• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

6-كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۶-کتاب: صیام کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ
۱-باب: ماہ رمضان کی فضیلت کا بیان​


682- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ بْنِ كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَسَلْمَانَ.
* تخريج: ق/الصوم ۲ (۱۶۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۹) (صحیح) وأخرج الشق الأول کل من : خ/الصوم ۵ (۱۸۹۸، ۱۸۹۹)، وبدء الخلق ۱۱ (۳۲۷۷)، وم/الصوم ۱ (۱۰۷۹)، ون/الصوم ۳ (۲۰۹۹، ۲۱۰۰)، و۴ (۲۱۰۱، ۲۱۰۲، ۲۱۰۳، ۲۱۰۴)، و۵ (۲۱۰۶، ۲۱۰۷)، وط/الصوم ۲۲ (۵۹)، وحم (۲/۲۸۱، ۳۵۷، ۳۷۸، ۴۰۱)، ودي/الصوم ۵۳ (۱۸۱۶)، من غیر ہذا الطریق عنہ۔
۶۸۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن ۱؎ جکڑدیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا ۲؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عبدالرحمن بن عوف ، ابن مسعود اور سلمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ''مردة الجن'' کا عطف'' الشياطين'' پرہے، بعض اسے عطف تفسیری کہتے ہیں اوربعض عطف مغایرت یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب شیاطین اورمردۃ الجن قیدکردیئے جاتے ہیں توپھرمعاصی کا صدورکیوں ہوتا ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ کہ معصیت کے صدور کے لیے تحقق اورشیاطین کا وجود ضروری نہیں،انسان گیارہ مہینے شیطان سے متاثرہوتارہتاہے رمضان میں بھی اس کا اثرباقی رہتاہے دوسرا جواب یہ ہے کہ لیڈرقیدکردیئے جاتے لیکن رضاکاراوروالنیٹرکھُلے رہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : اسی ندا کااثر ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی نیکیوں کی جانب توجہ بڑھ جاتی ہے اوروہ اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن ذکروعبادات خیرات اورتوبہ واستغفارکازیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں۔


683- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ وَالْمُحَارِبِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ الَّذِي رَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَنَعْرِفُهُ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَ : وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ الأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ قَوْلَهُ: إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ مُحَمَّدٌ وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۸ و۱۵۰۵۱) (صحیح) وأخرجہ کل من: خ/الإیمان ۲۷ (۳۷)، و۲۸ (۳۸)، والصوم ۶ (۱۹۰۱)، والتراویح ۱ (۲۰۰۸، ۲۰۰۹)، م/المسافرین ۲۵ (۷۵۹)، د/الصلاۃ ۳۱۸ (۱۳۷۱)، ن/قیام اللیل ۳ (۱۶۰۳)، والصوم ۳۹ (۲۱۹۳)، والإیمان ۲۱ (۵۰۲۷-۵۰۲۹)، و۲۲ (۵۰۳۰)، ق/الإقامۃ ۱۷۳ (۱۳۲۶)، ط/ رمضان ۱ (۲)، حم (۲/۲۳۲، ۲۴۱، ۳۸۵، ۴۷۳، ۵۰۳)، دي/الصوم ۵۴ (۱۸۱۷)، من غیر ہذا الطریق عنہ وبتصرف بسیر فی السیاق وانظر ما یأتی عند المؤلف برقم: ۸۰۸۔
۶۸۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے صوم رکھے اوراس کی راتوں میں قیام کیا تواس کے سابقہ گناہ ۱؎ بخش دئے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیاتواس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی (پچھلی) حدیث ، جسے ابوبکر بن عیاش نے روایت کی ہے غریب ہے، اِسے ہم ابوبکر بن عیاش کی روایت کی طرح جسے انہوں نے بطریق : '' الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة'' روایت کی ہے۔ ابوبکر ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا توانہوں نے بسندحسن بن ربیع عن أبی الأحوص عن الأعمش مجاہدکا قول نقل کیا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے... پھر آگے انہوں نے پوری حدیث بیان کی، ۳- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مرادصغیرہ گناہ ہیں جن کاتعلق حقوق اللہ سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ لاَ تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِصَوْمٍ
۲-باب: رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک دوروزپہلے صوم رکھنے کی ممانعت کا بیان​


684- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"لاَ تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِيَوْمٍ وَلاَ بِيَوْمَيْنِ إِلاَّ أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلاَثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يَتَعَجَّلَ الرَّجُلُ بِصِيَامٍ قَبْلَ دُخُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ لِمَعْنَى رَمَضَانَ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يَصُومُ صَوْمًا فَوَافَقَ صِيَامُهُ ذَلِكَ فَلاَ بَأْسَ بِهِ عِنْدَهُمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۵۷) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الصوم ۱۴ (۱۹۱۴)، م/الصیام ۳ (۱۰۸۲)، د/الصیام ۱۱ (۲۳۳۵)، ن/الصیام ۳۱ (۲۱۷۴)، و۳۸ (۲۱۸۹)، ق/الصیام ۵ (۱۶۰)، حم (۲/۲۳۴، ۳۴۷، ۴۰۸، ۴۳۸، ۴۷۷، ۴۹۷، ۵۱۳)، دي/الصوم ۴ (۱۷۳۱)، من غیر ہذا الطریق۔
۶۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے ) صوم نہ رکھو ۱؎ ، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا صوم آپڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آرہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کرصوم رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی صوم رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہوجائے تو مہینے کے تیس دن شمارکرلو، پھر صوم رکھنا بند کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے ۔ وہ اس بات کومکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں صوم رکھے،اور اگر کسی آدمی کا (کسی خاص دن میں) صوم رکھنے کا معمول ہواور وہ دن رمضان سے پہلے آ پڑے توان کے نزدیک اس دن صوم رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض صیام نفلی صیام کے ساتھ خلط ملط نہ ہوجائیں اورکچھ لوگ انھیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں، لہذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرمﷺ نے جانبین سے صوم منع کردیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیروتبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی، اس لیے اس سے منع کردیا۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے صیام رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آجائے تواس کا صوم رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے ۔


685- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ قَبْلَهُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۰۶) (صحیح)
۶۸۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''رمضان سے ایک یادو دن پہلے(رمضان کے استقبال میں)صوم نہ رکھو سوائے اس کے کہ آدمی اس دن صوم رکھتاآرہاہو تو اسے رکھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الشَّكِّ
۳-باب: شک کے دن صوم رکھنے کی کراہت کا بیان​


686- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُاللهِ بْنُ سَعِيدٍ الاَشَجُّ. حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلاَئِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَأُتِيَ بِشَاةٍ مَصْلِيَّةٍ فَقَالَ: كُلُوا فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ فَقَالَ عَمَّارٌ: مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ كَرِهُوا أَنْ يَصُومَ الرَّجُلُ الْيَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ وَرَأَى أَكْثَرُهُمْ إِنْ صَامَهُ فَكَانَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ أَنْ يَقْضِيَ يَوْمًا مَكَانَهُ.
* تخريج: خ/الصیام ۳۷ (۲۱۹۰)، ق/الصیام ۳ (۱۶۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۵۴)، دي/الصوم ۱ (۱۷۲۴) (صحیح)
۶۸۶- صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا: کھاؤ۔ یہ سن کرایک صاحب الگ گوشے میں ہوگئے اور کہا: میں صائم ہوں، اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے کسی ایسے دن صوم رکھا جس میں لوگوں کوشبہ ہو ۱؎ ( کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اوران کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی سفیان ثوری، مالک بن انس ، عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمداور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان لوگوں نے اس دن صوم رکھنے کو مکروہ قراردیا ہے جس میں شبہ ہو،(کہ رمضان کاچاند ہوا ہے یانہیں) اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگروہ اس دن صوم رکھے اوروہ ماہ رمضان کادن ہوتووہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاکرے۔
وضاحت ۱؎ : ''جس میں شبہ ہو''سے مراد۳۰شعبان کادن ہے یعنی بادل کی وجہ سے ۲۹ویں دن چاند نظرنہیں آیا تو کوئی شخص یہ سمجھ کر صوم رکھ لے کہ پتہ نہیں یہ شعبان کاتیسواں دن ہے یارمضان کاپہلادن، کہیں یہ رمضان ہی نہ ہو، اس طرح شک والے دن میں صوم رکھنا صحیح نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الشَّكِّ
۳-باب: شک کے دن صوم رکھنے کی کراہت کا بیان​


686- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُاللهِ بْنُ سَعِيدٍ الاَشَجُّ. حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلاَئِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَأُتِيَ بِشَاةٍ مَصْلِيَّةٍ فَقَالَ: كُلُوا فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ فَقَالَ عَمَّارٌ: مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيهِ النَّاسُ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ كَرِهُوا أَنْ يَصُومَ الرَّجُلُ الْيَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ وَرَأَى أَكْثَرُهُمْ إِنْ صَامَهُ فَكَانَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ أَنْ يَقْضِيَ يَوْمًا مَكَانَهُ.
* تخريج: خ/الصیام ۳۷ (۲۱۹۰)، ق/الصیام ۳ (۱۶۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۵۴)، دي/الصوم ۱ (۱۷۲۴) (صحیح)
۶۸۶- صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا: کھاؤ۔ یہ سن کرایک صاحب الگ گوشے میں ہوگئے اور کہا: میں صائم ہوں، اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے کسی ایسے دن صوم رکھا جس میں لوگوں کوشبہ ہو ۱؎ ( کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اوران کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی سفیان ثوری، مالک بن انس ، عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمداور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان لوگوں نے اس دن صوم رکھنے کو مکروہ قراردیا ہے جس میں شبہ ہو،(کہ رمضان کاچاند ہوا ہے یانہیں) اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگروہ اس دن صوم رکھے اوروہ ماہ رمضان کادن ہوتووہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاکرے۔
وضاحت ۱؎ : ''جس میں شبہ ہو''سے مراد۳۰شعبان کادن ہے یعنی بادل کی وجہ سے ۲۹ویں دن چاند نظرنہیں آیا تو کوئی شخص یہ سمجھ کر صوم رکھ لے کہ پتہ نہیں یہ شعبان کاتیسواں دن ہے یارمضان کاپہلادن، کہیں یہ رمضان ہی نہ ہو، اس طرح شک والے دن میں صوم رکھنا صحیح نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي إِحْصَاءِ هِلاَلِ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ
۴-باب: رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرنے کا بیان​


687- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَجَّاجٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَحْصُوا هِلاَلَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ. وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَ تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلاَ يَوْمَيْنِ". وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو اللَّيْثِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۲۳) (حسن)
۶۸۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے اس طرح ابومعاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورصحیح وہ روایت ہے جو (عبدہ بن سلیمان نے) بطریق: ''محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : رمضان کے استقبال میں ایک یادودن پہلے صوم شروع نہ کردو، اسی طرح بطریق: ''يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ '' مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الصَّوْمَ لِرُؤْيَةِ الْهِلاَلِ وَالإِفْطَارَ لَهُ
۵-باب: چاند دیکھ کر صوم رکھنے اور دیکھ کر صوم بند کرنے کا بیان​


688- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ حَالَتْ دُونَهُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلاَثِينَ يَوْمًا". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: د/الصیام ۷ (۲۳۲۷)، ن/الصیام ۱۲ (۲۱۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۵)، وأخرجہ ط/الصیام ۱ (۳)، وحم (۱/۲۲۱)، ودي/الصوم۱(۱۷۲۵) من غیر ہذا الطریق عنہ (صحیح)
۶۸۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''رمضان سے پہلے ۱؎ صوم نہ رکھو، چاند دیکھ کر صوم رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آجائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔ ۲- اس باب میں ا بوہریرہ ، ابوبکرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ''رمضان سے پہلے''سے مرادشعبان کا دوسرا نصف ہے، مطلب یہ ہے کہ ۱۵شعبان کے بعدنفلی صیام نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض صیام کے لیے اس کی قوت وتوانائی برقرار رہے۔
وضاحت ۲؎ یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور۲۹شعبان کو چاندنظرنہ آئے توشعبان کے تیس دن پورے کرکے رمضان کے صیام شروع کئے جائیں، اسی طرح اگر۲۹رمضان کوچاندنظرنہ آئے تو رمضان کے تیس صیام پورے کرکے عیدالفطرمنائی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ
۶-باب: مہینہ۲۹ دن کا بھی ہوتا ہے​


689- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنِي عِيسَى بْنُ دِينَارٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَا صُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلاَثِينَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"الشَّهْرُ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ".
* تخريج: د/الصوم ۴ (۲۳۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۷۸)، حم (۱/۴۴۱) (صحیح)
۶۸۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ تیس دن کے صیام رکھنے سے زیادہ ۲۹ دن کے صیام رکھے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عمر، ابوہریرہ ، عائشہ، سعد بن ابی وقاص ، ابن عباس ، ابن عمر، انس ، جابر ، ام سلمہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''مہینہ ۲۹ دن کا(بھی)ہوتا ہے''۔


690- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ قَالَ: آلَى رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا. فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ يَوْمًا، قَالُوا يَارَسُولَ اللهِ! إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ. قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳) (صحیح) وأخرجہ کل من: خ/الصلاۃ ۱۸ (۳۷۸)، والصوم ۱۱ (۱۹۱۱)، والمظالم ۲۵ (۲۴۶۹)، والنکاح ۹۱ (۵۲۰۱)، والأیمان والنذور۲۰ (۶۶۸۴)، ن/الطلاق ۳۲ (۳۴۸۶)، حم (۳/۲۰۰) من غیر ہذا الطریق عنہ
۶۹۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا (یعنی اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی ) پھر آپ نے اپنے بالا خانے میں ۲۹ دن قیام کیا (پھرآپ اپنی بیویوں کے پاس آئے )تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیاتھا؟ آپ نے فرمایا : مہینہ۲۹ دن کا(بھی) ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ بِالشَّهَادَةِ
۷-باب: چاند دیکھنے کی گواہی پر صوم رکھنے کا بیان​


691- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلاَلَ قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا بِلاَلُ! أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا.
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَهُ بِهَذَا الإِسْنَادِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيهِ اخْتِلاَفٌ وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ سِمَاكٍ رَوَوْا عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: تُقْبَلُ شَهَادَةُ رَجُلٍ وَاحِدٍ فِي الصِّيَامِ، وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ. قَالَ إِسْحَاقُ: لاَ يُصَامُ إِلاَّ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ وَلَمْ يَخْتَلِفْ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الإِفْطَارِ أَنَّهُ لاَ يُقْبَلُ فِيهِ إِلاَّ شَهَادَةُ رَجُلَيْنِ.
* تخريج: د/الصیام ۱۴ (۲۳۴۰)، ن/الصوم ۸ (۲۱۱۵)، ق/الصیام ۶ (۱۶۵۲)، دي/الصوم ۶ (۱۷۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۴) (ضعیف)
(عکرمہ سے سماک میں روایت میں بڑا اضطراب پایا جاتاہے ، نیز سماک کے اکثرتلامذہ نے اسے ''عن عکرمہ عن النبی ﷺ...مرسلا روایت کیا ہے )
۶۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرکہا: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ نے فرمایا: ''کیاتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا : ہاں دیتاہوں ، آپ نے فرمایا: ''بلال ! لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل صوم رکھیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث میں اختلاف ہے۔ سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق : ''سماك، عن عكرمة، عن النبي ﷺ'' مرسلاً روایت کی ہے۔ اور سماک کے اکثر شاگردوں نے بھی بطریق: ''سماك، عن عكرمة، عن النبي ﷺ '' مرسلاً ہی روایت کی ہے، ۲- اکثر اہل علم کاعمل اسی حدیث پر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان کے صیام کے سلسلے میں ایک آدمی کی گواہی قبول کی جائے گی۔اورابن مبارک ،شافعی ، احمد اور اہل کوفہ بھی اسی کے قائل ہیں، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ صوم بغیردوآدمیوں کی گواہی کے نہ رکھا جائے گا۔ لیکن صوم بند کرنے کے سلسلے میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس میں دوآدمی کی گواہی قبول ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ شَهْرَا عِيدٍ لاَ يَنْقُصَانِ
۸-باب: عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے​


692- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"شَهْرَا عِيدٍ لاَيَنْقُصَانِ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَكْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. قَالَ أَحْمَدُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ شَهْرَا عِيدٍ لاَ يَنْقُصَانِ يَقُولُ: لا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَهْرُ رَمَضَانَ وَذُو الْحِجَّةِ إِنْ نَقَصَ أَحَدُهُمَا تَمَّ الآخَرُ. وَ قَالَ إِسْحَاقُ مَعْنَاهُ لاَ يَنْقُصَانِ يَقُولُ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَهُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ وَعَلَى مَذْهَبِ إِسْحَاقَ يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّهْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ.
* تخريج: خ/الصوم ۱۲ (۱۹۱۲)، م/الصوم ۷ (۱۰۸۹)، د/الصوم ۴ (۲۳۲۳)، ق/الصیام ۹ (۱۶۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۷)، حم (۵/۳۸) (صحیح)
۶۹۲- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''عید کے دونوں مہینے رمضان ۱؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ۲۹ دن کے نہیں ہوتے )''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس حدیث ''عیدکے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے'' کامطلب یہ ہے کہ رمضان اورذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندرکم نہیں ہوتے ۲؎ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ۲۹دن کا ہوگا تودوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہو گا،۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ۲۹ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبارسے کم نہ ہوں گے، اسحاق بن راہویہ کے مذہب کی روسے دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں۲۹دن کے ہوسکتے ہیں ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ عیدتوشوال میں ہوتی ہے پھررمضان کو شہرعیدکیسے کہاگیاہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب کی وجہ سے کہا گیا ہے چونکہ عیدرمضان ہی کی وجہ سے متحقق ہوتی ہے لہذا اس کی طرف نسبت کردی گئی ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات دونوں انتیس (۲۹)کے ہوتے ہیں، تواس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ اس سے مرادیہ ہے کہ عام طورسے دونوں کم نہیں ہوتے ہیں۔
وضاحت ۳؎ : اور ایسا ہوتابھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
۹-باب: ہرشہروالوں کے لیے انہیں کے چاند دیکھنے کااعتبارہوگا​


693- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ. أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلاَلُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ. فَرَأَيْنَا الْهِلاَلَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ. فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلاَلَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلاَلَ؟ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ. فَلاَ نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلاَثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ: أَلاَ تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لاَ، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.
* تخريج: م/الصوم ۵ (۱۰۸۷)، د/الصیام ۹ (۲۳۳۲)، ن/الصیام ۷ (۲۱۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۵۷)، حم (۱/۳۰۶) (صحیح)
۶۹۳- کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی ، اور(اسی درمیان) رمضان کاچاند نکل آیا، اورمیں شام ہی میں تھاکہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎ ، پھر میں مہینے کے آخرمیں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاندکا ذکرکیا اورکہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھاتھا؟ میں نے کہا: ہم نے اُسے جمعہ کی رات کو دیکھاتھا، توانہوں نے کہا: کیاتم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھاتھا؟تومیں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھااورانہوں نے صیام رکھے اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی صوم رکھا، اس پرابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا، تو ہم برابرصوم سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کرلیں، یاہم ۲۹کا چانددیکھ لیں، تومیں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اورصوم رکھنے پر اکتفانہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں،ہمیں رسول اللہﷺ نے ایساہی حکم دیاہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خودچانددیکھنے کااعتبارہوگا۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ صوم رکھنے اورتوڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہایہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبرہوگی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتاہے کہ ''صوموا'' اور''افطروا'' کے مخاطب ساری دنیاکے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیاکے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اورجو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ صوم رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسراقول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبارسے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع وغروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
 
Top