• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ دِمَاؤُكُمْ وَأَمْوَالُكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ
۲-باب: مسلمان کی جان اورما ل کی حرمت کا بیان​


2159- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو ابْنِ الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ: "أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟" قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ، قَالَ: "فَإِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلاَ لاَ يَجْنِي جَانٍ إِلاَّ عَلَى نَفْسِهِ، أَلاَ لاَ يَجْنِي جَانٍ عَلَى وَلَدِهِ وَلاَ مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلاَ وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يُعْبَدَ فِي بِلاَدِكُمْ هَذِهِ أَبَدًا، وَلَكِنْ سَتَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِيمَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَسَيَرْضَى بِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَحِذْيَمِ بْنِ عَمْرٍو السَّعْدِيِّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى زَائِدَةُ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ نَحْوَهُ، وَلاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.
* تخريج: د/البیوع ۵ (۳۳۳۴)، ق/المناسک ۷۶ (۳۰۵۵)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر التوبۃ (۳۰۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۹۱) (صحیح)
۲۱۵۹- عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا : ''یہ کون سادن ہے ؟'' لوگوں نے کہا: حج اکبر کا دن ہے ۱؎ ، آپ نے فرمایا:'' تمہارے خون ، تمہارے مال اورتمہاری عزت وآبروتمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہرمیں تمہارے اس دن کی حرمت وتقدس ہے ، خبردار ! جرم کرنے والے کاوبال خود اسی پرہے ، خبردار !باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اوربیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہوگا ، سن لو! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہوگی ، البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہوگی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو، وہ اسی سے خوش رہے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقد ہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳- اس باب میں ابوبکرہ ، ابن عباس ، جابر، حذیم بن عمروالسعدی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے، کیوں کہ اسی دن منی میں کفارومشرکین سے برأت کااعلان سنا یاگیا، یاحج اکبر کہنے کی یہ وجہ ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم اعمال اداکئے جاتے ہیں یا عوام عمرہ کو حج اصغر کہتے تھے، اس اعتبار سے حج کو حج اکبر کہاگیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ اگر یوم عرفہ جمعہ کے دن ہو تو وہ حج حج اکبرہے، اس کی کچھ بھی اصل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا
۳-باب: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ڈرانادھمکاناناجائزہے​


2160- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَأْخُذْ أَحَدُكُمْ عَصَا أَخِيهِ لاَعِبًا أَوْ جَادًّا فَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيهِ فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدَ وَجَعْدَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ لَهُ صُحْبَةٌ، قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ وَهُوَ غُلاَمٌ، وَقُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ، وَوَالِدُهُ يَزِيدُ ابْنُ السَّائِبِ لَهُ أَحَادِيثُ هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ،وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ هُوَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ.
* تخريج: د/الأدب ۹۳ (۵۰۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۲۷)، وحم (۴/۲۲۱) (صحیح لغیرہ)
۲۱۶۰- یزید بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''تم میں سے کوئی شخص کھیل کود میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ لے اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی لے، تو وہ اسے واپس کردے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-سائب بن یزید کوشرف صحبت حاصل ہے بچپن میں انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کئی حدیثیں سنی ہیں، نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمرسات سال تھی ، ان کے والد یزید بن سائب ۱؎ کی بہت ساری حدیثیں ہیں، وہ نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ہیں، اور نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں، سائب بن یزید نمرکے بہن کے بیٹے ہیں،۳- اس باب میں ابن عمر، سلیمان بن صرد ، جعدہ ، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ان کانام یزید بن سعید ہے، انہیں یزید بن سائب رضی اللہ عنہ بھی کہاجاتاہے۔


2161- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَجَّ يَزِيدُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ.
فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ثَبْتًا صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَكَانَ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ جَدَّهُ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ يَقُولُ: حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ وَهُوَ جَدِّي مِنْ قِبَلِ أُمِّي.
* تخريج: انظر رقم ۹۲۶ (إسنادہ حسن)
۲۱۶۱- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے ساتھ (میرے والد)یزید رضی اللہ عنہ نے حجۃ الوداع کیا، اس وقت میں سات سال کا تھا۔
یحیی بن سعیدقطان کہتے ہیں: محمد بن یوسف ثبت اورصاحب حدیث ہیں، سائب بن یزید ان کے ناناتھے، محمد بن یوسف کہتے تھے: مجھ سے سائب بن یزید نے حدیث بیان کی ہے ،اوروہ میرے ناناہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي إِشَارَةِ الْمُسْلِمِ إِلَى أَخِيهِ بِالسّلاَّحِ
۴-باب: مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرنے کا بیان​


2162- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ لَعَنَتْهُ الْمَلاَئِكَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَزَادَ فِيهِ وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لأَبِيهِ وَأُمِّهِ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۳۵ (۲۶۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۶۴) (صحیح)
2162/م- قَالَ: و أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا.
* تخريج : انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۳۶) (صحیح)
۲۱۶۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جوشخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے ،۲- یہ خالد حذاء کی روایت سے غریب سمجھی جاتی ہے، ۳- ایوب نے محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے ، لیکن اسے مرفوعا نہیں بیان کیا ہے اوراس میں یہ اضافہ کیا ہے ''وإن كان أخاه لأبيه وأمه''(ا گرچہ اس کا سگابھائی ہی کیوں نہ ہو)،۴- اس باب میں ابوبکرہ، ام المومنین عائشہ اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ تَعَاطِي السَّيْفِ مَسْلُولاً
۵- باب: ننگی تلوار لینے کی ممانعت کابیان​


2163- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولاً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ ابْنِ سَلَمَةَ، وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ بَنَّةَ الْجُهَنِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدِي أَصَحُّ.
* تخريج: د/الجھاد ۷۳ (۲۵۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۹۰)، وحم (۳/۳۰۰، ۳۶۱) (صحیح)
۲۱۶۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ننگی تلوارلینے اور دینے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن لہیعہ نے یہ حدیث ''عن أبي الزبير، عن جابر وعن بنته الجهني، عن النبي ﷺ'' کی سند سے روایت کی ہے ،۳- میرے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت زیادہ صحیح ہے ،۴- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ننگی تلوار سے بسا اوقات خود صاحب تلوار بھی زخمی ہوسکتاہے، اور دوسروں کو اس سے تکلیف پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ
۶-باب: فجر پڑھ لینے والا اللہ کی پناہ میں ہوتا ہے​


2164- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلاَنَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللهِ، فَلاَ يُتْبِعَنَّكُمُ اللهُ بِشَيْئٍ مِنْ ذِمَّتِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ جُنْدَبٍ وَابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۳۸) (صحیح)
(سندمیں معدی بن سلیمان ضعیف راوی ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۲۱۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے فجرپڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہے، پھر (اس بات کا خیال رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درپے نہ ہوجائے اس کی پناہ توڑنے کی وجہ سے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں جندب اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی فجر کی صلاۃ کا خاص خیال رکھو اور اسے پابندی کے ساتھ ادا کرو، نہ ادا کرنے کی صورت میں رب العالمین کا وہ عہد جو تمہارے اور اس کے درمیان امان سے متعلق ہے ٹوٹ جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ
۷-باب: مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ہمیشہ رہنے کا بیان​


2165- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِينَا، فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَحْلِفَ الرَّجُلُ، وَلاَ يُسْتَحْلَفُ وَيَشْهَدَ الشَّاهِدُ وَلاَ يُسْتَشْهَدُ، أَلاَ لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ، مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَائَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكُمْ الْمُؤْمِنُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الأحکام ۲۷ (۲۳۶۳) (والنسائي في الکبری) وحم (۱/۱۸، ۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۳۰) (صحیح) (ویأتي الإشارۃ إلیہ برقم : ۲۳۰۳)
۲۱۶۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مقام جابیہ میں(میروالد) عمر رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے ) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ ﷺنے فرمایا:'' میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں(یعنی تبع تابعین)کی ، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اورگواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا ، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کولازم پکڑواورپارٹی بندی سے بچو،کیوں کہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے ، دوکے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دورکی بات ہے ، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتاہووہ جماعت سے لازمی طورپر جڑارہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اورگناہ سے غم لاحق ہوحقیقت میں وہی مومن ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے آئی ہے ۔


2166- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَدُ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ".
وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۴) (صحیح)
۲۱۶۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہوتا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے صرف اسی سندسے جانتے ہیں ۔


2167- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ لاَ يَجْمَعُ أُمَّتِي - أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ - عَلَى ضَلاَلَةٍ، وَيَدُ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شُذَّ إِلَى النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ هُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ ابْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ هُمْ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ، قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ مَنِ الْجَمَاعَةُ ؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَ: فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، قِيلَ لَهُ: قَدْ مَاتَ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا، وَإِنَّمَا قَالَ: هَذَا فِي حَيَاتِهِ عِنْدَنَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۱۸۸) (صحیح)
(سندمیں ''سلیمان مدنی'' ضعیف ہیں، لیکن ''من شذ شذ إلى النار'' کے سوا دیگر ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں ، دیکھیے ظلال الجنۃ رقم: ۸۰)
۲۱۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ میری امت کو یایہ فرمایا: ''محمد ﷺ کی امت کوگمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا ، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد ونصرت ) جماعت کے ساتھ ہے ، جوشخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں، ان سے ابوداود طیالسی ، ابوعامر عقدی اورکئی اہل علم نے روایت کی ہے ،۳- اہل علم کے نزدیک ''جماعت'' سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اوراصحاب حدیث ہیں،۴- علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر وعمر، ان سے کہاگیا: ابوبکر وعمر تو وفات پاگئے، انہوں نے کہا: فلاں اورفلاں، ان سے کہا گیا : فلاں اورفلاں بھی تو وفات پاچکے ہیں توعبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎ ، ۵- ابوحمزہ کانام محمدبن میمون ہے، وہ صالح اورنیک شیخ تھے ، عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اگر ایک آدمی بھی صحیح عقیدہ ومنہج پر ہو تو وہ اکیلے بھی جماعت ہے، اصل معیار صحیح عقیدہ و منہج پر ہونا ہے، نہ کہ بڑی تعداد میں ہونا، اس لیے تقلیدکے شیدائیوں کایہ کہنا کہ تقلید پر امت کی اکثریت متفق ہے، اس لیے مقلدین ہی سواد اعظم ہیں، سراسر مغالطہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي نُزُولِ الْعَذَابِ إِذَا لَمْ يُغَيَّرِ الْمُنْكَرُ
۸-باب: منکر سے نہ روکنے پرعذاب نازل ہو نے کابیان​


2168- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَئُونَ هَذِهِ الآيَةَ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ".
* تخريج: د/السلام ۱۷ (۴۳۳۸)، ق/الفتن ۲۰ (۴۰۰۵)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدۃ (۳۰۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۵)، وحم (۱/۲، ۵، ۷، ۹) (صحیح)
2168/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ وَحُذَيْفَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ نَحْوَ حَدِيثِ يَزِيدَ، وَرَفَعَهُ بَعْضُهُمْ عَنْ إِسْمَاعِيلَ وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۱۶۸- ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ } ۱؎ اورمیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے : جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں)تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کردے ۲؎ ۔
۲۱۶۸/م- اس سند سے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- کئی لوگوں نے اسی طرح اسماعیل سے یزید کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے،۳- اسماعیل سے روایت کرتے ہوے بعض لوگوں نے اسے مرفوعا اوربعض لوگوں نے موقوفابیان کیا ہے ۔۴- اس باب میں عائشہ ،ام سلمہ ، نعمان بن بشیر ، عبداللہ بن عمراورحذیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان والو! اپنی فکرکرو گمراہ ہو نے والاتمہیں کوئی ضررنہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی۔ (المائدہ: ۱۰۵)
وضاحت ۲؎ : ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں جب یہ بات آئی کہ بعض لوگوں کے ذہن میں آیت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ}(المائدة:105)سے متعلق یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ اپنی اصلاح اگرکر لی جائے تو یہی کافی ہے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے، تو اسی شبہ کے ازالہ کے لیے آپ نے فرمایا: لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کررہے ہو، میں نے تو نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، پھر آپ نے یہ حدیث بیان کی، گویا آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں اور برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے بچتے رہو، کیوں کہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے، اگر کوئی مسلمان یہ فریضہ ترک کردے تو وہ ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا جب کہ قرآن { إذا اھتدیتم } کی شرط لگارہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ
۹-باب: معروف( بھلائی) کا حکم دینے اورمنکر(برائی) سے روکنے کابیان​


2169- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۳۶۶) (صحیح)
(سندمیں عبد اللہ بن عبدالرحمن اشہلی انصاری لین الحدیث ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۲۱۶۹- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اورمنکر(برائی) سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرواورتمہاری دعاء قبول نہ کی جائے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جب تک لوگ انجام دیتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عمومی عذاب نہیں آئے گا، اور جب لوگ اس فریضہ کو چھوڑ بیٹھیں گے اس وقت رب العالمین کا ان پر ایسا عذاب آئے گا کہ اس کے بعد پھر ان کی دعائیں نہیں سنی جائیں گی ،اگر ایک محدود علاقہ کے لوگ اس امربالمعروف اورنہی عن المنکروالے کام سے کلی طورپر رک جائیں تو وہاں اکیلے صرف اُن پر بھی عام عذاب آسکتاہے۔


2170- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللهِ - وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيُّ الأَشْهَلِيُّ - عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتُلُوا إِمَامَكُمْ، وَتَجْتَلِدُوا بِأَسْيَافِكُمْ، وَيَرِثَ دُنْيَاكُمْ شِرَارُكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو.
* تخريج: ق/الفتن ۲۵ (۴۰۴۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۶۵)، وحم (۵/۳۸۹) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن عبدالرحمن اشہلی ضعیف راوی ہیں)
۲۱۷۰- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہ کردو، اپنی تلواروں سے ایک دوسرے کو قتل نہ کرواوربرے لوگ تمہاری دنیاکے وارث نہ بن جائیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے ، ۲- ہم اسے صرف عمروبن ابی عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- باب
۱۰-باب​


2171- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ نَافِعِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ ذَكَرَ الْجَيْشَ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِمْ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: لَعَلَّ فِيهِمْ الْمُكْرَهُ، قَالَ: "إِنَّهُمْ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الفتن ۳۰ (۴۰۶۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۱۶) (صحیح)
۲۱۷۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ نے اس لشکرکا ذکرکیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، توام سلمہ نے عرض کیا : ہوسکتا ہے اس میں کچھ مجبورلوگ بھی ہوں، آپ نے فرمایا:'' وہ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے ، یہ حدیث ''عن نافع بن جبير عن عائشة عن النبي ﷺ'' کی سند سے بھی آئی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دنیاوی عذاب میں تومجبور اوربے بس لوگ بھی مبتلاہوجائیں گے مگر آخرت میں وہ اپنے اعمال کے موافق اٹھائے جائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي تَغْيِيرِ الْمُنْكَرِ بِالْيَدِ أَوْ بِاللِّسَانِ أَوْ بِالْقَلْبِ
۱۱-باب : ہاتھ ، زبان یادل سے منکر(بری باتوں) کو روکنے کا بیان​


2172- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ قَدَّمَ الْخُطْبَةَ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ، فَقَامَ رَجُلٌ: فَقَالَ لِمَرْوَانَ: خَالَفْتَ السُّنَّةَ، فَقَالَ: يَا فُلاَنُ! تُرِكَ مَا هُنَالِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَلْيُنْكِرْهُ بِيَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۲۰ (۱۷۷)، د/الصلاۃ ۲۴۸ (۱۱۴۰)، والملاحم ۱۷ (۴۳۴۰)، ن/الإیمان ۱۷ (۵۰۱۲)، ق/الإقامۃ ۱۵۵ (۱۲۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۸۵)، وحم (۳/۱۰، ۲۰، ۴۰، ۵۲، ۵۳، ۵۴، ۹۲) (صحیح)
۲۱۷۲- طارق بن شہاب کہتے ہیں : سب سے پہلے (عید کے دن) خطبہ کوصلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے، ایک آدمی نے کھڑے ہوکر مروان سے کہا: آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے، مروان نے کہا: اے فلاں ! چھوڑدی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈھتے ہو(یہ سن کر) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنافرض پوراکردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے :'' جوشخص کوئی برائی دیکھے تو چاہئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے ، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اورجسے اس کی طاقت بھی نہ ہووہ اپنے دل میں اسے براجانے ۱؎ اوریہ ایما ن کا سب سے کمتردرجہ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: خود اس برائی سے الگ ہوجائے، اس کے ارتکاب کرنے والوں کی جماعت سے نکل جائے (اگر ممکن ہو)
 
Top