10- بَاب مَا جَاءَ فِي رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ الْمِيزَانَ وَالدَّلْوَ
۱۰-باب: نبی اکرمﷺ کاخواب میں ترازواورڈول دیکھنے کابیان
2287- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "ذَاتَ يَوْمٍ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا؟" فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ، فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ، فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ، وَوُزِنَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ، وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ، ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ، فَرَأَيْنَا الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/السنۃ ۹ (۴۶۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۲)، وحم (۵/۴۴، ۵۰) (صحیح)
۲۲۸۷- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک دن فرمایا:'' تم میں سے کس نے خواب دیکھاہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھاکہ آسمان سے ایک ترازواترا،آپ اورابوبکرتولے گئے تو آپ ابوبکرسے بھاری نکلے ، ابوبکر اورعمرتولے گئے ، تو ابوبکربھاری نکلے ،عمراورعثمان تولے گئے تو عمربھاری نکلے پھر ترازواٹھالیا گیا، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺکے چہرے پر ناگواری کے آثاردیکھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ناگواری کا سبب یہ تھا کہ میزان کے اٹھالیے جانے کا مفہوم یہ نکلاکہ عمرکے بعدفتنوں کاآغازہوجائے گا، واللہ اعلم۔
2288- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ وَرَقَةَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: إِنَّهُ كَانَ صَدَّقَكَ وَلَكِنَّهُ مَاتَ قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أُرِيتُهُ فِي الْمَنَامِ وَعَلَيْهِ ثِيَابٌ بَيَاضٌ، وَلَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَكَانَ عَلَيْهِ لِبَاسٌ غَيْرُ ذَلِكَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَيْسَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِالْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۳۶) (ضعیف)
(سندمیں عثمان بن عبد الرحمن متروک الحدیث راوی ہے، خود متن سے بھی اس حدیث کا منکر ہونا واضح ہے)
۲۲۸۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ سے ورقہ (بن نوفل) کے بارے میں پوچھا گیا تو خدیجہ نے کہا: انہوں نے رسول اللہﷺکی تصدیق کی تھی مگروہ آپ کی نبوت کے ظہورسے پہلے وفات پاگئے، یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مجھے خواب میں انہیں دکھایاگیاہے،اس وقت ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے، اگروہ جہنمی ہوتے تو ان کے جسم پرکوئی دوسرا لباس ہوتا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- محدثین کے نزدیک عثمان بن عبدالرحمن قوی نہیں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ اگرکوئی مسلمان خواب میں اپنے کسی مرے ہوئے مسلمان بھائی کے جسم پرسفیدکپڑادیکھے تو یہ اس کے حسن حال کی پیشین گوئی ہے کہ وہ جنتی ہے ، ورقہ بن نوفل خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچیرے بھائی تھے انہو ں نے آپ ﷺ کا حال سن کرآپ کی رسالت کی تصدیق کی تھی اورکہاتھا کہ جوفرشتہ تمہارے پاس آتاہے وہ ناموس اکبرہے ، اپنے بڑھاپے پرافسوس کرتے ہوئے کہاتھاکہ اگرمیں زندہ رہا تواس وقت آپ کاساتھ ضروردوں گاجس وقت آپ کی قوم آپ کوگھرسے نکال دے گی۔
2289- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّاسَ اجْتَمَعُوا فَنَزَعَ أَبُو بَكْرٍ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ فِيهِ ضَعْفٌ وَاللهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ قَامَ عُمَرُ فَنَزَعَ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِي فَرْيَهُ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۳۳)، وفضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۶)، و ۶ (۳۶۸۲)، والتعبیر ۲۸ (۷۰۱۹)، و ۲۹ (۷۰۲۰)، م/فضائل الصحابۃ ۲ (۲۳۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۲) (صحیح)
۲۲۸۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی اکرمﷺ کے اس خواب کے بار ے میں مروی ہے جس میں آپ نے ابوبکر اور عمرکودیکھا ، آپ نے فرمایا:'' میں نے دیکھا کہ لوگ (ایک کنویں پر) جمع ہوگئے ہیں، پھر ابوبکرنے ایک یادوڈول کھینچے اوران کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ ان کی مغفرت کرے، پھر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوے اورانہوں نے ڈول کھینچا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا ، میں نے کسی مضبوط اورطاقت ورشخص کو نہیں دیکھا جس نے ایساکام کیا ہو، یہاں تک کہ لوگوں نے اپنی آرام گاہوں میں جگہ پکڑی'' (یعنی سب آسودہ ہوگئے ۱ ؎ )۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے مرادعمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی مضبوط خلافت وامارت کادورہے۔
2290- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "رَأَيْتُ امْرَأَةً سَوْدَائَ ثَائِرَةَ الرَّأْسِ خَرَجَتْ مِنَ الْمَدِينَةِ حَتَّى قَامَتْ بِمَهْيَعَةَ وَهِيَ الْجُحْفَةُ وَأَوَّلْتُهَا وَبَائَ الْمَدِينَةِ يُنْقَلُ إِلَى الْجُحْفَةِ". قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/التعبیر ۴۱ (۷۰۳۸)، و ۴۲ (۷۰۳۹)، ۴۳ (۷۰۴۰)، ق/الرؤیا ۱۰ (۳۹۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۳)، ودي/الرؤیا ۱۳ (۲۲۰۷) (صحیح)
۲۲۹۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرمﷺ کے خواب کے بارے میں روایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے پراگندہ بالوں والی ایک کالی عورت کو دیکھا جو مدینہ سے نکلی اورمہیعہ میں ٹھہرگئی (مهيعه،جحفه کا دوسرانام ہے)،میں نے اس کی تعبیریہ کی کہ وہ مدینہ کی (بخاروالی) وباہے جو جحفہ چلی جائے گی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
2291- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "فِي آخِرِ الزَّمَانِ لاَتَكَادُ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَكْذِبُ وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا، وَالرُّؤْيَا ثَلاَثٌ: الْحَسَنَةُ بُشْرَى مِنَ اللهِ، وَالرُّؤْيَا يُحَدِّثُ الرَّجُلُ بِهَا نَفْسَهُ، وَالرُّؤْيَا تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يَكْرَهُهَا فَلاَ يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ". قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: يُعْجِبُنِي الْقَيْدُ وَأَكْرَهُ الْغُلَّ، الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ، قَالَ: وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَيُّوبَ مَرْفُوعًا، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ وَوَقَفَهُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۲۷۰ و۲۲۸۰) (صحیح)
۲۲۹۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' آخروقت میں مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، اورخواب ان لوگوں کاسچاہوگا جن کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی، خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: اچھے خواب جواللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، وہ خواب جسے انسان دل میں سوچتارہتا ہے ، اوروہ خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور غم کاسبب ہوتا ہے ، لہذاجب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خوب دیکھے تواسے کسی سے بیان نہ کرے، اسے چاہئے کہ اٹھ کر صلاۃ پڑھے'' ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں قیددیکھنااچھاسمجھتاہوں اوربیڑی دیکھنا برا سمجھتا ہوں، قیدکی تعبیرثابت قدمی ہے''، ابوہریرہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' مومن کاخواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے یہ حدیث مرفوعاً روایت کی ہے اورحماد بن زیدنے ایوب سے اسے موقوفاًروایت کیا ہے۔
2292- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ عَنْ شُعَيْبٍ، وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، وَهُوَ عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، فَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا، فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَنْفُخَهُمَا، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا، فَأَوَّلْتُهُمَا كَاذِبَيْنِ يَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِي، يُقَالُ لأَحَدِهِمَا مُسَيْلِمَةُ صَاحِبُ الْيَمَامَةِ وَالْعَنْسِيُّ صَاحِبُ صَنْعَائَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۲۱)، والمغازي ۷۰ (۴۳۷۴، ۴۳۷۵)، و ۷۱ (۴۳۷۹)، والتعبیر ۳۸ (۷۰۳۴)، و ۴۰ (۷۰۳۷)، م/الرؤیا ۴ (۲۲۷۴)، ق/الرؤیا ۱۰ (۳۹۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۴)، وحم (۲/۳۱۹، ۳۲۸، ۳۴۴) (صحیح)
۲۲۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' میں نے خواب میں دیکھاکہ میرے ہاتھ میں سونے کے دوکنگن ہیں، ان کے حال نے مجھے غم میں ڈال دیا ، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں ، لہذا میں نے پھونکاتو وہ دونوں اڑگئے ، میں نے ان دونوں کنگنوں کی تعبیر (نبوت کا دعوی کرنے والے) دوجھوٹوں سے کی جو میرے بعدنکلیں گے : ایک کانام مسیلمہ ہوگا جویمامہ کارہنے والا ہوگا اوردوسرے کانام عنسی ہوگا ، جو صنعاء کارہنے والا ہوگا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺ کاخواب میں یہ دیکھناکہ آپ سونے کا دوکنگن پہنے ہوئے ہیں،جب کہ یہ عورتوں کا زیورہے اس طرف اشارہ تھا کہ دوجھوٹے دعویدارایسی بات کادعوی کریں گے جس کے وہ حقدارنہ ہوں گے یعنی نبوت کا دعوی ، اورپھونک مارنے سے ان کا اڑجانااس سے اشارہ تھا کہ آپ کے کام کے سامنے ان کی باتوں کا کوئی وزن نہ ہوگاوہ لاشیٔ کے مثل ہوں گے ۔اورانہیں ختم کردیاجائے گا ۔
2293- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَسْتَقُونَ بِأَيْدِيهِمْ، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلاً مِنَ السَّمَائِ إِلَى الأَرْضِ، وَأَرَاكَ يَارَسُولَ اللهِ! أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَكَ فَعَلاَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ فَعَلاَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ فَقُطِعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلاَ بِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَيْ رَسُولَ اللهِ - بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي - وَاللهِ! لَتَدَعَنِّي أَعْبُرُهَا، فَقَالَ: "اعْبُرْهَا" فَقَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الإِسْلاَمِ، وَأَمَّا مَايَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلاَوَتُهُ، وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَائِ إِلَى الأَرْضِ فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ، فَأَخَذْتَ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللهُ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو، أَيْ رَسُولَ اللهِ لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَوْ أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا" قَالَ: أَقْسَمْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَتُخْبِرَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ تُقْسِمْ" قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الأیمان والنذور ۱۳ (۳۲۶۸)، ق/الرؤیا ۱۰ (۳۹۱۸)، وانظر أیضا: خ/التعبیر ۱۱ (۷۰۰۰)، و ۴۷ (۷۰۴۶)، وم/الرؤیا ۳ (۲۲۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۵) (صحیح)
۲۲۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے: ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرکہا: میں نے رات کوخواب میں بادل کا ایک ٹکڑادیکھا جس سے گھی اورشہد ٹپک رہا تھا ، اورلوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں میں لے کراسے پی رہے ہیں، کسی نے زیادہ پیااورکسی نے کم ، اورمیں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹک رہی تھی ، اللہ کے رسول! اورمیں نے آپ کو دیکھاکہ آپ وہ رسی پکڑکراوپر چلے گئے ، پھر آپ کے بعد ایک اورشخص اسے پکڑکر اوپر چلاگیا ، پھر اس کے بعد ایک اورشخص نے پکڑاوروہ بھی اوپرچلاگیا، پھر اسے ایک اورآدمی نے پکڑاتورسی ٹوٹ گئی، پھروہ جوڑدی گئی تو وہ بھی اوپر چلا گیا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول!- میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں- اللہ کی قسم! مجھے اس کی تعبیربیان کرنے کی اجازت دیجئے ، آپ نے فرمایا:'' بیان کرو''، ابوبکر نے کہا: ابرکے ٹکڑے سے مراداسلام ہے اوراس سے جو گھی اورشہدٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے اوراس کی شیرینی اورنرمی مرادہے، زیادہ اورکم پینے والوں سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، اورآسمان سے زمین تک لٹکنے والی اس رسی سے مرادحق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اوپر اٹھالے گا، پھر اس کے بعد ایک اورآدمی پکڑے گا اوروہ بھی پکڑکراوپرچڑھ جائے گا ،اس کے بعد ایک اورآدمی پکڑے گا ، تو وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا، پھر اس کے بعد ایک تیسراآدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی، پھر اس کے لیے جوڑدی جائے گی اور وہ بھی چڑھ جائے گا، اللہ کے رسول! بتائیے میں نے صحیح بیان کیایاغلط؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تم نے کچھ صحیح بیان کیا اور کچھ غلط ، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے باپ ماں آپ پر قربان ! میں قسم دیتاہوں آپ بتائیے میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' قسم نہ دلاؤ '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺکا یہ فرماناکہ تم نے صحیح بیان کرنے کے ساتھ کچھ غلط بیان کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تعبیربیان کرنے میں کیا غلطی ہوئی تھی اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں:بعض کا کہناہے کہ نبی اکرمﷺکی اجازت کے بغیرانہوں نے تعبیربیان کی یہ ان کی غلطی ہے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺنے انہیں بیان کرنے کی اجازت اپنے اس قول ''أعبرها''سے دے دی تھی، بعض کاکہناہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺسے آپ کے پوچھنے سے پہلے ہی تعبیربیان کرنے کی خواہش ظاہر کردی یہ ان کی غلطی تھی ،بعض کا کہنا ہے تعبیربیان کرنے میں غلطی واقع ہوئی تھی ،صحیح بات یہ ہے کہ اگرابوبکر رضی اللہ عنہ اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے آپ کوپیش نہ کرتے تو شایدآپ ﷺاس کی تعبیرخودبیان کرتے اورظاہرہے کہ آپ کی بیان کردہ تعبیراس امت کے لیے ایک بشارت ثابت ہوتی اوراس سے جوعلم حاصل ہوتا وہ یقینی ہوتانہ کہ ظنی واجتہادی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ قسم کوپورا کرنااسی وقت ضروری ہے جب اس سے کسی شروفسادکا خطرہ نہ ہواوراگربات ایسی ہے توپھر قسم کوپوراکرنا ضروری نہیں۔
2294- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا صَلَّى بِنَا الصُّبْحَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ وَقَالَ: "هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا؟". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَوْفٍ وَجَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ عَنْ أَبِي رَجَائٍ عَنْ سَمُرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ. قَالَ: وَهَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَهْبِ بْنِ جَرِيرٍ مُخْتَصَرًا.
* تخريج: خ/الجنائز ۹۳ (۱۳۸۶)، والتعبیر ۴۸ (۷۰۴۷)، م/الرؤیا ۴ (۲۲۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۶۳۰) (صحیح)
۲۲۹۴- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب ہمیں فجر پڑھاکرفارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اورفرماتے :'' کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟ ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ایک طویل قصے کے ضمن میں عوف اورجریربن حازم سے مروی ہے ، جسے یہ دونوں رجاء سے ،رجاء سمرہ سے اورسمرہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں ۳- محمدبن بشارنے اسی طرح یہ حدیث وہب بن جریر سے اختصارکے ساتھ روایت کی ہے۔
* * *