• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
31-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ
۳۱-باب: سورہ روم سے بعض آیات کی تفسیر​


3191- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ فِي مُنَاحَبَةِ: {الم غُلِبَتْ الرُّومُ} "أَلاَ احْتَطْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ الْبِضْعَ مَا بَيْنَ ثَلاَثٍ إِلَى تِسْعٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۸۵۶) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن عبد الرحمن جمحی مجہول الحال ہیں، لیکن اس بابت اس قول کے سوا دیگر تفاصیل صحیح ہیں، دیکھیے حدیث رقم ۳۱۹۳، و۳۱۹۴)
۳۱۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کے (قریش سے) شرط لگانے پر کہا:'' اے ابوبکر تم نے شرط لگانے میں { الم غُلِبَتْ الرُّومُ }کی احتیاط کیوں نہ برتی، کیوں کہ لفظ (بضع) تین سے نوتک کے لیے بولاجاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے جسے زہری عبیداللہ کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : مرادہے اللہ تعالیٰ کا یہ قول : {سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ}(الروم:۴)۔


3192- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ظَهَرَتِ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ؛ فَأَعْجَبَ ذَلِكَ الْمُؤْمِنِينَ فَنَزَلَتْ: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ -إِلَى قَوْلِهِ- يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ} قَالَ فَفَرِحَ الْمُؤْمِنُونَ بِظُهُورِ الرُّومِ عَلَى فَارِسَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ كَذَا قَرَأَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ غَلَبَتْ الرُّومُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۹۳۵ (صحیح)
(بعد کی حدیث سے یہ صحیح لغیرہ ہے)
۳۱۹۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : بدر کی لڑائی کے موقع پر جب رومی اہل فارس پر غالب آگئے تو مومنوں کو اس سے خوشی حاصل ہوئی ۱؎ اس پر یہ آیت: { الم غُلِبَتِ الرُّومُ}سے لے کر { يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ } ۲؎ تک نازل ہوئی ،وہ کہتے ہیں: روم کے فارس پر غلبہ سے مسلمان بے حد خوش ہوئے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ایسے ہی نصر بن علی نے {غَلَبَتِ الرُّومُ } (''غ'' اور ''ل'' کے زبر کے ساتھ ) پڑھاہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ رومی اہل کتاب تھے اور مسلمان بھی اہل کتاب اس لیے ان کی کامیابی میں انہیں اپنی کامیابی دکھائی دی۔
وضاحت ۲؎ : رومی مغلوب ہوگئے ہیں، نزدیک کی زمین پر اوروہ مغلوب ہونے کے بعدعنقریب غالب آجائیں گے ، چندسال میں ہی ، اس سے پہلے اوراس کے بعدبھی اختیاراللہ تعالیٰ کا ہی ہے ، اس روزمسلمان شادمان ہوں گے (الروم:۱-۴)۔


3193- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ} قَالَ غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ أَهْلُ فَارِسَ عَلَى الرُّومِ لأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ الأَوْثَانِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ لأَنَّهُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَذَكَرُوهُ لأَبِي بَكْرٍ فَذَكَرَهُ أَبُو بَكْرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَمَا إِنَّهُمْ سَيَغْلِبُونَ" فَذَكَرَهُ أَبُوبَكْرٍ لَهُمْ فَقَالُوا: اجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ أَجَلا فَإِنْ ظَهَرْنَا كَانَ لَنَا كَذَا وَكَذَا، وَإِنْ ظَهَرْتُمْ كَانَ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا؛ فَجَعَلَ أَجَلا خَمْسَ سِنِينَ فَلَمْ يَظْهَرُوا فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "أَلا جَعَلْتَهُ إِلَى دُونَ" قَالَ: أُرَاهُ الْعَشْرَ، قَالَ أَبُوسَعِيدٍ: وَالْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ، قَالَ: ثُمَّ ظَهَرَتِ الرُّومُ بَعْدُ قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {الم غُلِبَتْ الرُّومُ -إِلَى قَوْلِهِ- وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ} قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُ أَنَّهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۸۹)، وحم (۱/۲۷۶، ۳۰۴) (صحیح)
۳۱۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت {الم غَلَبَتِ الرُّومُ فِي أدنىَ الاَرْضِ } کے بارے میں کہتے ہیں : ''غَلَبَتْ '' اور'' غُلِبَتْ '' دونوں پڑھاگیا ہے، کفارو مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آجائیں، اس لیے کہ کفارو مشرکین اور وہسب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آجائیں ، اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے، انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے ، آپ نے فرمایا: ''وہ (رومی) (مغلوب ہوجانے کے بعد پھر) غالب آجائیں گے ،ابوبکر نے جاکر انہیں یہ بات بتائی ، انہوں نے کہا: (ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کرلو، اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا ، اور اگر تم غالب آگئے (جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ توانہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی، لیکن وہ (رومی) اس مدت میں غالب نہ آسکے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بھی رسول اللہ ﷺ کو بتائی ۔ آپ نے فرمایا:'' تم نے اس کی مدت اس سے کچھ آگے کیوں نہ بڑھادی ؟ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ کی مراد اس سے دس (سال ) تھی، ابوسعید نے کہا کہ بضع دس سے کم کوکہتے ہیں،اس کے بعد رومی غالب آگئے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما ) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے قول {الم غُلِبَتِ الرُّومُ} سے {وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ} تک کا یہی مفہوم ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ وہ (رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف سفیان ثوری کی اس روایت سے جسے وہ حبیب بن ابوعمرہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، جانتے ہیں۔


3194- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الأَسْلَمِيِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ} فَكَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: قَاهِرِينَ لِلرُّومِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ لأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَفِي ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ} وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ لأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ كِتَابٍ، وَلاَ إِيمَانٍ بِبَعْثٍ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الآيَةَ: خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَكَّةَ {الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ}[الروم: 1-4] قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ لأَبِي بَكْرٍ: فَذَلِكَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ زَعَمَ صَاحِبُكَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ أَفَلا نُرَاهِنُكَ عَلَى ذَلِكَ قَالَ: بَلَى، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الرِّهَانِ؛ فَارْتَهَنَ أَبُو بَكْرٍ وَالْمُشْرِكُونَ، وَتَوَاضَعُوا الرِّهَانَ، وَقَالُوا لأَبِي بَكْرٍ: كَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلاثُ سِنِينَ إِلَى تِسْعِ سِنِينَ فَسَمِّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ وَسَطًا تَنْتَهِي إِلَيْهِ قَالَ: فَسَمَّوْا بَيْنَهُمْ سِتَّ سِنِينَ قَالَ: فَمَضَتِ السِّتُّ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَظْهَرُوا؛ فَأَخَذَ الْمُشْرِكُونَ رَهْنَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَلَمَّا دَخَلَتِ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَهَرَتِ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْمِيَةَ سِتِّ سِنِينَ لأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى: قَالَ فِي بِضْعِ سِنِينَ، وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِكَ نَاسٌ كَثِيرٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ لانَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۹) (حسن)
۳۱۹۴- نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت { الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ }نازل ہوئی، اس وقت اہل فارس روم پر غالب وقابض تھے، اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آجائیں ، کیوں کہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے، اور اسی سلسلے میں یہ آیت: {وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ } ۱؎ بھی اتری ہے، قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیوں کہ وہ اورا ہل فارس دونوں ہی نہ تواہل کتاب تھے، اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے، جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے چیخ چیخ کر (بآواز بلند) اعلان کیا، { الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ }(رومی مغلوب ہوگئے زمین میں، وہ مغلوب ہوجانے کے بعد چندسالوں میں پھر غالب آجائیں گے)توقریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہوجائے، تمہارے ساتھی (نبی) کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اند ر اندر غالب آجائیں گے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگالیں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ؟ ہم تیار ہیں،ابوبکر اور مشرکین دونوں نے شرط لگالی، اور شرط کامال کہیں رکھوا دیا، مشرکین نے ابوبکر سے کہا: تم بضع کو تین سے ۹ سال کے اندر کتنے سال پر متعین ومشروط کرتے ہو؟ ہمارے اورا پنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کرلو، جس پر فیصلہ ہوجائے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کردی۔ راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا ، مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آگئے،تو مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے بضع سنین کہاتھا،(اور بضع تین سال سے ۹سال تک کے لیے مستعمل ہوتاہے)۔ راوی کہتے ہیں: اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث نیار بن مکرم کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمن بن ابوالزناد کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے، وہ زبردست ہے مہربان بھی ہے (الروم:۴-۵) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
32-بَاب وَمِنْ سُورَةِ لُقْمَانَ
۳۲-باب: سورہ لقمان سے بعض آیات کی تفسیر​


3195- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاتَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ وَلا تَشْتَرُوهُنَّ وَلا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ" وَفِي مِثْلِ هَذَا أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الآيةَ: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَالْقَاسِمُ ثِقَةٌ وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ قَالَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۲۸۲ (ضعیف)
۳۱۹۵- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' گانے والی لونڈیاں نہ بیچو، نہ انہیں خریدو اور نہ انہیں گانا بجانا سکھاؤ، ان کی تجارت میں کوئی بہتری نہیں ہے، ان کی قیمت حرام ہے''، ایسے ہی مواقع کے لیے آپ پر آیت { وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ } ۱؎ آخر تک نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- یہ حدیث قاسم سے ابوامامہ کے واسطہ سے مروی ہے، قاسم ثقہ ہیں اور علی بن یزید میں ضعیف سمجھے جاتے ہیں، یہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے ہوئے سنا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگ ایسے ہیں جولہو لعب کی چیزیں خرید تے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکادیں(لقمان:۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
33-بَاب وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ
۳۳-باب: سورہ سجدہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3196- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ: {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ} نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ الصَّلاةِ الَّتِي تُدْعَى الْعَتَمَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۲) (صحیح)
۳۱۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت { تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ } ۱؎ اس صلاۃ کا انتظار کرنے والوں کے حق میں ا تری ہے جسے رات کی پہلی تہائی کی صلاۃکہتے ہیں، یعنی صلاۃِ عشاء ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں(السجدۃ:۱۶)۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث صحیح ہے ، تواسی کے مطابق اس سے مرادعشاء کی صلاۃلینی چاہئے، (بعض لوگوں نے اس سے مرادتہجدکی صلاۃ کو لیاہے)


3197- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَائً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۸ (۳۲۴۴)، وتفسیرسورۃ السجدۃ ۱ (۴۷۷۹، ۴۷۸۰)، والتوحید ۳۵ (۷۴۹۸)، م/الجنسۃ ۱ (۲۸۲۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۷۵) (صحیح)
۳۱۹۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : میں نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے جسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے، اس کی تصدیق کتاب اللہ (قرآن) کی اس آیت { فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَائً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} ۱؎ سے ہوتی ہے''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کوئی شخص نہیں جانتا جو ہم نے ان کے (صالح) اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک(کے لیے) پوشیدہ رکھ رکھی ہے (السجدۃ:۱۶)


3198- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ وَعَبْدِ الْمَلِكِ -وَهُوَ ابْنُ أَبْجَرَ-، سَمِعَا الشَّعْبِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام سَأَلَ رَبَّهُ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ أَيُّ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَدْنَى مَنْزِلَةً؟ قَالَ رَجُلٌ: يَأْتِي بَعْدَمَا يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ؛ فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ: كَيْفَ أَدْخُلُ؟ وَقَدْ نَزَلُوا مَنَازِلَهُمْ، وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مَا كَانَ لِمَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؛ فَيَقُولُ: نَعَمْ أَيْ رَبِّ قَدْ رَضِيتُ فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ هَذَا، وَمِثْلَهُ وَمِثْلَهُ وَمِثْلَهُ فَيَقُولُ: رَضِيتُ أَيْ رَبِّ فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ هَذَا وَعَشْرَةَ أَمْثَالِهِ؛ فَيَقُولُ: رَضِيتُ أَيْ رَبِّ فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَعَ هَذَا مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ، وَلَذَّتْ عَيْنُكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَالْمَرْفُوعُ أَصَحُّ.
* تخريج: م/الإیمان ۸۴ (۱۸۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۰۳) (صحیح)
۳۱۹۸- شعبی کہتے ہیں : میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کومنبر پر کھڑے ہوکر نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا،آپ نے فرمایا:'' موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے پوچھتے ہوئے کہا: اے میرے رب! کون سا جنتی سب سے کمتر درجے کاہوگا؟ اللہ فرمائے گا: جنتیوں کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد ایک شخص آئے گا،اس سے کہاجائیگا: تو بھی جنت میں داخل ہوجا، وہ کہے گا: میں کیسے داخل ہوجاؤں جب کہ لوگ (پہلے پہنچ کر) اپنے اپنے گھروں میں آباد ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی چیزیں لے لی ہیں، آپ نے فرمایا:'' اس سے کہا جائے گا : دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے پاس جتنا کچھ ہوتا ہے اتنا تمہیں دے دیاجائے، تو کیا تم اس سے راضی وخوش ہوگے؟ وہ کہے گا: ہاں، اے میرے رب ! میں راضی ہوں ، اس سے کہاجائے گا: تو جا تیرے لیے یہ ہے اور اتنا اور اتنا اور اتنا اور، وہ کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوں، اس سے پھر کہاجائے گا جاؤتمہارے لیے یہ سب کچھ اوراس سے دس گنا اور بھی وہ کہے گا ، میرے رب!بس میں راضی ہوگیا ، تو اس سے کہا جائے گا : اس (ساری بخشش وعطایا) کے باوجود تمہارا جی اور نفس جوکچھ چاہے اور جس چیز سے بھی تمہیں لذت ملے وہ سب تمہارے لیے ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ان میں سے بعض (محدثین) نے اس حدیث کو شعبی سے اورانہوں نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔ اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے، لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) مرفوع روایت زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے یہ حدیث مذکورہ آیت ہی کی تفسیرذکرکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
34-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ
۳۴-باب: سورہ احزاب سے بعض آیات کی تفسیر​


3199- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْنَا لابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ}[الأحزاب: 4] مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا يُصَلِّي؛ فَخَطَرَ خَطْرَةً؛ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلاَ تَرَى أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ، قَلْبًا مَعَكُمْ وَقَلْبًا مَعَهُمْ؟! فَأَنْزَلَ اللَّهُ:{مَاجَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ }[الأحزاب: 4].
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۶) (ضعیف) (سندمیں قابوس لین الحدیث راوی ہیں)
3199/م-حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۱۹۹- ابوظبیان کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ذرابتائیں اللہ تعالیٰ کے اس قول {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ} ۱؎ کا کیا معنی ومطلب ہے؟ انہوں نے جواب دیا : نبی اکرم ﷺ ایک دن صلاۃ پڑھ رہے تھے کہ آپ سے کچھ سہو ہوگیا، آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھنے والے منافقین نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں ان کے دودل ہیں ایک تم لوگوں کے ساتھ اور ایک اوروں کے ساتھ ہے۔ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت { مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ} نازل فرمائی۔
۳۱۹۹/م- اس سند بھی اسی طرح روایت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینے میں دودل نہیں بنائے ہیں(الاحزاب:۴)۔


3200- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ عَمِّي أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَكَبُرَ عَلَيَّ فَقَالَ: أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ غِبْتُ عَنْهُ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ أَرَانِي اللَّهُ مَشْهَدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيمَا بَعْدُ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أَصْنَعُ قَالَ: فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْقَابِلِ؛ فَاسْتَقْبَلَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ: يَا أَبَا عَمْرٍو! أَيْنَ؟ قَالَ: وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهَا دُونَ أُحُدٍ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ؛ فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ؛ فَقَالَتْ عَمَّتِي الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ: فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلا بِبَنَانِهِ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۱ (۱۹۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۶) (صحیح)
۳۲۰۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ جن کے نام پر میرانام رکھاگیا تھاجنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے، یہ بات انہیں بڑی شاق اور گراں گزررہی تھی، کہتے تھے: جہاں رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس حاضر وموجود تھے میں اس سے غیرحاضررہا، (اس کا مجھے بے حد افسوس ہے) مگر سنو ! قسم اللہ کی! اب اگر مجھے رسول اللہﷺکے ساتھ کسی غزوہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو یقینا اللہ دیکھے گا کہ میں کیاکچھ کرتا ہوں ، راوی کہتے ہیں: وہ اس کے سوا اور کچھ کہنے سے ڈرتے (اور بچتے) رہے،پھراگلے سال وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں شریک ہوئے، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ان سے سامنا ہوا توا نہوں نے کہا: ابوعمرو! کہاں کا ارادہ ہے انہوں نے کہا: اے واہ ! میں تو احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو پارہاہوں پھر وہ لڑے اور اس شان سے لڑے کہ شہید کردیئے گئے، ان کے جسم میں (۸۰)سے کچھ زائد چوٹ تیر ونیزہ کے زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اپنے بھائی کی نعش صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچان پائی- اسی موقع پر آیت {رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلاً } ۱؎ نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایمان والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کے ساتھ جوانہوں نے وعدے کیے تھے ان میں وہ پورے اترے، ان میں سے کچھ تو انتقال کرگئے اور کچھ لوگ مرنے کے انتظار میں ہیں۔ انہوں نے اس میں یعنی (اللہ سے کیے ہوئے اپنے معاہدہ میں کسی قسم ) کی تبدیلی نہیں کی(الاحزاب:۲۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3201- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ فَقَالَ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمُشْرِكِينَ لَئِنْ اللَّهُ أَشْهَدَنِي قِتَالا لَلْمُشْرِكِينَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ كَيْفَ أَصْنَعُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْكَشَفَ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ هَؤُلائِ يَعْنِي الْمُشْرِكِينَ وَأَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلائِ يَعْنِي أَصْحَابَهُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَلَقِيَهُ سَعْدٌ؛ فَقَالَ: يَاأَخِي! مَا فَعَلْتَ أَنَا مَعَكَ؛ فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَصْنَعَ مَا صَنَعَ؛ فَوُجِدَ فِيهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَةٍ بِسَيْفٍ وَطَعْنَةٍ بِرُمْحٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ؛ فَكُنَّا نَقُولُ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ نَزَلَتْ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ.قَالَ يَزِيدُ يَعْنِي هَذِهِ الآيَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَاسْمُ عَمِّهِ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۸۰۸) (صحیح)
۳۲۰۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے چچا(انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں غیر حاضرتھے، انہوں نے (افسوس کرتے ہوئے) کہا: اس پہلی لڑائی میں جو رسول اللہ ﷺنے مشرکین سے لڑئی میں غیر موجود رہا، اب اگر اللہ نے مشرکین سے مجھے کسی جنگ میں لڑنے کا موقع دیا تو اللہ ضرور دیکھے گا کہ میں (بے جگری وبہادری سے کس طرح لڑتااور) کیاکرتاہوں۔ پھر جب جنگ احد کی لڑائی کا موقع آیا ، اور مسلمان (میدان سے) چھٹ گئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں اس شر سے جسے یہ لوگ یعنی مشرکین لے کر آئے ہیں اور ان سے یعنی آپ کے صحابہ سے جوغلطی سرزد ہوئی ہے، اس کے لیے تجھ سے معذرت خواہ ہوں،پھر وہ آگے بڑھے، ان سے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی، سعد نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ جو بھی کریں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں،(سعدکہتے ہیں:) لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ میں نہ کرسکا،ان کی لاش پر تلوار کی مار کے ،نیزے بھونکنے کے اور تیر لگنے کے اسّی(۸۰) سے کچھ زیادہ ہی زخم تھے، ہم کہتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آیت {فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ } اتری ہے۔یزید (راوی) کہتے ہیں : اس سے مراد یہ (پوری) آیت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- انس بن مالک کے چچا کانام انس بن نضر رضی اللہ عنہما ہے۔


3202- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: أَلا أُبَشِّرُكَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۲۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۴۵) (حسن)
۳۲۰۲- موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا توانہوں نے کہا: کیا میں تمہیں ایک خوش خبری نہ سنادوں؟ میں نے کہا: ضرور ، سنائیے ، کہامیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''طلحہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے {مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ } فرمایاہے'' ،یعنی جو اپنا کام پورا کرچکے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صرف اسی سندسے جانتے ہیں،۲- جبکہ یہ حدیث موسیٰ بن طلحہ صرف طلحہ کی حدیث سے روایت کی جاتی ہے ، (جوآگے آرہی ہے)


3203- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُوسَى وَعِيسَى ابْنَيْ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِمَا طَلْحَةَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالُوا: لأَعْرَابِيٍّ جَاهِلٍ سَلْهُ عَمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ مَنْ هُوَ وَكَانُوا لا يَجْتَرِئُونَ عَلَى مَسْأَلَتِهِ يُوَقِّرُونَهُ، وَيَهَابُونَهُ فَسَأَلَهُ الأَعْرَابِيُّ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ إِنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ وَعَلَيَّ ثِيَابٌ خُضْرٌ؛ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَيْنَ السَّائِلُ عَمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ" قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: هَذَا مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۰۰۵) (حسن صحیح)
۳۲۰۳- طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل دیہاتی سے کہا کہ وہ نبی اکرمﷺ سے {مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ} سے متعلق پوچھے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ وہ لوگ خود آپ سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کررہے تھے، وہ آپ کا ادب واحترام کرتے تھے اور آپ سے ڈرتے بھی تھے، اعرابی نے آپ سے پوچھا، مگر آپ نے اعراض کیا، اس نے پھر پوچھا، آپ نے پھر اس کی طرف توجہ نہ دی، اس نے پھر پوچھا: آپ نے پھر بے رخی برتی ، پھر میں مسجد کے دروازے سے نمودار ہوا اور (اندر آیا) میں (نمایاں) سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا،جب آپ نے مجھے دیکھا تو آپ نے فرمایا:'' {مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ} سے متعلق پوچھنے والا شخص کہاں ہے؟ اعرابی ، (گنوار دیہاتی) نے کہا:اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ شخص(طلحہ) انہی لوگوں میں سے ہے، جنہوں نے اپنے کام اور ذمہ داریاں پوری کردی ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یونس بن بکیر کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3204- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي فَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ! إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلا عَلَيْكِ أَنْ لاتَسْتَعْجِلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ " قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ حَتَّى بَلَغَ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا} فَقُلْتُ فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ، وَفَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا أَيْضًا عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الأحزاب ۴ (۴۷۸۵)، م/الطلاق ۴ (۱۴۷۵)، ن/النکاح ۲ (۳۲۰۳)، والطلاق ۲۶ (۳۴۶۹)، ق/الطلاق ۲۰ (۲۰۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۶۷)، وحم (۶/۷۸، ۱۰۳، ۱۸۵، ۲۴۸، ۲۶۴)، ودي/الطلاق ۵ (۲۲۷۴) (صحیح)
۳۲۰۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیاگیاکہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں ۱؎ توآپ نے اپنی اس کاروائی کی ابتداء مجھ سے کی:آپ نے کہا: عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھتاہوں ، تم اپنے ماں باپ سے مشورہ لیے بغیر جواب دہی میں جلد بازی نہ کرنا،عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ خوب سمجھتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی وعلیحدگی اختیار کرلینے کا حکم نہیں دے سکتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کہتاہے {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ - حَتَّى بَلَغَ - لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا} ۲؎ میں نے کہا: کیامیں اس بارے میں ماں باپ سے مشورہ لوں؟ (نہیں مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) میں اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں،آپ کی دیگر بیویوں نے بھی ویسا ہی کچھ کہاجیسا میں نے کہاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ چاہیں تو آپ کے ساتھ رہیں اور تنگی کی زندگی گزاریں،اوراگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہتی ہیں تو نبی اکرمﷺکا ساتھ چھوڑدیں۔
وضاحت ۲؎ : اے نبی !آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیئے کہ تمہیں اگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہیے تو آؤ میں کچھ دے کر چھوڑ چھاڑدوں، (طلاق کے ساتھ کچھ مال دے کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں) اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہو اور آخرت کا گھر تمہیں مطلوب ہے تو اللہ نے تم نیکو کاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کررکھا ہے(الاحزاب:۲۸-۲۹)۔


3205- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}[الأحزاب:33] فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَائٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَائٍ ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ هَؤُلائِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا" قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: "أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ عَلَى خَيْرٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَطَائٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف و أعادہ في المناقب ۳۲ (برقم ۳۷۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۸۷) (صحیح)
۳۲۰۵- نبی اکرمﷺکے پرودہ عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب آیت {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} ۱؎ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تو آپ نے فاطمہ وحسن حسین ( رضی اللہ عنہم )کو بلایا اور انہیں ایک چادر کے نیچے ڈھانپ دیا، علی رضی اللہ عنہ آپ کی پیٹھ کے پیچھے تھے آپ نے انہیں بھی چادر کے نیچے کرلیا، پھرفرمایا:'' اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت ، میرے گھروالے ، ان سے ناپاکی دورکردے اور انہیں ہرطرح کی آلائشوں سے پوری طرح پاک وصاف کردے''، ام سلمہ کہتی ہیں: اور میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا:'' تم اپنی جگہ ہی ٹھیک ہو ، تمہیں خیر ہی کا مقام ودرجہ حاصل ہے '' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے جسے عطاء عمر بن ابی سلمہ سے روایت کرتے ہیں غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھروالو!تم سے وہ (ہرقسم کی)گندگی کو دورکردے اور تمہیں خوب پاک کردے (الاحزاب:۳۳)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اس آیت میں وارد''اہل البیت''سے مرادبتصریح نبوی علی، فاطمہ ، حسن اورحسین ہیں، ازواج مطہرات کو اگرچہ دیگر فضیلتیں حاصل ہیں مگروہ اس آیت کے اس لفظ کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3206- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَى صَلاَةِ الْفَجْرِ يَقُولُ الصَّلاَةَ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ! إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْحَمْرَائِ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۹) (ضعیف)
(سندمیں ''علی بن زید بن جدعان'' ضعیف ہیں)
۳۲۰۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے سامنے سے چھ مہینے تک گزرتے رہے، جب فجر کے لیے نکلتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ آواز دیتے ''الصلاة يا أهل البيت'' (اے میرے گھروالو! صلاۃ فجر کے لیے اٹھو) {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} (اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری نجاست تم سے دور کردے اور تمہیں پورے طورپر پاک کردے۔)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں،۲- اس باب میں ا بوالحمراء ، معقل بن یسار اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


3207- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الآيَةَ: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ -يَعْنِي بِالإِسْلامِ- وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ} [الأحزاب: 37] يَعْنِي بِالْعِتْقِ؛ فَأَعْتَقْتَهُ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ، وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ، وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ إِلَى قَوْلِهِ، وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمَّا تَزَوَّجَهَا قَالُوا: تَزَوَّجَ حَلِيلَةَ ابْنِهِ؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ} وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ؛ فَلَبِثَ حَتَّى صَارَ رَجُلا يُقَالُ لَهُ: زَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَائَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ} [الأحزاب: 5] فُلانٌ مَوْلَى فُلانٍ وَفُلانٌ أَخُو فُلانٍ {هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ يَعْنِي أَعْدَلُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
3207/م- قَدْ رُوِيَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَوْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الآيَةَ: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ} هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يُرْوَ بِطُولِهِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَضَّاحٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۶۹) (ضعیف الإسناد جداً)
۳۲۰۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اگر رسول اللہ ﷺ وحی کی کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو یہ آیت {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ} ۱؎ سے لے کر {وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولاً} تک چھپالیتے، رسول اللہ ﷺ نے جب ان سے (زینب سے) شادی کرلی تو لوگوں نے کہا: آپ نے اپنے (لے پالک) بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ} ۲؎ نازل فرمائی، زید چھوٹے تھے تبھی رسول اللہ ﷺ نے انہیں منہ بولا بیٹا بنالیاتھا، وہ برابر آپ کے پاس رہے یہاں تک کہ جوان ہوگئے،اوران کو زید بن محمد کہاجانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَائَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ } ۳؎ فلاں فلاں کا دوست ہے اور فلاں فلاں کا دینی بھائی ہے ۴؎ ، ''أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ''یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی کا مفہوم یہ ہے کہ پوراانصاف ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
۳۲۰۷/م- اس سندسے مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں: اگر نبی اکرمﷺوحی میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو آپ یہ آیت {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ}چھپاتے،(اس روایت میں)یہ حدیث کی پوری روایت نہیں کی گئی ہے ۵؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اسلام کے ذریعہ انعام کیے تھے اور آپ نے بھی (اسے آزاد کرکے) اس پر انعام واحسان کیے تھے کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپارہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتاتھا تم لوگوں کے (لعن طعن) سے ڈرتے تھے اور اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔
وضاحت ۲؎ : محمد ﷺ تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین (آخری نبی) ہیں۔
وضاحت ۳؎ : انہیں ان کے (اصلی باپ کی طرف) منسوب کرکے پکارو (جن کے نطفے سے وہ پیدا ہوئے ہیں) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف بات ہے، لیکن اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو (کہ وہ کون ہیں) تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔
وضاحت ۴؎ : اگروہ آزادہوں توترجمہ ہوگا ''فلاں فلاں کے دوست ، حلیف''اوراگرآزادکردہ غلام ہوں تو ترجمہ ہوگا''فلاں فلاں کا آزادکردہ غلام'' یہی بات ''موالیکم''کے ترجمہ میں بھی ملحوظ رہے۔
وضاحت ۵؎ : یعنی: اس حدیث کی دوسندوں میں شعبی کے بعد ''مسروق''کااضافہ ہے ، اوریہی سندیں متصل ہیں(یہ آگے آرہی ہیں) پہلی سندمیں انقطاع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3208- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَوْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ كَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الآيَةَ: {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ} [الأحزاب: 37] الآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر م/الإیمان ۷۷ ۱۷۷/۲۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶) (صحیح)
۳۲۰۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اگر رسول اللہ ﷺ وحی میں سے کوئی چیز چھپالینے والے ہوتے تو آیت {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ } کوچھپاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3209- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا كُنَّا نَدْعُو زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلاَّ زَيْدَ ابْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ}[الأحزاب: 5].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر الأحزاب ۲ (۴۷۸۲)، و۵ (۴۷۸۶)، م/فضائل الصحابۃ ۱۰ (۲۴۲۵)، ویأتي عند المؤلف في المناقب (۳۸۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۱) (صحیح)
۳۲۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمدکہہ کر ہی پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی: ''ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایسے لوگوں کو ان کے اصلی باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارو یہی اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے(الاحزاب:۵)۔


3210- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ} قَالَ مَا كَانَ لِيَعِيشَ لَهُ فِيكُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''مسلمہ بن علقمہ'' صدوق ہیں ، لیکن ان سے احادیث میں ا وہام پائے جاتے ہیں)
۳۲۱۰- عامر شعبی اللہ کے اس قول { مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ } ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد زندہ نہ رہنے والی نرینہ اولاد ہے۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : (لوگو!)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد(ﷺ)نہیں(الاحزاب:۴۰)۔
وضاحت ۲؎ : ورنہ نرینہ اولاد تو آپ کے یہاں بھی پیدا ہوئی ہے۔


3211- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الأَنْصَارِيَّةِ أَنَّهَا أَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: مَا أَرَى كُلَّ شَيْئٍ إِلاَّ لِلرِّجَالِ وَمَا أَرَى النِّسَائَ يُذْكَرْنَ بِشَيْئٍ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ}[الأحزاب: 35] الآيَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۳۷) (صحیح الإسناد)
۳۲۱۱- ام عمارہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺکے پاس آئیں اورعرض کیا : کیا بات ہے میں ہرچیز مردوں ہی کے لیے دیکھتی ہوں اور عورتوں کا (قرآن میں) کہیں ذکر نہیں ملتا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی { إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ } آخرآیت تک۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حدیث صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے۔


3212- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ} [الأحزاب: 37] فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَاءَ زَيْدٌ يَشْكُو فَهَمَّ بِطَلاقِهَا؛ فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر الأحزاب ۶ (۴۷۸۷)، والتوحید ۲۲ (۷۴۲۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۹۶) (صحیح)
۳۲۱۲- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : آیت {وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ } ۱؎ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ ﷺ کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کوطلاق دینے کا ارادہ کرلیا، اس پر انہوں نے نبی اکرمﷺسے مشورہ لیاتو آپ نے فرمایا: ''أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ '' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تم اس چیز کو اپنے جی میںچھپا کر رکھ رہے ہو جس کواللہ ظاہرکرنے والاہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے ) لوگوں سے ڈررہے ہو ) (الاحزاب :۳۷)۔
وضاحت ۲؎ : اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو(الاحزاب:۳۷)یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑرکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺنے اپنے دل میں ان کی بات چھپارکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اورخودان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زیدجلدطلاق دے دیں معاذاللہ ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپﷺکو اشارہ کررہاہے، وہ یہ تھی کہ :اچھاہوتاکہ زیدزینب کو نہیں چھوڑتے ، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہوگی ،تب لوگ کہیں گے :لومحمدنے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرلی (یہ چیزان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی)اسی کواللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہرکردے گا، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کودورکرناہے ، اورلوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتاکہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہوجائے ، اسی طرح لے پالک سے ، دیگرخونی معاملات میں حرمت وحلت کی بات صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3213- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ {فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا} قَالَ: فَكَانَتْ تَفْخَرُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ تَقُولُ: زَوَّجَكُنَّ أَهْلُوكُنَّ وَزَوَّجَنِي اللَّهُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/التوحید ۲۲ (۷۴۲۱)، ن/النکاح ۲۶ (۳۲۵۴) (تحفۃ الأشراف: ۳۰۷، وحم (۳/۲۲۶) (صحیح)
۳۲۱۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یہ آیت {فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا} ۱؎ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتری ہے۔انس کہتے ہیں: چنانچہ اسی بناء پر وہ نبی اکرم ﷺ کی دوسری بیویوں پریہ کہہ کر فخر کرتی تھیں کہ تمہاری شادیاں رسول اللہ ﷺ سے تمہارے گھروالوں (رشتہ داروں) نے کی ہیں، اور میری شادی تو اللہ نے آپ سے ساتویں آسمان پرکردی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : زید نے جب ان سے اپنی حاجت پوری کرلی (انہیں طلاق دے د) تو ہم نے تمہاری شادی اس سے کردی (الاحزاب:۳۷)


3214- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ قَالَتْ: خَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَاعْتَذَرْتُ إِلَيْهِ فَعَذَرَنِي، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالاتِكَ اللاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ} [الأحزاب: 50] الآيَةَ، قَالَتْ: فَلَمْ أَكُنْ أَحِلُّ لَهُ لأَنِّي لَمْ أُهَاجِرْ، كُنْتُ مِنْ الطُّلَقَائِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۹) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ابوصالح باذام مولی ام ہانی ضعیف مدلس راوی ہے)
۳۲۱۴- ام ہانی بنت أبی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے شادی کا پیغام دیا، تو میں نے آپ سے معذرت کر لی ۱؎ تو آپ نے میری معذرت قبول کرلی، پھر اللہ نے یہ آیت { أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللاَّتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالاَتِكَ اللاَّتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ} ۲؎ نازل فرمائی ام ہانی کہتی ہیں کہ اس آیت کی روسے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی میں (فتح مکہ کے موقع پر ) ''طلقاء'' آزاد کردہ لوگوں میں سے تھی، (اور اسی موقع پر ایمان لائی تھی) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہم اس کو سُدّی کی روایت صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ معذرت اس وجہ سے تھی کہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ اس بات سے ڈریں کہ ان کے رونے پیٹنے سیکہیں آپ کو تکلیف نہ ہو۔
وضاحت ۲؎ : اے نبی ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہیں تو ان کے مہردے چکاہے اوروہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اورتیرے چچاکی لڑکیاں اورپھوپھیوں کی بیٹیاں اورتیرے ماموؤں کی بیٹیاں اورتیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اوروہ باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کوہبہ کردے(الاحزاب:۵۰)۔


3215- حَدَّثَنَا عَبْدٌ حَدَّثَنَا رَوْحٌ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نُهِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَصْنَافِ النِّسَائِ إِلا مَا كَانَ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُهَاجِرَاتِ، قَالَ: {لا يَحِلُّ لَكَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ، وَلا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ}[الأحزاب: 50] وَأَحَلَّ اللَّهُ فَتَيَاتِكُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ وَحَرَّمَ كُلَّ ذَاتِ دِينٍ غَيْرَ الإِسْلامِ، ثُمَّ قَالَ: {وَمَنْ يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ} وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكَ -إِلَى قَوْلِهِ - خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ} وَحَرَّمَ مَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ أَصْنَافِ النِّسَائِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ قَالَ: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَذْكُرُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: لاَ بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۶۸۳) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)
۳۲۱۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کو مومن اورمہاجرعورتوں کے سوا دوسری عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا ،(جیساکہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' { لاَ يَحِلُّ لَكَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ } ۱؎ ۔
ا للہ نے(نبی کے لیے) تمہاری جوان مومن مسلمان عورتیں حلال کردی ہیں۔ اور وہ ایمان والی عورت بھی اللہ نے حلال کردی ہیں جو اپنے آپ کو نبی کو پیش کردے۔ اور اسلام کے سوا ہر دین والی عورت کو حرام کردیا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا:'' {وَمَنْ يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ} ۲؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللاَّتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكَ} سے لے کر{خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ } ۳؎ تک ،یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے۴؎ اور دوسرے مومنین کے لیے نہیں (ان کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوسکتا) ان کے علاوہ عورتوں کی اور قسمیں حرام کردی گئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے عبدالحمید بن بہرام کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: عبدالحمید بن بہرام کی شہربن حوشب سے روایات کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ کے لیے آج کے بعد کوئی عورت حلا ل نہیں۔ اور آپ کے لیے یہ بھی حلال نہیں کہ موجودہ بیویوں میں سے کسی بیوی کو ہٹاکر من بھائی عورت سے شادی کرلیں، سوائے ان لونڈیوں کے جن کے آپ مالک بن جائیں (الاحزاب:۵۲)۔
وضاحت ۲؎ : جو ایمان کا منکر ہوا اس کاعمل ضائع گیا ، اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوگا(المائدۃ:۵)۔
وضاحت۳؎ : اے نبی ! ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں اور وہ باندیاں تمہارے لیے حلال کردی ہیں جو اللہ نے تمہیں بطور مال فیٔ (غنیمت) میں عطافرمائی ہیں(الاحزاب:۵۰)۔
وضاحت۴؎ : اس خاص حکم سے مراد یہ ہے کہ نبی کے سوا کسی اورمسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیرمہراوربغیرولی کے عورت سے شادی کرلے، اپنے آپ کو بغیرمہرکے ہبہ کرنا صرف نبی اکرمﷺکے ساتھ خاص ہے ، اس کا تعلق چچازاد، پھوپھی زادخالہ زاد اورماموں زادبہنوں سے شادی سے نہیں ہے ، جبکہ اس دورکے بعض متجددین نے یہ شوشہ چھوڑاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207

3216- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أُحِلَّ لَهُ النِّسَائُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/النکاح ۲ (۳۲۰۶، ۳۲۰۷) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۷۹)، ودي/النکاح ۴۴ (۲۲۸۷) (صحیح الإسناد)
۳۲۱۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہوچکی تھیں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پچھلی حدیث میں مذکورحرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرمﷺکے لیے حلال کردی گئیں تھیں، یہ استنباط عائشہ رضی اللہ عنہا یادیگرنے اس ارشادباری سے کیا ہے،{تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء} (الأحزاب:51) (اے ہمارے حبیب وخلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیارہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اُس سے شادی نہ کرویا موجودبیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو، (گواس کو باری نہ بھی ہو)


3217- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَشْهَلُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: حَدَّثَنَاهُ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَتَى بَابَ امْرَأَةٍ عَرَّسَ بِهَا؛ فَإِذَا عِنْدَهَا قَوْمٌ؛ فَانْطَلَقَ؛ فَقَضَى حَاجَتَهُ؛ فَاحْتُبِسَ، ثُمَّ رَجَعَ، وَعِنْدَهَا قَوْمٌ؛ فَانْطَلَقَ؛ فَقَضَى حَاجَتَهُ؛ فَرَجَعَ وَقَدْ خَرَجُوا قَالَ: فَدَخَلَ وَأَرْخَى بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لأَبِي طَلْحَةَ قَالَ: فَقَالَ لَئِنْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَيَنْزِلَنَّ فِي هَذَا شَيْئٌ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَعَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ يُقَالُ لَهُ: الأَصْلَعُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وراجع: خ/النکاح ۶۷ (۵۱۶۶)، والأطعمۃ ۵۹ (۵۴۶۶)، والاستئذان ۱۰ (۶۲۳۸)، وم/النکاح ۱۵ (۱۴۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۹) (صحیح)
۳۲۱۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرمﷺکے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جاچکے تھے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اورا پنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکادیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: توانہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہوتو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہوگا، پھرآیت حجاب نازل ہوئی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : آیت حجاب سے مرادیہ آیت ہے{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ } إلى { إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا}(الأحزاب:53)(یعنی اے ایمان والو!نبی کے گھروں میں داخل نہ ہواکرو، الاّیہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے ، لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظارنہ کرو،بلکہ جب بلایاجائے تو داخل ہوجاؤاورجب کھاچکوتو فوراً منتشر ہوجاؤ،...اورجب تم امہات المومنین سے کوئی سامان مانگوتو پردے کی اوٹ سے مانگو ...)


3218- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ قَالَ: فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا؛ فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ: يَا أَنَسُ! اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُلْ لَهُ: بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَارَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلامَ وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا مِنَّا لَكَ قَلِيلٌ فَقَالَ: ضَعْهُ، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلانًا وَفُلانًا وَفُلانًا، وَمَنْ لَقِيتَ؛ فَسَمَّى رِجَالاً قَالَ: فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى، وَمَنْ لَقِيتُ، قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ: عَدَدُ كَمْ كَانُوا قَالَ زُهَائَ ثَلاثِ مِائَةٍ، قَالَ: وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَا أَنَسُ هَاتِ التَّوْرَ" قَالَ: فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ" قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ، وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ قَالَ: فَقَالَ لِي: "يَا أَنَسُ! ارْفَعْ" قَالَ: فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ قَالَ: وَجَلَسَ مِنْهُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ فَثَقُلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَابْتَدَرُوا الْبَابَ؛ فَخَرَجُوا كُلُّهُمْ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أَرْخَى السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَاتُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ}[الأحزاب:53] إِلَى آخِرِ الآيَةِ.
قَالَ الْجَعْدُ: قَالَ أَنَسٌ: أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الآيَاتِ وَحُجِبْنَ نِسَائُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْجَعْدُ هُوَ ابْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ هُوَ ابْنُ دِينَارٍ، وَيُكْنَ أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ رَوَى عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ.
* تخريج: خ/النکاح ۶۵ (تعلیقا) م/النکاح ۱۵ (۱۴۲۱/۹۴)، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۵۱۳) (صحیح)
۳۲۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا ) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حیس ۱؎ تیارکیا،اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا،پھر (مجھ سے) کہا: ( بیٹے) انس!اسے لے کر رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا ، میں نے عرض کیا: میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں : یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے ۔ آپ نے فرمایا:'' اسے رکھ دو ، پھر فرمایا:'' جاؤ فلاں فلاں ، اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کومیرے پاس بلاکر لے آؤ، انس کہتے ہیں: جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جوبھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلالیا، راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں : میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کتنے لوگ رہے ہوں گے؟ انہوں نے کہا: تقریباً تین سو ، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' انس (تَور) پیالہ لے آؤ۔ انس کہتے ہیں: لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ (چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا، آپ نے فرمایا:'' دس دس افراد کی ٹولی بنالو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے''،لوگوں نے پیٹ بھرکر کھایا، ایک ٹولی (کھاکر )باہر جاتی اور دوسری ٹولی (کھانے کے لیے) اندر آجاتی اس طرح سبھی نے کھالیا۔ آپﷺ نے مجھ سے کہا: انس : اب (برتن) اٹھالو''۔ میں نے (پیالہ) اٹھالیا، مگر(صحیح صحیح) بتانہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لاکر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یاجب اٹھایا تھا تب؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہوکر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔( انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیاکہ) رسول اللہ ﷺ تشریف فرماہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر بوجھ بن گئے ،آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا (مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آیے، جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آیے ہیں تو انہیں احساس وگمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں ، تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔ رسول اللہ ﷺ آیے دروازہ کا پردہ گرادیا اور خود اندر چلے گئے ، میں کمرے میں بیٹھا ہواتھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ پریہ آیتیں اتریں پھرآپ نے باہر آکر لوگوں کو یہ آیتیں { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ } ۲؎ آخرتک پڑھ کر سنائیں۔ میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں، اور اسی وقت سے رسول اللہ ﷺ کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- جعد : عثمان کے بیٹے ہیں، اور یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصری ہے، اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ (قوی) ہیں، ان سے یونس بن عبید ، شعبہ اورحماد بن زید نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : حیس ایک قسم کا کھانا ہے جو کھجور ، گھی اور ستو سے تیار کیاجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : اے ایمان والو!جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایاکروکھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کاانتظارکرتے رہو،بلکہ جب بلایاجائے تب جاؤاورجب کھاچکونکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایاکرو، نبی کوتمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے (الاحزاب:۵۳)۔
 
Top