• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
214- بَاب مِنْهُ
۲۱۴-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


442- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ اسْمُهُ: نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ الضُّبَعِيُّ.
* تخريج: خ/التہجد ۱۰ (۱۱۳۸)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۲۵) (صحیح)
۴۴۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوحمزہ ضبعی کانام نصر بن عمران ضبعی ہے۔
وضاحت ۱؎ : پیچھے حدیث رقم ۴۳۹میں گزراکہ آپ رمضان یاغیررمضان میں تہجدگیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، اور اس حدیث میں تیرہ پڑھنے کاتذکرہ ہے ، تو کسی نے ان تیرہ میں عشاء کی دوسنتوں کو شمارکیاہے کہ کبھی تاخیرکر کے ان کو تہجد کے ساتھ ملاکرپڑھتے تھے، اور کسی نے یہ کہا ہے کہ اس میں فجرکی دوسنتیں شامل ہیں،کسی کسی روایت میں ایساتذکرہ بھی ہے ،یا ممکن ہے کہ کبھی گیارہ پڑھتے ہوں اورکبھی تیرہ بھی ، جس نے جیسادیکھابیان کردیا ، لیکن تیرہ سے زیادہ کی کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
215- بَاب مِنْهُ
۲۱۵-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


443- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۸۱ (۱۳۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۵۱)، حم (۶/۳۰، ۱۰۰) (صحیح)
۴۴۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ رات کو نورکعتیں پڑھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، زید بن خالد اورفضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ایسا کبھی کبھی کرتے تھے، یہ سب نشاط اورچستی پر منحصرتھا،اس بابت یہ نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں میں تعارض ہے۔


444- وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ الأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الأَعْمَشِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَكْثَرُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، وَأَقَلُّ مَا وُصِفَ مِنْ صَلاَتِهِ بِاللَّيْلِ تِسْعُ رَكَعَاتٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۴۴- سفیان ثوری نے بھی یہ حدیث اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے، ہم سے اسے محمود بن غیلان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا اور انہوں نے سفیان سے اور سفیان نے اعمش سے روایت کی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: رات کی صلاۃ کے سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے زیادہ سے زیادہ وتر کے ساتھ تیرہ رکعتیں مروی ہیں، اورکم سے کم نورکعتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
216- بَاب إِذَا نَامَ عَنْ صَلاَتِهِ بِاللَّيْلِ صَلَّى بِالنَّهَارِ
۲۱۶-باب: تہجد پڑھے بغیر سوجائے تو اُسے دن میں پڑھنے کا بیان​


445- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُصَلِّ مِنْ اللَّيْلِ، مَنَعَهُ مِنْ ذَلِكَ النَّوْمُ أَوْ غَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ: صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَعْدُ بْنُ هِشَامٍ هُوَ ابْنُ عَامِرٍ الأَنْصَارِيُّ، وَهِشَامُ بْنُ عَامِرٍ هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: م/المسافرین ۷۱ (۷۴۶)، د/الصلاۃ ۳۱۶ (۱۳۴۲)، (فی سیاق طویل)، ن/قیام اللیل ۲ (۱۶۰۲)، (في سیاق طویل)، و۶۴ (۱۷۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۵)، حم (۶/۵۴) في سیاق طویل) (صحیح)
445/م- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ -هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ- حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: كَانَ زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى قَاضِيَ الْبَصْرَةِ، وَكَانَ يَؤُمُّ فِي بَنِي قُشَيْرٍ، فَقَرَأَ يَوْمًا فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ: {فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ} خَرَّ مَيِّتًا، فَكُنْتُ فِيمَنْ احْتَمَلَهُ إِلَى دَارِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (حسن الإسناد)
۴۴۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺجب راتمیں تہجدنہیں پڑھ پاتے تھے اور نینداس میں رکاوٹ بن جاتی یا آپ پر نیندکا غلبہ ہوجاتا تو دن میں(اس کے بدلہ میں) بارہ رکعتیں پڑھتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- سعد بن ہشام ہی ابن عامر انصاری ہیں اور ہشام بن عامر نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ہیں۔بہز بن حکیم سے روایت ہے کہ زرارہ بن اوفیٰ بصرہ کے قاضی تھے۔ وہ بنی قشیر کی امامت کرتے تھے،انہوں نے ایک دن فجر میں آیت کریمہ {فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ} (جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن سخت دن ہوگا)پڑھی تووہ بے ہوش ہوکر گرپڑے اور مرگئے۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھاجو انہیں اٹھاکر ان کے گھر لے گئے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:جس کی رات کی نفل( صلاۃِتہجد)قضاہوجائے ، اوروہ انہیں طلوع فجر اور ظہرکے بیچ پڑھ لے توغافلوں میں نہیں لکھاجائے گا ،شایدبارہ کبھی اس لیے پڑھی ہوگی کہ وتراس رات عشاء کے بعدہی پڑھ چکے ہوں گے ، اوروتر دوبارنہیں پڑھی جاتی، یاجس رات میں یہ اندازہ ہوتاکہ پوری گیارہ رکعتیں آج نہیں پڑھ پاوں گا اس رات وتررات ہی پڑھ لیتے ہوں گے یا یہ ہے کہ آپ ﷺ جب دن کے وقت بارہ رکعت پڑھتے تھے تو وترکو جُفت کرلیتے ہوں گے، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
217- بَاب مَا جَاءَ فِي نُزُولِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ
۲۱۷-باب: اللہ عزوجل کے ہر رات آسمان دنیا پراترنے کا بیان​


446- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الإِسْكَنْدَرَانِيُّ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ:"يَنْزِلُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ حِينَ يَمْضِي ثُلُثُ اللَّيْلِ الأَوَّلُ، فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ: مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ، فَلاَيَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يُضِيئَ الْفَجْرُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَرِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي الدَّرْدَائِ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ:"يَنْزِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ". وَهُوَ أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ.
* تخريج: خ/التہجد ۱۴ (۱۱۴۵)، والدعوات ۱۴ (۶۳۲۱)، والتوحید ۳۵ (۷۴۹۴)، م/المسافرین ۲۴ (۷۵۸)، د/الصلاۃ ۳۱۱ (۱۳۱۵)، والسنۃ ۲۱ (۴۷۳۳)، ق/الإقامۃ ۱۸۲ (۱۳۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۷)، ط/القرآن ۱۸ (۳۰)، حم (۲/۲۶۴، ۲۶۷، ۲۸۲، ۴۱۹، ۴۸۷)(عند الأکثر ''الآخیر'') (صحیح)
۴۴۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ ہررات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے ۱؎ آسمان دنیا پراترتا ہے ۲؎ اورکہتا ہے: میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی پکار سنوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں ، کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اسے معاف کردوں۔ وہ برابراسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہوجاتی ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں علی بن ابی طالب، ابوسعید ، رفاعہ جہنی ، جبیر بن مطعم، ابن مسعود ، ابودرداء اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے نبی اکرمﷺ مروی ہے، ۴- نیزآپ سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب وقت رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتاہے اترتا ہے ، اور یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : آگے مولف بیان کررہے ہیں : صحیح بات یہ ہے کہ ''ایک تہائی رات گزرنے پر نہیں، بلکہ ایک تہائی رات باقی رہ جانے پر اللہ نزول فرماتے ہیں''۔ (مؤلف کے سوا دیگر کے نزدیک ''الآخر'' ہی ہے)
وضاحت ۲؎ : اس سے اللہ عزوجل کا جیسے اُس کی ذاتِ اقدس کو لائق ہے آسمان دنیاپر ہر رات کو نزول فرمانا ثابت ہوتا ہے ، اورحقیقی اہل السنہ والجماعہ ، سلف صالحین اللہ تبارک وتعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کیا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
218- بَاب مَا جَاءَ فِي قِرَائَةِ اللَّيْلِ
۲۱۸-باب: قیام اللیل (تہجد) میں قرأت کا بیان​


447- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ هُوَ السَّالَحِينِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ:"مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَخْفِضُ مِنْ صَوْتِكَ"، فَقَالَ: إِنِّي أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ، قَالَ:"ارْفَعْ قَلِيلاً"، وَقَالَ لِعُمَرَ:"مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَرْفَعُ صَوْتَكَ" قَالَ: إِنِّي أُوقِظُ الْوَسْنَانَ، وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ، قَالَ:"اخْفِضْ قَلِيلاً". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ إِنَّمَا رَوَوْا هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ مُرْسَلاً.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۱۵ (۱۳۲۹)، (تحفۃ الأشراف : ۱۲۰۸۸)، حم (۱/۱۰۹) (صحیح)
۴۴۷- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ''میں (تہجدکے وقت) تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آوازکچھ دھیمی تھی؟'' کہا:میں توصرف اسے سنارہاتھا جس سے میں مناجات کررہاتھا ۔ (یعنی اللہ کو)آپ نے فرمایا:''اپنی آواز کچھ بلند کرلیاکرو''، اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:'' میں تمہارے پاس سے گزرا، تم قرآن پڑھ رہے تھے، تمہاری آواز بہت اونچی تھی؟''، کہا: میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگارہاتھا۔ آپ نے فرمایا: ''تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلیا کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ام ہانی، انس، ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسے یحییٰ بن اسحاق نے حمادبن سلمہ سے مسندکیا ہے اورزیادہ ترلوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اورثابت نے عبداللہ بن رباح سے مرسلاًروایت کی ہے۔(یعنی:ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کاذکرنہیں کیاہے)


448- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ لَيْلَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۰۲) (صحیح الإسناد)
۴۴۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک رات قرآن کی صرف ایک ہی آیت کھڑے پڑھتے رہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی:تہجدکی ساری رکعتوں میں صرف یہی ایک آیت دھرادھراکرپڑھتے رہے۔اوروہ آیت کریمہ یہ تھی: {إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [سورة المائدة:](رواہ النسائی وابن ماجہ) ، اے رب کریم! اگرتو ان (میرے امت کے اہلِ ایمان ، مسلمانوں) کو عذاب دے گا تو وہ تیرے بندے ہیں، (سزادیتے وقت بھی ان پر رحم فرمادینا) اوراگرتو ان کو بخش دے گا تو بلاشبہ تونہایت غلبے والا اور دانائی والا ہے)


449- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ قِرَائَةُ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ، أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَائَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ فَقَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، رُبَّمَا أَسَرَّ بِالْقِرَائَةِ، وَرُبَّمَا جَهَرَ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الأَمْرِ سَعَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الحیض ۶ (۳۰۷)، د/الصلاۃ ۳۴۳ (۱۴۳۷)، ن/قیام اللیل ۲۳ (۱۶۶۳)، (التحفہ: ۱۶۲۹۷)، حم (۶/۱۴۹)، ویاتي عند المؤلف في ثواب القرآن ۲۳ (برقم: ۲۹۲۴) (صحیح)
۴۴۹- عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رات میں نبی اکرمﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے ؟ کہا:آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے، کبھی سرّی پڑھتے تھے اورکبھی جہری، تومیں نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
219- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ صَلاَةِ التَّطَوُّعِ فِي الْبَيْتِ
۲۱۹-باب: نفل صلاۃ گھر میں پڑھنے کی فضیلت کا بیان​


450- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"أَفْضَلُ صَلاَتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ سَعْدٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ: فَرَوَى مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَرْفُوعًا. وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ، وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/الأذان ۸۱ (۷۳۱)، والأدب ۷۵ (۶۱۱۳)، والاعتصام ۳ (۷۲۹۰)، م/المسافرین ۲۹ (۷۸۱)، د/الصلاۃ ۲۰۵ (۱۰۴۴)، و۳۴۶ (۱۴۴۷)، ن/قیام اللیل ۱ (۱۶۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۸)، ط/الجماعۃ ۱ (۴)، حم (۵/۱۸۲، ۱۸۴، ۱۸۶، ۱۸۷)، دي/الصلاۃ ۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
۴۵۰- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تمہاری صلاۃ میں سب سے افضل صلاۃ وہ ہے جسے تم اپنے گھر میں پڑھتے ہو، سوائے فرض کے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عمربن خطاب ، جابر بن عبداللہ، ابوسعید ، ابوہریرہ، ابن عمر، عائشہ ، عبداللہ بن سعد، اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم میں اس حدیث کی روایت میں اختلاف ہے،موسیٰ بن عقبہ اور ابراہیم بن ابی نضردونوں نے اسے ابو نضر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ نیزاسے مالک بن انس نے بھی ابونضرسے روایت کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،اور بعض اہل علم نے اسے موقوف قراردیا ہے جب کہ حدیث مرفوع زیادہ صحیح ہے ۔


451- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۵۲ (۴۳۲)، والتہجد ۳۷ (۱۱۸۷)، م/المسافرین ۲۹ (۷۷۷)، د/الصلاۃ ۲۰۵ (۱۰۴۳)، و۳۴۶ (۴۸ ۱۴)، ن/قیام اللیل ۱ (۱۵۹۹)، ق/الإقامۃ ۱۸۶ (۱۳۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۱۰)، وکذا (۸۱۴۲)، حم (۲/۶، ۱۶، ۱۲۳) (صحیح)
۴۵۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تم اپنے گھروں میں صلاۃ پڑھو ۱؎ اور انہیں قبرستان نہ بناؤ'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد نوافل اورسنن ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام ہوتا ہے وہ قبرستان کی طرح نہیں ہیں، اورجن گھروں میں نوافل وغیرہ کااہتمام نہیں کیاجاتاوہ قبرستان کے مثل ہیں،جس طرح قبریں عمل اورعبادت سے خالی ہوتی ہیں ایسے گھر بھی عمل وعبادت سے محروم قبرستان کے ہوتے ہیں۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

3-أَبْوَابُ الْوِتْرِ
۳- صلاۃِ وترکے ابواب​

1-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْوِتْرِ
۱-باب: صلاۃِ وترکی فضیلت کا بیان​


452- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ:"إِنَّ اللهَ أَمَدَّكُمْ بِصَلاَةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ: الْوِتْرُ، جَعَلَهُ اللهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ ،لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ. وَقَدْ وَهِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَهُوَ وَهَمٌ فِي هَذَا. وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُهُ: حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ، وَلاَيَصِحُّ. وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۳۶ (۱۴۱۸)، ق/الإقامۃ ۱۱۴ (۱۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۵۰)، دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۱۷) (صحیح) ''ہی خیر من حمر النعم'')
کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی ''عبداللہ بن راشد ''مجہول ہیں، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات وشواہد موجودہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی۴۶۶)
۴۵۲- خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ(حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی صلاۃ کا اضافہ کیا ہے ۱؎ ، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہترہے ، وہ وترہے ، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے صلاۃِعشاء سے لے کر فجرکے طلوع ہونے تک رکھاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- بعض محدثین کواس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشدزرقی کہاہے، یہ وہم ہے (صحیح ''زوفی''ہے) ۳- اس باب میں ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ ،اور ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- ابوبصرہ غفاری کانام حُمیل بن بصرہ ہے،اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابوبصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جوابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اوروہ ابوذرکے بھتیجے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ایک روایت میں '' زادكم'' کا لفظ بھی آیا ہے، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے، کیوں کہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے، تو جب پانچ وقتوں کی صلاۃ واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ '' ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی صلاۃ فرض کی ہے؟ تورسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ نہیں، نیز ''مزید'' کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے، (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : تحفۃالأحوذی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ
۲-باب: وترکے فرض نہ ہونے کا بیان​


453- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلاَتِكُمْ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَقَالَ:"إِنَّ اللهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ، فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ !". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ ،وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۳۶ (۱۴۱۶)، (الشطر الأخیر فحسب)، ن/قیام اللیل ۲۷ (۱۶۷۷)، ق/الإقامۃ ۱۱۴ (۱۱۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۵)، حم (۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۵، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۴۸)، دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۲۱) (صحیح)
(سندمیں ''ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدر ے کلام ہے ، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے)
۴۵۳ - علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وترتمہاری فرض صلاۃ کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎ ، بلکہ رسول اللہﷺ نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر(طاق) ۲؎ ہے اوروترکو پسند کرتاہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وترفرض اورلازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : اللہ وتر(طاق )ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اورافعال میں یکتاہے اس کا کو ئی ثانی نہیں،صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وترکہا جاتاہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عددمیں اداکی جاتی ہے اسے جفت اعدادمیں پڑھنا جائزنہیں۔
وضاحت ۳؎ : صحابہء کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرمﷺ نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکاراورشریعت قرآن وحدیث دونوں کے مجموعے کانام ہے،نہ کہ صرف قرآن کا،جیساکہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے ، حدیث کا منکرہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیرنہ توقرآن کو سمجھاجاسکتا ہے اورنہ اس پر عمل کیا جاسکتاہے۔


454- وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ. وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ: نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۵۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہﷺ کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق أبی اسحاق عن عاصم بن حمزۃ عن علی روایت کیاہے ۱؎ اوریہ روایت ابوبکربن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اوراسے منصوربن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْمِ قَبْلَ الْوِتْرِ
۳-باب: وتر سے پہلے سونے کی کراہت کا بیان​


455- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عِيسَى ابْنِ أَبِي عَزَّةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي ثَوْرٍ الأَزْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ. قَالَ عِيسَى بْنُ أَبِي عَزَّةَ: وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُوتِرُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَأَبُو ثَوْرٍ الأَزْدِيُّ اسْمُهُ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ. وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ لاَ يَنَامَ الرَّجُلُ حَتَّى يُوتِرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۷۱) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ ابوثور ازدی لین الحدیث ہیں، ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داود : ۱۱۸۷)


455/م- وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَال:"مَنْ خَشِيَ مِنْكُمْ أَنْ لاَ يَسْتَيْقِظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، فَلْيُوتِرْ مِنْ أَوَّلِهِ، وَمَنْ طَمِعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّ قِرَائَةَ الْقُرْآنِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ، وَهِيَ أَفْضَلُ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۱ (۷۵۵)، ق/الإقامۃ ۱۲۰ (۱۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۷)، حم (۳/۳۱۵، ۳۳۷) (صحیح)
۴۵۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کواختیار کیاہے کہ آدمی جب تک وترنہ پڑھ لے نہ سوئے۔
۴۵۵/م- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے جسے اندیشہ ہوکہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا ، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتاہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وترپڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ افضل وقت ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَآخِرِهِ
۴-باب: رات کے ابتدائی اور آخری دونوں حصّوں میں وترپڑھا جاسکتا ہے​


456- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ : أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ فَقَالَتْ: مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ: أَوَّلَهُ وَأَوْسَطَهُ وَآخِرَهُ، فَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ إِلَى السَّحَرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِيُّ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، وَأَبِي قَتَادَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ.
* تخريج: خ/الوتر ۲ (۹۹۲)، م/المسافرین ۱۷ (۷۴۵)، د/الصلاۃ ۳۴۳ (۱۴۳۵)، ق/الإقامۃ ۱۲۱ (۱۱۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۵۳)، حم (۶/۴۶، ۱۰، ۱۰۷، ۱۲۹، ۲۰۴، ۲۰۵)، دي/الصلاۃ ۲۱۱ (۱۶۲۸) (صحیح)
۴۵۶- مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا، توانہوں نے کہا: آپﷺ نے رات کے ہرحصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی توآپ کا وترسحرتک پہنچ گیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں حدیثوں اوراس باب میں مروی دیگرحدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پرمنحصرہے ، وہ جب آخری پہررات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتاہوتو عشاء کے بعدیا سونے سے پہلے ہی وترنہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے ، اوراگراس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے، اس مسئلہ میں ہرطرح کی گنجائش ہے۔
 
Top