42-كِتَاب الأَمْثَالِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۲-کتاب: مثل اورکہاوت کاتذکرہ
1-بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
۱-باب: اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کابیان
2859- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلابِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا، عَلَى كَنَفَيْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَى الأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَهُ {وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَائُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ }[يونس: 25]. وَالأَبْوَابُ الَّتِي عَلَى كَنَفَيْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّى يُكْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ: سَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ: قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ: خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَكُمْ، عَنِ الثِّقَاتِ وَلاَتَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَكُمْ، عَنِ الثِّقَاتِ وَلاَغَيْرِ الثِّقَاتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۴) (صحیح)
۲۸۵۹- نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے، اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دوگھر ہیں، ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ایک پکارنے والااس راستے کے سرے پر کھڑا پکاررہاہے، اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکاررہاہے، (پھرآپ نے یہ آیت پڑھی)
{وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَائُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} ( اللہ تعالیٰ دارالسلام (جنت کی طرف) بلاتاہے اورجسے چاہتاہے ''صراط مستقیم'' کی ہدایت دیتاہے۔ تووہ دروازے جوصراط مستقیم کے دونوں جانب ہیں وہ حدود اللہ ہیں ۱؎ توکوئی شخص جب تک پردہ کھول نہ دیاجائے، حدود اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور اوپر سے پکارنے والا اس کے رب کا واعظ ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن کو سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے زکریا بن عدی کو سناوہ کہتے تھے کہ ابواسحاق فزاری نے کہا: بقیہ (راوی) تم سے جو ثقہ راویوں کے ذریعہ روایت کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی روایت نہ لو خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ ، ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑسکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے، اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہوجائے گا۔
وضاحت ۲؎ : ا س حدیث میں '' صراط مستقیم '' سے مراد اسلام ہے، اور'' کھلے ہوئے دروازوں '' سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور '' لٹکے ہوئے پردے'' اللہ کی حدود ہیں، اور '' راستے کے سرے پر بلانے والا داعی '' قرآن ہے، اور '' اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی '' مومن کا دل ہے۔
2860- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ: "إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ جِبْرِيلَ عِنْدَ رَأْسِي وَمِيكَائِيلَ عِنْدَ رِجْلَيَّ يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اضْرِبْ لَهُ مَثَلاً؛ فَقَالَ: اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُكَ، وَاعْقِلْ عَقَلَ قَلْبُكَ إِنَّمَا مَثَلُكَ، وَمَثَلُ أُمَّتِكَ كَمَثَلِ مَلِكٍ اتَّخَذَ دَارًا، ثُمَّ بَنَى فِيهَا بَيْتًا، ثُمَّ جَعَلَ فِيهَا مَائِدَةً، ثُمَّ بَعَثَ رَسُولا يَدْعُو النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ؛ فَمِنْهُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَرَكَهُ؛ فَاللَّهُ هُوَ الْمَلِكُ وَالدَّارُ الإِسْلاَمُ وَالْبَيْتُ الْجَنَّةُ وَأَنْتَ يَا مُحَمَّدُ رَسُولٌ فَمَنْ أَجَابَكَ دَخَلَ الإِسْلاَمَ، وَمَنْ دَخَلَ الإِسْلاَمَ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَكَلَ مَا فِيهَا". وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ مِنْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلالٍ لَمْ يُدْرِكْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: خ/الاعتصام ۲ (تعلیقا عقب حدیث رقم ۷۲۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۲۲۶۷) (صحیح)
( سند میں سعید بن أبی ہلال، اور جابر کے درمیان انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث صحیح ہے، جیسے بخاری کی مذکورہ روایت)
۲۸۶۰- جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا: ''میں نے خواب دیکھاہے کہ جبرئیل میرے سرکے پاس ہیں اور میکائیل میرے پیروں کے پاس ، ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ رہاتھا: ان کی کوئی مثال پیش کرو، تو اس نے آپ ﷺ کومخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ سنیں، آپ کے کان ہمیشہ سنتے رہیں، آپ سمجھیں ، آپ کا دل عقل (سمجھ، علم وحکمت) سے بھرارہے۔ آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی ہے جس نے ایک شہر آباد کیا، اس شہر میں ایک گھر بنایا پھر ایک دسترخوان بچھایا، پھر قاصد کو بھیج کرلوگوں کوکھانے پر بلایا، توکچھ لوگوں نے اس کی دعوت قبول کرلی اور کچھ لوگوں نے بلانے والے کی دعوت ٹھکرادی( کچھ پرواہ ہی نہ کی )اس مثال میں یہ سمجھو کہ اللہ بادشاہ ہے، اور'' دار'' سے مراد اسلام ہے اور بیت سے مراد جنت ہے اور آپ اے محمد ! رسول وقاصد ہیں۔ جس نے آپ کی دعوت قبول کرلی وہ اسلام میں داخل ہوگیا اور جواسلام میں داخل ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگیا تو اس نے وہ سب کچھ کھایا جو جنت میں ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سندکے علاوہ دوسری سندوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے اور وہ سندیں اس حدیث کی سند سے زیادہ صحیح ہیں،۲- یہ مرسل حدیث ہے۔ (یعنی منقطع ہے)۳- سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کو نہیں پایا ہے،۴- اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔(جوآگے آرہی ہے)
2861- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْعِشَائَ، ثُمَّ انْصَرَفَ؛ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّى خَرَجَ بِهِ إِلَى بَطْحَائِ مَكَّةَ؛ فَأَجْلَسَهُ، ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: "لاَ تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ؛ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلاَ تُكَلِّمْهُمْ؛ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَلِّمُونَكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ لاَ أَرَى عَوْرَةً وَلاَ أَرَى قِشْرًا وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلاَ يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ فَقَالَ: "لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ" ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي؛ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي فَرَقَدَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنَ الْجَمَالِ؛ فَانْتَهَوْا إِلَيَّ فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ، وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلا مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَى قَصْرًا، ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً؛ فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ فَمَنْ أَجَابَهُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ قَالَ: عَذَّبَهُ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: "سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلاَئِ؟ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلائِ؟". قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "هُمُ الْمَلائِكَةُ، فَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَنَى الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ. قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ، وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا، وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ؛ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۱)، وانظر : دي/المقدمۃ ۲ (۱۲) (حسن صحیح)
ٍ ۲۸۶۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گیے (وہاں ) انہیں ( ایک جگہ) بٹھادیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں،اوران سے کہا: ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا ۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آکر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے''۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہواتھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎ ، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آرہاتھا، وہ میرے پاس آکر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپﷺ میرے پاس تشریف لا ئے ، میں بیٹھا ہواتھا۔ آپ نے فرمایا:'' رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتاہوں (یعنی میں سونہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہوکر میرے پاس آئے ۔ اور میری ران کا تکیہ بناکرسوگئے، آپ سونے میں خرّاٹے لینے لگتے تھے، تواسی دوران کہ میں بیٹھا ہواتھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سورہے تھے ۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتاہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آکر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے ، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملاہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کادل بیدار رہتاہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھرانہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا ، پھر ایک دسترخوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دسترخوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کرلی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزادے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا:'' سنا، کیا کہا انہوں نے ؟اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:'' وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟ میں نے(پھر) کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:'' انہوں نے جومثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ)تبارک وتعالیٰ کی ، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی ۔ تو جس نے دعوت قبول کرلی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب وعقاب سے دوچار کرے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- ا بوتمیمہ : ہجیمی ہیں اور ان کانام طریف بن مجالد ہے ،۳- ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمن بن مل ہے،۴- سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں ، وہ اصلا ً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایاکرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہوگئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔
وضاحت ۱؎ : ''زط'' یعنی: جاٹ قوم کے معلوم ہورہے تھے۔