• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-بَابٌ
۲۵-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


3745- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ" وَزَادَ أَبُو نُعَيْمٍ فِيهِ يَوْمَ الأَحْزَابِ قَالَ: "مَنْ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ" قَالَ الزُّبَيْرُ: أَنَا قَالَهَا ثَلاَثًا قَالَ الزُّبَيْرُ أَنَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجھاد ۴۰ (۲۸۴۶)، و۴۱ (۲۸۴۷)، ۱۳۵ (۲۹۹۷)، وفضائل الصحابۃ ۱۳ (۳۷۱۹)، والمغازي ۲۹ (۴۱۱۳)، والآحاد ۲ (۷۲۶۱)، م/فضائل الصحابۃ ۶ (۲۴۱۵)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۳۰۲۰) (صحیح)
۳۷۴۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں ۱؎ ، اور ابونعیم نے اس میں ''یوم الا ٔحزاب'' (غزوہ احزاب ) کا اضافہ کیا ہے''، آپ نے فرمایا:'' کون میرے پاس کا فروں کی خبر لائے گا؟ تو زبیر بولے: میں، آپ نے تین بار اسے پوچھا اور زبیر رضی اللہ عنہ نے ہربار کہا: میں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے جب کفار کی سرگرمیوں کا پتہ لگانے کے لیے یہ اعلان کیا کہ کون ہے جو مجھے کافروں کے حال سے باخبر کرے اور ایسا آپ نے تین بار کہا، تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے بھی جواب نہیں دیا، اسی موقع پر آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرمایا تھا: '' ان لکل نبی حواریا و ان حواری الزبیر بن العوام'' یہ بھی یادرکھئے کہ زبیربن عوام نبی اکرمﷺکی سگی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے ، اور اُن کی شادی اُم المومنین عائشہ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوئی تھی۔


3746- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ صَخْرِ بْنِ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: أَوْصَى الزُّبَيْرُ إِلَى ابْنِهِ عَبْدِاللَّهِ صَبِيحَةَ الْجَمَلِ فَقَالَ: مَا مِنِّي عُضْوٌ إِلاَّ وَقَدْ جُرِحَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَتَّى انْتَهَى ذَاكَ إِلَى فَرْجِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۷) (صحیح الإسناد)
۳۷۴۶- ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ زبیر نے اپنے بیٹے عبداللہ ( رضی اللہ عنہما ) کو جنگ جمل کی صبح کو وصیت کی اور کہا: میراکوئی عضو ایسا نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں زخمی نہ ہوا ہو یہاں تک کہ میری شرمگاہ بھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: حماد بن زیدکی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ وصیت انہوں نے اس لیے کی کہ جوقربانیاں ہم نے غلبہ دین حق کے لیے دی تھیں اور اسلام ان قربانیوں کے عوض دنیاپرغالب آگیا ہے ، آج اُسی قوت، طاقت، صلاحیت اور قربانی کو ہم آپس میں ضائع کررہے ہیں چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ جنگِ جمل سے دست بردار ہوکرواپس مکہ (یا مدینہ طیبہ ) کی طرف پلٹ آئے تھے اور آپ کو راستے میں کسی نے شہید کردیاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَنَاقِبِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۶-باب: عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3747- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۸) (صحیح)
3747/م- أَخْبَرَنَا أَبُومُصْعَبٍ قِرَائَةً عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۷۴۷- عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید(بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں ۱؎ ۔(رضی اللہ علیہم اجمعین)
ابومصعب نے ہمیں خبردی کہ انہوں نے عبدالعزیز بن محمد کے آگے پڑھا اور عبدالعزیز نے عبدالرحمن بن حمید سے اور عبدالرحمن نے اپنے والد حمید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی لیکن اس میں عبدالرحمن بن عوف کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث عبدالرحمن بن حمید سے بطریق: حمید، عن سعیدبن زید عن النبیﷺبھی آئی ہے ، (اوراسی طرح آئی ہے) ، اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔(جوآگے آرہی ہے)
وضاحت ۱؎ : یہی وہ حدیث ہے جس میں دس جنتیوں کا نام ایک مجلس میں اکٹھے آیا ہے ، اور اسی بنا پر ان دسوں کو''عشرہ مبشرہ'' کہا جاتا ہے، ورنہ جنت کی خوشخبری آپﷺنے ان دس کے علاوہ بھی دیگر صحابہ کو دی ہے۔


3748- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مِسْمَارٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَهُ فِي نَفَرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: عَشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: فَعَدَّ هَؤُلاَئِ التِّسْعَةَ، وَسَكَتَ عَنِ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَوْمُ نَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا أَبَا الأَعْوَرِ مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ نَشَدْتُمُونِي بِاللَّهِ أَبُوالأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو الأَعْوَرِ هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ هُوَ أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۴) (صحیح)
۳۷۴۸- حمید سے روایت ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ان سے کئی اشخاص کی موجود گی میں بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' دس آدمی جنتی ہیں، ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں عثمان ، علی ، زبیر ،طلحہ، عبدالرحمن، ابوعبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (جنتی ہیں) وہ کہتے ہیں: تو انہوں نے ان نو (۹) کو گن کر بتایا اور دسویں آدمی کے بارے میں خاموش رہے، تو لوگوں نے کہا: اے ابوالا ٔعور ہم اللہ کا واسطہ دے کرآپ سے پوچھ رہے ہیں کہ دسواں کون ہے؟ توانہوں نے کہا: تم لوگوں نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے ( اس لیے میں بتارہاہوں) ابوالاعور جنتی ہیں ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا ہے کہ یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲-ابوالأعور سے مراد خود سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہیں۔


3749- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ صَخْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ أَمْرَكُنَّ مِمَّا يُهِمُّنِي بَعْدِي، وَلَنْ يَصْبِرَ عَلَيْكُنَّ إِلاَّ الصَّابِرُونَ قَالَ: ثُمَّ تَقُولُ عَائِشَةُ: فَسَقَى اللَّهُ أَبَاكَ مِنْ سَلْسَبِيلِ الْجَنَّةِ تُرِيدُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَكَانَ قَدْ وَصَلَ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَالٍ يُقَالُ بِيعَتْ بِأَرْبَعِينَ أَلْفًا.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۲۶) (حسن)
۳۷۴۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں سے) فرماتے تھے : تم لوگوں کامعاملہ مجھے پریشان کئے رہتاہے کہ میرے بعد تمہارا کیا ہوگا؟ تمہارے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف صبر کرنے والے ہی صبر کرسکیں گے ۔
پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (ابوسلمہ سے)کہا: اللہ تمہارے والد یعنی عبدالرحمن بن عوف کو جنت کی نہر سلسبیل سے سیراب کرے ، انہوں نے آپﷺ کی بیویوں کے ساتھ ایک ایسے مال کے ذریعہ جوچالیس ہزار (دینار) میں بکا اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: نبی اکرمﷺ کی پیشین گوئی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر صادق آتی ہے ، یعنی یہ ''الصابرون''میں داخل ہے۔


3750- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أَوْصَى بِحَدِيقَةٍ لأُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِيعَتْ بِأَرْبَعِ مِائَةِ أَلْفٍ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
(یہ حدیث حسن ہے، لیکن اس سے پہلے کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۷۵۰- ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے ایک باغ کی وصیت کی جسے چار لاکھ (درہم) میں بیچاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۷-باب: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3751- حَدَّثَنَا رَجَائُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُذْرِيُّ بَصْرِيٌّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ وَهَذَا أَصَحُّ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۹۱۳ الف) (صحیح)
۳۷۵۱- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسماعیل بن ابی خالدسے قیس بن حازم کے واسطہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ ! سعد جب تجھ سے دعاکریں تو ان کی دعا قبول فرما اور یہ زیادہ صحیح ہے۔(یعنی : مرسل روایت زیادہ صحیح ہے)
وضاحت ۱؎ : یہ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی دعاکے بموجب مستجاب الدعوات ہو نے کی دلیل ہے، اور ایک بہت بڑی فضیلت ہے ۔ آثاروروایات میں سعد رضی اللہ عنہ کی بہت ساری دعاؤں کاذکرملتاہے جو اُن کی زندگی میں ہی پوری ہوگئیں۔


3752- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَقْبَلَ سَعْدٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "هَذَا خَالِي فَلْيُرِنِي امْرُؤٌ خَالَهُ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ، وَكَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ فَلِذَلِكَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "هَذَا خَالِي".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۲) (صحیح)
۳۷۵۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' یہ میرے ماموں ہیں، تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مجالد ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- سعد بن ابی وقاص قبیلہ بنی زہرہ کے ایک فرد تھے اور نبی اکرم ﷺ کی والدہ محترمہ قبیلہ بنی زہرہ ہی کی تھیں، اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ'' یہ میرے ماموں ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میرے ماموں جیسے کسی کے ماموں نہیں ہیں۔


3753- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ سَمِعَا سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: قَالَ عَلِيٌّ: مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَاهُ وَأُمَّهُ لأَحَدٍ إِلاَّ لِسَعْدٍ قَالَ لَهُ: يَوْمَ أُحُدٍ ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، وَقَالَ لَهُ: "ارْمِ أَيُّهَا الْغُلاَمُ الْحَزَوَّرُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۲۸ (صحیح)
( متن میں ''الغلام الحزور'' کاذکر منکر ہے، سند میں حسن بن الصباح البزار راوی کے بارے میں ابن حجر کہتے ہیں: صدوق یہم یعنی ثقہ ہیں، اور حدیث بیان کرنے میں وہم کاشکارہوجاتے ہیں،اور الغلام الحزور کی زیادتی اس کی دلیل ہے)
۳۷۵۳- علی بن زید اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سعید بن مسیب کوکہتے ہوئے سنا کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے سعد کے علاوہ کسی اور کے لیے اپنے باپ اورماں کو جمع نہیں کیا ۱؎ ، احد کے دن آپ نے سعد سے فرمایا:'' تم تیر مارو میرے باپ اور ماں تم پر فداہوں، تم تیرمارواے جوان پٹھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث متعدد لوگوں سے روایت کی گئی ہے ان سب نے اسے یحییٰ بن سعید سے،اور یحییٰ نے سعید بن مسیب کے واسطہ سے سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کے مناقب میں گزرا کہ ان کے لیے بھی اللہ کے رسولﷺ نے فدان ابی وامی ، کہا، دونوں میں یہ تطبیق دی جاتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کوزبیرکے بارے میں یہ معلوم نہیں تھا ، یا یہ مطلب ہے کہ احد کے دن کسی اور کے لیے آپﷺ نے ایسانہیں کہا۔


3754- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَعَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۳۰ (صحیح)
۳۷۵۴- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث عبداللہ بن شداد بن ہاد سے بھی روایت کی گئی ہے اور انہوں نے علی بن ابی طالب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یوں فرمایا:'' میرے باپ اور میری ماں تم پر فدا ہوں۔


3755- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْن إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُفَدِّي أَحَدًا بِأَبَوَيْهِ إِلاَّ لِسَعْدٍ فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ: ارْمِ سَعْدُ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۲۸ (صحیح)
۳۷۵۵- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے باپ اور ماں کو سعد کے علاوہ کسی اور پر فدا کرتے نہیں سنا، میں نے احد کے دن آپ کو فرماتے ہوئے سنا : سعد تم تیر مارو ، میرے باپ اور ماں تم پر فداہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


3756- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَهِرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ لَيْلَةً قَالَ: لَيْتَ رَجُلاً صَالِحًا يَحْرُسُنِيَ اللَّيْلَةَ قَالَتْ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ السِّلاَحِ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا جَاءَ بِكَ فَقَالَ سَعْدٌ: وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ نَامَ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجھاد ۷۰ (۲۸۸۵)، والتمنی ۴ (۷۲۳۱)، م/فضائل الصحابۃ ۵ (۲۴۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۲۵) (صحیح)
۳۷۵۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی، تو آپ نے فرمایا:'' کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا'' ، ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھنا ہٹ کی آواز سنی، تو آپﷺ نے پوچھا : یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا : تم کیوں آئے ہو؟ تو سعد نے کہا: میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے میں آپ کی نگہبانی کے لیے آیا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر سوگئے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: اللہ کے رسول اکرمﷺ کے فرمان''رجل صالح''کے مصداق سعد رضی اللہ عنہ قرارپائے، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اکرمﷺ کسی کو''رجل صالح''قراردیں ہیں، رضی اللہ عنہ وأرضاہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَنَاقِبِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۸-باب: سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3757- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ قِيلَ: وَكَيْفَ ذَلِكَ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِحِرَائَ فَقَالَ: "اثْبُتْ حِرَائُ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ" قِيلَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قِيلَ: فَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ أَنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/السنۃ ۹ (۴۶۴۸)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۸)، وانظر ماتقدم برقم ۳۷۴۷ (صحیح)
3757/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۹) (صحیح)
۳۷۵۷- سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نو اشخاص کے سلسلے میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ یہ لوگ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے سلسلے میں گواہی دوں تو بھی گنہگار نہیں ہوں گا، آپ سے کہاگیا: یہ کیسے ہے؟ (ذرا اس کی وضاحت کیجئے) توا نہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو آپ نے فرمایا:''ٹھہرا رہ اے حرا! تیرے اوپر ایک نبی، یا صدیق، یا شہید ۱؎ کے علاوہ کوئی اور نہیں، عرض کیا گیا: وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ نے صدیق یا شہید فرمایا ہے؟ (انہوں نے کہا: ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی، طلحہ ، زبیر، سعد اور عبدالرحمن بن عوف ہیں رضی اللہ عنہم ، پوچھا گیا: دسویں شخص کون ہیں؟ تو سعید نے کہا: وہ میں ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔
۳۷۵۷/م- ہم سے احمد بن منیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے بیان کیا اور شعبہ نے حر بن صباح سے ، حرنے عبدالرحمن بن اخنس سے اور عبدالرحمن بن اخنس نے سعید بن یزید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی اسی جیسی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہاں''شہید''کالفظ ''ایک شہید''کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ''جنس شہید''کے معنی میں ہے، اس لیے کہ آپ نے کئی شہیدوں کے نام گنائے ہیں، اسی طرح ''صدیق''بھی جنس صدیق''کے معنی میں ہے ،کیونکہ سعدبن ابی وقاص شہیدنہیں ہوئے تھے، وہ ''صدیق'' کے جنس سے ہیں، گرچہ یہ لقب ابوبکررضی اللہ کے لیے مشہورہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَنَاقِبِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۹-باب: عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3758- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي عَبْدُالْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِالْمُطَّلِبِ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُغْضَبًا وَأَنَا عِنْدَهُ فَقَالَ: مَا أَغْضَبَكَ قَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ إِذَا تَلاَقَوْا بَيْنَهُمْ تَلاقَوْا بِوُجُوهٍ مُبْشَرَةٍ، وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذَلِكَ قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَيَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيمَانُ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ"، ثُمَّ قَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ آذَى عَمِّي فَقَدْ آذَانِي فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم عندہ برقم ۳۶۰۷ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۸۹) (ضعیف)
(سند میں یزید بن ابی زیاد ہاشمی کوفی ضعیف شیعی راوی ہے، کبر سنی کی وجہ سے حافظہ میں تغیر آگیا تھا، اور دوسروں کی تلقین قبول کرنے لگے تھے، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا ''عم الرجل صنو أبيه'' ثابت ہے ، جیساکہ آگے آرہا ہے ۳۷۶۰ ، ۳۷۶۱)
۳۷۵۸- عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس غصہ کی حالت میں آئے ، میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، آپ نے پوچھا : تم غصہ کیوں ہو؟ وہ بولے : اللہ کے رسول ! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ میں آگئے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا ، پھر آپ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے، پھر آپ نے فرمایا:'' اے لوگو! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیوں کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ۱؎ ہوتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں ''صنو''کالفظ آیاہے، ''صنو''کی حقیقت یہ ہے کہ کسی درخت کے ایک ہی تنے سے اوپردو یا تین یا چارشاخیں نکلتی ہیں، ان شاخوں کو آپس میں ایک دوسرے کا ''صنو''کہتے ہیں۔


3758/أ- حدثنا أَحمدُ الدورقيُّ، أخبرنَا إسماعيلُ بنُ إبراهيمَ، عن الُجريريِّ، عن عَبدِاللهِ بن شَقيقٍ، قالَ: قلتُ لعائشةَ: أيُّ أصحابِ النَبيِّ ﷺ كانَ أحبَّ إليهِ؟ قالتْ: أبوبكرٍ، قلتُ: ثم مَنْ؟ قالتْ: ثم عمرُ، قلتُ: ثم مَنْ؟ قالتْ: ثم أبو عُبيدةَ بن الجراح، قلتُ: ثم مَنْ؟ فسكتتْ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱۲) وقد أخرجه:حم (6/218) (صحیح)
۳۷۵۸/أ- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ سے کہا: صحابہ میں سے رسول اکرمﷺ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر ، میں نے پوچھا: پھرکون؟ کہا:عمر، میں نے پوچھا: پھرکون؟ کہا: ابوعبیدہ بن الجراح ، میں نے پوچھا: پھرکون؟ اس پر آپ خاموش رہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : محبت کے مختلف وجوہ واسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی اکرمﷺ کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد وعبادت کی وجہ سے تھی، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت ، دینی بصیرت اورفہم وفراست کے سبب تھی، ابوبکر وعمر سے محبت اسلام میں سبقت ، دین کی بلندی ، علم کی زیادتی ، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائیدکے سبب تھی ، شیخین کے کمالات ومناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے محبت اس لیے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں ۔


3759- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْعَبَّاسُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۴۴) (ضعیف)
( سند میں عبدا لأعلی بن عامرضعیف راوی ہیں،الضعیفۃ ۲۳۱۵)
۳۷۵۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔


3759/أ- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُوبَكْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ، نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۸) (صحیح)
۳۷۵۹/أ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا ہی اچھے آدمی ہیں ابوبکر ،کیا ہی اچھے آدمی ہیں، عمرکیا ہی اچھے آدمی ہیں ، ابوعبیدہ بن جراح''۔ ( رضی اللہ عنہم )


3760- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي قَال: سَمِعْتُ الأَعْمَشَ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعُمَرَ فِي الْعَبَّاسِ: "إِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ" وَكَانَ عُمَرُ تَكَلَّمَ فِي صَدَقَتِهِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۱۲) (صحیح)
(شواہد کی بناپر حدیث صحیح ہے ، دیکھئے: حدیث نمبر(۳۷۶۱) والصحیحۃ ۸۰۶)
۳۷۶۰- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر سے عباس کے سلسلہ میں فرمایا:'' بلا شبہہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتاہے'' عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺسے ان کے صدقہ کے سلسلہ میں کوئی بات کی تھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کو زکاۃ کا مال جمع کرنے کے لیے بھیجا تو کچھ لوگوں نے دینے سے انکار کردیا، ان میں سے آپ ﷺ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہی کے سلسلہ میں آ پ نے عمر سے فرمایا:'' ''و أما العباس فھی علي ومثلھا معھا'' یعنی جہاں تک میرے چچا عباس کا مسئلہ ہے تو ان کا حق میرے اوپر ہے اور اسی کے مثل مزید اور ، ساتھ ہی آپ نے وہ بات بھی کہی جو حدیث میں مذکور ہے۔


3761- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَائُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ، وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ أَوْ مِنْ صِنْوِ أَبِيهِ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: م/الزکاۃ ۳ (۹۸۳)، د/الزکاۃ ۲۱ (۱۶۲۲)، ن/الزکاۃ ۱۵ (۲۴۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۲۲) (وأخرجہ البخاري في الزکاۃ (۴۹/ح ۱۴۶۸)، بدون قولہ : ''عم الرجل صنو أبیہ'')، وحم (۲/۳۲۲) (صحیح)
۳۷۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عباس اللہ کے رسول کے چچا ہیں اور آدمی کاچچا اس کے باپ کے مثل ہوتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے ابوالزناد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔


3762- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَائٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْعَبَّاسِ: "إِذَا كَانَ غَدَاةَ الاثْنَيْنِ فَأْتِنِي أَنْتَ وَوَلَدُكَ حَتَّى أَدْعُوَ لَكَ بِدَعْوَةٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا وَوَلَدَكَ" فَغَدَا وَغَدَوْنَا مَعَهُ وَأَلْبَسَنَا كِسَائً، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لاَ تُغَادِرُ ذَنْبًا اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۳۶۴) (حسن)
۳۷۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' دوشنبہ کی صبح کو آپ اپنے لڑکے کے ساتھ میرے پاس آئیے تاکہ میں آپ کے حق میں ایک ایسی دعا کردوں جس سے اللہ آپ کو اورآپ کے لڑکے کو فائدہ پہنچائے، پھر وہ صبح کو گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ گئے تو آپ نے ہمیں ایک چادر اڑھادی ، پھر دعا کی: اے اللہ ! عباس کی اور ان کے لڑکے کی بخشش فرما، ایسی بخشش جوظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے ایسی ہو کہ کوئی گناہ نہ چھوڑ ے، اے اللہ ! ان کی حفاظت فرما، ان کے لڑکے کے سلسلہ میں یعنی اس کے حقوق کی ادائیگی کی انہیں خوب توفیق مرحمت فرما''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30-بَاب مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۰-باب: جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3763- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "رَأَيْتُ جَعْفَرًا يَطِيرُ فِي الْجَنَّةِ مَعَ الْمَلاَئِكَةِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَقَدْ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۳۵) (صحیح)
۳۷۶۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن جعفر کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے، اور عبداللہ بن جعفر: علی بن مدینی کے والد ہیں،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت آئی ہے۔


3764- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: مَا احْتَذَى النِّعَالَ، وَلا انْتَعَلَ، وَلا رَكِبَ الْمَطَايَا، وَلا رَكِبَ الْكُورَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَفْضَلُ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْكُورُ الرَّحْلُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۴۶) (صحیح الإسناد)
۳۷۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نہ کسی نے جوتا پہنا یا اور نہ پہنا اورنہ سوار ہوا سواریوں پر اور نہ چڑھا اونٹ کی کاٹھی پر جو رسول اللہ ﷺ کے بعد جعفر بن ابی طالب سے افضل وبہتر ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- کور کے معنیٰ کجاوہ کے ہیں۔


3765- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْن عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَشْبَهْتَ خَلْقِي، وَخُلُقِي، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
3765/م- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْرَائِيلَ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳) (صحیح)
۳۷۶۵- براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جعفر بن ابی طالب سے فرمایا:'' تم صورت اور سیرت دونوں میں میرے مشابہ ہو''، اور اس حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۷۶۵/م- ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے والد نے اسرائیل کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : قصہ یہ ہے کہ عمرۃ القضاء کے موقع سے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بچی کی کفالت کے لیے : جعفر، علی اورزید بن خارجہ رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف ہوا، سب نے اپنا اپناحق جتایا، لیکن بچی کی خالہ کے جعفر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں ہو نے کی وجہ سے آپﷺ نے بچی کو جعفر کے حوالہ کردیا۔


3766- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَبُو إِسْحَاقَ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِنْ كُنْتُ لأَسْأَلُ الرَّجُلَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنِ الآيَاتِ مِنَ الْقُرْآنِ أَنَا أَعْلَمُ بِهَا مِنْهُ مَا أَسْأَلُهُ إِلاَّ لِيُطْعِمَنِي شَيْئًا؛ فَكُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ لَمْ يُجِبْنِي حَتَّى يَذْهَبَ بِي إِلَى مَنْزِلِهِ فَيَقُولُ لامْرَأَتِهِ: يَا أَسْمَائُ! أَطْعِمِينَا شَيْئًا؛ فَإِذَا أَطْعَمَتْنَا أَجَابَنِي، وَكَانَ جَعْفَرٌ يُحِبُّ الْمَسَاكِينَ، وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ، وَيُحَدِّثُهُمْ، وَيُحَدِّثُونَهُ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَكْنِيهِ بِأَبِي الْمَسَاكِينِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو إِسْحَاقَ الْمَخْزُومِيُّ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَدَنِيُّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَلَهُ غَرَائِبُ.
* تخريج: ق/الزہد ۷ (۴۱۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۲) (ضعیف جداً)
(سند میں ابراہیم بن الفضل ابواسحاق متروک ہے)
۳۷۶۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں قرآن کی آیتوں کے سلسلہ میں صحابہ سے پوچھا کرتاتھا ،چاہے میں اس کے بارے ان سے زیادہ واقف ہوتا ایسا اس لیے کرتا تاکہ وہ مجھے کچھ کھلائیں، چنانچہ جب میں جعفر بن ابی طالب سے پوچھتا تووہ مجھے جواب اس وقت تک نہیں دیتے جب تک مجھے اپنے گھر نہ لے جاتے اور اپنی بیوی سے یہ نہ کہتے کہ اسماء ہمیں کچھ کھلاؤ، پھر جب وہ ہمیں کھلادیتیں تب وہ مجھے جواب دیتے، جعفر رضی اللہ عنہ مسکینوں سے بہت محبت کرتے تھے، ان میں جاکر بیٹھتے تھے ان سے باتیں کرتے تھے، اور ان کی باتیں سنتے تھے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ انہیں ابوالمساکین کہاکرتے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ابواسحاق مخزومی کانام ابراہیم بن فضل مدنی ہے اور بعض محدثین نے ان کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور ان سے غرائب حدیثیں مروی ہیں۔


3767- حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَاتِمُ بْنُ سِيَاهٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا نَدْعُو جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَبَا الْمَسَاكِينِ؛ فَكُنَّا إِذَا أَتَيْنَاهُ قَرَّبَنَا إِلَيْهِ مَا حَضَرَ؛ فَأَتَيْنَاهُ يَوْمًا؛ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُ شَيْئًا؛ فَأَخْرَجَ جَرَّةً مِنْ عَسَلٍ؛ فَكَسَرَهَا؛ فَجَعَلْنَا نَلْعَقُ مِنْهَا .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (ضعیف)
(حاتم بن سیاہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجودگی میں، ورنہ لین الحدیث یعنی ضعیف، اور یزید بن قسیط یہ یزید بن عبداللہ بن قسیط لیثی ثقہ راوی ہیں)
۳۷۶۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جعفر بن ابی طالب کو ابوالمساکین کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ جب ہم ان کے پاس آتے تو وہ جو کچھ موجود ہوتا ہمارے سامنے لاکر رکھ دیتے، تو ایک دن ہم ان کے پاس آئے اور جب انہیں کوئی چیز نہیں ملی، (جو ہمیں پیش کرتے) تو انہوں نے شہد کا ایک گھڑا نکالااور اسے توڑا تو ہم اسی کو چاٹنے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوسلمہ کی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
۳۱-باب : حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے مناقب کابیان​


3768- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۱۳۴)، وحم (۳/۳، ۲۲، ۶۴، ۸۰) (صحیح)
(سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم ۷۹۶)
3768/م- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَابْنُ أَبِي نُعْمٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ، وَيُكْنَى أَبَا الْحَكَمِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۷۶۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں'' ۱؎ ۔
۳۷۶۸/م- ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے جریر اور محمد بن فضیل نے یزید کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابن ابی نعم کانام عبدالرحمن بن ابی نعم بجلی کوفی ہے اور ان کی کنیت ابوالحکم ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''جنت میں جوانوں کے سردار''اس کے محدثین نے کئی معانی بیان کئے ہیں، (۱) جولوگ جوانی کی حالت میں وفات پائے (اورجنتی ہیں)ان کے سردار یہ دونوں ہوں گے ، اس بیان کے وقت وہ دونوں جوان تھے، شہادت جوانی کے بعد حالت کہولت میں ہوئی ، لیکن جوانی کی حالت میں وفات پانے والوں کے سردار بنادیئے گئے ہیں(۲) جنت میں سبھی لوگ جوانی کی عمر میں کردیئے جائیں گے ، اس لیے مرادیہ ہے کہ انبیاء اورخلفائے راشدین کے سوا دیگر لوگوں کے سردار یہ دونوں ہوں گے (۳) اس زمانہ کے (جب یہ دونوں جوان تھے) ان جوانوں کے یہ سردار ہیں جومرنے کے بعدجنت میں جائیں گے ، واللہ اعلم۔


3769- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُهَاجِرِ أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ النَّبَّالُ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: طَرَقْتُ النَّبِيَّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى شَيْئٍ لاَأَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ: مَا هَذَا؟ الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ، قَالَ: فَكَشَفَهُ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ عَلَى وَرِكَيْهِ فَقَالَ: هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا؛ فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶) (حسن)
۳۷۶۹- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پارہاتھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اورحسین رضی اللہ عنہما تھے، آپﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا:'' یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں ، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3770- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَمَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الأدب ۱۸ (۵۹۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۰۰) (صحیح)
۳۷۷۰- عبدالرحمن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ ا س کا کیا حکم ہے؟ ۱؎ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہاہے! حالاں کہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کوقتل کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ''حسن اور حسین رضی اللہ عنہما یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے،۳- ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھرمارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیاتھا، ہوسکتاہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کردی ہو، سیاق وسباق کے لحاظ سے صحیح صورتِ حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔


3771- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا رَزِينٌ قَالَ: حَدَّثَتْنِي سَلْمَى قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ، وَعَلَى رَأْسِهِ، وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ: مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۷۹) (ضعیف)
(سندمیں سلمی البکریۃ ضعیف راوی ہیں)
۳۷۷۱- سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی ،وہ رورہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رورہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں ) آپ کے سراور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیاہوا ہے؟ اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا:'' میں حسین کاقتل ابھی ابھی دیکھا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


3772- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ" وَكَانَ يَقُولُ لِفَاطِمَةَ: "ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ" فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۶) (ضعیف)
(سندمیں یوسف بن ابراہیم ضعیف راوی ہیں)
۳۷۷۲- انس بن مالک کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:'' حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ، آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: انس کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔


3773- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ هُوَ ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: "إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ يُصْلِحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ.
* تخريج: خ/الصلح ۹ (۲۷۰۴)، والمناقب ۲۵ (۳۶۲۹)، وفضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۴۶)، والفتن ۲۰ (۷۱۰۹)، د/السنۃ ۱۳ (۴۶۶۲)، ن/الجمعۃ ۲۷ (۱۴۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۸)، وحم (۵/۳۷، ۴۴، ۴۹، ۵۱) (صحیح)
۳۷۷۳- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے منبر پر چڑھ کرفرمایا:'' میرا یہ بیٹا سردار ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور ''ابني هذا'' سے مراد حسن بن علی ہیں رضی اللہ عنہما ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دوگروہ ہوگئے، ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کرکے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے (جزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء)۔


3774- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَال: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ، وَيَعْثُرَانِ؛ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْمِنْبَرِ؛ فَحَمَلَهُمَا، وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ، وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ؛ فَنَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ، وَيَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۳۳ (۱۱۰۹)، ن/الجمعۃ ۳۰ (۱۴۱۴)، والعیدین ۲۷ (۱۵۸۶)، ق/اللباس ۲۰ (۳۶۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸)، وحم (۵/۳۵۴) (صحیح)
۳۷۷۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اورحسین رضی اللہ عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے ، آپ نے منبرسے اتر کر ان دونوں کو اٹھالیا، اور ان کو لاکر اپنے سامنے بٹھالیا ، پھر فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے {إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ } ۱؎ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزئش ہیں) میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھالیا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : التغابن:۱۵۔
وضاحت ۲؎ : جہاں یہ بچوں کے ساتھ آپﷺ کے کمال شفقت کی دلیل ہے ، وہیں حسن اورحسین رضی اللہ عنہما کے آپ کے نزدیک مقام ومرتبہ کی بھی بات ہے۔


3775- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَامِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۵۰)، وحم (۴/۱۷۲) (حسن)
(تراجع الالبانی ۳۷۵) الصحیحہ ۱۲۲۷)
۳۷۷۵- یعلی بن مرّہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۱؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتاہے جو حسین سے محبت کرتاہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں۱- یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن عثمان بن خثیم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : بقول قاضی عیاض: اللہ کے رسول ﷺمن جانب اللہ مطلع کردیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے اس لیے آپ نے پیشگی بیان کردیا کہ ''حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے ، اورحسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: حسین کی بہت ہی زیادہ اولادہوگی ، یعنی ان کی نسل خوب پھیلے گی کہ قبائل بن جائیں گے، سوایساہی ہوا۔


3776- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ مِنْهُمْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِرَسُولِ اللَّهِ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۹) (صحیح)
۳۷۷۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : لوگوں میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول کے مشابہ کوئی نہیں تھا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3777- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ الزُّبَيْرِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۲۶ (صحیح)
۳۷۷۷- ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اورحسن بن علی رضی اللہ عنہما ان سے مشابہت رکھتے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکر صدیق ، ابن عباس اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


3778- حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ قَالَتْ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيئَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ؛ فَجَعَلَ يَقُولُ: بِقَضِيبٍ لَهُ فِي أَنْفِهِ، وَيَقُولُ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًالِمَ يُذكَر قَالَ قُلْتُ: أَمَا إِنَّهُ كَانَ مِنْ أَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۹) (صحیح)
۳۷۷۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سرلایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مارکرکہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کاذکرحسن سے کیا جاتاہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے) ۱؎ ۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ جملہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے حسن اور آپ کی خوبصورتی سے متعلق طعن و استہزاء کے طورپر کہاتھا، اسی لیے انس بن مالک نے اسے جواب دیا۔
وضاحت ۲؎ : اس سے پہلے حدیث رقم ۳۷۸۶ کے تحت زہری کی ایک روایت انس رضی اللہ عنہ سے گزری ہے ، اس میں ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور اس روایت میں یہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما سب سے زیادہ مشابہ تھے، بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض پایا جارہاہے، علماء نے دونوں روایتوں میں تطبیق کی جو صورت نکالی ہے وہ یہ ہے : (۱) زہری کی روایت میں جو مذکورہے یہ اس وقت کی بات ہے جب حسن رضی اللہ عنہ باحیات تھے اور اس وقت وہ اپنے بھائی حسین بن علی کے بہ نسبت رسول اللہﷺ سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں جو مذکور ہے یہ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے ۔ (۲) یہ بھی کہاجاتاہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو جن لوگوں نے اللہ کے رسول سے مشابہ قراردیا ہے تو ان لوگوں نے حسن کو مستثنیٰ کرکے یہ بات کہی ہے۔ (۳) یہ بھی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں اللہ کے رسول سے مشابہ تھے۔(دیکھئے اگلی روایت)


3779- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: الْحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَى الرَّأْسِ، وَالْحُسَيْنُ أَشْبَهُ بِالنَّبِيِّ ﷺ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۰۲) (ضعیف)
(سندمیں ہانی بن ہانی مجہول الحال راوی ہیں)
۳۷۷۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : حسن سینہ سے سرتک کے حصہ میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ سے مشابہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3780- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: لَمَّا جِيئَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّئُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ زِيَادٍ؛ فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ؛ فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ، ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ؛ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۱۴۰) (صحیح الإسناد)
۳۷۸۰- عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۱؎ اورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب میں ا س حدیث کو لاکر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک ،آنکھ اور منہ پر ماراتھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔(عبداللہ بن زیادکو مختارثقفی کے فرستادہ ابراہیم بن اشترنے سن چھیاسٹھ میں مقام جازر میں جوموصل سے پانچ فرسخ پرہے قتل کیا تھا)۔


3781- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ: مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا فَنَالَتْ مِنِّي فَقُلْتُ لَهَا: دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ ﷺ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ؛ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَائَ، ثُمَّ انْفَتَلَ؛ فَتَبِعْتُهُ؛ فَسَمِعَ صَوْتِي فَقَالَ: مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلأُمِّكَ قَالَ: إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلْ الأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ، وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۳) (صحیح)
۳۷۸۱- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکاہوں، تو وہ مجھ پر خفاہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئے میں آپ کے ساتھ صلاۃِ مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا:'' کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے کہا: '' کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو''(پھر)آپ نے فرمایا:'' یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے انپے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان )کے سردار ہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : خصوصی فرشتہ کے ذریعہ مذکورہ خوشخبری ان تینوں ماں بیٹوں کی خصوصی فضیلت پردلالت کرتی ہے۔


3782- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَسَامَةَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۲ (۳۷۴۹)، م/فضائل الصحابۃ ۸ (۲۴۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳) (صحیح)
۳۷۸۲- براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو فرمایا:'' اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں ،تو بھی ان دونوں سے محبت فرما''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3783- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال: سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَاضِعًا الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْفُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۷۸۳- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا،آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے: ''اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتاہوں تو بھی اس سے محبت فرما''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ فضیل بن مرزوق کی(مذکورہ) روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس روایت میں صرف حسن کو کندھے پر اٹھائے ہونے کاتذکرہ ہے وہ اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ حسن وحسین رضی اللہ عنہما دونوں کو اٹھائے ہوئے تھے، حالانکہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہ دوالگ الگ واقعے ہیں، اوردونوں کے لیے یہ بات کہے جانے میں کوئی تضاد بھی نہیں۔


3784- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلاَمُ! فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَزَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۶) (ضعیف)
(سندمیں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)
۳۷۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا:بیٹے ! کیاہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- زمعہ بن صالح کی بعض محدثین نے ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے۔


3785- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ كَثِيرٍ النَّوَّائِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ نَجَبَةَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَائَ أَوْ نُقَبَائَ، وَأُعْطِيتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ قُلْنَا: مَنْ هُمْ؟ قَالَ: أَنَا وَابْنَايَ، وَجَعْفَرُ، وَحَمْزَةُ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَبِلاَلٌ، وَسَلْمَانُ، وَالْمِقْدَادُ، وَحُذَيْفَةُ، وَعَمَّارٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۰) (ضعیف)
(سندمیں مسیب بن نجبہ لین الحدیث اور کثیر النواء ضعیف اور ابوادریس المرہبی شیعی ہیں، اور حدیث میں تشیع واضح ہے)
۳۷۸۵- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہر نبی کو اللہ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں، اور مجھے چودہ، ہم نے عرض کیا : وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' میں، میرے دونوں نواسے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد ، حذیفہ ، عمار اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ ﷺ
۳۲-باب: اہل بیت کے مناقب کابیان​


3786- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ الأَنْمَاطِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَائِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ.
قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ قَالَ: وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَى عَنْهُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۱۵) (صحیح) (تراجع الألبانی ۶۰۱)
۳۷۸۶- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا ،آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوکر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ''اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری عترت یعنی اہل بیت ہیں '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- زید بن حسن سے سعید بن سلیمان اور متعدد اہل علم نے روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابوذر ، ابوسعیدخدری ، زید بن ارقم اور حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: اہل بیت کا عقیدہ اورمنہج جو صحیح سندسے ثابت ہو وہ ہدایت کاضامن ہی ہے ، کیونکہ یہ نفوس قدسیہ بزبان رسالت مآب ہدایت ہیں، اس سے شیعوں کا اپنی شیعیت پراستدلال بالکل درست نہیں کیونکہ صحیح روایات سے اہل بیت سے منقول عقیدہ ومنہج موجودہ شیعیت کے بالکل مخالف ہے اہل بیت کیا ، کیا شیعہ کتاب اللہ اورسنت رسول ﷺپرقائم ہو نے کے دعویدارنہیں؟ مگرکتاب اللہ اورسنت رسولﷺ کی تشریح اورتفہیم شیعوں کے طریقے سے آئی ہے کیا وہ صدفی صد ان دونوں کے صحیح مفاہیم کے خلاف نہیں ؟اصل بات یہ ہے کہ صحیح سندسے سلف کے فہم کے مطابق منقول عقیدہ ومنہج ہی ہدایت کا ضامن ہے۔اوروہ اہل السنہ والجماعہ اہل حدیث کے پاس ہے ۔


3787- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}[الأحزاب: 33] فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا النَّبِيُّ ﷺ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا؛ فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَائٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَائٍ، ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلاَئِ أَهْلُ بَيْتِي.
فَأَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ، وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ، وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ قَالَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَأَبِي الْحَمْرَائِ، وَأَنَسٍ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۲۰۵ (صحیح)
۳۷۸۷- نبی اکرم ﷺ کے ربیب (پروردہ)عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت کریمہ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} ۱؎ نبی اکرم ﷺپر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپالیا، پھر فرمایا:'' اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرمادے اور انہیں اچھی طرح پاک کردے''، ام سلمہ نے عرض کیا : اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے فرمایا:'' تو اپنی جگہ پر رہ اور توبھی نیکی پر ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- اس باب میں ام سلمہ ، معقل بن یسار، ابوحمراء اور انس رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے اہل بیت النبوۃ !اللہ چاہتاہے کہ تم سے (کفروشرک)کی گندگی دورکردے، اورتمہاری خوب تطہیرکردے (الاحزاب: ۳۳)۔
وضاحت ۲؎ : اس آیت کے سیاق وسباق اورسبب نزول سے واضح طورپر ظاہرہوتاہے کہ ''اہل البیت ''سے نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات مراد ہیں یا اس حدیث سے ازواج مطہرات کے علاوہ علی ، فاطمہ ،حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کے بھی ''اہل بیت''میں ہو نے کی بات ثابت ہوتی ہے ، اور دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔


3788- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَالأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالاَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَائِ إِلَى الأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ؛ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۹) (صحیح)
۳۷۸۸- زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والاہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اوروہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کو ثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کررہے ہو '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان دونوں سے ثابت عقیدہ ومنہج پر عمل کرنے میں تم کیا کرتے ہو، ان کے مطابق عمل کرتے ہو یا مخالف پہلے یہ بات گزری کہ اہل بیت سے صحیح سند سے ثابت عقیدہ ومنہج ہدایت کا ضامن ہے ، اور اس شیعیت کا کوئی تعلق نہیں۔


3789- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الأَشْعَثِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ النَّوْفَلِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ، وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي بِحُبِّي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۹۱) (ضعیف)
(سندمیں عبداللہ بن سلیمان نوفلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی صورت میں اور یہاں متابعت نہیں ہے،اس لیے لین الحدیث یعنی ضعیف الحدیث ہیں)
۳۷۸۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ سے محبت کرو کیوں کہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہاہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میر ی خاطر''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَنَاقِبِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
۳۳-باب: معاذ بن جبل ، زید بن ثابت، ابی بن کعب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم کے مناقب کابیان​


3790- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ دَاوُدَ الْعَطَّارِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُوبَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَائً عُثْمَانُ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ أُبَيٌّ، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ، وَأَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو قِلابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَالْمَشْهُورُ حَدِيثُ أَبِي قِلابَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر مابعدہ (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۴) (صحیح)
۳۷۸۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ سچی حیاوالے عثمان بن عفان ہیں، اور حلال وحرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں، اور فرائض(میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہرامت میں ایک امین ہوتاہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں ۲-اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : أمین یوں تو سارے صحابہ تھے ، مگر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس بات میں ممتاز تھے ، اس لیے ان کو ''امین الامۃ'' (آج کل کی اصطلاح میں پوری اُمّت کا جنرل سیکریٹری) کا لقب دیا ،اسی طرح بہت ساری اچھی صفات میں بہت سے صحابہ مشترک ہیں مگر کسی کسی کی خاص خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے آپﷺنے ان کواس صفت میں ممتا ز قراردیا، جیسے حیاء میں عثمان، قضاء میں علی ، میراث میں زید بن ثابت اورقراء ت میں ابی بن کعب، وغیرہم رضی اللہ عنہم ، (دیکھئے اگلی حدیث)۔


3791- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَائً عُثْمَانُ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَإِنَّ أَمِينَ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۵۴)، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲) (صحیح)
۳۷۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیا والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض(میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم معاذبن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتاہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3792- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ" {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا} قَالَ: وَسَمَّانِي؟ قَالَ: "نَعَمْ" فَبَكَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ فَذَكَرَهُ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۱۶ (۳۸۰۹)، وتفسیر سورۃ البینۃ (۴۹۵۹-۴۹۶۱)، م/المسافرین ۳۹ (۷۹۹)، وفضائل الصحابۃ ۲۳ (۷۹۹/۱۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۷) (صحیح)
۳۷۹۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں { لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ} ۱؎ پڑھ کر سناؤں ، انہوں نے عرض کیا: کیااس نے میرا نام لیا ہے، آپ نے فرمایا:'' ہاں (یہ سن کر) وہ روپڑے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:'' پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی''۔
وضاحت ۱؎ : سورۃ البینۃ : ۱۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات اللہ کے نزدیک ابی بن کعب کے مقام ومرتبہ کی دلیل ہے ، اور وہ بھی خاص قراء ت قرآن میں {ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء } (الجمعة:4)۔


3793- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ قَال: سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ: {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ} فَقَرَأَ فِيهَا إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَاللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لاَ الْيَهُودِيَّةُ وَلاَ النَّصْرَانِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ، وَقَرَأَ عَلَيْهِ، وَلَوْ أَنَّ لابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لابْتَغَى إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيًا لابْتَغَى إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلاَ يَمْلأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ". وَقَدْ رَوَى قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لأُبَيٍّ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۱) (صحیح)
۳۷۹۳- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا :'' اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں''، پھر آپ نے انہیں {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ }پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ۱؎ ''إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَاللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لاَ الْيَهُودِيَّةُ وَلاَ النَّصْرَانِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ'' (بے شک دین والی ۲؎ اللہ کے نزدیک تمام ادیان و ملل سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہوجانے والی مسلمان عورت ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی عورت جوکوئی نیکی کاکام کرے تو وہ ہرگز اس کی ناقدری نہ کرے، اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ۳؎ '' وَلَوْ أَنَّ لابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لابْتَغَى إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ كَانَ لَهُ ثَانِيًا لابْتَغَى إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلاَ يَمْلأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ ''۔(اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہوتو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی ۴؎ ، اور جو توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتاہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی آئی ہے، ۳- اسے عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمن بن ابزی سے اور انہوں نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا:'' اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں،۴- قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ حدیث ارشادفرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: شادی کے لیے عورتوں کا انتخاب میں جو ''فاظفربذات الدین ''کا حکم نبوی آیا ہے اس ''ذات الدین''سے مراد ایسی ہی عورت ہے ۔
وضاحت ۳؎ : یعنی :یہ حدیث ارشادفرمائی، نہ کہ مذکورہ آیت کی طرح تلاوت کی۔
وضاحت ۴؎ : یعنی: موت کے بعد مٹی میں دفن ہوجانے پر ہی یہ خواہش ختم ہوپائیگی۔


3794- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْبَعَةٌ كُلُّهُمْ مِنَ الأَنْصَارِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ: مَنْ أَبُو زَيْدٍ قَالَ: أَحَدُ عُمُومَتِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الأنصار ۱۷ (۳۸۱۰)، وفضائل القرآن ۸ (۵۰۰۳)، م/فضائل الصحابۃ ۲۳ (۲۴۶۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۸) (صحیح)
۳۷۹۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے ہیں: ابی بن کعب ، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید ۱؎ ۔
قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے کہا: ابوزید کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: وہ میرے چچا لوگوں میں سے ایک ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں جہاں ان چاروں کی فضیلت ہے وہیں انصار مدینہ کی بھی منقبت ہے۔


3795- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُوبَكْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ، نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُهَيْلٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۸) (صحیح)
۳۷۹۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا ہی اچھے لوگ ہیں ابوبکر ، عمر ، ابوعبیدہ بن جراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس ، معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح''( رضی اللہ عنہم )۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔


3796- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: جَاءَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالاَ: ابْعَثْ مَعَنَا أَمِينًا فَقَالَ: فَإِنِّي سَأَبْعَثُ مَعَكُمْ أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ؛ فَأَشْرَفَ لَهَا النَّاسُ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ: وَكَانَ أَبُو إِسْحَاقَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ صِلَةَ قَالَ: سَمِعْتُهُ مُنْذُ سِتِّينَ سَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ، وَأَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ".
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۲۱ (۳۷۴۵)، والمغازي ۷۲ (۴۳۸۰، ۴۳۸۱)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۵۴)، م/فضائل الصحابۃ ۷ (۲۴۲۰)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۵۰) (صحیح)
3796/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، وَأَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ: قَلْبُ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ مِنْ ذَهَبٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۷۹۶- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک قوم کا نائب اور سردار دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور دونوں نے عرض کیا: ہمارے ساتھ آپ اپنا کوئی امین روانہ فرمائیں ،تو آپ نے فرمایا:'' میں تمہارے ساتھ ایک ایسا امین بھیجوں گا جو حق امانت بخوبی اداکرے گا، تو اس کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھ گئیں اورپھرآپ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کوروانہ فرمایا۔ راوی حدیث ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں: جب وہ اس حدیث کوصلہ سے روایت کرتے تو کہتے ساٹھ سال ہوئے یہ حدیث میں نے ان سے سنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- یہ حدیث ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بھی نبی اکرمﷺسے آئی ہے، آپ نے فرمایا:'' ہرامت کاایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں''۔
۳۷۹۶/م- بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: مجھے مسلم بن قتیبہ اور ابوداود نے خبردی اور ان دونوں نے شعبہ کے واسطہ سے ابواسحاق سے روایت کی، وہ کہتے ہیں : حذیفہ نے کہا: صلہ بن زفرکا دل سونے کی طرح روشن اور چمکدار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
34-بَاب مَنَاقِبِ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۳۴-باب: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3797- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ الإِيَادِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ الْجَنَّةَ لَتَشْتَاقُ إِلَى ثَلاَثَةٍ عَلِيٍّ، وَعَمَّارٍ، وَسَلْمَانَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۲) (ضعیف)
(سندمیں حسن بن سلم بن صالح الجعلی مجہول، اور ابوربیعہ الإیادی لین الحدیث راوی ہیں، نیز اس کے سارے طرق ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم ۲۳۲۸)
۳۷۹۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے: علی، عمار، اور سلمان رضی اللہ عنہم کی ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسن بن صالح کی روایت سے جانتے ہیں۔
 
Top