• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ أَيُّ الشَّرَابِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۲۱-باب: رسول اللہﷺ کو کون سا مشروب زیادہ پسندتھا​


1895- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ أَحَبُّ الشَّرَابِ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ الْحُلْوَ الْبَارِدَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ مِثْلَ هَذَا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخربہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۴۸) (صحیح)
۱۸۹۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو میٹھا اور ٹھنڈا مشروب سب سے زیادہ پسند تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عیینہ سے کئی لوگوں نے اسی طرح ''عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة '' روایت کی ہے، لیکن صحیح وہی ہے جو زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً مروی ہے (جو آگے آرہی ہے)۔


1896- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الشَّرَابِ أَطْيَبُ قَالَ: "الْحُلْوُ الْبَارِدُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ رَحِمَهُ اللهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۹۴ و ۱۹۴۱۴) (صحیح الإسناد مرسل)
(زہری تابعی ہے ان کی روایت نبی اکرمﷺ سے مرسل ہے، اور زہری کی مراسیل کو سب سے خراب مرسل کا درجہ علما ء نے دیاہے، لیکن اس سے پہلے کی حدیث میں زہری نے بسند عروہ ام المومنین عائشہ سے یہ حدیث روایت کی ہے، اس لیے صحیح)
۱۸۹۶- زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھاگیا: کون سا مشروب بہترہے ؟ آپ نے فرمایا:''میٹھا اور ٹھنڈا مشروب''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح عبدالرزاق نے بھی معمرسے، معمر نے زہری سے اور زہری نے نبی اکرم ﷺ مرسلاً روایت کی ہے، ۲- یہ ابن عیینہ رحمہ اللہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

25-كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۲۵-کتاب : نیکی اورصلہ رحمی


1- بَاب مَا جَاءَ فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ
۱-باب: ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کابیان​


1897- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: "أُمَّكَ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "أُمَّكَ"، قَالَ : قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "أُمَّكَ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟، قَالَ: "ثُمَّ أَبَاكَ، ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ وَأَبِي الدَّرْدَائِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَبَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ هُوَ أَبُو مُعَاوِيَةَ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَرَوَى عَنْهُ مَعْمَرٌ وَالثَّوْرِيُّ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الأَئِمَّةِ.
* تخريج: د/الأدب ۱۲۹ (۵۱۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۳)، وحم (۵/۳، ۵) (حسن)
۱۸۹۷- معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا اللہ کے رسول!میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا:'' اپنی ماں کے ساتھ ''، میں نے عرض کیا : پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا:'' اپنی ماں کے ساتھ'' ، میں نے عرض کیا : پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا:'' اپنی ماں کے ساتھ'' ، میں نے عرض کیا : پھرکس کے ساتھ ؟ فرمایا:''پھر اپنے باپ کے ساتھ، پھررشتہ داروں کے ساتھ پھرسب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھراس کے بعدکا، درجہ بدرجہ '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، شعبہ نے بہز بن حکیم کے بارے میں کلام کیا ہے ، محدثین کے نزدیک وہ ثقہ ہیں، ان سے معمر، ثوری ، حماد بن سلمہ اورکئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو، عائشہ اورابوالدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ماں کوتین مشکل حالات سے گذرنا پڑتاہے: ایک مرحلہ وہ ہوتاہے جب نوماہ تک بچہ کو پیٹ میں رکھ کر مشقت و تکلیف برداشت کرتی ہے، دوسرا مرحلہ وہ ہوتاہے جب بچہ جننے کا وقت آتاہے ، وضع حمل کے وقت کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے یہ ماں ہی کو معلوم ہے، تیسرا مرحلہ دودھ پلانے کا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماں کو قرابت داروں میں نیکی اور صلہ رحمی کے لیے سب سے افضل اور سب سے مستحق قراردیا گیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مِنْهُ
۲-باب: ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤکرنے سے متعلق ایک اورباب​


1898- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "الصَّلاَةُ لِمِيقَاتِهَا" قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "بِرُّ الْوَالِدَيْنِ" قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: "الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللهِ ﷺ وَلَوْ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ الشَّيْبَانِيُّ وَشُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۷۳ (صحیح)
۱۸۹۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:'' وقت پرصلاۃ اداکرنا''، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کو ن سا عمل زیادہ بہترہے ؟ آپ نے فرمایا:'' ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ''،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!پھر کون ساعمل؟ آپ نے فرمایا: '' اللہ کی راہ میں جہادکرنا، پھررسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے ، حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتاتوآپ زیادہ بتاتے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اسے ابوعمرو شیبانی ، شعبہ اورکئی لوگوں نے ولیدبن عیزارسے روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث ابوعمروشیبانی کے واسطہ سے ابن مسعودسے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ جہاد سب سے افضل وبہترعمل ہے، بعض سے معلوم ہوتاہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھابرتاؤ کرنا یہ سب سے اچھاکام ہے، اور بعض سے معلوم ہوتاہے کہ زکاۃ سب سے اچھاکام ہے، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ صلاۃ سب سے افضل عمل ہے، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ ''افضل اعمال'' سے پہلے حرف '' مِن'' محذوف مان لیاجائے،گویا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں، دوسری توجیہ یہ ہے کہ ا س کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیاگیا۔اوراپنی جگہ پریہ سب اچھے کام ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ مِنْ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ
۳-باب: ماں باپ کی رضامندی کی فضیلت کابیان​


1899- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، أَنَّ رَجُلاً أَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّ لِيَ امْرَأَةً وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلاَقِهَا، قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ" قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: رُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: إِنَّ أُمِّي وَرُبَّمَا قَالَ: أَبِي.
وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ حَبِيبٍ.
* تخريج: ق/الطلاق ۳۶ (۲۹۸۹)، والأدب ۱ (۳۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۴۸) (صحیح)
۱۸۹۹- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے ان کے پاس آکرکہا: میری ایک بیوی ہے ، اورمیری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے ، (میں کیا کروں ؟ ) ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: ''باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے ، اگرتم چاہوتو اس دروازہ کو ضائع کردواورچاہو تو اس کی حفاظت کرو '' ۱؎ ۔
سفیان بن عیینہ نے کبھی '' إن امی''( میری ماں) کہا اور کبھی '' إن أبی'' (میرا باپ) کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھاجائے، اگر والد کو جنس مان لیاجائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہوگا۔


1900- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "رِضَى الرَّبِّ فِي رِضَى الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۸) (صحیح)
1900/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا، وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ وَخَالِدُ ابْنُ الْحَارِثِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ ابْنِ الْحَارِثِ وَلاَ بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۹۰۰- عبداللہ عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' رب کی رضا والد کی رضامیں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ''۔
۱۹۰۰/م- اس سند سے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے (موقوفاً) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اوریہ زیادہ صحیح ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح'' عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو'' کی سند سے موقوفا روایت کی ہے ، ہم خالدبن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں، جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعا روایت کی ہو، ۲- خالد بن حارث ثقہ ہیں، مامون ہیں، کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسااورکوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا ،۳- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ
۴-باب: ماں باپ کی نافرمانی اور ان سے قطع تعلق بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے​


1901- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَلاَ أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟" قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "الإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ" قَالَ: وَجَلَسَ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: " وَشَهَادَةُ الزُّورِ- أَوْ قَوْلُ الزُّورِ- " فَمَا زَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقُولُهَا، حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَتَ. قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُهُ نُفَيْعُ بْنُ الْحَارِثِ.
* تخريج: خ/الشھادات ۱۰ (۲۶۵۴)، والأدب ۶ (۵۹۷۶)، والاستئذان ۳۵ (۶۲۷۳)، والمرتدین ۱ (۶۹۱۹)، م/الإیمان ۳۸ (۸۷)، والمؤلف في الشھادات (۲۳۰۱)، وتفسیر النساء (۳۰۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۹)، وحم (۵/۳۶، ۳۸) (صحیح)
۱۹۰۱- ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتادوں؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا:'' اللہ کے ساتھ شرک کرنااورماں باپ کی نافرمانی کرنا'' ، راوی کہتے ہیں: آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا: ''اورجھوٹی گواہی دینا''، یا جھوٹی بات کہنارسول اللہﷺبار بار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: '' کاش آپ خاموش ہوجاتے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


1902- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتُمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَهَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: "نَعَمْ، يَسُبُّ أَبَاالرَّجُلِ، فَيَشْتُمُ أَبَاهُ، وَيَشْتُمُ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۴ (۵۹۷۳)، م/الإیمان ۳۸ (۹۰)، د/الأدب ۱۲۹ (۵۱۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۱۸) (صحیح)
۱۹۰۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ''، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کوبھی گالی دے گا ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں،وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا ،تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا ، اوروہ کسی کی ماں کو گالی دے گا ،تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي إِكْرَامِ صَدِيقِ الْوَالِدِ
۵-باب: باپ کے دوست کی عزت وتکریم کرنے کابیان​


1903- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَسِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۴ (۲۵۵۲)، د/الأدب ۱۲۹ (۵۱۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۵۹) (صحیح)
۱۹۰۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''سب سے بہتر سلوک اور سب سے اچھابرتاؤ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ سندصحیح ہے ، یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کئی سندوں سے آئی ہے،۲- اس باب میں ابواسید رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي بِرِّ الْخَالَةِ
۶-باب: خالہ کے ساتھ حسن سلوک کابیان​


1904- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْرَائِيلَ ح قَالَ: و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ - وَهُوَ ابْنُ مَدُّوَيْهِ - حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ - وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ - عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ" وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ. وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلح ۶ (۲۶۹۹)، والمغازي ۴۳ (۴۲۴۱) (في کلا الوضعین في سیاق طویل) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳) (صحیح)
۱۹۰۴- براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' خالہ ماں کے درجہ میں ہے'' ، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


1904/م1- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ ! إِنِّي أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِيمًا فَهَلْ لِي تَوْبَةٌ، قَالَ: "هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟" قَالَ: لاَ، قَالَ: "هَلْ لَكَ مِنْ خَالَةٍ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "فَبِرَّهَا". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَالْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۷) (صحیح)
1904/م2- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ هُوَ ابْنُ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۶۳) (صحیح الاسناد مرسل)
۱۹۰۴/م۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا :اللہ کے رسول! مجھ سے بہت بڑا گنا ہ سرزدہوگیا ہے، کیا میرے لیے تو بہ کی گنجائش ہے؟ آپ نے پوچھا:'' کیا تمہاری ماں زندہ ہے ؟'' اس نے کہا: نہیں ، آپ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا:'' اس کے ساتھ حسن سلوک کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں علی اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
۱۹۰۴/م۲- اس سند سے نبی اکرمﷺسے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں ابن عمرکے واسطہ کا ذکرنہیں کیا ہے، یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي دَعْوَةِ الْوَالِدَيْنِ
۷-باب: ماں باپ کی بددعا کا بیان​


1905- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لاَ شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ نَحْوَ حَدِيثِ هِشَامٍ، وَأَبُو جَعْفَرٍ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يُقَالُ لَهُ أَبُو جَعْفَرٍ الْمُؤَذِّنُ، وَلاَ نَعْرِفُ اسْمَهُ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ غَيْرَ حَدِيثٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۶ (۱۵۳۶)، ق/الدعاء ۱۱ (۳۸۶۲)، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ۴۸ (۳۴۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۳)، و حم (۲/۲۵۸، ۴۷۸، ۵۲۳) (حسن)
۱۹۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی دعا، مسافرکی دعا اوربیٹے کے اوپرباپ کی بددعا''۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- حجاج صواف نے بھی یحییٰ بن ابی کثیرسے ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے ، ابوجعفرجنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے انہیں ابوجعفرمؤذن کہاجاتا ہے ، ہم ان کا نام نہیں جانتے ہیں، ۲- ان سے یحییٰ بن ابی کثیرنے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي حَقِّ الْوَالِدَيْنِ
۸-باب: اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا بیان​


1906- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدًا إِلاَّ أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: م/العتق ۶ (۱۵۱۰)، ق/الدعاء ۱۱ (۳۶۵۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۹۵)، و حم (۲/۲۳۰، ۲۶۳، ۲۷۶، ۴۴۵) (صحیح)
۱۹۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکاسکتاہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اورخرید کر آزادکردے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث صحیح ہے ، ہم اسے صرف سہیل بن ابی صالح کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-سفیان ثوری اورکئی لوگوں نے بھی یہ حدیث سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ باپ کے احسان کا بدلہ اس لیے ہے کہ غلامی کی زندگی سے کسی کو آزاد کرانا اس سے زیادہ بہترکوئی چیز نہیں ہے، جس کے ذریعہ کوئی کسی دوسرے پر احسان کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ
۹-باب: قطع رحمی(ناتا توڑنے) پرواردوعیدکابیان​


1907- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: اشْتَكَى أَبُو الرَّدَّادِ اللَّيْثِيُّ، فَعَادَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ؛ فَقَالَ: خَيْرُهُمْ وَأَوْصَلُهُمْ مَا عَلِمْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ؛ فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا اللهُ، وَأَنَا الرَّحْمَنُ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُفْيَانَ عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ رَدَّادٍ اللَّيْثِيِّ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَمَعْمَرٍ كَذَا يَقُولُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ خَطَأٌ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۴۶ (۱۶۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۲۸)، و حم (۱/۱۹۱، ۱۹۴) (صحیح)
۱۹۰۷- ابوسلمہ کہتے ہیں: ابوالرداد لیثی بیمار ہوگئے ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو گئے ، ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابومحمد(عبدالرحمن بن عوف )لوگوں میں سب سے اچھے اورصلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا:'' اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم(یعنی رشتے ناتے) کو پیداکیا ہے ، اوراس کا نام اپنے نام سے (مشتق کرکے) رکھا ہے ، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے ) جوڑے رکھوں گااورجو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابوسعیدخدری ، ابن ابی اوفی ، عامربن ربیعہ ، ابوہریرہ اورجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۲- زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے ، معمرنے زہری سے یہ حدیث ''عن أبي سلمة، عن رداد الليثي ۱؎ ، عن عبد الرحمن بن عوف'' کی سند سے روایت کی ہے ، معمرنے (سندبیان کرتے ہوئے) ایساہی کہا ہے ، محمد (بخاری) کہتے ہیں: معمرکی حدیث میں خطاہے، (دونوں سندوں میں فرق واضح ہے)۔
وضاحت ۱؎ : سند میں ابوالرداد ہے ، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے ''رداد ''آیاہے ، حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ ''رداد''کو بعض لوگوں نے ''ابوالرداد'' کہا ہے ،اور یہ زیادہ صحیح ہے ، (تقریب التہذیب )۔
 
Top