• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-باب
۱۵-باب: فضائل ابوبکر رضی اللہ عنہ پر ایک اورباب​


3659- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُعَلَّى، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ: إِنَّ رَجُلاً خَيَّرَهُ رَبُّهُ بَيْنَ أَنْ يَعِيشَ فِي الدُّنْيَا مَا شَائَ أَنْ يَعِيشَ، وَيَأْكُلَ فِي الدُّنْيَا مَا شَائَ أَنْ يَأْكُلَ وَبَيْنَ لِقَائِ رَبِّهِ فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّهِ قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ؛ فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ: أَلاَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا الشَّيْخِ؟ إِذْ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَجُلاً صَالِحًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ لِقَائِ رَبِّهِ؛ فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّهِ، قَالَ: فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَهُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا، وَأَمْوَالِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَامِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ إِلَيْنَا فِي صُحْبَتِهِ، وَذَاتِ يَدِهِ مِنْ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلاً، وَلَكِنْ وُدٌّ، وَإِخَائُ إِيمَانٍ، وُدٌّ وَإِخَائُ إِيمَانٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ بِإِسْنَادٍ غَيْرِ هَذَا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: أَمَنَّ إِلَيْنَا يَعْنِي: أَمَنَّ عَلَيْنَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۷۶) (ضعیف الإسناد)
(سند میں ابن ابی المعلی انصاری کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: لا يعرف یعنی غیر معروف اور مجہول راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، امام ترمذی نے اس کی تحسین ابوسعید خدری کی حدیث کی وجہ سے کی ہے )
۳۶۵۹- ابومعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا تو فرمایا:'' ایک شخص کو اس کے رب نے اختیار دیا کہ وہ دینا میں جتنا رہنا چاہے رہے اور جتنا کھانا چاہے کھالے یا اپنے رب سے ملنے کو(ترجیح دے) تواس نے اپنے رب سے ملنے کو پسند کیا ، وہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ روپڑے ، تو صحابہ نے کہا: کیا تمہیں اس بوڑھے کے رونے پر تعجب نہیں ہوتا جب رسول اللہ ﷺ نے ایک نیک بندے کا ذکر کیا کہ اس کے رب نے دوباتوں میں سے ایک کااسے اختیار دیا کہ وہ دنیا میں رہے یا اپنے رب سے ملے ،تو اس نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے زیادہ ان باتوں کو جاننے والے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا( رسول اللہ ﷺ کی بات سن کر) ابوبکر نے کہا: بلکہ ہم اپنے باپ دادا ، اپنے مال سب کو آپ پر قربان کردیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کوئی آدمی ایسا نہیں جو ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والا ہو اور میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والا ہو، اگر میں کسی کو خلیل (گہرادوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو دوست بناتا ، لیکن (ہمارے اوران کے درمیان)ایمان کی دوستی موجود ہے''۔یہ کلمہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا، پھر فرمایا:'' تمہارا یہ ساتھی(یعنی خود) اللہ کاخلیل( دوست) ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے اور یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث ابوعوانہ کے واسطہ سے عبدالملک بن عمیر سے ایک دوسری سند سے بھی آئی ہے، اور ''أمن إلينا'' میں ''إلى'' ''على'' کے معنی میں ہے، یعنی مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والا ۔


3660- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ: "إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَائَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ"؛ فَاخْتَارَ مَاعِنْدَهُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَدَيْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا قَالَ: فَعَجِبْنَا فَقَالَ النَّاسُ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ، عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَائَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَاللَّهِ وَهُوَ يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ هُوَ الْمُخَيَّرُ، وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلاَمِ لاَ تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلاَّ خَوْخَةُ أَبِي بَكْرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۸۰ (۴۶۶)، وفضائل الصحابۃ ۳ (۳۶۵۴)، ومناقب الأنصار ۴۵ (۳۹۰۴)، م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۴۱۴۵) (صحیح)
۳۶۶۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے منبر پر بیٹھکر فرمایا:'' ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی رنگینی کو پسند کرے یا ان چیزوں کو جو اللہ کے پاس ہیں''، توا س نے ان چیزوں کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہیں، اسے سنا تو ابوبکرنے کہا: اللہ کے رسول ! ہم نے اپنے باپ دادااور اپنی ماؤں کو آپ پر قربان کیا ۱؎ ہمیں تعجب ہوا، لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو! اللہ کے رسول ایک ایسے بندے کے بارے میں خبردے رہے ہیں جسے اللہ نے یہ اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی رنگینی کو اپنالے یا اللہ کے پاس جوکچھ ہے اسے اپنالے، اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء واجداد اور ماؤں کوآپ پر قربان کیا، جس بندے کو اللہ نے اختیار دیا وہ خود اللہ کے رسول تھے، اور ابوبکر اسے ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سب سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والے اور سب سے زیادہ میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والے ابوبکر ہیں، اگر میں کسی کوخلیل (گہرا دوست) بناتا، تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت ہی کافی ہے اور مسجد میں(یعنی مسجد کی طرف) کوئی کھڑکی باقی نہ رہے سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: ہمارے ماں باپ کی عمر یں آپ کومل جائیں تاکہ آپ کاسایہ ہم پر تادیراورمزید قائم رہے ۔
وضاحت ۲؎ : یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ پرفضیلت کی دلیل ہے۔مسجدنبوی میں یہ دروازہ آج بھی موجودہے ، محراب کی دائیں جانب پہلا دروازہ باب السلام ہے اور اوردوسرا خوخۃ ابی بکر رضی اللہ عنہ


3661- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُحْرِزٍ الْقَوَارِيرِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الأَوْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا لأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلاَّ وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلاَ أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِيهِ اللَّهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً أَلاَ وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۴۹) (ضعیف)
(سندمیں ''داود الأودی'' اور ''محبوب'' ضعیف ہیں، اس لیے پہلا فقرہ يوم القيامة تک ضعیف ہے،مگر حدیث کا دوسرا اور تیسرا فقرہ شواہد و متابعات کی بنا پر صحیح ہے)
۳۶۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی کا ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جسے میں نے چکا نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے، کیوں کہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑااحسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا، کسی کے مال سے کبھی بھی مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو خلیل(گہرادوست) بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کوخلیل بناتا ، سن لو تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب فِي مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كِلَيْهِمَا
۱۶-باب: ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے مناقب وفضائل کابیان​


3662- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ابْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ وَهُوَ ابْنُ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ابْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مَوْلًى لِرِبْعِيٍّ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۹۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۷) (صحیح)
3662/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ نَحْوَهُ. وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَرُبَّمَا ذَكَرَهُ عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، وَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ زَائِدَةَ . وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ هِلالٍ مَوْلَى رِبْعِيٍّ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاهُ سَالِمٌ الأَنْعُمِيُّ كُوفِيٌّ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۶۲- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اقتداء کرو ان دونوں کی جو میرے بعد ہوں گے، یعنی ابوبکر وعمر کی '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے، ۳- سفیان ثوری نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک بن عمیر نے ربعی کے آزاد کردہ غلام کے واسطہ سے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔
۳۶۶۲/م- ہم سے احمد بن منیع اور کئی دوسرے راویوں نے بیان کیا ہے، وہ سب کہتے ہیں: ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ہے اور سفیان نے عبدالملک بن عمیر سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے ، کبھی تو انہوں نے اسے'' عن زائدۃ عن عبدالملک بن عمیر'' ذکرکیا اورکبھی انہوں نے اس میں '' عن زائدۃ '' ذکر نہیں کیا ،۲- ابراہیم بن سعد نے یہ حدیث سفیان ثوری سے، سفیان نے عبدالملک بن عمیر سے، عبدالملک نے ربعی کے آزاد کردہ غلام ہلال سے، ہلال نے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ربعی سے آئی ہے، جسے انہوں نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ۴-سالم انعمی کوفی نے یہ حدیث ربعی بن حراش کے واسطہ سے حذیفہ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یکے بعد دیگرے ابوبکراورعمر رضی اللہ عنہما دونوں کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اوریہ دونوں کے لیے فضیلت کی بات ہے۔


3663- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي الْعَلاَئِ الْمُرَادِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "إِنِّي لاَ أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ؛ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي" وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۶۳- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا:'' میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا، لہذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ کیا''۔


3664- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ: "هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلاَّ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لاَ تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳) (صحیح)
۳۶۶۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سلسلہ میں فرمایا:'' یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے، (آپ نے فرمایا:) ''علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


3665- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُوَقَّرِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِذْ طَلَعَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلاَّ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ يَا عَلِيُّ لاَ تُخْبِرْهُمَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَالْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُوَقَّرِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَسْمَعْ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَلِيٍّ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۶) (صحیح)
(سندمیں ''علی بن الحسین زین العابدین'' کی اپنے دادا ''علی'' رضی اللہ عنہ سے ملاقات و سماع نہیں ہے، مگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۶۶۵- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اچانک ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نمودار ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یاپچھلے، سوائے انبیا و مرسلین کے لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- ولید بن محمد موقری حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں اور علی بن حسین نے علی نہیں سنا ہے،۳- علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی آئی ہے، ۴- اس باب میں انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


3666- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: ذَكَرَ دَاوُدُ عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ مَا خَلا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، لا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ".
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۵) (صحیح)
(سندمیں حارث اعورضعیف راوی ہے،لیکن شواہد و متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۶۶۶- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یاپچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی ! تم انہیں نہ بتانا''۔


3667- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَلَسْتُ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ أَلَسْتُ صَاحِبَ كَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۹۶) (صحیح)
3667/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۶۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں وہ شخص نہیں ہوں جوسب سے پہلے اسلام لایا؟ کیا میں ایسی ایسی خوبیوں کا مالک نہیں ہوں؟ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- بعض نے یہ حدیث شعبہ سے، شعبہ نے جریری سے، جریری نے ابونضرہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: ابوبکر نے کہا، اوریہ زیادہ صحیح ہے۔
۳۶۶۷/م- ہم سے اسے محمد بن بشار نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں: ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا اور عبدالرحمن بن مہدی نے شعبہ سے اور شعبہ نے جریری کے واسطہ سے ابونضرہ سے روایت کی ، وہ کہتے ہیں: ابوبکر نے کہا: پھر انہوں نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی جیسی روایت ذکر کی لیکن اس میں ابوسعیدخدری کا واسطہ ذکر نہیں کیا اور یہ زیادہ صحیح ہے۔


3668- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَخْرُجُ عَلَى أَصْحَابِهِ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ وَهُمْ جُلُوسٌ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَلاَ يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَهُ إِلاَّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَإِنَّهُمَا كَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ، وَيَنْظُرُ إِلَيْهِمَا، وَيَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ، وَيَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۸۶) (ضعیف)
(سندمیں ''حکم بن عطیہ'' پر کلام ہے)
۳۶۶۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ مہاجرین و انصار میں سے اپنے صحابہ کے پاس نکل کر آتے اور وہ بیٹھے ہوتے، ان میں ابوبکر وعمر بھی ہوتے، تو ان میں سے کوئی اپنی نگاہ آپ کی طرف نہیں اٹھاتاتھا، سوائے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے یہ دونوں آپ کو دیکھتے اور مسکراتے اور آپ ان دونوں کو دیکھتے اور مسکراتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس حدیث کو ہم صرف حکم بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳-بعض محدثین نے حکم بن عطیہ کے بارے میں کلام کیا ہے۔


3669- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَأَبُوبَكْرٍ وَعُمَرُ أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ وَهُوَ آخِذٌ بِأَيْدِيهِمَا وَقَالَ: هَكَذَا نُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَسَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِالْقَوِيِّ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۹۹) (تحفۃ الأشراف: ۷۴۹۹) (ضعیف)
(سندمیں سعید بن مسلمہ ضعیف راوی ہیں)
۳۶۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک دن نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے، ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما میں سے ایک آپ کے دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب، اور آپ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ نے فرمایا:'' اسی طرح ہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- سعید بن مسلمہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۳- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نافع کے واسطہ سے ابن عمر سے آئی ہے۔


3670- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنِي كَثِيرٌ أَبُو إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ: "أَنْتَ صَاحِبِي عَلَى الْحَوْضِ، وَصَاحِبِي فِي الْغَارِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۶) (ضعیف)
(سندمیں کثیر بن اسماعیل ابواسماعیل ضعیف راوی ہیں)
۳۶۷۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:''تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے جیساکہ غارمیں میرے رفیق تھے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ، صحیح ، غریب ہے۔


3671- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ: "هَذَانِ السَّمْعُ وَالْبَصَرُ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَنْطَبٍ لَمْ يُدْرِكِ النَّبِيَّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۶) (صحیح) (الصحیحۃ ۸۱۴)
۳۶۷۱- عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو فرمایا:'' یہ دونوں (اسلام کے) کا ن اور آنکھ ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث مرسل ہے عبداللہ بن حنطب نے نبی اکرم ﷺ کو نہیں پایا،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے۔


3672- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَائِ فَأْمُرْ عُمَرَ؛ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَقَالَ: "مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَائِ فَأْمُرْ عُمَرَ؛ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: مَا كُنْتُ لأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ.
* تخريج: خ/الأذان ۳۹ (۶۶۴)، و۴۶ (۶۷۹)، و۶۷ (۷۱۲)، و۷۰ (۷۱۶)، والاعتصام (۷۳۰۳)، م/الصلاۃ ۲۱ (۴۱۸)، ن/الإمامۃ ۴۰ (۸۳۴)، ق/الإقامۃ ۱۴۲ (۱۲۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۵۳)، وحم (۶/۳۴، ۹۶، ۹۷، ۲۱۰، ۲۲۴)، ودي/المقدمۃ ۱۴ (۸۳) (صحیح)
۳۶۷۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا:'' ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول ! ابوبکر جب آپ کی جگہ (صلاۃ پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے ۱؎ ، اس لیے آپ عمر کو حکم دیجئے کہ وہ صلاۃ پڑھائیں، پھر آپ نے فرمایا:'' ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''۔عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : تو میں نے حفصہ سے کہا: تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سناسکیں گے، اس لیے آپ عمر کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو صلاۃپڑھائیں ،تو حفصہ نے (ایسا ہی) کیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم وہی تو ہو جنہوں نے یوسف علیہ السلام کو تنگ کیا ۲؎ ،ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تو حفصہ نے عائشہ سے (بطور شکایت) کہا کہ مجھے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، ابوموسیٰ اشعری ، ابن عباس، سالم بن عبید اور عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ ابوبکر پر رقت طاری ہوجائے گی ا ورہ رونے لگیں گے پھر رونے کی وجہ سے اپنی قرأت لوگوں کو نہیں سناسکیں گے،اوربعض روایات کے مطابق اس کا سبب عائشہ نے یہ بیان کیا،اور بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی موجود گی میں آپ کی جگہ پر کھڑے ہو نے پر ابوبکراپنے غم ضبط نہیں کرپائیں گے اس طرح لوگوں کو صلاۃ نہیں پڑھاپائیں گے ، واللہ اعلم۔
وضاحت ۲؎ : صواحبات یوسف سے تشبیہ دینے کی وضاحت یہ ہے کہ جس طرح زلیخا کی عورتوں کی ضیافت حقیقت میں مقصود نہیں تھی ، بلکہ مقصود یہ بات تھی کہ وہ عورتیں یوسف کا حسن مشاہدہ کرنے کے بعدمجھ پر لعن طعن نہیں کریں گی، اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا حقیقی مقصد کچھ اورتھا، اورظاہرمیں کچھ اورکررہی تھی حقیقی مقصدیہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت کے بعد اگر نبی اکرمﷺ کی وفات ہوجاتی ہے ، تو لوگ ان کو منحوس سمجھیں گے ۔
وضاحت۳؎ : حفصہ رضی اللہ عنہا کا اشارہ اس طرف تھا کہ ایک بار عائشہ رضی اللہ عنہا کے چکرمیں آکر بے قوف بن چکی تھیں، یعنی شہد پینے کے معاملہ میں،تو اس باربھی ایساہی ہوا کہ اس سفارش پر پھٹکارسننی پڑ ی۔


3673- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ مَيْمُونٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاَ يَنْبَغِي لِقَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۴۸) (ضعیف جداً)
(بعض نسخوں میں''حسن غریب'' ہے، اور بعض نسخوں اور تحفۃ الأشراف میں صرف ''غریب ''ہے، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ سند میں عیسیٰ بن میمون ضعیف راوی ہے، عبدالرحمن بن مہدی نے ان سے کہا: بسند قاسم تم عائشہ سے یہ کس طرح کی احادیث روایت کرتے ہو، تو کہا کہ دوبارہ نہیں بیان کروں گا اور امام بخاری نے فرمایا کہ وہ منکر الحدیث ہے، الضعیفۃ: ۴۸۲۰)
۳۶۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجود گی میں ان کے سوا کوئی اور ان کی امامت کرے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3674- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ! هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ" فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا عَلَى مَنْ دُعِيَ مِنْ هَذِهِ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصوم ۴(۱۸۹۷)، والجھاد ۳۷ (۲۸۴۱)، وبدء الخلق ۶ (۳۲۱۶)، وفضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۶۶)، م/الزکاۃ ۲۷ (۱۰۲۷)، ن/الصیام ۴۳ (۲۲۴۰)، والزکاۃ ۱ (۲۴۴۱)، والجھاد ۲۰ (۳۱۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۹)، وط/الجھاد ۱۹ (۴۹)، وحم (۲/۲۶۸، ۳۳۶) (صحیح)
۳۶۷۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا خرچ کرے گا اسے جنت میں پکاراجائے گا کہ اے اللہ کے بندے ! یہ وہ خیر ہے ( جسے تیرے لیے تیار کیاگیا ہے) تو جو اہل صلاۃ میں سے ہوگا اسے صلاۃ کے دروازے سے پکارا جائے گا، اور جو اہل جہاد میں سے ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا، اورجو اہل صدقہ میں سے ہوگا اسے صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا، اورجو اہل صیام میں سے ہوگا، وہ باب ریان سے پکارا جائے گا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فداہوں ، اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کو ان سارے دروازوں سے پکارا جائے (اس لیے کہ ایک دروازے سے داخل ہو جانا کافی ہے) مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جو ان سبھی دروازوں سے پکارا جائے گا؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہوگے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3675- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالا فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَابَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ؟" قُلْتُ: مِثْلَهُ، وَأَتَى أَبُوبَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: "يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لأَهْلِكَ" قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لاَ أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْئٍ أَبَدًا. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۴۰ (۱۶۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۹۰)، ودي/الزکاۃ ۲۶ (۱۷۰۱) (حسن)
۳۶۷۵- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا ، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا : ابوبکر ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے ( اپنے جی میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- باب
۱۷-باب​


3676- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْئٍ وَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ: "فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَائْتِي أَبَا بَكْرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۵۹)، والأحکام ۵۱ (۷۲۲۰)، والاعتصام ۲۵ (۷۳۶۰)، م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۲) (صحیح)
۳۶۷۶- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی : مجھے بتائیے اللہ کے رسول ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں ؟(تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا:'' اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں آپﷺ کے بعد آپ کے جانشین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہو نے کی پیشین گوئی ، اوران کو اپناجانشین بنانے کا لوگوں کو اشارہ ہے۔


3677- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَال: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "بَيْنَمَا رَجُلٌ رَاكِبٌ بَقَرَةً إِذْ قَالَتْ لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: آمَنْتُ بِذَلِكَ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ" قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَمَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ؟.
* تخريج: خ/الحرث والمزارعۃ ۴ (۲۳۲۴)، وأحادیث الأنبیاء ۵۲ (۳۴۷۱)، وفضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۶۳)، و۶ (۳۶۹۰)، م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۵۱) (صحیح)
3677/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۶۷۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں، میں تو کھیت جو تنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں( یہ کہہ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر وعمر کا بھی ، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالاں کہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے''، واللہ اعلم ۱؎ ۔
۳۶۷۷/م- ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ کے رسول ﷺ کو ان دونوں کے سلسلہ میں اتنا مضبوط یقین تھا کہ جو میں کہوں گاوہ دونوں اس پرآمنا وصدقنا کہیں گے، اسی لیے ان کے غیر موجودگی میں بھی آپ نے ان کی طرف سے تصدیق کردی، یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔


3678- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِسَدِّ الأَبْوَابِ إِلاَّ بَابَ أَبِي بَكْرٍ.
هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۱۰) (صحیح)
۳۶۷۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی اکرم ﷺ نے (مسجد کی طرف کھلنے والے) سارے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۲- اس باب میں ابوسعید خدری سے بھی روایت ہے۔


3679- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ إِسْحَاقَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنْ النَّارِ فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا. هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْنٍ، وَقَالَ: عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۲۱) (صحیح) (الصحیحۃ ۱۵۷۴)
۳۶۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ''تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیاگیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- بعض راویوں نے یہ حدیث معن سے روایت کی ہے اور سند میں ''عن موسى بن طلحة عن عائشة'' کہا ہے۔


3680- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا تَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَائِ، وَوَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَائِ فَجِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ، وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُوالْجَحَّافِ، وَكَانَ مَرْضِيًّا، وَتَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُكْنَى أَبَا إِدْرِيسَ وَهُوَ شِيعِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۱۹۶) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں)
۳۶۸۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرئیل اور میکائیل علیہماالسلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے،۲- اور ابوالجحاف کانام داود بن ابوعوف ہے،سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اوروہ ایک پسندیدہ شخص تھے)۳- اور تلیدبن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کے باوجودابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کی منقبت میں حدیث روایت کی، اس سے اس روایت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، ''الفضل ما شہدت بہ أعداء''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۱۸-باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3681- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ" قَالَ: وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۶۵۵)، وحم (۲/۶۵) (صحیح)
۳۶۸۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمربن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما'' ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3682- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ" وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيهِ وَقَالَ فِيهِ عُمَرُ أَوْ قَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيهِ -شَكَّ خَارِجَةُ- إِلاَّ نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلَى نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ.
وَفِي الْبَاب عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَخَارِجَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَهُوَ ثِقَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۶۵۶)، وحم (۲/۵۳، ۹۵) (صحیح)
۳۶۸۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرمادیا ہے''۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب نے (راوی خارجہ کو شک ہوگیا ہے )بھی رائے دی ہو، مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر رضی اللہ عنہ کی اپنی رائے کے موافق نہ اترا ہو ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- خارجہ بن عبد اللہ انصاری کا پورانام خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان بن زید بن ثابت ہے اور یہ ثقہ ہیں، ۳- اس باب میں فضل بن عباس، ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اسی لیے آپ کو''ملہم''یا''محدث''کہاجاتاہے ۔


3683- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ النَّضْرِ أَبِي عُمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَبِي جَهْلِ ابْنِ هِشَامٍ أَوْ بِعُمَرَ" قَالَ: فَأَصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَسْلَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي النَّضْرِ أَبِي عُمَرَ وَهُوَ يَرْوِي مَنَاكِيرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۳) (ضعیف جداً)
(سند میں نضر بن عبدالرحمن ابوعمر الخزاز متروک راوی ہے ، امام ترمذی نے بھی اسی سبب ضعف کا ذکر کردیا ہے )
۳۶۸۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ ! اسلام کو ابوجہل بن ہشام یا عمر کے ذریعہ قوت عطا فرما، پھر صبح ہوئی تو عمر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور اسلام لے آئے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- بعض محدثین نے نضر ابوعمر کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور یہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔(لیکن حدیث رقم: (۳۶۹۰)سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے )۔


3684- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ الْوَاسِطِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ ابْنُ أَخِي مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ لأَبِي بَكْرٍ: يَا خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ؛ فَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: أَمَا إِنَّكَ إِنْ قُلْتَ ذَاكَ فَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلَى رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۵۸۹) (موضوع)
(سندمیں عبد الرحمن ابن اخی محمد بن منکدر اور عبد اللہ بن داود ابومحمد التماردونوں ضعیف راوی ہیں، اوردونوں کی متابعت نہیں کی جائے گی ، حدیث کو ابن الجوزی اور ذہبی اور البانی نے موضوع کہا ہے،اور اس کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ قطعی طور پر صحیح اور ثابت حدیث کے مخالف ہے کہ سب سے بہتر جن پر سورج طلوع ہوا وہ نبی اکرمﷺاور دیگر انبیاء ورسل ہیں، اس کے بعد ابوبکر ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا : انبیاء ورسل کے بعد کسی پر سورج کا وغروب نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو، الضعیفۃ: ۱۳۵۷)
۳۶۸۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر نے ابوبکر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر انسان! اس پر ابوبکر نے کہا: سنو! اگر تم ایسا کہہ رہے ہوتو میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عمر سے بہتر کسی آدمی پرسورج طلوع نہیں ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ، اور اس کی سند قوی نہیں ہے،۲- اس باب میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


3685- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: مَا أَظُنُّ رَجُلا يَنْتَقِصُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ ﷺ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۰۲) (صحیح الإسناد)
۳۶۸۵- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں سمجھتا کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے محبت کرتا ہو اور وہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تنقیص کرے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں کی محبت واقعی جزوایمان ہے ، ان کا دشمن دشمنِ اسلام اورخارج از اسلام ہے۔


3686- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۶)، وحم (۴/۱۵۴) (حسن)
۳۶۸۶- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے جہاں یہ ثابت ہوتاہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نہایت فہم وفراست اورالٰہی الہام سے بہرہ ورہیں وہاں یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ نبی مصطفی ﷺ کے بعدکوئی نبی نہیں ہوگا، ورنہ کسی اورسے پہلے عمرہی ہو تے ۔


3687- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "رَأَيْتُ كَأَنِّي أُتِيتُ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "الْعِلْمَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۲۸۴ (صحیح)
۳۶۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچاہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے د یا، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا:'' اس کی تعبیر علم ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: میرے بعددین کا علم عمر کو ہے ( رضی اللہ عنہ )اس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی من جملہ فضیلت کی نفی نہیں ہے صرف علم کے سلسلے میں ان کا علم بڑھاہواثابت ہوتاہے ، بقیہ فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل امتی (بعدازنبی اکرمﷺ)ابوبکرہی ہیں۔


3688- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ" قَالُوا: لِشَابٍّ مِنْ قُرَيْشٍ، فَظَنَنْتُ أَنِّي أَنَا هُوَ، فَقُلْتُ: " وَمَنْ هُوَ؟ " فَقَالُوا: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۹۰)، وحم (۳/۱۰۷، ۱۷۹) (صحیح)
۳۶۸۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میں جنت کے اندر گیا تو کیا دیکھتاہوں کہ میں ایک سونے کے محل میں ہوں ،میں نے پوچھا:یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: قریش کے ایک نوجوان کا ہے، تو میں نے سوچا کہ وہ میں ہی ہوں گا ، چنانچہ میں نے پوچھا کہ وہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ عمر بن خطاب ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو دنیاہی میں جنت کی خوشخبری دیدی گئی اورکسی مرتد کو جنت کی خوشخبری نہیں دی جاسکتی، (براہو آپ سے بغض ونفرت رکھنے والوں کا)۔


3689- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَدَعَا بِلاَلاً فَقَالَ: "يَا بِلاَلُ! بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلاَّ سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ؛ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي؛ فَأَتَيْتُ عَلَى قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشْرِفٍ مِنْ ذَهَبٍ؛ فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ فَقَالُوا: لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ: أَنَا عَرَبِيٌّ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ قُلْتُ: أَنَا قُرَشِيٌّ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: أَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ"؛ فَقَالَ بِلاَلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلاَّ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلاَّ تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "بِهِمَا". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَمُعَاذٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: "أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ" يَعْنِي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ رُؤْيَا الأَنْبِيَائِ وَحْيٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۶۶)، وحم (۵/۳۵۴، ۳۶۰) (صحیح)
۳۶۸۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے(ایک دن) صبح کی تو بلا ل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پوچھا: بلال ! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہواہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں د اخل ہواتو (آج بھی ) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چو کور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے۔میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد ﷺ کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کاہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے ، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! ایساکبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کرلیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' انہیں دو نوں رکعتوں (یا خصلتوں)کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے'' ۱؎ )۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھاتو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہاگیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے،۳- حدیث کے الفاظ ''أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ'' کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے،۴- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء کے خواب وحی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : وضو کے بعد دورکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، یا ایک خصلت وضوء ٹوٹتے وضوء کرلینا یعنی ہمیشہ باوضورہنا، دوسری خصلت : ہر وضوء کے بعد دورکعت بطورتحیۃ الوضوء کے پڑھنا، ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا، اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضوء رہنا بڑے اجروثواب کا کام ہے ، وہیں اس سے بلال کی فضیلت اوردنیاہی میں جنت کی خوشخبری کا پتاچلااور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔


3690- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَال: سَمِعْتُ بُرَيْدَةَ يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ جَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَائُ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ سَالِمًا أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْكَ بِالدُّفِّ وَأَتَغَنَّى فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ؛ فَاضْرِبِي وَإِلاَّ فَلاَ"، فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ؛ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَأَلْقَتْ الدُّفَّ تَحْتَ اسْتِهَا، ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ! إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ، وَهِيَ تَضْرِبُ؛ فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ! أَلْقَتْ الدُّفَّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ، وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَائِشَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۶۷)، وحم (۵/۳۵۳) (صحیح)
۳۶۹۰- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ میں نکلے، پھر جب واپس آئے تو ایک سیاہ رنگ کی (حبشی) لونڈی نے آکرکہا: اللہ کے رسول ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو بخیر وعافیت لوٹایا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اورگانا گاؤں گی،تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:'' اگر تونے نذر مانی تھی تو بجالے ۱؎ ورنہ نہیں، چنانچہ وہ بجانے لگی، اسی دوران ابوبکر اندر داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر علی داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی ، پھر عثمان داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی، پھر عمر داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر اس نے دف اپنی سرین کے نیچے ڈال لی اور اسی پر بیٹھ گئی ، یہ دیکھ کررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے ۲؎ ، میں بیٹھاہوا تھا اور وہ بجارہی تھی ، اتنے میں ابوبکر اندر آیے تو بھی وہ بجاتی رہی ، پھر علی اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی ، پھر عثمان اندر آئے توبھی وہ بجاتی رہی، پھر جب تم داخل ہوئے اے عمر! تو اس نے دف پھینک ڈالی'' ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں عمر، سعد بن ابی وقاص اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اگرمنکر(حرام) کی نذر نہ مانی ہو تو نذرپوری کرنی واجب ہے، اس لیے نبی اکرمﷺنے اس کو اپنی نذرپوری کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ اس کام میں کوئی ممنوع بات نہیں تھی۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ''عصمت ''(شیطان اورگناہوں سے بچاؤ) بھی ثابت ہورہی ہے ،حالانکہ ''عصمت ''انبیاء کی خصوصیت ہے ، اس سلسلے میں بقول حافظ ابن حجر:عصمت انبیاء کے لیے واجب ہے ، جبکہ کسی امتی کے لیے بطورامکان کے ہے جوعمر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئی ۔
وضاحت۳؎ : مطلب یہ ہے کہ ایک گانے والی لونڈی توکیا شیطان بھی عمر رضی اللہ عنہ سے بھاگ کھڑا ہوتاہے ،حتی کہ اس راستے سے شیطان بھاگ کھڑاہوتا،جس راستے سے عمرگزرے رہے ہوتے ہیں۔


3691- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا، وَصَوْتَ صِبْيَانٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَإِذَا حَبَشِيَّةٌ تَزْفِنُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهَا فَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ! تَعَالَيْ؛ فَانْظُرِي"؛ فَجِئْتُ؛ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلَى مَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِ إِلَى رَأْسِهِ فَقَالَ لِي: "أَمَا شَبِعْتِ أَمَا شَبِعْتِ" قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لاَ لأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ عُمَرُ قَالَتْ فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنِّي لأَنْظُرُ إِلَى شَيَاطِينِ الإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ"، قَالَتْ: فَرَجَعْتُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۵۵)، وحم (۶/۵۷، ۲۳۳) (صحیح)
۳۶۹۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :رسول اللہ ﷺ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ہم نے ایک شور سنا اور بچوں کی آواز سنی چنانچہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اسے گھیرے ہوئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عائشہ ! آؤ ، تم بھی دیکھ لو ''،تو میں آئی اور رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر آپ کے سر اور کندھے کے بیچ سے اسے دیکھنے لگی، پھر آپ نے فرمایا:'' کیا تو ابھی آسودہ نہیں ہوئی؟ کیا تو ابھی آسودہ نہیں ہوئی؟ ''تو میں نے کہاکہ ابھی نہیں تاکہ میں دیکھو ں کہ آپ کے دل میں میرا کتنا مقام ہے؟ اتنے میں عمر آگئے تو سب لوگ اس عورت کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے ، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''میں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عمر کو دیکھ کر بھاگ گئے، پھر میں بھی لوٹ آئی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔


3692- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ، ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ آتِي أَهْلَ الْبَقِيعِ فَيُحْشَرُونَ مَعِي، ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَكَّةَ حَتَّى أُحْشَرَ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ لَيْسَ بِالْحَافِظِ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۲۰۰) (ضعیف)
(سندمیں عاصم العمری ضعیف راوی ہیں)
۳۶۹۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی ، پھر ابوبکر ، پھر عمر رضی اللہ عنہما ،(سے زمین شق ہوگی) پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے، پھر میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ میرا حشر حرمین کے درمیان ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- اور عاصم بن عمرمحدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔


3693- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "قَدْ كَانَ يَكُونُ فِي الأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ سُفْيَانَ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: مُحَدَّثُونَ يَعْنِي مُفَهَّمُونَ.
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۲ (۲۳۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۱۷)، وحم (۶/۵۵) (حسن صحیح)
۳۶۹۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگلی امتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے ، جو ''مُحدّث'' ہوتے تھے ۱؎ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہوا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- مجھ سے سفیان کے کسی شاگرد نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا: ''محدثون'' وہ ہیں جنہیں دین کی فہم عطا کی گئی ہو۔
وضاحت ۱؎ : محدث اس کو کہتے ہیں جس کی زبان پر اللہ کی طرف سے حق بات کا الہام ہوتاہے،جبرئیل وحی لیکر اس کے پاس نہیں آتے کیونکہ وہ آدمی نبی نہیں ہوتا، اللہ کی طرف سے حق بات اس کے دل ودماغ میں ڈال دی جاتی ہے، اورفی الحقیقت کئی معاملات میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید اللہ تعالیٰ نے وحی سے فرمادی (نیز دیکھئے حدیث رقم: ۳۶۹۱)۔


3694- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "يَطَّلِعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" فَاطَّلَعَ أَبُوبَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: "يَطَّلِعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" فَاطَّلَعَ عُمَرُ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۴۰۶) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن سلمہ ضعیف راوی ہیں)
۳۶۹۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آرہاہے تو ابوبکر آئے، پھر آپ نے فرمایا:'' تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آرہاہے،تو عمر رضی اللہ عنہ آئے''۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں ا بوموسیٰ اشعری اور جابر رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔


3695- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعَى غَنَمًا لَهُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَاءَ صَاحِبُهَا فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ؛ فَقَالَ الذِّئْبُ: كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لاَرَاعِيَ لَهَا غَيْرِي؟" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "فَآمَنْتُ بِذَلِكَ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ" قَالَ أَبُوسَلَمَةَ: وَمَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۶۷۷ (صحیح)
3695/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۹۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' اس دوران کہ ایک شخص اپنی بکریاں چرارہا تھا، ایک بھیڑیا آیا اور ایک بکری پکڑکرلے گیا تو اس کا مالک آیا اور اس نے اس سے بکری کو چھین لیا، تو بھیڑیا بولا : درندوں والے دن میں جس دن میرے علاوہ ان کا کوئی اور چرواہا نہیں ہوگا توکیسے کرے گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے اس پر یقین کیا اور ابوبکر نے اور عمر رضی اللہ عنہما نے بھی''، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالاں کہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
۳۶۹۵/م- ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19-بَاب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۱۹-باب: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3696- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ عَلَى حِرَائَ هُوَ وَأَبُوبَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعَلِيٌّ، وَعُثْمَانُ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّكَتِ الصَّخْرَةُ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "اهْدَأْ إِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ". وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَبُرَيْدَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۶ (۲۴۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۰) (صحیح)
۳۶۹۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر، علی ، عثمان ، طلحہ ، اور زبیر رضی اللہ عنہم حرا پہاڑ ۱؎ پر تھے ، تو وہ چٹان جس پر یہ لوگ تھے ہلنے لگی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ٹھہری رہ، تجھ پر نبی، صدیق اور شہید ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اس باب میں عثمان ، سعید بن زید، ابن عباس ، سہل بن سعد، انس بن مالک، اور بریرہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ(باب مناقب ابی بکر)اور(باب مناقب عثمان)میں ''احدپہاڑ''کاتذکرہ ہے ، حافظ ابن حجرکے بقول: یہ دو الگ الگ واقعات ہیں،اس میں کوئی تضادیا تعارض کی بات نہیں ہے۔


3697- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۵)، و۶ (۳۶۸۶)، و۷ (۳۶۹۹)، د/السنۃ ۹ (۴۶۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲)، وحم (۳/۱۱۲) (صحیح)
۳۶۹۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور ابوبکر ، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم بھی توو ہ ان کے ساتھ ہل اٹھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ٹھہرارہ اے احد! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دوشہید ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : دوشہیدسے مراد: عمروعثمان رضی اللہ عنہما ہیں جن دونوں کی شہادت کی گواہی بزبان رسالت مآب ہو ان کی مقبول بارگاہ الٰہی ہو نے کا منکر اپنے ایمان کی خیرمنائے۔وہ ''مومن ''کہاں مسلمان بھی نہ رہا۔


3698- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ، وَرَفِيقِي يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَهُوَ مُنْقَطِعٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۹۶) (ضعیف)
(اس کی سند میں زہری شیخ مبہم ہے، اور سند میں انقطاع ہے، اس لیے کہ حارث بن عبدالرحمن الدوسی المدنی کی وفات (۱۴۶ھ) میں ہوئی اور طلحہ بن عبیداللہ کی شہادت (۳۶ھ) میں ہوئی ، اور وہ طلحہ بن عبیداللہ سے مرسلاً روایت کرتے ہیں، نیز یحیی بن الیمان صدوق راوی ہیں، لیکن بہت غلطیاں کرتے ہیں، اور حافظہ میں تغیر بھی آگیا تھا)
۳۶۹۸- طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ہر نبی کا ایک رفیق ہوتاہے، اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند قوی نہیں اور یہ منقطع ہے۔


3699- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ، ثُمَّ قَالَ: أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ حِرَائَ حِينَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اثْبُتْ حِرَائُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ: "مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً" وَالنَّاسُ مُجْهَدُونَ مُعْسِرُونَ؛ فَجَهَّزْتُ ذَلِكَ الْجَيْشَ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: أُذَكِّرُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ بِئْرَ رُومَةَ لَمْ يَكُنْ يَشْرَبُ مِنْهَا أَحَدٌ إِلاَّ بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُهَا فَجَعَلْتُهَا لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ وَابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، وَأَشْيَائَ عَدَّدَهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عُثْمَانَ.
* تخريج: خ/الوصایا ۳۳ (تعلیقاً)، ن/الاحباس ۴ (۳۶۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۱۴)، وحم (۱/۵۹) (صحیح)
۳۶۹۹- ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کامحاصرہ کیاگیا تو انہوں نے اپنے مکان کے کوٹھے سے جھانک کر بلوائیوں کودیکھا پھر کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد دلاتاہوں: کیا تم جانتے ہوکہ حرا پہاڑ سے جس وقت وہ ہلا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا کہ''حرا ٹھہرے رہو ! کیوں کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور ایک شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں؟'' ، ان لوگوں نے کہا: ہاں ، پھر عثمان نے کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یا دلاتاہوں ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سلسلے میں فرمایاتھا: کون (اس غزوہ کا) خرچ دے گا جو اللہ کے نزدیک مقبول ہوگا (اورلوگ اس وقت پریشانی اور تنگی میں تھے) تو میں نے (خرچ دے کر) اس لشکر کو تیار کیا ؟، لوگوں نے کہا: ہاں، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر یاد دلاتاہوں : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بئر رومہ کا پانی بغیر قیمت کے کوئی پی نہیں سکتاتھا تو میں نے اسے خرید کر غنی، محتاج اور مسافر سب کے لیے وقف کردیا؟، لوگوں نے کہا: ہاں،ہمیں معلوم ہے اور اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں انہوں نے گنوائیں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوعبدالرحمن کی روایت سے جسے وہ عثمان سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں مذکورتینوں باتیں اسلام کی عظیم ترین خدمت ہیں جن کوعثمان رضی اللہ عنہ نے انجام دیئے ، یہ آپ کی اسلام میں عظیم مقام ومرتبے کی بات ہے۔


3700- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، وَيُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ مَوْلًى لآلِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ فَرْقَدٍ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ يَحُثُّ عَلَى جَيْشِ الْعُسْرَةِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَلَيَّ مِائَةُ بَعِيرٍ بِأَحْلاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَلَيَّ ثَلاثُ مِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْزِلُ عَنْ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: "مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ السَّكَنِ بْنِ الْمُغِيرَةِ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۴) (ضعیف)
(سندمیں فرقد ابوطلحہ مجہول راوی ہیں)
۳۷۰۰- عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ جیش عسرہ (غزوئہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع سازوسامان کے، آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دوسو اونٹ ہیں مع سازوسامان کے، آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع سازوسامان کے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ'' اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف سکن بن مغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


3701- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: جَاءَ عُثْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِأَلْفِ دِينَارٍ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ: وَكَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِي فِي كُمِّهِ حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا فِي حِجْرِهِ قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُقَلِّبُهَا فِي حِجْرِهِ، وَيَقُولُ: "مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۹) (حسن)
۳۷۰۱- عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے ، (حسن بن واقع جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں: دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے) ، جس وقت انہوں نے جیش عسرہ کو تیار کیا، اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا ، میں نبی اکرم ﷺکو اسے اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھااور یہ کہتے سناکہ آج کے بعد سے عثمان کوکوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا''، ایسا آپ نے دوبار فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


3702- حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ قَالَ: فَبَايَعَ النَّاسَ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِهِ" فَضَرَبَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الأُخْرَى فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لِعُثْمَانَ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيهِمْ لأَنْفُسِهِمْ . قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۵) (ضعیف)
(سندمیں حکم بن عبد الملک ضعیف راوی ہیں)
۳۷۰۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کو بیعت رضوان ۱؎ کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے قاصد بن کر اہل مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے، جب آپ نے لوگوں سے بیعت لی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا تو رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ جسے آپ نے عثمان کے لیے استعمال کیا لوگوں کے ہاتھوں سے بہترتھا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : بیعت رضوان وہ بیعت ہے جو صلح حدیبیہ کے سال ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی، یہ بیعت اس بات پرلی گئی تھی کہ خبراڑگئی کہ کفارمکہ نے عثمان کو قتل کردیاہے ،اس پر نبی اکرمﷺ نے لوگوں سے بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لیناہے ، اس پر سب لوگوں سے بیعت لی گئی کہ کفارمکہ سے اس پر جنگ کی جائے گی ، سب لوگ اس عہد پر جمے ر ہیں۔


3703- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالُوا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ عَبْدُاللَّهِ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ الْمَنْقَرِيِّ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ: ائْتُونِي بِصَاحِبَيْكُمْ اللَّذَيْنِ أَلَّبَاكُمْ عَلَيَّ قَالَ: فَجِيئَ بِهِمَا؛ فَكَأَنَّهُمَا جَمَلانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا حِمَارَانِ، قَالَ: فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَائٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ: " مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ؛ فَيَجْعَلَ دَلْوَهُ مَعَ دِلاَئِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ "؛ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي؛ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ حَتَّى أَشْرَبَ مِنْ مَائِ الْبَحْرِ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلانٍ فَيَزِيدَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ" فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيهَا رَكْعَتَيْنِ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلامِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَهَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ وَالإِسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ عَلَى ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّى تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيضِ قَالَ فَرَكَضَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: "اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ؟" قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ شَهِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَهِيدٌ ثَلاَثًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عُثْمَانَ.
* تخريج: ن/الاحباس ۴ (۳۶۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۸۵) (حسن) (الإرواء ۱۵۹۴، وتراجع الألبانی ۵۹۴)
۳۷۰۳- ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھرمیں موجود تھا جب عثمان رضی اللہ عنہ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہاتھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اورطاقتور ، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں جھانک کردیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئر رومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کردے گا؟''، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا(کھارا ) پانی پی رہاہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، یہی بات ہے، انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہوگئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟''،تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دورکعت صلاۃ پڑھنے نہیں دے رہے ہو، لوگوں نے کہا: ہاں، بات یہی ہے، پھرانہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتاہوں : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر ، عمر رضی اللہ عنہما تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تورسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا:'' ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہیدوں کے سوا کوئی اورنہیں'' ، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی ! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور عثمان سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔


3704- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ أَنَّ خُطَبَائَ قَامَتْ بِالشَّامِ وَفِيهِمْ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَامَ آخِرُهُمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ فَقَالَ: لَوْلاَ حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا قُمْتُ وَذَكَرَ الْفِتَنَ فَقَرَّبَهَا فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ؛ فَقَالَ: "هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الْهُدَى"؛ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَالَ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ فَقُلْتُ: هَذَا، قَالَ: "نَعَمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوَالَةَ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۴۸) (صحیح)
۳۷۰۴- ابواشعث صنعانی سے روایت ہے کہ مقررین ملک شام میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، ان میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بھی کچھ لوگ تھے، پھر سب سے آخر میں ایک شخص کھڑا ہوا جسے مرّہ بن کعب رضی اللہ عنہ کہاجاتا تھا، اس نے کہا: اگر میں نے ایک حدیث رسول اللہ ﷺ سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا، پھر انہوں نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کا ظہور قریب ہے، پھر ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو مرّہ نے کہا: یعنی نبی اکرم ﷺ کا قول نقل کیا:'' یہ اس دن ہدایت پر ہوگا''، تومیں اسے دیکھنے کے لیے اس کی طرف اٹھا، تو کیا دیکھتاہوں کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر میں نے ان کا منہ مرہ کی طرف کرکے کہا: وہ یہی ہیں، انہوں نے کہا: ہاں وہ یہی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۲- اس باب میں ابن عمر، عبداللہ بن حوّالہ اور کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔


3705- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "يَا عُثْمَانُ! إِنَّهُ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا؛ فَإِنْ أَرَادُوكَ عَلَى خَلْعِهِ فَلاَتَخْلَعْهُ لَهُمْ" وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۷۵) (صحیح)
۳۷۰۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا ۱؎ پہنائے ، اگرلوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا''، اس میں حدیث ایک طویل قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس کرتے سے مراد خلعت خلافت (خلافت کی چادر) ہے، مفہوم یہ ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیوں کہ اس وقت تم حق پر قائم رہوگے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پرہوں گے ، اللہ کے رسول کے اسی فرمان کے پیش نظر عثمان رضی اللہ عنہ نے شہادت کا جام پی لیا۔لیکن دستبردار نہیں ہوئے ۔


3706- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ؛ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ: مَنْ هَؤُلائِ؟ قَالُوا: قُرَيْشٌ، قَالَ: فَمَنْ هَذَا الشَّيْخُ؟ قَالُوا: ابْنُ عُمَرَ فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْئٍ؛ فَحَدِّثْنِي أَنْشُدُكَ اللَّهَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ؛ فَلَمْ يَشْهَدْهَا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَ عَنْهُ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ؛ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ يَوْمَ بَدْرٍ؛ فَإِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ أَوْ تَحْتَهُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمُهُ" وَأَمَرَهُ أَنْ يَخْلُفَ عَلَيْهَا وَكَانَتْ عَلِيلَةً وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَانَ عُثْمَانَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عُثْمَانَ إِلَى مَكَّةَ، وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: "هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ" وَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ: هَذِهِ لِعُثْمَانَ، قَالَ لَهُ: اذْهَبْ بِهَذَا الآنَ مَعَكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الخمس ۱۴ (۳۱۳۰) (بعضہ) وفضائل الصحابۃ ۷ (۳۶۹۸)، والمغازي ۱۹ (۴۰۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۱۹) (صحیح)
۳۷۰۶- عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ ٔ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر ہیں تووہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہاہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں ، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، تمہارے انہوں نے کہا: ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا ۱؎ ، اس پر ابن عمر نے اس سے کہا: آؤمیں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کردوں: رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کردیا اور بخش دیا ہے۳؎ اور رہی بدر کے دن ، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: تمہیں اس آدمی کے برابر ثو اب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہوگا''،اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ رسول اللہ ﷺ اسی کو بھیجتے ،رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:'' یہ عثمان کاہاتھ ہے ''،اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا:'' یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے'' ، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: اب یہ جواب تم اپنے ساتھ لیتا جاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتاتھا، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا، یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
وضاحت ۳؎ : اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی {وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ} (سورة آل عمران :155) پوری آیت اس طرح ہے{إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ} (آل عمران:155)یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی ، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آگئے ،لیکن یقین جانوکہ اللہ نے انہیں معاف کردیا، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔


3707- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا الْعَلائُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَيٌّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۴ (۳۶۵۵)، و۷ (۳۶۹۷)، د/السنۃ ۸ (۴۶۲۷) (تحفۃ الأشراف: ۷۸۲۰) (صحیح)
۳۷۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کہتے تھے: '' ابوبکر ، عمر، اور عثمان ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کا ذکر آتا تو ہم اسی ترتیب سے ان کا نام لیتے تھے پہلے نمبر پر ابوبکر کانام رکھتے تھے، پھر عمر کا پھر عثمان کا ۔( رضی اللہ عنہم )


3708- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ هَارُونَ الْبُرْجُمِيِّ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِتْنَةً؛ فَقَالَ: "يُقْتَلُ فِيهَا هَذَا مَظْلُومًا لِعُثْمَانَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۳) (حسن الإسناد)
۳۷۰۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا:'' اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیاجائے گا''(یہ بات آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق کہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


3709- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الْبَغْدَادِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ زُفَرَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِجَنَازَةِ رَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ؛ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا رَأَيْنَاكَ تَرَكْتَ الصَّلاةَ عَلَى أَحَدٍ قَبْلَ هَذَا قَالَ: إِنَّهُ كَانَ يَبْغَضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَهُ اللَّهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ صَاحِبُ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ جِدًّا، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ صَاحِبُ أَبِي هُرَيْرَةَ هُوَ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ، وَيُكْنَى أَبَا الْحَارِثِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الأَلْهَانِيُّ صَاحِبُ أَبِي أُمَامَةَ ثِقَةٌ يُكْنَى أَبَا سُفْيَانَ شَامِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۹۴۳) (موضوع)
(سندمیں محمد بن زیاد الیشکری الطحان کذاب ہے)
۳۷۰۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر صلاۃِجنازہ پڑھیں توآپ نے اس پرصلاۃ نہیں پڑھی، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! اس سے پہلے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی پر جنازہ کی صلاۃ نہ پڑھی ہو؟ آپ نے فرمایا:'' یہ عثمان سے بغض رکھتاتھا، تو اللہ نے اسے مبغوض کردیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- میمون بن مہران کے شاگرد محمد بن زیادہ حدیث میں بہت ضعیف گردانے جاتے ہیں ۱؎ ، اور محمد بن زیاد جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں یہ بصری ہیں اورثقہ ہیں، ان کی کنیت ابوحارث ہے اورمحمد بن زیاد الہانی جو ابوامامہ کے شاگرد ہیں، ثقہ ہیں، ان کی کنیت ابوسفیان ہے، یہ شامی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اوراس سندمیں یہی محمدبن زیادہیں، ان کی نسبت ہی میمونی ہے۔


3810- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَدَخَلَ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ؛ فَقَضَى حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي: "يَا أَبَا مُوسَى! أَمْلِكْ عَلَيَّ الْبَابَ فَلاَ يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلاَّ بِإِذْنٍ"؛ فَجَاءَ رَجُلٌ يَضْرِبُ الْبَابَ فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ قَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ؛ فَضَرَبَ الْبَابَ فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ عُمَرُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ قَالَ: افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ؛ فَفَتَحْتُ الْبَابَ، وَدَخَلَ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ؛ فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ؛ فَضَرَبَ الْبَابَ فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ عُثْمَانُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأْذِنُ قَالَ: "افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۴)، و۶ (۳۶۹۳)، و۷ (۳۶۹۵)، والأدب ۱۱۹ (۶۲۱۶)، والفتن ۱۷ (۷۰۹۷)، وخبر الواحد ۳ (۷۲۶۲)، م/فضائل الصحابۃ ۳ (۲۴۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۱۸)، وحم (۴/۳۹۳، ۴۰۶، ۴۰۷) (صحیح)
۳۷۱۰- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چلا، آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا:'' ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے، پھر ایک شخص نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا ،تومیں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں، تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:'' انہیں آنے دو ، اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی، پھر ایک دوسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: عمر ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ عمر اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:'' ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو، چنانچہ میں نے دروازہ کھول دیا، وہ اندر آگئے، اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی ، پھر ایک تیسرے شخص آئے اورانہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا،تومیں نے کہا: کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: عثمان ہوں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ عثمان اجازت مانگ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:'' ان کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو، ساتھ ہی ایک آزمائش کی جو انہیں پہنچ کر رہے گی '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی ابوعثمان نہدی سے آئی ہے ،۳- اس باب میں جابر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے آپ ﷺ کا اشارہ اس حادثہ کی طرف تھا جس سے عثمان رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری دور میں دوچار ہوئے پھر جام شہادت نوش کیا،نیز اس حدیث سے ان تینوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، اوریہ کہ ان کے درمیان خلافت میں یہی ترتیب ہوگی۔


3711- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَهْلَةَ قَالَ: قَالَ عُثْمَانُ يَوْمَ الدَّارِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۴۳) (صحیح)
۳۷۱۱- ابوسہلہ کا بیان ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے جانتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس عہد سے مرادیہ ہے کہ آپ نے فرمایاتھا اللہ تعالیٰ تم کو ایک کرتاپہنائے گا ، لو گ اس کو تم سے اترواناچاہیں گے ، تومت اتارنا، (اس سے خلافت کا کرتامرادہے ) اسی لیے عثمان شہیدہوگئے مگرخلافت سے دستبردارنہیں ہوئے کیونکہ آپ بفرمان رسالت مآب حق پر تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۰-باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب​


3712- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَيْشًا، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَمَضَى فِي السَّرِيَّةِ فَأَصَابَ جَارِيَةً؛ فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ، وَتَعَاقَدَ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالُوا: إِذَا لَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخْبَرْنَاهُ بِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا رَجَعُوا مِنْ السَّفَرِ بَدَئُوا بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى رِحَالِهِمْ؛ فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِيَّةُ سَلَّمُوا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَامَ أَحَدُ الأَرْبَعَةِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلَمْ تَرَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَنَعَ كَذَا وَكَذَا؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ قَامَ الثَّانِي فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ: فَقَالَ: مِثْلَ مَا قَالُوا: فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ: "مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ؟ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ؟ مَاتُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ؟ إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۶۱)، وحم (۴/۴۳۷-۴۳۸) (صحیح)
۳۷۱۲- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ( لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ(لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کرلیا ۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیاہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے ، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیااور لوگوں نے آپ کوسلام کیا توان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اورا س نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! کیا آپ کومعلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی توآپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہواتو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا:'' تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۱؎ اور وہ دوست ہیں ہراس مومن کاجو میرے بعدآئے گا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ لونڈی مال غنیمت میں سے تھی ، تولوگوں نے اس لیے اعتراض کیا کہ ابھی مال غنیمت کی تقسیم توعمل میں آئی نہیں، اس لیے یہ مال غنیمت میں خردبردکے ضمن میں آتاہے ، یااس لیے اعتراض کیا کہ مال غنیمت کی لونڈیوں میں ضروری ہے کہ پہلے ایک ماہواری سے ان کے رحم کی صفائی ہوجائے ، اورعلی نے ایسانہیں کیاہے،یہ بات توعلی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید ہے کہ استبراء رحم (رحم کی صفائی )سے پہلے لونڈی سے ہم بستری کربیٹھیں، ہوایہ ہوگا کہ ایک دو دن کے بعد ہی وہ ماہواری سے فارغ ہوئی ہوگی ، تواب مزید ماہواری کی توضرورت تھی نہیں۔
وضاحت ۲؎ : اس جملہ سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی اللہ عنہ سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے کیوں کہ کچھ اور صحابہ بھی ہیں جن کے متعلق آپ نے یہی جملہ کہا ہے، مثلا ً جلیبیب کے متعلق آپ نے فرمایا:'' '' ہذا منی و أنا منہ'' اسی طرح اشعریین کے بارے میں آپ نے فرمایا: ''فہم منی و أنا منہم'' یہ دونوں روایتیں صحیح مسلم کی ہیں، مسند احمد میں ہے: آپ ﷺ نے بنی ناجیہ کے متعلق فرمایا:'' '' أنا منہم وہم منی''۔نیز اس سے یہ استدلال کرنابھی صحیح نہیں ہے کہ ''علی مجھ سے ہیں''کا مطلب ہے:علی آپ کی ذات ہی میں سے ہیں، اس سے مرادہے: نسب۔


3713- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ شَكَّ شُعْبَةُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِاللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ وَأَبُو سَرِيحَةَ هُوَ حُذَيْفَةُ بْنُ أَسِيدٍ الْغِفَارِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۹)، و۳۶۶۷)، وحم (۴/۳۶۸، ۳۷۲) (صحیح)
۳۷۱۳- ابوسریحہ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور ابوسریحہ نبی اکرم ﷺ کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ کے اس فرمان :'' من کنت مولاہ فعلی مولاہ '' کا ایک خاص سبب ہے، کہاجاتاہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے جب علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہا : '' لستَ مولای إنما مولای رسول اللہ ﷺ '' یعنی میرے مولی تم نہیں ہو بلکہ رسول اللہ ﷺ ہیں تو اسی موقع پر آپ ﷺ نے '' من کنت مولاہ فعليّ مولاہ'' کہا، امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ یہاں ولی سے مراد '' ولاء الإسلام '' یعنی اسلامی دوستی اور بھائی چار گی ہے، اس لیے شیعہ حضرات کا اس جملہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے بعد اصل خلافت کے حق دار تھے۔صحیح نہیں ہے۔


3714- حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "رَحِمَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ وَحَمَلَنِي إِلَى دَارِ الْهِجْرَةِ، وَأَعْتَقَ بِلاَلاً مِنْ مَالِهِ رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ يَقُولُ: الْحَقَّ، وَإِنْ كَانَ مُرًّا تَرَكَهُ الْحَقُّ، وَمَا لَهُ صَدِيقٌ رَحِمَ اللَّهُ عُثْمَانَ تَسْتَحْيِيهِ الْمَلائِكَةُ رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ، وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ التَّيْمِيُّ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۷) (ضعیف)
(سندمیں مختار بن نافع ضعیف اور ساقط راوی ہیں، الضعیفۃ ۲۰۹۴)
۳۷۱۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنی لڑکی سے میری شادی کردی اور مجھے دارلہجرۃ (مدینہ) لے کر آئے اوربلال کو اپنے مال سے (خرید کر) آزاد کیا، اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے وہ حق بات کہتے ہیں، اگر چہ وہ کڑوی ہو، حق نے انہیں ایسے حال میں چھوڑا ہے کہ ( اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ) ان کا کوئی دوست نہیں ، اللہ عثمان پر رحم کرے ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں، اللہ علی پر رحم فرمایے ، اے اللہ ! حق کو ان کے ساتھ پھیر جہاں وہ پھریں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- مختار بن نافع کثیر الغرائب اوربصری شیخ ہیں،۳- ابوحیان تیمی کانام یحییٰ بن سعید بن حیان تیمی ہے اور یہ کوفی ہیں اور ثقہ ہیں۔


3715- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِالرَّحَبِيَّةِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إِلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فِيهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَأُنَاسٌ مِنْ رُؤَسَائِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! خَرَجَ إِلَيْكَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا وَإِخْوَانِنَا، وَأَرِقَّائِنَا، وَلَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا خَرَجُوا فِرَارًا مِنْ أَمْوَالِنَا، وَضِيَاعِنَا فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ سَنُفَقِّهُهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ! لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ بِالسَّيْفِ عَلَى الدِّينِ قَدْ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ عَلَى الإِيمَانِ" قَالُوا: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! وَقَالَ عُمَرُ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ، وَكَانَ أَعْطَى عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ رِبْعِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الإِسْلاَمِ كَذْبَةً، و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي الأَسْوَدِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: د/الجھاد ۱۳۶ (۲۷۰۰)، وانظر أیضا حدیث رقم ۲۶۶۰ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۸)
(ضعیف الإسناد)
(سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا آخری لفظ ''من کذب ...'' دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر(۲۶۶۰، اور ۲۶۵۹،اور ۲۶۶۱)
۳۷۱۵- ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے رحبیہ(مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا ، حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے، ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آکر کہنے لگے: اللہ کے رسول ! ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آگئے ہیں، انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں، آپ انہیں واپس کردیجئے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اے گروہ قریش ! تم اپنی نفسیانیت سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو بھیجے گا جو تمہاری گردنیں اسی دین کی خاطرتلوار سے اڑائے گا ، اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے جانچ لیا ہے، لوگوں نے عرض کیا: وہ کون شخص ہے؟ اللہ کے رسول ! اور آپ سے ابوبکر نے بھی پوچھا: وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ اور عمر نے بھی کہ وہ کون ہے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا:'' وہ جوتی ٹانکنے والا ہے، اور آپ نے علی کو اپنا جوتا دے رکھا تھا، وہ اسے ٹانک رہے تھے، (راوی کہتے ہیں:) پھر علی ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: ''جو میرے اوپر جھوٹ باندھے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ربعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی سے روایت کرتے ہیں،۲- میں نے جارود سے سنا وہ کہہ رہے تھے : میں نے وکیع کو کہتے ہوئے سنا کہ ربعی بن حراش نے اسلام میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا،۳- اور مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبردی اور وہ عبداللہ بن ابی اسود سے روایت کررہے تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمن بن مہدی کو کہتے سنا : منصور بن معتمر اہل کوفہ میں سب سے ثقہ آدمی ہیں۔


3716- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْرَائِيلَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنْتَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْكَ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي، ولیس في بعض النسخ) (صحیح)
۳۷۱۶- براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا:'' تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اوراس حدیث میں ایک واقعہ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21- باب
۲۱-باب​


3717- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي هَارُونَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۴) (ضعیف جداً)
(سندمیں ابوہارون العبدی متروک راوی ہے)
۳۷۱۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم گروہِ انصار، منافقوں کو علی سے ان کے بغض رکھنے کی وجہ سے خوب پہچانتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور شعبہ نے ابوہارون کے سلسلہ میں کلام کیاہے،۲- یہ حدیث اعمش سے بھی روایت کی گئی ہے، جسے انہوں نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوسعید خدری سے روایت کی ہے۔


3717/أ- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ الْمُسَاوِرِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أُمِّهِ قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَمِعْتُهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ، وَلاَ يَبْغَضُهُ مُؤْمِنٌ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ أَبُونَصْرٍ الْوَرَّاقُ، وَرَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۴) (ضعیف)
(سندمیں مساور حمیری اور اس کی ماں دونوں مجہول راوی ہیں)
۳۷۱۷/أ- مساور حمیری اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : علی سے کوئی منافق دوستی نہیں کرتا اورنہ کوئی مومن ان سے بغض رکھتا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- عبداللہ بن عبدالرحمن سے مراد ابونصر ورّاق ہیں اور ان سے سفیان ثوری نے روایت کی ہے،۳- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے۔


3718- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ" قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! سَمِّهِمْ لَنَا قَالَ: "عَلِيٌّ مِنْهُمْ" يَقُولُ: ذَلِكَ ثَلاَثًا، وَأَبُو ذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ وَسَلْمَانُ أَمَرَنِي بِحُبِّهِمْ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۰۸)، وحم (۵/۳۵۶) (ضعیف)
(سندمیں ابوربیعہ ایادی لین الحدیث، اور شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں)
۳۷۱۸- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتاہے''، عرض کیاگیا : اللہ کے رسول ! ہمیں ان کانام بتادیجئے، آپ نے فرمایا:'' علی انہیں میں سے ہیں، آپ اس جملہ کو تین بار دہرارہے تھے اور باقی تین: ابوذر ، مقداد اور سلمان ہیں، مجھے اللہ نے ان لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیاہے، اور مجھے اس نے بتایا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں سے محبت رکھتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔


3719- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّي عَنِّي إِلاَّ أَنَا أَوْ عَلِيٌّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۰)، وحم (۴/۱۶۴، ۹۵) (حسن)
(سندمیں شریک القاضی ضعیف الحفظ اورابواسحاق سبیعی مدلس وصاحب اختلاط راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم ۱۹۸۰، وتراجع الالبانی ۳۷۸)
۳۷۱۹- حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اہل عرب کا یہ طریقہ تھا کہ نقض عہد یا صلح کی تنفیذ کا اعلان جب تک قوم کے سردار یا اس کے کسی خاص قریبی فرد کی طرف سے نہ ہوتا وہ اسے قبول نہ کرتے تھے، اسی لیے جب رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا اور پھر بعد میں اللہ کے اس فرمان {إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} (سورة التوبة:28)کے ذریعہ اعلان برأت کی خاطر علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو آپ نے علی کی تکریم میں اسی موقع پر یہ بات کہی : '' علی منی و أنا من علی و لا یؤدی عنی الا أنا أو علی''۔


3720- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحِ ابْنِ حَيٍّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: آخَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ، وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۷) (ضعیف)
(سندمیں حکیم بن جبیر ضعیف رافضی ہے)
۳۷۲۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' تم میرے بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں زید بن ابی اوفیٰ سے بھی روایت ہے۔


3721- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَرَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ طَيْرٌ؛ فَقَالَ: "اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي هَذَا الطَّيْرَ"؛ فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَكَلَ مَعَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَعِيسَى بْنُ عُمَرَ هُوَ كُوفِيٌّ وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَدْ أَدْرَكَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَرَأَى الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَثَّقَهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَزَائِدَةُ، وَوَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸) (ضعیف)
(سندمیں سفیان بن وکیع ضعیف اورساقط الحدیث ہیں،اور اسماعیل بن عبد الرحمن السدی الکبیر روایت میں وہم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ تشیع سے متہم ، اور اس روایت میں تشیع ہے بھی)
۳۷۲۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک پرندہ تھا ، آپ نے دعا فرمائی کہ اے للہ ! میرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آجو تیری مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے ،تو علی آئے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے سدی کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳- عیسیٰ بن عمر کو فی ہیں۴- اور سدی کانام اسماعیل بن عبدالرحمن ہے، اور ان کا سماع انس بن مالک سے ہے،اور حسین بن علی کی رؤیت بھی انہیں حاصل ہے، شعبہ ، سفیان ثوری اور زائدہ نے ان کی توثیق کی ہے، نیز یحییٰ بن سعید القطان نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔


3722- حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۰) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن عمرو بن ہند جملی کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، یعنی: سند میں انقطاع ہے)
۳۷۲۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتاتوآپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا توخودہی پہل کرتے ''(دینے میں یا بولنے میں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


3723- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مُنْكَرٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَرِيكٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، وَلا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنْ الثِّقَاتِ عَنْ شَرِيكٍ، وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۰۹) (موضوع)
(سندمیں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف ہیں اور شریک کے سوا کسی نے سند میں صنابحی کا ذکر نہیں کیا ہے، جس سے پتہ چلا کہ سند میں انقطاع بھی ہواہے، اس حدیث پر ابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع کا حکم لگایا ہے، ابن تیمیہ کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف بلکہ عارفین حدیث کے یہاں موضوع ہے، لیکن ترمذی وغیرہ نے اس کی روایت کی ہے بایں ہمہ یہ جھوٹ ہے ، اس حدیث کی مفصل تخریج ہم نے اپنی کتاب شیخ الاسلام ابن تیمیہ وجہودہ فی الحدیث وعلومہ میں کی ہے حدیث نمبر ۳۷۶)
۳۷۲۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ، اور منکر ہے،۲- بعض راویوں نے اس حدیث کوشریک سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو، اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔


3724- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَمَّرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَابٍ قَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ ثَلاثًا قَالَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ لِعَلِيٍّ، وَخَلَفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! تَخْلُفُنِي مَعَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلا أَنَّهُ لا نُبُوَّةَ بَعْدِي"، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ: لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا؛ فَأَتَاهُ وَبِهِ رَمَدٌ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ؛ فَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ؛ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَكُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَكُمْ}[آل عمران:61] الآيَةَ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَؤُلائِ أَهْلِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۹ (۳۷۰۶)، والمغازي ۷۸ (۴۴۱۶)، م/فضائل الصحابۃ ۴ (۲۴۰۴/۳۲)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۷۲)، وحم (۱/۱۷۰، ۱۷۷) (صحیح)
۳۷۲۴- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اُن کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یا درہیں گی جنہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا، اور ان میں سے ایک کابھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو علی سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیاتھا تو آپ سے علی نے کہا تھا: اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں)، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے اسی طرح ہو جس طرح ہارون موسیٰ کے لیے تھے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ۱؎ ، اور دوسری یہ کہ میں نے آپ کو خیبر کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج میں پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول بھی محبت کرتے ہیں ، سعدبن ابی وقاص کہتے ہیں تو ہم سب نے اس کے لیے اپنی گردنیں بلند کیں، یعنی ہم سب کو اس کی خواہش ہوئی ، آپ نے فرمایا:'' علی کو بلاؤ ،چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں آشوب چشم کی شکایت تھی تو آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھ میں لگا یا اور پرچم انہیں دے دیا چنانچہ ا للہ نے انہیں فتح دی، تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت کریمہ {نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَكُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَكُمْ } اتری۔ تورسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا:'' اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ علی رضی اللہ عنہ کے آپ ﷺسے نہایت قریب ہو نے کی دلیل ہے ، نیز یہ ختم نبوت کی ایک واضح دلیل ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس آیت مباہلہ میں جن لوگوں کو نبی اکرمﷺکا اہل مراد لیا گیا ان میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل کئے گئے ، {ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء}(الجمعة:4)


3725- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ جَيْشَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَعَلَى الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَقَالَ: "إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ"، قَالَ: فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا؛ فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً فَكَتَبَ مَعِي خَالِدٌ كِتَابًا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَشِي بِهِ قَالَ: فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَرَأَ الْكِتَابَ: فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ: "مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟" قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ، وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر رقم : ۱۷۰۴ (ضعیف الإسناد)
۳۷۲۵- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو لشکر بھیجے اور ان دونوں میں سے ایک کا امیرعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کا خالد بن ولید کو بنایا اورفرمایا : جب لڑائی ہوتو علی امیر رہیں گے چنانچہ علی نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس سے (مال غنیمت میں سے) ایک لونڈی لے لی، تو میرے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں وہ آپﷺ سے علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کررہے تھے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہوگیا پھر آپ نے فرمایا:'' تم کیا چاہتے ہو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں ، میں تو صرف ایک قاصد ہوں، پھر آپ خاموش ہوگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


3726- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ؛ فَانْتَجَاهُ فَقَالَ النَّاسُ: لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَكِنَّ اللَّهَ انْتَجَاهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الأَجْلَحِ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ ابْنِ فُضَيْلٍ أَيْضًا عَنِ الأَجْلَحِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ، " وَلَكِنَّ اللَّهَ انْتَجَاهُ " يَقُولُ اللَّهُ: أَمَرَنِي أَنْ أَنْتَجِيَ مَعَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵۴) (ضعیف)
(سندمیں ابوالزبیر مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے کی ہے)
۳۷۲۶- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے غزوئہ طائف کے دن علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کے انداز میں کچھ باتیں کیں ، لوگ کہنے لگے: آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بڑی دیر تک سرگوشی کی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اجلح کی روایت سے جانتے ہیں، اور اسے ابن فضیل کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی اجلح سے روایت کیا ہے،۲- آپ کے قول ''بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے'' کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے ان کے ساتھ سرگوشی کا حکم دیا ہے۔


3727- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِعَلِيٍّ: "يَا عَلِيُّ لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يُجْنِبَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي، وَغَيْرِكَ". قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ: قُلْتُ لِضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ مَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُبًا غَيْرِي، وَغَيْرِكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ هَذَا الْحَدِيثَ فَاسْتَغْرَبَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۳) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، اور سالم بن ابی حفصہ غالی شیعہ ہے، اور روایت میں تشیع ہے)
۳۷۲۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی سے فرمایا:'' علی ! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس مسجد میں جنبی رہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- علی بن منذر کہتے ہیں: میں نے ضرار بن صرد سے پوچھا: اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ حالت جنابت میں وہ اس مسجد میں سے گذرے،۳- مجھ سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنا تو وہ اچنبھے میں پڑگئے۔


3728- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَابِسٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلاَئِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: بُعِثَ النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ الاثْنَيْنِ وَصَلَّى عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلاَثَائِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ الأَعْوَرِ، وَمُسْلِمٌ الأَعْوَرُ لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ حَبَّةَ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں علی بن عابس اور مسلم بن کیسان اعور دونوں ضعیف راوی ہیں)
۳۷۲۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو دوشنبہ کو مبعوث کیاگیا اور علی نے منگل کو صلاۃ پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اور یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف مسلم اعور کی روایت سے جانتے ہیں اور مسلم اعور محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۲- اسی طرح یہ حدیث مسلم اعورسے بھی آئی ہے اور مسلم نے حبہ کے واسطہ سے اسی طرح علی سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


3729- حَدَّثَنَا خَلادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَانِي وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۷۲۲ (ضعیف)
۳۷۲۹- عبداللہ بن عمرو بن ہند جملی سے روایت ہے کہ علی کہتے تھے: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتا توآپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا توخودہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔


3730- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُوأَحْمَدَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۷۰) (صحیح)
(سندمیں شریک القاضی ضعیف الحفظ ہیں، مگر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث (۳۷۲۴) سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے)
۳۷۳۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا:'' تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے تھے ، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں''۔(اورہارون علیہ السلام اللہ کے نبی تھے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں سعد، زید بن ارقم، ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔


3731- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ عَبْدِالسَّلاَمِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَيُسْتَغْرَبُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۸۳۰ (صحیح)
۳۷۳۱- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا:'' تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون ، موسیٰ کے لیے تھے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۲- اور یہ سعدبن ابی وقاص کے واسطہ سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کئی سندوں سے آئی ہے،۳- اور یحییٰ بن سعید انصاری کی سند سے یہ حدیث غریب سمجھی جاتی ہے۔


3732- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِسَدِّ الأَبْوَابِ إِلا بَابَ عَلِيٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لا نَعْرِفُهُ عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۳۱۴) (صحیح)
۳۷۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے علی کے دروازے کے علاوہ (مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام) دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے شعبہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مناقب ابی بکر رضی اللہ عنہ میں یہ حدیث گزری کہ ''نبی اکرمﷺنے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوامسجدنبوی میں کھلنے والے سارے دروازوں کو بندکردینے کا حکم دیا''ان دونوں حدیثوں کے درمیان بظاہرنظرآنے والے تعارض کو اس طرح دورکیا گیاہے ،کہ شروع میں مسجدمیں کھلنے والے تمام دروازے سوائے علی کے بندکردینے کا حکم ہوا، تو لوگوں نے دروازے بندکرکے روشن دان کھول لیے اورنبی اکرمﷺ کے مرض کے ایام میں آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے روشن دان کے سوا سارے لوگوں کے روشندان بندکردیئے ، (یہ روشن اوپربھی ہوتے تھے اورنیچے بھی، نیچے والے سے لوگ آمد ورفت بھی کرتے تھے ، مسجدکی طرف دروازوں کے بندہوجانے کے بعد مسجد میں آنے جانے کے لیے لوگوں نے استعمال کرناشروع کردیاتھا، (کما فی کتب مشکل الحدیث )


3733- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَخِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ: "مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۷۳)، وحم (۱/۷۷) (ضعیف)
(سند میں علی بن جعفر مجہول ہیں، اور حدیث کا متن منکر ہے، ملاحظہ ہو الضعیفۃ رقم: ۳۱۲۲)
۳۷۳۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ''جو مجھ سے محبت کرے، اور ان دونوں سے، اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت کرے، تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے جعفر بن محمد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔


3734- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ صَلَّى عَلِيٌّ .
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بَلْجٍ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ حُمَيْدٍ، وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ.
وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الرِّجَالِ أَبُوبَكْرٍ، وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَهُوَ غُلاَمٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ، وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النِّسَائِ خَدِيجَةُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (۶۳۱۵) (صحیح)
۳۷۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : پہلے پہل جس نے صلاۃ پڑھی وہ علی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، شعبہ کی یہ حدیث جسے وہ ابوبلج سے روایت کرتے ہیں ہم اسے صرف محمد بن حمید کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوبلج کانام یحییٰ بن سلیم ہے،۲- اہل علم نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، بعض راویوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جس نے اسلام قبول کیا ہے وہ ابوبکر صدیق ہیں، اور بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جو اسلام لائے ہیں وہ علی ہیں، اور بعض اہل علم نے کہا ہے: بڑے مردوں میں جو پہلے پہل اسلام لائے ہیں وہ ابوبکر ہیں اور علی جب اسلام لائے تو وہ آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے، اور عورتوں میں جوسب سے پہلے اسلام لائی ہیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اوریہی قول سب سے بہترہے۔


3735- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَال: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ فَأَنْكَرَهُ فَقَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۴) (صحیح)
۳۷۳۵- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ علی ہیں ۔
عمرو بن مرہ کہتے ہیں: میں نے اسے ابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا: سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر صدیق ہیں رضی اللہ عنہ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3736- حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عُثْمَانَ ابْنِ أَخِي يَحْيَى بْنِ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الأُمِّيُّ ﷺ أَنَّهُ لاَ يُحِبُّكَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَبْغَضُكَ إِلاَّ مُنَافِقٌ قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِينَ دَعَا لَهُمُ النَّبِيُّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۳۳ (۷۸)، ن/الإیمان ۱۹ (۵۰۲۱)، و۲۰ (۵۰۲۵)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۹۲) وحم (۱/۸۴، ۹۵) (صحیح)
۳۷۳۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی امی ﷺ نے مجھ سے فرمایا:'' تم سے صرف مومن ہی محبت کرتاہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے'' ۱؎ ۔عدی بن ثابت کہتے ہیں: میں اس طبقے کے لوگوں میں سے ہوں، جن کے لیے نبی اکرمﷺ نے دعافرمائی ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے شرعی محبت اورعداوت مرادہے، مثلاً ایک آدمی علی سے تومحبت رکھتاہے مگرابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتاہے تو اس کی محبت ایمان کی علامت نہیں ہوگی ، اورجہاں تک بغض کا معاملہ ہے ،تو صرف علی سے بھی بغض ایمان کی نفی کے لیے کافی ہے ، خواہ وہ ابوبکروعمروعثمان رضی اللہ عنہم سے محبت ہی کیوں نہ رکھتاہو۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: ارشادنبوی ''اے اللہ تو اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھتاہے ، کہ مصداق میں اس دعائے نبوی کے افراد میں شامل ہوں کیونکہ میں علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتاہوں۔


3737- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُوعَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ صُبَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ شَرَاحِيلَ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ قَالَتْ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ جَيْشًا فِيهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْنِي حَتَّى تُرِيَنِي عَلِيًّا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۴۲) (ضعیف)
(سندمیں ام شراحیل مجہول راوی ہیں)
۳۷۳۷- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی بھی تھے، میں نے نبی اکرم ﷺ کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرمارہے تھے: ''اے اللہ ! تو مجھے مارنا نہیں جب تک کہ مجھے علی کو دکھانہ دے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَنَاقِبِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۲-باب: طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3738- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ فَنَهَضَ إِلَى صَخْرَةٍ؛ فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَأَقْعَدَ تَحْتَهُ طَلْحَةَ فَصَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الصَّخْرَةِ فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "أَوْجَبَ طَلْحَةُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۶۹۲ (صحیح)
۳۷۳۸- زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ دوزرہیں پہنے ہوئے تھے ، آپ ایک چٹان پر چڑھنے لگے لیکن چڑھ نہ سکے تو اپنے نیچے طلحہ کو بٹھایا اورچڑھے یہاں تک کہ چٹان پرسیدھے کھڑے ہوگئے، تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کرلی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنے اس فدائیانہ وفدویانہ عمل کے طفیل طلحہ رضی اللہ عنہ جنت کے حقدار قراردیے گئے ، یعنی دنیاہی میں ان کونبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے جنت کی بشارت مل گئی۔


3739- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُوسَى الطُّلَحِيُّ مِنْ وَلَدِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ الصَّلْتِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى شَهِيدٍ يَمْشِي عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الصَّلْتِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الصَّلْتِ بْنِ دِينَارٍ، وَفِي صَالِحِ بْنِ مُوسَى مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمَا.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۰۳) (صحیح)
۳۷۳۹- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''جس کو اس بات سے خوشی ہوکہ وہ کسی شہید کو (دنیاہی میں)زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ طلحہ کو دیکھ لے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف صلت کی روایت سے جانتے ہیں،۲- بعض اہل علم نے صلت بن دینار اورصالح بن موسیٰ کے سلسلہ میں ان دونوں کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ معجزات رسول میں سے ایک معجزہ تھا، چنانچہ طلحہ رضی اللہ عنہ اس معجزہ نبوی کے مطابق واقعہ جمل میں شہید ہوئے۔


3740- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: أَلاَ أُبَشِّرُكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۲۰۲ (حسن)
۳۷۴۰- موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں :میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں یہ خوش خبری نہ سناؤں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایاہے کہ وہ اپنا کام پورا کرچکے ہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ اللہ تعالیٰ کے قول {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ} (الأحزاب:23)کی طرف اشارہ ہے (یعنی : مومنوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد وپیمان (صبروثبات ) کو سچ کردکھا یا ، ان میں سے بعض نے تو اپنی نذرپوری کردی، اوربعض وقت کا انتظارکررہے ہیں۔


3741- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنُ مَنْصُورٍ الْعَنَزِيُّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ الْيَشْكُرِيِّ قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ يَقُولُ: "طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَايَ فِي الْجَنَّةِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۳) (ضعیف)
(سندمیں ابوعبد الرحمن نضر بن منصور اور عقبہ بن علقمۃ یشکری دونوں ضعیف راوی ہیں)
۳۷۴۱- عقبہ بن علقمہ یشکری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ کے زبان مبارک سے سنا ہے آپ فرمارہے تھے:'' طلحہ اور زبیر دونوں میرے جنت کے پڑوسی ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


3742- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُوسَى وَعِيسَى ابْنَيْ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِمَا طَلْحَةَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالُوا: لأَعْرَابِيٍّ جَاهِلٍ سَلْهُ عَمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ مَنْ هُوَ؟ وَكَانُوا لاَ يَجْتَرِئُونَ هُمْ عَلَى مَسْأَلَتِهِ يُوَقِّرُونَهُ، وَيَهَابُونَهُ فَسَأَلَهُ الأَعْرَابِيُّ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ إِنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ، وَعَلَيَّ ثِيَابٌ خُضْرٌ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ؟ عَمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ قَالَ الأَعْرَابِيُّ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ هَذَا مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي كُرَيْبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي كُرَيْبٍ هَذَا الْحَدِيثَ، و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُحَدِّثُ بِهَذَا عَنْ أَبِي كُرَيْبٍ، وَوَضَعَهُ فِي كِتَابِ الْفَوَائِدِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۲ (حسن صحیح)
۳۷۴۲- طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل اعرابی سے کہا : تم نبی اکرم ﷺ سے ''من قضى نحبه'' کے متعلق پوچھو کہ اس سے کون مراد ہے ، صحابہ کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ آپ ﷺکی ان پر اتنی ہیبت طاری رہتی تھی کہ وہ آپ سے سوال کی جرأت نہیں کرپاتے تھے، چنانچہ اس اعرابی نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنا منہ پھیر لیا ، اس نے پھر پوچھا: آپ نے پھر منہ پھیر لیا پھر میں مسجد کے دروازے سے نکلا، میں سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا، تو جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا توفرمایا: ''ممن قضیٰ نحبہ'' کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ اعرابی بولا: میں موجود ہوں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا: یہ '' عن قضی نحبہ'' میں سے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف ابوکریب کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ یونس بن بکیر سے روایت کرتے ہیں،۲- کبار محدثین میں سے متعدد لوگوں نے ابوکریب سے روایت کی ہے،۳- میں نے اسے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابوکریب کے واسطہ سے بیان کرتے سنا ہے، اور انہوں نے اس حدیث کواپنی کتاب ''کتاب الفوائد'' میں رکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَنَاقِبِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۲۳-باب: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3743- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الزُّبَيْرِ قَالَ: جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَوَيْهِ يَوْمَ قُرَيْظَةَ فَقَالَ بِأَبِي وَأُمِّي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۳۷۲۰)، م/فضائل الصحابۃ ۶ (۲۴۱۶)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۲) (صحیح)
۳۷۴۳- زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریظہ کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا اور فرمایا:'' میرے ماں باپ تم پر فداہوں '' ۱ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اوریہ زبیرسے اللہ کے رسول ﷺکی نہایت قربت کی دلیل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-بَابٌ
۲۴-باب: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے مناقب پر ایک اور باب​


3744- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَيُقَالُ الْحَوَارِيُّ: هُوَ النَّاصِرُ سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: الْحَوَارِيُّ هُوَ النَّاصِرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۹۶) (صحیح)
(یہ سند حسن ہے، اور یہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ مروی ہے، ملاحظہ ہو: ابن ماجہ ۱۲۲)
۳۷۴۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں ۱؎ اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور حواری مدد گار کوکہا جاتا ہے، میں نے ابن ابی عمر کو کہتے ہوئے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا ہے کہ حواری کے معنی مددگار کے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یوں تو سبھی صحابہ کرام آپﷺ کے مددگارتھے، مگرزبیر رضی اللہ عنہ میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم تھی ، اس لیے خاص طورسے آپ نے اس کا تذکرہ کیا اور اس کا ایک خاص پس منظرہے جس کا بیان اگلی حدیث میں آرہا ہے۔
 
Top