218- بَاب مَا جَاءَ فِي قِرَائَةِ اللَّيْلِ
۲۱۸-باب: قیام اللیل (تہجد) میں قرأت کا بیان
447- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ هُوَ السَّالَحِينِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ:"مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَخْفِضُ مِنْ صَوْتِكَ"، فَقَالَ: إِنِّي أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ، قَالَ:"ارْفَعْ قَلِيلاً"، وَقَالَ لِعُمَرَ:"مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَرْفَعُ صَوْتَكَ" قَالَ: إِنِّي أُوقِظُ الْوَسْنَانَ، وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ، قَالَ:"اخْفِضْ قَلِيلاً". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ إِنَّمَا رَوَوْا هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ مُرْسَلاً.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۱۵ (۱۳۲۹)، (تحفۃ الأشراف : ۱۲۰۸۸)، حم (۱/۱۰۹) (صحیح)
۴۴۷- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ''میں (تہجدکے وقت) تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آوازکچھ دھیمی تھی؟'' کہا:میں توصرف اسے سنارہاتھا جس سے میں مناجات کررہاتھا ۔ (یعنی اللہ کو)آپ نے فرمایا:''اپنی آواز کچھ بلند کرلیاکرو''، اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' میں تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آواز بہت اونچی تھی؟''، کہا: میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگارہاتھا۔ آپ نے فرمایا: ''تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلیا کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ام ہانی، انس، ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسے یحییٰ بن اسحاق نے حمادبن سلمہ سے مسندکیا ہے اورزیادہ ترلوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اورثابت نے عبداللہ بن رباح سے مرسلاًروایت کی ہے۔(یعنی:ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کاذکرنہیں کیاہے)
448- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ لَيْلَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۰۲) (صحیح الإسناد)
۴۴۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک رات قرآن کی صرف ایک ہی آیت کھڑے پڑھتے رہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی:تہجدکی ساری رکعتوں میں صرف یہی ایک آیت دھرادھراکرپڑھتے رہے۔اوروہ آیت کریمہ یہ تھی:
{إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [سورة المائدة:](رواہ النسائی وابن ماجہ) ، اے رب کریم! اگرتو ان (میرے امت کے اہلِ ایمان ، مسلمانوں) کو عذاب دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں، (سزادیتے وقت بھی ان پر رحم فرمادینا) اوراگرتو ان کو بخش دے گا تو بلاشبہ تونہایت غلبے والا اور دانائی والا ہے)
449- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ قِرَائَةُ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ، أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَائَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ فَقَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، رُبَّمَا أَسَرَّ بِالْقِرَائَةِ، وَرُبَّمَا جَهَرَ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الأَمْرِ سَعَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الحیض ۶ (۳۰۷)، د/الصلاۃ ۳۴۳ (۱۴۳۷)، ن/قیام اللیل ۲۳ (۱۶۶۳)، (التحفہ: ۱۶۲۹۷)، حم (۶/۱۴۹)، ویاتي عند المؤلف في ثواب القرآن ۲۳ (برقم: ۲۹۲۴) (صحیح)
۴۴۹- عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رات میں نبی اکرمﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے ؟ کہا:آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے، کبھی سرّی پڑھتے تھے اورکبھی جہری، تومیں نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔