• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
36-باب
۳۶- باب​


2477- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الإِسْلاَمِ لاَ يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلاَ مَالٍ، وَاللهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنْ كُنْتُ لأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنْ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمْ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ، فَمَرَّ بِي أَبُوبَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلاَّ لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلاَّ لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، وَقَالَ: "أَبَا هُرَيْرَةَ!" قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "الْحَقْ"، وَمَضَى، فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، فَاسْتَأْذَنْتُ، فَأَذِنَ لِي، فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، فَقَالَ: "مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ؟" قِيلَ: أَهْدَاهُ لَنَا فُلاَنٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَبَا هُرَيْرَةَ!" قُلْتُ: لَبَّيْكَ، فَقَالَ: "الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ، فَادْعُهُمْ "، وَهُمْ أَضْيَافُ الإِسْلاَمِ، لاَ يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلاَمَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَائَنِي ذَلِكَ، وَقُلْتُ: مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَارَسُولُهُ إِلَيْهِمْ، فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ، فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ، وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي، وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ، فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ، فَقَالَ: "أَبَا هُرَيْرَةَ! خُذْ الْقَدَحَ، وَأَعْطِهِمْ" فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ، فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّهُ فَأُنَاوِلُهُ الآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَقَدْ رَوَى الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْقَدَحَ، فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَتَبَسَّمَ، فَقَالَ: "أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ" فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ: "اشْرَبْ" فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ، وَيَقُولُ: "اشْرَبْ" حَتَّى قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، فَأَخَذَ الْقَدَحَ، فَحَمِدَ اللهَ وَسَمَّى ثُمَّ شَرِبَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۴ (۶۲۴۶) (مختصرا) والرقاق ۱۷ (۶۴۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۴۴) (صحیح)
۲۴۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل وعیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھرباندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزر گاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر گزرے تومیں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔
پھر ابوالقاسم ﷺ کا گزر ہوا توآپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا:'' ابوہریرہ !'' میں نے کہا : حاضر ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' ساتھ چلو اورآپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہولیا،آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی ، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا:'' یہ دودھ کہاں سے ملا؟ عرض کیاگیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجاہے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' ابوہریرہ!'' میں نے کہا: حاضر ہوں ، آپ نے فرمایا:'' جاؤ اہل صفہ کو بلالاؤ ''، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھر بار تھا نہ کوئی مال ، آپ ﷺ کے پاس جب کوئی صدقہ آتاتھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلابھیجتے ، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے ، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے ددوھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گذرا اور میں نے (دل میں) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ ﷺ مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جوکچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالاں کہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کا فی ہوجائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان سب کو بلالایا ، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اوراپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا:'' ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دیدو'' ، چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کودینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہوجاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گیا ، ساری قوم سیر ہوچکی تھی (یاسب لوگ سیرہوچکے تھے) پھر آپ ﷺ نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکراکرفرمایا:'' ابوہریرہ! یہ دودھ پیو'' ، چنانچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا:'' اسے پیو'' میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجاہے اب میں پینے کی گنجا ئش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دددھ پیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جو لوگ اہل وعیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھاجائے، اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے، آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے، دودھ کی کثرت یہ آپ کے معجزہ کی دلیل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیے، اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہوکر کھانا پینابھی جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
37-باب
۳۷-باب​


2478- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِاللهِ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْبَكَّائُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: "كُفَّ عَنَّا جُشَائَكَ، فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ.
* تخريج: ق/الأطعمۃ ۵۰ (۳۳۵۰، ۳۳۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۸۵۶۳) (حسن)
۲۴۷۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا:'' تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ڈکار عموماً زیادہ کھانے سے آتی ہے، اس لیے آپ نے اس آدمی سے یہ فرمایا، اور اگر ڈکار گیس کی بیماری کی وجہ سے آئے تو اس ڈکار پر یہ حدیث صادق نہیں آئے گی، کیوں کہ یہ تو مجبوری کی حالت میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
38-باب
۳۸-باب​


2479- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: يَا بُنَيَّ! لَوْ رَأَيْتَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَأَصَابَتْنَا السَّمَائُ لَحَسِبْتَ أَنَّ رِيحَنَا رِيحُ الضَّأْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ ثِيَابَهُمْ الصُّوفُ فَإِذَا أَصَابَهُمْ الْمَطَرُ يَجِيئُ مِنْ ثِيَابِهِمْ رِيحُ الضَّأْنِ.
* تخريج: د/اللباس ۶ (۴۰۳۳)، ق/اللباس ۴ (۳۵۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۱۲۶) (صحیح)
۲۴۷۹- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اگرتم ہمیں اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمیں بارش نصیب ہوتی تھی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بوبھیڑ کی بوجیسی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے کپڑے اون کے ہوتے تھے، جب اس پر بارش کاپانی پڑتا تو اس سے بھیڑ کی جیسی بو آنے لگتی تھی ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس وقت اون کا کپڑا موٹا جھوٹا ہوتاتھا، جیسا گڈریوں کا ہوتاہے، آج کل کا قیمتی اونی کپڑا مراد نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
39-باب
۳۹- باب​


2480- حَدَّثَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، قَالَ: الْبِنَائُ كُلُّهُ وَبَالٌ، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ مَا لاَ بُدَّ مِنْهُ، قَالَ: لاَ أَجْرَ وَلاَ وِزْرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۱۴) (ضعیف الإسناد)
۲۴۸۰- ابوحمزہ سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں:گھرمکان سب کا سب ہر عمارت باعث وبال ہے، میں نے کہا: اس مکان کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے ، جسے بنائے بغیرچارہ نہیں انہوں نے کہا: نہ اس میں کوئی اجر ہے اور نہ کوئی گناہ ۔


2481- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلّهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ دَعَاهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُئُوسِ الْخَلاَئِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الإِيمَانِ شَائَ يَلْبَسُهَا".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ حُلَلِ الإِيمَانِ، يَعْنِي مَا يُعْطَى أَهْلُ الإِيمَانِ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۰۲) (حسن)
۲۴۸۱- معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضامندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑدے باوجودیکہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے،اورپہنے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ''حلل الإيمان'' سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
40-باب
۴۰-باب​


2482- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بَشِيرٍ هَكَذَا، قَالَ شَبِيبُ بْنُ بَشِيرٍ: وَإِنَّمَا هُوَ شَبِيبُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "النَّفَقَةُ كُلُّهَا فِي سَبِيلِ اللهِ إِلاَّ الْبِنَائَ فَلاَ خَيْرَ فِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۰۱) (ضعیف)
(سندمیں زافر سخت وہم کے شکار ہوجاتے تھے، اور شبیب روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے)
۲۴۸۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' نفقہ سب کاسب اللہ کی راہ میں ہے سوائے اس نفقہ کے جو گھربنانے میں صرف ہوتاہے کیوں کہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


2483- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ، وَقَدْ اكْتَوَى سَبْعَ كَيَّاتٍ، فَقَالَ: لَقَدْ تَطَاوَلَ مَرَضِي، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ تَمَنَّوْا الْمَوْتَ" لَتَمَنَّيْتُ، وَقَالَ: يُؤْجَرُ الرَّجُلُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلاَّ التُّرَابَ -أَوْ قَالَ فِي الْبِنَائِ-. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۹۷۰ (صحیح)
۲۴۸۳- حارثہ بن مضرب کہتے ہیں: ہم خباب رضی اللہ عنہ کے پاس عیادت کرنے کے لیے آئے ، انہوں نے اپنے بدن میں سات داغ لگوارکھے تھے، انہوں نے کہا: یقینا میرا مرض بہت لمبا ہوگیا ہے، اگر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ'' موت کی تمنا نہ کرو'' تو میں ضرور ا س کی تمنا کرتا، اور آپ نے کہا: آدمی کو ہر خرچ میں ثواب ملتاہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے، یا فرمایا:گھر بنانے میں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو اپنی ضرورت سے زائد عمارت پر خرچ ہوتاہے اس پر کچھ بھی ثواب نہیں ملتا، ویسے انسان کو سرچھپا نے ، گرمی، سردی کی شدت اور بارش وغیرہ سے بچاؤ کے لیے ایک مکان کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ یہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، حدیث میں مذکورہ وعید ایسی تعمیرات سے متعلق ہے جو ضرورت سے زئد ہوں یا جن پر اسراف سے خرچ کیاجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
41-باب
۴۱-باب​


2484- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُوالْعَلاَئِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: جَاءَ سَائِلٌ، فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِلسَّائِلِ: أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَصُومُ رَمَضَانَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: سَأَلْتَ وَلِلسَّائِلِ حَقٌّ، إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نَصِلَكَ، فَأَعْطَاهُ ثَوْبًا، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلاَّ كَانَ فِي حِفْظٍ مِنَ اللهِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۹) (ضعیف)
(سندمیں خالد بن طہمان مختلط ہوگئے تھے)
۲۴۸۴- حصین کہتے ہیں کہ ایک سائل نے آکر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ مانگا تو ابن عباس نے سائل سے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہوکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیاتم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں ، آپ نے کہا : کیاتم رمضان کے صیام رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں ، آپ نے کہا: تم نے سوال کیا اور سائل کاحق ہوتاہے ، بے شک ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں، چنانچہ انہوں نے اسے ایک کپڑا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :'' جوکوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کو کوئی کپڑا پہناتا ہے تو وہ اللہ کی امان میں اس وقت تک رہتاہے جب تک اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی اس پر باقی رہتاہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
42-باب
۴۲-باب​


2485- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الأَعْرَابِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ سَلاَمٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْمَدِينَةَ، انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لأَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ ﷺ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ أَوَّلُ شَيْئٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: "أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلاَمَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۷۴ (۱۳۳۴)، والأطعمۃ ۱ (۳۲۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۱)، وحم (۵/۴۵۱) (صحیح)
۲۴۸۵- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے ، اور کہنے لگے : اللہ کے رسول آگئے، اللہ کے رسول آگئے ، اللہ کے رسول آگئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں ، پھر جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کاچہرہ نہیں ہوسکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی '' لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں توصلاۃ پڑھو ،تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ وہ مومنانہ خصائل و عادات ہیں کہ ان میں سے ہر خصلت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
43-باب
۴۳-باب​


2486- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْمَدَنِيُّ الْغِفَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الصوم ۵۵ (۱۷۶۴، ۱۷۶۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۲)، وحم (۲/۲۸۳) (صحیح)
۲۴۸۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کھانا کھاکر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجروثواب میں) صبر کرنے والے صائم کے برابر ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
44-باب
۴۴-باب​


2487- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلاَ أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ، وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالأَجْرِ كُلِّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لاَ مَا دَعَوْتُمْ اللهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۵۵) (صحیح)
۲۴۸۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غمخواری کرنے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم کو محنت ومشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیرکرتے رہوگے اورا ن کا شکریہ اداکرتے رہوگے '' ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب تک تم ان کے حق میں خیر کی دعا کرتے رہو گے تو تمہاری یہ دعائیں ان کی نیکیوں کے بالمقابل ہوں گی، اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا، اور تمہاری یہی دعائیں ان کی اس محنت ومشقت کا بدل ہوں گی جو انہوں نے تمہاری خاطر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
45-باب
۴۵-باب​


2488- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو الأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَلاَأُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ، عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴۷) (صحیح)
۲۴۸۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیامیں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پریا جہنم کی آگ ان پرحرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو اپنے حسن اخلا ق اور حسن معاملہ سے لوگوں کے دلوں میں اور دنیاوی معاملات میں دوسروں کے ساتھ آسانی، نرمی، تواضع اور مشفقانہ طرز اپنانے والا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ حرام ہے۔


2489- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ ابْنِ يَزِيدَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَيُّ شَيْئٍ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَصْنَعُ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ، قَالَتْ: كَانَ يَكُونَ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ قَامَ فَصَلَّى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأذان ۴۴ (۶۷۶)، النفقات ۸ (۵۳۶۳)، والأدب ۴۰ (۶۰۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۲۹) (صحیح)
۲۴۸۹- اسود بن یزیدکہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا: رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے توکیاکرتے تھے؟ کہا : آپ ﷺ اپنے گھروالوں کے کام کاج میں مشغول ہوجاتے تھے ، پھر جب صلاۃ کا وقت ہوجاتا توکھڑے ہوتے اور صلاۃ پڑھنے لگتے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے، غرور و تکبر چھوڑنے اور اپنے اہل وعیال کی خدمت کرنے کی ترغیب ہے۔
 
Top