• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ
۲-باب: جمعہ کے دن کی وہ گھڑی جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے​


489- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ"۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ۔ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. وَيُقَالُ لَهُ: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ هُوَ: أَبُو إِبْرَاهِيمَ الأَنْصَارِيُّ، وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ۔ وَ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ۔ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔ وَقَالَ أَحْمَدُ: أَكْثَرُ الأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّهَا بَعْدَ صَلاَةِ الْعَصْرِ، وَتُرْجَى بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۹) (حسن)
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا)
۴۸۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' جمعہ کے روز اس گھڑی کوجس میں دعاکی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصرسے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۳- محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے، انہیں حمادبن ابی حمیدبھی کہا جاتاہے ، نیزکہاجاتاہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اوریہ منکرالحدیث ہیں، ۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعاکی امید کی جاتی ہے عصرکے بعدسے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے،یہی احمداوراسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔احمد کہتے ہیں: اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعاکی قبولیت کی امیدکی جاتی ہے زیادہ ترحدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصرکے بعدسے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعدبھی اس کے ہونے کی امیدکی جاتی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس بابت متعدد روایات ہیں، دیکھئے اگلی حدیثیں۔


490- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لاَ يَسْأَلُ اللهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلاَّ آتَاهُ اللهُ إِيَّاهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ؟ قَالَ:"حِينَ تُقَامُ الصَّلاَةُ إِلَى الاِنْصِرَافِ مِنْهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ سَلاَمٍ، وَأَبِي لُبَابَةَ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۹۹ (۱۱۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۳) (ضعیف جداً)
(یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، کثیر ضعیف راوی ہیں، اور ان کے والد عبداللہ عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی مقبول یعنی متابعت کے وقت ورنہ ضعیف راوی ہیں)
۴۹۰- عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جوکچھ بھی اس میں مانگتاہے اللہ اسے عطاکرتاہے''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!یہ کون سی گھڑی ہے؟ آپ نے فرمایا : ''صلاۃ(جمعہ) کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اسسے پلٹنے یعنی صلاۃ ختم ہونے تک ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمروبن عوف کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوموسیٰ ، ابوذر، سلمان ، عبداللہ بن سلام ، ابولبابہ ، سعدبن عبادہ اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : قبولیت دعاء کی اس گھڑی کے وقت کے بارے میں یہی ٹکڑااس حدیث میں ضعیف ہے ، نہ کہ مطلق حدیث ضعیف ہے۔


491- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُهْبِطَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي فَيَسْأَلُ اللهَ فِيهَا شَيْئًا إِلاَّ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ". قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَقِيتُ عَبْدَاللهِ بْنَ سَلاَمٍ فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِتِلْكَ السَّاعَةِ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِهَا، وَلاَتَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ؟ قَالَ: هِيَ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقُلْتُ: كَيْفَ تَكُونُ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي"، وَتِلْكَ السَّاعَةُ لاَ يُصَلَّى فِيهَا؟ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ فَهُوَ فِي صَلاَةٍ؟" قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهُوَ ذَاكَ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ <أَخْبِرْنِي بِهَا وَلاَ تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ> لاَ تَبْخَلْ بِهَا عَلَيَّ، <وَالضَّنُّ> الْبُخْلُ. وَ <الظَّنِينُ > الْمُتَّهَمُ ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۰۷ (۱۰۴۶)، ن/الجمعۃ ۴۵ (۱۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۰۰)، ط/الجمعۃ ۷ (۱۶) (صحیح) وقد رواہ بدون ذکر القصۃ مقتصرا علی الحدیث المرفوع کل من : خ/الجمعۃ ۳۷ (۹۳۵)، والطلاق ۲۴ (۵۲۹۴)، والدعوات ۶۱ (۶۴۰۰)، و م/الجمعۃ ۴ (۸۵۲)، و ن/الجمعۃ ۴۵ (۱۴۳۲، ۱۴۳۳)، و ق/الإقامۃ ۹۹ (۱۱۳۷)، وط/الجمعۃ ۷ (۱۵) وحم (۲/۲۳۰، ۲۵۵، ۲۷۲، ۲۰۸، ۲۸۴، ۴۰۳، ۴۵۷، ۴۶۹، ۴۸۱، ۴۸۹)، ودي/الصلاۃ ۲۰۴ (۱۶۱۰)
۴۹۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سب سے بہتردن جس میں سورج نکلا جمعہ کادن ہے، اسی دن آدم پیداکیے گئے ، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے ، اسی دن وہ جنت سے ( زمین پر اتارے گئے،) اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جسے مسلم بندہ صلاۃ کی حالت میں پائے اوراللہ سے اس میں کچھ طلب کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اس حدیث کاذکر کیا توانہوں نے کہا: میں یہ گھڑی اچھی طرح جانتاہوں، میں نے کہا:مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیے اوراس سلسلہ میں مجھ سے بخل نہ کیجئے، انہوں نے کہا:یہ عصرکے بعدسے لے کر سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، اس پرمیں نے کہا : یہ عصرکے بعدکیسے ہوسکتی ہے جب کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ''اسے مسلمان بندہ حالتِ صلاۃ میں پائے اور یہ وقت ایساہے جس میں صلاۃ نہیں پڑھی جاتی؟ توعبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جوشخص صلاۃ کے انتظار میں کسی جگہ بیٹھارہے تووہ بھی صلاۃہی میں ہوتا ہے؟ میں نے کہا : کیوں نہیں، ضرورفرمایا ہے توانہوں نے کہا: تویہی مرادہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- اورآپ کے اس قول ' ' أخبرني بها ولا تضنن بها علي'' کے معنی ہیں اسے مجھے بتانے میں بخل نہ کیجئے ، ضنّ کے معنی بخل کے ہیں اور ظنين کے معنی ، متہم کے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' یہ گھڑی امام کے منبرپربیٹھنے سے لیکرخطبہ سے فراغت کے درمیان ہے'' یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے بقول امام احمداورابن عبدالبردونوں وقتوں میں دعاء میں کوشش کرنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي الاِغْتِسَالِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۳-باب: جمعہ کے دن کے غسل کا بیان​


492- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ:"مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي الدَّرْدَائِ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔
* تخريج: م/الجمعۃ (۸۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۳۳)، حم (۲/۴۱، ۴۲، ۵۳، ۷۵، ۱۰۱، ۱۱۵، ۱۴۱، ۱۴۵) (صحیح)
۴۹۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکوفرماتے سنا: ''جوجمعہ کی صلاۃ کے لیے آئے اُسے چاہئے کہ (پہلے) غسل کرلے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس بات میں عمر، ابوسعیدخدری، جابر، براء، عائشہ اورابوالدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قراردیا ہے، او رجووجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امرتاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب )ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے'' تیراحق مجھ پر واجب ہے ''یعنی مؤکدہے، نہ کہ ایساوجوب جس کے ترک پر سزا اورعقوبت ہو۔ (اس تاویل کی وجہ حدیث رقم ۴۹۷ ہے)۔


493- وَرُوِي عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مِثْلَهُ. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ وَحَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ. وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي آلُ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَيْضًا، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۷۲۷) (صحیح)
۴۹۳- نیزابن شہاب زہری سے یہ حدیث بطریق:'' الزهري عن عبدالله بن عبدالله بن عمر، عن عبدالله بن عمر عن النبي ﷺ'' بھی مروی ہے، محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں:زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق : '' سالم عن أبيه عبدالله بن عمر'' روایت کی ہے اور جوحدیث انہوں نے بطریق: ''عبدالله بن عبدالله بن عمر عن أبيه عبدالله بن عمر'' روایت کی ہے دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور زہری کے بعض تلامذہ نے اسے بطریق:'' الزہری، عن آل عبداللہ بن عمر عن عبداللہ بن عمر''روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: جمعہ کے دن کے غسل کے سلسلہ میں بطریق : '' ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ '' مرفوعاًمروی ہے، (جو آگے آرہی ہے) اوریہ حدیث حسن صحیح ہے۔


494- وَرَوَاهُ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟! فَقَالَ: مَا هُوَ إِلاَّ أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ وَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، قَالَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَمَرَ بِالْغُسْلِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۲ (۸۷۸)، م/الجمعۃ (۸۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۱۹) (صحیح)
۴۹۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے روزخطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎ (مسجدمیں)داخل ہوئے، توعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ساوقت ،(آنے کا)ہے؟ توانہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اوربس وضوکرکے آگیا ہوں،اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے صرف (وضوہی پر اکتفاکیا) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہﷺنے غسل کا حکم دیا ہے؟!۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔


495- قَالَ: وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُاللهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
495/م- وَرَوَى مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ أَيْضًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، نَحْوُ هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۹۵- اس سندسے بھی زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔اورمالک نے بھی یہ حدیث بطریق:عن الزہری ، عن سالم، روایت کی ہے، وہ سالم بن عمر کہتے ہیں کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، آگے انہوں نے پوری حدیث ذکرکی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس سلسلے میں محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا : صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے بطریق:سالم عن أبیہ روایت کی ہے۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی حدیث کی طرح مروی ہے ، انہوں نے بطریق:'' الزهري، عن سالم، عن أبيه''بھی روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۴-باب: جمعہ کے دن غسل کی فضیلت کا بیان​


496- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ، وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ، وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ، صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا". قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ وَكِيعٌ: اغْتَسَلَ هُوَ وَغَسَّلَ امْرَأَتَهُ. قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ يَعْنِي غَسَلَ رَأْسَهُ وَاغْتَسَلَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَأَبُو الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ: شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ. وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْقَصَّابُ الْكُوفِيُّ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۲۹ (۳۴۵)، ن/الجمعۃ ۱۰ (۱۳۸۲)، ق/الإقامۃ ۸۰ (۱۰۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۵)، حم ۴/۸، ۹، ۱۰)، دي/الصلاۃ ۱۹۴ (۱۵۸۸) (صحیح)
۴۹۶- اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اورغسل کرایا، اورسویرے پہنچا،شروع سے خطبہ میں شریک رہا،امام کے قریب بیٹھااورغورسے خطبہ سنا اورخاموش رہا تو اُسے اس کے ہرقدم کے بدلے ایک سال کے صیام اوررات کے قیام کا ثواب ملے گا''۔
وکیع کہتے ہیں: اس کا معنی ہے کہ اس نے خودغسل کیااور اپنی عورت کو بھی غسل کرایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے،۲- عبد اللہ بن مبارک نے اس حدیث کے سلسلہ میں کہا ہے کہ '' من غسل واغتسل''کے معنی ہیں: جس نے اپنا سردھویااورغسل کیا، ۳- اس باب میں ابوبکر ، عمران بن حصین ، سلمان ، ابوذر، ابوسعید ، ابن عمر، اورابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۵-باب: جمعہ کے دن وضوکرنے کا بیان​


497- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ، اخْتَارُوا الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَرَأَوْا أَنْ يُجْزِءَ الْوُضُوءُ مِنْ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ ﷺ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنَّهُ عَلَى الاخْتِيَارِ لاَعَلَى الْوُجُوبِ: حَدِيثُ عُمَرَ، حَيْثُ قَالَ لِعُثْمَانَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا! وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَمَرَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَلَوْ عَلِمَا أَنَّ أَمْرَهُ عَلَى الْوُجُوبِ لاَ عَلَى الاخْتِيَارِ لَمْ يَتْرُكْ عُمَرُ عُثْمَانَ حَتَّى يَرُدَّهُ وَيَقُولَ لَهُ: ارْجِعْ فَاغْتَسِلْ، وَلَمَا خَفِيَ عَلَى عُثْمَانَ ذَلِكَ مَعَ عِلْمِهِ، وَلَكِنْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ فَضْلٌ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ يَجِبُ عَلَى الْمَرْءِ فِي ذَلِكَ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۳۰ (۳۵۴)، ن/الجمعۃ ۹ (۱۳۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۷)، حم (۵/۱۵، ۱۶، ۲۲) (صحیح)
(یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے ، اورسب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے ، ہاں تمام طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)
۴۹۷- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس نے جمعہ کے دن وضوکیا تواس نے رخصت کواختیارکیا اورخوب ہے یہ رخصت، اورجس نے غسل کیا توغسل افضل ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اورقتادہ نے حسن بصری سے اورحسن بصری نے سمرہ بن جندب سے (مرفوعاً) روایت کی ہے۔ اوربعض نے قتادہ سے اورقتادہ نے حسن سے اورحسن نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۳- اس باب میں ابوہریرہ ، عائشہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اوران کے بعدکے اہل علم کاعمل اسی پر ہے ، انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسندکیا ہے، ان کاخیال ہے کہ غسل کے بدلے وضوبھی کافی ہوجائے گا،۵- شافعی کہتے ہیں: جمعہ کے روز نبی اکرمﷺ کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جوچیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہاہے کہ تم نے صرف وضوپر اکتفاکیاہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیاہے، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے ، اختیاری نہیں توعمر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کولوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اوران سے کہتے :جاؤغسل کرو،اورنہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ سے اس بات کے جاننے کے باوجودکہ نبی اکرمﷺ نے جمعہ کو غسل کر نے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی، بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ جمعہ کاغسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضوکی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھاقراردیا گیا ہے اوردوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔


498- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الجمعۃ ۸ (۸۵۷)، د/الصلاۃ ۲۰۹ (۱۰۵۰)، ق/الإقامۃ ۶۲ (۱۰۲۵)، و۸۱ (۱۰۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۰۵)، حم (۲/۴۲۴) (صحیح)
۴۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرمایا:'' جس نے وضوکیا اوراچھی طرح کیا ۱؎ پھرجمعہ کے لیے آیا ۲؎ ، امام کے قریب بیٹھا،غورسے خطبہ سنااورخاموش رہاتواس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اورمزید تین دن کے ۳؎ کے گناہ ۴؎ بخش دیئے جائیں گے۔اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغوکیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اچھی طرح وضوکیا کا مطلب ہے سنت کے مطابق وضوکیا۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہواکہ گھرسے وضوکرکے مسجد میں آنازیادہ فضیلت کاباعث ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی دس دن کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک نیکی کا اجر کم سے کم دس گنا ہے۔
وضاحت ۴؎ : اس سے صغیرہ گناہ مرادہیں کیونکہ کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے معاف نہیں ہوتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّبْكِيرِ إِلَى الْجُمُعَةِ
۶-باب: جمعہ کے لیے مسجد سویرے آنے کا بیان​


499- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ:"مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۴ (۸۸۱)، و۳۱ (۹۲۹)، وبدء الخلق ۶ (۳۲۱۱)، م/الجمعۃ ۷ (۸۵۰)، د/الطہارۃ ۱۲۹ (۳۵۱)، ن/الإمامۃ ۵۹ (۸۶۵)، والجمعۃ ۱۳ (۱۳۸۶)، و۱۴ (۱۳۸۹)، ق/الإقامۃ ۸۲ (۱۰۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۶۹)، ط/الجمعۃ ۱ (۱)، حم (۲/۲۳۹، ۲۵۹، ۲۸۰، ۵۰۵، ۵۱۲) دي/الصلاۃ ۱۹۳ (۱۵۸۵) (صحیح)
۴۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح (یعنی خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر صلاۃِ جمعہ کے لیے (پہلی گھڑی میں) گیا توگویااس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا، اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی، اورجوتیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اورجوچوتھی گھڑی میں گیاتوگویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کرکے اللہ کا تقرب حاصل کیا، اور جوپانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈااللہ کی راہ میں صدقہ کیا، پھرجب امام خطبہ کے لیے گھرسے نکل آیا توفرشتے ذکرسننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبد اللہ بن عمرو اورسمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نام درج کرنے والا رجسٹربندکرکے خطبہ سننے لگتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ
۷-باب: بغیرعذرکے جمعہ چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان​


500- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللهُ عَلَى قَلْبِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَمُرَةَ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ، فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَهُ. وَقَالَ: لاَأَعْرِفُ لَهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۱۰ (۱۰۵۲)، ن/الجمعۃ ۱ (۱۳۶۹)، ق/الإقامۃ ۹۳ (۱۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۳)، حم (۳/۴۲۴)، دي/الصلاۃ ۲۰۵ (۱۶۱۲) (حسن صحیح)
۵۰۰- ابوالجعدضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ''جو جمعہ تین بارسستی ۱؎ سے حقیرجان کر چھوڑ دے گاتواللہ اس کے دل پر مہرلگادے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوالجعدکی حدیث حسن ہے،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے ابوالجعدضمری کا نام پوچھاتووہ نہیں جان سکے،۳- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اورحدیث نہیں جانتاجسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو، ۴- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمروکی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ مسلسل جمعہ چھوڑناایک خطرناک کام ہے، اس سے دل پر مہرلگ سکتی ہے جس کے بعداخروی کامیابی کی امیدختم ہوجاتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ مِنْ كَمْ تُؤْتَى الْجُمُعَةُ
۸-باب: جمعہ میں کتنی دوری سے آیاجائے؟​


501- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ قَالاَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ قُبَاءَ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"أَمَرَنَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَشْهَدَ الْجُمُعَةَ مِنْ قُبَاءَ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا وَلاَ يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلاَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ". وَهَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ، إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ مُعَارِكِ بْنِ عَبَّادٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَبْدَاللهِ بْنَ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ فِي الْحَدِيثِ. فَقَالَ: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ. قَالَ بَعْضُهُمْ: تَجِبُ الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى مَنْزِلِهِ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ تَجِبُ الْجُمُعَةُ إِلاَّ عَلَى مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۹) (ضعیف)
(اس کی سند میں ایک راوی ''رجل من اھل قباء '' مبہم ہے)
۵۰۱- اہل قباء میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتاہے - اس کے والد صحابہ میں سے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں حکم دیاکہ ہم قباء سے آکرجمعہ میں شریک ہوں ۔اس سلسلے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے ، وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اوراس باب میں نبی اکرمﷺسے مروی کوئی چیزصحیح نہیں ہے، ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جمعہ اس پر فرض ہے جو رات کو اپنے گھروالوں تک پہنچ سکے''، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یہ حدیث معارک بن عبادسے روایت کی جاتی ہے اورمعارک عبد اللہ بن سعید مقبری سے روایت کرتے ہیں، یحییٰ بن سعیدقطان نے عبداللہ بن سعیدمقبری کی حدیث کی تضعیف کی ہے، ۳- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پرواجب ہے ، بعض کہتے ہیں: جمعہ اس شخص پرواجب ہے جو رات کو اپنے گھر پہنچ سکے اوربعض کہتے ہیں: جمعہ صرف اسی پرواجب جس نے اذان سنی ہو، شافعی، احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔


502- سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَذَكَرُوا عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، فَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: فَقُلْتُ لأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ أَحْمَدُ: عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ أَحْمَدُ ابْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ". قَالَ: فَغَضِبَ عَلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَقَالَ لِي: اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ، اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: إِنَّمَا فَعَلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ هَذَا لأَنَّهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ شَيْئًا، وَضَعَّفَهُ لِحَالِ إِسْنَادِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۶۵) (ضعیف جداً)
(اس کے تین راوی ضعیف ہیں: عبداللہ بن سعید متروک ، اور حجاج بن نصیراور معارک دونوں ضعیف ہیں)
۵۰۲- میں نے احمدبن حسن کوکہتے سناکہ ہم لوگ احمد بن حنبل کے پاس تھے تولوگوں نے ذکرکیاکہ جمعہ کس پر واجب ہے؟ تو امام احمدنے اس سلسلے میں نبی اکرمﷺسے کوئی چیز ذکرنہیں کی، احمدبن حسن کہتے ہیں:تو میں نے احمدبن حنبل سے کہا: اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، تو امام احمد نے پوچھاکیا نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے؟ میں نے کہا: ہاں(نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے)،پھر احمدبن حسن نے حجاج بن نصیرعن معارک بن عبادعنعبد اللہ بن سعیدمقبری عن سعیدالمقبری عن أبی ہریرۃ عن النبیﷺ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' جمعہ اس پر واجب ہے جو رات کواپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آسکے'' ، احمدبن حسن کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل مجھ پر غصہ ہوئے اورمجھ سے کہا: اپنے رب سے استغفارکرو، اپنے رب سے استغفارکرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: احمدبن حنبل نے ایسااس لیے کیا کہ انہو ں نے اس حدیث کوکوئی حیثیت نہیں دی اوراسے کسی شمارمیں نہیں رکھا،سندکی وجہ سے اسے ضعیف قراردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْجُمُعَةِ
۹-باب: صلاۃِجمعہ کے وقت کا بیان​


503- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۱۶ (۹۰۴)، د/الصلاۃ ۲۲۴ (۱۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹)، حم (۳/۱۲۸، ۲۲۸) (صحیح)
۵۰۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کی صلاۃاس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔


504- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، وَجَابِرٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ وَقْتَ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، كَوَقْتِ الظُّهْرِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ صَلاَةَ الْجُمُعَةِ إِذَا صُلِّيَتْ قَبْلَ الزَّوَالِ أَنَّهَا تَجُوزُ أَيْضًا. و قَالَ أَحْمَدُ: وَمَنْ صَلاَّهَا قَبْلَ الزَّوَالِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرَ عَلَيْهِ إِعَادَةً۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۵۰۴- اس سندسے بھی انس رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع ، جابر اورزبیر بن عوام رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوراسی پر اکثراہل علم کا اجماع ہے کہ جمعہ کاوقت ظہرکے وقت کی طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے، یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴- اوربعض کی رائے ہے کہ جمعہ کی صلاۃ جب زوال سے پہلے پڑھ لی جائے تو جائز ہے ۔احمد کہتے ہیں: جس نے جمعہ کی صلاۃ زوال سے پہلے پڑھ لی تو اس پر دہرانا ضرروی نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخُطْبَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ
۱۰-باب: منبرپرخطبہ دینے کا بیان​


505- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلاَّسُ الصَّيْرَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَى ابْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلاَءِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ، فَلَمَّا اتَّخَذَ النَّبِيُّ ﷺ الْمِنْبَرَ حَنَّ الْجِذْعُ، حَتَّى أَتَاهُ فَالْتَزَمَهُ فَسَكَنَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. وَمُعَاذُ بْنُ الْعَلاَءِ هُوَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلاَءِ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۵۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۴۹) (صحیح)
۵۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکھجورکے ایک تنے پر (کھڑے ہوکر) خطبہ دیتے تھے ،جب آپﷺ نے منبربنالیا تووہ تنا روپڑایہاں تک کہ آپ اس کے پاس آئے اور اُ سے چمٹالیا تو وہ چپ ہوگیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- اس باب میں انس ، جابر، سہل بن سعد، ابی بن کعب ، ابن عباس اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُلُوسِ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ
۱۱-باب: دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کے بیٹھنے کا بیان​


506- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ، قَالَ: مِثْلَ مَا تَفْعَلُونَ الْيَوْمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي رَآهُ أَهْلُ الْعِلْمِ: أَنْ يَفْصِلَ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ بِجُلُوسٍ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۲۷ (۹۲۰)، و۳۰ (۹۲۸)، م/الجمعۃ ۱۰ (۸۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۷۹) (صحیح)
۵۰۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے دن خطبہ دیتے پھر (بیچ میں)بیٹھتے، پھرکھڑے ہوتے اورخطبہ دیتے، راوی کہتے ہیں: جیسے آج کل تم لوگ کرتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس ، جابربن عبداللہ اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرے۔
 
Top