• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-باب
۱۲-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


1404- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَدَى الْعَامِرِيَّيْنِ بِدِيَةِ الْمُسْلِمِينَ وَكَانَ لَهُمَا عَهْدٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو سَعْدٍ الْبَقَّالُ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ الْمَرْزُبَانِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۳) (ضعیف الإسناد)
(سند میں''ابوسعد البقال'' ضعیف اورمدلس ہیں)
۱۴۰۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے قبیلہ عامر کے دوآدمیوں کو مسلمانوں کے برابر دیت دی، (کیونکہ)ان دونوں کا رسول اللہ ﷺ سے عہدوپیمان تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- حدیث کے راوی ابوسعد بقال کا نام سعید بن مرزبان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي حُكْمِ وَلِيِّ الْقَتِيلِ فِي الْقِصَاصِ وَالْعَفْوِ
۱۳-باب: قصاص اورعفوکے سلسلے میں مقتول کے ولی (وارث) کے فیصلے کا بیان​


1405- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى قَالاَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مَكَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: "وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَقْتُلَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ خُوَيْلِدِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/العلم ۳۹ (۱۱۲)، واللقطۃ ۷ (۲۴۳۴)، والدیات ۸ (۶۸۸۰)، م/الحج ۸۲ (۱۳۵۵)، د/الدیات ۴ (۴۵۰۵)، ن/القسامۃ ۳۰ (۴۷۸۹)، ق/الدیات ۳ (۲۶۲۴)، ویأتي في العلم برقم ۲۶۶۷، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۳)، وحم (۲/۲۳۸) (صحیح)
۱۴۰۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب اللہ نے اپنے رسول کے لیے مکہ کو فتح کردیا تو آپ ﷺنے لوگوں میں کھڑے ہوکر اللہ کی حمدوثنابیان کی ، پھر فرمایا:'' جس کا کوئی شخص ماراگیاہو اسے دوباتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے: یا تو معاف کردے یا (قصاص میں) اسے قتل کرے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے(کماسیأتی)، ۲- اس باب میں وائل بن حجر، انس، ابوشریح اورخویلدبن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1406- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ ابْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يَسْفِكَنَّ فِيهَا دَمًاوَلاَ يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا، فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ فَقَالَ: أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَإِنَّ اللهَ أَحَلَّهَا لِي وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ، وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ هُذَيْلٍ وَإِنِّي عَاقِلُهُ فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَالْيَوْمِ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ: إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَيْضًا عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا. وَرُوِي عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَلَهُ أَنْ يَقْتُلَ أَوْ يَعْفُوَ أَوْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ"، وَذَهَبَ إِلَى هَذَا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۸۰۹ (صحیح)
۱۴۰۶- ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مکہ کو اللہ نے حرمت والا (محترم) بنایا ہے، لوگوں نے اسے نہیں بنایا ،پس جوشخص اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتاہووہ اس میں خونریزی نہ کرے، نہ اس کا درخت کاٹے، (اب) اگرکوئی (خونریزی کے لیے) اس دلیل سے رخصت نکالے کہ مکہ رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال کیا گیا تھا ( تواس کایہ استدلال باطل ہے) اس لیے کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا تھا لوگوں کے لئے نہیں، اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال کیا گیا تھا، پھروہ تاقیامت حرام ہے؟ اے خزاعہ والو ! تم نے ہذیل کے اس آدمی کوقتل کیا ہے، میں اس کی دیت اداکرنے والاہوں، (سن لو) آج کے بعدجس کا بھی کوئی آدمی ماراجائے گا تو مقتول کے ورثاء کو دوچیزوں میں سے کسی ایک کا اختیارہو گا: یا تو وہ (اس کے بدلے)اسے قتل کردیں، یااس سے دیت لے لیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے، ۲- اسے شیبان نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، ۳- اوریہ (حدیث بنام ابوشریح کعبی کی جگہ بنام) ابوشریح خزاعی بھی روایت کی گئی ہے۔ (اور یہ دونوں ایک ہی ہیں) اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: ''جس کاکوئی آدمی ماراجائے تو اسے اختیار ہے یا تووہ اس کے بدلے اسے قتل کردے، یا معاف کردے، یا دیت وصول کرے ، ۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں ،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔


1407- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى وَلِيِّهِ فَقَالَ الْقَاتِلُ يَارَسُولَ اللهِ! وَاللهِ! مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ قَوْلُهُ صَادِقًا فَقَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ" فَخَلَّى عَنْهُ الرَّجُلُ قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ قَالَ: فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ قَالَ: فَكَانَ يُسَمَّى ذَا النِّسْعَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ.
* تخريج: د/الدیات ۳ (۴۴۹۸)، ن/القسامۃ ۵ (۴۷۲۶)، ق/الدیات ۳۴ (۲۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۷) (صحیح)
۱۴۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی قتل کردیاگیا، توقاتل مقتول کے ولی (وارث)کے سپردکردیاگیا،قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول !اللہ کی قسم ! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' خبردار ! اگروہ (قاتل) اپنے قول میں سچاہے پھربھی تم نے اسے قتل کردیا تو تم جہنم میں جاؤگے ۱؎ ، چنانچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑدیا''، وہ آدمی رسی سے بندھاہواتھا ،تو وہ رسی گھسیٹتاہواباہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یاتسمے والا) رکھ دیا گیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اورنسعہ: رسی کو کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ قاتل اپنے دعویٰ میں ا گر سچا ہے تو اسے قتل کردینے کی صورت میں ولی کے گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے، اس لیے اس کا نہ قتل کرنا زیادہ مناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْمُثْلَةِ
۱۴-باب: مردہ کے مثلے کی ممانعت کا بیان​


1408- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا فَقَالَ: "اغْزُوا بِسْمِ اللهِ وَفِي سَبِيلِ اللهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ، اغْزُوا وَلاَ تَغُلُّوا وَلاَ تَغْدِرُوا وَلاَ تُمَثِّلُوا وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَنَسٍ وَسَمُرَةَ وَالْمُغِيرَةِ وَيَعْلَى بْنِ مُرَّةَ وَأَبِي أَيُّوبَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَكَرِهَ أَهْلُ الْعِلْمِ الْمُثْلَةَ ۔
* تخريج: م/الجہاد ۲ (۱۷۲۱)، د/الجہاد ۹۰ (۲۶۱۲)، ق/الجہاد ۳۸ (۲۸۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۹)، و حم (۵/۳۵۲، ۳۵۸)، ودي/السیر (۲۴۸۳) (صحیح)
۱۴۰۸- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کسی لشکرپر امیرمقررکرکے بھیجتے تو خاص طورسے اسے اپنے بارے میں ا للہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے، اورجو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت کرتے، چنانچہ آپ نے فرمایا :''اللہ کے نام سے اس کے راستے میں جہادکرو، جو کفر کرے اس سے لڑو، جہادکرو،مگرمال غنیمت میں خیانت نہ کرو،بدعہدی نہ کرو، مثلہ ۱؎ نہ کرواورنہ کسی بچے کو قتل کرو''،حدیث میں کچھ تفصیل ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، شدادبن اوس ، عمران بن حصین، انس، سمرہ، مغیرہ ، یعلی بن مرہ اورابوایوب سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اہل علم نے مثلہ کو حرام کہا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مردہ کے ناک، کان وغیرہ کاٹ کر صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں ۔
وضاحت ۲؎؎ : پوری حدیث صحیح مسلم میں مذکورہ باب میں ہے ۔


1409- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. أَبُو الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ .
* تخريج: م/الصید ۱۱ (۱۹۵۵)، د/الضحایا ۱۲ (۲۸۱۵)، ن/الضحایا ۲۲ (۴۴۱۰)، و ۲۷ (۴۴۱۹)، ق/الذبائح ۳ (۳۱۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۱۷)، وحم (۴/۱۲۳، ۱۲۴، ۱۲۵)، و دي/الأضاحي ۱۰ (۲۰۱۳) (صحیح)
۱۴۰۹- شدادبن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بے شک اللہ نے ہرکام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قراردیا ہے ، لہذا جب تم قتل ۱؎ کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو،اور جب تم ذبح کروتو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تمہارے ہر آدمی کو چاہئے کہ اپنی چھری تیزکرلے اوراپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : انسان کو ہر چیز کے ساتھ رحم دل ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی احسان اور رحم دلی کی تعلیم دی ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم جب کسی شخص کو بطور قصاص قتل کرو تو قتل کے لیے ایسا طریقہ اپنا ؤ جو آسان ہو اور سب سے کم تکلیف کا باعث ہو، اسی طرح جب کوئی جانور ذبح کرو تو اس کے ساتھ بھی احسان کرو یعنی ذبح سے پہلے چھری خوب تیز کرلو، بہتر ہوگا کہ چھری تیز کرنے کاعمل جانور کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی ایک جانور دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیاجائے، اسی طرح اس کی کھال اس وقت اتاری جائے جب وہ ٹھنڈا پڑجائے۔
وضاحت ۲؎ : حدیث میں قتل سے مراد موذی جانورکا قتل ہے یا بطورقصاص کسی قاتل کو قتل کرنا اورمیدان جنگ میں دشمن کو قتل کرنا ہے، ان تمام صورتوں میں قتل کی اجازت ہے، لیکن دشمنی کے جذبات میں ایذا دے دے کر مارنے کی اجازت نہیں ہے، جیسے اسلام سے پہلے مثلہ کیا جاتاتھا، پہلے ہاتھ کاٹتے پھرپیر پھر ناک پھرکان وغیرہ ،اسلام نے اس سے منع فرمادیااورکہا کہ تلوار کے ایک وار سے سرتن سے جداکرو تاکہ کم سے کم تکلیف ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الْجَنِينِ
۱۵-باب: حمل ( ماں کے پیٹ میں موجود بچہ)کی دیت کا بیان​


1410- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ: أَيُعْطَى مَنْ لاَ شَرِبَ وَلاَ أَكَلَ وَلاَ صَاحَ فَاسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ بَلْ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ ".
وَفِي الْبَاب عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ، و قَالَ بَعْضُهُمْ أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ.
* تخريج: خ/الطب ۴۶ (۵۷۵۸)، والفرائض ۱۱ (۵۷۵۹)، والدیات ۲۵ (۶۹۰۴)، و ۱۰ ۶۹۰۹، ۶۹۱۰)، م/القسامۃ ۱۱ (۱۶۸۱)، د/الدیات ۲۱ (۴۵۷۶)، القسامۃ ۳۹ (۴۸۲۲)، ق/الدیات ۱۱ (۲۶۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۰۶)، و ط/العقول ۷ (۵)، وحم (۲/۲۳۶، ۲۷۴، ۴۳۸، ۴۹۸، ۵۳۵، ۵۳۹)، وانظر ما یأتي برقم : ۲۱۱۱ (صحیح)
۱۴۱۰ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنین( حمل) کی دیت میں غرہ یعنی غلام یالونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون توضائع اورباطل ہوجاتاہے، (یہ سن کر) نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' یہ شاعروں والی بات کررہا ہے ۱؎ ،جنین (حمل گرادینے) کی دیت میں غرہ یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اورمغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- غرہ کی تفسیربعض اہل علم نے ، غلام ، لونڈی یاپانچ سودرہم سے کی ہے ،۵- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: غرہ سے مراد گھوڑایاخچرہے ۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کورد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی، اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی مذمت کی، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ ﷺ کا بعض کلام مسجع ملتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلاہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ اس صورت میں ہوگا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہوپھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مرجائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہوگا۔


1411- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَلُ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا ضَرَّتَيْنِ فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ أَوْ عَمُودِ فُسْطَاطٍ فَأَلْقَتْ جَنِينَهَا فَقَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي الْجَنِينِ: غُرَّةٌ: عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ وَجَعَلَهُ عَلَى عَصَبَةِ الْمَرْأَةِ.
قَالَ الْحَسَنُ: وَأَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَهُ. وقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الدیات ۲۵ (۶۹۰۴ - ۶۹۰۸)، م/القسامۃ (الحدود)، ۱۱(۱۶۸۲)، د/الدیات ۲۱ (۴۵۶۸)، ن/القسامۃ ۳۹ (۴۸۲۵)، ق/الدیات ۷ (۲۶۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۰)، و حم (۴/۲۲۴، ۲۴۵، ۲۴۶، ۲۴۹)، و دي/الدیات ۲۰ (۲۴۲۵) (صحیح)
۱۴۱۱- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھریا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تواس کا حمل ساقط ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے اس حمل کی دیت میں غرہ یعنی غلام یالونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱ ؎ ۔
حسن بصری کہتے ہیں: زیدبن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی ، اورسفیان ثوری نے منصورسے اس حدیث کواسی طرح روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث قتل کی دوسری قسم'' شبہ عمد'' کے سلسلہ میں اصل ہے، شبہ عمد: وہ قتل ہے جس میں قتل کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال ہوتاہے جن سے عموما قتل واقع نہیں ہوتا جیسے : لاٹھی اور اسی جیسی دوسری چیزیں، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے، یہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس حاملہ اونٹیناں ہوں گی، اس دیت کی ذمہ داری قاتل کے عصبہ پر ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باپ کی جہت سے قاتل کے قریبی یادور کے رشتہ دار ہیں، خواہ اس کے وارثین میں سے نہ ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- بَابُ مَا جَاءَ لاَ يُقْتَلُ بِكَافِرٍ
۱۶-باب: مسلمان کافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا​


1412- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا مُطَرِّفٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُوجُحَيْفَةَ قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! هَلْ عِنْدَكُمْ سَوْدَائُ فِي بَيْضَائَ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ؟ قَالَ: لاَ، وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عَلِمْتُهُ إِلاَّ فَهْمًا يُعْطِيهِ اللهُ رَجُلاً فِي الْقُرْآنِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ، قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الأَسِيرِ، وَأَنْ لاَ يُقْتَلَ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ قَالُوا: لاَ يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْمُعَاهِدِ، وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/العلم ۳۹ (۱۱۱)، والجہاد ۱۷۱ (۳۰۴۷)، والدیات ۲۴ (۶۹۰۳)، و ۳۱ (۶۹۱۵)، ن/القسامۃ ۱۳، ۱۴(۴۷۴۸)، ق/الدیات ۲۱ (۲۶۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۱)، وحم (۱/۷۹)، ودي/الدیات ۵ (۲۴۰۱) (وانظر ما یأتي برقم ۲۱۲۷) (صحیح)
۱۴۱۲- ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاکیا ۱ ؎ : امیرالمومنین ! کیاآپ کے پاس کاغذمیں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریرہے جو قرآن میں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں،اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اورجان کو پیدا کیا! میں سوائے اس فہم وبصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نواز تا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا ، میں نے پوچھا: صحیفہ میں کیا ہے؟ کہا: اس میں دیت ، قید یوں کے آزادکرنے کا ذکراورآپ کا یہ فرمان ہے : ''مومن کافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳- بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری ، مالک بن انس ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں : مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا ،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں : ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کوقتل کیا جائے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : علی رضی اللہ عنہ سے ابو جحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جودوسروں کو معلوم نہیں، کچھ اسی طرح کا سوال علی رضی اللہ عنہ سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیاتھا، اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔
وضاحت ۲؎ : رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم عام ہے ہرکافر کے لیے خواہ حربی ہو یاذمی ، لہذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیاجائے گا، ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہوجائے تو یہ منسوخ ہوگی اور ''لايقتل مسلم بكافر'' والی روایت اس کے لیے ناسخ ہوگی، کیوں کہ آپ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الْكُفَّارِ
۱۷-باب: کافر کی دیت کا بیان​


1413- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ".
وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "دِيَةُ عَقْلِ الْكَافِرِ نِصْفُ دِيَةِ عَقْلِ الْمُؤْمِنِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي دِيَةِ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ؛ فَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي دِيَةِ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ إِلَى مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، و قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ: دِيَةُ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ نِصْفُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ، وَبِهَذَا يَقُولُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶۱) (صحیح)
1413/م- وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ: دِيَةُ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ أَرْبَعَةُ آلافِ دِرْهَمٍ، وَدِيَةُ الْمَجُوسِيِّ ثَمَانُ مِائَةِ دِرْهَمٍ. وَبِهَذَا يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَإِسْحَاقُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : دِيَةُ الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ مِثْلُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: ن/القسامۃ ۳۷ (۴۸۱۰)، ق/الدیات ۱۳ (۲۶۴۴)، (تحفۃ الأشراف: )، وحم (۲/۱۸۳، ۲۲۴) (صحیح)
۱۴۱۳- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''مسلمان کافر کے بدلے قصاص میں قتل نہیں کیاجائے گا'' ،اور اسی سند سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- یہودی اورنصرانی کی دیت میں اہل علم کا اختلاف ہے، یہودی اورنصرانی کی دیت کی بابت بعض اہل علم کا مسلک نبی اکرمﷺ سے مروی حدیث کے موافق ہے ،۳- عمربن عبد العزیزکہتے ہیں: یہودی اورنصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے، احمد بن حنبل اسی کے قائل ہیں۔
۱۴۱۳/م- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : یہودی اورنصرانی کی دیت چارہزار درہم اورمجوسی کی آٹھ سودرہم ہے۔
۱- مالک بن انس ، شافعی اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۲- بعض اہل علم کہتے ہیں : یہودی اورنصرانی کی دیت مسلمانوں کی دیت کے برابرہے، سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18- بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ عَبْدَهُ
۱۸-باب: اپنے غلام کو قتل کردینے والے شخص کا بیان​


1414- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ إِلَى هَذَا، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعَطَائُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: لَيْسَ بَيْنَ الْحُرِّ وَالْعَبْدِ قِصَاصٌ فِي النَّفْسِ وَلاَ فِيمَا دُونَ النَّفْسِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا قَتَلَ عَبْدَهُ لاَ يُقْتَلُ بِهِ، وَإِذَا قَتَلَ عَبْدَ غَيْرِهِ قُتِلَ بِهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: د/الدیات ۷ (۴۵۱۵)، ن/القسامۃ ۱۰ (۴۷۵۱)، و ۱۱ (۴۷۵۲)، و ۱۷ (۴۷۶۷)، و۱۷ (۴۷۶۸)، ق/الدیات ۲۳ (۲۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۶)، وحم (۵/۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۸) (ضعیف)
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے ، نیز حدیث عقیقہ کے سوا دیگر احادیث کے حسن کے سمرہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے)
۱۴۱۴- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو اپنے غلام کو قتل کر ے گا ہم بھی اسے قتل کردیں گے اور جو اپنے غلا م کاکان ،ناک کاٹے گا ہم بھی اس کاکان ،ناک کاٹیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے ، ابراہیم نخعی اسی کے قائل ہیں،۳- بعض اہل علم مثلا حسن بصری اورعطا بن ابی رباح وغیرہ کہتے ہیں: آزاد اورغلام کے درمیان قصاص نہیں ہے،( نہ قتل کرنے میں، نہ ہی قتل سے کم زخم پہنچانے) میں، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کردے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جائے گا، اورجب دوسرے کے غلام کوقتل کرے گا تو اسے اس کے بدلے میں قتل کیاجائے گا، سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ هَلْ تَرِثُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا
۱۹-باب: شوہرکی دیت سے بیوی کے میراث پانے کا بیان​


1415- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَأَبُوعَمَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ: الدِّيَةُ عَلَى الْعَاقِلَةِ، وَلاَتَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا، حَتَّى أَخْبَرَهُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلاَبِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ وَرِّثْ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/الفرائض ۱۸ (۲۹۲۷)، ق/الدیات ۱۲ (۲۶۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۷۳)، وحم (۳/۴۵۲) (صحیح)
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سعید بن المسیب کے عمر رضی اللہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، ملاحظہ ہو صحیح ابی داود رقم : ۲۵۹۹)
۱۴۱۵- سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے : دیت کی ادائیگی عاقلہ ۱؎ پرہے، اوربیوی اپنے شوہر کی دیت سے میراث میں کچھ نہیں پائے گی ، یہاں تک کہ ان کو ضحاک بن سفیان کلابی نے بتایاکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک فرمان لکھا تھا:'' اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہرکی دیت سے میراث دو '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : دیت کے باب میں عقل ، عقول اور عاقلہ کا ذکر اکثر آتا ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے: عقل دیت کا ہم معنی ہے، اس کی اصل یہ ہے کہ قاتل جب کسی کو قتل کرتا تودیت کی ادائیگی کے لیے اونٹوں کو جمع کرتا، پھر انہیں مقتول کے اولیاء کے گھر کے سامنے رسیوں میں باندھ دیتا، اسی لیے دیت کا نام عقل پڑگیا، اس کی جمع عقول آتی ہے، اور عاقلہ باپ کی جہت سے قاتل کے وہ قریبی لوگ ہیں جو قتل خطا کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : سنن ابوداود کی روایت میں ا تنا اضافہ ہے کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول '' بیوی شوہر کی دیت سے میراث نہیں پائے گی'' سے رجوع کرلیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِصَاصِ
۲۰-باب: قصاص کا بیان​


1416- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ قَال: سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَى يُحَدِّثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلاً عَضَّ يَدَ رَجُلٍ، فَنَزَعَ يَدَهُ فَوَقَعَتْ ثَنِيَّتَاهُ فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ لاَدِيَةَ لَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ وَسَلَمَةَ بْنِ أُمَيَّةَ وَهُمَا أَخَوَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الدیات ۱۸ (۶۸۹۲)، م/القسامۃ (الحدود) ۴ (۱۶۷۳)، ن/القسامۃ ۱۸ (۴۷۶۲-۴۷۶۶)، ق/الدیات ۲۰ (۲۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۳)، وحم (۴/۴۲۷، ۴۳۰، ۴۳۵) (صحیح)
۱۴۱۶- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ کھایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچاتو دانت کاٹنے والے کے دونوں اگلے دانت ٹوٹ گئے، وہ دونوں نبی اکرمﷺ کے پاس اپنا معاملہ لے گئے توآپ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اونٹ کے کاٹنے کی طرح کاٹ کھاتاہے، تمہارے لیے کوئی دیت نہیں، پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی: ''وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں یعلی بن امیہ اورسلمہ بن امیہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں اوریہ دونوں بھائی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: زخموں کا بھی بدلہ ہے۔(المائدہ:۴۵)، لہذا جن میں قصاص لینا ممکن ہے ان میںقصاص لیاجائے گا اور جن میں ممکن نہیں ان میں قاضی اپنے اجتہاد سے کام لے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَبْسِ فِي التُّهْمَةِ
۲۱-باب: کسی تہمت والزام میں گرفتار کرنے کا بیان​


1417-حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَبَسَ رَجُلاً فِي تُهْمَةٍ، ثُمَّ خَلَّى عَنْهُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بَهْزٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ هَذَا الْحَدِيثَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۲۹ (۳۶۳۰)، ن/قطع السارق ۲ (۴۸۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۸۲) (حسن)
۱۴۱۷- معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک آدمی کوتہمت ۱؎ کی بناپر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر)اس کو رہاکردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدۃ قشیری کی حدیث جسے وہ اپنے باپ سے اوروہ ان کے داداسے روایت کرتے ہیں،حسن ہے، ۳- اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ نے بہزبن حکیم سے یہ حدیث اس سے زیادہ مکمل اورمطول روایت کی ہے۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس تہمت اورالزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں: اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعوی پیش کیا ہوگا، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہاکردیاگیاہوگا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید وبند کرنا ایک شرعی امر ہے۔
وضاحت ۲؎ : پوری حدیث کے لیے دیکھئے سنن ابی داود حوالہ ٔ مذکور۔
 
Top