• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-بَاب وَمِنْ سُورَةِ يُونُسَ
۱۱-باب: سورہ یونس سے بعض آیات کی تفسیر​


3105- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ} قَالَ: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ نَادَى مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا يُرِيدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوهُ قَالُوا: أَلَمْ يُبَيِّضْ وُجُوهَنَا، وَيُنْجِنَا مِنَ النَّارِ، وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ قَالَ: فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ مَرْفُوعًا رَوَاهُ سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَوْلَهُ: وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ صُهَيْبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: م/الإیمان ۸۰ (۱۸۱)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۸) (صحیح)
۳۱۰۵- صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے آیت: {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ} ۱؎ کی تفسیر اس طرح فرمائی:'' جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارکر کہے گا : اللہ کے پاس تمہارے لیے اس کی طرف سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے اور وہ چاہتاہے کہ تم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کردے۔ توو ہ جنتی کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیئے ہیں اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی ہے اور ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ہے؟ (اب کون سی نعمت باقی رہ گئی ہے؟) آپ نے فرمایا:'' پھر پردہ اٹھادیاجائے گا''، آپ نے فرمایا:'' قسم اللہ کی ! اللہ نے انہیں کوئی ایسی چیز دی ہی نہیں جو انہیں اس کے دیدار سے زیادہ لذیذ اور محبوب ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- حماد بن سلمہ کی حدیث ایسی ہی ہے،۲- کئی ایک نے اسے حما د بن سلمہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سلیمان بن مغیرہ نے یہ حدیث ثابت سے اورثابت نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے ان کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یہ روایت صہیب سے ہے اورصہیب رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے اچھائی(جنت) ہے اور مزید برآں بھی (یعنی دیدارالٰہی) (یونس : ۲۶)۔


3106- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {لَهُمْ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} قَالَ: مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْهَا فَقَالَ: "مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ غَيْرُكَ مُنْذُ أُنْزِلَتْ فَهِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۲۷۳ (صحیح)
3106/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ؛ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
3106/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ. وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۰۶- عطاء بن یسار ایک مصری شخ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے اس آیت {لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا} ۱؎ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے کہا:جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی مجھ سے کسی نے اس آیت کے متعلق نہیں پوچھا (اورمیں نے جب رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے مجھ سے تمہارے سوا کسی نے اس کے متعلق نہیں پوچھا۔ ''یہ بشارت اچھے خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یااس کے لیے (کسی اورکو) دکھایا جاتاہے''۔
۳۱۰۶/م۱- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت کی ۔
۳۱۰۶/م۲- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔ اور اس سند میں عطا ء بن یسار سے روایت کا ذکر نہیں ہے ۲؎ ،۳- اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان کے لیے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں ( یونس : ۶۴)۔
وضاحت ۲؎ : اورابوصالح سمان کا سماع ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے،اس لیے یہ سندبھی متصل ہوئی۔


3107- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لَمَّا أَغْرَقَ اللَّهُ فِرْعَوْنَ قَالَ: {آمَنْتُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ} فَقَالَ جِبْرِيلُ: يَا مُحَمَّدُ! فَلَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا آخُذُ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ؛ فَأَدُسُّهُ فِي فِيهِ مَخَافَةَ أَنْ تُدْرِكَهُ الرَّحْمَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر مایأتي (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۰) (صحیح)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، نیچے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۱۳۰۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''جب اللہ نے فرعون کو ڈبویا تو اس نے (اس موقع پر) کہاکہ میں اس بات پر ایمان لایاکہ اس معبود کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں'' (یونس: ۹۰) پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اے محمد! کاش اس وقت میری حالت دیکھی ہوتی ۔ میں اس ڈر سے کہ کہیں اس (مردود) کو اللہ کی رحمت حاصل نہ ہوجائے ، میں سمندر سے کیچڑ نکال نکال کر اس کے منہ میں ٹھونسنے لگا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


3108- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، وَعَطَائُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ذَكَرَ أَحَدُهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ ﷺ جَعَلَ يَدُسُّ فِي فِي فِرْعَوْنَ الطِّينَ خَشْيَةَ أَنْ يَقُولَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَيَرْحَمَهُ اللَّهُ أَوْ خَشْيَةَ أَنْ يَرْحَمَهُ اللَّهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۶۱، ۵۵۷۲) (صحیح الإسناد)
۳۱۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے ذکر کیا کہ (جب فرعون ڈوبنے لگا) جبرئیل علیہ السلام فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے، اس ڈر سے کہ وہ کہیں لا إلٰہ إلا اللہ نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آجائے۔ راوی کو شک ہوگیا ہے کہ آپ نے{ خَشْيَةَ أَنْ يَقُولَ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فَيَرْحَمَهُ اللَّهُ }کہایا{خَشْيَةَ أَنْ يَرْحَمَهُ اللَّهُ} کہا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ
۱۲-باب: سورہ ہودسے بعض آیات کی تفسیر​


3109- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا؟ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ قَالَ: كَانَ فِي عَمَائٍ مَا تَحْتَهُ هَوَائٌ وَمَا فَوْقَهُ هَوَائٌ، وَخَلَقَ عَرْشَهُ عَلَى الْمَائِ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ الْعَمَائُ أَيْ لَيْسَ مَعَهُ شَيْئٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَكِيعُ بْنُ حُدُسٍ، وَيَقُولُ شُعْبَةُ: وَأَبُوعَوَانَةَ، وَهُشَيْمٌ، وَكِيعُ بْنُ عُدُسٍ وَهُوَ أَصَحُّ، وَأَبُو رَزِينٍ اسْمُهُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۷۶) (ضعیف)
۳۱۰۹- ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ نے فرمایا:'' عماء میں تھا،نہ تو اس کے نیچے ہواتھی نہ ہی اس کے اوپر ۔ اس نے اپنا عرش پانی پر بنایا ۱؎ ''، احمدبن منیع کہتے ہیں : (ہمارے استاد) یزید نے بتایا : عماء کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اسی طرح حماد بن سلمہ نے اپنی روایت میں''وكيع بن حدس'' کہاہے اور شعبہ، ابوعوانہ اور ہشیم نے ''وكيع بن عدس'' کہا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ،۳- ابورزین کانام لقیط بن عامر ہے۔
وضاحت ۱؎ : عماء : اگر بالمدہو تو اس کے معنی سحاب رقیق (بدلی) کے ہیں، اور اگر بالقصر ہو تو اس کے معنی '' لاشیٔ'' کے ہوتے ہیں۔


3110- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: يُمْلِي وَرُبَّمَا قَالَ: يُمْهِلُ لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ} الآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ نَحْوَهُ وَقَالَ: يُمْلِي.
* تخريج: خ/تفسیر ھود ۴ (۴۶۸۶)، م/البر والصلۃ ۱۵ (۲۵۸۳)، ق/الفتن ۲۲ (۴۰۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۳۷) (صحیح)
3110/م- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَقَالَ: يُمْلِي، وَلَمْ يَشُكَّ فِيهِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۱۰- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ ظالم کو مہلت دیتاہے مگرجب اسے گرفت میں لے لیتا ہے پھر تو اسے چھوڑتا بھی نہیں'' ، پھر آپ نے آیت { وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ } ۱؎ تلاوت فرمائی۔ (راوی ابومعاویہ نے کبھی ''یملی'' کہااورسبھی ''یمہل'' دونوں کامعنی ایک ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- ابواسامہ نے بھی اسے برید سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور ''یُملی'' کا لفظ استعمال کیا ہے۔
۳۱۱۰/م- ابوموسیٰ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح روایت کی اور اس میں''یُملی ''کا لفظ کسی شک کے بغیر کہا ۔
وضاحت ۱؎ : ایسی ہی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی ظالم بستی والے کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی سخت ، دردناک ہوتی ہے(ہود: ۱۰۲)


3111- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ هُوَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ} سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! فَعَلَى مَا نَعْمَلُ عَلَى شَيْئٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ أَوْ عَلَى شَيْئٍ لَمْ يُفْرَغْ مِنْهُ، قَالَ: بَلْ عَلَى شَيْئٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، وَجَرَتْ بِهِ الأَقْلاَمُ يَا عُمَرُ! وَلَكِنْ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۴۰) (صحیح)
۳۱۱۱- عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت { فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ } ۱؎ نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے نبی! پھر ہم کس چیز کے موافق عمل کریں؟ کیا اس چیز کے موافق عمل کریں جس سے فراغت ہوچکی ہے (یعنی جس کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے)؟ یا ہم ایسی چیز پرعمل کریں جس سے ابھی فراغت نہیں ہوئی ہے۔(یعنی اس کا فیصلہ ہمارا عمل دیکھ کرکیا جائے گا) آپ نے فرمایا:'' عمر! ہم اسی چیز کے موافق عمل کرتے ہیں جس سے فراغت ہوچکی ہے۔ (اور ہمارے عمل سے پہلے) وہ چیز ضبط تحریر میں آچکی ہے۲؎ ، لیکن بات صرف اتنی ہے کہ ہرشخص کے لیے وہی آسان ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے ۳؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف عبدالملک بن عمرو کی حدیث سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سو ان میں کوئی بدبخت ہوگا اور کوئی نیک بخت (ہود: ۱۰۵)۔
وضاحت ۲؎ : ہمارے وجود میں آنے سے پہلے ہی سب کچھ لکھا جا چکا ہے کہ ہم پیدا ہوکر کیا کچھ کریں گے اور کس انجام کو پہنچیں گے۔
وضاحت ۳؎ : نیک کو نیک عمل کی اور برے کو برے عمل کی توفیق دی جاتی ہے۔


3112- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي عَالَجْتُ امْرَأَةً فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ، وَإِنِّي أَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ أَنْ أَمَسَّهَا وَأَنَا هَذَا فَاقْضِ فِيَّ مَا شِئْتَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ سَتَرَكَ اللَّهُ لَوْ سَتَرْتَ عَلَى نَفْسِكَ؛ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا؛ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَأَتْبَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَجُلا فَدَعَاهُ فَتَلا عَلَيْهِ: {وَأَقِمْ الصَّلاةَ طَرَفَيَ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ هَذَا لَهُ خَاصَّةً قَالَ لا بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رَوَى إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ وَالأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ وَرِوَايَةُ هَؤُلائِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ الثَّوْرِيِّ. وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/مواقیت الصلاۃ ۴ (۵۲۶)، وتفسیر ھود ۴ (۴۶۸۷)، م/التوبۃ ۷ (۲۷۶۳)، د/الحدود ۳۲ (۴۴۶۸)، ق/الإقامۃ ۱۹۳ (۱۳۹۸)، ویأتي بعد حدیث (تحفۃ الأشراف: ۹۱۶۲) (صحیح)
3112/م1- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَسِمَاكٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
3112/م2- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الأَعْمَشَ، وَقَدْ رَوَى سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۱۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرمﷺکے پاس آیاکر عرض کیا:شہر کے بیرونی علاقے میں ایک عورت سے میں ملا اورسوائے جماع کے اس کے ساتھ میں نے سب کچھ کیا، اور اب بذات خود میں یہاں موجود ہوں، تو آپ اب میرے بارے میں جوفیصلہ چاہیں صادر فرمائیں( میں وہ سزا جھیلنے کے لیے تیار ہوں) عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اللہ نے تیری پردہ پوشی کی ہے کاش تونے بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کی ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اور وہ آدمی چلاگیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیچھے ایک آدمی بھیج کر اسے بلایا اور اسے آیت { وَأَقِمْ الصَّلاَةَ طَرَفَيَ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} ۱؎ تک پڑھ کر سنائی ۔ ایک صحابی نے کہا:کیا یہ (بشارت) اس شخص کے لیے خاص ہے؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں، بلکہ سب کے لیے ہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح اسی جیسی روایت کی ہے اسرائیل نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے، ابراہیم نے علقمہ اور اسود سے، اور ان دونوں نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے ، ۳- اوراسی سفیان ثوری نے سماک سے ، سماک نے ابراہیم سے ،ابراہیم نے عبدالرحمن بن یزید سے اور عبدالرحمن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اور ان لوگوں کی روایت سفیان ثوری کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎ ، ۴-شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے ابراہیم سے ، ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے۔
۳۱۱۲/م ۱- اس سند سے ،سفیان نے اعمش سے، (اوراعمش) اور سماک نے ابراہیم سے ، ابراہیم نے عبدالرحمن بن یزید سے اورعبدالرحمن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔
۳۱۱۲/م۲- سفیان سے ،سفیان نے سماک سے، سماک نے ابراہیم سے ،ابراہیم نے عبدالرحمن بن یزید سے اورعبدالرحمن نے عبداللہ بن مسعودکے واسطہ سے ، نبی اکرمﷺسے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔اور اس سند میں اعمش کا ذکر نہیں کیا، اور سلیمان تیمی نے یہ حدیث ابوعثمان نہدی سے روایت کی ، اورابوعثمان نے ابن مسعود کے واسطہ سے ، نبی اکرمﷺسے۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ قائم کرو دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے حصوں میں، بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لیے(ہود: ۱۱۴)۔
وضاحت ۲؎ : یہ گناہ صغیرہ کے بارے میں ہے کیونکہ گناہ کبیرہ سے بغیرتوبہ کے معافی نہیں ہے ، اوراس آدمی سے گناہ صغیرہ ہی سرزدہواتھا۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اسرائیل، ابوالاحوص اورشعبہ کی روایات ثوری کی روایت سے (سنداً)زیادہ صحیح ہے۔


3113- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذٍ؛ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ رَجُلا لَقِيَ امْرَأَةً وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا مَعْرِفَةٌ؛ فَلَيْسَ يَأْتِي الرَّجُلُ شَيْئًا إِلَى امْرَأَتِهِ إِلا قَدْ أَتَى هُوَ إِلَيْهَا إِلا أَنَّهُ لَمْ يُجَامِعْهَا قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَأَقِمْ الصَّلاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ، وَيُصَلِّيَ، قَالَ مُعَاذٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَهِيَ لَهُ خَاصَّةً أَمْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً قَالَ: بَلْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يَسْمَعْ مِنْ مُعَاذٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ مَاتَ فِي خِلافَةِ عُمَرَ، وَقُتِلَ عُمَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى غُلامٌ صَغِيرٌ ابْنُ سِتِّ سِنِينَ وَقَدْ رَوَى عَنْ عُمَرَ وَرَآهُ. وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۴۳) (ضعیف الإسناد)
(مؤلف نے سبب بیان کردیا ہے)
۳۱۱۳- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نبی اکرمﷺکے پاس آکرعرض کیا:اللہ کے رسول! ایک ایسے شخص کے بارے میں مجھے بتائیے جو ایک ایسی عورت سے ملا جن دونوں کا آپس میں جان پہچان ، رشتہ وناطہ (نکاح) نہیں ہے اور اس نے اس عورت کے ساتھ سوائے جماع کے وہ سب کچھ (بوس وکنار چوماچاٹی وغیرہ) کیا جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ کرتاہے؟، (اس پر) اللہ تعالیٰ نے آیت: {وَأَقِمْ الصَّلاةَ طَرَفَيَ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} ناز فرمائی، آپ ﷺ نے اسے وضو کرکے صلاۃ پڑھنے کا حکم دیا، میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اس شخص کے لیے خاص ہے یا سبھی مومنین کے لیے عام ہے ؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں، بلکہ سبھی مسلمانوں کے لیے عام ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، (اس لیے کہ ) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے معاذ سے نہیں سنا ہے، اورمعاذ بن جبل کا انتقال عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا تھا،اورعمر رضی اللہ عنہ جب شہید کیے گئے تو اس وقت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے چھوٹے بچے تھے۔ حالانکہ انہوں نے عمر سے(مرسلاً) روایت کی ہے (جبکہ صرف) انہیں دیکھاہے، ۲-شعبہ نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اورعبدالملک نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے،نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے۔


3114- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلا أَصَابَ مِنْ امْرَأَةٍ قُبْلَةَ حَرَامٍ فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَهُ عَنْ كَفَّارَتِهَا فَنَزَلَتْ: {وَأَقِمْ الصَّلاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ} فَقَالَ الرَّجُلُ: أَلِي هَذِهِ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ لَكَ، وَلِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۱۱۲ (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۶) (صحیح)
۳۱۱۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے ایک (غیرمحرم)عورت کا ناجائز بوسہ لے لیا پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر پوچھا کہ اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پرآیت { وَأَقِمَ الصَّلاةَ طَرَفَيَ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ } نازل ہوئی، اس شخص نے پوچھاکیا یہ (کفارہ) صرف میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا:'' یہ تمہارے لیے ہے اور میری امت کے ہر اس شخص کے لیے جویہ غلطی کربیٹھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3115- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، قَالَ: أَتَتْنِي امْرَأَةٌ تَبْتَاعُ تَمْرًا؛ فَقُلْتُ: إِنَّ فِي الْبَيْتِ تَمْرًا أَطْيَبَ مِنْهُ؛ فَدَخَلَتْ مَعِي فِي الْبَيْتِ؛ فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا؛ فَتَقَبَّلْتُهَا فَأَتَيْتُ أَبَابَكْرٍ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ، وَتُبْ، وَلا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ؛ فَأَتَيْتُ عُمَرَ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ، وَتُبْ وَلا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ؛ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: أَخَلَفْتَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي أَهْلِهِ بِمِثْلِ هَذَا حَتَّى تَمَنَّى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ إِلا تِلْكَ السَّاعَةَ حَتَّى ظَنَّ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ قَالَ: وَأَطْرَقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ طَوِيلا حَتَّى أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ {وَأَقِمْ الصَّلاةَ طَرَفَيْ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ -إِلَى قَوْلِهِ- ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} قَالَ أَبُوالْيَسَرِ: فَأَتَيْتُهُ؛ فَقَرَأَهَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ أَصْحَابُهُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَلِهَذَا خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ: بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ضَعَّفَهُ وَكِيعٌ، وَغَيْرُهُ، وَأَبُو الْيَسَرِ هُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو.
قَالَ: وَرَوَى شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ هَذَا الْحَدِيثَ مِثْلَ رِوَايَةِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَوَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۲۵) (حسن)
۳۱۱۵- ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک عورت میرے پاس کھجور خرید نے آئی، میں نے اس سے کہا: (یہ کھجور جو یہاں موجود ہے جسے تم دیکھ رہی ہو)اس سے اچھی اور عمدہ کھجور گھر میں رکھی ہے۔ چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ گھر میں آگئی ، میں اس کی طرف مائل ہوگیااور اس کوچوم لیا ،تب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: اپنے نفس (کی اس غلطی) پر پردہ ڈال دو، توبہ کرو دوسرے کسی او ر سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرو، لیکن مجھ سے صبر نہ ہوسکاچنانچہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی اس (واقعہ) کا ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا: اپنے نفس کی پردہ پوشی کرو، تو بہ کرو اور کسی دوسرے کو یہ واقعہ نہ بتاؤ۔ (مگر میراجی نہ مانا) میں اس بات پر قائم نہ رہا،اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آکرآپ کو بھی یہ بات بتادی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تم نے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہے اس کی غیر موجود گی میں ایسی حرکت کی ہے؟آپ کی اتنی بات کہنے سے مجھے اتنی غیرت آئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا بلکہ اب لاتا اسے خیال ہواکہ وہ تو جہنم والوں میں سے ہوگیا ہے رسول اللہ ﷺ (سوچ میں) کافی دیر تک سرجھکائے رہے یہاں تک کہ آپ پر بذریعہ وحی آیت { وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيَ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ } نازل ہوئی۔ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ (بشارت) ان کے لیے خاص ہے یاسبھی لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں،بلکہ سبھی لوگوں کے لیے عام ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- قیس بن ربیع کو وکیع وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے۔ اورابوالیسر کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ ہیں،۳- شریک نے عثمان بن عبداللہ سے یہ حدیث قیس بن ربیع کی روایت کی طرح روایت کی ہے،۴- اس باب میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع اورانس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : پچھلی روایات میں مبہم آدمی یہی ابوالیسر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-بَاب وَمِنْ سُورَةِ يُوسُفَ
۱۳-باب: سورہ یوسف سے بعض آیات کی تفسیر​


3116- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ جَاءَنِي الرَّسُولُ أَجَبْتُ ثُمَّ قَرَأَ {فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ} قَالَ: وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى لُوطٍ إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ إِذْ قَالَ: لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ؛ فَمَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ نَبِيًّا إِلاَّ فِي ذِرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر حم (۲/۳۳۲، ۳۸۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۸۱) (حسن)
(''ذروۃ'' کے بجائے ''ثروۃ'' کے لفظ سے یہ حسن ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے )


3116/م-حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، وَعَبْدُ الرَّحِيمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: مَا بَعَثَ اللَّهُ بَعْدَهُ نَبِيًّا إِلاَّ فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو: الثَّرْوَةُ الْكَثْرَةُ وَالْمَنَعَةُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۴۳، ۱۵۰۵۵) (حسن)
۳۱۱۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف باپ کے (یعنی:)یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ۱؎ کی عظمت اورنجابت وشرافت کا یہ حال تھا کہ جتنے دنوں یوسف علیہ السلام جیل خانے میں رہے ۲؎ اگر میں قید خانے میں رہتا ، پھر (بادشاہ کا) قاصد مجھے بلا نے آتا تو میں اس کی پکار پر فوراً جا حاضر ہوتا، یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کی طلبی کو قبول نہ کیا بلکہ کہاجاؤ پہلے بادشاہ سے پوچھو! ان '' محترمات'' کا اب کیا معاملہ ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کا ٹ لیے تھے۔پھر آپ نے آیت: {فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ } ۳؎ کی تلاوت فرمائی۔
آپ نے فرمایا:'' اللہ رحم فرمائے لوط علیہ السلام پر جب کہ انہوں نے مجبور ہوکرتمنا کی تھی: اے کاش میرے پاس طاقت ہوتی ،یا کوئی مضبوط سہارامل جاتا۔ جب کہ انہوں نے کہا: { لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ } ۴؎ ۔ آپ نے فرمایا:'' لوط علیہ السلام کے بعد تو اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے انہیں ان کی قوم کے اعلیٰ نسب چیدہ لوگوں اور بلند مقام والوں ہی میں سے بھیجے''۔
۳۱۱۶/م۱- فضل بن موسیٰ کی حدیث کی طرح ہی حدیث روایت ہے، مگر (ان کی حدیث میں ذرا سافرق یہ ہے کہ) انہوں نے کہا : ''مَا بَعَثَ اللَّهُ بَعْدَهُ نَبِيًّا إِلاَّ فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ '' ( اس حدیث میں'' ذر وہ'' کی جگہ ''ثروه'' ہے ، اور''ثروة''کے معنی ہیں: زیادہ تعداد)۔
محمد بن عمرو کہتے ہیں : ثروہ کے معنی کثرت اور شان وشوکت کے ہیں۔
یہ فضل بن موسیٰ کی روایت سے زیادہ اصح ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جن کی چار پشت میں نبوت و شرافت مسلسل چلی آئی۔
وضاحت ۲؎ : بقول عکرمہ سات سال اور بقول کلبی پانچ برس۔
وضاحت ۳؎ : جب قاصدیوسف کے پاس پہنچاتو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس واپس جااور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟(یوسف :۵۰)۔
وضاحت ۴؎ : کاش میرے پاس قوت ہوتی (کہ میں طاقت کے ذریعہ تمہیں ناروافعل سے روک دیتا) یا یہ کہ مجھے (قبیلہ یا خاندان کا) مضبوط سہاراحاصل ہوتا(ہود:۸۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الرَّعْدِ
۱۴-باب: سورہ رعدسے بعض آیات کی تفسیر​


3117- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَانَ يَكُونُ فِي بَنِي عِجْلٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقْبَلَتْ يَهُودُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا هُوَ؟ قَالَ: "مَلَكٌ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ مَعَهُ مَخَارِيقُ مِنْ نَارٍ يَسُوقُ بِهَا السَّحَابَ حَيْثُ شَائَ اللَّهُ"، فَقَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي نَسْمَعُ؟ قَالَ: "زَجْرُهُ بِالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَهُ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى حَيْثُ أُمِرَ"، قَالُوا: صَدَقْتَ؛ فَأَخْبِرْنَا عَمَّا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ، قَالَ: "اشْتَكَى عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا يُلائِمُهُ إِلا لُحُومَ الإِبِلِ وَأَلْبَانَهَا فَلِذَلِكَ حَرَّمَهَا"، قَالُوا صَدَقْتَ .
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۵) (صحیح)
۳۱۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہودنبی اکرمﷺ کے پاس آئے اورآپ سے کہا: اے ابوالقاسم ! ہمیں رعد کے بارے میں بتایئے وہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا:'' وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔ بادلوں کو گردش دینے (ہانکنے) پر مقرر ہے،اس کے پاس آگ کے کوڑے ہیں۔اس کے ذریعہ اللہ جہاں چاہتاہے وہ وہاں بادلوں کو ہانک کرلے جاتاہے۔ پھر انہوں نے کہا : یہ آوازکیسی ہے جسے ہم سنتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' یہ تو بادل کو اس کی ڈانٹ ہے، جب تک کہ جہاں پہنچنے کا حکم دیاگیا ہے نہ پہنچے ڈانٹ پڑتی ہی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا :آپ نے درست فرمایا:'' اچھا اب ہمیں یہ بتائیے اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) نے اپنے آپ پر کیا چیز حرام کرلی تھی؟ آپ نے فرمایا:'' اسرائیل کو عرق النسا کی تکلیف ہوگئی تھی تو انہوں نے اونٹوں کے گوشت اور ان کا دودھ (بطورنذر) ۱؎ کھانا پینا حرام کرلیاتھا''۔ انہوں نے کہا: آپ صحیح فرمارہے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں :ـ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : مسنداحمدکی روایت کے مطابق : انہوں نے نذرمانی تھی کہ ''اگرمیں صحت یاب ہوگیا تو سب سے محبوب کھانے کواپنے اوپرحرام کروں گا'' اس لیے انہوں نے اونٹوں کے گوشت اوردودھ کواپنے اوپرحرام کرلیاتھا۔


3118- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ}[الرعد: 4] قَالَ: "الدَّقَلُ وَالْفَارِسِيُّ وَالْحُلْوُ وَالْحَامِضُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ هُوَ أَخُو عَمَّارِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَعَمَّارٌ أَثْبَتُ مِنْهُ وَهُوَ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹۱) (حسن)
۳۱۱۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول{وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ} ۱؎ بارے میں فرمایا:'' اس سے مراد ردّی اورسوکھی کھجوریں ہیں، فارسی کھجوریں ہیں، میٹھی اور کڑوی کسیلی کھجوریں ہیں ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- زید بن ابی انیسہ نے اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳- اور سیف بن محمد (جو اس روایت کے راویوں میں سے ہیں) وہ عماربن محمد کے بھائی ہیں اور عمار ان سے زیادہ ثقہ ہیں اور یہ سفیان ثوری کے بھانجے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ہم بعض پھلوں کو بعض پر (لذت اور خوش ذائقگی میں) فضیلت دیتے ہیں (الرعد:۴)۔
وضاحت ۲؎ : ان کوسیراب کرنے والا پانی ایک ہے،نشوونماکرنے والی دھوپ، گرمی اورہواایک ہے، مگررنگ ، شکلیں اورذائقے الگ الگ ہیں، یہ اللہ کا کمال قدرت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-بَاب وَمِنْ سُورَةِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَم
۱۵-باب: سورہ ابراہیم سے بعض آیات کی تفسیر​


3119- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِقِنَاعٍ عَلَيْهِ رُطَبٌ فَقَالَ: {مَثَلُ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَائِ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا}[إبراهيم: 25] قَالَ: "هِيَ النَّخْلَةُ" {وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ}[إبراهيم: 26] قَالَ: هِيَ الْحَنْظَلُ قَالَ: فَأَخْبَرْتُ بِذَلِكَ أَبَا الْعَالِيَةِ؛ فَقَالَ: صَدَقَ وَأَحْسَنَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (ضعیف)
(مرفوعا صحیح نہیں ہے، یہ انس رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں ہے)


3119/م1-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ أَبِي الْعَالِيَةِ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ هَذَا مَوْقُوفًا، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
3119/م2-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۱۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹوکری لائی گئی جس میں تروتازہ پکی ہوئی کھجوریں تھیں،آپ نے فرمایا:''{مَثَلُ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَائِ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا} ۱؎ آپ نے فرمایا:'' یہ کھجور کا درخت ہے، اور آیت {وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ} ۲؎ میں برے درخت سے مراد اندرائن ہے۔ شعیب بن حبحاب (راوی حدیث) کہتے ہیں : میں نے اس حدیث کا ذکر ابوالعالیہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ اور صحیح کہا۔
۳۱۱۹/م۱- امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ،و ہ کہتے ہیں: ہم سے ابوبکر بن شعیب بن حبحاب نے بیان کیا ، اورابوبکر نے اپنے باپ شعیب سے اور شعیب نے انس بن مالک سے اسی طرح اسی حدیث کی ہم معنی حدیث روایت کی ، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ،نہ ہی انہوں نے ابوالعالیہ کا قول نقل کیا ہے، یہ حدیث حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ دصحیح ہے،۲- کئی ایک نے ایسی ہی حدیث موقوفاً روایت کی ہے ،اور ہم حماد بن سلمہ کے سوا کسی کوبھی نہیں جانتے جنہوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہو، اس حدیث کو معمر اور حماد بن زید اور کئی اورلوگوں نے بھی روایت کیا ہے ، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا ہے۔
۳۱۱۹/م۲- ہم سے احمد بن عبدۃ ضبی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے حماد بن زیدنے بیان کیا اور حماد نے شعیب بن حبحاب کے واسطہ سے انس سے قتیبہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ،لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ (کھجور کے درخت) کی ہے جس کی جڑ ثابت و (مضبوط ) ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے برابر (لگاتار) پھل دیتا رہتاہے(ابراہیم :۲۴)۔
وضاحت ۲؎ : برے کلمے (بری بات) کی مثال برے درخت جیسی ہے جو زمین کی اوپری سطح سے اکھیڑ دیا جاسکتا ہے جسے کوئی جماؤ (ثبات ومضبوطی) حاصل نہیں ہوتی (ابراہیم :۲۶)۔


3120- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنِ الْبَرَائِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ} [إبراهيم: 27] قَالَ: "فِي الْقَبْرِ إِذَا قِيلَ لَهُ مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِينُكَ وَمَنْ نَبِيُّكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۸۶ (۱۳۶۹)، وتفسیر سورۃ ابراہیم ۲ (۴۶۹۹)، م/الجنۃ ۱۷ (۲۸۷۱)، د/السنۃ ۲۷ (۴۷۵۰)، ن/الجنائز ۱۱۴ (۲۰۵۹)، ق/الزہد ۳۲ (۴۲۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۲) (وانظر أیضا ماعند د برقم ۳۲۱۲، و۴۸۵۳) (صحیح)
۳۱۲۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ } ۱؎ کی تفسیر میں فرمایا:
''ثابت رکھنے سے مراد قبر میں اس وقت ثابت رکھنا ہے جب قبر میں پوچھا جائے گا: ''من ربك؟'' تمہارا رب-معبود- کون ہے؟ ''وما دينك؟'' تمہارا دین کیا ہے؟ ''ومن نبيك؟'' تمہارا نبی کون ہے؟''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ، قول ثابت (محکم بات) کے ذریعہ دنیاو آخرت دونوں میں ثابت قدم رکھتا ہے (ابراہیم:۲۷)۔
وضاحت ۲؎ : مومن بندہ کہے گا : میرارب (معبود) اللہ ہے ، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔


3121- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: تَلَتْ عَائِشَةُ هَذِهِ الآيَةَ: {يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ} قَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! فَأَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ؟ قَالَ: "عَلَى الصِّرَاطِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: م/المنافقین ۲ (۲۹۷۱)، ق/الزہد ۳۳ (۴۲۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۱۷)، وحم (۶/۳۵، ۱۰۱، ۱۳۴، ۲۱۸)، ودي/الرقاق ۸۸ (۲۸۵۱) (صحیح)
۳۱۲۱- مسروق کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت { يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ} ۱؎ پڑھ کر سوال کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:'' پل صراط پر''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس دن زمین و آسمان بدل کر دوسری طرح کے کردیئے جائیں گے(ابراہیم:۴۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحِجْرِ
۱۶-باب: سورہ حجرسے بعض آیات کی تفسیر​


3122- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَائِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ تُصَلِّي خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَسْنَائَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَكَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَتَقَدَّمُ حَتَّى يَكُونَ فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ لِئَلاَّ يَرَاهَا، وَيَسْتَأْخِرُ بَعْضُهُمْ حَتَّى يَكُونَ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ فَإِذَا رَكَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَائِ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا أَشْبَهُ أَنْ يَكُونَ أَصَحَّ مِنْ حَدِيثِ نُوحٍ.
* تخريج: ن/الإمامۃ ۶۲ (۸۷۱)، ق/الإقامۃ ۶۸ (۱۰۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۵۳۶۴)، وحم (۱/۳۰۵) (صحیح)
۳۱۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ایک خوبصورت عورت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (عورتوں کی صفوں میں) صلاۃپڑھا کرتی تھی تو بعض لوگ آگے بڑھ کر پہلی صف میں ہوجاتے تھے تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکیں اور بعض آگے سے پیچھے آکر آخری صف میں ہوجاتے تھے (عورتوں کی صف سے ملی ہوئی صف میں) پھر جب وہ رکوع میں جاتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے اسے دیکھتے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت {وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ} ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: جعفر بن سلیمان نے یہ حدیث عمرو بن مالک سے اورعمروبن مالک نے ابوالجوزاء سے اسی طرح روایت کی ہے، اور اس میں '' عن ابن عباس'' کا ذکرنہیں کیا ہے۔ اور اس میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ نوح کی حدیث سے زیادہ صحیح و درست ہو۔
وضاحت ۱؎ : ہم خوب جانتے ہیں ان لوگوں کو جوآگے بڑھ جانے والے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جو پیچھے ہٹ جانے والے ہیں (الحجر:۲۴)۔


3123- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ جُنَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لِجَهَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ؛ بَابٌ مِنْهَا لِمَنْ سَلَّ السَّيْفَ عَلَى أُمَّتِي، أَوْ قَالَ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۸) (ضعیف)
(سندمیں جنید مجہول الحال راوی ہیں)
۳۱۲۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جہنم کے سات دروازے ہیں، ان میں سے ایک دروازہ ان لوگوں کے لیے ہے جو میری امت یاامت محمدیہ پر تلوار اٹھائیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ { لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ }(الحجر:۴۴)کی تفسیرمیں لائے ہیں۔


3124- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ أُمُّ الْقُرْآنِ وَأُمُّ الْكِتَابِ وَالسَّبْعُ الْمَثَانِي". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر الحجر ۳ (۴۷۰۴)، د/الصلاۃ ۳۵۱ (...) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۱۴) (صحیح)
۳۱۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سورہ الحمد للہ (فاتحہ)، ام القرآن ہے، ام الکتاب (قرآن کی اصل اساس ہے) اور السبع المثانی ہے (بار بار دہرائی جانے والی آیتیں ) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کو مؤلف نے ارشادباری تعالیٰ: {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ} (الحجر:۸۷)کی تفسیرمیں ذکرکیاہے۔


3125- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلاَ فِي الإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَهِيَ مَقْسُومَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۷۵ (صحیح)
3125/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ عَلَى أُبَيٍّ وَهُوَ يُصَلِّي فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَطْوَلُ وَأَتَمُّ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۷۰) (صحیح)
۳۱۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے تو رات میں اور نہ ہی انجیل میں ام القرآن(فاتحہ)جیسی کوئی سورہ نازل فرمائی ہے،اور یہ سات آیتیں ہیں جو (ہررکعت میں پڑھی جانے کی وجہ سے ) بارباردہرائی جانے والی ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان تقسیم ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے''۔
۳۱۲۵/م- عبدالعزیز بن محمد نے علاء بن عبدالرحمن اورعلاء نے اپنے باپ عبدالرحمن سے اورعبدالرحمن نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ نبی اکرمﷺ اُبی کے پاس گئے ، اس وقت وہ صلاۃ پڑھ رہے تھے۔ (آگے) انہوں نے اسی کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالعزیز بن محمد کی حدیث لمبی اور مکمل ہے اور یہ عبدالحمید بن جعفر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسی طرح کئی ایک نے علاء بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے۔


3126- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ}[الحجر: 93]، قَالَ: "عَنْ قَوْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ. وَقَدْ رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۴۷) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور بشر مجہول راوی ہیں)
۳۱۲۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول { لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ } ۱؎ کے متعلق فرمایا:'' یہ پوچھنا '' لا إلٰہ إلا اللہ'' کے متعلق ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ہم اسے لیث بن ابی سلیم کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ۳-عبداللہ بن ادریس نے لیث بن ابی سلیم سے ، اورلیث نے بشرکے واسطہ سے انس سے ایسے ہی روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم ان سے پوچھیں گے اس کے بارے میں جووہ کرتے تھے(الحجر:۹۲)۔


3127- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلاَّمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ، ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ}".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الآيَةِ: {إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ قَالَ لِلْمُتَفَرِّسِينَ}.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۱۷) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم : ۱۸۲۱)
۳۱۲۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے''، پھر آپ نے آیت { إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ } ۱؎ تلاوت فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، بعض اہل علم نے اس آیت {إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ} کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں اصحاب فراست کے لیے۔
وضاحت ۱؎ : بیشک اس میں نشانیاں ہیں سمجھ داروں کے لیے ہے(الحجر:۷۵)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-بَاب وَمِنْ سُورَةِ النَّحْلِ
۱۷-باب: سورہ نحل سے بعض آیات کی تفسیر​


3128- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ يَحْيَى الْبَكَّائِ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ بَعْدَ الزَّوَالِ تُحْسَبُ بِمِثْلِهِنَّ فِي صَلاةِ السَّحَرِ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَلَيْسَ مِنْ شَيْئٍ إِلا وَيُسَبِّحُ اللَّهَ تِلْكَ السَّاعَةَ "، ثُمَّ قَرَأَ: {يَتَفَيَّأُ ظِلالُهُ عَنْ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ}[النحل: 48] الآيَةَ كُلَّهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۳) (ضعیف)
(سندمیں یحییٰ البکاء ضعیف اورعلی بن عاصم غلطیاں کرجاتے تھے، لیکن تعدد طرق کی بناء پر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے)
۳۱۲۸- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' زوال یعنی سورج ڈھلنے کے بعد ظہر کی صلاۃ سے پہلے چاررکعتیں سحر (تہجد) کی چاررکعتوں کے ثواب کے برابر کا درجہ رکھتی ہیں''، آپ نے فرمایا:'' کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اس گھڑی (یعنی زوال کے وقت) اللہ کی تسبیح نہ بیان کرتی ہو۔ پھر آپ نے آیت { يَتَفَيَّأُ ظِلالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ } ۱؎ پڑھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ، اسے ہم صرف علی بن عاصم کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو نہیں دیکھتے ان کے سائے دائیں اوربائیں اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جھکتے ہیں (النحل:۴۸)۔


3129- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ أُصِيبَ مِنَ الأَنْصَارِ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ رَجُلا، وَمِنْ الْمُهَاجِرِينَ سِتَّةٌ فِيهِمْ حَمْزَةُ فَمَثَّلُوا بِهِمْ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ: لَئِنْ أَصَبْنَا مِنْهُمْ يَوْمًا مِثْلَ هَذَا لَنُرْبِيَنَّ عَلَيْهِمْ قَالَ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ}[النحل: 126] فَقَالَ رَجُلٌ: لاَ قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "كُفُّوا عَنِ الْقَوْمِ إِلاَّ أَرْبَعَةً". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۳) (حسن صحیح الإسناد)
۳۱۲۹- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب اُحد کی جنگ ہوئی تو انصار کے چونسٹھ( ۶۴) اور مہاجرین کے چھ کام آئے۔ ان میں حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ کفارنے ان کا مثلہ کردیاتھا، انصار نے کہا: اگر کسی دن ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوا تو ہم ان کے مقتولین کا مثلہ اس سے کہیں زیادہ کردیں گے۔ پھر جب مکہ کے فتح کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ} ۱؎ نازل فرمادی۔ ایک صحابی نے کہا:''لا قريش بعد اليوم'' (آج کے بعد کوئی قریشی وریشی نہ دیکھا جائے گا) ۲؎ آپ نے فرمایا:'' (نہیں) چار اشخاص کے سوا کسی کو قتل نہ کرو'' ۳؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث ابی بن کعب کی روایت سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اگر تم ان سے بدلہ لو (انہیں سزادو) تو انہیں اتنا ہی سزادو جتنی انہوں نے تمہیں سزا (اور تکلیف) دی ہے اور اگر تم صبر کرلو (انہیں سزانہ دو) تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے(النحل:۱۲۶)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مسلم قریشی کسی کافر قریشی کا خیال نہ کرے گا کیونکہ قتل عام ہوگا۔
وضاحت ۳؎ : ان چاروں کے نام دوسری حدیث میں آئے ہیں اوروہ یہ ہیں:(۱)عکرمہ بن ابی جہل (۲)عبداللہ بن خطل (۳)مقیس بن صبابہ (۴)عبداللہ بن سعدبن ابی سرح ، ان کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ خانہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے ملیں تب بھی انہیں قتل کردو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب وَمِنْ سُورَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ
۱۸-باب: سورہ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر​


3130- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "حِينَ أُسْرِيَ بِي لَقِيتُ مُوسَى قَالَ: فَنَعَتَهُ فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ قَالَ: مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى -قَالَ فَنَعَتَهُ- قَالَ: رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ -يَعْنِي الْحَمَّامَ- وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ قَالَ: وَأُتِيتُ بِإِنَائَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالآخَرُ خَمْرٌ فَقِيلَ لِي: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ؛ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ؛ فَشَرِبْتُهُ فَقِيلَ لِي: هُدِيتَ لِلْفِطْرَةِ، أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۲۴ (۳۳۹۴)، و ۴۹ (۳۴۱۳)، وتفسیر الإسراء ۳ (۴۷۰۹)، والأشربۃ ۱ (۵۵۷۶)، و۱۲ (۵۶۰۳)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۸)، ن/الأشربۃ ۴۱ (۵۶۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۷۰)، وحم (۲/۵۱۲) (صحیح)
۳۱۳۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ( معراج کی رات) جب مجھے آسمان پرلے جایاگیا تو میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام ) سے ہوئی، آپ نے ان کا حلیہ بتایا اور میرا گمان یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: ''موسیٰ لمبے قد والے تھے: ہلکے پھلکے روغن آمیز سر کے بال تھے، شنوء ۃ قوم کے لوگوں میں سے لگتے تھے ، آپ نے فرمایا: ''میری ملاقات عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی، آپ نے ان کا بھی وصف بیان کیا، فرمایا:'' عیسیٰ درمیانے قد کے سرخ (سفید) رنگ کے تھے، ایسا لگتا تھا گویا ابھی دیماس (غسل خانہ) سے نہا دھوکر نکل کر آرہے ہوں، میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا، میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہوں''،آپﷺنے فرمایا: ''میرے پاس دوبرتن لائے گئے، ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی''۔ مجھ سے کہاگیا: جسے چاہو لے لو، تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور دودھ پی گیا، مجھ سے کہاگیا: آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی مل گئی، یا آپ نے فطرت سے ہم آہنگ اور درست قدم اٹھایا، اگرآپ نے شراب کا برتن لے لیاہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تباہی وبربادی کا شکار ہوتی اس لیے کہ شراب کا خاصہ ہی یہی ہے۔(مولف نے ان احادیث کو''اسراء اورمعراج ''کی مناسبت کی وجہ سے ذکرکیاجن کا بیان اس باب کے شروع میں ہے)


3131- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا؛ فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ؛ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ، قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱) (صحیح الإسناد)
۳۱۳۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:جس رات آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایاگیا۔ براق لگام لگایا ہواتھااور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرئیل علیہ السلام نے اسے یہ کہہ کر جھڑ کا : تو محمدﷺ کے ساتھ ایسا کررہاہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہواہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہوگیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں۔


3132- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ جُنَادَةَ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ جِبْرِيلُ بِإِصْبَعِهِ؛ فَخَرَقَ بِهِ الْحَجَرَ وَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷۵) (صحیح)
(تراجع الالبانی۳۵، السراج المنیر ۴۱۲۰)
۳۱۳۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل علیہ السلام نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کردیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3133- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَّى اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ؛ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَفِي الْبَاب عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۱ (۳۸۸۶)، وتفسیر الإسراء ۲ (۴۷۱۰)، م/الإیمان ۷۵ (۱۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۱)، وحم (۳/۳۷۷) (صحیح)
۳۱۳۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلادیاکہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہرکردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید ، ابن عباس ،ابوذر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


3134- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ}[الإسراء: 60] قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ. قَالَ: {وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ}[الإسراء: 60] هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۲ (۳۸۸۸)، وتفسیر الإسراء (۴۷۱۶)، والقدر ۱۰ (۶۶۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۷) (صحیح)
۳۱۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: { وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۲؎ انہوں نے یہ بھی کہا ( وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ) میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء ومعراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل:۶۰)
وضاحت ۲؎ : یعنی خواب میں سیر نہیں ،بلکہ حقیقی وجسمانی معراج تھی۔


3135- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ قُرَشِيٌّ كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}[الإسراء: 78] قَالَ: تَشْهَدُهُ مَلائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةُ النَّهَارِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الصلاۃ ۲ (۶۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۳۲) (صحیح)
3135/م- وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۴۴) (صحیح)
۳۱۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} ۱؎ کے متعلق فرمایا : اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر (وموجود ) ہوتے ہیں'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۱۳۵/م- اس سندسے اعمش نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ اور ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے ایسی ہی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صبح کو قرآن پڑھا کرو کیوں کہ صبح قرآن پڑھنے کاوقت فرشتوں کے حاضر ہونے کا ہوتا ہے(بنی اسرئیل:۷۸)


3136- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ}[الإسراء: 71] قَالَ: "يُدْعَى أَحَدُهُمْ؛ فَيُعْطَى كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ، وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا، وَيُبَيَّضُ وَجْهُهُ، وَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَتَلألأُ؛ فَيَنْطَلِقُ إِلَى أَصْحَابِهِ؛ فَيَرَوْنَهُ مِنْ بَعِيدٍ فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ ائْتِنَا بِهَذَا وَبَارِكْ لَنَا فِي هَذَا حَتَّى يَأْتِيَهُمْ فَيَقُولُ أَبْشِرُوا لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلُ هَذَا قَالَ: وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُسَوَّدُ وَجْهُهُ، وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَى صُورَةِ آدَمَ؛ فَيُلْبَسُ تَاجًا فَيَرَاهُ أَصْحَابُهُ فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا اللَّهُمَّ لاَ تَأْتِنَا بِهَذَا قَالَ: فَيَأْتِيهِمْ فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ أَخْزِهِ؛ فَيَقُولُ أَبْعَدَكُمُ اللَّهُ فَإِنَّ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلَ هَذَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۶) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں عبد الرحمن ابن ابی کریمہ والد سدی مجہول الحال راوی ہے)
۳۱۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول { يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ } ۱؎ کے بارے میں فرمایا:'' ان میں سے جوکوئی (جنتی شخص) بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور اس کا جسم بڑھا کرساٹھ گزکا کردیا جائے گا، اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہو گا اس کے سرپرموتیوں کا جھلملا تا ہوا تاج رکھاجائے گا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا، اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے: اے اللہ ! ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز، اور ہمیں بھی ان میں برکت عطاکر، وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا : تم سب خوش ہوجاؤ۔ ہرشخص کو ایسا ہی ملے گا، لیکن کافر کا معاملہ کیاہوگا؟کا فر کا چہرہ کالا کردیاجائے گا، اور اس کا جسم ساٹھ گزکا کردیاجائے گا جیساکہ آدم علیہ السلام کا تھا، اسے تاج پہنایا جائے گا۔ اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ایسا تاج نہ دے، کہتے ہیں: پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے: اے اللہ ! اسے ذلیل کر ، وہ کہے گا: اللہ تمہیں ہم سے دورہی رکھے ، کیوں کہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- سدی کانام اسماعیل بن عبدالرحمن ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام (اگوا وپیشوا) کے ساتھ بلائیں گے(بنی اسرائیل:۷۱)۔


3137- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} سُئِلَ عَنْهَا قَالَ هِيَ الشَّفَاعَةُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ دَاوُدُ الأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۴۸)، وحم (۲/۴۴۱، ۴۴۴، ۵۲۸) (صحیح)
(سندمیں داود ضعیف اور ان کے باپ یزید عبد الرحمن الأودی الزعافری لین الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم : ۲۳۶۹، ۲۳۷۰)
۳۱۳۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے آیت: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} ۱؎ کے بارے میں پوچھے جانے پر فرمایا:'' اس سے مراد شفاعت ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲-اور داود زغافری :داود اود بن یزید بن عبداللہ اودی ہیں، اور یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عنقریب آپ کا رب آپ کومقام محمودمیں کھڑاکرے گا(بنی اسرائیل :۷۹)


3138- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلاَثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَطْعَنُهَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِهِ، وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ، وَيَقُولُ: {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا}[الإسراء: 81] {جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ}[سبأ: 49]. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/المظالم ۳۲ (۲۴۷۸)، والمغازي ۴۹ (۴۲۸۷)، وتفسیر الإسراء ۱۱ (۴۷۲۰)، م/الجھاد ۳۲ (۱۷۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۳۴) (صحیح)
۳۱۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سوساٹھ بت نصب تھے ، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہاکہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا} ۱؎ { جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ} ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : حق آگیا باطل مٹ گیا باطل کومٹنااورختم ہونا ہی تھا ۔(بنی اسرائیل :۸۱)۔
وضاحت ۲؎ : حق غالب آگیا ہے، اب باطل نہ ابھرسکے گا اورنہ ہی لوٹ کرآئے گا۔(سبا:۴۹)۔


3139- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَكَّةَ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: {وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا} [الإسراء: 80]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۵) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں قابوس لین الحدیث ہیں)
۳۱۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مکہ میں تھے،پھرآپ کو ہجرت کا حکم ملا، اسی موقع پر آیت: {وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا } ۱؎ نازل ہوئی ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : دعاکر، اے میرے رب! مجھے اچھی جگہ پہنچا اور مجھے اچھی طرح نکال، اور اپنی طرف سے مجھے قوی مددگار مہیا فرما (بنی اسرائیل:۸۰)۔


3140- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ: أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ فَقَالَ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} قَالُوا أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا أُوتِينَا التَّوْرَاةَ، وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا فَأُنْزِلَتْ: {قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ} [الكهف: 85] إِلَى آخِرِ الآيَةَ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۳) (صحیح)
۳۱۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قریش نے یہود سے کہاکہ ہمیں کوئی ایسا سوال دوجسے ہم اس شخص (یعنی محمد ﷺ ) سے پوچھیں ، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیاہے؟) اس پر اللہ نے آیت {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} ۱؎ ، انہوں نے کہا : ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں تو راۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت {لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ}نازل ہوئی ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو ! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑاعلم دیاگیاہے(بنی اسرائیل:۸۵)
وضاحت ۲؎ : کہہ دیجیے: اگرمیرے رب کی باتیں ، کلمے ، معلومات ومقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائے (مگرمیرے رب کی حمدوثناء ختم نہ ہو) (الکہف :۱۰۹)۔


3141- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ؛ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ سَأَلْتُمُوهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَتَسْأَلُوهُ؛ فَإِنَّهُ يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ؛ فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! حَدِّثْنَا عَنْ الرُّوحِ؛ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ سَاعَةً، وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَائِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ثُمَّ قَالَ: {الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} [الإسراء:85].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/العلم ۴۷ (۱۲۵)، وتفسیر الإسراء ۱۲ (۴۷۲۱)، والإعتصام ۴ (۷۲۹۷)، والتوحید ۲۸ (۷۴۵۶)، و ۲۹ (۷۴۶۲)، م/المنافقین ۴ (۲۷۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۱۹) (صحیح)
۳۱۴۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرمﷺکے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہاتھا ۔ آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کاسہارا لے لیاکرتے تھے، پھرآپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا :کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، کیوں کہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا(مگر وہ نہ مانے) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، (یہ سوال سن کر ) آپ کچھ دیر (خاموش ) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چنانچہ وحی آہی گئی، پھر آپ نے بتایا : روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3142- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلاثَةَ أَصْنَافٍ صِنْفًا مُشَاةً، وَصِنْفًا رُكْبَانًا، وَصِنْفًا عَلَى وُجُوهِهِمْ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ؟ قَالَ: "إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى وُهَيْبٌ، عَنْ ابْن طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۳) (ضعیف)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)
۳۱۴۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن لوگ تین طرح سے جمع کئے جائیں گے، ایک گروہ چل کر آئے گا ،اور ایک گروہ سوار ہوکر آئے گا اور ایک گروہ اپنے منہ کے بل آئے گا۔ پوچھا گیا : اللہ کے رسول! وہ لوگ اپنے منہ کے بل کیسے چلیں گے؟ آپ نے فرمایا:'' جس نے انہیں قدموں سے چلایاہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے منہ کے بل چلادے، سنو(یہی نہیں ہو گا کہ وہ چلیں گے بلکہ) وہ منہ ہی سے ہر بلندی (نشیب وفراز) اور کانٹے سے بچ کرچلیں گے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- وہیب نے ابن طاؤس سے اور انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ { وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ}( الإسراء:97)۔


3143- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالا وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۲۴ (حسن)
۳۱۴۳- معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم (قیامت میں) جمع کئے جاؤگے: کچھ لوگ پیدل ہوں گے، کچھ لوگ سواری پر، اور کچھ لوگ اپنے منہ کے بل گھسیٹ کر اکٹھا کئے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


3144- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُوالْوَلِيدِ، وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ؛ فَقَالَ: لا تَقُلْ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَهَا تَقُولُ نَبِيٌّ كَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ؛ فَأَتَيَا النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ} [الإسراء: 101]، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلا تَزْنُوا، وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ، وَلا تَسْرِقُوا، وَلا تَسْحَرُوا، وَلا تَمْشُوا بِبَرِيئٍ إِلَى سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ، وَلا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلاتَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلا تَفِرُّوا مِنْ الزَّحْفِ -شَكَّ شُعْبَةُ-، وَعَلَيْكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ خَاصَّةً لا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ"، فَقَبَّلا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ وَقَالا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: "فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تُسْلِمَا؟" قَالا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لايَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ، وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۷۳۳ ، ق/الأدب ۱۶ (۳۷۰۵)، والنسائی فی الکبری فی السیر (۸۶۵۶) وفی المحاربۃ (۳۵۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۱) وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳۹) (ضعیف)
(سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں ،لیکن حافظہ میں تبدیلی آگئی تھی )
۳۱۴۴- صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چارآنکھیں ہوجائیں گی۔ پھروہ دونوں نبی اکرمﷺکے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ } ۱؎ کے بارے میں پوچھاکہ وہ نونشانیاں کیاتھیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، زنانہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو،کسی بَری (بے گناہ) شخص کو (مجرم بناکر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کردے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو۔شعبہ کو شک ہوگیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ با ت ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی(الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اورکہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا:'' پھرتمہیں اسلام قبول کرلینے سے کیاچیز روک رہی ہے؟ دونوں نے جواب دیا داود(علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہو گا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈرہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کردیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم نے موسیٰ کو نونشانیاں دیں(اسرائیل:۱۰۱)۔


3145- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَلاَتَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ قَالَ: نَزَلَتْ بِمَكَّةَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ سَبَّهُ الْمُشْرِكُونَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ} فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ وَلا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِكَ بِأَنْ تُسْمِعَهُمْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر الإسراء ۱۴ (۴۷۲۲)، والتوحید ۱۳۴ (۷۴۹۰)، و ۴۴ (۷۵۲۵)، و ۵۲ (۷۵۴۷)، م/الصلاۃ ۳۱ (۴۴۶)، ن/الإفتتاح ۸۰ (۱۰۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۵۱)، وحم (۱/۲۳، ۲۱۵) (صحیح)
۳۱۴۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: { وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ } ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ ﷺ جب بلندآواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اورجس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے { وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ}نازل کرکے صلاۃ میں قرآن بلندآوازسے پڑھنے سے منع فرمادیا تاکہ وہ قرآن ، اللہ تعالیٰ اور جبرئیل علیہ السلام کوگالیاں نہ دیں اور آگے {وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا} نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں( بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اپنی صلاۃ بلندآوازسے نہ پڑھو(بنی اسرائیل :۱۱۰)۔


3146- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ: {وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا} [الإسراء: 110] قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ؛ فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ؛ فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوهُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ: {وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ} أَيْ بِقِرَائَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ، {وَلا تُخَافِتْ بِهَا} عَنْ أَصْحَابِكَ،{وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا} [الإسراء: 110].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: {وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً} ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے، جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ صلاۃ پڑھتے تھے تو قرآن بلندآوازسے پڑھتے تھے، مشرکین جب سن لیتے تو قرآن ، قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺسے کہا: {وَلاَتَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ} بلند آواز سے صلاۃ نہ پڑھو (یعنی بلند آواز سے قرأت نہ کرو) کہ جسے سن کر مشرکین قرآن کو گالیاں دینے لگیں اور نہ دھیمی آواز سے پڑھو( کہ تمہارے صحابہ سن نہ سکیں) بلکہ درمیان کاراستہ اختیار کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اورنہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کاراستہ اختیار کیجئے (الاسراء:۱۱۰)


3147- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ: أَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: لاَ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ذَاكَ يَا أَصْلَعُ بِمَ تَقُولُ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: بِالْقُرْآنِ بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ؛ فَقَدْ أَفْلَحَ. قَالَ سُفْيَانُ: يَقُولُ: فَقَدْ احْتَجَّ، وَرُبَّمَا قَالَ: قَدْ اَفَلَحَ؛ فَقَالَ: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى}[الإسراء:1]، قَالَ أَفَتُرَاهُ صَلَّى فِيهِ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلاةُ فِيهِ كَمَا كُتِبَتِ الصَّلاَةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ. قَالَ حُذَيْفَةُ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ فَمَا زَايَلاَ ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّى رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الآخِرَةِ أَجْمَعَ، ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا قَالَ: وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ، وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: أخرجہ النسائي في الکبری فی التفسیر (۱۱۲۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۴) (حسن)
۳۱۴۷- زرّ بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس میں صلاۃ پڑھی تھی ؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا : بے شک پڑھی تھی ، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے ، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتاہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زرّبن حبیش نے کہا : میں نے {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى} ۱؎ آیت پیش کی، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہوکہ آپ نے صلاۃ پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں ،انہوں نے کہا: اگر آپ (ﷺ) نے وہاں صلاۃ پڑھ لی ہوتی تو تم پروہاں صلاۃ پڑھنی ویسے ہی فرض ہوجاتی جیسا کہ مسجد حرام میں پڑھنی فرض کردی گئی ہے ۲؎ ، حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا، اس کاقدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا ، کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب وموجو دہرچیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کردیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتاہے؟ نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتون رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
وضاحت ۲؎ : حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے،ورنہ احادیث میں واضح طورسے آیاہے کہ آپﷺنے وہاں انبیاء کی امامت کی تھی،اوربراق کو وہاں باندھابھی تھاجہاں دیگرانبیاء اپنی سواریاں باندھاکرتے تھے (التحفۃ مع الفتح)۔
وضاحت ۳؎ : یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے ۔


3148- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَائُ الْحَمْدِ، وَلا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ، وَلا فَخْرَ قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ؛ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ؛ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَيَقُولُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَى الأَرْضِ، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا؛ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُ: إِنِّي دَعَوْتُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ دَعْوَةً؛ فَأُهْلِكُوا، وَلَكِنْ اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ: إِنِّي كَذَبْتُ ثَلاثَ كَذِبَاتٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْهَا كَذِبَةٌ إِلا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِينِ اللَّهِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى؛ فَيَأْتُونَ مُوسَى؛ فَيَقُولُ: إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا، وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا، قَالَ: فَيَأْتُونَنِي؛ فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ"، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي، وَيُرَحِّبُونَ بِي؛ فَيَقُولُونَ مَرْحَبًا؛ فَأَخِرُّ سَاجِدًا؛ فَيُلْهِمُنِي اللَّهُ مِنْ الثَّنَائِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِكَ، وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا}"[الإسراء: 79]. قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلاَّ هَذِهِ الْكَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۷ (۴۳۰۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۶۷) (صحیح)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۱۴۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈنہیں ہے، میرے ہاتھ میں حمد (وشکر) کا پرچم ہوگا اور مجھے (اس اعزاز پر ) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی( اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے،آپ نے فرمایا:'' (قیامت میں ) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہوگی ، لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: آپ ہمارے باپ ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت( سفارش) کردیجئے، وہ کہیں گے: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیاگیاتھا، تم لوگ نوح کے پاس جاؤ، وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، مگرنوح علیہ السلام کہیں گے: میں زمین والوں کے خلاف بددعا کرچکاہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جاچکے ہیں، لیکن ایسا کرو، تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے ، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: میں تین جھوٹ بول چکاہوں آپ نے فرمایا:'' ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا، بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت وتائید مقصود تھی، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، تو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ، موسی علیہ السلام کہیں گے : میں ایک قتل کرچکاہوں ، لیکن تم عیسیی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔تووہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: اللہ کے سوا مجھے معبود بنالیاگیا تھا ، تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، آپ نے فرمایا:'' لوگ میرے پاس (سفارش کرانے کی غرض سے) آئیں گے، میں ان کے ساتھ (دربار الٰہی کی طرف) جاؤں گا ، ابن جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں : انس نے کہا: مجھے ایسا لگ رہاہے گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہاہوں، آپ نے فرمایا:'' میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر) پکڑ کر اسے ہلا ؤں گا، پوچھا جائے گا: کون ہے؟ کہاجائے گا : محمد ہیں، وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے، اور مجھے خوش آمدید کہیں گے، میں (اندر پہنچ کر اللہ کے حضور) سجدے میں گرجاؤں گا او ر حمد وثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گا وہ میں سجدے میں اداکروں گا، پھر مجھ سے کہاجائے گا: اپنا سر اٹھائیے ، مانگیے (جوکچھ مانگناہو) آپ کودیاجائے گا۔ (کسی کی سفارش کرنی ہوتو) سفارش کیجئے آپ کی شفاعت (سفارش) قبول کی جائے گی، کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ اوروہ جگہ( جہاں یہ باتیں ہوں گی) مقام محمود ہوگا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا } ۱؎ ۔سفیان ثوری کہتے ہیں: انس کی روایت میں اس کلمے { فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا } کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- بعض محدثین نے یہ پوری حدیث ابونضرہ کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود میں بھیجے ۔(بنی اسرائیل:۷۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ
۱۹-باب: سورہ کہف سے بعض آیات کی تفسیر​


3149- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى صَاحِبِ الْخَضِرِ، قَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: “قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ؛ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ؛ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ: أَيْ رَبِّ؛ فَكَيْفَ لِي بِهِ؛ فَقَالَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ؛ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ؛ فَهُوَ، ثَمَّ فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ؛ فَجَعَلَ مُوسَى حُوتًا فِي مِكْتَلٍ؛ فَانْطَلَقَ هُوَ، وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَى، وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمِكْتَلِ؛ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جَرْيَةَ الْمَائِ حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ، وَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى، وَلِفَتَاهُ عَجَبًا؛ فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا، وَلَيْلَتِهِمَا وَنُسِّيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى {قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا} قَالَ: وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ {قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا} قَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ؛ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ: يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا قَالَ سُفْيَانُ: يَزْعُمُ نَاسٌ أَنَّ تِلْكَ الصَّخْرَةَ عِنْدَهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ، وَلايُصِيبُ مَاؤُهَا مَيِّتًا إِلا عَاشَ، قَالَ: وَكَانَ الْحُوتُ قَدْ أُكِلَ مِنْهُ فَلَمَّا قُطِرَ عَلَيْهِ الْمَائُ عَاشَ، قَالَ: فَقَصَّا آثَارَهُمَا حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ؛ فَرَأَى رَجُلا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ؛ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَقَالَ: أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلامُ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا مُوسَى! إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ لا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لا تَعْلَمُهُ فَقَالَ مُوسَى: {هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا} قَالَ لَهُ الْخَضِرُ: {فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلاَ تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا} قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ، وَمُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ؛ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ؛ فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا؛ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ؛ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ؛ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ؛ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ؛ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا {قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لاتُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا} ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ؛ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ وَإِذَا غُلامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ؛ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ؛ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ قَالَ لَهُ مُوسَى: {أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا} {قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا} قَالَ: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الأُولَى {قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ} يَقُولُ: مَائِلٌ فَقَالَ الْخَضِرُ: بِيَدِهِ هَكَذَا؛ فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ؛ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا، وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا” قَالَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “الأُولَى كَانَتْ مِنْ مُوسَى نِسْيَانٌ قَالَ وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ؛ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي، وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَكَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ: وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ كَافِرًا”.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا مُزَاحِمٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ حَجَجْتُ حَجَّةً، وَلَيْسَ لِي هِمَّةٌ إِلا أَنْ أَسْمَعَ مِنْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْخَبَرَ حَتَّى سَمِعْتُهُ يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَقَدْ كُنْتُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ سُفْيَانَ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْخَبَرَ.
* تخريج: خ/العلم ۱۶ (۷۴)، ۱۹ (۷۸)، ۴۴ (۱۲۲)، والإجارۃ ۷ (۲۲۶۷)، والشروط ۱۲ (۲۷۲۸)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۷۸)، والأنبیاء (۳۴۰۰)، وتفسیر الکھف ۴ (۴۷۲۵)، والتوحید ۳۱ (۷۴۷۸)، م/الفضائل ۴۶ (۲۳۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۹) (صحیح)
۳۱۴۹- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتاہے کہ نبی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہماالسلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :’’ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والاکون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والاہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے ) نہیں کہا، اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین (دوسمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے ، وہ تم سے بڑا عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ نے کہا: زنبیل (تھیلے)میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہوجائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا، موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے، موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی ، دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے ، اور وہاں سوگئے،( سونے کے دوران) مچھلی تڑپی ، تھیلے سے نکل کر سمندر میں جاگری، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاو ٔ کو روک دیا، یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا،موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی، وہ نیند سے بیدار ہوکر باقی دن ورات چلتے رہے، موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کرسمندر میں جاچکی ہے، صبح ہوئی توموسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیاتھا، غلام نے کہا: بھلا دیکھئے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے ( کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا، اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاددلانیسے غافل نہیں کیا ہے، وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تووہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے، پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے، وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں) (سفیان (راوی) کہتے ہیں:کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے، جس کسی مردے کو اس کا پانی چھوجائے وہ زندہ ہوجاتاہے)، مچھلی کچھ کھائی جاچکی تھی۔مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہوگئی، دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام عرض کیا،انہوں نے کہا : تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں، (اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا:بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ کہا: ہاں ، انہوں نے کہا : اے موسیٰ اللہ کے (بے شماراور بے انتہاء) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے، اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا، اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے، اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشدوہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھادیں گے؟ انہوں نے کہا: آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے، اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ( اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا:نہیں،میں ان شاء اللہ جموں(اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اورمخالفت) نہیں کروں گا۔ ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا:اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتانہ دوں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں ہاں، (بالکل ایسا ہی ہوگا) پھرخضر وموسیٰ چلے، دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کرچلے جارہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری ، ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پرسوار کرلو، (باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا، ان دونوں کو کشتی پر چڑھالیا، اور ان سے کرایہ نہ لیا، مگر خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا، (یہ دیکھ کر موسیٰ سے صبر نہ ہوا) بول پڑے ، ایک تویہ (کشتی والے شریف )لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبودیں، یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا، انہوں نے کہا: کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکاہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسی علیہ السلام نے کہا: آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا( کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کررکھاہے) اور آپ میرے کام ومعاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں، پھروہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا، خضر نے اس کا سرپکڑ ا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مارڈالا، (موسیٰ سے پھر رہانہ گیا ) موسیٰ نے کہا: آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی، یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے۔ (کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا، (اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (یہ بھول بھی ہوہی گئی) اب اگر میں ا س کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے ، میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ دونوں آگے بڑھے، ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا: آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کردیا، وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی، راوی کہتے ہیں: جھکی ہوئی تھی تو خضر نے ہاتھ (بڑھاکر) دیوار سیدھی کھڑی کردی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: یہ تو (ایسی گئی گذری ) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے ، مگرانہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی، ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں، آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کردینے کی اجرت لے لیتے۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اب آگئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی، جن باتوں پرتم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتاہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے ، ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتاکہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب وغریب) خبریں سنتے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی، آپ نے فرمایا:’’ (اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اورکشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھرسمندر سے اپنی چونچ مارکر پانی نکالا ، خضر نے موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کرکے کہا: اس چڑیاکے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے، ( اس لیے متکبر انہ جملہ کہنے کے بجائے اللہ اعلم کہنا زیادہ بہتر ہوتا)۔
سعید بن جبیر کہتے ہیں: ابن عباس ( وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا {وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا } ۲؎ پڑھاکرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کو زہری نے عبید اللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اورابن عباس نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے واسطہ سے ،نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے ،سعید نے ابن عباس سے اورابن عباس نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے،۳- میں نے ابومزاحم سمر قندی کوکہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کوسنا وہ کہتے تھے : میں نے حج کیا، اور میرا حج سے مقصد صر ف یہ تھا کہ میں سفیان سے خودسن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ ’’ اخبرنا ‘‘ استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چنانچہ میں نے سنا ، انہوں نے حدثنا عمرو بن دینار …‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکاتھا اور اس میں خبر (یعنی اخبرنا) کا ذکر نہیں تھا۔
وضاحت ۱؎ : اوران کے آگے ایک بادشاہ تھا جوہرایک (صحیح سالم)کشتی کوجبراضبط کرلیتا تھا(الکہف:۷۹)(موجودہ مصاحف میں ’’صالحۃ‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : اوروہ لڑکاکافرتھا جیساکہ قرآن میں ہے: {وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا } (الكهف:80) اورجہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اُس کے ماں باپ ایمان والے تھے ، چنانچہ ہم ڈرگئے کہ ایسانہ ہو یہ لڑکا بڑا ہوکراپنے ماں باپ کو بھی شرارت وسرکشی اوکفر میں ڈھانپ دے۔


3150- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَليٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: “الْغُلاَمُ الَّذِي قَتَلَهُ الْخَضِرُ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا”.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۵۰- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ وہ لڑکا جسے خضر علیہ السلام نے مارڈالا تھا پیدا ئشی کافر تھا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3151- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرَ لأَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَائَ فَاهْتَزَّتْ تَحْتَهُ خَضْرَائَ”. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۷۹۵) (صحیح)
۳۱۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ خضر نام اس لیے پڑا کہ وہ سوکھی ہوئی گھاس پر بیٹھے،تو وہ ہری گھاس میں تبدیل ہوگئی‘‘(یہ اللہ کی طرف سے معجزہ تھا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3152- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ الْجَزَرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يُوسُفَ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا قَالَ: ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۹۶) (ضعیف)
(سندمیں یزید بن یوسف الصنعانی ضعیف راوی ہیں)


3152/م-حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يُوسُفَ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ مَكْحُولٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج(م): انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۱۵۲- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول { وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا} ۱؎ کے بارے میں فرمایا:’’ کنز سے مراد سونا چاندی ہے‘‘۔
۳۱۵۲/م- اس سند سے یزید بن یزید بن جابرکے واسطہ سے مکحول سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث آئی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں یتیم بچوں کاخزانہ ان کی اس دیوارکے نیچے دفنتھا(الکہف:۸۲)۔


3153- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ وَاللَّفْظُ لابْنِ بَشَّارٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي السَّدِّ، قَالَ: يَحْفِرُونَهُ كُلَّ يَوْمٍ حَتَّى إِذَا كَادُوا يَخْرِقُونَهُ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا؛ فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا؛ فَيُعِيدُهُ اللَّهُ كَأَشَدِّ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَ مُدَّتَهُمْ، وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: الَّذِي عَلَيْهِمْ ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَهُ غَدًا إِنْ شَائَ اللَّهُ وَاسْتَثْنَى قَالَ: فَيَرْجِعُونَ؛ فَيَجِدُونَهُ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ؛ فَيَخْرِقُونَهُ؛ فَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ؛ فَيَسْتَقُونَ الْمِيَاهَ وَيَفِرُّ النَّاسُ مِنْهُمْ؛ فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ فِي السَّمَائِ؛ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدِّمَائِ؛ فَيَقُولُونَ: قَهَرْنَا مَنْ فِي الأَرْضِ، وَعَلَوْنَا مَنْ فِي السَّمَائِ قَسْوَةً، وَعُلُوًّا فَيَبْعَثُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَهْلِكُونَ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ دَوَابَّ الأَرْضِ تَسْمَنُ، وَتَبْطَرُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِثْلَ هَذَا.
* تخريج: ق/الفتن ۳۳ (۴۰۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۷۰)، وحم (۲/۵۱۰-۵۱۱) (صحیح)
( سندمیں انقطاع ہے اس لیے کہ قتادہ کا سماع ابورافع سے نہیں ہے،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہوالصحیحۃ رقم: ۱۷۳۵)
۳۱۵۳- ابورافع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث میں سے سد (سکندری) سے متعلق حصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’ (یاجوج وماجوج اور ان کی ذریت) اسے ہردن کھودتے ہیں، جب وہ اس میں شگاف ڈال دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کا نگراں(جوان سے کام کرارہاہوتاہے) ان سے کہتاہے: واپس چلوکل ہم اس میں سوراخ کردیں گے، ادھر اللہ اسے پہلے زیادہ مضبوط وٹھوس بنادیتاہے، پھر جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی اور اللہ ان کولوگوں تک لے جانے کا ارادہ کرے گا، اس وقت دیوار کھودنے والوں کا نگراں کہے گا: لوٹ جاؤ کل ہم اسے ان شاء اللہ توڑ دیں گے، آپ نے فرمایا:’’ پھر جب وہ (اگلے روز) لوٹ کر آئیں گے تو وہ اسے اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں و ہ اسے چھوڑ کر گئے تھے ۱؎ ، پھر وہ اسے توڑ دیں گے، اورلوگوں پرنکل پڑیں گے (ٹوٹ پڑیں گے) ساراپانی پی جائیں گے، لوگ ان سے بچنے کے لیے بھاگیں گے، وہ اپنے تیرآسمان کی طرف پھینکیں گے، تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آگئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت وبلندی میں بڑھ گئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے)پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا جس سے وہ مرجائیں گے، آپ نے فرمایا:’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، زمین کے جانور ان کا گوشت کھاکھاکر موٹے ہوجائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے ‘‘۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے ایسے ہی جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس نے اس بار’’إن شاء اللہ ‘‘کہا ہوگا ،پہلے وہ ایساکہنابھول جایاکرے گاکیونکہ اللہ کی یہی مصلحت ہوگی۔
وضاحت۲؎ : مؤلف یہ حدیث ارشادباری: {إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ}(الکہف :۹۴)کی تفسیرمیں لائے ہیں۔


3154- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ ابْنِ مِينَائَ، عَنْ أَبِي سَعْدِ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ مِنْ الصَّحَابَةِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: “إِذَا جَمَعَ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِيَوْمٍ لا رَيْبَ فِيهِ نَادَى مُنَادٍ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ أَحَدًا فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَائِ عَنِ الشِّرْكِ”.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۱ (۴۲۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۴۴) (حسن)
۳۱۵۴- ابوسعید بن ابی فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے جمع کرے گا تو پکارنے والا پکار کرکہے گا: جس نے اللہ کے واسطے کوئی کام کیا ہو اور اس کام میں کسی کو شریک کرلیاہو، وہ جس غیر کو اس نے شریک کیا تھا اسی سے اپنے عمل کا ثواب مانگ لے، کیوں کہ اللہ شرک سے کلی طورپربے زار وبے نیاز ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن بکر کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف یہ حدیث ارشادباری{فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا} (الكهف:110) کی تفسیر میں لائے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-بَاب وَمِنْ سُورَةِ مَرْيَمَ
۲۰-باب: سورہ مریم سے بعض آیات کی تفسیر​


3155- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى نَجْرَانَ فَقَالُوا لِي: أَلَسْتُمْ تَقْرَئُونَ: {يَا أُخْتَ هَارُونَ} وَقَدْ كَانَ بَيْنَ عِيسَى وَمُوسَى مَا كَانَ فَلَمْ أَدْرِ مَا أُجِيبُهُمْ؛ فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: أَلاَ أَخْبَرْتَهُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِهِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ،لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ.
* تخريج: م/الآداب ۱ (۲۱۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۹) (صحیح)
۳۱۵۵- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھے نجران بھیجا(وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ لوگ {يَا أُخْتَ هَارُونَ} ۱؎ نہیں پڑھتے؟ جب کہ موسیٰ وعیسیٰ کے درمیان(فاصلہ) تھا جو تھا ۲؎ میری سمجھ میں نہیں آ یا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ میں لوٹ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو بتایا ،تو آپ نے فرمایا:'' تم نے انہیں کیوں نہیں بتادیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیا وصالحین کے ناموں پر نام رکھاکرتے تھے ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے، اور ہم اسے صرف ابن ادریس ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے ہارون کی بہن تیراباپ غلط آدمی نہیں تھا، اورنہ تیری ماں بدکارتھی۔
وضاحت ۲؎ : پھر تویہ بات غلط ہے کیوں کہ یہاں خطاب مریم سے ہے مریم کو ہارون کی بہن کہاگیا ہے، ہارون موسیٰ کے بھائی تھے، اور موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے زمانوں میں ایک لمبا فاصلہ ہے، پھر مریم کو ہارون کی بہن کہنا کیسے صحیح ہوسکتاہے؟۔
وضاحت ۳؎ : یعنی آیت میں جس ہارون کا ذکر ہے وہ مریم کے بھائی ہیں، اور وہ ہارون جوموسیٰ کے بھائی ہیں وہ اور ہیں۔


3156- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : {وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ} قَالَ: يُؤْتَى بِالْمَوْتِ كَأَنَّهُ كَبْشٌ أَمْلَحُ حَتَّى يُوقَفَ عَلَى السُّورِ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ؛ فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ! فَيَشْرَئِبُّونَ، وَيُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ! فَيَشْرَئِبُّونَ؛ فَيُقَالُ هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؛ فَيَقُولُونَ نَعَمْ هَذَا الْمَوْتُ؛ فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ فَلَوْلا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لأَهْلِ الْجَنَّةِ الْحَيَاةَ فِيهَا، وَالْبَقَائَ لَمَاتُوا فَرَحًا وَلَوْلا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لأَهْلِ النَّارِ الْحَيَاةَ فِيهَا، وَالْبَقَائَ لَمَاتُوا تَرَحًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر مریم ۱ (۴۷۳۰)، م/الجنۃ ۱۳ (۲۸۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۰۲) (صحیح)
۳۱۵۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت { وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ } ۱؎ پڑھی (پھر) فرمایا:'' موت چتکبری بھیڑ کی صورت میں لائی جائے گی اور جنت وجہنم کے درمیان دیوار پر کھڑی کردی جائے گی، پھر کہاجائے گا: اے جنتیو! جنتی گردن اٹھاکر دیکھیں گے، پھر کہاجایے گا: اے جہنمیو! جہنمی گردن اٹھاکر دیکھنے لگیں گے، پوچھا جائے گا: کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے: ہاں ، یہ موت ہے، پھراسے پہلو کے بل پچھاڑ کر ذبح کردیا جائے گا، اگر اہل جنت کے لیے زندگی وبقاء کافیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ خوشی سے مرجاتے، اور اگر اہل جہنم کے لیے جہنم کی زندگی اور جہنم میں ہمیشگی کافیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ غم سے مرجاتے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے نبی! ان کو حسرت وافسوس کے دن سے ڈراؤ(مریم:۳۹)۔


3157- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ فِي قَوْلِهِ: وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لَمَّا عُرِجَ بِي رَأَيْتُ إِدْرِيسَ فِي السَّمَائِ الرَّابِعَةِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَهَمَّامٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ بِطُولِهِ وَهَذَا عِنْدَنَا مُخْتَصَرٌ مِنْ ذَاكَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۴) (صحیح)
۳۱۵۷- قتادہ آیت {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا} ۱؎ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اورسعید بن ابی عروہ ،ہمام اور کئی دیگر راویوں نے قتادہ سے ، قتادہ نے انس سے اورانس نے مالک بن صعصعہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے حدیث معراج پوری کی پوری روایت کی ، اور یہ ہمارے نزدیک اس سے مختصرہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری خدری رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں۔


3158- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِجِبْرِيلَ: "مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا؟" قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ}[مريم: 64] إِلَى آخِرِ الآيَةَ . قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۸)، وتفسیر سورۃ مریم ۵ (۴۷۳۱)، والتوحید ۲۸ (۷۴۵۵) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۰۵) (صحیح)
3158/م- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۵۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے کہا: جتنا آپ ہمارے پاس آتے ہیں، اس سے زیادہ آنے سے آپ کو کیاچیز روک رہی ہے؟ اس پر آیت {وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ}۱؎ نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم سے حسین بن حریث نے بیان کیاکہ ہم سے وکیع نے بیان کیا اوروکیع نے عمر بن ذر سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : تمہارے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جوہمارے آگے ہیں، جوہمارے پیچھے ہیں، اوران کے درمیان ہیں(مریم:۶۴)۔


3159- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ قَالَ: سَأَلْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُمْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ، ثُمَّ كَالرِّيحِ، ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ، ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ، ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ، ثُمَّ كَمَشْيِهِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنِ السُّدِّيِّ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۴) (صحیح)
۳۱۵۹- سدی کہتے ہیں :میں نے مرہ ہمدانی سے آیت {وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا} ۱؎ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگ جہنم میں جائیں گے ، پھر اس سے اپنے اعمال کے سہارے نکلیں گے، پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔ پھرہوا کی رفتار سے، پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے، پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے ،پھر دوڑتے شخص کی ، پھر پیدل چلنے کی رفتار سے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس حدیث کو شعبہ نے سدی سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوعاًروایت نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ امر یقینی ہے کہ تم میں سے ہر ایک اس پر عبور کرے گا(مریم:۷۱)۔


3160- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنْ مِنْكُمْ إِلاَّ وَارِدُهَا قَالَ: يَرِدُونَهَا، ثُمَّ يَصْدُرُونَ بِأَعْمَالِهِمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (صحیح)
3160/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ السُّدِّيِّ بِمِثْلِهِ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: قُلْتُ لِشُعْبَةَ إِنَّ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنِي عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ السُّدِّيِّ مَرْفُوعًا، وَلَكِنِّي عَمْدًا أَدَعُهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۶۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے {وَإِنْ مِنْكُمْ إِلاَّ وَارِدُهَا}کے تعلق سے فرمایا:'' لوگ جہنم میں جائیں گے پھر اپنے اعمال (صالحہ) کے ذریعہ نکل آئیں گے''۔
۳۱۶۰/م- سدی نے مرہ سے اورمرہ نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کی۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے اسے سدی سے مرفوعاً ہی سنا ہے، لیکن میں جان بوجھ کر چھوڑ دیتاہوں۔


3161- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنِّي قَدْ أَحْبَبْتُ فُلانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ: فَيُنَادِي فِي السَّمَائِ، ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ الْمَحَبَّةُ فِي أَهْلِ الأَرْضِ؛ فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمَنُ وُدًّا}" وَإِذَا أَبْغَضَ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنِّي أَبْغَضْتُ فُلاَنًا فَيُنَادِي فِي السَّمَائِ، ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ الْبَغْضَائُ فِي الأَرْضِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۴۸ (۲۶۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۵) (صحیح)
۳۱۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاکر کہتا ہے: میں نے فلاں کو اپنا حبیب بنالیا ہے تم بھی اس سے محبت کرو، آپﷺ نے فرمایا:''پھر جبرئیل آسمان میں اعلان کردیتے ہیں،اور پھر زمین والوں کے دلوں میں محبت پیداہوجاتی ہے، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے قول: {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمْ الرَّحْمَنُ وُدًّا} ۱؎ کامطلب ومفہوم ۔ اور اللہ جب کسی بندے کو نہیں چاہتا(اس سے بغض ونفرت رکھتاہے)تو جبرئیل کوبلاکر کہتا ہے ، میں فلاں کو پسند نہیں کرتاپھر وہ آسمان میں پکار کرسب کو اس سے باخبر کردیتے ہیں۔ تو زمین میں ا س کے لیے(لوگوں کے دلوں میں) نفرت وبغض پیدا ہوجاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی جیسی حدیث عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے باپ سے اوران کے باپ نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے ، نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں شک نہیں کہ جولوگ ایمان لاتے ہیں، اور نیک عمل کرتے ہیں اللہ ان کے لیے (لوگوں کے دلوں میں ) محبت پیداکردے گا (مریم:۹۶)۔


3162- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ قَال: سَمِعْتُ خَبَّابَ بْنَ الأَرَتِّ يَقُولُ: جِئْتُ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ السَّهْمِيَّ أَتَقَاضَاهُ حَقًّا لِي عِنْدَهُ فَقَالَ: لاَ أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ؛ فَقُلْتُ: لاَ، حَتَّى تَمُوتَ، ثُمَّ تُبْعَثَ قَالَ: وَإِنِّي لَمَيِّتٌ، ثُمَّ مَبْعُوثٌ؛ فَقُلْتُ: نَعَمْ؛ فَقَالَ: إِنَّ لِي هُنَاكَ مَالا، وَوَلَدًا فَأَقْضِيكَ فَنَزَلَتْ: {أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًا}[مريم: 77] الآيَةَ.
* تخريج: خ/البیوع ۲۹ (۲۰۹۱)، والإجارۃ ۱۵ (۲۲۷۵)، والخصومات ۱۰ (۲۴۲۵)، وتفسیر مریم ۴ (۴۷۳۳)، و ۵ (۴۷۳۴)، و۶ (۴۷۳۵)، م/المنافقین ۴ (۲۷۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۲۰) (صحیح)
3162/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ نَحْوَهُ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۶۲- مسروق کہتے ہیں : میں نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں عاص بن وائل سہمی (کافر) کے پاس اس سے اپنا ایک حق لینے کے لیے گیا، اس نے کہا:جب تک تم محمد (ﷺ کی رسالت ) کا انکار نہیں کردیتے میں تمہیں دے نہیں سکتا۔ میں نے کہا:نہیں، میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کا انکار نہیں کرسکتا۔ چاہے تم یہ کہتے کہتے مرجاؤ۔ پھرزندہ ہو پھر یہی کہو۔ اس نے پوچھاکیا: میں مروں گا؟ پھر زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا ؟ میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: وہاں بھی میرے پاس مال ہوگا ، اولاد ہوگی ، اس وقت میں تمہارا حق تمہیں لوٹا دوں گا۔ اس موقع پر آیت {أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًا} ۱؎ نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۱۶۲/م- اس سندسے بھی ابومعاویہ نے اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے ہماری آیا ت کا انکار کیا اور کہا میں مال واولاد سے بھی نوازا جاؤں گا (مریم:۷۷)۔
 
Top