• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَابٌ
۱۶-باب: قیامت کے دن شفاعت پر ایک اور حدیث​


2446- حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ جَعَلَ يَمُرُّ بِالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمْ الْقَوْمُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمْ الرَّهْطُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَلَيْسَ مَعَهُمْ أَحَدٌ حَتَّى مَرَّ بِسَوَادٍ عَظِيمٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: مُوسَى وَقَوْمُهُ، وَلَكَنِ ارْفَعْ رَأْسَكَ، فَانْظُرْ، قَالَ: فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، قَدْ سَدَّ الأُفُقَ مِنْ ذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ذَا الْجَانِبِ، فَقِيلَ: هَؤُلاَئِ أُمَّتُكَ، وَسِوَى هَؤُلاَئِ مِنْ أُمَّتِكَ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ"، فَدَخَلَ وَلَمْ يَسْأَلُوهُ وَلَمْ يُفَسِّرْ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْنُ هُمْ، وَقَالَ قَائِلُونَ: هُمْ أَبْنَاؤُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا عَلَى الْفِطْرَةِ وَالإِسْلاَمِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: "هُمْ الَّذِينَ لاَيَكْتَوُونَ وَلاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ" فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: أَنَا مِنْهُمْ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "نَعَمْ"، ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَنَا مِنْهُمْ، فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۳۱ (۳۴۱۰)، والطب ۱۷ (۵۷۰۵)، و ۴۲ (۵۷۵۲)، والرقاق ۲۱ (۶۴۷۲)، و۵۰ (۶۵۴۱)، م/الإیمان ۹۴ (۲۲۰) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۹۳)، وحم (۱/۲۷۱) (صحیح)
۲۴۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی اکرم ﷺ معراج کے لیے تشریف لے گیے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا ،ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، توآپ نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ کہاگیا : یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے، آپ اپنے سرکو بلند کیجئے اور دیکھیے: تویکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھاتھا، مجھ سے کہاگیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے،پھر آپﷺ گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اورنہ ہی آپ نے ان کے سامنے اس کی تفسیربیان کی ، چنانچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا: شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا: شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت ِ اسلام پر پیدا ہوئیں۔ لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺباہر نکل آئے اور فرمایا:'' یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑپھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں، وہ صرف اپنے رب پرتوکل واعتمادکرتے ہیں''، اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیامیں بھی انہیں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں''، (تم بھی انہی میں سے ہو) پھرایک دوسرے شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا:'' عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کرلی '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد ، بھروسہ اور توکل کرتے ہیں، جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرناجائز ہے یہ اللہ رب العالمین پراعتمادوتوکل کی اعلی مثال ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-باب
۱۷-باب: دین سے دوری کی برائی کا بیان​


2447- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُوعِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كُنَّا عَلَيْهِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ: أَيْنَ الصَّلاَةُ؟ قَالَ: أَوَلَمْ تَصْنَعُوا فِي صَلاَتِكُمْ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/المواقیت ۷ (۵۲۹، ۵۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴) (صحیح)
۲۴۴۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہ چیزیں نہیں دیکھتاجن پر ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عمل کرتے تھے، راوی حدیث ابوعمران جونی نے کہا:کیا آپ صلاۃ نہیں دیکھتے ؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیاتم لوگوں نے صلاۃ میں وہ سب نہیں کیا جو تم جانتے ہو؟! ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ابوعمران جونی کی روایت سے غریب حسن ہے، ۲- یہ حدیث انس کے واسطے سے اس کے علاوہ اور کئی سندوں سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صلاۃ کی پابندی اور اس کے اوقات میں اسے ادا کرنا اس سلسلہ میں تم لوگوں نے سستی اور کاہلی نہیں برتی ؟۔


2448- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنِي زَيْدٌ الْخَثْعَمِيُّ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الأَعْلَى، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ، بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۵۵) (ضعیف)
(سندمیں ہاشم بن سعید الکوفی ضعیف راوی ہیں)
۲۴۴۸- اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ''براہے وہ بندہ جو تکبر کرے اور اترائے اور اللہ بزرگ وبرترکوبھول جائے، اور براہے وہ بندہ جومظلوموں پر قہر ڈھائے اور ظلم و زیادتی کرے اور اللہ جبار برتر کو بھول جائے، اور براہے وہ بندہ جولہو ولعب میں مشغول ہو اور قبروں اور ہڈیوں کے سڑگل جانے کو بھول جائے، اور براہے وہ بندہ جو حد سے آگے بڑھ جائے اور سرکشی کا راستہ اپنائے اور اپنی پیدائش اورموت کو بھول جائے، اور براہے وہ بندہ جو دین کے بدلے دنیا کو طلب کرے، اور براہے وہ بندہ جو اپنے دین کو شبہات سے ملائے، اور براہے وہ بندہ جسے لالچ اپنی طرف کھینچ لے، اور براہے وہ بندہ جسے اس کا ہوائے نفسانی گمراہ کردے اور براہے وہ بندہ جسے حرص ذلیل ورسوا کردے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-باب
۱۸-باب​


2449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَارُودِ الأَعْمَى وَاسْمُهُ زِيَادُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ، وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفًا، وَهُوَ أَصَحُّ عِنْدَنَا وَأَشْبَهُ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۴۱ (۱۶۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۱)، وحم (۳/۱۳) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، نیز زیاد بن منذر بقول ابن معین: کذاب ہے، اور ابوداود کی سند میں نبیح لین الحدیث اور ابوخالد دالانی مدلس کثیر الخطأ ہیں)
۲۴۴۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو مومن بندہ کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جنت کے پھل کھلائے گا ، اور جو مومن بندہ کسی پیاسے مومن کو پانی پلائے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم (مہر بند شراب) پلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی ننگے بدن والے مومن کو کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبزجوڑے پہنائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ حدیث عطیہ کے واسطے سے ابوسعیدخدری سے موقوفا مروی ہے،اور ہمارے نزدیک یہی سند سب سے زیادہ اقرب اور صحیح ہے۔


2450- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ فَيْرُوزَ قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ خَافَ أَدْلَجَ وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ، أَلاَ إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ غَالِيَةٌ، أَلاَ إِنَّ سِلْعَةَ اللهِ الْجَنَّةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۲۵) (صحیح)
۲۴۵۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جودشمن کے حملہ سے ڈرا اور شروع رات ہی میں سفرمیں نکل پڑا وہ منزل کو پہنچ گیا ۱؎ ، آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کاسامان بڑی قیمت والا ہے،آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کا سامان جنت ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ، غریب ہے، اسے ہم صرف ابونضر ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک مثل ہے جو ان لوگوں کے لیے بیان کی گئی ہے جنہوں نے آخرت کے راستہ کو اپنا رکھا ہے، اور اس پر گامزن ہیں، کیوں کہ شیطان ایسے لوگوں کے بہکانے کے لیے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، اس لیے اس راہ پر چلنے والے اگر شروع ہی سے بیدار رہے اور پورے اخلاص کے ساتھ عمل پر قائم رہے تو ایسے لوگ شیطان کے مکر اور اس کی چال سے محفوظ رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19- باب
۱۹- باب​


2451- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ عَبْدُاللهِ بْنُ عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ وَعَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ - وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لاَ بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۴ (۴۲۱۵) (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۲) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن یزید دمشقی ضعیف راوی ہیں)
۲۴۵۱- عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بندہ متقیوں کے مقام کونہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی حرج نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے، جس میں برائی ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-باب
۲۰-باب​


2452- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانٌ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ حَنْظَلَةَ الأُسَيِّدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لأَظَلَّتْكُمْ الْمَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ حَنْظَلَةَ الأُسَيْدِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: م/التوبۃ ۴ (۲۷۵۰) (نحوہ في سیاق طویل وکذا)، ق/الزہد ۲۸ (۴۲۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۴۸)، وحم (۴/۳۴۶)، ویأتي برقم ۲۵۱۴) (حسن صحیح)
۲۴۵۲- حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگرتمہاری وہی کیفیت رہے، جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث حنظلہ اسیدی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اس سند کے علاوہ دیگر سندوں سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ نیک لوگوں کی مجلس میں رہنے سے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہوتاہے، آخرت یاد آتی ہے، اور دنیا کی چاہت کم ہوجاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مِنْهُ
۲۱-باب: زہد وورع سے متعلق ایک اور باب​


2453- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَلْمَانَ أَبُو عُمَرَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ لِكُلِّ شَيْئٍ شِرَّةً وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً، فَإِنْ كَانَ صَاحِبُهَا سَدَّدَ وَقَارَبَ فَارْجُوهُ وَإِنْ أُشِيرَ إِلَيْهِ بِالأَصَابِعِ فَلاَ تَعُدُّوهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يُشَارَ إِلَيْهِ بِالأَصَابِعِ فِي دِينٍ أَوْ دُنْيَا إِلاَّ مَنْ عَصَمَهُ اللَّهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۷۰) (حسن)
۲۴۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہرچیز کی ایک حرص ونشاط ہوتی ہے، اور ہر حرص ونشاط کی ایک کمزوری ہوتی ہے، تو اگر اس کا اپنانے والا معتدل مناسب رفتارچلا اور حق کے قریب ہوتا رہا تو اس کی بہتری کی امید رکھو، اور اگراس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیاجائے تو اسے کچھ شمار میں نہ لاؤ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آدمی کے بگاڑ کے لیے اتناہی کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے بارے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں، مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے''۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ہرکام میں شروع میں جوش وخروش ہوتاہے، اور عبادت و ریاضت کا بھی یہی حال ہے، لہذا عابد و زاہد اگر اپنے عمل میں معتدل رہا اور افراط و تفریط سے بچ کر حق سے قریب رہاتو اس کے لیے خیر کی امید ہے، اور اس کی عبادت کا چرچا ہوا تو شہرت کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہے، معلوم ہواکہ اعتدال کی راہ سلامتی کی راہ ہے اور شہرت کا انجام حسرت وندامت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22-باب
۲۲- باب​


2454- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ فِي وَسَطِ الْخَطِّ خَطًّا، وَخَطَّ خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ خَطًّا، وَحَوْلَ الَّذِي فِي الْوَسَطِ خُطُوطًا، فَقَالَ: "هَذَا ابْنُ آدَمَ، وَهَذَا أَجَلُهُ، مُحِيطٌ بِهِ، وَهَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ الإِنْسَانُ، وَهَذِهِ الْخُطُوطُ عُرُوضُهُ إِنْ نَجَا مِنْ هَذَا يَنْهَشُهُ هَذَا وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الأَمَلُ". هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴ (۶۴۱۷)، ق/الزہد ۲۷ (۴۲۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۰) (صحیح)
۲۴۵۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک مربع خط (یعنی چوکور)لکیر کھینچی اور ایک لکیردرمیان میں اس سے باہر نکلتاہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیرکے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیرین اور کھینچی، پھر فرمایا:'' یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیراس کی موت کی ہے جو ہرطرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اوریہ درمیان والی لکیر انسان ہے(یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آروزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتاہے، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتاہے، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔


2455- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۳۳۹ (صحیح)
۲۴۵۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اس کی دوخواہشیں جو ان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2456- حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ وَهُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَى جَنْبِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً، إِنْ أَخْطَأَتْهُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْهَرَمِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۵۰ (حسن)
۲۴۵۶- عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں، اگروہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہوجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-باب
۲۳-باب​


2457- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ، فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللهَ اذْكُرُوا اللهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ" قَالَ أُبَيٌّ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلاَةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلاَتِي؟ فَقَالَ: "مَا شِئْتَ"، قَالَ: قُلْتُ الرُّبُعَ، قَالَ: "مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ" قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: "مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: "مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلاَتِي كُلَّهَا، قَالَ: "إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰)، وانظر حم (۵/۱۳۵) (حسن)
۲۴۵۷- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب دوتہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ ﷺ اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو،کھڑ کھڑا نے والی آگئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آگئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آگئی ہے''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ( درود) پڑھاکرتاہوں سواپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کرلوں؟ آپ نے فرمایا:'' جتنا تم چاہو''، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا:'' جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے''، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا:'' جتنا تم چاہو اورا گر اس سے زیادہ کرلوتوتمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دوتہائی؟ آپ نے فرمایا:'' جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلوتو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھاکروں؟۔ آپ نے فرمایا:'' اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہوگا اوراس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-باب
۲۴- باب​


2458- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَائِ" قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا نَسْتَحْيِي، وَالْحَمْدُ لِلّهِ، قَالَ: "لَيْسَ ذَاكَ، وَلَكِنَّ الاسْتِحْيَائَ مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَيَائِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى وَالْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْتَذْكُرْ الْمَوْتَ وَالْبِلَى وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ اسْتَحْيَا مِنَ اللهِ حَقَّ الْحَيَائِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۳) (حسن)
(صحیح الترغیب ۳۳۳۷، ۱۶۳۸، ۱۷۲۵، ۱۷۲۴)
۲۴۵۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کرو جیساکہ اس سے شرم وحیا کرنے کا حق ہے '' ۱؎ ، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاکرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر اداکرتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' حیا کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیا کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ۲؎ ،اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ۳؎ ،اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑجانے کو یاد کیاکرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب وزینت کوترک کردے پس جس نے یہ سب پورا کیا توحقیقت میں ا سی نے اللہ تعالیٰ سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے۔ ۲- اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ سے پورا پورا ڈرو، جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اپنا سر غیر اللہ کے سامنے مت جھکانا ، نہ ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنا، اور نہ ہی اپنی زبان ، آنکھ اور کان کا غلط استعمال کرنا۔
وضاحت۳؎ : یعنی حرام کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو، اسی طرح شرمگاہ ، ہاتھ ، پاؤں اور دل کی اس طرح حفاظت کرو، کہ ان سے غلط کام نہ ہونے پائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-باب
۲۵-باب​


2459- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللهِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ: مَنْ دَانَ نَفْسَهُ يَقُولُ: حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا قَبْلَ أَنْ يُحَاسَبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيُرْوَى عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الأَكْبَرِ، وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا، وَيُرْوَى عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: لاَ يَكُونُ الْعَبْدُ تَقِيًّا حَتَّى يُحَاسِبَ نَفْسَهُ كَمَا يُحَاسِبُ شَرِيكَهُ مِنْ أَيْنَ مَطْعَمُهُ وَمَلْبَسُهُ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۱ (۴۲۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۲۰) (ضعیف)
(سندمیں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف راوی ہیں)
۲۴۵۹- شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کرلے اورموت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز وبے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگادے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اور ''من دان نفسه'' کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیاجائے، ۳- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیاجائے، اور عرض اکبر(آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو، اور جوشخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب وکتاب آسان ہوگا، ۴- میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ متقی و پرہیز گارنہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتاہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے ۔
 
Top