ.
[قَالَ أَبودَاود]: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ أَتَمُّ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۸ (۱۳۴۵)، (تحفۃ الأشراف:۱۷۳۷) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’عثمان ‘‘ لین الحدیث ہیں)
۱۳۹۳- اوس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ثقیف کے ایک وفد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، وفد کے وہ لوگ جن سے معاہدہ ہوا تھا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس ٹھہرے اور بنی مالک کا قیام رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے خیمے میں کرایا، (مسدد کہتے ہیں: اوس بھی اس وفد میں شامل تھے، جو ثقیف کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تھا) اوس کہتے ہیں: تو ہر رات آپ ﷺ عشاء کے بعد ہمارے پاس آتے اور ہم سے گفتگو کر تے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضافہ ہے کہ(آپ گفتگو) کھڑے کھڑے کرتے اور دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے آپ کبھی ایک پیر پر اور کبھی دو سرے پیر پر بو جھ ڈالتے اور زیادہ تران واقعات کا تذکرہ کر تے، جو آپ ﷺ کو اپنی قوم قریش کی جانب سے پیش آئے تھے، پھر فرماتے: ’’ہم اور وہ برابر نہ تھے، ہم مکہ میں کمزور اور ناتواں تھے، پھر جب ہم نکل کر مدینہ آگئے تو جنگ کا ڈول ہمارے اور ان کے بیچ رہتا، کبھی ہم ان پر غالب آتے اور کبھی وہ ہم پر‘‘۔
ایک رات آپ ﷺ کو حسب معمول وقت پر آنے میں تاخیر ہوگئی تو ہم نے آپ سے پوچھا : آج رات آپ نے آنے میں تاخیر کر دی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آج قرآن مجید کا میرا ایک حصہ تلاوت سے رہ گیا تھا، مجھے اسے پورا کئے بغیر آنا اچھا نہ لگا‘‘۔
اوس کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے پوچھا کہ وہ لوگ کیسے حصے مقرر کر تے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلا حزب (حصہ) تین سورتوں کا، دوسرا حزب (حصہ) پانچ سورتوں کا ، تیسرا سات سورتوں کا، چوتھا نو سورتوں کا، پانچواں گیارہ اور چھٹا تیرہ سورتوں کا اور ساتواں پورے مفصل کا ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: ابو سعید(عبد اللہ بن سعید الاشیخ) کی روایت کامل ہے۔
وضاحت ۱؎ : پہلا حزب: بقرہ، آل عمران اور نساء نامی سورتیں، دوسرا حزب: مائدہ، انعام، اعراف، انفال اور توبہ نامی سورتیں، تیسرا حزب: یونس، ھود، یوسف، رعد، ابراہیم، حجر اور نحل نامی سورتیں، چوتھا حزب: اسرائیل، کہف، مریم، طٰہٰ، انبیاء، حج، مومنون، نور اور فرقان نامی سورتیں، پانچواں حزب: شعراء، نمل، قصص، عنکبوت، روم، لقمان، الم تنزیل السجدۃ، احزاب، سبا، فاطر اور یٰسین نامی سورتیں، چھٹواں حزب: صافات، ص، زمر، مومن، حم سجدہ، شوریٰ، زخرف، دخان، جاثیہ، احقاف، محمد، فتح اور حجرات نامی سورتیں، ساتواں حزب: سورہ (ق) سے لے کر اخیر قرآن تک کی سورتیں۔
1394- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ [الضَّرِيرُ]، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَلاءِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاثٍ >۔
* تخريج: ت/القراء ات ۱۳ (۲۹۴۹)، ن الکبری/ فضائل القرآن (۸۰۶۷)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۸ (۱۳۴۷)، (تحفۃ الأشراف:۸۹۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۴، ۱۶۵، ۱۸۹، ۱۹۵)، دی/ فضائل القرآن ۳۲ (۳۵۱۴) (صحیح)
۱۳۹۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جوشخص قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھتا ہے سمجھتا نہیں ہے‘‘۔
1395- حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ : فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ؟ قَالَ: فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ قَالَ: فِي شَهْرٍ، ثُمَّ قَالَ: فِي عِشْرِينَ، ثُمَّ قَالَ: فِي خَمْسَ عَشْرَةَ، ثُمَّ قَالَ: فِي عَشْرٍ، ثُمَّ قَالَ: فِي سَبْعٍ، لَمْ يَنْزِلْ مِنْ سَبْعٍ۔
* تخريج: ت/ القراء ات ۱۳ (۲۹۴۷)، ن الکبری/ فضائل القرآن (۸۰۶۸، ۸۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف:۸۹۴۴) (صحیح) (اِس روایت میں وارد لفظ’’ لم ینزل من سبع‘‘شاذ ہے جو خود ان کی روایت (نمبر۱۳۹۱) کے برخلاف ہے جس میں ’’تین دن ‘‘ بھی وارد ہوا ہے )۔
۱۳۹۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا :قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ چالیس دن میں‘‘، پھر فرمایا: ’’ ایک ماہ میں‘‘، پھر فرمایا:’’ بیس دن میں‘‘، پھر فرمایا: ’’پندرہ دن میں‘‘، پھر فرمایا:’’ دس دن میں‘‘، پھر فرمایا:’’ سات دن میں‘‘،آپ ﷺ سات سے نیچے نہیں اترے۔
1396- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ قَالا: أَتَى ابْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي أَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ: أَهَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ وَنَثْرًا كَنَثْرِ الدَّقَلِ؟! لَكِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ النَّظَائِرَ: السُّورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ (النَّجْمَ، وَالرَّحْمَنَ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(اقْتَرَبَتْ، وَالْحَاقَّةَ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(الطُّورَ، وَالذَّارِيَاتِ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(إِذَا وَقَعَتْ، وَنُونَ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(سَأَلَ سَائِلٌ، وَالنَّازِعَاتِ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ، وَعَبَسَ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(الْمُدَّثِّرَ، وَالْمُزَّمِّلَ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(هَلْ أَتَى، وَلا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(عَمَّ يَتَسَائَلُونَ، وَالْمُرْسَلاتِ) فِي رَكْعَةٍ، وَ(الدُّخَانَ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ) فِي رَكْعَةٍ.
قَالَ أَبودَاود: هَذَا تَأْلِيفُ ابْنِ مَسْعُودٍ رَحِمَهُ اللَّهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۹۱۸۳)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۰۶ (۷۷۵)، وفضائل القرآن ۶ (۴۹۹۶)، ۲۸ (۵۰۴۳)، م/المسافرین ۴۹ (۷۲۲)، ت/الصلاۃ ۳۰۵ (الجمعۃ ۶۹) (۶۰۲)، ن/الافتتاح ۷۵ (۱۰۰۷)، حم (۱/۳۸۰، ۴۱۷، ۴۲۷، ۴۳۶، ۴۵۵) (صحیح)
(مگر سورتوں کی یہ فہرست ثابت نہیں ہے، اور مؤلف کے سوا کسی کے یہاں یہ فہرست ہے بھی نہیں )
۱۳۹۶- علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا : میں ایک رکعت میں مفصل پڑھ لیتا ہوں، انہوں نے کہا:کیا تم اس طرح پڑھتے ہو جیسے شعرجلدی جلدی پڑھا جاتا ہے یا جیسے سوکھی کھجوریں درخت سے جھڑتی ہیں؟ لیکن نبی اکرم ﷺ دو ہم مثل سورتوں کو جیسے ’’
نجم اور
رحمن‘‘ ایک رکعت میں، ’’
اقتربت اور
الحاقة‘‘ ایک رکعت میں،
’’والطور اور الذاريات‘‘ایک رکعت میں،
’’إذا وقعت اور
نون‘‘ایک رکعت میں،’’
سأل سائل اور
النازعات‘‘ ایک رکعت میں، ’’
ويل للمطففين اور
عبس‘‘ ایک رکعت میں، ’’
المدثر اور
المزمل‘‘ ایک رکعت میں، ’’
هل أتى اور
لا أقسم بيوم القيامة‘‘ ایک رکعت میں، ’’
عم يتسائلون اور
المرسلات‘‘ ایک رکعت میں، اور اسی طرح ’’
الدخان اور
إذا الشمس كورت‘‘ ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے ۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ ابن مسعود کی ترتیب ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔
1397- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا مَسْعُودٍ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ قَرَأَ الآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ >۔
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۱۰ (۵۰۰۹)، م/المسافرین ۴۳ (۸۰۷)، ت/فضائل القرآن ۴ (۲۸۸۱)، ن/ الیوم واللیلۃ (۷۲۱)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۸۳ (۱۳۶۹)، (تحفۃ الأشراف:۹۹۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۸، ۱۲۱، ۱۲۲)، دي/الصلاۃ ۱۷۰ (۱۵۲۸)، وفضائل القرآن ۱۴ (۳۴۳۱) (صحیح)
۱۳۹۷- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابو مسعودرضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس نے کسی رات میں سورہ بقرہ کے آخر کی دو آیتیں پڑھیں تو یہ اس کے لئے کافی ہوں گی‘‘۔
1398- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو أَنَّ أَبَا سَوِيَّةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ حُجَيْرَةَ يُخْبِرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ، وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ، وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِينَ >.
قَالَ أَبودَاود: ابْنُ حُجَيْرَةَ الأَصْغَرُ عَبْدُاللَّهِ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ حُجَيْرَةَ۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۸۸۷۴) (صحیح)
۱۳۹۸- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دس آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا، اور جو ایک ہزار آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کرے گا وہ بے انتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: ابن حجیرہ الاصغر سے مراد عبداللہ بن عبدالرحمن بن حجیرہ ہیں۔
1399- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالا: أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: أَقْرِئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: < اقْرَأْ ثَلاثًا مِنْ ذَوَاتِ الرٓ > فَقَالَ: كَبُرَتْ سِنِّي وَاشْتَدَّ قَلْبِي وَغَلُظَ لِسَانِي، قَالَ: < فَاقْرَأْ ثَلاثًا مِنْ ذَوَاتِ حاميم > فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَقَالَ: <اقْرَأْ ثَلاثًا مِنَ الْمُسَبِّحَاتِ >، فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقْرِئْنِي سُورَةً جَامِعَةً، فَأَقْرَأَهُ النَّبِيُّ ﷺ : {إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ} حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لا أَزِيدُ عَلَيْهَا أَبَدًا، ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَفْلَحَ الرُّوَيْجِلُ > مَرَّتَيْنِ۔
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۲۰۴ (۹۵۰)، (تحفۃ الأشراف:۸۹۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۹) (ضعیف) (اس میں عیسی بن ہلال صدفی ضعیف ہیں)
۱۳۹۹- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورعرض کیا:اللہ کے رسول! مجھے قرآن مجید پڑھائیے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان تین سورتوں کو پڑھو جن کے شروع میں’’
الر‘‘ ہے‘‘ ۱؎ ، اس نے کہا: میں عمر رسیدہ ہو چکا ہوں، میرا دل سخت اور زبان موٹی ہوگئی ہے ( اس لئے اس قدر نہیں پڑھ سکتا)، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر’’
حم‘‘والی تینوں سورتیں پڑھا کرو‘‘، اس شخص نے پھر وہی پہلی بات دہرائی،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو ’’
مسبحات‘‘ میں سے تین سورتیں پڑھا کرو‘‘، اس شخص نے پھر پہلی بات دہرادی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے ایک جامع سورہ سکھا دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے اس کو
{إِذَاْ زُلْزِلَتِ الأَرْضُ} سکھائی، جب آپ ﷺ اس سے فارغ ہوئے تو اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا، میں کبھی اس پر زیادہ نہیں کروں گا، جب آدمی واپس چلا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے دو مر تبہ فرمایا: ’’
أفلح الرويجل‘‘ (بوڑھا کا میاب ہوگیا)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی سورہ یونس، سورہ ہود اور سورہ یوسف۔