• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ لِلنَّارِ نَفَسَيْنِ وَمَا ذُكِرَ مَنْ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ مِنَ أَهْلِ التَّوْحِيدِ
۹-باب: جہنم کے لیے دوسانس ہیں اور جہنم سے موحدین باہرنکالے جائیں گے​


2592- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اشْتَكَتْ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، وَقَالَتْ: أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَجَعَلَ لَهَا نَفَسَيْنِ: نَفَسًا فِي الشِّتَائِ، وَنَفَسًا فِي الصَّيْفِ، فَأَمَّا نَفَسُهَا فِي الشِّتَائِ فَزَمْهَرِيرٌ، وَأَمَّا نَفَسُهَا فِي الصَّيْفِ فَسَمُومٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْمُفَضَّلُ بْنُ صَالِحٍ لَيْسَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِذَلِكَ الْحَافِظِ.
* تخريج: خ/المواقیت ۹ (۵۳۷)، وبدء الخلق ۱۰ (۳۲۶۰)، م/المساجد ۳۲ (۶۱۷)، ق/الزہد ۳۸ (۴۲۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶۳)، وط/وقوت ۸ (۲۸)، وحم (۲/۲۳۸، ۲۷۷، ۴۶۲، ۵۰۳)، ودي/الرقاق ۱۱۹ (۲۸۸۷) (صحیح)
۲۵۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی کہمیرا بعض حصہ بعض حصے کو کھائے جارہاہے لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دوسانسیں مقرر کردیں: ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس جاڑے میں، جہنم کے جاڑے کی سانس سے سخت سردی پڑتی ہے۔ اور اس کی گرمی کی سانس سے لوچلتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- ابوہریرہ کے واسطہ سے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے دوسری سندسے بھی مروی ہے، ۳- مفضل بن صالح محدثین کے نزدیک کوئی قوی حافظے والے نہیں ہیں۔


2593- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَهِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ - وَقَالَ شُعْبَةُ: أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ - مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً، أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً" و قَالَ شُعْبَةُ: مَا يَزِنُ ذُرَةً مُخَفَّفَةً. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۳ (۴۴)، والتوحید ۱۹ (۷۴۱۰) (في سیاق حدیث الشفاعۃ الکبری) و ۳۶ (۷۵۰۹)، م/الإیمان ۸۳ (۱۹۳/۳۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۲، و۱۳۵۶)، وحم (۳/۱۱۶، ۱۷۳، ۲۴۸، ۲۷۶) (صحیح)
۲۵۹۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جہنم سے نکلے گا ( شعبہ نے اپنی روایت میں کہا ہے: (اللہ تعالیٰ کہے گا) اسے جہنم سے نکال لو) جس نے لا إلٰہ إلا اللہ کہا اور اس کے دل میں ایک جو کے دانہ کے برابر بھلائی تھی، اسے جہنم سے نکالو جس نے ''لا إلٰہ إلا اللہ'' کہا، اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ کے برابر بھلائی تھی، اسے جہنم سے نکالو جس نے'' لا إلٰہ إلا اللہ'' کہا اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھلائی تھی ۔( شعبہ نے کہا ہے: جوار کے برابر بھلائی تھی)''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، ابوسعیدخدری اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2594- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ مُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ ابْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يَقُولُ اللهُ: أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَكَرَنِي يَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۶) (ضعیف)
(سندمیں مبارک بن فضالہ تدلیس تسویہ کیا کرتے ہیں اور یہاں روایت عنعنہ سے ہے)
۲۵۹۴- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کہے گا: اسے جہنم سے نکال لو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا ایک مقام پر بھی مجھ سے ڈرا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مِنْهُ
۱۰-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


2595- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنِّي لأَعْرِفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْهَا زَحْفًا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ! قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: انْطَلِقْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيَذْهَبُ لِيَدْخُلَ فَيَجِدُ النَّاسَ قَدْ أَخَذُوا الْمَنَازِلَ، فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ! قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: أَتَذْكُرُ الزَّمَانَ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَالُ لَهُ: تَمَنَّ، قَالَ: فَيَتَمَنَّى، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَا تَمَنَّيْتَ وَعَشْرَةَ أَضْعَافِ الدُّنْيَا، قَالَ: فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي؟ وَأَنْتَ الْمَلِكُ"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۵۱ (۶۵۷۱)، والتوحید ۳۶ (۷۵۱۱)، م/الإیمان ۸۳ (۱۸۶)، ق/الزہد ۳۹ (۴۳۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۰۵)، وحم (۱/۴۶۰) (صحیح)
۲۵۹۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جہنم سے سب سے آخر میں نکلنے والے آدمی کو میں جانتاہوں ،وہ ایسا آدمی ہوگا جو سرین کے بل چلتے ہوئے نکلے گا اور عرض کرے گا: اے میرے رب! لوگ جنت کی تمام جگہ لے چکے ہوں گے''، آپ نے فرمایا:'' اس سے کہاجائے گا : چلو جنت میں داخل ہوجاؤ'' ، آپ نے فرمایا:'' وہ داخل ہونے کے لیے جائے گا (جنت کو اس حال میں ) پائے گا کہ لوگ تمام جگہ لے چکے ہیں، وہ واپس آکر عرض کرے گا: اے میرے رب! لوگ تمام جگہ لے چکے ہیں؟!''، آپ نے فرمایا:'' اس سے کہاجائے گا : کیا وہ دن یاد ہیں جن میں (دنیا کے اندر) تھے؟'' وہ کہے گا: ہاں، اس سے کہاجائے گا:آرزو کرو، آپ نے فرمایا: وہ آرزو کرے گا، اس سے کہاجائے گا: تمہارے لیے وہ تمام چیزیں جس کی تم نے آرزو کی ہے اور دنیا کے دس گنا ہے''۔ آپ نے فرمایا:'' وہ کہے گا: (اے باری تعالیٰ!)آپ مذاق کررہے ہیں حالاں کہ آپ مالک ہیں، ابن مسعود کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے دیکھا حتی کہ آپ کے اندورنی کے دانت نظر آنے لگے'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ادنیٰ ترین جنتی کا حال ہے کہ اسے جنت کی نعمتیں اور دیگر چیزیں اتنی تعداد میں ملیں گی کہ وہ دنیا کی دس گناہوں گی، اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اعلیٰ مقام و مراتب پر فائز ہونے والے جنتیوں پر رب العالمین کا کس قدر انعام و اکرام ہوگا۔


2596- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنِّي لأَعْرِفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنَ النَّارِ، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولاً الْجَنَّةَ، يُؤْتَى بِرَجُلٍ فَيَقُولُ: سَلُوا عَنْ صِغَارِ ذُنُوبِهِ وَاخْبَئُوا كِبَارَهَا، فَيُقَالُ لَهُ: عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً، قَالَ: فَيَقُولُ: يَارَبِّ! لَقَدْ عَمِلْتُ أَشْيَائَ مَا أَرَاهَا هَاهُنَا" قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۸۴ (۱۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۳) (صحیح)
۲۵۹۶- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جہنم سے سب سے آخر میں نکلنے اورجنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والے آدمی کو میں جانتاہوں ۔ ایک آدمی کولایاجائے گا اور اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) کہے گا: اس سے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کے بارے میں پوچھو اور اس کے بڑے گناہوں کو چھپادو ، اس سے کہاجائے گا: تم نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے گناہ کئے تھے، تم نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے گناہ کیے تھے؟۔ آپ نے فرمایا:'' اس سے کہاجائے گا: تمہارے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی ہے''۔ آپ نے فرمایا:'' وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں نے کچھ ایسے بھی گناہ کیے تھے جسے یہاں نہیں دیکھ رہاہوں''۔ ابوذر کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے ہوئے دیکھا حتی کہ آپ کے اندورنیکے دانت نظر آنے لگے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2597- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يُعَذَّبُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ فِي النَّارِ حَتَّى يَكُونُوا فِيهَا حُمَمًا، ثُمَّ تُدْرِكُهُمْ الرَّحْمَةُ، فَيُخْرَجُونَ وَيُطْرَحُونَ عَلَى أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَرُشُّ عَلَيْهِمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْمَائَ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْغُثَائُ فِي حِمَالَةِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۳۲)، وانظر حم (۳/۳۹۱) (صحیح)
۲۵۹۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''موحدین میں سے کچھ لوگ جہنم میں عذاب دئیے جائیں گے،یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے، پھر ان پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی تو وہ نکالے جائیں گے اور جنت کے دروازے پر ڈال دئے جائیں گے''۔آپ نے فرمایا:'' جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ ویسے ہی اگیں گے جیسے سیلاب کی مٹیوں میں دانہ اگتاہے، پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ دوسری سند سے بھی جابر سے مروی ہے۔


2598- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "يُخْرَجُ مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنَ الإِيمَانِ" قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ شَكَّ فَلْيَقْرَأْ {إِنَّ اللهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ }. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف و راجع: خ/التوحید ۲۴ (۷۴۳۹)، و م/الإیمان ۸۱ (۱۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۱۸۱)، وانظر حم (۳/۹۴) (صحیح)
۲۵۹۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جہنم سے وہ آدمی نکلے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا، ابوسعیدخدری نے کہا: جس کو شک ہو وہ یہ آیت پڑھے{إنَّ اللهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ} (النساء: ۴۰) ( اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتاہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2599- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ، أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَنْعُمَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ رَجُلَيْنِ مِمَّنْ دَخَلَ النَّارَ اشْتَدَّ صِيَاحُهُمَا، فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: أَخْرِجُوهُمَا، فَلَمَّا أُخْرِجَا قَالَ لَهُمَا: لأَيِّ شَيْئٍ اشْتَدَّ صِيَاحُكُمَا؟ قَالاَ: فَعَلْنَا ذَلِكَ لِتَرْحَمَنَا، قَالَ: إِنَّ رَحْمَتِي لَكُمَا أَنْ تَنْطَلِقَا فَتُلْقِيَا أَنْفُسَكُمَا حَيْثُ كُنْتُمَا مِنَ النَّارِ، فَيَنْطَلِقَانِ فَيُلْقِي أَحَدُهُمَا نَفْسَهُ، فَيَجْعَلُهَا عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلاَمًا، وَيَقُومُ الآخَرُ، فَلاَ يُلْقِي نَفْسَهُ، فَيَقُولُ لَهُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُلْقِيَ نَفْسَكَ كَمَا أَلْقَى صَاحِبُكَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ! إِنِّي لأَرْجُو أَنْ لاَتُعِيدَنِي فِيهَا بَعْدَ مَا أَخْرَجْتَنِي، فَيَقُولُ لَهُ الرَّبُّ: لَكَ رَجَاؤُكَ، فَيَدْخُلاَنِ جَمِيعًا الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اللهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: إِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ ضَعِيفٌ، لأَنَّهُ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ هُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ عَنْ ابْنِ أَنْعُمَ وَهُوَ الأَفْرِيقِيُّ، وَالأَفْرِيقِيُّ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۴۸) (ضعیف)
( سندمیں ابوعثمان لین الحدیث ، مجہول ہیں اور رشد ین بن سعد اور افریقی ضعیف ہیں )
۲۵۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جہنم میں داخل ہونے والوں میں سے دو آدمیوں کی چیخ بلند ہوگی''۔ رب عزوجل کہے گا: ان دونوں کو نکالو ، جب انہیں نکالا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا : تمہاری چیخ کیوں بلند ہورہی ہے؟ وہ دونوں عرض کریں گے: ہم نے ایسا اس وجہ سے کیا تاکہ تو ہم پر رحم کر۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم دونوں کے لیے ہماری رحمت یہی ہے کہ تم جاؤ اور اپنے آپ کو اسی جگہ جہنم میں ڈال دو جہاں پہلے تھے۔ وہ دونوں چلیں گے ان میں سے ایک اپنے آپ کو جہنم میں ڈال دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم کو ٹھنڈا اور سلامتی والی بنادے گااوردوسرا کھڑا رہے گااور اپنے آپ کو نہیں ڈالے گا۔ اس سے رب عزوجل پوچھے گا:تمہیں جہنم میں اپنے آپ کو ڈالنے سے کس چیز نے روکا؟ جیسے تمہارے ساتھی نے اپنے آپ کو ڈالا؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے امید ہے کہ تو جہنم سے نکالنے کے بعد اس میں دوبارہ نہیں داخل کرے گا، اس سے رب تعالیٰ کہے گا: تمہارے لیے تیری تمنا پوری کی جارہی ہے،پھر وہ دونوں اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند ضعیف ہے، اس لیے کہ یہ رشدین بن سعد کے واسطہ سے مروی ہے، اور رشدین بن سعد محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، اور رشد ین عبدالرحمن بن انعم سے روایت کرتے ہیں، یہ ابن انعم افریقی ہیں اور افریقی بھی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔


2600- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ الْعُطَارِدِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيَخْرُجَنَّ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَتِي يُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيُّونَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو رَجَائٍ الْعُطَارِدِيُّ اسْمُهُ عِمْرَانُ بْنُ تَيْمٍ وَيُقَالُ: ابْنُ مِلْحَانَ.
* تخريج: خ/الرقاق ۵۰ (۶۵۵۹)، د/السنۃ ۲۳ (۴۷۴۰)، ق/الزہد ۳۷ (۴۳۱۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷۱)، وحم (۴/۴۳۴) (صحیح)
۲۶۰۰- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کی ایک جماعت میری شفاعت کے سبب جہنم سے نکلے گی ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2601- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا رَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا وَلاَ مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِاللهِ، وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِاللهِ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، تَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ، وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِاللهِ هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ وَهُوَ مَدَنِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۲۴) (حسن)
( سندمیں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحۃ : ۹۵۳)
۲۶۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے جہنم جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والے سورہے ہیں اور جنت جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس کے طلب کرنے والے سورہے ہیں ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس کو ہم صرف یحییٰ بن عبید اللہ کی سند سے جانتے ہیں اور یحییٰ بن عبید اللہ اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ان کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے۔ یحییٰ بن عبید اللہ کے دادا کانام موہب ہے اور وہ مدنی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ النِّسَائُ
۱۱-باب: جہنم میں اکثریت عورتوں کی ہو گی​


2602- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ الْعُطَارِدِيِّ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَائَ وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَائَ".
* تخريج: خ/الرقاق ۱۶ (تعلیقا عقب حدیث ۶۴۴۹)، م/الذکر والدعاء ۲۶ (۲۷۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۳۱۷)، وحم (۱/۲۹۴، ۳۵۹) (صحیح)
۲۶۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے جنت میں جھانکا تو دیکھاکہ اکثر جنتی فقیر ہیں اور جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں''۔


2603- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ هُوَ ابْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ الْعُطَارِدِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَائَ وَاطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَائَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا يَقُولُ عَوْفٌ عَنْ أَبِي رَجَائٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَيَقُولُ أَيُّوبُ عَنْ أَبِي رَجَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكِلاَ الإِسْنَادَيْنِ لَيْسَ فِيهِمَا مَقَالٌ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَبُورَجَائٍ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيعًا، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ عَوْفٍ أَيْضًا هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي رَجَائٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۸ (۳۲۴۱)، والنکاح ۸۸ (۵۱۹۸)، والرقاق ۱۶ (۶۴۴۹)، و ۵۱ (۶۵۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۷۳)، وحم (۴/۴۲۹، ۴۴۳) (صحیح)
۲۶۰۳- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھاکہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں اور جنت میں جھانکا تودیکھا کہ اکثر جنتی فقیر ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عوف نے سند بیان کرتے ہوئے اس طرح کہا ہے :''عن أبي رجاء عن عمران بن حصين'' اور ایوب نے کہا :''عن أبي رجاء عن ابن عباس'' ، دونوں سندوں میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اس بات کا احتمال ہے کہ ابورجاء نے عمران بن حصین اور ابن عباس دونوں سے سنا ہو، عوف کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث ابورجاء کے واسطہ سے عمران بن حصین سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
12-باب
۱۲-باب​


2604- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ فِي أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الرقاق ۱۵ (۶۵۶۱، ۶۵۶۲)، م/الإیمان ۹۱ (۲۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۳۶)، وحم (۴/۲۷۴) (صحیح)
۲۶۰۴- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب والا وہ جہنمی ہوگا جس کے تلوے میں دوانگارے ہوں گے جن سے اس کا دماغ کھول رہاہوگا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عباس بن عبدالمطلب ، ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اغلب یہی ہے کہ اس سے ابوطالب مراد ہیں کیوں کہ مسلم اور دیگر لوگوں کی دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
13-باب
۱۳-باب​


2605- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، قَال: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ الْخُزَاعِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لأَبَرَّهُ، أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُتَكَبِّرٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ القلم ۱ (۴۹۱۸)، والأدب ۶۱ (۶۰۷۱)، والأیمان والنذور ۹ (۶۶۵۷)، م/الجنۃ ۱۳ (۲۸۵۳)، ق/الزہد ۴ (۴۱۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۸۵)، وحم (۴/۳۰۶) (صحیح)
۲۶۰۵- حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''کیامیں تمہیں جنتیوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ ہر کمزور حال آدمی جسے لوگ حقیر سمجھیں اگر وہ اللہ کی قسم کھائے تو اللہ اسے پوری کردے۔کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ ہرسرکش ، بخیل اور متکبر ''،(جہنم میں جائے گا۔)
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

38-كِتَاب الإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳۸-کتاب: ایمان واسلام


1-بَاب مَا جَاءَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ
۱-باب: جب تک لوگ لا إلہ الا اللہ کہنے نہ لگ جائیں اس وقت تک مجھے ان سے جہاد کرتے رہنے کا حکم دیاگیاہے​


2606- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، فَإِذَا قَالُوهَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجھاد ۱۰۲ (۲۹۴۶)، م/الإیمان ۸ (۲۶۱۰)، د/الجھاد ۱۰۴ (۲۶۴۰)، ن/الجھاد ۱ (۳۰۹۲)، ق/الفتن ۱ (۳۹۲۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۶)، وحم (۲/۳۱۴، ۳۷۷، ۴۲۳، ۴۳۹، ۴۷۵، ۴۸۲، ۵۰۲، ۵۲۸) (صحیح)
۲۶۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ '' لاإلہ الااللہ'' کااقرار کرلیں ، پھر جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، مگرکسی حق کے بدلے ۱؎ ، اور ان کا (مکمل ) حساب تو اللہ تعالیٰ پرہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ۱س باب میں جابر ، ابوسعید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کی جان اور ان کا مال صرف اسی وقت لیاجائے گا جب وہ قول و عمل سے اپنے آپ کو اس کا مستحق اور سزاوار بنادیں ، مثلاً کسی نے کسی کو قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے ورثاء اسے قتل کریں گے یا اس سے دیت لیں گے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام ایک آفاقی اورعالمگیرمذہب ہے، اس کا مقصد دنیا سے تاریکی ، گمرا ہی اورظلم وبربریت کا خاتمہ ہے، ساتھ ہی لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی راہ پر لگانا اور انہیں عدل و انصاف مہیا کرناہے، دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ جو اسلام کو اپنے گلے سے لگالے اس کی جان مال محفوظ ہے، البتہ جرائم کے ارتکاب پراس پر اسلامی احکام لاگو ہوں گے، وہ اپنے مال سے زکاۃ ادا کرے گا ، کسی مسلمان کو ناجائز قتل کردینے کی صورت میں اگر ورثاء اسے معاف نہ کریں اور نہ ہی دیت لینے پر راضی ہوں تو اسے قصاص میں قتل کیاجائے گا، یہ بھی معلوم ہواکہ اس کے ظاہری حالات کے مطابق اسلامی احکام کا اجراء ہوگا، اس کا باطنی معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔


2607- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُوبَكْرٍ بَعْدَهُ كَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَمَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللهِ! لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الزَّكَاةِ وَالصَّلاَةِ، وَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللهِ! لَوْ مَنَعُونِي عِقَالاً كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: فَوَاللهِ! مَا هُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَرَوَى عِمْرَانُ الْقَطَّانُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ خَطَأٌ، وَقَدْ خُولِفَ عِمْرَانُ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ مَعْمَرٍ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۶ (۱۳۹۹)، و ۴۰ (۱۴۷۵)، والمرتدین ۳ (۶۹۲۴)، والإعتصام ۲ (۷۲۸۴)، م/الإیمان ۸ (۲۱)، د/الزکاۃ ۱ (۱۵۵۶)، ن/الزکاۃ ۳ (۲۴۴۵)، والجھاد ۱ (۳۰۹۴، ۳۰۹۵)، والمحاربۃ ۱ (۳۹۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۶)، وحم (۲/۵۲۸) (صحیح)
۲۶۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر خلیفہ بنادیے گئے اور عربوں میں جنہیں کفرکرنا تھا کفرکااظہارکیا، توعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا :آ پ لوگوں سے کیسے جنگ (جہاد) کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے :'' مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ کہیں: لاإلہ الا اللہ، تو جس نے'' لا إلہ الا اللہ'' کہا ، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی ۱؎ ، اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے''، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم ! میں تو ہراس شخص کے خلاف جہاد کروں گا جو صلاۃ وزکاۃ میں فرق کرے گا، کیوں کہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی! اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو (زکاۃ میں)دیاکرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ (جہاد) کروں گا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا : اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور میں نے جان لیا کہ یہی حق اور درست ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ بن عبد اللہ سے اور عبداللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے، ۳- عمران بن قطان نے یہ حدیث معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے انس بن مالک سے، اور انس بن ماک نے ابوبکر سے روایت کی ہے، لیکن اس حدیث (کی سند) میں غلطی ہے۔ (اور وہ یہ ہے کہ ) معمرکے واسطہ سے عمران کی روایت کی مخالفت کی گئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اب نہ اس کا مال لیاجاسکتاہے اور نہ ہی اسے قتل کیاجاسکتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: " أُمِرْتُ بِقِتَالِهِمْ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ "
۲-باب: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' مجھے لوگوں کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ : ''لاإلہ الا اللہ'' کہیں، اور صلاۃ قائم کریں​


2608- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالِقَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنْ يَسْتَقْبِلُوا قِبْلَتَنَا، وَيَأْكُلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَأَنْ يُصَلُّوا صَلاَتَنَا، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ حُرِّمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُسْلِمِينَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۸ (۳۹۲)، د/الجھاد ۱۰۴ (۲۶۴۱)، ن/تحریم الدم (المحاربۃ) ۱ (۳۹۷۱)، والإیمان ۱۵ (۵۰۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۷۰۶)، وحم (۳/۱۹۹، ۲۲۴) (صحیح)
۲۶۰۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہنے کا حکم دیاگیا ہے جب تک لوگ اس بات کی شہادت نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمد (ﷺ )اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ (کرکے عبادت) نہ کرنے لگیں۔ ہمارا ذبیحہ نہ کھانے لگیں اور ہمارے طریقہ کے مطابق صلاۃ نہ پڑھنے لگیں۔جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں گے توان کا خون اور ان کا مال ہمارے اوپر حرام ہوجائے گا، مگرکسی حق کے بدلے ۱؎ ، انہیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا ۲؎ جو عام مسلمانوں کو حاصل ہوگا اور ان پر وہی سب کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو عام مسلمانوں پر عائد ہوں گی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- یحییٰ بن ایوب نے حمید سے اورحمید نے انس سے اس حدیث کی طرح روایت کی ہے،۳- اس باب میں معاذ بن جبل اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ کوئی ایساعمل کربیٹھیں جس کے نتیجہ میں ان کی جان اور ان کا مال مباح ہوجائے تو اس وقت ان کی جان اوران کا مال حرام نہ رہے گا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جو حقوق و اختیارات اور مراعات عام مسلمانوں کو حاصل ہوں گے وہ انہیں بھی حاصل ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ
۳-باب: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے​


2609- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ حَبيِبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَائِ الزَّكَاةِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ، وَحَجِّ الْبَيْتِ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، وَسُعَيْرُ بْنُ الْخِمْسِ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: خ/الإیمان ۲ (۸)، م/الإیمان ۵ (۱۶)، ن/الإیمان ۱۳ (۵۰۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۶۶۸۲)، وحم (۲/۹۳، ۱۲۰، ۱۴۳) (صحیح)
2609/م- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفہ الأشراف: ۷۳۴۴) (صحیح)
۲۶۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:(۱) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، (۲) صلاۃ قائم کرنا ، (۳) زکاۃ دینا (۴)رمضان کیصیام رکھنا،(۵) بیت اللہ کا حج کرنا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابن عمر کے واسطہ سے کئی سندوں سے مروی ہے، اسی طرح یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،۳- اس باب میں جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
۲۶۰۹/م- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ جِبْرِيلَ لِلنَّبِيِّ ﷺ الإِيمَانَ وَالإِسْلاَمَ
۴-باب: جبریل علیہ السلام کا نبی اکرم ﷺسے ایمان واسلام کے اوصاف بیان کرنا​


2610- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، قَالَ: فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّى أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ، فَقُلْنَا: لَوْلَقِينَا رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا أَحْدَثَ هَؤُلاَئِ الْقَوْمُ، قَالَ: فَلَقِينَاهُ يَعْنِي عَبْدَاللهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ: فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلاَمَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! إِنَّ قَوْمًا يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَيَزْعُمُونَ أَنْ لاَ قَدَرَ، وَأَنَّ الأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيئٌ، وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَئَائُ، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُاللهِ! لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَيَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَاالإِيمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: فَمَا الإِسْلاَمُ؟ قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَائُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، قَالَ: فَمَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فِي كُلِّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلاَثٍ، فَقَالَ: "يَا عُمَرُ! هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ".
* تخريج: م/الإیمان ۱ (۸)، د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۵)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۳)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲)، وحم (۱/۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲) (صحیح)
2610/م1- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
2610/م2- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ كَهْمَسٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، نَحْوُ هَذَا عَنْ عُمَرَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالصَّحِيحُ هُوَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ.
۲۶۱۰- یحیی بن یعمر کہتے ہیں: سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری دونوں(سفرپر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے ، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا:کاش ہماری نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے،چنانچہ ( خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے ، ملاقات ہوگئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ۱؎ میں نے یہ اندازہ لگاکرکہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا،عرض کیا: ابوعبدالرحمن !کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غوروفکراور تلاش وجستجو (کا دعویٰ )بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اورامر( معاملہ) ازسرے نواور ابتدائی ہے ۲؎ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمناسامنا ہو) تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بری (وبیزار)ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتاہے عبداللہ !(یعنی اللہ کی ) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابربھی سونا خرچ کرڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پرایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہوگا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب آیااور اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملاکر بیٹھ گیا پھر کہا: اے محمد!ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اوراچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے (پھر) پوچھا: اور اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، صلاۃ قائم کرنا ، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے صیام رکھنا ، اس نے (پھر) پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کرسکو تو یہ یقین کرکے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے''، وہ شخص آپ ﷺ کے ہر جواب پر کہتا جاتاتھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتاہے اور خود ہی آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتاجاتاہے، اس نے (پھر) پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا:'' جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا''، اس نے کہا: اس کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اس وقت حالت یہ ہوگی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎ ، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے''، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مجھے اس واقعہ کے تین دن بعدملے تو آپ نے فرمایا:'' عمر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے''۔
۲۶۱۰/م۱ - اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
۲۶۱۰/م۲- اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳-کبھی ایسا بھی ہواہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے اور عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے،۲- اس باب میں طلحہ بن عبید اللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ایک ان کے داہنے ہوگیا اور دوسرا ان کے بائیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے، پہلے سے ہی کوئی چیزلکھی ہوئی اورمتعین شدہ نہیں ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پرپہنچا دی جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي إِضَافَةِ الْفَرَائِضِ إِلَى الإِيمَانِ
۵-باب: ایمان میں دوسرے فرائض وواجبات کے داخل ہونے کابیان​


2611- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَقَالُوا: إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلاَّ فِي أَشْهُرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِشَيْئٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَائَنَا، فَقَالَ: "آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ: الإِيمَانِ بِاللهِ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ: شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاّةِ، وَإِيتَائِ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۵۹۹ (صحیح)
2611/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، مِثْلَهُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۵۹۹ (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ اسْمُهُ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ. وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ أَيْضًا، وَزَادَ فِيهِ: أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ؟ شَهَادَةُ أَنْ لاَإِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ. سَمِعْت قُتَيْبَةَ بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَؤُلاَئِ الْفُقَهَائِ الأَشْرَافِ الأَرْبَعَةِ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَعَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيِّ، وَعَبْدِالْوَهَّابِ الثَّقَفِيِّ. قَالَ قُتَيْبَةُ: كُنَّا نَرْضَى أَنْ نَرْجِعَ مِنْ عِنْدِ عَبَّادٍ كُلَّ يَوْمٍ بِحَدِيثَيْنِ، وَعَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ هُوَ مِنْ وَلَدِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ.
۲۶۱۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا:(اے اللہ کے رسول!) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ۱؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلاسکیں، آپ نے فرمایا:'' میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتاہوں (۱) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی ''لا إ لہ الا اللہ'' اور'' محمد رسول اللہ'' کی شہادت دینا (۲)صلاۃ قائم کرنا ( ۳) زکاۃ دینا (۴) مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) نکالنا۔
۲۶۱۱/م- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے، ۲- شعبہ نے بھی اسے ابوجمرہ نصربن عمران ضبعی سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے '' أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ'' (کیا تم جانتے ہو ایمان کیا ہے؟ ایمان یہ ہے : گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور گواہی دی جائے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ) اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : حرمت والے مہینے چار ہیں: رجب ، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو چھوڑ کر باقی دوسرے مہینوں میں جنگ و جدال جاری رہتاتھا، اسی لیے قبیلہء عبدقیس کے وفد کے لوگوں نے آپ ﷺ سے دوسرے مہینوں میں آپ تک نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی اور آپ سے دین کی اہم اور بنیادی باتیں پوچھیں ۔
 
Top