• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الرُّجُوعِ فِي الْهِبَةِ
۷-باب: ہدیہ دے کر واپس لینے کی کراہت کابیان​


2131- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُكَتَّبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَالْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَائَ ثُمَّ عَادَ فَرَجَعَ فِي قَيْئِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۲۹۹ (صحیح)
۲۱۳۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جوشخص ہدیہ دے کر پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہے یہاں تک کہ جب وہ آسودہ ہوجائے توقے کرے، پھر اسے چاٹ لے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2132- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي طَاوُوسٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعَانِ الْحَدِيثَ قَالَ: لاَيَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا إِلاَّ الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ. وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَائَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ يَحِلُّ لِمَنْ وَهَبَ هِبَةً أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا إِلاَّ الْوَالِدَ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيمَا أَعْطَى وَلَدَهُ وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۲۹۹ (صحیح)
۲۱۳۲- عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکر مﷺ نے فرمایا:'' کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی ہدیہ دے، پھر اسے واپس لے لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کودیتاہے (وہ اسے واپس لے سکتاہے) اور جوشخص کوئی عطیہ دے پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہے یہاں تک کہ جب آسودہ ہوجائے توقے کرے، پھر اپنا قے کھالے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شافعی کہتے ہیں : کسی ہدیہ دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ ہدیہ واپس لے لے سوائے باپ کے، کیوں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ جو ہدیہ اپنے بیٹے کو دیا ہے اسے واپس لے لے ، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

30-كِتَاب الْقَدَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳۰-کتاب : تقدیرکے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ
۱-باب: تقدیر کے مسئلہ میں بحث وتکرار بڑی بری بات ہے​


2133- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ هِشَامِ ابْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: "أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تَتَنَازَعُوا فِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ وَصَالِحٌ الْمُرِّيُّ لَهُ غَرَائِبُ يَنْفَرِدُ بِهَا لاَ يُتَابَعُ عَلَيْهَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳۰) (حسن)
۲۱۳۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ کررہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کاچہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگاگویاآپ کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑدئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یامیں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بناکربھیجاگیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتاہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے اس سند سے صرف صالح مری کی روایت سے جانتے ہیں اور صالح مری کے بہت سارے غرائب ہیں جن کی روایت میں وہ منفرد ہیں، کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا۔ ۳-اس باب میں عمر ، عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء وقدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے،اوراس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتاہے،مگر اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسندکرتاہے، اور برے اعمال کو ناپسندکرتاہے، اور اسی اختیار کی بنیاد پر جزا وسزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں عقل سے غور و خوض اور بحث ومباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَم
۲-باب: تقدیر کے مسئلہ میں آدم اور موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مناظرہ کابیان​


2134- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ! أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ؟ أَغْوَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَهُمْ مِنْ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَقَالَ آدَمُ: وَأَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللهُ بِكَلاَمِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى عَمَلٍ عَمِلْتُهُ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، قَالَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجُنْدَبٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ الأَعْمَشِ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الأَعْمَشِ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/احادیث الأنبیاء ۳۱ (۳۴۰۹)، وتفسیر طہ ۱ (۴۷۳۶)، و ۲ (۴۷۳۸)، والقدر ۱۱ (۶۶۴۱)، والتوحید ۳۷ (۷۵۱۵)، م/القدر ۲ (۲۶۵۲)، د/السنۃ ۱۷ (۴۷۰۱)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۸۹)، و ط/القدر ۱ (۱)، وحم (۲/۲۴۸، ۲۶۸، ۳۹۸) (صحیح)
۲۱۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا،موسیٰ نے کہا: آدم ! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیداکیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ۱؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا: آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا، کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کردیا تھا؟، آدم موسیٰ سے دلیل میں جیت گئے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حسن صحیح غریب ہے،۲- یہ حدیث اس سند سے یعنی سلیمان تیمی کی روایت سے جسے وہ اعمش سے روایت کرتے ہیں،۳- اعمش کے بعض شاگردوں نے ''عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔اور بعض نے اس کی سند یوں بیان کی ہے ''عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي سعيد، عن النبي ﷺ'' ، ۴- کئی اور سندوں سے یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،۵- اس باب میں عمر اور جندب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ روح جو اللہ کی پیدا کردہ ہے، اور جس کا ہر ذی روح حاجت مند ہے۔
وضاحت ۲؎ : صحیح مسلم میں اس کی تصریح ہے کہ آدم اور موسیٰ کا یہ مباحثہ اللہ رب العالمین کے سامنے ہوا۔ (واللہ اعلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي الشَّقَائِ وَالسَّعَادَةِ
۳-باب: اچھی اوربری تقدیر( قسمت) کا بیان​


2135- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ قَال: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللهِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ أَمْرٌ مُبْتَدَعٌ أَوْ مُبْتَدَأٌ أَوْ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟ فَقَالَ: "فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ! وَكُلٌّ مُيَسَّرٌ؛ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ"، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَائِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَائِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَأَنَسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۷۶۴) (صحیح)
۲۱۳۵- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جوعمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے، وہ نیاشروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہوچکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ''ابن خطاب ! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہوچکی ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کردیاگیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیاگیا ہے)، چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتاہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والاکام کرتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، حذیفہ بن اسید، انس اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جوعمل ہم کرتے ہیں کیا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم میں آتاہے؟ یا وہ پہلے سے لکھاہوا ہے اور اللہ کے علم میں ہے؟۔


2136- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَوَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَهُوَ يَنْكُتُ فِي الأَرْضِ إِذْ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَائِ، ثُمَّ قَالَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ قَدْ عُلِمَ". وَقَالَ وَكِيعٌ: إِلاَّ قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنْ النَّارِ وَمَقْعَدُهُ مِنْ الْجَنَّةِ، قَالُوا: أَفَلاَ نَتَّكِلُ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۸۲ (۱۳۶۲)، وتفسیر سورۃ واللیل إذا یغشی ۳ (۴۹۴۵)، والأدب ۱۲۰ (۶۲۱۷)، والقدر ۴ (۶۶۰۵)، والتوحید ۵۴ (۷۵۵۲)، م/القدر ۱ (۲۶۴۷)، د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۴)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۸)، ویأتي عند المؤلف برقم ۳۳۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۷)، وحم (۱/۱۳۲) (صحیح)
۲۱۳۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ زمین کرید رہے تھے کہ اچانک آپ نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا پھر فرمایا:'' تم میں سے کوئی آدمی ایسانہیں ہے جس کا حال معلوم نہ ہو، (وکیع کی روایت میں ہے :تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کی جنت یاجہنم کی جگہ نہ لکھ دی گئی ہو)، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ (تقدیر کے لکھے ہوئے پر ) بھروسہ نہ کرلیں؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں، تم لوگ عمل کرو اس لیے کہ ہرآدمی کے لیے وہ چیز آسان کردی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیاگیاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الأَعْمَالَ بِالْخَوَاتِيمِ
۴-باب: خاتمہ والے اعمال معتبر ہونے کابیان​


2137- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: "إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ، وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعٍ يَكْتُبُ رِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَعَمَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْسَعِيدٌ، فَوَالَّذِي لاَ إِلَهَ غَيْرُهُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ، ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلاَّ ذِرَاعٌ ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَذَكَرَ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ، و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ قَال: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنِ الأَعْمَشِ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۸)، وأحادیث الأنبیاء ۱ (۳۳۹۳)، م/القدر ۱ (۲۶۴۳)، د/السنۃ ۱۷ (۴۷۰۸)، ق/المقدمۃ ۱۰ (۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۸)، وحم (۱/۳۸۲، ۴۱۴) (صحیح)
2137/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدٍ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۱۳۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق ومصدوق رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ۱؎ ، ''تم میں سے ہرآدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتاہے، پھر اتنے ہی دن تک علقہ(یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتاہے، پھر اتنے ہی دن تک مضغہ( یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتاہے ، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتاہے جو اس کے اندر روح پھونکتاہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیاجاتاہے، چنانچہ وہ لکھتاہے: اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ شقی(بدبخت) ہے یاسعید(نیک بخت)، اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبودبرحق نہیں، تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کا عمل کرتارہتاہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گزکا فاصلہ رہ جاتاہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جہنمیوں کے عمل پراس کا خاتمہ کیاجاتاہے۔ لہذا وہ جہنم میں داخل ہوجاتاہے، اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کا عمل کرتارہتاہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اورجنتیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیاجاتاہے ، لہذا وہ جنت میں داخل ہوتاہے۔
۲۱۳۷/(م۱) - اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، شعبہ اور ثوری نے بھی اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۲۱۳۷/(م۲)- اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی سچے ہیں او ر سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ
۵-باب: ہربچہ فطرت(اسلام) پرپیداہو تاہے​


2138- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَبِيعَةَ الْبُنَانِيُّ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْمِلَّةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُشَرِّكَانِهِ"، قِيلَ: يَارَسُولَ اللهِ! فَمَنْ هَلَكَ قَبْلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: "اللهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ بِهِ".
* تخريج: خ/الجنائز ۹۲ (۱۳۸۳)، والقدر ۳ (۶۵۹۲)، م/القدر ۶ (۲۶۵۸)، د/السنۃ ۱۸ (۴۷۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۷۶)، و ط/الجنائز ۱۶ (۵۲)، وحم (۲/۲۴۴، ۲۵۳، ۲۵۹، ۲۶۸، ۳۱۵، ۳۴۷، ۳۹۳، ۴۷۱، ۴۸۸، ۵۱۸) (صحیح)
2138/م- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَالْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَقَالَ: يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُهُ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۱۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہربچہ فطرت (اسلام) پرپیداہوتاہے ۱؎ ، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں'' عرض کیاگیا: اللہ کے رسول ! جو اس سے پہلے ہی مرجائے؟۲؎ آپ نے فرمایا:'' اللہ خوب جانتاہے کہ وہ کیا عمل کرتے ''۔
۲۱۳۸/م- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، (لیکن) اس میں ''يولد على الملة'' کی بجائے ''الفطرة'' (فطرف اسلام پر پیدا ہوتاہے) کے الفاظ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ اور دوسرے لوگوں نے بھی ''عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي ﷺ'' کی سند سے روایت کی ہے، اس روایت میں بھی ''يولد على الفطرة '' کے الفاظ ہیں، ۳- اس باب میں اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : فطرت اسلام پر پیدا ہونے کی علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ چونکہ ''ألست بربكم'' کا عہد جس وقت اللہ رب العالمین اپنی مخلوق سے لے رہاتھا تو اس وقت سب نے اس عہداور اس کی وحدانیت کا اقرار کیاتھا، اس لیے ہر بچہ اپنے اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ماں باپ کی تربیت یا لوگوں کے بہکاوے میں آکر یہودی ، نصرانی اور مشرک بن جاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی بچپن ہی میں جس کا انتقال ہوجائے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ لاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَائُ
۶-باب: صرف دعاہی تقدیر ٹال سکتی ہے​


2139- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضُّرَيْسِ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَرُدُّ الْقَضَائَ إِلاَّ الدُّعَائُ، وَلاَ يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلاَّ الْبِرُّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَلْمَانَ، لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الضُّرَيْسِ، وَأَبُو مَوْدُودٍ اثْنَانِ أَحَدُهُمَا يُقَالُ لَهُ فِضَّةُ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ اسْمُهُ فِضَّةُ بَصْرِيٌّ، وَالآخَرُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ أَحَدُهُمَا بَصْرِيٌّ وَالآخَرُ مَدَنِيٌّ وَكَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
* تخريج: تفرد بہ مؤالف (تحفۃ الأشراف: ۴۵۰۲) (حسن)
۲۱۳۹- سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دعاکے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے،۳- ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں،۴- ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے، ایک کو فضہ کہاجاتاہے،اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے، ان کا نام فضہ ہے اوردوسرے ابومودود کانام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے، ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے، دونوں ایک ہی دور میں تھے۔
وضاحت ۱؎ : قضاء سے مراد امر مقدر ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے : مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بے حد موثر ہے، یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے: مراد یہ ہے کہ دعا سے قضا کا سہل وآسان ہوجانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہوگا کہ قضا نازل ہی نہیں ہوئی، اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضا نازل ہوچکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے، نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے، مثلا لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہوگی اور حج وعمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہوگی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یانہیں، اورعلم الٰہی میں ردوبدل اور تغیر نہیں ہوسکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَي الرَّحْمَنِ
۷-باب: لوگوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں​


2140- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: "يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ! ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ" فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! آمَنَّا بِكَ وَبِمَا جِئْتَ بِهِ فَهَلْ تَخَافُ عَلَيْنَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَائُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسٍ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَحَدِيثُ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَنَسٍ أَصَحُّ.
* تخريج: ق/الدعاء ۲ (۳۸۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴) (صحیح)
۲۱۴۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھتے تھے ''يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك'' اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم لوگ آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لے آئے کیا آپ کو ہمارے سلسلے میں اندیشہ رہتاہے؟آپ نے فرمایا:'' ہاں، لوگوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا چاہتاہے انہیں الٹتا پلٹتا رہتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- کئی لوگوں نے اسی طرح ''عن الأعمش عن أبي سفيان عن أنس'' کی سند سے روایت کی ہے۔بعض لوگوں نے ''عن الأعمش عن أبي سفيان عن جابر عن النبي ﷺ '' کی سند سے روایت کی ہے، لیکن ابوسفیان کی حدیث جو انس سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے،۳- اس باب میں نواس بن سمعان ، ام سلمہ ، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ اللهَ كَتَبَ كِتَابًا لأَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ
۸-باب: اللہ تعالیٰ نے جنتیوں اور جہنمیوں کو اپنی کتاب میں لکھ رکھاہے​


2141- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ، عَنْ شُفَيِّ بْنِ مَاتِعٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ الْعَاصِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَفِي يَدِهِ كِتَابَانِ، فَقَالَ: "أَتَدْرُونَ مَاهَذَانِ الْكِتَابَانِ؟" فَقُلْنَا: لاَ، يَا رَسُولَ اللهِ! إِلاَّ أَنْ تُخْبِرَنَا، فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَدِهِ الْيُمْنَى: "هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فِيهِ أَسْمَائُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَائُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا"، ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي شِمَالِهِ: "هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فِيهِ أَسْمَائُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَائُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَى آخِرِهِمْ فَلاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا"، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللهِ! إِنْ كَانَ أَمْرٌ قَدْفُرِغَ مِنْهُ؟ فَقَالَ: "سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ، وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِيَدَيْهِ فَنَبَذَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: "فَرَغَ رَبُّكُمْ مِنَ الْعِبَادِ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۲۵)، وحم (۲/۱۶۷) (حسن)
2141/أ- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (حسن)
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
وَأَبُو قَبِيلٍ اسْمُهُ حُيَيُّ بْنُ هَانِئٍ.
۲۱۴۱- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دوکتابیں تھیں۔ آپ نے پوچھا: ''تم لوگ جانتے ہویہ دونوں کتابیں کیاہیں؟'' ہم لوگوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتادیں۔ داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا:'' یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جنتیوں، ان کے آباء واجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں، پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کردیاگیاہے۔ لہذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوگا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہوگا''، پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا:''یہ رب العالمین کی کتاب ہے، اس کے اندر جہنمیوں ، ان کے آباء واجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکرکردیاگیاہے، اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوگا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہوچکی ہے؟ آپ نے فرمایا: ''سیدھی راہ پرچلو اور میانہ روی اختیار کرو ، اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہوگا ، اگر چہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہوگا اگر چہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے'' ،پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا، پھران دونوں کتابوں کو پھینک دیا اور فرمایا:'' تمہارا رب بندوں سے فارغ ہوچکا ہے، ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا''۔
۲۱۴۱/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔


2142- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا اسْتَعْمَلَهُ" فَقِيلَ: كَيْفَ يَسْتَعْمِلُهُ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "يُوَفِّقُهُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ قَبْلَ الْمَوْتِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفردی بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹) (صحیح)
۲۱۴۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اس سے عمل کراتاہے، عرض کیاگیا: اللہ کے رسول ! کیسے عمل کراتاہے؟ ''آپ نے فرمایا:'' موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ لاَ عَدْوَى وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ
۹-باب: چھوت چھات ، الواور صفر کے مہینہ کی نحوست کی نفی کابیان​


2143- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَاحِبٌ لَنَا عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: "لاَ يُعْدِي شَيْئٌ شَيْئًا". فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَارَسُولَ اللهِ! الْبَعِيرُ الْجَرِبُ الْحَشَفَةُ بِذَنَبِهِ فَتَجْرَبُ الإِبِلُ كُلُّهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَمَنْ أَجْرَبَ الأَوَّلَ؟ لاَ عَدْوَى وَلاَ صَفَرَ، خَلَقَ اللهُ كُلَّ نَفْسٍ، وَكَتَبَ حَيَاتَهَا وَرِزْقَهَا وَمَصَائِبَهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ، قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو ابْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيَّ الْبَصْرِيَّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: لَوْ حَلَفْتُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ لَحَلَفْتُ أَنِّي لَمْ أَرَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۶۴۰)، وانظر حم (۱/۴۴۰) (صحیح)
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، سند میں ایک راوی ''صاحب لنا'' مبہم ہے، اور ہوسکتا ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہوں، ابوزرعہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، نیز مسند احمد (۲/۳۲۷) میں یہ حدیث بواسطہ ابوزرعہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موجود ہے)
۲۱۴۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا:'' کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی '' ، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہوجاتے ہیں''، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پھر پہلے کو کس نے کھجلی دیـ؟ کسی کی بیماری دوسرے کونہیں لگتی ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہرنفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی ، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس باب میں زمانہ جاہلیت کی تین باتوں کی نفی کی گئی ہے، اور اس حدیث میں متعدی مرض اور صفر کے سلسلے میں موجود بداعتقادی پر نکیر ہے، اہل جاہلیت کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلے کے بغیر بیماری خود سے متعدی ہوتی ہے، یعنی خود سے پھیل جاتی ہے، اسلام نے ان کے اس اعتقاد باطل کو غلط ٹھہرایا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''لاعدوى'' یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی اور اس کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو کھجلی کی بیماری کیسے لگی ، کی بات کہہ کر سمجھایا اور بتایا کہ کسی بیماری کا لاحق ہونا اور اس بیماری سے شفا دینا یہ سب اللہ رب العالمین کے حکم سے ہے وہی مسبب الاسباب ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے ، البتہ بیمار یوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، ھامہ یعنی الو کا ذکر باب میں ہے، اس حدیث میں نہیں ہے، بلکہ دوسری احادیث میں ہے آیاہے، الو کو دن میں دکھا ئی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اوربعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھر تی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑجاتا ہے ، رسول اکرم ﷺ نے اس خیال کوباطل قرار دیا ، اور فرمایا : و ولاهامة، آج بھی الو کی نحوست کا اعتقاد باطل بہت سے لوگوں کے یہاں پایا جاتاہے، جو جاہلیت کی بداعتقادی ہے، اسی طرح صفر کے مہینے کو جاہلیت کے زمانے میں لوگ منحوس قرار دیتے تھے،اورجاہل عوام اب تک اسے منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اکرم ﷺ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں ،یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی آتا ہے کہ عرب ماہ محرم کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ بنالیتے تھے، اسلام میں یہ بھی باطل ، اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ عربوں کے اعتقاد میں پیٹ میں ایک سانپ ہوتا تھا جس کو صفر کہا جاتا ہے، بھوک کے وقت وہ پیداہوتاہے اور آدمی کو ایذاپہنچاتاہے ، اور ان کے اعتقاد میں یہ متعدی مرض تھا، تو اسلام نے اس کو باطل قرار دیا(ملاحظہ ہو: النہایۃ فی غریب الحدیث :مادہ: صفر ، نیز ان مسائل پر ہم نے سنن ا بن ماجہ (کتاب الطب: باب نمبر۴۳، حدیث نمبر ۳۵۳۶-۳۵۴۱) میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ، اس کا مطالعہ مفیدہوگا۔
 
Top