• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-باب
۲۶- باب​


2460- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مُصَلاَّهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ، قَالَ: "أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلاَّ تَكَلَّمَ فِيهِ، فَيَقُولُ: أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ، وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ، وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ، وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ، فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، قَالَ: فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ، قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: لاَ مَرْحَبًا وَلاَ أَهْلاً أَمَا إِنْ كُنْتَ لأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، قَالَ: فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلاَعُهُ" قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِأَصَابِعِهِ، فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ، قَالَ: "وَيُقَيِّضُ اللهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا، فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ" قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۱۳) (ضعیف جداً)
(سندمیں عبید اللہ وصافی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف راوی ہیں)
۲۴۶۰- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ اپنے مصلی پرتشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں ، آپ نے فرمایا:'' آگاہ رہو! اگرتم لوگ لذتوں کو ختم کردینے والی چیزکو یادرکھتے توتم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے ، سولذتوں کو ختم کردینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کاگھر ہوں، میں تنہائی کا گھرہوں، میں مٹی کا گھر ہوں ، اور میں کیڑے ، مکوڑوں کاگھرہوں، پھرجب مومن بندے کو دفن کیاجاتاہے تو قبر اسے مرحبا(خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بے شک تومیرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوگئی اور تو میری طرف آگیا تواب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبرکشادہ کردی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیاجائے گا، اورجب فاجر یا کافر دفن کیا جاتاہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے: بیشک تومیرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تومیری طرف آگیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھرو ہ اس کو دباتی ہے، اورہرطرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں،رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیااور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کرکے فرمایا:''اللہ اس پر ستر اژدہے مقرر کردے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک ماردے تو اس پر رہتی دنیاتک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژدہے اسے حساب وکتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے '' ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بے شک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27- باب
۲۷- باب​


2461- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ فَرَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
* تخريج: خ/المظالم ۲۵ (۲۴۶۸)، والنکاح ۸۳ (۵۱۹۱)، واللباس ۳۱ (۵۸۴۳)، م/الطلاق ۵ (۱۴۷۹)، ق/الزہد ۱۱ (۴۱۵۳) (کلہم في سیاق طویل في سیاق إیلاء النبی ﷺ نسائہ) (ویأتي برقم ۲۳۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۰۷)، وحم (۱/۳۰۱، ۳۹۱) (صحیح)
۲۴۶۱- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کانشان آپ کے پہلو پر اثر کرگیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔ (وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28- باب
۲۸- باب​


2462- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ وَيُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، وَسَمِعَتِ الأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَوَافَوْا صَلاَةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ انْصَرَفَ فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ حِينَ رَآهُمْ، ثُمَّ قَالَ: "أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْئٍ"، قَالُوا: أَجَلْ، يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجزیہ ۱ (۳۱۵۸)، والمغازي ۱۲ (۴۰۱۵)، والرقاق ۷ (۶۴۲۵)، م/الزہد ۱ (۲۹۶۱)، ق/الفتن ۱۸ (۳۹۹۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸۴) (صحیح)
۲۴۶۲- مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبرد ی ہے کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ ( یہ بنوعامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے ) نے مجھے خبردی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجرمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، ادھرجب رسول اللہ ﷺ صلاۃ فجرسے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ ﷺ نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا:'' شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں، لوگوں نے کہاجی ہاں، اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' تمہارے لیے خوش خبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم! میں تم پر فقرومحتاجی سے نہیں ڈرتاہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پرکشادہ کردی جائے، جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پرکشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص ورغبت کرنے لگو جیساکہ ان لوگوں نے حرص ورغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ وبرباد کردے جیساکہ اس نے ان کوتباہ وبرباد کیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مال واسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقرو تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچاکر رکھیں، لیکن افسوس صد افسوس مال واسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا ، حالاں کہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھرسکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29- باب
۲۹- باب​


2463- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ وَابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: "يَا حَكِيمُ! إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَيَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى" فَقَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ! لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَائِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ! أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْئِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ حَتَّى تُوُفِّيَ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۰ (۱۴۷۲)، والوصایا ۹ (۲۷۵۰)، وفرض الخمس ۱۹ (۳۱۴۳)، والرقاق ۱۱ (۶۴۴۱)، م/الزکاۃ ۳۲ (۱۰۳۵)، ن/الزکاۃ ۵۰ (۲۵۳۲)، و ۹۳ (۲۶۰۲-۲۶۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۲۶)، وحإ (۳/۴۰۲، ۴۳۴)، ودي/الزکاۃ ۲۲ (۱۶۶۰) (صحیح)
۲۴۶۳- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا توپھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا:''حکیم! بے شک یہ مال ہرابھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لیگا تو اسے اس میں برکت نصیب ہوگی، اورجو اسے حریص بن کرلے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہوگی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے، حکیم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے، ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت ! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتاہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتاہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حکیم رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کابھی انکار کردیا جو ان کا حق بنتا تھا، یہ دنیا سے بے رغبتی کی اعلی مثال ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایاتاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم رضی اللہ عنہ کے انکار کی حقیقت کو عمر رضی اللہ عنہ نہ جان سکے۔ (واللہ اعلم)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30-باب
۳۰-باب​


2464- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: ابْتُلِينَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ بِالضَّرَّائِ، فَصَبَرْنَا ثُمَّ ابْتُلِينَا بِالسَّرَّائِ بَعْدَهُ فَلَمْ نَصْبِرْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۹) (صحیح الإسناد)
۲۴۶۴- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تکلیف اورتنگی میں آزمائے گئے تو اس پرہم نے صبر کیا، پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کرسکے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کے زمانہ میں جب ہم بے انتہا مشقت و پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے تو اس وقت ہم نے صبر سے کام لیا، لیکن آپ کے بعد جب ہمارے لیے مال و اسباب کی کثرت ہوگئی تو ہم گھمنڈ و تکبر میں مبتلا ہوگئے اور اتراگئے۔


2465- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ وَهُوَ الرَّقَاشِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ كَانَتِ الآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ مَا قُدِّرَ لَهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۴) (صحیح)
۲۴۶۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء وبے نیازی پیداکردیتاہے، اوراسے دل جمعی عطا کرتا ہے ۱؎ ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتاہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کردیتاہے اوردنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس کی نیت طلب آخرت ہوگی اللہ رب العالمین اسے معمولی زندگی پر بھی صابر و قانع بنا دے گا تاکہ وہ دنیا کا حریص اوراس کا طالب بن کر نہ رہے، اس کے پراگندہ دنیا وی خیالات کو جمع کردے گا، اسے دل جمعی نصیب ہوگی، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آئے گی۔


2466- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ! تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلأْتُ يَدَيْكَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ هُرْمُزُ.
* تخريج: ق/الزہد ۲ (۴۱۰۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸۱) (صحیح)
۲۴۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ابن آدم! تومیری عبادت کے لیے یکسو ہوجا، میں تیرا سینہ استغناء وبے نیازی سے بھردوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تومیں تیرا دل مشغولیت سے بھردوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31-باب
۳۱- باب​


2467- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَعِنْدَنَا شَطْرٌ مِنْ شَعِيرٍ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ مَا شَائَ اللهُ، ثُمَّ قُلْتُ لِلْجَارِيَةِ كِيلِيهِ، فَكَالَتْهُ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ فَنِيَ، قَالَتْ: فَلَوْ كُنَّا تَرَكْنَاهُ لأَكَلْنَا مِنْهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهَا شَطْرٌ تَعْنِي شَيْئًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۲۷) (صحیح)
۲۴۶۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی ، اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جوتھی، پھرجتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا، پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا، تو اس نے تولا، پھربقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہوگی، لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہاں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول ''شطر'' کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار نے والوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اہل دنیا اور ان کو میسر آسائشوں کی طرف نہ دیکھیں، بلکہ رسول اور ازواج مطہرات کی زندگیوں کو سامنے رکھیں، اور فقر وفاقہ کی زندگی کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھیں، یہ بھی معلوم ہواکہ کھانے پینے کی چیزوں کو بلاتولے ناپے استعمال کیاجائے تو اس میں برکت ہوتی ہے، اور جس حدیث میں ''طعام'' کے تولنے کے بارے میں ہے کہ '' تولنے سے برکت ہوتی ہے '' وہ طعام بیچنے کے موقع سے ہے، کیوں کہ اس وقت دو آدمیوں کے اپنے اپنے حقوق کی جانکاری کی بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32-باب
۳۲-باب​


2468- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ حُمَيْدِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ لَنَا قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ عَلَى بَابِي، فَرَآهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: "انْزَعِيهِ فَإِنَّهُ يُذَكِّرُنِي الدُّنْيَا" قَالَتْ: وَكَانَ لَنَا سَمَلُ قَطِيفَةٍ تَقُولُ عَلَمُهَا مِنْ حَرِيرٍ كُنَّا نَلْبَسُهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: م/اللباس ۲۶ (۲۱۰۷/۸۸)، ن/الزینۃ ۱۱۱ (۵۳۵۵)، انظر أیضا: خ/المظالم ۳۲ (۲۴۷۹)، واللباس ۹۱ (۵۹۵۴)، والأدب ۷۵ (۶۱۰۹)، ون/القبلۃ ۱۲ (۷۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۱)، وحم (۶/۴۹، ۲۴۱) (صحیح)
۲۴۶۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں،پردہ میرے دروازے پرلٹک رہاتھا، جب اسے رسول اللہ ﷺ نے دیکھاتو فرمایا:'' اس کو یہاں سے دور کردو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتاہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔


2469- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَتْ وِسَادَةُ رَسُولِ اللهِ ﷺ الَّتِي يَضْطَجِعُ عَلَيْهَا مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/اللباس ۶ (۲۰۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶۴) (صحیح)
۲۴۶۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کے پاس چمڑے کاایک تکیہ (بستر) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس ذات گرامی کی سادہ زندگی کا حال تھا جو سید المرسلین تھے، آج کی پرتکلف زندگی آپ ﷺ کی اس سادہ زندگی سے کس قدر مختلف ہے، کاش ہم مسلمان آپ کی اس سادگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں، اور اسے اختیار کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
33-باب
۳۳-باب​


2470- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا بَقِيَ مِنْهَا" قَالَتْ: مَابَقِيَ مِنْهَا إِلاَّ كَتِفُهَا، قَالَ: "بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ هُوَ الْهَمْدَانِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۱۹) (صحیح)
۲۴۷۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی ، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا اس میں سے کچھ باقی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے، آپ نے فرمایا:'' دستی کے سواسب کچھ باقی ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ذبح کی گئی بکری کا جتنا حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ یہی صدقہ کیاہوا مال در حقیقت باقی ہے، رہا وہ حصہ جو تمہارے پاس ہے وہ باقی نہیں ہے ، اس سے آپ ﷺ کا اشارہ رب العالمین کے اس فرمان کی طرف ہے، ''ماعندكم ينفد وما عند الله باق'' جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے وا لا ہے، اور رب العالمین کے پاس جو کچھ ہے و ہ باقی رہنے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
34-باب
۳۴- باب​


2471- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنْ كُنَّا يَئُولُ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ الْمَائُ وَالتَّمْرُ. قَالَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۷۲)، ق/الزہد ۱۰ (۴۱۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶۵)، وراجع أیضا خ/الھبۃ ۱ (۲۵۶۷)، والرقاق ۱۷ (۶۴۵۸، ۶۵۴۵۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶۵)، وحم (۶/۵۰، ۷۱، ۸۶) (صحیح)
۲۴۷۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم آل محمد (ﷺ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہانہیں جلاتے تھے، ہمارا گذر بسر صرف کھجور اور پانی پرہوتاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


2472- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلاَثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، وَمَا لِي وَلِبِلاَلٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلاَّ شَيْئٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلاَلٍ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ هَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَهُ بِلاَلٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلاَلٍ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُهُ تَحْتَ إِبْطِهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۱) (صحیح)
۲۴۷۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے اللہ کی راہ میں ایساڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایاگیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن ورات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والاکھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپالیتے تھے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ـ اس حدیث میں وہ دن مراد ہیں کہ جب آپ ﷺ اہل مکہ سے بیزار ہوکر مکہ سے نکل گئے تھے اور ساتھ میں بلال تھے، ان کے پاس کچھ کھانا تھا جسے وہ بغل میں دبائے ہوئے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے دین کے اظہار کے لیے آپ نے کس قدر جسمانی تکالیف برداشت کی ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلسل کئی کئی دن گذرجاتے اور آپ بھوکے رہتے، ظاہرہے بلال نے اپنی بغل میں جوکچھ چھپا رکھا تھا وہ کب تک ساتھ دیتا، اس حدیث میں داعیان حق کے لیے عبرت ونصیحت ہے۔


2473- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا، فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ، وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ، وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللهِ ﷺ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ، فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ! هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، قُلْتُ: نَعَمْ، فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ، فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً، حَتَّى إِذَا امْتَلأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، وَقُلْتُ: حَسْبِي فَأَكَلْتُهَا، ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَائِ، فَشَرِبْتُ، ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۸) (ضعیف)
(محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں)
۲۴۷۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ ﷺ کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی ، اگر رسول اللہ ﷺ کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھالیتا، چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہاتھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیابات ہے؟ کیاتو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندرآجاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہوگیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا ، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تووہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہاکہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دوتین گھونٹ پانی پیا ، پھر میں مسجد میں آیااور وہیں رسول اللہ ﷺ کو موجود پایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقرو تنگ دستی سے دوچارتھی، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کی بھی یہی حالت تھی، اس فقر وفاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپنا تے تھے، اور جوکچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔


2474- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ أَصَابَهُمْ جُوعٌ، فَأَعْطَاهُمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ تَمْرَةً تَمْرَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۲ (۴۱۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۷) (شاذ)
(مؤلف اور ابن ماجہ کے یہاں جو متن ہے وہ صحیح بخاری میں اسی سند سے مروی متن سے مختلف ہے، صحیح بخاری میں فی نفر سات سات کھجوریں ملنے کا تذکرہ ہے، دیکھیے: خ/الأطعمۃ ۲۳ (۵۴۱۱)، و۳۹ (۵۴۴۰)
۲۴۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2475- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ ثَلاَثُ مِائَةٍ، نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِاللهِ! وَأَيْنَ كَانَتْ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
* تخريج: خ/الشرکۃ ۱ (۲۴۸۳)، والجھاد ۱۲۴ (۲۹۸۳)، والمغازي ۶۵ (۴۳۶۰-۴۳۶۲)، والأطعمۃ ۱۲ (۵۴۹۴)، م/الصید ۴ (۱۹۳۵)، ن/الصید ۳۵ (۴۳۵۶، ۴۳۵۹)، ق/الزھد ۱۲ (۴۱۵۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۲۵)، ط/صفۃ النبی ۱۰ (۲۴)، ودي/الصید ۶ (۲۰۵۵) (صحیح)
۲۴۷۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تین سوکی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زادسفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زادسفرختم ہوگیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہاگیا: ابوعبداللہ ! ایک کھجور سے آدمی کاکیاہوتاہوگا؟ جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی ، انہوں نے فرمایا:''ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندرنے باہرپھینک دیاتھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہوکر کھاتے رہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سند وں سے بھی مروی ہے، ۳- اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے، فقر وتنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی،اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا، کیوں کہ وہ صبر وضبط سے کام لیتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
35-باب
۳۵-باب​


2476- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلاَّ بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ، وَالَّذِي هُوَ الْيَوْمَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ؟" قَالُوا: يَارَسُولَ اللهِ! نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ، نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ، وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لأَنْتُمْ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ مَيْسَرَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ وَقَدْرَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ الَّذِي رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، رَوَى عَنْهُ وَكِيعٌ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ كُوفِيٌّ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الأَئِمَّةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف ۰التحفۃ: ۱۰۳۳۹) (ضعیف)
(محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں)
۲۴۷۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ ﷺنے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز ونعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیاحال ہوگا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تودوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھاجائے گا تو دوسرا اٹھایاجائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیساکہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتاہے ؟۲ ؎ ''، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیاہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت ومشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یزید بن زیادسے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور(تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جلیل القدرصحابہ میں سے ہیں، یہ اپنا سارا مال ومتاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے، عقبہ ثانیہ کے بعد آپ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا ، مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے، زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز ونعمت کی زندگی گزار نے والے تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بے رغبتی ہوگئی۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہوجائے گی کہ صبح وشام کپڑے بدلے جائیں گے، قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے، لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے، گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے،جیساکہ آج کل ہے۔
وضاحت ۳؎ : امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کررہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں: (۱) یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں (۲) یزید بن زیاد مشقی ہیں ، (۳) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔
 
Top