• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75-باب
۷۵-باب​


2858- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْخِصْبِ؛ فَأَعْطُوا الإِبِلَ حَظَّهَا مِنَ الأَرْضِ، وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِي السَّنَةِ؛ فَبَادِرُوا بِهَا نِقْيَهَا، وَإِذَا عَرَّسْتُمْ؛ فَاجْتَنِبُوا الطَّرِيقَ؛ فَإِنَّهَا طُرُقُ الدَّوَابِّ، وَمَأْوَى الْهَوَامِّ بِاللَّيْلِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَنَسٍ.
* تخريج: م/الإمارۃ ۵۴ (۱۹۲۶)، د/الجھاد ۶۳ (۲۵۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۶)، وحم (۲/۳۳۷) (صحیح)
۲۸۵۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم ہریالی اورشادابی کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹ کو زمین سے اس کاحق دو(یعنی جی بھر کرچرلینے دیاکرو) اور جب تم خزاں وخشکی اورقحط کے دنوں میں سفر کرواس کی قوت سے فائدہ اٹھالینے میں کرو توجلدی ۱؎ اور جب تم رات میں قیام کے لیے پڑاؤ ڈالو تو عام راستے سے ہٹ کرقیام کرو، کیوں کہ یہ (راستے)رات میں چوپایوں کے راستے اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابراورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کوشش کرکے جلد منزل پر پہنچ جاؤ، کیونکہ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے چارے کی کمی کے باعث اونٹ کمزور پڑگیا توتم پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلاہوجاؤ گے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

42-كِتَاب الأَمْثَالِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۲-کتاب: مثل اورکہاوت کاتذکرہ


1-بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
۱-باب: اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کابیان​


2859- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلابِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا، عَلَى كَنَفَيْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَى الأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَى رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَهُ {وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَائُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ }[يونس: 25]. وَالأَبْوَابُ الَّتِي عَلَى كَنَفَيْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللَّهِ حَتَّى يُكْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ: سَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ: قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ: خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَكُمْ، عَنِ الثِّقَاتِ وَلاَتَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَكُمْ، عَنِ الثِّقَاتِ وَلاَغَيْرِ الثِّقَاتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۴) (صحیح)
۲۸۵۹- نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے، اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دوگھر ہیں، ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ایک پکارنے والااس راستے کے سرے پر کھڑا پکاررہاہے، اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکاررہاہے، (پھرآپ نے یہ آیت پڑھی) {وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَائُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} ( اللہ تعالیٰ دارالسلام (جنت کی طرف) بلاتاہے اورجسے چاہتاہے ''صراط مستقیم'' کی ہدایت دیتاہے۔ تووہ دروازے جوصراط مستقیم کے دونوں جانب ہیں وہ حدود اللہ ہیں ۱؎ توکوئی شخص جب تک پردہ کھول نہ دیاجائے، حدود اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور اوپر سے پکارنے والا اس کے رب کا واعظ ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن کو سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے زکریا بن عدی کو سناوہ کہتے تھے کہ ابواسحاق فزاری نے کہا: بقیہ (راوی) تم سے جو ثقہ راویوں کے ذریعہ روایت کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی روایت نہ لو خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی محرمات مثلاً زنا اور شراب وغیرہ ، ان محرمات میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں پڑسکتا جب تک خود سے بڑھ کر ان کا ارتکاب نہ کرنے لگے، اور ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کے عذاب و عقاب کا مستحق ہوجائے گا۔
وضاحت ۲؎ : ا س حدیث میں '' صراط مستقیم '' سے مراد اسلام ہے، اور'' کھلے ہوئے دروازوں '' سے مراد اللہ کے محارم ہیں اور '' لٹکے ہوئے پردے'' اللہ کی حدود ہیں، اور '' راستے کے سرے پر بلانے والا داعی '' قرآن ہے، اور '' اس کے اوپر سے پکار نے والا داعی '' مومن کا دل ہے۔


2860- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ: "إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ جِبْرِيلَ عِنْدَ رَأْسِي وَمِيكَائِيلَ عِنْدَ رِجْلَيَّ يَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اضْرِبْ لَهُ مَثَلاً؛ فَقَالَ: اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُكَ، وَاعْقِلْ عَقَلَ قَلْبُكَ إِنَّمَا مَثَلُكَ، وَمَثَلُ أُمَّتِكَ كَمَثَلِ مَلِكٍ اتَّخَذَ دَارًا، ثُمَّ بَنَى فِيهَا بَيْتًا، ثُمَّ جَعَلَ فِيهَا مَائِدَةً، ثُمَّ بَعَثَ رَسُولا يَدْعُو النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ؛ فَمِنْهُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ، وَمِنْهُمْ مَنْ تَرَكَهُ؛ فَاللَّهُ هُوَ الْمَلِكُ وَالدَّارُ الإِسْلاَمُ وَالْبَيْتُ الْجَنَّةُ وَأَنْتَ يَا مُحَمَّدُ رَسُولٌ فَمَنْ أَجَابَكَ دَخَلَ الإِسْلاَمَ، وَمَنْ دَخَلَ الإِسْلاَمَ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَكَلَ مَا فِيهَا". وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ مِنْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلالٍ لَمْ يُدْرِكْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: خ/الاعتصام ۲ (تعلیقا عقب حدیث رقم ۷۲۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۲۲۶۷) (صحیح)
( سند میں سعید بن أبی ہلال، اور جابر کے درمیان انقطاع ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث صحیح ہے، جیسے بخاری کی مذکورہ روایت)
۲۸۶۰- جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا: ''میں نے خواب دیکھاہے کہ جبرئیل میرے سرکے پاس ہیں اور میکائیل میرے پیروں کے پاس ، ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ رہاتھا: ان کی کوئی مثال پیش کرو، تو اس نے آپ ﷺ کومخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ سنیں، آپ کے کان ہمیشہ سنتے رہیں، آپ سمجھیں ، آپ کا دل عقل (سمجھ، علم وحکمت) سے بھرارہے۔ آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی ہے جس نے ایک شہر آباد کیا، اس شہر میں ایک گھر بنایا پھر ایک دسترخوان بچھایا، پھر قاصد کو بھیج کرلوگوں کوکھانے پر بلایا، توکچھ لوگوں نے اس کی دعوت قبول کرلی اور کچھ لوگوں نے بلانے والے کی دعوت ٹھکرادی( کچھ پرواہ ہی نہ کی )اس مثال میں یہ سمجھو کہ اللہ بادشاہ ہے، اور'' دار'' سے مراد اسلام ہے اور بیت سے مراد جنت ہے اور آپ اے محمد ! رسول وقاصد ہیں۔ جس نے آپ کی دعوت قبول کرلی وہ اسلام میں داخل ہوگیا اور جواسلام میں داخل ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگیا تو اس نے وہ سب کچھ کھایا جو جنت میں ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سندکے علاوہ دوسری سندوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے اور وہ سندیں اس حدیث کی سند سے زیادہ صحیح ہیں،۲- یہ مرسل حدیث ہے۔ (یعنی منقطع ہے)۳- سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کو نہیں پایا ہے،۴- اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔(جوآگے آرہی ہے)


2861- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْعِشَائَ، ثُمَّ انْصَرَفَ؛ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّى خَرَجَ بِهِ إِلَى بَطْحَائِ مَكَّةَ؛ فَأَجْلَسَهُ، ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: "لاَ تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ؛ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلاَ تُكَلِّمْهُمْ؛ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَلِّمُونَكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ لاَ أَرَى عَوْرَةً وَلاَ أَرَى قِشْرًا وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلاَ يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ فَقَالَ: "لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ" ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي؛ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي فَرَقَدَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنَ الْجَمَالِ؛ فَانْتَهَوْا إِلَيَّ فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ، وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلا مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَى قَصْرًا، ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً؛ فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ فَمَنْ أَجَابَهُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ قَالَ: عَذَّبَهُ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: "سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلاَئِ؟ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلائِ؟". قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "هُمُ الْمَلائِكَةُ، فَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: "الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَنَى الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ. قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ، وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا، وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ؛ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۱)، وانظر : دي/المقدمۃ ۲ (۱۲) (حسن صحیح)
ٍ ۲۸۶۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گیے (وہاں ) انہیں ( ایک جگہ) بٹھادیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں،اوران سے کہا: ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا ۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آکر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے''۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہواتھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎ ، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آرہاتھا، وہ میرے پاس آکر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپﷺ میرے پاس تشریف لا ئے ، میں بیٹھا ہواتھا۔ آپ نے فرمایا:'' رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتاہوں (یعنی میں سونہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہوکر میرے پاس آئے ۔ اور میری ران کا تکیہ بناکرسوگئے، آپ سونے میں خرّاٹے لینے لگتے تھے، تواسی دوران کہ میں بیٹھا ہواتھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سورہے تھے ۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتاہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آکر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے ، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملاہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کادل بیدار رہتاہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھرانہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا ، پھر ایک دسترخوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دسترخوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کرلی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزادے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا:'' سنا، کیا کہا انہوں نے ؟اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:'' وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟ میں نے(پھر) کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:'' انہوں نے جومثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ)تبارک وتعالیٰ کی ، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی ۔ تو جس نے دعوت قبول کرلی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب وعقاب سے دوچار کرے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- ا بوتمیمہ : ہجیمی ہیں اور ان کانام طریف بن مجالد ہے ،۳- ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمن بن مل ہے،۴- سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں ، وہ اصلا ً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایاکرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہوگئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔
وضاحت ۱؎ : ''زط'' یعنی: جاٹ قوم کے معلوم ہورہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ النَّبِيِّ ﷺ وَالأَنْبِيَائِ قَبْلَهُ
۲-باب: نبی اکرمﷺ اورآپ سے پہلے کے انبیاء کی مثال​


2862- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنِ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ بَصْرِيٌّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَائَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " إِنَّمَا مَثَلِي، وَمَثَلُ الأَنْبِيَائِ قَبْلِي كَرَجُلٍ بَنَى دَارًا؛ فَأَكْمَلَهَا، وَأَحْسَنَهَا إِلا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ؛ فَجَعَلَ النَّاسُ يَدْخُلُونَهَا، وَيَتَعَجَّبُونَ مِنْهَا، وَيَقُولُونَ لَوْلا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ، وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/المناقب ۱۸ (۳۵۳۴)، م/الفضائل ۷ (۲۲۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۲۲۶۰)، وحإ (۲/۲۵۷، ۳۹۸، ۴۱۲) (صحیح)
۲۸۶۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میری مثال اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال ، اس شخص کی طرح ہے جس نے گھربنایا، گھر کو مکمل کیا اور اسے خوبصورت بنایا، سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے ۱؎ ۔ لوگ اس گھر میں آنے لگے اور اسے دیکھ کر تعجب کرنے لگے، اور کہنے لگے: کاش یہ ایک اینٹ کی جگہ (بھی) خالی نہ ہوتی''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابی بن کعب اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی گھر کو خوبصورت اور مکمل بنانے کے باوجود ایک اینٹ کی جگہ باقی رکھ چھوڑی ، لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے: کاش یہ خالی جگہ پر ہوجاتی تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے، اس حدیث کی ایک روایت میں آگے الفاظ ہیں: تو میں وہی (آخری ) اینٹ ہوں جیسے خالی جگہ میں لگاکرنبوت کے محل کو مکمل کیاگیاہے۔خوبصورت گھرسے مرادنبوت ورسالت والا دین حنیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ الصَّلاَةِ وَالصِّيَامِ وَالصَّدَقَةِ
۳-باب: صوم و صلاۃ اور صدقہ (زکاۃ) کی مثال کابیان​


2863- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلاَّمٍ أَنَّ أَبَا سَلامٍ حَدَّثَهُ أَنَّ الْحَارِثَ الأَشْعَرِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَ يَحْيَى بْنَ زَكَرِيَّا بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ يَعْمَلَ بِهَا، وَيَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنَّهُ كَادَ أَنْ يُبْطِئَ بِهَا فَقَالَ عِيسَى: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَكَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِهَا، وَتَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَعْمَلُوا بِهَا؛ فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَهُمْ، وَإِمَّا أَنْ آمُرَهُمْ؟ فَقَالَ يَحْيَى: أَخْشَى إِنْ سَبَقْتَنِي بِهَا أَنْ يُخْسَفَ بِي أَوْ أُعَذَّبَ؛ فَجَمَعَ النَّاسَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَامْتَلأَ الْمَسْجِدُ، وَتَعَدَّوْا عَلَى الشُّرَفِ؛ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِهِنَّ، وَآمُرَكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِهِنَّ: أَوَّلُهُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرَى عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِهِ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ فَقَالَ هَذِهِ دَارِي وَهَذَا عَمَلِي فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَيَّ فَكَانَ يَعْمَلُ وَيُؤَدِّي إِلَى غَيْرِ سَيِّدِهِ فَأَيُّكُمْ يَرْضَى أَنْ يَكُونَ عَبْدُهُ كَذَلِكَ وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَكُمْ بِالصَّلاَةِ فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلاَ تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ فِي صَلاَتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ وَآمُرُكُمْ بِالصِّيَامِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ فِي عِصَابَةٍ مَعَهُ صُرَّةٌ فِيهَا مِسْكٌ فَكُلُّهُمْ يَعْجَبُ أَوْ يُعْجِبُهُ رِيحُهَا وَإِنَّ رِيحَ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَآمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَهُ الْعَدُوُّ؛ فَأَوْثَقُوا يَدَهُ إِلَى عُنُقِهِ، وَقَدَّمُوهُ لِيَضْرِبُوا عُنُقَهُ فَقَالَ: أَنَا أَفْدِيهِ مِنْكُمْ بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ فَفَدَى نَفْسَهُ مِنْهُمْ، وَآمُرُكُمْ أَنْ تَذْكُرُوا اللَّهَ؛ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِي أَثَرِهِ سِرَاعًا حَتَّى إِذَا أَتَى عَلَى حِصْنٍ حَصِينٍ؛ فَأَحْرَزَ نَفْسَهُ مِنْهُمْ كَذَلِكَ الْعَبْدُ لا يُحْرِزُ نَفْسَهُ مِنَ الشَّيْطَانِ إِلاَّ بِذِكْرِ اللَّهِ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: وَأَنَا آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ اللَّهُ أَمَرَنِي بِهِنَّ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ وَالْجِهَادُ وَالْهِجْرَةُ وَالْجَمَاعَةُ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ إِلاَّ أَنْ يَرْجِعَ وَمَنْ ادَّعَى دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّهُ مِنْ جُثَا جَهَنَّمَ" فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ؟ قَالَ: "وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ، فَادْعُوا بِدَعْوَى اللَّهِ الَّذِي سَمَّاكُمْ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللَّهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْحَارِثُ الأَشْعَرِيُّ لَهُ صُحْبَةٌ وَلَهُ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (التحفۃ: ۳۲۷۴)، وحم (۴/۲۰۲) (صحیح)
۲۸۶۳- حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ خود ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں۔ قریب تھا کہ وہ اس حکم کی تعمیل میں سستی وتاخیر کریں عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ تم خود ان پرعمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی حکم دو کہ وہ بھی اس پرعمل کریں ، یاتوتم ان کو حکم دو یا پھر میں ان کو حکم دیتاہوں۔ یحییٰ نے کہا: میں ڈرتاہوں کہ اگر آپ نے ان امور پر مجھ سے سبقت کی تومیں زمین میں دھنسانہ دیاجاؤں یا عذاب میں مبتلا نہ کردیاجاؤں ، پھر انہوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا،مسجدلوگوں سے بھر گئی۔لوگ کنگوروں پر بھی جابیٹھے، پھر انہوں نے کہا: اللہ نے ہمیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پرعمل کروں اور تمہیں حکم دوں کہ تم بھی ان پر عمل کرو۔ پہلی چیز یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور اس شخص کی مثال جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس آدمی کی ہے جس نے ایک غلام خالص اپنے مال سے سونا یا چاندی دے کر خریدا، اور (اس سے) کہا :یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا پیشہ (روزگار) ہے تو تم کام کرو اور منافع مجھے دو ،سو وہ کام کرتاہے اور نفع اپنے مالک کے سوا کسی اور کو دیتا ہے، تو بھلا کون شخص یہ پسند کرسکتاہے کہ اس کا غلام اس قسم کا ہو،۲- اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں صلاۃ کا حکم دیا ہے تو جب تم صلاۃ پڑھو تو ادھر ادھر نہ دیکھو۔ کیوں کہ اللہ اپنا چہرہ صلاۃ پڑھتے ہوئے بندے کے چہرے کی طرف رکھتاہے جب تک کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے،۳- اور تمہیں صوم رکھنے کا حکم دیاہے۔ اور اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو ایک جماعت کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ایک تھیلی ہے جس میں مشک ہے اور ہرایک کو اس کی خوشبو بھاتی ہے۔ اور صائم کے منہ کی بومشک کی خوشبو سے بڑھ کر ہے،۴- اور تمہیں صدقہ وزکاۃ دینے کا حکم دیا ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسے دشمن نے قیدی بنالیا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے گردن سے ملاکر باندھ دیئے ہیں، اور اسے لے کر چلے تاکہ اس کی گردن اڑادیں تو اس (قیدی) نے کہا کہ میرے پاس تھوڑا زیادہ جوکچھ مال ہے میں تمہیں فدیہ دے کراپنے کو چھڑالیناچاہتاہوں، پھر انہیں فدیہ دے کر اپنے کو آزاد کرالیا ۱؎ ،۵- اور اس نے حکم دیا ہے کہ تم اللہ کا ذکر کرو۔ اس کی مثال اس آدمی کی مثال ہے جس کاپیچھا دشمن تیزی سے کرے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں پہنچ کر اپنی جان کو ان (دشمنوں) سے بچالے ۔ ایسے ہی بندہ (انسان) اپنے کو شیطان (کے شر) سے اللہ کے ذکر کے بغیر نہیں بچاسکتا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میں بھی تمہیں ان پانچ چیزوں کا حکم دیتاہوں جن کا حکم مجھے اللہ نے دیاہے (۱) بات سننا (۲) (سننے کے بعد)اطاعت کرنا (۳) جہاد کرنا (۴)ہجرت کرنا (۵) جماعت کے ساتھ رہنا کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا (علیحدہ ہوا) اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے باہرنکال پھینکا ۔ مگر یہ کہ پھر اسلام میں واپس آجائے۔ اور جس نے جاہلیت کانعرہ لگایا تووہ جہنم کے ایندھنوں میں سے ایک ایندھن ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص نے پوچھا : اللہ کے رسول !اگرچہ وہ صلاۃپڑھے اور صوم رکھے؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں۔ اگر چہ وہ صلاۃ پڑھے اور صوم رکھے۔ توتم اللہ کے بندو! اس اللہ کے پکار کی دعوت دو ۲؎ جس نے تمہارا نام مسلم ومومن رکھا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حارث اشعری صحابی ہیں اور اس حدیث کے علاوہ بھی ان سے حدیثیں مروی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اسی طرح صدقہ و خیرات کرنے والا صدقہ و خیرات کی بدولت اللہ کی رحمت کا مستحق ہوتاہے ، اور اس کے عذاب سے نجات پالیتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جاہلیت کانعرہ اور اس کی پکارجو خانہ جنگی کی پکار ہے اس سے بچو اوراللہ کی توحید اور اس کی تعلیمات کی طرف لوگوں کو بلاؤ ۔


2864- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ أَبِي سَلامٍ، عَنْ الْحَارِثِ الأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهَُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأَبُو سَلامٍ الْحَبَشِيُّ اسْمُهُ مَمْطُورٌ وَقَدْ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۸۶۴- اس سندسے بھی حارث اشعری رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح اسی کی ہم معنی حدیث روایت کرتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۲- ابوسلاّم حبشی کانام ممطور ہے،۳- اس حدیث کوعلی بن مبارک نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ الْمُؤْمِنِ الْقَارِئِ لِلْقُرْآنِ وَغَيْرِ الْقَارِئِ
۴-باب: قرآن پڑھنے والے اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال​


2865- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الأُتْرُنْجَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ لاَ رِيحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ رِيحُهَا مُرٌّ وَطَعْمُهَا مُرٌّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ أَيْضًا.
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۱۷ (۵۰۲۰)، و ۳۶ (۵۰۵۹)، والأطعمۃ ۳۰ (۵۴۲۷)، التوحید ۵۷ (۷۵۶۰)، م/المسافرین (۳۷ (۷۹۷)، د/الأدب ۱۹ (۴۸۳۰)، ن/الإیمان ۳۲ (۵۰۴۱)، ق/المقدمۃ ۱۶ (۲۱۴) (تحفۃ الأشراف : ۸۹۸۱)، وحم (۳۹۷، ۴۰۸) (صحیح)
۲۸۶۵- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتاہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ ومزہ بھی اچھا ہے، اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔ اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتاہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو، مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتاہے اندرائن (حنظل) (ا یک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ کے کلام کی اثر انگیزی انسان کے ظاہر و باطن دونوں میں پائی جاتی ہے اور انسان چونکہ مختلف اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اس لیے قرآن کریم کا پورا پورا تاثیری فائدہ صرف اس بندے کو حاصل ہوتاہے جو مومن ہونے کے ساتھ حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ہو، ایسا مومن اللہ کے نزدیک خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل کی طرح مقبول ہے۔ اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا باطن قرآن سے مستفید ہوتاہے لیکن ظاہر محروم رہتاہے، یہ وہ مومن بندہ ہے جو قاری قرآن نہیں ہے، ایسا مومن اللہ کے نزدیک اس مزے دارپھل کی طرح ہے جس میں خوشبو نہیں ہوتی، اور کچھ بندے ایسے ہیں جن کا ظاہر قرآن پڑھنے کے سبب اچھا ہے لیکن باطن تاریک ہے، یہ قرآن پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن مزہ کڑواہے، اور کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اس قرآن سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا، یہ قرآن نہ پڑھنے والا منافق ہے، یہ اللہ کے نزدیک حنظلہ اندرائن(حنظل) کی طرح ہے جس میں نہ تو خوشبو ہے اور نہ ہی اس کا مزہ اچھا ہے، بلکہ کڑوا ہے۔


2866- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الزَّرْعِ لاَ تَزَالُ الرِّيَاحُ تُفَيِّئُهُ، وَلاَ يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُصِيبُهُ بَلاَئٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ شَجَرَةِ الأَرْزِ لاَ تَهْتَزُّ حَتَّى تُسْتَحْصَدَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المنافقین ۱۴ (۲۸۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۷۹) (وراجع ماعند خ في المرضی ۱ (۵۶۴۴)، والتوحید ۳۱ (۷۴۶۶)، وحم (۲/۲۳۴، ۲۸۴، ۵۲۳) (صحیح)
۲۸۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مومن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جسے ہوائیں (ادھرادھر) ہلاتی رہتی ہیں۔(ایساہی مومن ہے) مومن پربلائیں برابرآتی رہتی ہیں،اور منافق کی مثال صنوبر (اشوک) کے درخت کی ہے ، وہ اپنی جگہ سے ہلتانہیں جب تک کہ کاٹ نہ دیاجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2867- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَيَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ حَدِّثُونِي مَا هِيَ" قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "هِيَ النَّخْلَةُ" فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَقُولَ، قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَحَدَّثْتُ عُمَرَ بِالَّذِي وَقَعَ فِي نَفْسِي فَقَالَ لأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
* تخريج: خ/العلم ۴ (۶۱)، و۵ (۷۲)، و ۵۰ (۱۳۱)، وتفسیر سورۃ ابراہیم ۱ (۴۶۹۸)، والأدب ۷۹ (۶۱۲۲)، و ۸۹ (۶۱۴۴)، م/المنافقین ۱۵ (۲۸۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۴)، وحم (۲/۳۱، ۶۱) (صحیح)
۲۸۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' درختوں میں ایک درخت ایساہے جس کا پتّا نہیں جھڑتا ، یہ مومن کی مثال ہے تو مجھے بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟ عبداللہ کہتے ہیں: لوگ اسے جنگلوں کے درختوں میں ڈھونڈھنے لگے ، اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' یہ کھجور ہے''، مجھے شرم آگئی کہ میں (چھوٹا ہوکر بڑوں کے سامنے) بولوں (جب کہ لوگ خاموش ہیں) پھر میں نے( اپنے والد) عمر رضی اللہ عنہ کو وہ بات بتائی جو میرے دل میں آئی تھی، تو انہوں نے کہا( میرے بیٹے) اگر تم نے یہ بات بتادی ہوتی تو یہ چیز مجھے اس سے زیادہ عزیز ومحبوب ہوتی کہ میرے پاس اس اس طرح کا مال اور یہ یہ چیزیں ہوتیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ
۵-باب: پانچوں صلاتوں کی مثال​


2868- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئٌ" قَالُوا: لاَيَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئٌ قَالَ: "فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا" وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
2868(م)- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ الْقُرَشِيُّ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/المواقیت ۶ (۵۲۸)، م/المساجد ۵۱ (۶۶۷)، ن/الصلاۃ ۷ (۴۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۹۸)، وحم (۲/۳۷۹، ۴۲۶-۴۲۷)، ودي/الصلاۃ ۱ (۱۲۲۱) (صحیح)
۲۸۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بھلابتاؤ تو صحیح ، اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اوروہ اس نہر میں ہردن پانچ بار نہائے تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا؟ صحابہ نے کہا: اس کے جسم پر تھوڑا بھی میل نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا:'' یہی مثال ہے پانچوں صلاۃ کی، ان صلاۃ کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹادیتاہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- قتیبہ کہتے ہیں: ہم سے بکر بن مضر قرشی نے ابن الہاد کے واسطہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔۳- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ صلاۃ کی ادائیگی سے انسان صغیرہ گناہوں سے پاک وصاف ہوتارہتاہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ سنت کے مطابق صلاۃ ادا کی جائے، اور صلاۃ کو صلاۃ سمجھ کر پڑھا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاْبٌ
۶-باب​


2869- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ يَحْيَى الأَبَحُّ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لاَ يُدْرَى أَوَّلُهُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُهُ".
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ: وَرُوِي عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُثَبِّتُ حَمَّادَ بْنَ يَحْيَى الأَبَحَّ وَكَانَ يَقُولُ: هُوَ مِنْ شُيُوخِنَا.
* تخريج: خ/تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۹۱)، وحم (۳/۱۳۰، ۱۴۳، ۳۱۹) (حسن صحیح)
۲۸۶۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کی مثال بارش کی ہے ، نہیں کہاجاسکتا کہ اس کا اول بہتر ہے یا اس کاآخر '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں عمّار ، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- عبدالرحمن بن مہدی سے روایت ہے کہ وہ حماد بن یحییٰ الابح کی تائید وتصدیق کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارے اسا تذہ میں سے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ امت کا ہرفرد بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے جڑا ہواہے،نہیں معلوم اس میں سے کس کو کب اور کس وقت دوسرے سے خیر و برکت پہنچ جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ ابْنِ آدَمَ وَأَجَلِهِ وَأَمَلِهِ
۷-باب: آدمی کی موت اورآرزو کی مثال​


2870- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَي، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذِهِ وَمَا هَذِهِ وَرَمَى بِحَصَاتَيْنِ" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "هَذَاكَ الأَمَلُ وَهَذَاكَ الأَجَلُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۰) (ضعیف)
(سندمیں بشیر بن مہاجر لین الحدیث راوی ہیں)
۲۸۷۰- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دوکنکریاں پھینکتے ہوئے فرمایا:'' کیاتم جانتے ہو یہ کیا ہے اور یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا:'' یہ امید (وآرزو)ہے اور یہ اجل (موت) ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ انسان کی آرزوئیں بہت ہیں ان آرزؤں کی تکمیل میں وہ سرگرداں رہتاہے، اس کی بہت ساری امیدوں کی تکمیل ابھی باقی ہے اور اچانک موت اسے اپنے آہنی شکنجے میں دبوچ لیتی ہے، گویا انسان یہ کہتاہے کہ موت سے قبل اپنی ساری آرزوئیں پوری کرلے گا جب کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔


2871- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِيمَا خَلاَ مِنْ الأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغَارِبِ الشَّمْسِ، وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ، وَمَثَلُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالا؛ فَقَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْيَهُودُ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ؛ فَقَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ؛ فَعَمِلَتِ النَّصَارَى عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ، ثُمَّ أَنْتُمْ تَعْمَلُونَ مِنْ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغَارِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ؛ فَغَضِبَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى وَقَالُوا: نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلا وَأَقَلُّ عَطَائً قَالَ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا: لا، قَالَ: فَإِنَّهُ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَائُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإجارۃ ۹ (۲۲۶۶۹)، وأحادیث الأنبیاء ۵۰ (۳۴۵۹)، وفضائل القرآن ۱۷ (۵۰۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۵)، وحم (۲/۶، ۱۱۱) (صحیح)
۲۸۷۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہاری مدت گزری ہوئی امتوں کے مقابل میں عصر سے مغرب تک کی درمیانی مدت کی طرح ہے(یعنی بہت مختصر تھوڑی) تمہاری مثال اور یہود ونصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کئی مزدور رکھے۔ اس نے کہا: میرے یہاں کون فی کس ایک قیراط پر دوپہر تک کام کرتاہے؟ تویہود نے ایک ایک قیراط پرکام کیا، پھر اس نے کہا: میرے یہاں کون مزدوری کرتاہے دوپہر سے عصر تک فی کس ایک ایک قیراط پر؟ تونصاریٰ نے ایک قیراط پرکام کیا۔ پھر تم (مسلمان) کام کرتے ہوعصر سے سورج ڈوبنے تک فی کس دو دو قیراط پر۔ (یہ دیکھ کر) یہود ونصاریٰ غصہ ہوگئے، انہوں نے کہا: ہماراکام زیادہ ہے اور مزدوری تھوڑی ہے؟،اللہ نے فرمایا: کیا تمہارا حق کچھ کم کرکے میں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔تو اس نے کہا: یہ میرا فضل وانعام ہے میں جسے چاہوں دوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2872- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّمَا النَّاسُ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لاَ يَجِدُ الرَّجُلُ فِيهَا رَاحِلَةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۳۵ (۶۴۹۸)، م/فضائل الصحابۃ ۶۰ (۲۵۴۷)، ق/الفتن ۱۶ (۳۹۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۶۹۴۵)، وحم (۲/۷، ۴۴، ۷۰، ۱۰۹، ۱۲۱، ۱۲۲، ۱۲۳، ۱۳۰) (صحیح)
۲۸۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لوگ سواونٹ کی طرح ہیں۔ آدمی ان میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاتا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: اچھے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔


2873- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَقَالَ: لاَ تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً أَوْ قَالَ: لاَ تَجِدُ فِيهَا إِلاَّ رَاحِلَةً.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۸۳۵) (صحیح)
۲۸۷۳- سفیان بن عیینہ زہری سے اسی سند سے اسی طرح روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا: تم ان میں ایک بھی سواری کے قابل نہ پاؤگے، یا یہ کہا:تم ان میں سے صرف ایک سواری کے قابل پاسکوگے۔


2874- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا؛ فَجَعَلَتِ الذُّبَابُ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهَا، وَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ، وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۴۰ (۳۴۲۶)، م/الفضائل ۶ (۲۲۸۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۷۹)، وحم (۲/۳۶۱، ۳۹۲) (صحیح)
۲۸۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے (یہی حال تمہارا اور ہماراہے) میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں بچارہاہوں اور تم ہوکہ اس میں(جہنم کی آگ میں) بلاسوچے سمجھے گھسے چلے جارہے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

43-كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۶۳-کتاب: قرآن کریم کے مناقب وفضائل


1-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۱-باب: سورہ فاتحہ کی فضیلت کابیان​


2875- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَرَجَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَا أُبَيُّ " وَهُوَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيٌّ، وَلَمْ يُجِبْهُ، وَصَلَّى أُبَيٌّ؛ فَخَفَّفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَكَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُكَ" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي كُنْتُ فِي الصَّلاَةِ، قَالَ: " أَفَلَمْ تَجِدْ فِيمَا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ {أَنْ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ}" [الأنفال: 24]. قَالَ: بَلَى وَلاَأَعُودُ إِنْ شَائَ اللَّهُ قَالَ: " أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ، وَلاَ فِي الإِنْجِيلِ، وَلاَ فِي الزَّبُورِ، وَلاَ فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا؟ " قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلاَةِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلاَ فِي الإِنْجِيلِ وَلاَ فِي الزَّبُورِ وَلاَ فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۷۰) (صحیح)
۲۸۷۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے وہ صلاۃپڑھ رہے تھے، آپ نے فرمایا:'' اے ابی (سنو) وہ (آواز سن کر) متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا، صلاۃجلدی جلدی پوری کی ، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا : السلام علیک یارسول اللہ !( اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو)،رسول اکرمﷺنے کہا: وعلیک السلام (تم پربھی سلامتی ہو) ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول! میں صلاۃ پڑھ رہاتھا۔ آپ نے فرمایا:'' (اب تک) جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیایہ آیت نہیں ملی{ أَنْ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ } ۱؎ انہوں نے کہا: جی ہاں، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہوگی۔ آپ نے فرمایا:'' کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں ؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! (ضرور سکھائیے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' صلاۃمیں تم (قرآن ) کیسے پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تورات میں ، انجیل میں، زبور میں (حتی کہ ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔یہی سبع مثانی ۲؎ (سات آیتیں) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطاکیاگیا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس بن مالک اور ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : '' اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجالاؤ ،جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔ (انفال۲۴) اس حکم ربانی کی بناپرصحابہ پرواجب تھاکہ آپ ﷺکی پکارکا جواب دیں خواہ صلاۃ ہی میں کیوں نہ ہو، لیکن ان صحابی نے یہ سمجھاتھا کہ یہ حکم صلاۃ سے باہر کے لیے ہے ، اس لیے جواب نہیں دیاتھا۔
وضاحت ۲؎ : چونکہ اس میں سات آیتیں ہیں اس لیے اسے سبع کہاگیا، اور ہر صلاۃ میں یہ سورت دہرائی جاتی ہے، اس لیے اسے مثانی کہاگیا، یا مثانی اس لیے کہاگیا کہ اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ایک مکہ میں دوسرا مدینہ میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآيَةِ الْكُرْسِيِّ
۲-باب: سورہ بقرہ اور آیت الکرسی کی فضیلت کابیان​


2876- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَائٍ مَوْلَى أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ؛ فَاسْتَقْرَأَهُمْ؛ فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ؛ فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا فَقَالَ: مَا مَعَكَ يَا فُلانُ! قَالَ: مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ قَالَ: " أَمَعَكَ سُورَةُ الْبَقَرَةِ؟ " فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ " فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَامَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ إِلاَّ خَشْيَةَ أَلاَّ أَقُومَ بِهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَئُوهُ؛ فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَائٍ مَوْلَى أَبِي أَحْمَدَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۶ (۲۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۴۲) (ضعیف)
(سندمیں عطاء مولی ابی احمد لین الحدیث راوی ہیں)
2876 (م)- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنِ اللَّيْثِ فَذَكَرَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف) (سابقہ حدیث کی علت اس میں بھی ہے)
۲۸۷۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوا یا ، تو ان میں سے ہرایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کرسنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کانمبر آیا توآپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا : مجھے فلاں فلاں اور سورہ بقرہ یاد ہے۔آپ نے کہا: کیاتمہیں سورہ بقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا:'' جاؤ تم ان سب کے امیر ہو۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورہ بقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (صلاۃ تہجدمیں)برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا:'' قرآن سیکھو ، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیوں کہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پرعمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سوگیا اس کا علم اس کے سینے میں بندرہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کردی گئی ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس حدیث کو لیث بن سعد نے سعید مقبری سے ،اورسعید نے ابواحمد کے آزاد کردہ غلام عطا سے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلا ً روایت کیاہے، اور انہوں نے اس روایت میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا۔


2877- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ الْبَقَرَةُ لاَ يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۹ (۲۸۰)، د/المناسک ۱۰۰ (الشق الأول فحسب، وفي سیاق آخر) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۲۲) (صحیح)
۲۸۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2878- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لِكُلِّ شَيْئٍ سَنَامٌ، وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ وَضَعَّفَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۱۳) (ضعیف)
(سندمیں حکیم بن جبیر ضعیف راوی ہیں)
۲۸۷۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''ہرچیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے ۱؎ اور قرآن کی 'چوٹی' سورہ بقرہ ہے، اس سورہ میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف حکیم بن جبیر کی روایت سے جانتے ہیں، ۳-حکیم بن جبیر کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے اور انہیں ضعیف قراردیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس میں کوئی چیز نمایاں ہوتی ہے جو کوہان کی حیثیت رکھتی ہے۔


2879- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ أَبُو سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ مُصْعَبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ قَرَأَ حم الْمُؤْمِنَ إِلَى إِلَيْهِ الْمَصِيرُ وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُمْسِيَ وَمَنْ قَرَأَهُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُصْبِحَ ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْمُلَيْكِيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَزُرَارَةُ بْنُ مُصْعَبٍ هُوَ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَهُوَ جَدُّ أَبِي مُصْعَبٍ الْمَدَنِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۵) (ضعیف)
(سندمیں عبد الرحمن ملیکی ضعیف راوی ہیں)
۲۸۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے سورہ مومن کی (ابتدائی تین آیات) حٰمٓ سے ''إلیہ المصیر'' تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح(بیدار ہونے کے بعدہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی، اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا توان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- بعض اہل علم نے عبدالرحمن بن ابی بکر بن ابی ملیکہ کے حافظے کے سلسلے میں کلام کیاہے،۳- زرارہ بن مصعب کا پورا نام زرارہ بن مصعب بن عبدالرحمن بن عوف ہے،اور وہ ابومصعب مدنی کے دادا ہیں۔
 
Top