• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي الدِّيَةِ كَمْ هِيَ مِنَ الدَّرَاهِمِ
۲-باب: دیت میں کتنے درہم دیے جائیں؟​


1388- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ جَعَلَ الدِّيَةَ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا۔
* تخريج: د/الدیات ۱۸ (۴۵۴۶)، ن/القسامۃ ۳۵ (۴۸۰۷، ۴۸۰۸)، ق/الدیات ۶ (۲۶۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۵) ودي/الدیات ۱۱ (ضعیف)
(اس روایت کا مرسل ہو نا ہی صحیح ہے ، جیساکہ امام ابوداوداورمولف نے صراحت کی ہے ، اس کو ''عمروبن دینار''سے سفیان بن عینیہ نے جو کہ محمد بن مسلم طائفی کے بالمقابل زیادہ ثقہ ہیں ) نے بھی روایت کیا ہے لیکن انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تذکرہ نہیں کیا ہے دیکھئے : الإرواء رقم ۲۲۴۵)
۱۳۸۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دیت بارہ ہزاردرہم مقررکی۔


1389- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَفِي حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ كَلاَمٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا۔
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الدِّيَةَ عَشْرَةَ آلاَفٍ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ أَعْرِفُ الدِّيَةَ إِلاَّمِنْ الإِبِلِ وَهِيَ مِائَةٌ مِنَ الإِبِلِ أَوْ قِيمَتُهَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۲۰) (ضعیف)
(یہ مرسل روایت ہے)
۱۳۸۹- ہم سے سعید بن عبد الرحمن المخزومی نے بیا ن کیا ، وہ کہتے ہیں: ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینا رکے واسطے سے بیان کیا ، عمروبن دینار نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس روایت میں ابن عباس کاذکرنہیں کیا، ابن عیینہ کی روایت میں محمدبن مسلم طائفی کی روایت کی بنسبت کچھ زیادہ باتیں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ہمارے علم میں محمد بن مسلم کے علاوہ کسی نے اس حدیث میں'' ابن عباس'' کے واسطہ کاذکر نہیں کیا ہے، ۲- بعض اہل علم کے نزدیک اسی حدیث پر عمل ہے، احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،۳- اور بعض اہل اعلم کے نزدیک دیت دس ہزار(درہم)ہے ، سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے،۴- امام شافعی کہتے ہیں: ہم اصلِ دیت صرف اونٹ کو سمجھتے ہیں اور وہ سواونٹ یا اس کی قیمت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُوضِحَةِ
۳-باب: موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم) کا بیان​


1390- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " فِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ أَنَّ فِي الْمُوضِحَةِ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ.
* تخريج: د/الدیات ۲۰ (۴۵۶۲)، ن/القسامۃ ۴۴ (۴۸۵۴)، ق/الدیات ۱۸ (۲۶۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۸۰)، وحم (۲/۲۰۷) (حسن صحیح)
۱۳۹۰- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم) ۱؎ میں پانچ اونٹ ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور اہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے ،سفیان ثوری ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول یہی ہے کہ موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم)میں پانچ اونٹ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : موضحہ وہ زخم ہے جس سے ہڈی کھل جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الأَصَابِعِ
۴-باب: انگلیوں کی دیت کا بیان​


1391- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ: "فِي دِيَةِ الأَصَابِعِ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَائٌ عَشْرٌ مِنَ الإِبِلِ لِكُلِّ أُصْبُعٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: د/الدیات ۲۰ (۴۵۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۴۹) (صحیح)
۱۳۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فرمایا:'' دونوں ہاتھ اوردونوں پیر برابرہیں ،(دیت میں) ہرانگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- اس سند سے ابن عباس کی حدیث حسن صحیح اورغریب ہے، ۲- اہل علم کا عمل اسی پر ہے ، سفیان ثوری، شافعی ، احمداوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔


1392- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَائٌ يَعْنِي الْخِنْصَرَ وَالإِبْهَامَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الدیات ۲۰ (۶۸۹۵)، د/الدیات ۲۰ (۴۵۵۸)، ن/القسامۃ ۴۴ (۴۸۵۲)، ق/الدیات ۱۸ (۲۶۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸۷)، وحم (۱/۳۳۹)، و دي/الدیات ۱۵ (۲۴۱۵) (صحیح)
۱۳۹۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''دیت میں یہ اور یہ برابرہیں ، یعنی چھنگلیا انگوٹھا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں کی دیت دس دس اونٹ ہے، اگرچہ انگوٹھا چھنگلی سے جوڑمیں کم ہے، اس طرح انگلی کے پوروں میں کوئی پور کاٹ دیاجائے تو اس کی دیت پوری انگلی کی دیت کی ایک تہائی ہوگی، انگوٹھے کا ایک پورکاٹ دی جائے تو اس کی دیت انگوٹھے کی آدھی دیت ہوگی کیونکہ انگوٹھے میں دوہی پورہوتی ہے برخلاف باقی انگلیوں کے ان میں تین پورہوتی ہیں ہاتھ اورپیر کی انگلی دونوں کا حکم ایک ہے ان میں فرق نہیں کیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَفْوِ
۵-باب: دیت معاف کردینے کا بیان​


1393- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا أَبُوالسَّفَرِ قَالَ: دَقَّ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ سِنَّ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ لِمُعَاوِيَةَ: يَاأَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنَّ هَذَا دَقَّ سِنِّي، قَالَ مُعَاوِيَةُ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ، وَأَلَحَّ الآخَرُ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَبْرَمَهُ فَلَمْ يُرْضِهِ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: شَأْنَكَ بِصَاحِبِكَ، وَأَبُوالدَّرْدَائِ جَالِسٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ (قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي) يَقُولُ: "مَا مِنْ رَجُلٍ يُصَابُ بِشَيْئٍ فِي جَسَدِهِ فَيَتَصَدَّقُ بِهِ إِلاَّ رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهِ خَطِيئَةً" قَالَ الأَنْصَارِيُّ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، قَالَ: فَإِنِّي أَذَرُهَا لَهُ. قَالَ مُعَاوِيَةُ: لاَ جَرَمَ لاَ أُخَيِّبُكَ، فَأَمَرَ لَهُ بِمَالٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَلاَ أَعْرِفُ لأَبِي السَّفَرِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي الدَّرْدَاء، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ أَحْمَدَ وَيُقَالُ ابْنُ يُحْمِدَ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: ق/الدیات ۳۵ (۲۶۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۷۱)، وحم (۶/۴۴۸) (ضعیف)
(ابوالسفرکا سماع ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، اس لیے سند میں انقطاع ہے)
۱۳۹۳- ابوسفرسعیدبن أحمدکہتے ہیں:ایک قریشی نے ایک انصاری کا دانت توڑدیا، انصاری نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے فریادکی ،اوران سے کہا: امیرالمومنین ! اس(قریشی) نے میرادانت توڑدیا ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تمہیں ضرور راضی کریں گے، دوسرے (یعنی قریشی) نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا اصرارکیا اور( یہاں تک منت سماجت کی کہ) انہیں تنگ کردیا، معاویہ اس سے مطمئن نہ ہوئے، چنانچہ معاویہ نے اس سے کہا: تمہارا معاملہ تمہارے ساتھی کے ہاتھ میں ہے ، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺکوکہتے سناہے، میرے کانوں نے اسے سناہے اوردل نے اسے محفوظ رکھا ہے، آپ فرمارہے تھے: ''جس آدمی کے بھی جسم میں زخم لگے اوروہ اسے صدقہ کردے (یعنی معاف کردے) تو اللہ تعالیٰ اسے ایک درجہ بلندی عطاکرتاہے اور اس کاایک گناہ معاف فرمادیتاہے ، انصاری نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے آپ نے سناہے ؟ ابوالدرداء نے کہا: میرے دونوں کانوں نے سناہے اورمیرے دل نے اسے محفوظ رکھاہے ، اس نے کہا: تو میں اس کی دیت معاف کردیتاہوں، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میں تمہیں محروم نہیں کرونگا، چنانچہ انہوں نے اسے کچھ مال دینے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہمیں یہ صرف اسی سندسے معلوم ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ابوسفر نے ابوالدرداء سے سنا ہے، ۲- ابوسفرکانام سعید بن احمدہے ، انہیں ابن یحمد ثوری بھی کہا جاتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ رُضِخَ رَأْسُهُ بِصَخْرَةٍ
۶-باب: جس کاسرپتھرسے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان​


1394- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ، فَأَخَذَهَا يَهُودِيٌّ فَرَضَخَ رَأْسَهَا بِحَجَرٍ وَأَخَذَ مَا عَلَيْهَا مِنَ الْحُلِيِّ، قَالَ: فَأُدْرِكَتْ وَبِهَا رَمَقٌ، فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: "مَنْ قَتَلَكِ؟ أَفُلاَنٌ؟" قَالَتْ بِرَأْسِهَا: لاَ، قَالَ: "فَفُلاَنٌ؟ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ" فَقَالَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ، قَالَ: فَأُخِذَ فَاعْتَرَفَ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ قَوَدَ إِلاَّ بِالسَّيْفِ.
* تخريج: خ/الوصایا ۵ (۲۷۴۶)، والطلاق ۲۴ (تعلیقاً) والدیات ۴ (۶۸۷۶)، و ۵ (۶۸۷۷)، و ۱۲ (۶۸۸۴)، م/القسامۃ ۳ (۱۶۷۲)، د/الدیات ۱۰ (۴۵۲۷)، ن/المحاربۃ ۹ (۴۰۵۵)، والقسامۃ ۱۳ (۴۷۴۵)، ق/الدیات ۲۴ (۲۶۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۱)، وحم (۳/۱۶۳، ۱۸۳، ۲۰۳، ۲۶۷)، دي/الدیات ۴ (۲۴۰۰) (صحیح)
۱۳۹۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑکر پتھر سے اس کاسر کچل دیا اور اس کے پاس جوزیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی ، چنانچہ اسے نبی اکرمﷺ کے پاس لایا گیا،آپ نے اس سے پوچھا: ''تمہیں کس نے ماراہے، فلاں نے؟'' اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں ، آپ نے پوچھا : ''فلاں نے ؟'' یہاں تک کہ اس یہودی کانام لیا گیا(جس نے اس کا سرکچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تویہودی پکڑاگیا ،اور اس نے اعترافِ جرم کرلیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا، اور اس کا سردوپتھروں کے درمیان کچل دیاگیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے ، احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ، بعض اہل علم کہتے ہیں: قصاص صرف تلوار سے لیاجائے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیرکی روایت ہے جو ابن ماجہ میں '' لا قود إلا بالسيف''کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے، لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم: منکرہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي تَشْدِيدِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ
۷-باب: مومن کے قتل ناحق پرواردوعید کا بیان​


1395- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ".
* تخريج: ن/المحاربۃ ۲ (۳۹۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۷) (صحیح)
1395/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ. قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَبُرَيْدَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، هَكَذَا رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ فَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ يَعْلَى ابْنِ عَطَائٍ مَوْقُوفًا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۹۵- عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' دنیاکی بربادی اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے سے کہیں زیادہ کمتروآسان ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم سے محمدبن بشارنے بسند محمدبن جعفر عن شعبہ عن یعلی بن عطاء عن عبداللہ بن عمرو اسی طرح روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ۲- یہ روایت ابن ابی عدی کی روایت کے بالمقابل زیادہ صحیح ہے(یعنی موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے)، ۳- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ابن ابی عدی نے شعبہ سے، بسند یعلی بن عطاء عن أبیہ عن عبداللہ بن عمرو عن النبی ﷺاسی طرح روایت کیا ہے، جب کہ محمد بن جعفر اور ان کے علاوہ دوسروں نے شعبہ سیبسندیعلی بن عطاء روایت کیا ہے ،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اسی طرح سفیان ثوری نے یعلی بن عطاء سے موقوفا روایت کی ہے اور یہ (موقوف روایت ابن ابی عدی کی ) مرفوع حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں سعد، ابن عباس، ابوسعید، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر ،ابن مسعود اور بریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب الْحُكْمِ فِي الدِّمَائِ
۸-باب: خون کے فیصلہ کا بیان​


1396- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحْكَمُ بَيْنَ الْعِبَادِ فِي الدِّمَائِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الأَعْمَشِ مَرْفُوعًا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ الأَعْمَشِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴۸ (۶۵۳۳)، والدیات ۱ (۶۸۶۴)، م/القسامۃ ۸ (۱۶۷۸)، ن/المحاربۃ ۲ (۳۹۹۷)، ق/الدیات ۱ (۲۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۶)، وحم (۱/۳۸۸، ۴۴۱، ۴۴۲) (صحیح)
۱۳۹۶-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (آخرت میں) بندوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اسی طرح کئی لوگوں نے اعمش سے مرفوعاروایت کی ہے، ۲- اوربعض نے اعمش سے روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کہاہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث''أول ما يحاسب به العبد صلاته'' کے منافی نہیں ہے، کیونکہ خون کے فیصلہ کا تعلق لوگوں کے آپسی حقوق سے ہے جب کہ صلاۃ والی حدیث کا تعلق خالقِ کائنات کے حقوق سے ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے حقوق میں سے سب سے بڑی اوراہم چیز جس کے بارے میں سوال ہوگا وہ خون ہے، اسی طرح حقوق ا للہ میں سے سب سے بڑی چیز جس کے بارے میں سب سے پہلے سوال ہوگا وہ صلاۃ ہے۔


1397- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ أَوَّلَ مَا يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فِي الدِّمَائِ".
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۹۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (آخرت میں)بندوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا ''۔


1398- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُوالْحَكَمِ الْبَجَلِيُّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَأَبَا هُرَيْرَةَ يَذْكُرَانِ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَائِ وَأَهْلَ الأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لأَكَبَّهُمْ اللهُ فِي النَّارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْحَكَمِ الْبَجَلِيُّ هُوَ عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْكُوفِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۴۱۱ و ۱۴۸۴۶) (صحیح)
۱۳۹۸- ابوسعید خدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر آسمان اور زمین والے (سارے کے سارے) ایک مومن کے خون میں ملوث ہوجائیں تواللہ ان (سب) کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ ابْنَهُ يُقَادُ مِنْهُ أَمْ لاَ
۹-باب: آدمی اپنے بیٹے کوقتل کردے توکیا قصاص لیا جائے گا یانہیں؟​


1399- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشَمٍ قَالَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُقِيدُ الأَبَ مِنِ ابْنِهِ وَلاَ يُقِيدُ الابْنَ مِنْ أَبِيهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُرَاقَةَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ، رَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُوخَالِدٍ الأَحْمَرُ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ مُرْسَلاً، وَهَذَا حَدِيثٌ فِيهِ اضْطِرَابٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الأَبَ إِذَا قَتَلَ ابْنَهُ لاَ يُقْتَلُ بِهِ وَإِذَا قَذَفَ ابْنَهُ لاَ يُحَدُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۸) (ضعیف)
(سند میں ''المثنی بن صباح'' ضعیف ہیں، اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے، نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے)
۱۳۹۹- سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ،(تودیکھا)کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اوربیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سراقہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس کی سند صحیح نہیں ہے ، اسے اسماعیل بن عیاش نے مثنیٰ بن صباح سے روایت کی ہے اورمثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ ۲- اس حدیث کو ابوخالداُحمرنے بطریق: ''حجاج بن أرطاة، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، عن عمر رضي الله عنه، عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے، ۴- یہ حدیث عمروبن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے، ۴- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کو قتل کردے تو بدلے میں (قصاصاً) اسے قتل نہیں کیاجائے گااورجب باپ اپنے بیٹے پر(زناکی)تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں ہوگی۔
وضاحت ۱؎ : علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اورخوش رہے، جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق (الاما شاء اللہ) صرف دنیاوی منفعت سے ہے۔ (یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے)


1400- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يُقَادُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ".
* تخريج: ق/الدیات ۲۲ (۲۶۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۲)، وحم (۱/۱۶، ۲۳) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ ''حجاج بن ارطاۃ متکلم فیہ راوی ہیں)
۱۴۰۰- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ''باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ بیٹے کے وجودکا سبب ہے، لہذا یہ جائز نہیں کہ بیٹاباپ کے خاتمے کا سبب بنے۔


1401- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ تُقَامُ الْحُدُودُ فِي الْمَسَاجِدِ وَلاَ يُقْتَلُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ بِهَذَا الإِسْنَادِ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الحدود ۳۱ (۲۵۹۹)، والدیات ۲۲ (۲۶۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۰) (حسن)
۱۴۰۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مسجدوں میں حدودنہیں قائم کی جائیں گی اوربیٹے کے بدلے باپ کو(قصاص میں)قتل نہیں کیاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے اس حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن مسلم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور اسماعیل بن مسلم مکی کے حفظ کے سلسلے میں بعض اہل علم نے کلام کیا ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : لیکن شواہد کی بنا پر حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ
۱۰-باب: ان تین اسباب میں سے کسی ایک کے پائے جانے پر ہی کسی مسلم کا خون حلال ہوتاہے​


1402- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
* تخريج: خ/الدیات ۶ (۶۸۷۸)، م/القسامۃ ۶ (۱۶۷۶)، د/الحدود ۱ (۴۳۵۱)، ن/المحاربۃ ۵ (۴۰۲۱)، ق/الحدود۱ (۲۵۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۷)، وحم (۱/۳۸۲، ۴۲۸، ۴۴۴، ۴۶۵) (صحیح)
۱۴۰۲ - عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی مسلمان شخص کا خون جواس بات کی گواہی دیتاہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؛ حلال نہیں سوائے تین باتوں میں سے کسی ایک کے: یا تو وہ شادی شد ہ زانی ہو، یا جان کو جان کے بدلے ماراجائے ،یا وہ اپنا دین چھوڑکر جماعت مسلمین سے الگ ہوگیا ہو '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عثمان ، عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام نے انسانی جانوں کی حفاظت نیز ان کی بقا اور امن و امان کا سب سے زیادہ پاس ولحاظ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ شرک کے بعد کسی نفس کا قتل اسلام میں عظیم ترگناہ ہے، اسی لیے شارع حکیم نے کسی مسلمان کا قتل تین چیزوں میں سے کسی ایک کے پائے جانے ہی کی صورت میں حلال کیا ہے: (۱) کسی آزاد شخص کا شادی شدہ ہوکر زنا کرنا، (۲) جان بوجھ کر کسی معصوم انسان کو ظلم وزیادتی کے ساتھ قتل کرنا (۳) اسلام سے پھرجانا کیوں کہ ایسے شخص کا دل خیر سے اس طرح خالی ہوجاتاہے کہ حق بات قبول کرنے کی اس میں صلاحیت باقی نہیں رہتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقْتُلُ نَفْسًا مُعَاهِدَةً
۱۱-باب: ذمی اور معاہدہ والوں کے قاتل کے بارے میں وارد وعید کا بیان​


1403- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ هُوَ الْبَصْرِيُّ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَلاَ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللهِ فَلاَ يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الدیات ۳۲ (۲۶۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۴۰) (صحیح)
۱۴۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' خبردار! جس نے کسی ایسے ذمی ۱؎ کو قتل کیا جسے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا ،لہذا وہ جنت کی خوشبونہیں پاسکے گا، حالانکہ اس کی خوشبوستر سال کی مسافت(دوری) سے آئے گی ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- نبی اکرمﷺ سے ابوہریرہ کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ،۳- اس باب میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایسا کافر جو کسی اسلامی مملکت میں مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد وپیمان کے مطابق رہ رہاہو خواہ جزیہ دے کر معاہدہ کرکے رہ رہاہو یا دار الحرب سے معاہدہ یا امان پر دار السلام میں آیا ہو، اسے مسلمانوں کی پناہ اس وقت تک حاصل ہوگی جب تک وہ بھی اپنے معاہدہ پر قائم رہے، یا اپنے وطن دار الحرب لوٹ جائے۔
 
Top