• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
21-بَاب وَمِنْ سُورَةِ طه
۲۱-باب: سورہ طہٰ سے بعض آیات کی تفسیر​


3163- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ خَيْبَرَ أَسْرَى لَيْلَةً حَتَّى أَدْرَكَهُ الْكَرَى أَنَاخَ؛ فَعَرَّسَ، ثُمَّ قَالَ: يَا بِلاَلُ! اكْلأْ لَنَا اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَصَلَّى بِلاَلٌ، ثُمَّ تَسَانَدَ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُسْتَقْبِلَ الْفَجْرِ؛ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ؛ فَنَامَ؛ فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ أَحَدٌ مِنْهُمْ، وَكَانَ أَوَّلَهُمْ اسْتِيقَاظًا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: "أَيْ بِلاَلُ" فَقَالَ بِلاَلٌ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اقْتَادُوا"، ثُمَّ أَنَاخَ؛ فَتَوَضَّأَ؛ فَأَقَامَ الصَّلاَةَ، ثُمَّ صَلَّى مِثْلَ صَلاَتِهِ لِلْوَقْتِ فِي تَمَكُّثٍ، ثُمَّ قَالَ: {أَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِي}.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَسيِّبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَصَالِحُ بْنُ أَبِي الأَخْضَرِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۷۴) (صحیح)
۳۱۶۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب رسول اللہﷺ خیبر سے لوٹے ، رات کاسفر اختیار کیا، چلتے چلتے آپ کو نیندآنے لگی (مجبورہوکر) اونٹ بٹھایا اور قیام کیا، بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: بلال! آج رات تم ہماری حفاظت وپہرہ داری کرو''، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بلال نے (جگنے کی صورت یہ کی کہ) صلاۃ پڑھی، صبح ہونے کوتھی، طلوع فجر ہونے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کجاوے کی (ذراسی) ٹیک لے لی، توان کی آنکھ لگ گئی،اور وہ سوگئے، پھر تو کوئی اٹھ نہ سکا، ان سب میں سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ بیدار ہوئے ،آپ نے فرمایا:'' بلال! (یہ کیا ہوا؟) بلال نے عرض کیا: میرے باپ آپ پر قربان ، مجھے بھی اسی چیز نے اپنی گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا،آپ نے فرمایا:''یہاں سے اونٹوں کو آگے کھینچ کر لے چلو، پھر آپ (ﷺ) نے اونٹ بٹھائے، وضو کیا، صلاۃکھڑی کی اور ویسی ہی صلاۃ پڑھی جیسی آپ اطمینان سے اپنے وقت پر پڑھی جانے والی صلاتیں پڑھاکرتے تھے۔ پھر آپ نے آیت {أَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِي} ۱؎ پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، اسے کئی حافظان حدیث نے زہری سے،زہری نے سعید بن مسیب سے اورسعیدبن مسیب نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے، ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ۲- صالح بن ابی الاخضر حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں۔ انہیں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے حفظ کے تعلق سے ضعیف کہا۔
وضاحت ۱؎ : مجھے یاد کرنے کے لیے صلاۃ پڑھو(طہٰ:۱۴)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
22-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْبِيَائِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ
۲۲-باب: سورہ انبیاء سے بعض آیات کی تفسیر​


3164- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْوَيْلُ وَادٍ فِي جَهَنَّمَ يَهْوِي فِيهِ الْكَافِرُ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا قَبْلَ أَنْ يَبْلُغَ قَعْرَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۶۲) (ضعیف)
(سندمیں ابن لھیعہ اور دراج دونوں ضعیف راوی ہیں)
۳۱۶۴- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: '' ویل'' جہنم کی ایک وادی ہے (اور اتنی گہری ہے کہ) جب کافر اس میں گرے گا تو اس کو تہہ تک پہنچنے سے پہلے گرنے میں چالیس سال لگ جائیں گے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم ابن لہیعہ کے سوا کسی اور کو نہیں جانتے کہ وہ اسے مرفوعاً روایت کرتا ہو۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث مولف ارشادباری {وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ }(الأنبیاء :۱۸)کی تفسیرمیں لائے ہیں۔


3165- حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى الْبَغْدَادِيُّ، وَالْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الأَعْرَجُ بَغْدَادِيٌّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلا قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي مَمْلُوكِينَ يُكَذِّبُونَنِي، وَيَخُونُونَنِي، وَيَعْصُونَنِي، وَأَشْتُمُهُمْ، وَأَضْرِبُهُمْ فَكَيْفَ أَنَا مِنْهُمْ قَالَ: "يُحْسَبُ مَا خَانُوكَ، وَعَصَوْكَ، وَكَذَّبُوكَ، وَعِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا لا لَكَ، وَلا عَلَيْكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلا لَكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمْ اقْتُصَّ لَهُمْ مِنْكَ الْفَضْلُ" قَالَ: فَتَنَحَّى الرَّجُلُ فَجَعَلَ يَبْكِي، وَيَهْتِفُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَمَا تَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ: {وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ}[الأنبياء: 47] الآيَةَ فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا أَجِدُ لِي وَلِهَؤُلائِ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ مُفَارَقَتِهِمْ أُشْهِدُكُمْ أَنَّهُمْ أَحْرَارٌ كُلُّهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَزْوَانَ، وَقَدْ رَوَى أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَزْوَانَ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۰۸) (صحیح الإسناد)
۳۱۶۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے سامنے آکر بیٹھا، اس نے کہا:اللہ کے رسول! میرے دو غلام ہیں،جومجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں، میں انہیں گالیاں دیتاہوں مارتاہوں ، میرا ان کا نپٹارا کیسے ہوگا؟ آپ نے فرمایا:'' انہوں نے ، تمہارے ساتھ خیانت کی ہے، اور تمہاری نافرمانی کی ہے تم سے جو جھوٹ بولے ہیں ان سب کا شمار وحساب ہوگا تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمارو حساب ہوگا، اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں توتم اور وہ برابر سرابر چھوٹ جاؤگے، نہ تمہاراحق ان پر رہے گا اورنہ ان کا حق تم پر ، اورا گر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی تو تمہارافضل واحسان ہوگا، اور اگر تمہاری سزاان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو تجھ سے ان کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیاجائے گا، (یہ سن کر)وہ شخص روتا پیٹتا ہوا واپس ہوا، آپ نے فرمایا:'' کیاتم کتاب اللہ نہیں پڑھتے (اللہ نے فرمایاہے ) {وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ} الآية ۱؎ اس شخص نے کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے اورا ن کے لیے اس سے بہتر اورکوئی بات نہیں پاتا کہ ہم ایک دوسرے سے جداہوجائیں ، میں آپ کو گواہ بناکر کہتاہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صر ف عبدالرحمن بن غزوان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-احمدبن حنبل نے بھی یہ حدیث عبدالرحمن بن غزوان سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو لگائیں گے پھر کسی نفس پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا،اوراگرایک رائی کے دانے کے برابربھی عمل ہوگا ہم اسے لاحاضرکریں گے اورہم کافی ہیں حساب کرنے والے (الانبیاء :۴۷)۔


3166- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلام فِي شَيْئٍ قَطُّ إِلا فِي ثَلاثٍ قَوْلِهِ إِنِّي سَقِيمٌ، وَلَمْ يَكُنْ سَقِيمًا، وَقَوْلُهُ لِسَارَّةَ أُخْتِي وَقَوْلِهِ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا} وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲ (۵۰۱۲)، م/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۶۵)، وحم (۲/۴۰۳) (صحیح)
۳۱۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ابراہیم علیہ السلام نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا، ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا:میں بیمارہوں،حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے، (دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا: (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں) (تیسرا،آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا: بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں، (ان سے پوچھ لیں) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے، اورابوالزنادکے واسطہ سے ابن ا سحاق کی روایت غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : مولف یہ حدیث ارشادباری :{ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا }(الانبیاء:۶۴)کی تفسیرمیں لائے ہیں۔


3167- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، وَأَبُو دَاوُدَ قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْمَوْعِظَةِ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ عُرَاةً غُرْلاً}، ثُمَّ قَرَأَ: {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا} إِلَى آخِرِ الآيَةِ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ وَإِنَّهُ سَيُؤْتَى بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ رَبِّ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: {وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ} [المائدة: 118] إِلَى آخِرِ الآيَةِ فَيُقَالُ: هَؤُلائِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۲۳ (صحیح)
3167/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ نَحْوَهُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: كَأَنَّهُ تَأَوَّلَهُ عَلَى أَهْلِ الرِّدَّةِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۶۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے وعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایا:'' تم لوگ قیامت کے دن اللہ کے پاس ننگے اور غیر مختون جمع کئے جاؤگے، پھر آپ نے آیت پڑھی {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا} ۱؎ آپ نے فرمایا:'' قیامت کے دن جنہیں سب سے پہلے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے، (قیامت کے دن) میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے جنہیں چھانٹ کر بائیں جانب (جہنم کی رخ) کردیا جائے گا، میں کہوں گا پرور دگار ! یہ تو میرے اصحاب (امتی)ہیں، کہاجائے گا : آپ کو نہیں معلوم ان لوگوں نے آپ کے بعد کیاکیا نئی باتیں (خرافات) دین میں پیدا (داخل ) کردیں۔ (یہ سن کر ) میں بھی وہی بات کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام ) نے کہی ہے { وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ } ۲؎ ۔کہاجائے گا: یہ وہ لوگ ہیں کہ آپ نے جب سے ان کا ساتھ چھوڑا ہے یہ اپنی پہلی حالت سے پھر گئے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۱۶۷/م- اس سندسے بھی شعبہ نے اسی طرح مغیرہ بن نعمان سے روایت کی ہے، اس حدیث کو سفیان ثوری نے مغیرہ بن نعمان سے اسی طرح روایت کی ہے،۴- اس سے ان کی مراد اہل رِدّہ یعنی مرتدین کا گروہ ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہم نے جیسے پہلے آدمی کوپیدا کیا ہے ویسا ہی دوبارہ لوٹادیں گے، (پیدا فرمادیں گے...الانبیاء:۱۰۴)
وضاحت ۲؎ : میں جب تک ان کے درمیان تھا ان کی دیکھ بھال کرتارہا تھا، پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا آپ ان کے محافظ ونگہبان بن گئے ، آپ ہر چیز سے واقف ہیں۔ اگر آپ انہیں سزادیں تو وہ آپ کے بندے وغلام ہیں۔ (آپ انہیں سزادے سکتے ہیں) اور اگر آپ انہیں معاف کردیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں(المائدۃ:۱۱۸)۔
وضاحت ۳؎ : یعنی '' إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك''میں''أحداث''سے مراد، اسلام سے مرتدہونا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
23-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحَجِّ
۲۳-باب: سورہ حج سے بعض آیات کی تفسیر​


3168- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا نَزَلَتْ: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ -إِلَى قَوْلِهِ - وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ}[الحج: 1-2] قَالَ: أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الآيَةُ وَهُوَ فِي سَفَرٍ؛ فَقَالَ: "أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ؟"؛ فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: ذَلِكَ يَوْمَ يَقُولُ اللَّهُ لآدَمَ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ؛ فَقَالَ: يَا رَبِّ! وَمَا بَعْثُ النَّارِ، قَالَ: تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَى النَّارِ وَوَاحِدٌ إِلَى الْجَنَّةِ، قَالَ: فَأَنْشَأَ الْمُسْلِمُونَ يَبْكُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "قَارِبُوا وَسَدِّدُوا فَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهَا جَاهِلِيَّةٌ قَالَ: فَيُؤْخَذُ الْعَدَدُ مِنْ الْجَاهِلِيَّةِ؛ فَإِنْ تَمَّتْ وَإِلا كَمُلَتْ مِنْ الْمُنَافِقِينَ، وَمَا مَثَلُكُمْ، وَالأُمَمِ إِلا كَمَثَلِ الرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ أَوْ كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ"، ثُمَّ قَالَ: "إِنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبْعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ"؛ فَكَبَّرُوا، ثُمَّ قَالَ: "إِنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ"؛ فَكَبَّرُوا، ثُمَّ قَالَ: "إِنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ"، فَكَبَّرُوا، قَالَ: لا أَدْرِي؟ قَالَ: الثُّلُثَيْنِ أَمْ لا؟. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹۹) (صحیح)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں اور حسن بصری مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ان کے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز یہ حدیث ابوسعید خدری کی روایت سے متفق علیہ ہے)
۳۱۶۸- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ إِلَى قَوْلِهِ وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ} ۱؎ تک نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ اس وقت سفرمیں تھے، آپ نے لوگوں سے فرمایا:'' کیا تم جانتے ہو وہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا:'' یہ وہ دن ہے جس دن اللہ آدم (علیہ السلام) سے کہے گا {ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ} (جہنم میں جانے والی جماعت کو چھانٹ کر بھیجو) آدم علیہ السلام کہیں گے: اے میرے رب {بَعْثَ النَّارِ}کیا ہے ؟ اللہ فرمایے گا:نوسونناوے (۹۹۹) افراد جہنم میں اور (ان کے مقابل میں ) ایک شخص جنت میں جائے گا، یہ سن کر مسلمان (صحابہ) رونے لگے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کی نزدیکی حاصل کرو اور ہرکام صحیح اور درست ڈھنگ سے کرتے رہو، (اہل جنت میں سے ہو جاؤ گے)، کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبوت کا سلسلہ چلا ہواور اس سے پہلے جاہلیت (کی تاریکی پھیلی ہوئی) نہ ہو''، آپ نے فرمایا:'' یہ (۹۹ کی تعداد) عدد انہیں (ادوار) جاہلیت کے افراد سے پوری کی جائے گی۔ یہ تعداد اگر جاہلیت سے پوری نہ ہوئی توان کے ساتھ منافقین کو ملا کر پوری کی جائے گی، اور تمہاری اور (پچھلی) امتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ داغ، نشان ، تل جانور کے اگلے پیر میں، یا سیاہ نشان اونٹ کے پہلو (پسلی) میں ہو ۲؎ پھر آپ نے فرمایا:'' مگر مجھے امید ہے کہ جنت میں جانے والوں میں ایک چوتھائی تعداد تم لوگوں کی ہوگی''، یہ سن کر (لوگوں نے خوش ہوکر) نعرئہ تکبیر بلند کیا، پھر آپ نے فرمایا:'' مجھے توقع ہے جنتیوں کی ایک تہائی تعداد تم ہوگے''، لوگوں نے پھر تکبیر بلند کی ، آپ نے پھر فرمایا:'' مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھا آدھا تم لوگ ہوگے، لوگوں نے پھر صدائے تکبیر بلندکی (اس سے آگے) مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے دوتہائی بھی فرمایا یا نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی راویوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : لوگو!اپنے رب سے ڈرو!بلاشبہ قیامت کازلزلہ بہت بڑی چیزہے ، جس دن تم اسے دیکھولوگے ہردودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کوبھول جائے گی، اورتمام حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے اورتودیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑاہی سخت ہے (الحج:۲)
وضاحت ۲؎ : یعنی اگلی امتوں کی تعداد کے مقابل میں تم جنتیوں کی تعداد بہت مختصر جانور کی اگلی دست میں ایک تل یا اونٹ کے پیٹ میں ایک معمولی نشان کی سی ہوگی۔


3169- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِاللَّهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ؛ فَتَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فِي السَّيْرِ؛ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَوْتَهُ بِهَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ {يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ -إِلَى قَوْلِهِ - عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ} فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ أَصْحَابُهُ حَثُّوا الْمَطِيَّ، وَعَرَفُوا أَنَّهُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُهُ: فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذَاكَ يَوْمٌ يُنَادِي اللَّهُ فِيهِ آدَمَ فَيُنَادِيهِ رَبُّهُ فَيَقُولُ يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ فَيَقُولُ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ فَيَئِسَ الْقَوْمُ حَتَّى مَا أَبَدَوْا بِضَاحِكَةٍ فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الَّذِي بِأَصْحَابِهِ قَالَ: اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْئٍ إِلا كَثَّرَتَاهُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَمَنْ مَاتَ مِنْ بَنِي آدَمَ، وَبَنِي إِبْلِيسَ قَالَ فَسُرِّيَ عَنِ الْقَوْمِ بَعْضُ الَّذِي يَجِدُونَ فَقَالَ: اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلاَّ كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ أَوْ كَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۶۹- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوگئے تھے، آپ نے بآوازبلند یہ دونوں آیتیں: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ}سے لے کر{ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ} تک تلاوت فرمائی، جب صحابہ نے یہ سناتو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتاربڑھادی،اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں ،آپ نے فرمایا: ''کیاتم جانتے ہو یہ کون سادن ہے؟''، صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو، آدم علیہ السلام کہیں گے: اے ہمارے رب!{بعث النار} کیا ہے؟ اللہ کہے گا : ایک ہزار افراد میں سے نوسو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا،یہ سن کر لوگ مایوس ہوگئے،ایسالگا کہ اب یہ زندگی بھرکبھی ہنسیں گے نہیں،پھرجب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی یہ (مایوسانہ) کیفیت وگھبراہٹ دیکھی تو فرمایا: اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہوجاؤ (اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤگے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم ایسی دومخلوق کے ساتھ ہوکہ وہ جس کے بھی ساتھ ہوجائیں اس کی تعداد بڑھادیں،ایک یاجوج وماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے (حالت کفر میں) مرچکے ہیں، آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج وفکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کررہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پارہے تھے۔ آپ نے فرمایا:'' نیکی کا عمل جاری رکھو، اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ (جیسے بڑے جانور) کے پہلو (پسلی) میں کوئی داغ یانشان ہو،یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بہت زیادہ گھبرانے کی بات اورضرورت نہیں ہے، جب اکثریت انہیں کفار ومشرکین کی ہے تو جہنم میں بھی وہی زیادہ ہوں گے، ایک آدھ نام نہاد مسلم جائے گا بھی تواسے اپنی بدعملی کی وجہ سے جانے سے کون روک سکتا ہے، اورجو نہ جانا چاہے وہ اپنے ایمان وعقیدے کو درست رکھے شرک وبدعات سے دوررہے گا اور نیک وصالح اعمال کرتارہے، ایساشخص ان شاء اللہ ضرور جنت میں جائے گا۔


3170- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّمَا سُمِّيَ الْبَيْتُ الْعَتِيقَ لأَنَّهُ لَمْ يَظْهَرْ عَلَيْهِ جَبَّارٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۸۴) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن صالح حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ان کے مخالف ان سے ثقہ رواۃ نے اس کو عبد اللہ بن زبیر کا اپنا قول بتایا ہے، دیکھیے اگلی سند)


3170/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۱۷۰- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' خانہ کعبہ کا نام بیت عتیق ۱؎ (آزاد گھر) اس لیے رکھاگیا کہ اس پر کسی جابر وظالم کا غلبہ وقبضہ نہیں ہوسکاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث زہری کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔
۳۱۷۰/م- اس سند سے زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : مولف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ {وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ}(الحج:۲۹)۔


3171- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَإِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ مَكَّةَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ لَيَهْلِكُنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ}[الحج: 39] الآيَةَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ سَيَكُونُ قِتَالٌ. قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۸) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں سفیان بن وکیع صدوق لیکن ساقط الحدیث راوی ہیں)


3171/م- وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً لَيْسَ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرَ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلا، وَلَيْسَ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
(ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے)
۳۱۷۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی اکرمﷺمکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کو (اپنے وطن سے) نکال دیا ہے، یہ لوگ ضرور ہلا ک ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت {أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ} ۱؎ نازل فرمائی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) میں نے یہ سمجھ لیا کہ اب (مسلمانوں اور کافروں میں) لڑائی ہوگی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
۳۱۷۱/م- اس کو عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ نے سفیان سے ، سفیان نے اعمش سے، اعمش نے مسلم بطین سے مسلم نے سعید بن جبیرکے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے ، اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کا ذکر نہیں ہے، اسی طرح اورکئی راویوں نے سفیان سے ، سفیان نے اعمش سے ، اوراعمش نے مسلم بطین کے واسطہ سے ، سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کی ہے، اس میں ا بن عباس سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے مظلوم (وکمزور) سمجھ کر جنگ چھیڑ رکھی گئی ہے ،ا للہ ان (مظلومین) کی مدد پر قادر ہے (الحج:۳۹)۔


3172- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ مَكَّةَ قَالَ رَجُلٌ: أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ فَنَزَلَتْ: {أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ} الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ النَّبِيُّ ﷺ وَأَصْحَابُهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
(ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے)
۳۱۷۲- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جب نبیﷺ مکہ سے نکالے گئے ، ایک آدمی نے کہا: ان لوگوں نے اپنے نبی کونکال دیا تو اس پرآیت {أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ}نازل ہوئی، یعنی نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ناحق نکال دیا گیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان لوگوں کو بھی لڑنے کی اجازت دے دی گئی جن سے مظلوم (وکمزور) سمجھ کر جنگ چھیڑ رکھی گئی ہے ،ا للہ ان (مظلومین) کی مدد پر قادر ہے (الحج:۳۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
24-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُؤْمِنُونَ
۲۴-باب: سورہ المومنون سے بعض آیات کی تفسیر​


3173- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍالْقَارِيِّ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ سُمِعَ عِنْدَ وَجْهِهِ كَدَوِيِّ النَّحْلِ؛ فَأُنْزِلَ عَلَيْهِ يَوْمًا؛ فَمَكَثْنَا سَاعَةً؛ فَسُرِّيَ عَنْهُ؛ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلاتَنْقُصْنَا، وَأَكْرِمْنَا، وَلا تُهِنَّا، وَأَعْطِنَا، وَلاَ تَحْرِمْنَا، وَآثِرْنَا، وَلا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا، وَارْضِنَا، وَارْضَ عَنَّا"، ثُمَّ قَالَ ﷺ: "أُنْزِلَ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ"، ثُمَّ قَرَأَ: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} حَتَّى خَتَمَ عَشْرَ آيَاتٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۹۳) (ضعیف)
(سند میں اضطراب ہے جسے مؤلف نے بیان کردیا ہے)


3173/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ سَمِعْت إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَقُولُ: رَوَى أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّزَّاقِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَنْ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ قَدِيمًا؛ فَإِنَّهُمْ إِنَّمَا يَذْكُرُونَ فِيهِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، وَبَعْضُهُمْ لا يَذْكُرُ فِيهِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، وَمَنْ ذَكَرَ فِيهِ يُونُسَ بْنَ يَزِيدَ فَهُوَ أَصَحُّ، وَكَانَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ رُبَّمَا ذَكَرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ يُونُسَ بْنَ يَزِيدَ، وَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْهُ، وَإِذَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ يُونُسَ فَهُوَ مُرْسَلٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۱۷۳- عبدالرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ۔ نبی اکرم ﷺ پرجب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے منہ کے قریب شہد کی مکھی کے اڑنے کی طرح آواز (بھنبھناہٹ) سنائی پڑتی تھی۔ (ایک دن کا واقعہ ہے) آپ پر وحی نازل ہوئی ہم کچھ دیر (خاموش) ٹھہرے رہے ،جب آپ سے نزول وحی کے وقت کی کیفیت (تکلیف) دو رہوئی تو آپ قبلہ رخ ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکریہ دعافرمائی :''اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلاَ تَنْقُصْنَا وَأَكْرِمْنَا وَلاَ تُهِنَّا وَأَعْطِنَا وَلاَ تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلاَ تُؤْثِرْ عَلَيْنَا وَارْضِنَا وَارْضَ عَنَّا '' ۱؎ پھر آپ نے فرمایا : مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرتارہے گا، وہ جنت میں جائے گا، پھر آپ نے {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} ۲؎ سے شروع کرکے دس آیتیں مکمل تلاوت فرمائیں۔
۳۱۷۴/م- اس سندسے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے، میں نے اسحاق بن منصور کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ احمد بن حنبل، علی بن مدینی اور اسحاق بن ابراہیم ۔ یہ حدیث عبدالرزاق سے ،عبدالرزاق نے یونس بن سلیم سے، یونس بن سلیم نے یونس بن یزید کے واسطہ سے زہری سے روایت کی ،۲- جن لوگوں نے عبدالرزاق سے یہ حدیث سنی ہے ان میں سے کچھ لوگ(یونس بن سلیم کے بعد) یونس بن یزید کا ذکر کرتے ہیں۔ اور بعض لوگ اس روایت میں یونس بن یزید کا ذکر نہیں کرتے ہیں، اور جس نے اس روایت میں یونس بن یزید کا ذکر کیاہے، وہ زیادہ صحیح ہے۔ عبدالرزاق اس حدیث میں کبھی یونس بن یزید کا ذکر کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے، اورجس حدیث میں یونس کا ذکر نہیں کیا ہے وہ حدیث مرسل (منقطع )ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے اللہ! ہم کو زیادہ دے، ہمیں دینے میں کمی نہ کر، ہم کو عزت دے، ہمیں ذلیل ورسوا نہ کر، ہمیں اپنی نعمتوں سے نواز ، اپنی نوازشات سے ہمیں محروم نہ رکھ، ہمیں (اوروں) پر فضیلت دے، اور دوسروں کو ہم پر فضیلت و تفوّق نہ دے، اور ہمیں راضی کردے (اپنی عبادت وبندگی کرنے کے لیے) اور ہم سے راضی وخوش ہوجا۔
وضاحت ۲؎ : سورۃ المومنون: ۱- ۱۰۔


3174- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ النَّضْرِ أَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ، وَكَانَ ابْنُهَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَاقَةَ أُصِيبَ يَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَهُ سَهْمٌ غَرَبٌ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ: أَخْبِرْنِي عَنْ حَارِثَةَ لَئِنْ كَانَ أَصَابَ خَيْرًا احْتَسَبْتُ، وَصَبَرْتُ، وَإِنْ لَمْ يُصِبْ الْخَيْرَ اجْتَهَدْتُ فِي الدُّعَائِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "يَا أُمَّ حَارِثَةَ إِنَّهَا جَنَّةٌ فِي جَنَّةٍ، وَإِنَّ ابْنَكِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الأَعْلَى، وَالْفِرْدَوْسُ رَبْوَةُ الْجَنَّةِ، وَأَوْسَطُهَا وَأَفْضَلُهَا".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/الجھاد ۱۴ (۱۸۰۹)، والمغازي ۹ (۳۹۸۲)، والرقاق ۵۱ (۶۵۵۰، ۶۵۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۷)، وحم (۳/۱۲۴، ۲۱۰، ۲۱۵، ۲۶۴، ۳۷۲، ۳۸۳) (صحیح)
۳۱۷۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ربیع بنت نضرنبی اکرمﷺکے پاس آئیں ، ان کے بیٹے حارث بن سراقہ جنگ بدر میں شہید ہوگئے تھے، انہیں ایک انجانا تیر لگا تھا جس کے بارے میں پتانہ لگ سکا تھا، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: آپ مجھے (میرے بیٹے) حارثہ کے بارے میں بتائیے ، اگرو ہ خیر پاسکا ہے تو میں ثواب کی امید رکھتی اورصبرکرتی ہوں، اور اگرو ہ خیر (بھلائی) کو نہیں پاسکا تو میں (اس کے لیے) اور زیادہ دعائیں کروں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' حارثہ کی ماں! جنت میں بہت ساری جنتیں ہیں، تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے اور فردوس جنت کا ایک ٹیلہ ہے، جنت کے بیچ میں ہے اور جنت کی سب سے اچھی جگہ ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ارشادباری تعالیٰ {الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ}(المومنون :۱۱)کی تفسیرمیں مؤلف نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔


3175- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ الْهَمْدَانِيِّ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ}[المؤمنون: 60] قَالَتْ عَائِشَةُ: أَهُمْ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ؟ قَالَ: "لا يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ، وَلَكِنَّهُمْ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ، وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لا يُقْبَلَ مِنْهُمْ {أُولَئِكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ} [المؤمنون: 61]. قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: ق/الزہد ۲۰ (۴۱۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۰۱) (صحیح)
۳۱۷۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ} ۱؎ کا مطلب پوچھا : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں، اورچوری کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں، صدیق کی صاحبزادی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو صیام رکھتے ہیں،صلاتیں پڑھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں، اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں ناقبول نہ ہوں، یہی ہیں وہ لوگ جو خیرات (بھلے کاموں) میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی لوگ بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن سعید نے بھی اس حدیث کو ابوحازم سے ،ابوحازم نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ اللہ کے لیے دیتے ہیں، جو دیتے ہیں اور ان کے دل خوف کھارہے ہوتے ہیں (کہ قبول ہوگا یا نہیں) (المؤمنون:۶۰)


3176- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْن يَزِيدَ أَبِي شُجَاعٍ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: {وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ} قَالَ: تَشْوِيهِ النَّارُ؛ فَتَقَلَّصُ شَفَتُهُ الْعَالِيَةُ حَتَّى تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِهِ، وَتَسْتَرْخِي شَفَتُهُ السُّفْلَى حَتَّى تَضْرِبَ سُرَّتَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۶۱) (ضعیف)
(سندمیں ابوالسمح دراج ضعیف راوی ہیں)
۳۱۷۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے آیت: { وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ } ۱؎ کے سلسلے سے فرمایا:'' جہنم ان کے منہ کو جھلسا دے گی،جس سے اوپر کا ہونٹ سکڑکر آدھے سرتک پہنچ جائے گا اور نچلا ہونٹ لٹک کر ناف سے ٹکرانے لگے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اور وہ اس میں ڈراونی شکل والے ہوں گے(المومنون:۱۰۴)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
25-بَاب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ
۲۵-باب: سورہ نورسے بعض آیات کی تفسیر​


3177- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ، وَكَانَ رَجُلا يَحْمِلُ الأَسْرَى مِنْ مَكَّةَ حَتَّى يَأْتِيَ بِهِمْ الْمَدِينَةَ قَالَ: وَكَانَتْ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَهَا: عَنَاقٌ، وَكَانَتْ صَدِيقَةً لَهُ، وَإِنَّهُ كَانَ وَعَدَ رَجُلا مِنْ أُسَارَى مَكَّةَ يَحْمِلُهُ قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى ظِلِّ حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ عَنَاقٌ؛ فَأَبْصَرَتْ سَوَادَ ظِلِّي بِجَنْبِ الْحَائِطِ؛ فَلَمَّا انْتَهَتْ إِلَيَّ عَرَفَتْهُ فَقَالَتْ: مَرْثَدٌ فَقُلْتُ: مَرْثَدٌ فَقَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَهْلا هَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا عَنَاقُ! حَرَّمَ اللَّهُ الزِّنَا قَالَتْ: يَا أَهْلَ الْخِيَامِ! هَذَا الرَّجُلُ يَحْمِلُ أَسْرَاكُمْ، قَالَ: فَتَبِعَنِي ثَمَانِيَةٌ، وَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ؛ فَانْتَهَيْتُ إِلَى كَهْفٍ أَوْ غَارٍ؛ فَدَخَلْتُ؛ فَجَائُوا حَتَّى قَامُوا عَلَى رَأْسِي؛ فَبَالُوا؛ فَظَلَّ بَوْلُهُمْ عَلَى رَأْسِي، وَأَعْمَاهُمْ اللَّهُ عَنِّي قَالَ: ثُمَّ رَجَعُوا، وَرَجَعْتُ إِلَى صَاحِبِي؛ فَحَمَلْتُهُ، وَكَانَ رَجُلا ثَقِيلا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الإِذْخِرِ؛ فَفَكَكْتُ عَنْهُ كَبْلَهُ؛ فَجَعَلْتُ أَحْمِلُهُ، وَيُعْيِينِي حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ؛ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنْكِحُ عَنَاقًا؛ فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا حَتَّى نَزَلَتْ: {الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ}[النور: 3] فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:"يَا مَرْثَدُ! الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ فَلا تَنْكِحْهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/النکاح ۵ (۲۰۵۱)، ن/النکاح ۱۲ (۳۲۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۳) (حسن)
۳۱۷۷- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار وبہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور
مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کررکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے ) آگیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جاکر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آگئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کرپوچھا : مرثد ہونا؟ میں نے کہا: ہاں، مرثد ہوں، ا س نے خوش آمدید کہا ، (اورکہا:)آؤ ، رات ہمارے پاس گزارو ، میں نے کہا: عناق! اللہ نے زنا کو حرام قراردیا ہے، اس نے شور کردیا، اے خیمہ والو( دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھا ئے لیے جارہاہے، پھرمیرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑپڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یاکھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا، وہ لوگ بھی اُوپرچڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہوکر۔ انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سرپر ٹپکیں،لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنادیا، وہ ہمیں نہ د یکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کرمجھے لے جانا تھا) آگیا، وہ بھاری بھرکم آدمی تھے، میں نے انہیں ا ٹھاکر (پیٹھ پر ) لاد لیا، إذخر (کی جھاڑیوں میں) پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اورپھراٹھاکر چل پڑا ،کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا ) اس طرح میں مدینہ آگیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کرلوں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھریہ آیت { الزَّانِي لاَ يَنْكِحُ إِلاَّ زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لاَ يَنْكِحُهَا إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ} ۱؎ نازہوئی آپ نے (اس آیت کے نزول کے بعدمرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا:'' اس سے نکاح نہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اورہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : زانی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے اور زانیہ سے زانی یامشرک ہی نکاح کرے ، مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے (النور:۳) ۔


3178- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ؛ فَقُمْتُ مِنْ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ؛ فَقِيلَ لِي: إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ كَلامِي فَقَالَ لِيَ: ابْنَ جُبَيْرٍ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلا حَاجَةٌ قَالَ: فَدَخَلْتُ؛ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! الْمُتَلاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلانُ بْنُ فُلانٍ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمْ يُجِبْهُ؛ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} [النور: 6] حَتَّى خَتَمَ الآيَاتِ قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلاهُنَّ عَلَيْهِ، وَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ فَقَالَ: لا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، وَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ فَقَالَتْ: لا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ؛ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ؛ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا.وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۲۰۲ (صحیح)
۳۱۷۸- سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی امارت کے زمانے میں مجھ سے پوچھاگیا: کیا لعان کرنے والے مرد اورعورت کے درمیان جدائی کردی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں میں اپنی جگہ سے اٹھ کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر آگیا، ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، مجھ سے کہاگیا کہ وہ قیلولہ فرمارہے ہیں، مگر انہوں نے میری بات چیت سن لی۔ اور مجھے (پکار کر) کہا: ابن جبیر! اندر آجاؤ، تم کسی (دینی) ضرورت ہی سے آئے ہوگے، میں اندر داخل ہوا، دیکھتاہوں کہ وہ اپنے کجاوے کے نیچے ڈالنے والا کمبل بچھائے ہوئے ہیں، میں نے کہا: ابوعبدالرحمن ! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ! پاک اوربرتر ذات ہے اللہ کی، ہاں، (سنو) سب سے پہلا شخص جس نے اس بارے میں مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں تھے، وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے ، کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا یعنی زنا کاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیاکرے؟ اگر بولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے اور اگر چپ رہتا ہے توبڑی بات پرچپ رہتاہے، آپ یہ سن کر چپ رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب اس کے بعد ایساواقعہ پیش ہی آگیا تو وہ نبی اکرمﷺکے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے آپ سے جوبات پوچھی تھی، اس سے میں خوددوچارہوگیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیات {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ} ۱؎ سے ختم آیات تک {وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ} نازل فرمائیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر آپﷺ نے اس شخص کوبلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اسے نصیحت کیا، اسے سمجھایا بجھایا ، اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے، اس نے کہا:نہیں ،قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس عورت پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اسے بھی وعظ ونصیحت کی، سمجھایا بجھایا، اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکااورآسان ہے ۲؎ ، اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ! اس نے سچ نہیں کہاہے، پھر آپ نے لعان کی شروعات مرد سے کی، مردنے چار بار گواہیاں دی کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ سچا ہے، پانچویں بار میں کہا کہ اگروہ جھوٹا ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی اللہ کی چار گواہیاں دیں ، اللہ گواہ ہے کہ اس کا شوہر جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہا : اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو، اس کے بعد آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ اپنی بیویوں پربدکاری کی تہمت لگائیں اوران کاکوئی گواہ بجزخودان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اورپانچویں مرتبہ کہیں کہ اس پر اللہ کی تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو،اور اس عورت سے سزااس طرح دورہوسکتی ہے کہ وہ چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ یقینااس کا مردجھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہواگراس کا خاوندسچوں میں سے ہو(النور:۶-۹)۔
وضاحت ۲؎ : اگر گناہ سرزد ہواہے تو اسے قبول کرلو اور متعینہ سزا جھیل جاؤ ورنہ آخرت کا عذاب توبہت بھاری اور سخت ہو گا۔


3179- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ هِلالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْبَيِّنَةَ وَإِلا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، قَالَ: فَقَالَ هِلاَلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلا عَلَى امْرَأَتِهِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؛ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "الْبَيِّنَةَ وَإِلا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، قَالَ: فَقَالَ هِلاَلٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ، وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنْ الْحَدِّ؛ فَنَزَلَ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ: {وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ} قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا؛ فَجَاءَا فَقَامَ هِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: "إنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ؛ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟" ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ {أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ}، قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ؛ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ، وَنَكَسَتْ حَتَّى ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ؛ فَقَالَتْ: لا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ" فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لَوْلا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لَنَا وَلَهَا شَأْنٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، وَهَكَذَا رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ النور ۲ (۴۷۴۶)، والطلاق ۲۹ (۵۳۰۸)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۴)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۵)، وحم (۱/۲۷۳) (صحیح)
۳۱۷۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی توآپ ﷺ نے فرمایا:'' گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہم بستری کرتاہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ ﷺ کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچادے گی، پھر (اسی موقع پر) آیت {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلا أَنْفُسُهُمْ }سے { وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ} تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے توان دونوں کو بلابھیجا ، وہ دونوں آئے، پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اورگواہیاں دیں، نبی اکرمﷺ انہیں سمجھا نے لگے: اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کرلے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی ، اوراس نے بھی گواہی دی، پھر جب پانچویں گواہی '' اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو'' دینے کی باری آئی ،تو لوگوں نے اس سے کہا: یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کردے گی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (لوگوں کی بات سن کر)وہ ٹھٹکی اورذلت وشرمندگی سے سرجھکالیا، ہم سب نے گمان کیاکہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی، مگر اس نے کہا: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل ورسوانہ کروں گی، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے،تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آچکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سندسے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے ،۲- اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے، ۳-ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں اس پر حد جاری کرکے ہی رہتا۔


3180- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوئٍ قَطُّ، وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوئٍ قَطُّ، وَلا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ فَلَمَّا كَانَ مَسَائُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي، وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ؛ فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؛ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ؛ فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ؛ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؛ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ؛ فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ؛ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلا فِيكِ فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَيْئٍ قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا قَالَتْ: نَعَمْ وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي، وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلا وَلا كَثِيرًا، وَوُعِكْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي؛ فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلامَ؛ فَدَخَلْتُ الدَّارَ؛ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ: فَأَخْبَرْتُهَا، وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ! خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ؛ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَائُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلا حَسَدْنَهَا، وَقِيلَ: فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ: قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي قَالَتْ: نَعَمْ قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ: نَعَمْ وَاسْتَعْبَرْتُ، وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ؛ فَنَزَلَ؛ فَقَالَ لأُمِّي: مَا شَأْنُهَا قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا؛ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ: أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ! إِلا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ؛ فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي؛ فَقَالَتْ: لا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ؛ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الأَحْمَرِ؛ فَبَلَغَ الأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ: فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ، عَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ ﷺ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ! إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوئًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ؛ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ؛ فَقُلْتُ: أَلا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي فَقُلْتُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ، فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي؛ فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ قَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا، قَالَتْ: فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ؛ فَحَمِدْتُ اللَّهَ، وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ: إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ، وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَائَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي، وَلَكُمْ مَثَلا، قَالَتْ: وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ}[يوسف: 18] قَالَتْ: وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ سَاعَتِهِ؛ فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ، وَإِنِّي لأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَيَقُولُ: "الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ! فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَائَتَكِ"، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ؛ فَقُلْتُ: لا وَاللَّهِ لا أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلا أَحْمَدُهُ، وَلا أَحْمَدُكُمَا، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَائَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ، وَلاغَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ؛ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ؛ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ، وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لايَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الآيَةَ: {وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ {أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَى قَوْلِهِ: {أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا! إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ النور ۶ (۴۷۵۰) و ۱۱ (۴۷۵۷) (تعلیقا)، والإعتصام ۲۹ (تعلیقا) م/التوبۃ ۱۰ (۲۷۷۰/۵۸)، د/الأدب ۱۵۶ (۵۲۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۹۸)، وحم (۶/۵۹) (صحیح)
۳۱۸۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بے خبر تھی، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایانِ شان تعریف وثنا کی، اور حمد وصلاۃ کے بعد فرمایا:'' لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی ! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی ، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی ، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیرموجو دگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہاہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا ، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں ر ہاہے، (یہ سن کر) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر ، عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں ان کی گردنیں اڑادوں، (یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے (سعد بن معاذ سے مخاطب ہوکر) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئے اللہ کی قسم! اگر یہ (تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے ) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑادیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس وخزرج کے درمیان مسجدہی میں فساد عظیم برپا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا، (عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی ،جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی (قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہرنکلی ، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ (راستہ میں) ٹھوکر کھائی توکہہ اٹھیں: مسطح تباہ بربادہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر (ٹوکا) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی ( بددعا) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھریہی لفظ دہرایاتومیں نے ڈانٹا (اور جھڑک دیا) کیسی (خراب) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برابھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں: (بیٹی ) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں ، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا : کیاایسا ہوا؟ (یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی ، گویا کہ میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں ، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، (بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ ﷺسے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک لڑکا کردیا، (اور میں اپنے ابا کے گھر آگئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو (اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور (اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی ! کیسے آئیں؟ عائشہ کہتی ہیں: میں نے انہیں بتادیا اور انہیں ساری باتیں (اور ساراقصہ) سنادیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جومجھے پہنچی ، انہوں نے کہا: بیٹی !اپنے آپ کوسنبھالو، کیوں کہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتاہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین وجمیل عورت ہو جس سے وہ مرد (بے انتہا) محبت کرتاہو، اس سے اس کی سوکنیں حسدنہ کرتی (اور جلن نہ رکھتی ) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا :کیا میرے ابوجان کو بھی یہ بات معلوم ہوچکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے (پھر) پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ بھی ان باتوں سے واقف ہوچکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، (یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہوگئی اور روپڑی، ابوبکر رضی اللہ عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے ، میری ماں سے پوچھا، اسے کیاہوا؟ (یہ کیوں رورہی ہے؟) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں (اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں، (یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، (مگر ) انہوں نے کہا: اے میری (لاڈلی) بیٹی! میں تمہیں قسم دلاکر کہتاہوں تواپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہوگئی، رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں ، بس یہ بات ہے کہ (کام کرتے کرتے تھک کر) سوجاتی ہیں اور بکری آکر گندھا ہوا آٹا کھاجاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا ، (باتیں نہ بنا)رسول اللہ ﷺ کو سچ سچ بتا( اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ (اپنے مقام ومرتبہ سے) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک وبرتر ہے اللہ کی ذات ، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے،پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہوگئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی ، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولاہے ۱؎ ، عائشہ کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہیدہوکر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آگئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔
عصر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اورہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اوربائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: ''حمدوصلاۃ کے بعد: '' عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہوگئی یا اپنے نفس پر ظلم کربیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے''، اسی دوران انصار کی ایک عورت آکر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے (اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہر حال رسول اللہﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیاجواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی ، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جوبات کہی ہے اس بارے میں (میری طرف سے) صفائی دیجئے ، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا ، تو میں نے کلمہ شہادت اداکیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئے ، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی (بے گناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اوراگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیاہے اور اللہ خوب جانتاہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کرلیاہے، اور میں قسم اللہ کی ! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی (میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب علیہ السلام کانام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہوسکی، (مجھے ان کانام یاد نہ آسکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے { فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ } کہا ۲؎ ۔
اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہوگئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی ، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے : اے عائشہ! خوش ہوجاؤ اللہ نے تمہاری برأۃ میں آیت نازل فرمادی ہے، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہوکر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ! میں آپ کا شکریہ اداکرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی،نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان منداور شکر گزار ہوں گی جس نے میری برأۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت وتہمت سنی، لیکن اس پر تردید وانکار نہ کیا، اورنہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ کہاکرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی ودینداری کی وجہ سے بچالیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی وبھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ (شریک بہتان ہوکر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن اُبی بن سلول تھے، اور یہی منافق (فتنہ پردازوں کا سردار وسرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی کہ اب وہ (اس احسان فراموش وبدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت { وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ } ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں،{أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔{ أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ } ۵؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی ! ہمارے رب ! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبید اللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔
وضاحت ۱؎ : میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی ا ورجسارت کروں۔
وضاحت ۲؎ : صبرہی بہترہے اورجوتم کہتے ،بیان کرتے ہواس پر اللہ ہی معاون ومددگارہے۔
وضاحت ۳؎ : اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں(النور:۲۲)۔
وضاحت۴؎ : رشتہ والوں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے(النور:۲۲)۔
وضاحت ۵؎ : کیاتمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے، اللہ بخشنے والا مہربان ہے(النور:۲۲)۔


3181- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ ذَلِكَإ وَتَلا الْقُرْآنَ فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الحدود ۳۵ (۴۴۷۴)، ق/الحدود ۱۵ (۲۵۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۹۸)، وحم (۶/۳۵) (حسن)
۳۱۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب میری صفائی وپاکدامنی کی آیت نازل ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا ذکر کیا، قرآن کی تلاوت کی، اور منبرسے اتر نے کے بعد دومردوں اورایک عورت پر حد (قذف) جاری کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ان سب پر حد جاری کردی گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے محمد بن اسحاق کی روایت کے سوا اور کسی طریقے سے نہیں جانتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
26-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْفُرْقَانِ
۲۶-باب: سورہ فرقان سے بعض آیات کی تفسیر​


3182- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: أَنْ تَزْنِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/تفسیر البقرۃ ۳ (۴۴۷۷)، والأدب ۲۰ (۴۷۶۱)، والحدود ۲۰ (۶۸۱۱)، والدیات ۲ (۶۸۶۱)، والتوحید ۴۰ (۷۵۲۰)، و۴۶ (۷۵۳۲)، م/الإیمان ۳۷ (۸۶) (الطلاق ۵۰ (۲۳۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۰)، وحم (۱/۳۸۰، ۴۷۱، ۴۲۴، ۴۶۲) (صحیح)
3182/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۱۸۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم ا للہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی ایک ذات نے تمہیں پیداکیا ہے''۔ ( اس کا کوئی شریک نہیں ہے) میں نے کہا: پھر کونساگناہ بہت بڑا ہے؟ فرمایا:'' یہ ہے کہ تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مارڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا، میں نے کہا: پھر کون ساگناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا:''تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زناکرے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۳۱۸۲/م- اس سندسے بھی ابووائل نے عمر و بن شرحبیل سے اورعمروبن شرحبیل نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے بنی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف نے اس حدیث کو ارشادباری تعالیٰ: {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا} (الفرقان:68)کی تفسیرمیں ذکرکیاہے۔


3183- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاصِلٍ الأَحْدَبِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: "أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ أَوْ مِنْ طَعَامِكَ، وَأَنْ تَزْنِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ"، قَالَ: وَتَلا هَذِهِ الآيَةَ: {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا}[الفرقان: 68-69]. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ، وَالأَعْمَشِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ، وَاصِلٍ لأَنَّهُ زَادَ فِي إِسْنَادِهِ رَجُلا.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۹۳۱۱) (صحیح)
3183/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ قَالَ: وَهَكَذَا رَوَى شُعْبَةُ عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَمْرَو بْنَ شُرَحْبِيلَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۸۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کونسا گناہ بڑاہے؟ آپ نے فرمایا:'' بڑاگناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ، جب کہ اسی نے تم کو پیداکیا ہے،اورتم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ رہے گاتو تمہارے ساتھ کھائے پیئے گا، یاتمہارے کھانے میں سے کھائے گا ،اور تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زناکرو، اور آپ نے یہ آیت { وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا} پڑ ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سفیان کی وہ روایت جسے انہوں نے منصور اور اعمش سے روایت کی ہے، واصل کی روایت کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کی سند میں ایک راوی (عمروبن شرحبیل) کا اضافہ کیا ہے ۲؎۔
۳۱۸۳/م - اس سندسے شعبہ نے واصل سے ، واصل نے ابووائل سے اور ابووائل عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳- اسی طرح شعبہ نے واصل سے واصل نے ابووائل سے اورابووائل نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس میں عمر وبن شرحبیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود جان کر نہیں پکارتے ، اور کسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام کردیا ہے، ناحق (یعنی بغیر قصاص وغیرہ) قتل نہیں کرتے، اور زنا نہیں کرتے ،اور جو ایسا کچھ کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزاسے دوچار ہوگا، قیامت کے دن عذاب دوچند ہوجائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل ورسوا ہوکر رہے گا(الفرقان:۶۸-۶۹)۔
وضاحت ۲؎ : سفیان کی صرف واصل سے روایت (رقم:۳۱۸۲)میں بھی سندمیں ''عمروبن شرحبیل'' کااضافہ ہے،دراصل سفیان کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ موجودہے،شعبہ کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الشُّعَرَائِ
۲۷-باب: سورہ شعراء سے بعض آیات کی تفسیر​


3184- حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! يَافَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! إِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيِّ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۳۱۰ (صحیح)
۳۱۸۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب یہ آیت { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ } ۱؎ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اے صفیہ بنت عبدالمطلب ، اے فاطمہ بنت محمد، اے بنی عبدالمطلب : سن لو میں اللہ سے متعلق معاملات میں تمہاری کچھ بھی حمایت، مدد وسفارش نہیں کرسکتا، ہاں ( اس دنیا میں) میرے مال میں سے جو چاہو مانگ سکتے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح روایت کی ہے وکیع اور کئی راویوں نے ہشام بن عروہ سے ،ہشام نے اپنے باپ سے اورعروہ نے عائشہ سے محمد بن عبدالرحمن طفاوی کی حدیث کی مانند،۳- اور بعض راویوں نے ہشام بن عروہ سے ، ہشام نے اپنے باپ عروہ سے اورعروہ نے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے اورا س سند میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا،۴- اس باب میں علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے نبی! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ(الشعراء:۲۱۴)۔


3185- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قُرَيْشًا؛ فَخَصَّ، وَعَمَّ فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ ضَرًّا، وَلا نَفْعًا يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللَّهِ ضَرًّا وَلا نَفْعًا يَامَعْشَرَ بَنِي قُصَيٍّ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ؛ فَإِنِّي لاأَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلا نَفْعًا يَامَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ؛ فَإِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلا نَفْعًا يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ! أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنْ النَّارِ؛ فَإِنِّي لا أَمْلِكُ لَكِ ضَرًّا وَلا نَفْعًا إِنَّ لَكِ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ.
* تخريج: خ/الوصایا ۱۱ (۲۷۵۳) والمناق ۱۳ (۳۵۲۷)، وتفسیر سورۃ الشعراء ۲ (۴۷۷۱)، م/الإیمان ۸۹ (۲۰۴)، ن/الوصایا ۶ (۳۶۷۴-۳۶۷۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۲۳)، وحم (۲/۳۳۳، ۳۶۰، ۵۱۹)، دي/الرقاق ۲۳ (۲۷۷۴) (صحیح)
3185/م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ، عَنْ عبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۸۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب آیت {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ}(اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے ) نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے خاص وعام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎ ، آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا: اے قریش کے لوگو! جانوں کو آگ سے بچالو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبدمناف کے لوگو!اپنے آپ کو جہنم سے بچالو، کیوں کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا،اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچالو۔ کیوں کہ میں تمہیں کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبدالمطلب کے لوگو! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، کیوں کہ میں تمہیں کسی طرح کا ضرر یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے فاطمہ بنت محمد ! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچالے، کیوں کہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، تم سے میرا رحم (خون)کا رشتہ ہے سو میں احساس کو تازہ رکھوں گا'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: موسیٰ بن طلحہ کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
۳۱۸۵/م- اس سندسے موسیٰ بن طلحہ سے اورموسیٰ بن طلحہ نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی ۔
وضاحت ۱؎ : یہ دوسری عام مجلس ہوگی ، اورپہلی مجلس خاص اہل خاندان کے ساتھ ہوئی ہوگی؟۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اس کا حق (اس دنیا میں) ادا کروں گا۔


3186- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَشْعَرِيُّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ؛ فَرَفَعَ مِنْ صَوْتِهِ؛ فَقَالَ: "يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ! يَا صَبَاحَاهُ!".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى وَهُوَ أَصَحُّ ذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۶) (حسن صحیح)
۳۱۸۶- ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: { وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ }نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺنے اپنی انگلیاں کانوں میں (اذان کی طرح) ڈال کر بلند آواز سے پکار کہا: یا بنی عبدمناف! یا صباحاہ! اے عبدمناف کے لوگو! جمع ہوجاؤ (اورسنو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- بعض نے اس حدیث کو عوف سے ، اورعوف نے قسامہ بن زہیرکے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں ابوموسیٰ (اشعری)سے روایت کا ذکر نہیں کیا اور یہی زیادہ صحیح ہے،۳- میں نے اس کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے واسطہ سے اس حدیث کی معرفت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
28-بَاب وَمِنْ سُورَةِ النَّمْلِ
۲۸-باب: سورہ نمل سے بعض آیات کی تفسیر​


3187- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ وَعَصَا مُوسَى؛ فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ وَتَخْتِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتَمِ حَتَّى إِنَّ أَهْلَ الْخُوَانِ لَيَجْتَمِعُونَ فَيَقُولُ: هَاهَا يَا مُؤْمِنُ! وَيُقَالُ: هَاهَا يَا كَافِرُ! وَيَقُولُ: هَذَا يَا مُؤْمِنُ! وَيَقُولُ: هَذَا يَا كَافِرُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ فِي دَابَّةِ الأَرْضِ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ.
* تخريج: ق/الفتن ۳۱ (۴۰۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۲)، وحم (۲/۲۹۵، ۴۹۱) (ضعیف)
(سندمیں ''علی بن زید بن جدعان'' ضعیف، اور ''اوس بن خالد'' مجہول ہے)
۳۱۸۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (قیامت کے قریب زمین سے) ایک جانورنکلے گا جس کے پاس سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی (مہر) اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہوگا، وہ اس عصاسے (لکیر کھینچ کر) مومن کے چہرے کو روشن ونمایاں کردے گا، اور انگوٹھی کے ذریعہ کافر کی ناک پر مہر لگادے گا یہاں تک کہ دسترخوان والے جب دسترخوان پر اکٹھے ہوں گے تو یہ کہے گا : اے مومن اور وہ کہے گا : اے کافر! ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- دابۃ الا ٔرض کے سلسلے میں اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث ابوہریرہ سے مروی ہے جسے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳- اس باب میں ابوامامہ اور حذیفہ بن اسید سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مولف اس حدیث کو ارشادباری {وَأَلْقِ عَصَاكَ}(النمل:۱۰)کی تفسیرذکرکیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
29-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْقَصَصِ
۲۹-باب: سورہ قصص سے بعض آیات کی تفسیر​


3188- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، حَدَّثَنِي أَبُوحَازِمٍ الأَشْجَعِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِعَمِّهِ قُلْ لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" قَالَ: لَوْلا أَنْ تُعَيِّرَنِي بِهَا قُرَيْشٌ أَنَّ مَا يَحْمِلُهُ عَلَيْهِ الْجَزَعُ لأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ.
* تخريج: م/الإیمان ۹ (۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۴۲) (صحیح)
۳۱۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا: آپ ''لا إله إلا الله '' (کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے) کہہ دیجئے میں آپ کے ایمان کی قیامت کے روز گواہی دوں گا، انہوں نے کہا: اگر یہ ڈرنہ ہوتا کہ قریش مجھے طعنہ دیں گے کہ موت کی گھبراہٹ سے اس نے ایمان قبول کرلیا ہے تو میں تمہارے سامنے ہی اس کلمے کا اقرار کرلیتا تواس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یہ نازل فرمائی: {إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ} ''آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہدایت دیتاہے جسے چاہتاہے'' (القصص:۵۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
30-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْعَنْكَبُوتِ
۳۰-باب: سورہ عنکبوت کی بعض آیات کی تفسیر​


3189- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ؛ قَالَ: أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ فَذَكَرَ قِصَّةً، وَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ: أَلَيْسَ قَدْ أَمَرَ اللَّهُ بِالْبِرِّ وَاللَّهِ لاَأَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَمُوتَ أَوْ تَكْفُرَ قَالَ: فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوهَا شَجَرُوا فَاهَا فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي}[العنكبوت: 8] الآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۰۷۹ (صحیح)
۳۱۸۹- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے تعلق سے چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، پھر انہوں نے ایک واقعہ وقصہ بیان کیا، ام سعد رضی اللہ عنہا نے کہا :کیا اللہ نے احسان کا حکم نہیں دیا ہے؟ ۱؎ قسم اللہ کی! نہ میں کھانا کھاؤں گی نہ کچھ پیوں گی یہاں تک کہ مرجاؤں یا پھر تم (اپنے ایمان سے )پھر جاؤ۔ (سعد) کہتے ہیں: جب لوگ اسے کھلا نے کا ارادہ کرتے تو لکڑی ڈال کر اس کا منہ کھولتے ، اسی موقع پر آیت { وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي } ۲؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی سعد رضی اللہ عنہ کی مشرک وکافر ماں ان کو''اللہ نے اپنے ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے''کے حکم سے حوالے سے کفروشرک پر ابھاررہی تھی۔
وضاحت ۲؎ : ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ احسان (وحسن سلوک) کا حکم دیا لیکن اگروہ چاہیں کہ تم میرے ساتھ شرک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو تم ان کا کہنا نہ مانو(العنکبوت:۸)۔


3190- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمْ الْمُنْكَرَ، قَالَ: كَانُوا يَخْذِفُونَ أَهْلَ الأَرْضِ وَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ عَنْ سِمَاكٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۸) (ضعیف)
(سندمیں ابوصالح باذام مولی ام ہانی ضعیف اور مدلس راوی ہے)


3190/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۱۹۰- ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے آیت {وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ} کے بارے میں ۱؎ فرمایا:'' وہ (اپنی محفلوں میں)لوگوں پر کنکریاں پھینکتے تھے (بدتمیزی کرتے) اور ان کا مذاق اڑاتے تھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، اور ہم اسے صرف حاتم بن ابی صغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سماک سے روایت کرتے ہیں ۔
اس سندسےسلیم بن اخضرنے حاتم بن ابی صغیرہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : تم اپنی محفلوں میں منکر (گناہ او ر ناپسندیدہ )فعل انجام دیتے ہو(العنکبوت :۲۹)۔
 
Top