• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي مُبَادَرَةِ الصُّبْحِ بِالْوِتْرِ
۱۲-باب: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان​


467- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۰ (۷۵۰)، د/الصلاۃ ۳۴۳ (۱۴۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۲)، حم (۲/۳۷، ۳۸) (صحیح)
۴۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ''صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکرو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وترکاوقت طلوع فجرسے پہلے تک ہے جب فجرطلوع ہوگئی تو ادائیگی وترکاوقت نکل گیا۔


468- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا ".
* تخريج: م/المسافرین ۲۰ (۷۵۴)، ن/قیام اللیل ۳۱ (۱۶۸۴، ۱۶۸۵)، ق/الإقامۃ ۱۲۲ (۱۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۸۴)، حم (۳/۱۳، ۳۵، ۳۷، ۷۱)، دي/الصلاۃ ۲۱۱ (۱۶۲۹) (صحیح)
۴۶۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکرو''۔


469- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَهَبَ كُلُّ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ، فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ. وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"لاَ وِتْرَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ". وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: لاَ يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۶۷۳) (صحیح)
۴۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جب فجر طلوع ہوگئی تو تہجد(قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہوگیا، لہذا فجرکے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفردہیں، ۲- نیزنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: فجر کے بعد وتر نہیں، ۳- بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں: یہ لوگ صلاۃِفجر کے بعد وتر پڑھنے کودرست نہیں سمجھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزراکہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وترکی قضاء کے قائل ہیں ، اوریہی راجح مسلک ہے ، کیونکہ اگروترنہیں پڑھی تو سنن ونوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہوپائیں گی، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الضُّحَى
۱۵-باب: صلاۃ الضحی( چاشت کی صلاۃ) کا بیان​


473- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ فُلاَنِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَمِّهِ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: <مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ>. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۸۷ (۱۳۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۵) (ضعیف)
(سندمیں موسیٰ بن فلان بن انس مجہول راوی ہے)
۴۷۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیرفرمائے گا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں ام ہانی، ابوہریرہ، نعیم بن ہماّر، ابوذر، عائشہ ، ابوامامہ، عتبہ بن عبدسُلمی، ابن ابی اوفیٰ، ابوسعیدخدری ، زید بن ارقم اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سیاق ولفظ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ نفس چاشت کی صلاۃ، آگے والی حدیث صحیح ہے جس سے آٹھ رکعت چاشت کی صلاۃ کا ثبوت ملتاہے۔


474-حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي الضُّحَى إِلاَّ أُمَّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَاغْتَسَلَ فَسَبَّحَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، مَا رَأَيْتُهُ صَلَّى صَلاَةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَكَأَنَّ أَحْمَدَ رَأَى أَصَحَّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَ أُمِّ هَانِئٍ. وَاخْتَلَفُوا فِي نُعَيْمٍ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نُعَيْمُ بْنُ خَمَّارٍ، و قَالَ بَعْضُهُمْ: ابْنُ هَمَّارٍ، وَيُقَالُ ابْنُ هَبَّارٍ وَيُقَالُ ابْنُ هَمَّامٍ وَالصَّحِيحُ ابْنُ هَمَّارٍ. وَأَبُو نُعَيْمٍ وَهِمَ فِيهِ فَقَالَ"ابْنُ حِمَازٍ" وَأَخْطَأَ فِيهِ، ثُمَّ تَرَكَ فَقَالَ:"نُعَيْمٌ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ". قَالَ أَبُو عِيسَى: و أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱۲ (۱۱۰۳)، والتہجد ۳۱ (۱۱۷۶)، والمغازی ۵۰ (۴۲۹۲)، م/المسافرین ۱۳ (۸۰/۳۳۶)، د/الصلاۃ ۳۰۱ (۱۲۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۰۷)، حم (۶/۳۴۲-۳۴۳)، دي/الصلاۃ ۱۵۱ (۱۴۹۳)، وانظر أیضا: خ/الغسل ۲۱ (۲۸۰)، والصلاۃ ۴ (۳۵۷)، الجزیۃ ۹ (۳۱۷۱)، والأدب ۹۴ (۶۱۵۸)، ون/الطہارۃ ۱۴۳ (۲۲۶)، والغسل ۱۱ (۴۱۵)، وق/الطہارۃ ۵۹ (۴۶۵)، والإقامۃ ۱۸۷ (۱۳۲۳)، وط/قصر الصلاۃ ۸ (۲۸)، وحم (۶/۳۴۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵) (صحیح)
۴۷۴- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ام ہانی رضی اللہ عنہا نے خبردی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو چاشت کی صلاۃ پڑھتے دیکھاہے، ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ کونہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی صلاۃ کبھی پڑھی ہو، البتہ آپ رکوع اورسجدے پورے پورے کررہے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔


475- حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ السِّمْنَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ أَوْ أَبِي ذَرٍّ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ:"عَنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّهُ قَالَ: ابْنَ آدَمَ، ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَكْفِكَ آخِرَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۲۷) و۱۱۹۰۴) (صحیح)
۴۷۵- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ یا أبوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے ابن آدم ! تم دن کے شروع میں میری رضاکے لیے چار رکعتیں پڑھاکرو، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


476- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَةِ الضُّحَى غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، وَلاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِهِ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۸۷ (۱۳۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۱) (ضعیف)
(سندمیں نہاس بن قہم ضعیف راوی ہے)
۴۷۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی، اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے ،اگرچہ وہ سمند ر کے جھاگ کے برابرہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع، نضربن شمیل اوردوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہاس بن قہم سے روایت کی ہے۔ اور ہم نہاس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔


477- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ:"كَانَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ يُصَلِّي الضُّحَى حَتَّى نَقُولَ: لاَيَدَعُ، وَيَدَعُهَا حَتَّى نَقُولَ لاَ يُصَلِّي". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۲۷) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے)
۴۷۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ چاشت کی صلاۃ پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے، اور آپ اسے چھوڑدیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عِنْدَ الزَّوَالِ
۱۶-باب: زوال (سورج ڈھلنے ) کے وقت کی صلاۃ کا بیان​


478-حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ ابْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ، هُوَ أَبُو سَعِيدٍ الْمُؤَدِّبُ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ السَّائِبِ:"أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَقَالَ إِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيهَا عَمَلٌ صَالِحٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ السَّائِبِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ:"أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الزَّوَالِ لاَ يُسَلِّمُ إِلاَّ فِي آخِرِهِنَّ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۱۸)، وانظر: حم (۳/۴۱۱) (صحیح)
۴۷۸- عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اورفرماتے: ''یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور میں چاہتاہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں علی اور ابوایوب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہوسکتا ہے کہ یہ ظہر سے پہلے والی چار رکعت سنت مؤکدہ ہی ہوں، کسی نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ دونوں الگ الگ صلاتیں ہیں یا دونوں ایک ہی ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث ابوداوداورابن ماجہ نے روایت کی ہے اوراس میں ''آخرمیں سلام پھیرنے ولا''ٹکڑاضعیف ہے (دیکھئے صحیح ابوداود۱۱۵۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْحَاجَةِ
۱۷-باب: صلاۃ الحاجہ کا بیان​


479- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، وحَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُنِيرٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بَكْرٍ، عَنْ فَائِدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللهِ، وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، ثُمَّ لِيَقُلْ: لاَإِلَهَ إِلاَّ اللهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لاَ تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ، وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ، وَلاَ حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَيْتَهَا، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. فَائِدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَفَائِدٌ هُوَ <أَبُو الْوَرْقَائِ>.
* تخريج: ق/الإقازہ ۱۸۹ (۱۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۸) (ضعیف جداً)
(سندمیں فائد بن عبدالرحمن سخت ضعیف راوی ہے)
۴۷۹- عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ' 'جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یابنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہوتو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے ، پھر دورکعتیں اداکرے، پھر اللہ کی حمد وثنا بیان کرے اورنبی اکرمﷺ پر صلاۃ(درود) وسلام بھیجے ، پھر کہے:''لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لاَ تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ، وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ، وَلاَ حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَيْتَهَا، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ '' (اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ،وہ حلیم( بردبار) ہے، کریم (بزرگی والا)ہے،پاک ہے اللہ جوعرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین( سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کوواجب کرنے والی چیزوں کااورتیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتاہوں، اورہرنیکی میں سے حصہ پانے کااور ہرگناہ سے سلامتی کاسوال کرتاہوں، اے ارحم الراحمین !تومیراکوئی گناہ باقی نہ چھوڑمگرتواسے بخش دے اورنہ کوئی غم چھوڑ،مگر تو اُسے دور فرمادے اورنہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑجس میں تیری خوشنودی ہومگرتواُسے پوری فرمادے)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند میں کلام ہے، فائدبن عبدالرحمن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قراردیا جاتاہے، اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الاِسْتِخَارَةِ
۱۸-باب: صلاۃِ استخارہ کا بیان​


480- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُعَلِّمُنَا الاِسْتِخَارَةَ فِي الأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ:"إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَأَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ-: فَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي،أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ-: فَاصْرِفْهُ عَنِّي، وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ". قَالَ:"وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي الْمَوَالِي. وَهُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ حَدِيثًا، وَقَدْ رَوَى عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ. وَهُوَ <عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي>.
* تخريج: خ/التہجد ۲۵ (۱۱۶۲)، والدعوات ۴۸ (۸۳۶۲)، التوحید ۱۰ (۷۳۹۰)، د/الصلاۃ ۳۶۶ (۱۵۳۸)، ن/النکاح ۲۷ (۳۲۵۵)، ق/الإقامۃ ۱۸۸ (۱۳۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۵۵)، حم (۳/۳۴۴) (صحیح)
۴۸۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: '' تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دورکعت پڑھے، پھر کہے: ''اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي''، یاکہے'' فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ'' - ''فَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي''- یا کہے ''فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ'' - فَاصْرِفْهُ عَنِّي، وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ '' (اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتاہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتاہوں، اورتجھ سے تیر ے فضل کاسوال کرتاہوں،تو قدرت رکھتاہے اورمیں قدرت نہیں رکھتا، توعلم والاہے اورمیں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کوخوب جاننے والا ہے،اے اللہ اگر تو جانتاہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اورانجام کے اعتبارسے (یا آپ نے فرمایا:یامیری دنیااورآخرت کے لحاظ سے )بہترہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنادے اورمجھے اس میں برکت عطافرما، اورا گر توجانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اورانجام کے اعتبارسے یافرمایامیری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے بُراہے تو اسے تومجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو ، پھر مجھے اس پر راضی کردے۔)آپ نے فرمایا:'' اور اپنی حاجت کانام لے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں،یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمن سے دیگرکئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے،یہی عبدالرحمن بن زیدبن ابی الموالی ہیں،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعوداور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : استخارہ کے لغوی معنی خیرطلب کرنے کے ہیں،چونکہ اس دعاکے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیروبھلائیطلب کرتا ہے اس لیے اسے ''دعاء استخارہ'' کہاجاتا ہے، اس کامسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض صلاۃ کے علاوہ دورکعت پڑھنے کے بعد یہ دعاپڑھی جائے، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے، فرائض وواجبات اورسنن ومستحبات کی ادائیگی اورمحرمات ومکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے، ان میں استخارہ نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: لفظ '' هذا الأمر''(یہ کام)کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔اورکسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خودکرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کرسکے اوراُسے اپنے رب سے خودمانگنے کی عادت پڑے ، یہ جوآج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والاعمل جاری ہوچکاہے یہ نری بدعت ہے ،استخارہ کے بعد سوجانا اورخواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرمﷺسے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام وتابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک ، تین پانچ یا سات بار کیا جائے ، دل کا اطمینان ، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہوجائے اُسے آدمی اختیارکرلے ، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہوسکتی ہے مگرخواب استخارہ کا جزء نہیں ہے ، عورتیں بھی استخارہ خودکرسکتی ہیں، کہیں پرممانعت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ عَلَى الرَّاحِلَةِ
۱۴-باب: سواری پر وتر پڑھنے کا بیان​


472-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ، فَتَخَلَّفْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْتُ أَوْتَرْتُ، فَقَالَ: أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ؟ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ عَلَى رَاحِلَتِهِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ يُوتِرُ الرَّجُلُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَى الأَرْضِ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: خ/الوتر ۵ (۹۹۹)، وتقصیر الصلاۃ ۷ (۱۰۹۵)، و۸ (۱۰۹۸)، و۱۲ (۱۱۰۵)، م/المسافرین ۴ (۷۰۰)، ن/قیام اللیل ۳۳ (۱۶۸۷-۱۶۸۹)، ق/الإقامۃ ۱۲۷ (۱۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۸۵)، ط/صلاۃ اللیل ۳ (۱۵)، حم (۲/۵۷، ۱۳۸)، دي/الصلاۃ ۲۱۳) (صحیح)
۴۷۲- سعید بن یسار کہتے ہیں: میں ایک سفرمیں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ چل رہاتھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، توانہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہاتھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہﷺکی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہﷺکوتو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتاہے۔ اوریہی شافعی ، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے ، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اُسے اُترکر زمین پر پڑھے۔یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : متعدداحادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺسواری پربھی وترپڑھاکرتے تھے، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو ناپسندکرے اور یہ صرف جائزہے نہ کہ فرض وواجب ہے ، کبھی کبھی آپﷺسواری سے اترکر بھی پڑھاکرتے تھے، ہردونوں صورتیں جائزہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ التَّسْبِيحِ
۱۹-باب: صلاۃ التسبیح کا بیان​


481- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ ابْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ:"أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ غَدَتْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: عَلِّمْنِي كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي صَلاَتِي، فَقَالَ: كَبِّرِي اللَّهَ عَشْرًا، وَسَبِّحِي اللهَ عَشْرًا، وَاحْمَدِيهِ عَشْرًا، ثُمَّ سَلِي مَا شِئْتِ ، يَقُولُ: نَعَمْ نَعَمْ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ حَدِيثٍ فِي صَلاَةِ التَّسْبِيحِ ، وَلاَ يَصِحُّ مِنْهُ كَبِيرُ شَيْئٍ. وَقَدْ رَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صَلاَةَ التَّسْبِيحِ وَذَكَرُوا الْفَضْلَ فِيهِ.
* تخريج: ن/السہو ۵۷ (۱۳۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵)، حم (۳/۱۲۰) (حسن الإسناد)
481/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَنْ الصَّلاَةِ الَّتِي يُسَبَّحُ فِيهَا؟ فَقَالَ: يُكَبِّرُ، ثُمَّ يَقُولُ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلاَإِلَهَ غَيْرُكَ. ثُمَّ يَقُولُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً: سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلّهِ،وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ. ثُمَّ يَتَعَوَّذُ وَيَقْرَأُ {بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} وَفَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً. ثُمَّ يَقُولُ عَشْرَ مَرَّاتٍ: سُبْحَانَ اللهِ ،وَالْحَمْدُ لِلّهِ،وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ،وَاللهُ أَكْبَرُ. ثُمَّ يَرْكَعُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَيَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا. ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُهَا عَشْرًا. يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ عَلَى هَذَا، فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِيحَةً فِي كُلِّ رَكْعَةٍ يَبْدَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ،بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيحَةً،ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُسَبِّحُ عَشْرًا. فَإِنْ صَلَّى لَيْلاً فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُسَلِّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، وَإِنْ صَلَّى نَهَارًا فَإِنْ شَاءَ سَلَّمَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ يُسَلِّمْ.
قَالَ أَبُو وَهْبٍ، وَأَخْبَرَنِي عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ أَنَّهُ قَالَ: يَبْدَأُ فِي الرُّكُوعِ بِسُبْحَانَ رَبِيَ الْعَظِيمِ،وَفِي السُّجُودِ بِسُبْحَانَ رَبِيَ الأَعْلَى: ثَلاَثًا،ثُمَّ يُسَبِّحُ التَّسْبِيحَاتِ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ: وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالْعَزِيزِ، وَهُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: إِنْ سَهَا فِيهَا يُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَيْ السَّهْوِ عَشْرًا عَشْرًا؟ قَالَ: لاَ، إِنَّمَا هِيَ ثَلاَثُ مِائَةِ تَسْبِيحَةٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۳۸) (صحیح)
۴۸۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرعرض کیاکہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھادیجئے جنہیں میں صلاۃ ۱؎ میں کہاکروں، آپ نے فرمایا:'' دس بار''الله أكبر''کہو، دس بار ''سبحان الله'' کہو، دس بار '' الحمد لله''کہو، پھر جو چاہو مانگو، وہ (اللہ ) ہرچیز پرہاں ، ہاں کہتاہے''،(یعنی قبول کرتاہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عباس ، عبداللہ بن عمرو،فضل بن عباس اور ابورافع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صلاۃ التسبیح کے سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے اور بھی کئی حدیثیں مروی ہیں لیکن کوئی زیادہ صحیح نہیں ہیں، ۴- ابن مبارک اوردیگر کئی اہل علم صلاۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انہوں نے اس کی فضیلت کاذکرکیا ہے، ۵- ابووہب محمدبن مزاحم العامری نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے صلاۃ التسبیح کے بارے میں پوچھاکہ جس میں تسبیح پڑھی جاتی ہے، توانہوں نے کہا:پہلے تکبیرتحریمہ کہے، پھر ''سُبْحَانَكَ اللّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ ، وَتَعَالَى جَدُّكَ ،وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ '' (اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے، اے اللہ توہرعیب اورہرنقص سے پاک ہے سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام، بلند ہے تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں)کہے، پھر پندرہ مرتبہ ''سُبْحَانَ اللهِ ،وَالْحَمْدُ لِلّهِ،وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ،وَاللهُ أَكْبَرُ'' کہے، پھر '' أعوذ بالله من الشيطان الرجيم اور بسم الله الرحمن الرحيم'' کہے،پھر سورئہ فاتحہ اور کوئی سورہ پڑھے، پھردس مرتبہ ''سُبْحَانَ اللهِ ،وَالْحَمْدُ لِلّهِ،وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ،وَاللهُ أَكْبَرُ'' کہے ،پھر رکوع میں جائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے،پھر سراٹھائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سجدہ کرے دس باریہی کلمات کہے پھرسجدے سے اپناسراٹھائے اور دس باریہی کلمات کہے، پھردوسرا سجدہ کرے اوردس باریہی کلمات کہے، اس طرح سے وہ چاروں رکعتیں پڑھے، تو ہر رکعت میں یہ کل ۷۵ تسبیحات ہوں گی۔ ہررکعت کے شروع میں پندرہ تسبیحیں کہے گا، پھر دس دس کہے گا، اور اگروہ رات کو صلاۃ پڑھ رہاہو تو میرے نزدیک مستحب ہے کہ و ہ ہردورکعت کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن میں پڑھے تو چاہے تو (دورکعت کے بعد)سلام پھیرے اور چاہے تو نہ پھیرے۔
ابووہب وہب بن زمعہ سے روایت ہے کہ عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: رکوع میں پہلے ''سبحان ربي العظيم'' اور سجدہ میں پہلے '' سبحان ربي الأعلى'' تین تین بار کہے ، پھر تسبیحات پڑھے۔ عبدالعزیزہی ابن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: اگر اس صلاۃ میں سہو ہوجائے تو کیا وہ سجدۂ سہو میں دس دس تسبیحیں کہے گا؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بظاہراس حدیث کاتعلق ''صلاۃالتسبیح ''سے نہیں عام صلاتوں سے ہے ، بلکہ مسندابی یعلی میں ''فرض صلاۃ''کا لفظ واردہے؟ نیز اس حدیث میں واردطریقہ تسبیح صلاۃ التسبیح میں ہے بھی نہیں ہے ؟۔


482- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ الْعُكْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى ابْنُ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِلْعَبَّاسِ:"يَا عَمِّ! أَلاَ أَصِلُكَ، أَلاَ أَحْبُوكَ، أَلاَ أَنْفَعُكَ؟" قَالَ: بَلَى يَارَسُولَ اللهِ، قَالَ:"يَا عَمِّ! صَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، فَإِذَا انْقَضَتِ الْقِرَائَةُ فَقُلْ: اللهُ أَكْبَرُ، وَالْحَمْدُ لِلّهِ، وَسُبْحَانَ اللهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ: خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً قَبْلَ أَنْ تَرْكَعَ،ثُمَّ ارْكَعْ فَقُلْهَا عَشْرًا،ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا، ثُمَّ اسْجُدْ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ الثَّانِيَةَ فَقُلْهَا عَشْرًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا قَبْلَ أَنْ تَقُومَ. فَتِلْكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، هِيَ ثَلاَثُ مِائَةٍ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ. فَلَوْ كَانَتْ ذُنُوبُكَ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ لَغَفَرَهَا اللهُ لَكَ". قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَنْ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ؟ قَالَ:"فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ فَقُلْهَا فِي جُمْعَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي جُمُعَةٍ فَقُلْهَا فِي شَهْرٍ، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ لَهُ حَتَّى قَالَ: فَقُلْهَا فِي سَنَةٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ.
* تخريج: ق/الإقامۃ۱۹۰ (۱۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۵) (صحیح)
۴۸۲- ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (اپنے چچا ) عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں، کیا میں آپ کو نہ دوں؟ کیا میں آپ کونفع نہ پہنچاؤں ؟ وہ بولے: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپﷺنے فرمایا: ''آپ چار رکعت صلاۃ پڑھیں، ہررکعت میں سورئہ فاتحہ اور کوئی سو رت پڑھیں، جب قرأت پوری ہوجائے تو''اللہ اکبر''، ''الحمد للہ''، ''سبحان اللہ''، ''لا إلہ إلا اللہ'' پندرہ مرتبہ رکوع کرنے سے پہلے کہیں، پھر رکوع میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات رکوع میں کہیں، پھر اپنا سر اٹھائیں اوریہی کلمات دس مرتبہ رکوع سے کھڑے ہوکر کہیں۔ پھر سجدے میں جائیں تویہی کلمات دس مرتبہ کہیں، پھرسراٹھائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ پھر دوسرے سجدے میں جائیں تودس مرتبہ یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے اپنا سراٹھائیں تو کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ اسی طرح ہررکعت میں کہیں،یہ کل۷۵کلمات ہوئے اور چاروں رکعتوں میں تین سوکلمات ہوئے۔ تواگر آپ کے گناہ بہت زیادہ ریت والے بادلوں کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمادیگا''۔ توانہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! روزانہ یہ کلمات کہنے کی قدرت کس میں ہے؟ آپ نے فرمایا:'' آپ روزانہ یہ کلمات نہیں کہہ سکتے تو ہرجمعہ کو کہیں اور اگرہرجمعہ کو بھی نہیں کہہ سکتے تو ہرماہ میں کہیں''، وہ برابر یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:'' تو ایک سال میں آپ اِسے کہہ لیں'' ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابورافع رضی اللہ عنہ کی روایت سے غریب ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ اگرآپ سال بھر میں بھی ایک بارصلاۃ التسبیح نہ پڑھ سکتے ہوں تو پھرزندگی میں ایک بارہی سہی ، عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی بعض احادیث میں ذکرہے کہ یہ ''صلاۃ التسبیح '' سورج ڈھلنے کے بعد پڑھی جائے ، اولی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ
۲۰-باب: نبی اکرم ﷺ پرصلاۃ( درود) بھیجنے کا طریقہ​


483- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ وَالأَجْلَحِ وَمَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قُلْنَا: يَارَسُولَ اللهِ! هَذَا السَّلاَمُ عَلَيْكَ قَدْ عَلِمْنَا، فَكَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:"قُولُوا: اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ"، قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: وَزَادَنِي زَائِدَةُ عَنْ الأَعْمَشِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: وَنَحْنُ نَقُولُ: وَعَلَيْنَا مَعَهُمْ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَطَلْحَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَزَيْدِ ابْنِ خَارِجَةَ، وَيُقَالُ"ابْنُ جَارِيَةَ> وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى كُنْيَتُهُ <أَبُو عِيسَى> وَأَبُو لَيْلَى اسْمُهُ <يَسَارٌ>.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۷)، وتفسیر الأحزاب ۱۰ (۴۷۹۷)، والدعوات ۳۲ (۶۳۵۷)، م/الصلاۃ ۱۷ (۴۰۶)، د/الصلاۃ ۱۸۳ (۹۷۶)، ن/السہو ۵۱ (۱۲۸۸)، ق/الإقامۃ ۲۵ (۹۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۳)، حم (۴/۲۴۱، ۲۴۴)، دي/الصلاۃ ۸۵ (۱۳۸۱) (صحیح)
۴۸۳- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا،اللہ کے رسول!آپ پر سلام بھیجنا تو ہم نے جان لیاہے ۱؎ لیکن آپ پرصلاۃ(درود) بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟۔ آپ نے فرمایا:'' کہو:'' اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ،كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَّبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ '' ۲؎ (اے اللہ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرماجیساکہ تونے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے، یقینا توحمید( تعریف کے قابل) اور مجید( بزرگی والا) ہے، اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیساکہ تونے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی ہے، یقیناتوحمید( تعریف کے قابل) اورمجید( بزرگی والا) ہے۔
زائدہ نے بطریق اعمش عن الحکم عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ایک زائد لفظ کی روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم( درود میں) وعلينا معهم ( یعنی اور ہمارے اوپربھی رحمت وبرکت بھیج)بھی کہتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، ابوحمید، ابومسعود، طلحہ، ابوسعید، بریدہ، زیدبن خارجہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مرادوہ سلام ہے جوالتحیات میں پڑھاجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : مولف نے درودابراہیمی کے سلسلے میں مروی صرف ایک روایت کاذکرکیاہے ، اس باب میں کئی ایک روایات میں متعدد الفاظ واردہوئے ہیں، عام طورپر جو درودابراہیمی پڑھا جاتا ہے وہ صحیح طرق سے مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ
۲۱-باب: نبی اکرمﷺپر صلاۃ(درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان​


484- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللهِ بْنُ كَيْسَانَ أَنَّ عَبْدَاللهِ بْنَ شَدَّادٍ أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ:"أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلاَةً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: <مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ>.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴) (ضعیف)
(سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں، اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطاکرتے ہیں(التقریب)
۴۸۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ(درود) بھیجے گا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- نبی اکرمﷺسے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایاـ: جو مجھ پر ایک بار صلاۃ(درود) بھیجتا ہے ، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ(درود) بھیجتاہے ۲؎ ، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں(یہی حدیث آگے آرہی ہے)۔
وضاحت ۱؎ : سب سے زیادہ قریب اورنزدیک ہونے کا مطلب ہے: میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدارہے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتاہے۔


485-حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا" . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعَمَّارٍ، وَأَبِي طَلْحَةَ، وَأَنَسٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: صَلاَةُ الرَّبِّ الرَّحْمَةُ وَصَلاَةُ الْمَلاَئِكَةِ الاِسْتِغْفَارُ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۷ (۴۰۸)، د/الصلاۃ ۳۶۱ (۱۵۳)، ن/السہو ۵۵ (۱۲۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۴)، حم (۲/۳۷۳، ۳۷۵، ۴۸۵)، دي/الرقاق ۵۸ (۲۸۱۴) (صحیح)
۴۸۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جو مجھ پر ایک بار صلاۃ(درود) بھیجے گا ، اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ(درود) بھیجے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبدالرحمن بن عوف ، عامر بن ربیعہ ،عمار ، ابوطلحہ ، انس اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- سفیان ثوری اوردیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ(درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ(درود) سے مراد استغفار ہے۔


486- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الأَسَدِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، لاَ يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْئٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۴۹) (حسن) (الصحیحۃ ۲۰۳۵)
۴۸۶- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذراسی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی ﷺ پر صلاۃ(درود) نہیں بھیج لیتے۔


487- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ الْعَلاَئِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لاَ يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلاَّ مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. عَبَّاسٌ هُوَ <ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ>. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ، وَهُوَ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، وَالْعَلاَءُ هُوَ مِنْ التَّابِعِينَ، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِهِ. وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَعْقُوبَ وَالِدُ الْعَلاَئِ وَهُوَ أَيْضًا مِنْ التَّابِعِينَ. سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَابْنِ عُمَرَ. وَيَعْقُوبَ جَدُّ الْعَلاَئِ هُوَ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ أَيْضًا قَدْ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَوَى عَنْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۸) (حسن الإسناد)
۴۸۷- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارے بازار میں کوئی خرید وفروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کرلے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں،علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو پایاہے اور ان سے روایت بھی کی ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی معاملات کے مسائل نہ سمجھ لے۔
وضاحت ۲؎ : اوراسی بات کو ثابت کرنے کے لیے مولف اس اثرکو اس باب میں لائے ہیں ، ورنہ اس اثرکا اس باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اوپرحدیث نمبر(۴۸۵)میں علاء بن عبدالرحمن کا ذکرہے جنہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہاں انہیں سب کا تعارف مقصودہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

4-كِتَاب الْجُمُعَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴-کتاب: جمعہ کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ
۱-باب: جمعہ کے دن کی فضلیت کا بیان​


488- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ" .
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي لُبَابَةَ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَأَوْسِ بْنِ أَوْسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۵ (۸۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۸۲)، حم (۲/۴۰۱، ۱۴۸، ۴۵۱، ۴۸۶، ۵۰۱، ۵۴۰)، وانظر أیضا ما یأتي برقم۴۹۱ (صحیح)
۴۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''سب سے بہتردن جس میں سورج نکلا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیداکیا گیا ، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالاگیا ، اورقیامت بھی اسی دن قائم ہو گی'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابولبابہ ، سلمان ، ابوذر، سعدبن عبادہ اوراوس بن اوس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اس دن بڑے بڑے امورسرانجام پائے ہیں کہ جن سے جمعہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
 
Top