• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-بَاب فِي آيَاتِ إِثْبَاتِ نُبُوَّةِ النَّبِيِّ ﷺوَمَا قَدْ خَصَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ
۵-باب: نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے دلائل اور آپ کے خصائص وامتیازات​


3624- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالاَ: أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّبِّيُّ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ بِمَكَّةَ حَجَرًا كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لأَعْرِفُهُ الآنَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الفضائل ۱ (۲۲۷۷) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۶۵)، وحم (۵/۵۹، ۹۵)، ودي/المقدمۃ ۴ (۲۰) (صحیح)
۳۶۲۴- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مکہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے ان راتوں میں جن میں میں مبعوث کیاگیاتھا سلام کیا کرتاتھا، اسے میں اب بھی پہچانتاہوں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔


3625- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي الْعَلاَئِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَتَدَاوَلُ فِي قَصْعَةٍ مِنْ غَدْوَةٍ حَتَّى اللَّيْلِ يَقُومُ عَشَرَةٌ، وَيَقْعُدُ عَشَرَةٌ قُلْنَا: فَمَا كَانَتْ تُمَدُّ؟ قَالَ: مِنْ أَيِّ شَيْئٍ تَعْجَبُ! مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلاَّ مِنْ هَاهُنَا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَائِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعَلاَئِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۴۶۳۹) (صحیح)
۳۶۲۵- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بڑے برتن میں صبح سے شام تک کھاتے رہے، دس آدمی اٹھتے تھے اور دس بیٹھتے تھے، ہم نے (سمرہ سے) کہا: تو اس پیالہ نمابڑے برتن میں کچھ بڑھا یا نہیں جاتا تھا ؟ انہوں نے کہا: تمہیں تعجب کس بات پر ہے؟ اس میں بڑھایا نہیں جاتا تھا مگر وہاں سے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی جانب اشارہ کیا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ کی طرف سے معجزانہ طورپر کھانابڑھایاجاتارہا،یہ آ پﷺ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6-بَابٌ
۶-باب​


3626- حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلاَ شَجَرٌ إِلاَّ وَهُوَ يَقُولُ: السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ!.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، وَقَالُوا: عَنْ عَبَّادٍ أَبِي يَزِيدَ مِنْهُمْ فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَائِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۵۹) (ضعیف)
(سندمیں عباد بن یزید مجہول، اور ولید بن ابی ثور ضعیف اور سدی متکلم فیہ راوی ہیں)
۳۶۲۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ہم اس کے بعض اطراف میں نکلے تو جوبھی پہاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتے سبھی '' السلام علیک یا رسول اللہ '' کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- کئی لوگوں نے یہ حدیث ولید بن ابی ثور سے روایت کی ہے اوران سب نے ''عن عباد أبي يزيد'' کہاہے، اور انہیں میں سے فروہ بن ابی المغراء بھی ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : فروہ بن ابی المغراء معدیکرب ، کندی ، کوفی استاذ امام بخاری ، امام ابوحاتم رازی، امام ابوزرعہ رازی ، متوفی ۲۲۵ھ


3627- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَطَبَ إِلَى لِزْقِ جِذْعٍ، وَاتَّخَذُوا لَهُ مِنْبَرًا؛ فَخَطَبَ عَلَيْهِ؛ فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِينَ النَّاقَةِ؛ فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَمَسَّهُ فَسَكَنَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيٍّ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَنَسٍ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴)، وحم (۳/۲۲۶، ۲۹۳) (صحیح)
۳۶۲۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کھجور کے ایک تنہ سے ٹیک لگاکر خطبہ دیتے تھے، پھر لوگوں نے آپ کے لیے ایک منبر تیار کردیا ، آپ نے اس پر خطبہ دیا تو وہ تنا رونے لگا جیسے اونٹنی روتی ہے جب نبی اکرم ﷺ نے اتر کر اس پر ہاتھ پھیرا تب وہ چپ ہوا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس والی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابی، جابر، ابن عمر، سہل بد سعد، ابن عباس اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ آپ کے نبی ہونے کی دلیلوں میں سے ایک اہم دلیل ہے۔


3628- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ بِمَ أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ: "إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟" فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّى سَقَطَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ فَعَادَ؛ فَأَسْلَمَ الأَعْرَابِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۷) (صحیح)
(لیکن''فأسلم الأعرابي'' کالفظ ثابت نہیں ہے ،سند میں محمد بن اسماعیل سے مراد امام بخاری ہیں، اور محمد بن سعید بن سلیمان الکوفی ابوجعفر ثقہ ہیں، لیکن شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، شواہد کی بناپر حدیث صحیح ہے، فأسلم الأعرابي یعنی اعرابی مسلمان ہوگیا،کاجملہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، الصحیحۃ ۳۳۱۵)
۳۶۲۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: کیسے میں جانوں کہ آپ نبی ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' اگر میں اس کھجور کے درخت کے اس ٹہنی کوبلالوں تو کیا تم میرے بارے میں اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دوگے؟ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ (ٹہنی) کھجور کے درخت سے اتر کر نبی اکرمﷺ کے سامنے گرپڑی، پھر آپ نے فرمایا:'' لوٹ جا تو وہ واپس چلی گئی یہ دیکھ کر وہ اعرابی اسلام لے آیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔


3629- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عَلْبَائُ بْنُ أَحْمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُوزَيْدِ بْنُ أَخْطَبَ قَالَ: مَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ عَلَى وَجْهِي، وَدَعَا لِي قَالَ عَزْرَةُ: إِنَّهُ عَاشَ مِائَةً وَعِشْرِينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ إِلا شَعَرَاتٌ بِيضٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو زَيْدٍ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ أَخْطَبَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۹۷) (صحیح)
۳۶۲۹- ابوزید بن اخطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لیے دعا فرمائی، عزرہ کہتے ہیں : وہ ایک سوبیس سال تک پہنچے ہیں پھربھی ان کے سر کے صرف چند بال سفید ہوئے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ابوزید کانام عمرو بن اخطب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایساآپ ﷺ کے ابوزیدکے چہرے پر اپنادست مبارک پھیرنے اوردعاء کی برکت سے ہوا، یہ آپﷺ کے نبی ہونے کی دلیل ہے۔


3630- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: عَرَضْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ أَبُوطَلْحَةَ لأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَعْنِي ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَتْ: نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَسَّتْهُ فِي يَدِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَيْهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ قَالَ: فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟" فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا قَالَ: فَانْطَلَقُوا فَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ! قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالنَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ؟ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ حَتَّى دَخَلا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ "هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ؟" فَأَتَتْهُ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَفُتَّ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِعُكَّةٍ لَهَا فَآدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: "ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: "ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ"، فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، وَشَبِعُوا، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلاً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۴۳ (۴۲۲)، والمناقب ۲۵ (۳۵۷۸)، والأطعمۃ ۶ (۵۳۸۱)، والأیمان والنذور ۲۲ (۶۶۸۸)، م/الأشربۃ والأطعمۃ ۲۰ (۲۰۴۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۰)، وط/صفۃ النبی ﷺ ۱۰ (۱۹) (صحیح)
۳۶۳۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہما سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی ،وہ کمزور تھی ، مجھے محسوس ہوتاہے کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھانے کی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنی اوڑھنی نکالی اورا س کے کچھ حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ یعنی بغل کے نیچے چھپادیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ مجھے اڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا، جب میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھے ملے اور آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے، تو میں جاکر ان کے پاس کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجاہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، آپ نے پوچھا : کھانا لے کر؟ میں نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام لوگوں سے جو آپ کے ساتھ تھے کہا: اٹھو چلو، چنانچہ وہ سب چل پڑے اور میں ان کے آگے آگے چلا، یہاں تک کہ میں ابوطلحہ کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی، ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺتشریف لے آئے ہیں، اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں جو ہم انہیں کھلائیں، ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے ، تو ابوطلحہ چلے اور آکر رسول اللہ ﷺ سے ملے، تو رسول اللہ ﷺ آئے اور ابوطلحہ آپ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ دونوں اندر آگئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ام سلیم !جو تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ، چنانچہ وہ وہی روٹیاں لے کر آئیں، رسول اللہ ﷺ نے انہیں توڑنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ توڑی گئیں اور ام سلیم نے اپنے گھی کی کُپّی کواس پر اوندھا کردیا اور اسے اس میں چیپڑدیا، پھر اس پر رسول اللہ ﷺ نے پڑھاجو اللہ نے پڑھوانا چاہا، پھر آپ نے فرمایا:'' دس آدمیوں کو اندر آنے دو، توا نہوں نے انہیں آنے دیا اور وہ کھاکرآسودہ ہوگئے، پھر وہ نکل گئے، پھر آپ نے فرمایا:'' دس کو اندر آنے دو تو انہوں نے انہیں آنے دیا وہ بھی کھاکر خوب آسودہ ہوگئے اور نکل گئے، اس طرح سارے لوگوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا اور وہ سب کے سب ستر یا اسی آدمی تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ کی دعاء کی برکت سے کھانا معجزانہ طورپر اتنازیادہ ہوا کہ ستر اسی لوگوں نے اس سے شکم سیر ہو کر کھا یا، یہ معجزا تھا جو آپﷺکے نبی ہونے کی ایک اہل دلیل ہے ، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہواکہ آپﷺ کو بھی بھوک لگتی تھی ، کیونکہ آپ بھی فطرتاً انسان تھے، بعض علماء کا یہ کہنا بالکلیہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کوکھلاتاپلاتاتھااس لیے آپ کو بھوک نہیں لگتی تھی، کبھی ایسابھی ہوتاتھا ،اور کبھی بھوک بھی لگتی تھی، ورنہ پیٹ پر پتھرکیوں باندھتے ، آواز کیوں نحیف ہوجاتی؟۔


3631- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَحَانَتْ صَلاَةُ الْعَصْرِ، وَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوئَ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِوَضُوئٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الإِنَائِ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ قَالَ: فَرَأَيْتُ الْمَائَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ؛ فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ، وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ، وَزِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الوضوء ۳۲ (۱۶۹)، و۴۵ (۱۹۵)، و۴۶ (۲۰۰)، والمناقب ۲۵ (۳۵۷۲-۳۵۷۵)، م/الفضائل ۳ (۲۲۷۹)، ن/الطھارۃ ۶۱ (۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۱)، وط/الطھارۃ ۶ (۳۲)، وحم (۳/۱۴۷، ۱۷۰، ۲۱۵) (صحیح)
۳۶۳۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ، عصر کا وقت ہوگیاتھا، لوگوں نے وضو کا پانی ڈھونڈھا ، لیکن وہ نہیں پاسکے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ وضو کا پانی لایاگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس سے وضو کریں ، وہ کہتے ہیں: تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی ابلتے دیکھا، پھر لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ان میں کا جو سب سے آخری شخص تھا اس نے بھی وضو کرلیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمران بن حصین ، ابن مسعود، جابر اور زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


3632- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا ابْتُدِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ النُّبُوَّةِ حِينَ أَرَادَ اللَّهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِهِ أَنْ لاَ يَرَى شَيْئًا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ فَمَكَثَ عَلَى ذَلِكَ مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَمْكُثَ وَحُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلْوَةُ فَلَمْ يَكُنْ شَيْئٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَخْلُوَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۱۲) (حسن صحیح)
۳۶۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پہلی وہ چیز جس سے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی ابتدا ہوئی اور جس وقت اللہ نے اپنے اعزاز سے آپ کو نوازنے اور آپ کے ذریعہ بندوں پر اپنی رحمت و بخشش کا ارادہ کیاوہ یہ تھی کہ آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر صبح کے پوپھٹنے کی طرح ظاہر ہوجاتی تھی ۱؎ ، پھر آپ کا حال ایسا ہی رہا جب تک اللہ نے چاہا، ان دنوں خلوت و تنہائی آپ کو ایسی مرغوب تھی کہ اتنی مرغوب کوئی اور چیز نہ تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو خواب بھی آپ دیکھتے وہ بالکل واضح طورپر پوراہوجاتاتھا ، یہ آپﷺ کی نبوت کی ابتدائی حالت تھی ، پھر کلامی وحی کا سلسلہ ''اقراء باسم ربک''سے شروع ہوگیا۔


3633- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: إِنَّكُمْ تَعُدُّونَ الآيَاتِ عَذَابًا وَإِنَّا كُنَّا نَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَرَكَةً لَقَدْ كُنَّا نَأْكُلُ الطَّعَامَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ قَالَ: وَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِإِنَائٍ فَوَضَعَ يَدَهُ فِيهِ فَجَعَلَ الْمَائُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "حَيَّ عَلَى الْوَضُوئِ الْمُبَارَكِ وَالْبَرَكَةُ مِنْ السَّمَائِ" حَتَّى تَوَضَّأْنَا كُلُّنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۵۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۵۴)، ودي/المقدمۃ ۵ (۳۰)، وحم (۱/۴۶۰) (صحیح)
۳۶۳۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تم لوگ اللہ کی نشانیوں کو عذاب سمجھتے ہو اور ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اسے برکت سمجھتے تھے، ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور ہم کھانے کو تسبیح پڑھتے سنتے تھے، نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک برتن لایاگیا اس میں آپ نے اپنا ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں کے بیچ سے پانی ابلنے لگا، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آو ٔ اس برکت پانی سے وضو کرو اور یہ با برکت آسمان سے نازل ہورہی ہے، یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کرلیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ كَانَ يَنْزِلُ الْوَحْيُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ
۷-باب: نبی اکرم ﷺ پر وحی کیسے اترتی تھی؟​


3634- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ الْمَلَكُ رَجُلاً فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ ذِي الْبَرْدِ الشَّدِيدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الوحی ۲ (۲)، وبدء الخلق ۶ (۳۲۱۵)، م/الفضائل ۲۳ (۲۳۳۳)، ن/الافتتاح ۳۷ (۹۳۴،۹۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۵۲)، وط/القرآن ۴ (۷)، وحم (۶/۱۵۸، ۱۶۳،۲۵۷) (صحیح)
۳۶۳۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کبھی کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی آواز ۱؎ کی طرح آتی ہے اور یہ میرے لیے زیادہ سخت ہوتی ہے ۲؎ اور کبھی کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی شکل میں آتاہے اور مجھ سے کلام کرتاہے، تو وہ جو کہتا ہے اسے میں یاد کرلیتاہوں، عائشہ کہتی ہیں: چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سخت جاڑے کے دن میں آپ پر وحی اترتے دیکھی جب وہ وحی ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی پر پسینہ آیاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کہتے ہیں: یہ آواز جبرئیل کی آواز ہوتی تھی جو ابتداء میں غیر مفہوم ہوتی تھی ، پھرسمجھ میں آجاتی مگر بہت مشکل سے ، اسی لیے یہ شکل آپ پر وحی کی تمام قسموں سے سخت ہوتی تھی کہ آپ پسینہ پسینہ ہوجایاکرتے تھے ، بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ جبرئیل کے پروں کی آواز ہوتی تھی، جو اس لیے ہوتی کہ آپﷺ وحی کے لیے چوکنا ہوجائیں، جیسے فی زمانہ فون کی گھنٹی ہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : سب سے سخت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ
۸-باب: نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کابیان​


3635- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَائَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ، وَلاَ بِالطَّوِيلِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۷۲۴ (صحیح)
۳۶۳۵- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جس کے بال کا ن کی لو کے نیچے ہوں سرخ جوڑے ۱؎ میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے دونوں کندھوں سے لگے ہوتے تھے ۲؎ ، اور آپ کے دونوں کندھوں میں کافی فاصلہ ہوتاتھا ۳؎ ، نہ آپ پستہ قد تھے نہ بہت لمبے ۴؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ کے بالوں کی مختلف اوقات میں کئی حالت ہواکرتی تھی ، کبھی آدھے کانوں تک ، کبھی کانوں کے لؤوں تک ، کبھی آدھی گردن تک ، اور کبھی کندھوں کو چھوتے ہوئے۔
وضاحت ۲؎ : مردوں کے لال کپڑے پہننے کے سلسلے میں علماء درمیان مختلف روایات کی وجہ سے اختلاف ہے ، زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا یہ جوڑا ایساتھا کہ اس کا تانہ لا ل رنگ تھا ، یہ بالکل خالص لا ل نہیں تھا ، کیونکہ آپ نے خود خالص لا ل سے مردوں کے لیے منع کیا ہے ، (دیکھئے کتاب اللباس میں مردوں کے لیے لا ل کپڑے پہننے کا باب)۔
وضاحت ۳؎ : یعنی آپ کے کندھے کافی چوڑے تھے۔
وضاحت ۴؎ : ناٹا اورلمبا ہونا دونوں معیوب صفتیں ہیں ، آپ درمیانی قدکے تھے ، عیب سے مبرا،ماشاء اللہ۔


3636- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَائَ أَكَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِثْلَ السَّيْفِ قَالَ: لا، مِثْلَ الْقَمَرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۹) (صحیح)
۳۶۳۶- ابواسحاق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے براء سے پوچھا :کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں ،بلکہ چاند کی مانند تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3637- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالطَّوِيلِ، وَلاَ بِالْقَصِيرِ شَثْنَ الْكَفَّيْنِ، وَالْقَدَمَيْنِ ضَخْمَ الرَّأْسِ ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا انْحَطَّ مِنْ صَبَبٍ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلاَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۹) (صحیح)
3637/م- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۳۷- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نہ لمبے تھے نہ پستہ قد، آپ کی ہتھیلیاں اور پاؤں گوشت سے پُر تھے ، آپ بڑے سراور موٹے جوڑوں والے تھے، (یعنی گھٹنے اور کہنیاں گوشت سے پُر اور فربہ تھیں)، سینہ سے ناف تک باریک بال تھے، جب چلتے تو آگے جھکے ہوئے ہوتے گویا آپ اوپر سے نیچے اتررہے ہیں، میں نے نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کو آپ جیسادیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۶۳۷/م- ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے میرے باپ وکیع نے بیان کیا اور انہوں نے مسعودی سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔


3638- حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي حَلِيمَةَ مِنْ قَصْرِ الأَحْنَفِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَمْ يَكُنْ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ، وَلاَ بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلاَبِالسَّبِطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلا، وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَهَّمِ، وَلاَ بِالْمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشْرَبٌ أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ أَهْدَبُ الأَشْفَارِ جَلِيلُ الْمُشَاشِ، وَالْكَتَدِ أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ أَجْوَدُ النَّاسِ كَفَّا، وَأَشْرَحُهُمْ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ يَقُولُ نَاعِتُهُ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلاَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ.
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: سَمِعْتُ الأَصْمَعِيَّ يَقُولُ فِي تَفْسِيرِهِ: صِفَةَ النَّبِيِّ ﷺ الْمُمَّغِطُ الذَّاهِبُ طُولاً وَسَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَةٍ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا، وَأَمَّا الْمُتَرَدِّدُ فَالدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا، وَأَمَّا الْقَطَطُ فَالشَّدِيدُ الْجُعُودَةِ، وَالرَّجِلُ الَّذِي فِي شَعْرِهِ حُجُونَةٌ أَيْ يَنْحَنِي قَلِيلاً، وَأَمَّا الْمُطَهَّمُ فَالْبَادِنُ الْكَثِيرُ اللَّحْمِ، وَأَمَّا الْمُكَلْثَمُ فَالْمُدَوَّرُ الْوَجْهِ، وَأَمَّا الْمُشْرَبُ فَهُوَ الَّذِي فِي نَاصِيَتِهِ حُمْرَةٌ، وَالأَدْعَجُ الشَّدِيدُ سَوَادِ الْعَيْنِ، وَالأَهْدَبُ الطَّوِيلُ الأَشْفَارِ، وَالْكَتَدُ مُجْتَمَعُ الْكَتِفَيْنِ وَهُوَ الْكَاهِلُ وَالْمَسْرُبَةُ هُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي هُوَ كَأَنَّهُ قَضِيبٌ مِنَ الصَّدْرِ إِلَى السُّرَّةِ، وَالشَّثْنُ الْغَلِيظُ الأَصَابِعِ مِنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، وَالتَّقَلُّعُ أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ، وَالصَّبَبُ الْحُدُورُ يَقُولُ: انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ، وَصَبَبٍ وَقَوْلُهُ جَلِيلُ الْمُشَاشِ يُرِيدُ رُئُوسَ الْمَنَاكِبِ وَالْعِشْرَةُ الصُّحْبَةُ وَالْعَشِيرُ الصَّاحِبُ، وَالْبَدِيهَةُ الْمُفَاجَأَةُ يُقَالُ بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ أَيْ فَجَأْتُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۴) (ضعیف)
(سند میں ابراہیم بن محمد اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، ابراہیم کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)
۳۶۳۸- ابراہیم بن محمدجو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرتے تو کہتے : نہ آپ بہت لمبے تھے نہ بہت پستہ قد، بلکہ لوگوں میں درمیانی قد کے تھے، آپ کے بال نہ بہت گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تھے،نہ آپ بہت موٹے تھے اور نہ چہرہ بالکل گول تھا، ہاں اس میں کچھ گولائی ضرورتھی، آپ گورے سفید سرخی مائل، سیاہ چشم، لمبی پلکوں والے، بڑے جوڑوں والے اور بڑے شانہ والے تھے، آپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے، صرف بالوں کا ایک خط سینہ سے ناف تک کھنچا ہوا تھا، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گوشت سے پُر تھے جب چلتے زمین پر پیر جما کر چلتے، پلٹتے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹتے، آپ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت تھی، آپ خاتم النبیین تھے، لوگوں میں آپ سب سے زیادہ سخی تھے، آپ کھلے دل کے تھے، یعنی آپ کا سینہ بغض وحسد سے آئینہ کے مانند پاک وصاف ہوتاتھا، اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے ، نرم مزاج اور سب سے بہتر رہن سہن والے تھے، جو آپ کو یکایک دیکھتا ڈرجاتا اور جو آپ کو جان اور سمجھ کر آپ سے گھل مل جاتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا، آپ کی توصیف کرنے والا کہتا: نہ آپ سے پہلے میں نے کسی کو آپ جیسا دیکھا ہے اور نہ آپ کے بعد ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے،۲- (نسائی کے شیخ)ابوجعفر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کی تفسیر میں اصمعی کو کہتے ہوئے سنا کہ ''الممغط'' کے معنی لمبائی میں جانے والے کے ہیں، میں نے ایک اعرابی کو سنا وہ کہہ رہاتھا '' تمغط فی نشابۃ'' یعنی اس نے اپنا تیر بہت زیادہ کھینچا اور ''متردد'' ایسا شخص ہے جس کا بدن ٹھنگنے پن کی وجہ سے بعض بعض میں گھسا ہوا ہو اور'' قطط'' سخت گھونگھریا لے بال کو کہتے ہیں، اور'' رَجِل'' اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے بالوں میں تھوڑی خمید گی ہو اور ''مطہم'' ایسے جسم والے کو کہتے ہیں جو موٹا اور زیادہ گوشت والاہو اور ''مکلثم'' جس کا چہرہ گول ہو اور'' مشدب ''وہ شخص ہے جس کی پیشانی میں سرخی ہو اور ''ادعج'' وہ شخص ہے جس کے آنکھوں کی سیاہی خوب کالی ہو اور ''اہدب ''وہ ہے جس کی پلکیں لمبی ہوں اور'' کتد'' دونوں شانوں کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور '' مسربۃ'' وہ باریک بال ہیں جو ایک خط کی طرح سینہ سے ناف تک چلے گئے ہوں اور'' شثن'' وہ شخص ہے جس کے ہتھیلیوں اور پیروں کی انگلیاں موٹی ہوں، اور'' تقلع '' سے مراد پیر جماجما کر طاقت سے چلنا ہے اور'' صبب'' اتر نے کے معنی میں ہے، عرب کہتے ہیں '' انحدر نافی صبوب وصبب'' یعنی ہم بلندی سے اترے ''جلیل المشاش ''سے مراد شانوں کے سرے ہیں، یعنی آپ بلند شانہ والے تھے، اور''عشرۃ ''سے مراد رہن سہن ہے اور'' عشیرہ'' کے معنیٰ رہن سہن والے کے ہیں اور ''بدیھۃ ''کے معنی یکایک اور یکبار گی کے ہیں، عرب کہتے ہیں ''بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ'' میں ایک معاملہ کولے کر اس کے پاس اچانک آیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب فِي كَلاَمِ النَّبِيِّ ﷺ
۹-باب: نبی اکرم ﷺ کی گفتگو کابیان​


3639- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ هَذَا وَلَكِنَّهُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلاَمٍ بَيْنَهُ فَصْلٌ يَحْفَظُهُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ الزُّهْرِيِّ.
* تخريج: د/الأدب ۲۱ (۴۸۳۹) (نحوہ) ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۳۹ (۴۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۰۶)، وحم (۶/۱۱۸، ۱۳۸) (حسن)
۳۶۳۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے بلکہ آپ ایسی گفتگو کرتے جس میں ٹھہراؤ ہوتاتھا، جو آپ کے پاس بیٹھا ہوتاوہ اسے یاد کر لیتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اسے یونس بن یزید نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔


3640- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُعِيدُ الْكَلِمَةَ ثَلاَثًا لِتُعْقَلَ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۷۲۳ (حسن صحیح)
۳۶۴۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ (بسا اوقات) ایک کلمہ تین بار دہراتے تھے تاکہ اسے (اچھی طرح) سمجھ لیاجائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، ہم اسے صرف عبداللہ بن مثنیٰ کی روایت سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب فِي بَشَاشَةِ النَّبِيِّ ﷺ
۱۰-باب: نبی اکرم ﷺ کی خوش روئی اورمسکراہٹ کابیان​


3641- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۳۴) (صحیح) (تراجع الألبانی ۶۰۲)
۳۶۴۱- عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مسکرانے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3642- وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ مِثْلُ هَذَا، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السَّيْلَحَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ قَالَ: مَا كَانَ ضَحِكُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلاَّ تَبَسُّمًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۴۲- عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ہنسی صرف مسکراہٹ ہوتی تھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسنی سند سے لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس لیے کہ قہقہہ معزز آدمی کے وقار کے خلاف ہے ، اور آپ سے بڑھ کر معززکون ہوگا؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-بَاب فِي خَاتَمِ النُّبُوَّةِ
۱۱-باب: مہر نبوت کابیان​


3643- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَال: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ بِرَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ، وَتَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ فَقُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ؛ فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ؛ فَإِذَا هُوَ مِثْلُ زِرِّ الْحَجَلَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: الزِّرُّ يُقَالُ بَيْضٌ لَهَا. وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ، وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَأَبِي رِمْثَةَ، وَبُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ، وَعَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الوضوء ۴۰ (۱۹۰)، والمناقب ۲۲ (۳۵۴۰، ۳۵۴۱)، والمرضی ۱۸ (۵۶۷۰)، والدعوات ۳۱ (۶۳۵۲)، م/الفضائل ۳۰ (۲۳۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۹۴) (صحیح)
۳۶۴۳- سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر گئیں ،انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرا بھانجہ بیمار ہے، تو آپ نے میرے سرپر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو کابچا ہوا پانی پی لیا، پھر میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا، اورمیں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی وہ چھپر کھٹ (کے پردے) کی گھنڈی کی طرح تھی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: کبوترکے انڈے کو زر کہاجاتاہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں سلمان، قرّہ بن ایاس مزنی ، جابر بن سمرہ، ابورمثہ ، بریدہ اسلمی ، عبداللہ بن سرجس، عمر و بن اخطب اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : پردوں اورجھالروں کے کنارے گول مٹول گھنڈی ہوا کرتے ہیں،ان کودوسرے کپڑے کے کناروں میں جوڑتے ہیں، یہی یہاں مراد ہے ۔
وضاحت ۲؎ : بعض علماء لغت نے ''زر الحجلۃ''کی تفسیر ایک معروف پرندہ چکورکے انڈہ سے کیا ہے ، وہی مؤلف بھی کہہ رہے ہیں، مگر جمہور اہل لغت نے اس کا انکارکیا ہے اس لفظ کہ ''رز الحجلۃ''سے حجلہ عروسی کی چاروں کی گھنڈی ہی مراد ہے ،ویسے مہرنبوت کے بارے میں اگلی حدیث میں ''کبوتری کے اندے کی مثال بھی آئی ہے ، دونوں تشبیہات میں کوئی تضادنہیں ہے ، ایک چیز کئی چیزوں کے مثل ہوسکتی ہے۔


3644- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَعْنِي الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْهِ غُدَّةً حَمْرَائَ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۱۴۲) (صحیح)
۳۶۴۴- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مہر نبوت یعنی جو آپ کے دونوں شانوں کے درمیان تھی کبوتر کے انڈے کے مانند سرخ رنگ کی ایک گلٹی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب فِي صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ
۱۲-باب: نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کابیان​


3645- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ فِي سَاقَيْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حُمُوشَةٌ وَكَانَ لايَضْحَكُ إِلاَّ تَبَسُّمًا وَكُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ قُلْتُ أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ وَلَيْسَ بِأَكْحَلَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۱۴۴) (ضعیف)
(سندمیں حجاج بن ارطاۃ کثیر الخطا والتدلیس راوی ہیں)
۳۶۴۵- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دونوں پنڈلیاں مناسب باریکی ۱؎ لیے ہوئے تھیں اور آپ کا ہنسنا صرف مسکرانا تھا، اور جب میں آپ کو دیکھتا تو کہتا کہ آپ آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے ہیں، حالانکہ آپ سرمہ نہیں لگائے ہوتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ کی پنڈلیاں اتنی بھی باریک نہیں تھیں کہ جسم کے دوسرے اعضاء سے بے جوڑ ہوگئی ہوں۔


3646- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ ضَلِيعَ الْفَمِ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ مَنْهُوشَ الْعَقِبِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفضائل ۲۷ (۲۳۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۸۳) (صحیح)
۳۶۴۶- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کا منہ کشادہ تھا، آپ کی آنکھ کے ڈورے سرخ تھے اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3647- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ضَلِيعَ الْفَمِ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ مَنْهُوشَ الْعَقِبِ. قَالَ: شُعْبَةُ قُلْتُ لِسِمَاكٍ: مَا ضَلِيعُ الْفَمِ، قَالَ: وَاسِعُ الْفَمِ قُلْتُ: مَا أَشْكَلُ الْعَيْنَيْنِ قَالَ: طَوِيلُ شَقِّ الْعَيْنِ قَالَ: قُلْتُ: مَا مَنْهُوشُ الْعَقِبِ قَالَ: قَلِيلُ اللَّحْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۴۷- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کشادہ منہ والے تھے، آپ کی آنکھ کے ڈورے سرخ اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے پوچھا :'' ضَلِيعُ الْفَمِ'' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: اس کے معنی کشادہ منہ کے ہیں، میں نے پوچھا '' اشکل العین '' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: اس کے معنی بڑی آنکھ والے کے ہیں،وہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: '' مَنْهُوشُ الْعَقِبِ'' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: کم گوشت کے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3648- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي يُونُسَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْهِهِ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مِشْيَتِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَأَنَّمَا الأَرْضُ تُطْوَى لَهُ إِنَّا لَنُجْهِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۷۱) (ضعیف)
(سندمیں ابن لھیعہ ضعیف راوی ہیں)
۳۶۴۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی کونہیں دیکھا، گویا آپ کے چہرہ پر سورج پھر رہا ہے، اور نہ میں نے کسی کو آپ سے زیادہ تیز رفتار دیکھا، گویا زمین آپ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی، ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں زحمت اٹھانی پڑتی تھی اور آپ کو ئی دقت محسوس کئے بغیر چلے جاتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


3649- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: عُرِضَ عَلَيَّ الأَنْبِيَائُ فَإِذَا مُوسَى ضَرْبٌ مِنَ الرِّجَالِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِذَا أَقْرَبُ النَّاسِ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا صَاحِبُكُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ، وَرَأَيْتُ جِبْرَائِيلُ؛ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا دِحْيَةُ هُوَ ابْنُ خَلِيفَةَ الْكَلْبِيُّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۴ (۱۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۲۹۲۰) (صحیح)
۳۶۴۹- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' انبیاء میرے سامنے پیش کئے گئے تو موسیٰ علیہ السلام ایک چھریرے جوان تھے ، گویا وہ قبیلہ شنوء ہ کے ایک فرد ہیں اور میں نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا تو میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان سے زیادہ مشابہت رکھنے والا تمہارا یہ ساتھی ہے ۱؎ ، اور اس سے مراد آپ خود اپنی ذات کو لیتے تھے، اور میں نے جبرئیل علیہ السلام کودیکھا تو جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے دحیہ کلبی ہیں، یہ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی خود نبی اکرم ﷺ ، اس میں آپ کے حلیہ کا بیان اس طرح ہے کہ آ پ شکل وصورت سے ابراہیم علیہ السلام سے مشابہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-بَاب فِي سِنِّ النَّبِيِّ ﷺ وَابْنُ كَمْ كَانَ حِينَ مَاتَ
۱۳-باب: وفات کے وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر کتنی تھی؟​


3650- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمَّارٌ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ.
* تخريج: م/الفضائل ۳۳ (۲۳۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۲۹۴) (شاذ)
(سند صحیح ہے ، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس بابت وہم ہوگیا تھا، وفات کے وقت صحیح عمر ۶۳سال ہے، دیکھیے ابن عباس ہی کا بیان حدیث رقم ۳۶۵۲ میں )
۳۶۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دیکھئے حاشیہ حدیث رقم : ۳۶۳۱۔


3651- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، حَدَّثَنَا عَمَّارٌ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنُ الإِسْنَادِ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (شاذ)
۳۶۵۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی اکر م ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


3652- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَكَثَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَكَّةَ ثَلاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يَعْنِي يُوحَى إِلَيْهِ، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَدَغْفَلِ بْنِ حَنْظَلَةَ، وَلا يَصِحُّ لِدَغْفَلٍ سَمَاعٌ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلا رُؤْيَةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۵ (۳۹۰۳)، م/الفضائل ۳۳ (۳۳۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۳۰۰) (صحیح)
۳۶۵۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ (۱۳) سال رہے یعنی آپ پر تیرہ سال تک وحی کی جاتی رہی اور آپ کی وفات ترسٹھ (۶۳) سال کی عمر میں ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث عمر وبن دینار کی روایت سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، انس اور دغفل بن حنظلہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اور دغفل کا نبی اکرم ﷺ سے نہ تو سماع صحیح ہے اورنہ ہی رؤیت۔


3653- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَخْطُبُ يَقُولُ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفضائل ۳۳ (۲۳۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۰۲) (صحیح)
۳۶۵۳- جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی توآپ ترسٹھ سال کے تھے اور ابوبکر اور عمر بھی ترسٹھ سال کے تھے اور میں بھی(اس وقت) ترسٹھ سال کاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3654- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أُخْبِرْتُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ فِي حَدِيثِهِ: ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَسِتِّينَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ هَذَا.
* تخريج: خ/المناقب ۱۹ (۳۵۳۶)، والمغازي ۸۵ (۴۴۶۶)، م/الفضائل ۳۳ (۲۳۵۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۳۲) (صحیح)
۳۶۵۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ سال کے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اور اسے زہری کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن مسلم ) نے بھی زہری سے اور زہری نے عروہ کے واسطہ سے عائشہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَنَاقِبِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۱۴-باب: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3655- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خِلِّهِ، وَلَوْكُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلاً، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۳)، ق/المقدمۃ ۱۱ (۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۵۱۳)، وحم (۱/۳۷۷، ۳۸۹، ۳۹۵) (صحیح)
۳۶۵۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں ہرخلیل کی خلت( دوستی) سے بری ہوں اور اگر میں کسی کوخلیل (دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو ، یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا، اور تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری ، ابوہریرہ، ابن زبیر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ''خُلّت ''دوستی کی ایک خاص حالت ہے جس کے معنی ہیں دوست کی دوستی کا دل میں رچ بس جانا، یہ ''محبت ''سے اعلی وارفع حالت ہے، اسی لیے آپ ﷺیاابراہیم علیہ السلام نے یہ مقام صرف اللہ تعالیٰ کو دیا ہے ، رہی محبت کی بات تو آپ کوسارے صحابہ ، صدیقین وصالحین سے محبت ہے ، اورصحابہ میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے افضل ہے ،حتی کہ ممکن ہوتا تو آپ ابوبکرکو''خلیل''بنالیتے ، یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت پردلالت کررہی ہے۔


3656- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بهذا الاختصار وهو في سياق طويل في حديث ثقيفة بني ساعدة وبيعة أبي بكر في البخاري (فضائل الصحابۃ ۵ برقم :3667، 3668) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۷۸) (صحیح)
۳۶۵۶- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں اوروہ ہم میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔


3657- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَيُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: عُمَرُ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: ثُمَّ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: فَسَكَتَتْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱۲) (صحیح)
(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر ( ۳۷۵۸، نیز ۳۶۶۷)
۳۶۵۷- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : صحابہ میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ، میں نے پوچھا : پھر کون؟ انہوں نے کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: پھر ابوعبیدہ بن جراح ، میں نے پوچھا :پھرکون ؟ تو وہ خاموش رہیں ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحابہ کے فضائل ومناقب کے مختلف اسباب ہیں، منجملہ سبب تو سب کا صحابی رسول ہوناہے ، اورالگ سبب یہ ہے کہ کسی کی فضیلت اسلام میں تقدم کی وجہ سے ہے ، کسی کی اللہ ورسول سے ازحدفدائیت کی وجہ سے ہے ، اورکسی سے کسی بات میں بڑھے ہو نے کی وجہ سے ہے ، اورکسی کی فضیلت دوسرے کی فضیلت کے منافی نہیں ہے،اور اس حدیث میں جو عثمان وعلی رضی اللہ عنہما کا تذکرہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ان دونوں کا مقام نہیں بلکہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کاہے ، مگراحادیث میں یہ ترتیب ثابت ہے ،کہ ابوبکرکے بعد عمران کے بعد عثمان اوران کے بعد علی، پھران کے بعدعشرئہ مبشرہ، پھرعام صحابہ کا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔


3658- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، وَالأَعْمَشِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَهْبَانَ، وَابْنِ أَبِي لَيْلَى وَكَثِيرٍ النَّوَّائِ كُلِّهِمْ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ أَهْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى لَيَرَاهُمْ مَنْ تَحْتَهُمْ كَمَا تَرَوْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فِي أُفُقِ السَّمَائِ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْهُمْ وَأَنْعَمَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۹۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۲، و۴۲۰۶، و۴۲۱۲، و۴۲۳۳، ۴۲۳۷) (صحیح)
۳۶۵۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بلند درجات والوں کو(جنت میں) جوان کے نیچے ہوں گے، ایسے ہی دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے افق پر طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما دونوں انہیں میں سے ہوں گے اور کیا ہی خوب ہیں دونوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ، یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عطیہ کے واسطہ سے ابوسعیدخدری سے آئی ہے۔
 
Top