• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ
۲۲-باب: اپنے ما ل کی حفاظت کرتے ہوئے ماراجانے والاآدمی شہیدہے​


1418- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَحَاتِمُ بْنُ سِيَاهٍ الْمَرْوَزِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ سَرَقَ مِنَ الأَرْضِ شِبْرًا طُوِّقَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ" وَزَادَ حَاتِمُ ابْنُ سِيَاهٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ مَعْمَرٌ: بَلَغَنِي عَنِ الزُّهْرِيِّ وَلَمْ أَسْمَعْ مِنْهُ زَادَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: "مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ" وَهَكَذَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ, وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/السنۃ ۳۲ (۴۷۷۲)، ن/المحاربۃ ۲۲ (۴۰۹۵)، ق/الحدود ۲۱ (۲۵۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۶۱)، وحم (۱/۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰) ویأتي برقم : ۱۴۲۱ (صحیح)
۱۴۱۸- سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہیدہے ۱؎ اورجس نے ایک بالشت بھی زمین چرائی قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث میں حاتم بن سیا ہ مروزی نے اضافہ کیا ہے، معمر کہتے ہیں: زہری سے مجھے حدیث پہنچی ہے، لیکن میں نے ان سے نہیں سنا کہ انہوں نے اس حدیث یعنی ''من قتل دون ماله فهو شهيد''(جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے ماراجائے وہ شہیدہے) میں کچھ اضافہ کیاہو، اسی طرح شعیب بن ابوحمزہ نے یہ حدیث بطریق: ''الزهري، عن طلحة بن عبدالله، عن عبدالرحمن ابن عمرو بن سهل، عن سعيد بن زيد، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے، نیز سفیان بن عیینہ نے بطریق: ''الزهري، عن طلحة بن عبدالله، عن سعيد بن زيد، عن النبي ﷺ''روایت کی ہے، اس میں سفیان نے عبدالرحمن بن عمروبن سہل کاذکرنہیں کیا۔
وضاحت ۱ ؎ : اپنی جان، مال ،اہل و عیال اور عزت وناموس کی حفاظت اور دفاع ایک شرعی امر ہے، ایسا کرتے ہوئے اگر کسی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تواسے شہادت کا درجہ نصیب ہوگا، لیکن یہ شہید میدان جہاد کے شہید کے مثل نہیں ہے، اسے غسل دیاجائے گا، اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی جائے گی اوراسے کفن بھی دیاجائے گا۔


1419- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُوعَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَقَدْرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلرَّجُلِ أَنْ يُقَاتِلَ عَنْ نَفْسِهِ وَمَالِهِ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ يُقَاتِلُ عَنْ مَالِهِ وَلَوْ دِرْهَمَيْنِ.
* تخريج: خ/المظالم ۳۳ (۲۴۸۰)، م/الإیمان ۶۲ (۲۲۵)، د/السنۃ ۳۲ (۴۷۷۱)، ن/المحاربۃ ۲۲ (۴۰۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۳)، وحم (۲/۱۶۳، ۱۹۳، ۱۹۴، ۲۰۵، ۲۰۶، ۲۱۰، ۲۱۵، ۲۱۷، ۲۲۱، ۲۲۴) (صحیح)
۱۴۱۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوے ماراجائے وہ شہیدہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے، یہ دوسری سند وں سے بھی ان سے مروی ہے ۲-بعض اہل علم نے آدمی کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لیے دفاع کی اجازت دی ہے،۳- اس باب میں علی ، سعید بن زید ، ابوہریرہ ، ابن عمر، ابن عباس اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: آدمی اپنے مال کی حفاظت کے لیے دفاع کرے خواہ اس کا مال دودرہم ہی کیوں نہ ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی کسی دوسرے شخص کا ناحق مال لینا چاہتا ہے تو یہ دیکھے بغیر کہ مال کم ہے یا زیادہ مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے اس کا دفاع کرے ،دفاع کرتے وقت غاصب اگر مارا جائے تو دفاع کرنے والے پر قصاص اور دیت میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور اگر دفاع کرنے والا ماراجائے تو وہ شہید ہے۔


1420- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ الْكُوفِيُّ شَيْخٌ ثِقَةٌ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: سُفْيَانُ وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا قَال: سَمِعْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
1420/م- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۲۰- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس آدمی کا ما ل ناحق چھینا جائے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے دفاع کرتاہواماراجائے تووہ شہیدہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۱۴۲۰/م- اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔


1421- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا، وَيَعْقُوبُ هُوَ ابْنُ إبرَاهِيمَ بنِ سَعْدِ بنِ إبرَاهِيمَ بنِ عَبدِالرحْمَانِ بِنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۱۴۱۸ (صحیح)
۱۴۲۱- سعیدبن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے ہوئے سنا: ''جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیاجائے وہ شہیدہے ، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیاجائے وہ شہیدہے ، جواپنی جان کی حفاظت کی خاطرمارا جائے اوہ شہیدہے اورجواپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیاجائے وہ شہیدہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابراہیم بن سعد سے کئی راویوں نے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَسَامَةِ
۲۳-باب: قسامہ کا بیان​


1422- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ قَالَ: يَحْيَى وَحَسِبْتُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا قَالاَ: خَرَجَ عَبْدُاللهِ بْنُ سَهْلِ ابْنِ زَيْدٍ وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَاكَ، ثُمَّ إِنَّ مُحَيِّصَةَ وَجَدَ عَبْدَاللهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلاً قَدْ قُتِلَ فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، ذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَانِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَبِّرْ لِلْكُبْرِ"، فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللهِ ﷺ مَقْتَلَ عَبْدِاللهِ بْنِ سَهْلٍ فَقَالَ لَهُمْ: "أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا؟ فَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ (أَوْ قَاتِلَكُمْ)" قَالُوا: وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ، قَالَ: "فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا" قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَعْطَى عَقْلَهُ.
* تخريج: خ/الصح ۷ (۲۷۰۲)، والجزیۃ ۱۲ (۳۱۷۳)، والأدب ۸۹ (۶۱۸۳)، والدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، والأحکام ۳۸ (۷۱۹۲)، م/القسامۃ (الحدود) ۱ (۱۶۶۹)، د/الدیات ۸ (۴۵۲۰)، ن/القسامۃ ۳ (۴۷۱۴)، ق/الدیات ۲۸ (۲۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۴)، وط/القسامۃ ۱ (۲۰۱)، وحم (۴/۲، ۳)، ودي/الدیات ۲ (۲۳۹۸) (صحیح)
1422/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْقَسَامَةِ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ فُقَهَائِ الْمَدِينَةِ الْقَوَدَ بِالْقَسَامَةِ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّ الْقَسَامَةَ لاَ تُوجِبُ الْقَوَدَ وَإِنَّمَا تُوجِبُ الدِّيَةَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۲۲- سہل بن ابوحثمہ اوررافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبداللہ بن سہل بن زیداورمحیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما کہیں جانے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے ، جب وہ خیبرپہنچے توالگ الگ راستوں پرہوگئے ، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا،کسی نے ان کوقتل کردیاتھا،آپ نے انہیں دفنادیا، پھروہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے، عبدالرحمن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے ، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگوکرناچاہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''بڑے کا لحاظ کرو،لہذا وہ خاموش ہوگئے اوران کے دونوں ساتھیوں نے گفتگوکی، پھروہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریکِ گفتگوہو گئے، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کاواقعہ بیان کیا، آپ نے ان سے فرمایا: '' کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤگے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہوجاؤ (یا کہا:) قاتل کے خون کے مستحق ہوجاؤ؟'' ان لوگوں نے عرض کیا: ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے ؟ آپ نے فرمایا:'' تویہود پچاس قسمیں کھاکرتم سے بری ہوجائیں گے''، ان لوگوں نے کہا: ہم کا فرقوم کی قسم کیسے قبول کرلیں؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب یہ معاملہ دیکھاتو ان کی دیت ۱؎ خوداداکردی۔
۱۴۲۲/م- اس سندسے بھی سہل بن ابوحثمہ اوررافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے، ۳- مدینہ کے بعض فقہا ء قسامہ ۲؎ کی بناپرقصا ص درست سمجھتے ہیں ،۴- کوفہ کے بعض اہل علم اورکچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں : قسامہ کی بناپرقصاص واجب نہیں، صرف دیت واجب ہے۔
وضاحت ۱؎ : بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کردی۔
وضاحت ۲؎ : قسامہ : نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کاعلم کسی کو نہ ہو، پھر قاتل کے خلاف کوئی شہادت بھی موجود نہ ہو، تو بعض قرائن کی بنیاد پر مقتول کے اولیاء کسی متعین شخص کے خلاف دعویٰ پیش کریں کہ فلاں نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے،مثلاً مقتول اور مدعی علیہ کے مابین عداوت پائی جائے ، یا مقتول مدعی علیہ کے گھر کے قریب ہو یا مقتول کاسامان کسی انسان کے پاس پایاجائے، یہ سب قرائن ہیں،تو مدعی، مدعی علیہ کے خلاف پچاس قسمیں کھاکر مقتول کے خون کا مستحق ہوجائے گا، یا اگر مدعی قسم کھانے سے گریز کریں تو مدعا علیہ قسم کھا کر خوں بہا سے بری ہوجائے گا، دونوں کے قسم نہ کھانے کی صورت میں خوں بہا بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

15- كِتَاب الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۵-کتاب: حدود وتعزیرات سے متعلق احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ لاَ يَجِبُ عَلَيْهِ الْحَدُّ
۱- باب: جن پر حدواجب نہیں ان کا بیان​


1423- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ، وَعَنِ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ "وَعَنِ الْغُلاَمِ حَتَّى يَحْتَلِمَ" وَلاَ نَعْرِفُ لِلْحَسَنِ سَمَاعًا مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَاهُ الأَعْمَشُ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ كَانَ الْحَسَنُ فِي زَمَانِ عَلِيٍّ وَقَدْ أَدْرَكَهُ وَلَكِنَّا لاَ نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْهُ وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ حُصَيْنُ بْنُ جُنْدَبٍ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۹۷)، وراجع : د/الحدود ۱۶ (۴۳۹۹- ۴۴۰۳)، ق/الطلاق ۱۵ (۲۰۴۲)، وحم (۱/۱۱۶، ۱۴۰، ۹۵۵، ۱۵۸) (صحیح)
(شواہد ومتابعات کی بناپر یہ صحیح ہے ، ورنہ حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے ، نیز ان کا سماع بھی علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اوردیگر طرق بھی کلام سے خالی نہیں ہیں، دیکھئے : الإ رواء رقم ۲۹۷)
۱۴۲۳- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں(یعنی قابل مواخذہ نہیں ہیں) : سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے ،بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے،اور دیوانہ جب تک کہ سمجھ بوجھ والا نہ ہوجائے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس سند سے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے ،۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی علی سے مروی ہے ، وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں ،۳- بعض راویوں نے '' وَعَنِ الْغُلاَمِ حَتَّى يَحْتَلِمَ'' کہاہے، یعنی بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے مرفوع القلم ہے،۴ - علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حسن بصری موجودتھے،حسن نے ان کا زمانہ پایا ہے، لیکن علی سے ان کے سماع کا ہمیں علم نہیں ہے،۵- یہ حدیث :عطاء بن سائب سے بھی مروی ہے انہوں نے یہ حدیث بطریق: ''أبي ظبيان، عن علي بن أبي طالب، عن النبي ﷺ'' اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اعمش نے بطریق: ''أبي ظبيان، عن ابن عباس، عن علي'' موقوفاًروایت کیا ہے، انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا،۶- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۷- اہل علم کاعمل اسی حدیث پر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي دَرْئِ الْحُدُودِ
۲- باب: حد کے دفع کرنے کا بیان​


1424- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ أَبُوعَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ادْرَئُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعُقُوبَةِ".
1424/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ عَائِشَةَ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَاهُ وَكِيعٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرِوَايَةُ وَكِيعٍ أَصَحُّ. وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُمْ قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا وَأَقْدَمُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۸۹) (ضعیف)
(سند میں ''یزیدبن زیاد الدمشقی ''متروک ہے)
۱۴۲۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جہاں تک تم سے ہوسکے مسلمانوں سے حدودکو دفع کر و، اگر مجرم کے بچ نکلنے کی کوئی صورت ہو تواسے چھوڑ دو، کیونکہ مجرم کو معاف کردینے میں امام کا غلطی کرنااسے سزا دینے میں غلطی کرنے سے کہیں بہترہے۔
۱۴۲۴/م- اس سند سے وکیع نے یزید بن زیاد سے محمد بن ربیعہ کی حدیث کی طرح بیان کیا،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کوہم مرفوع صرف بطریق: ''محمد بن ربيعة، عن يزيد بن زياد الدمشقي، عن عروة، عن عائشة، عن النبي ﷺ '' ہی جانتے ہیں، ۲-اسے وکیع نے بھی یزید بن زیاد سے اسی طرح روایت کیا ہے، لیکن یہ مرفوع نہیں ہے، اور وکیع کی روایت زیادہ صحیح ہے،۳- یزید بن زیاد دمشقی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، اور یزید بن ابوزیاد کوفی ان سے زیادہ اثبت اوراقدم ہیں،۴- نبی اکرمﷺ کے کئی صحابہ سے اسی طرح مروی ہے ، ان تمام لوگوں نے ایساہی کہاہے،۵- اس باب میں ابوہریرہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّتْرِ عَلَى الْمُسْلِمِ
۳-باب: مسلمان کے عیب پرپردہ ڈالنے کا بیان​


1425- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ. وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ.
* تخريج: م/الذکر ۱۱ (۲۲۹۹)، د/الأدب ۶۸ (۴۹۴۶)، ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۵)، والحدود ۵ (۲۵۴۴)، ویأتي عند المؤلف فی البر والصلۃ ۱۹ (۱۹۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۰)، وحم (۲/۲۵۲)، دي/المقدمۃ ۳۲ (۳۶۰) (صحیح)
1425/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطَ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الأَعْمَشِ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جس نے کسی مومن سے دنیاکی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دورکی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ بندے کی مددمیں لگا رہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددمیں لگاہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بطریق: ''الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ ''، اور اسباط بن محمد نے اعمش سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوصالح کے واسطہ سے بیان کیا گیاہے، انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- ہم سے اسے عبید بن اسباط بن محمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والدنے اعمش کے واسطہ سے یہ حدیث بیان کی،۴- اس باب میں عقبہ بن عامر اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1426- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/المظالم ۳ (۲۴۴۲)، والإکراہ ۷ (۶۹۵۱)، م/البر والصلۃ ۱۵ (۲۵۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۷۷) (صحیح)
۱۴۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مسلمان مسلمان کابھائی ہے ۱؎ ، نہ اس پرظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مددچھوڑتاہے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگاہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگاہوتاہے، جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دورکرتاہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دورکرے گا، اورجو کسی مسلمان کے عیب پرپردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالیٰ کے فرمان :{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ} (الحجرات:10) کا بھی یہی مفہوم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّلْقِينِ فِي الْحَدِّ
۴-باب: حدوالے جرم کی تحقیق میں تلقین کرنے کا بیان ۱؎​


1427- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ: "أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ؟" قَالَ: وَمَابَلَغَكَ عَنِّي؟ قَالَ: "بَلَغَنِي أَنَّكَ وَقَعْتَ عَلَى جَارِيَةِ آلِ فُلاَنٍ"، قَالَ: نَعَمْ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: م/الحدود ۵ (۱۶۹۳)، د/الحدود ۲۴ (۴۴۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۱۹)، وحم (۱/۲۴۵، ۳۱۴، ۳۲۸) (صحیح)
۱۴۲۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ماعزبن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' تمہارے بارے میں جومجھے خبرملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟'' ماعز رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بارے میں آپ کوکیا خبرملی ہے؟ آپ نے فرمایا: ''مجھے خبرملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے؟'' انہوں نے کہا: ہا ں، پھرانہوں نے چارمرتبہ اقرارکیا، تو آپ نے حکم دیا، توانہیں رجم کردیاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲-اس حدیث کوشعبہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کیا ہے، انہوں نے اس سند میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے،۳- اس باب میں سائب بن یزید سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مجرم اگر اپنے گناہ کا خود اقرار کررہا ہوتو اس کے سامنے ایسی باتیں رکھنا جن کی وجہ سے ا س پر حد واجب نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي دَرْئِ الْحَدِّ عَنِ الْمُعْتَرِفِ إِذَا رَجَعَ
۵- باب: مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حدساقط کرنے کا بیان​


1428- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُوسَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ مَاعِزٌ الأَسْلَمِيُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الآخَرِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الآخَرِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَمَرَ بِهِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْحَرَّةِ فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ حَتَّى مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَهُ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ بِهِ وَضَرَبَهُ النَّاسُ حَتَّى مَاتَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ فَرَّ حِينَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "هَلاَّ تَرَكْتُمُوهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: خ/الحدود ۲۲ (۶۸۱۵)، والأحکام ۱۹ (۷۱۶۷)، م/الحدود ۵ (۱۶)، ق/الحدود ۹ (۲۵۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۶۱)، وحم (۲/۲۸۶-۲۸۷، ۴۵۰، ۴۵۳) (صحیح)
۱۴۲۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر اعتراف کیاکہ میں نے زناکیا ہے، آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھروہ دوسری طرف سے آئے اوربولے: اللہ کے رسول!میں نے زناکیا ہے، آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا ، پھروہ دوسری طرف سے آئے اوربولے: اللہ کے رسول!میں نے زناکیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پرآپ نے رجم کا حکم دے دیا، چنانچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجمکیا گیا، جب انہیں پتھرکی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتی کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی ، اس نے ماعزکو اسی سے مارااور لوگوں نے بھی مارایہاں تک کہ وہ مرگئے، پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ جب پتھر اورموت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑدیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱ - یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے ، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق: ''أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، عن النبي ﷺ '' اسی طرح روایت کی ہے۔ (جو آگے آرہی ہے)
وضاحت ۱؎ : ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں : ''هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه'' یعنی اسے تم لوگوں نے کیوں نہیں چھوڑ دیا ، ہوسکتا ہے وہ اپنے اقرار سے پھر جاتا اور توبہ کرتا ، پھر اللہ اس کی توبہ قبول کرتا۔(اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے)


1429- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَبِكَ جُنُونٌ؟" قَالَ: لاَ، قَالَ: "أَحْصَنْتَ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ خَيْرًا وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ مَرَّةً أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ، وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنَّ ابْنِي زَنَى بِامْرَأَةِ هَذَا، الحَدِيثُ بِطُولِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"، وَلَمْ يَقُلْ فَإِنْ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ.
* تخريج: خ/الطلاق ۱۱ (۵۲۷۰)، والحدود ۲۱ (۶۸۱۴)، و۲۵ (۶۸۲۰)، م/الحدود ۵ (۱۶)، د/الحدود ۲۴ (۴۴۳۰)، ن/الجنائز ۶۳ (۱۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۹)، وحم (۳/۳۲۳)، ودي/الحدود ۱۲ (۲۳۶۱) (صحیح) (إلاّ أن البخاري قال : ''وصلی علیہ'' وہی شاذۃ)
۱۴۲۹- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آکر زنا کا اعتراف کیا ،توآپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا ، پھر اس نے اقرار کیا ، آپ نے پھرمنہ پھیر لیا، حتی کہ اس نے خودچارمرتبہ اقرارکیا، تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' کیا تم پاگل ہو؟''اس نے کہا:نہیں ،آپ نے پوچھا : کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہاہاں: پھرآپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عیدگاہ میں رجم کیاگیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کردیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اوررجم کیاگیا یہاں تک کہ وہ مرگیا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ زناکا اقرارکرنے والا جب اپنے اوپرچارمرتبہ گواہی دے تو اس پر حدقائم کی جائے گی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک مربتہ بھی کوئی زناکا اقرارکرلے گا تو اس پر حد قائم کردی جائے گی ، یہ مالک بن انس اورشافعی کا قول ہے ، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورزیدبن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دوآدمی رسول اللہ ﷺ تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زناکیا ، یہ ایک لمبی حدیث ہے ، (آخرمیں ہے) نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' انیس ! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگروہ زناکااقرارکرے تو اسے رجم کردو''، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ'' جب چارمرتبہ اقرارکرے '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیاگیا، اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''أتصلي عليها وقد زنت؟'' کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم'' یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئے :كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم ۱۴۳۵۔
وضاحت ۲؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے،پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يُشَفَّعَ فِي الْحُدُودِ
۶-باب: حد میں سفارش کرنا مکروہ ہے​


1430- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ ﷺ؟ فَقَالُوا: مَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلاَّ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ؟" ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ فَقَالَ: "إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِم الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدّ،َ وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مَسْعُودِ ابْنِ الْعَجْمَائِ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُقَالُ مَسْعُودُ بْنُ الأَعْجَمِ وَلَهُ هَذَا الْحَدِيثُ.
* تخريج: خ/الشہادات ۸ (۲۶۴۸)، والأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۵)، وفضائل الصحابۃ ۱۸ (۳۷۳۲)، والمغازي ۵۳ (۴۳۰۴)، والحدود ۱۱ (۶۷۸۷)، و۱۲ (۶۷۸۸) و۱۴ (۶۸۰۰)، م/الحدود ۲ (۱۶۸۸)، د/الحدود ۴ (۴۳۷۳)، ن/قطع السارق ۶ (۴۹۰۶)، ق/الحدود ۶ (۴۵۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۷۸)، وحم (۶/۱۶۲)، ودي/الحدود ۵ (۲۳۴۸) (صحیح)
۱۴۳۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ ٔبنو مخزوم کی ایک عورت ۱؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکر مند ہوئے، وہ کہنے لگے: اس کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرأت کر سکتا ہے ؟ چنانچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کررہے ہو ؟'' پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا :'' لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کمزورحال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے، اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں مسعود بن عجماء، ابن عمر اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- مسعود بن عجماء کو مسعودبن اعجم بھی کہاجاتاہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کانام فاطمہ بنت اسود تھا، اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی توپھر اس سے مکر جاتی۔
وضاحت ۲؎ : نبی اکرمﷺ کا ارشاد کہ'' اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی''، یہ بالفرض والتقدیر ہے، ورنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت وطہارت کی خبر دی ہے {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}(الأحزاب:33) فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺکے نزدیک آپ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي تَحْقِيقِ الرَّجْمِ
۷-باب: رجم کے ثبوت کا بیان​


1431- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: رَجَمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَرَجَمَ أَبُوبَكْرٍ وَرَجَمْتُ، وَلَوْلاَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَزِيدَ فِي كِتَابِ اللهِ لَكَتَبْتُهُ فِي الْمُصْحَفِ، فَإِنِّي قَدْخَشِيتُ أَنْ تَجِيئَ أَقْوَامٌ فَلاَ يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللهِ فَيَكْفُرُونَ بِهِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۵۱)، وانظر حم (۱/۳۶، ۴۳) وانظر ما یأتي (صحیح)
(متابعات کی بناپر صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں ''سعیدبن مسیب'' اور ''عمر رضی اللہ عنہ '' کے درمیان انقطاع ہے)
۱۴۳۱- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رجم کیا، اورمیں نے بھی رجم کیا، اگرمیں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتاتواس کو ۱؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اورکتاب اللہ میں حکم رجم(سے متعلق آیت) نہ پاکر اس کا انکار کردیں۔
ابوعیسیٰ(ترمذی) کہتے ہیں: ۱- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور دوسری سندوں سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے،۳- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آیت رجم'' الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نكالا من الله...''کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا ۔
وضاحت ۲؎ : سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام وفرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا، چنانچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا، افسوس صد افسوس ! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سرپھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیاجائے۔


1432- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: إِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ، فَرَجَمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، فَيَقُولَ قَائِلٌ: لاَ نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللهُ، أَلاَ وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أَحْصَنَ، وَقَامَتِ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ حَمَلٌ أَوْ اعْتِرَافٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
* تخريج: خ/الحدود ۳۰ (۶۸۲۹)، م/الحدود ۴ (۱۶۹۱)، د/الحدود ۲۳ (۴۴۱۸)، ق/الحدود ۸ (۲۵۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۰۸)، وحم (۱/۲۹، ۴۰، ۴۷، ۵۰، ۵۵)، دي/الحدود ۱۶ (۲۳۶۸) (صحیح)
۱۴۳۲- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ،اور آپ پر کتاب نازل کی،آپ پرجوکچھ نازل کیاگیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎ ، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے رجم کیا اور آپ کے بعدہم نے بھی رجم کیا ، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ درازہوجائے گا توکہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے ،ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے ،خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اورگواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زناکیا گیا ہووہ حاملہ ہوجائے، یا زانی خود اعتراف کرلے تو رجم کرنا واجب ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ سے آئی ہے،۳- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔
 
Top