• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ لِلْمُحَارِبِ فِي الإِفْطَارِ
۲۰-باب: مجاہد اورغازی کے لیے صوم توڑدینے کی رخصت کا بیان​


714- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي حُيَيَّةَ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنْ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ فَحَدَّثَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ غَزْوَتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ وَالْفَتْحِ فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ أَمَرَ بِالْفِطْرِ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نَحْوُ هَذَا. إِلاَّ أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الإِفْطَارِ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۵۰) (ضعیف الإسناد)
(سعیدبن المسیب نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نہیں پایاہے ، لیکن دوسرے دلائل سے مسئلہ ثابت ہے)
۷۱۴- معمر بن ابی حیّیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسیب سے سفر میں صوم رکھنے کے بارے میں پوچھا توابن مسیب نے بیان کیاکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم نے رمضان میں رسول اللہﷺ کے ساتھ دوغزوے کئے۔ غزوہ بدر اورفتح مکہ ، ہم نے ان دونوں میں صوم نہیں رکھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری سے بھی روایت ہے، ۳- ابوسعیدخدری سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے (لوگوں کو) ایک غزوے میں افطار کاحکم دیا۔ عمر بن خطاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔البتہ انہوں نے صوم رکھنے کی رخصت دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں دی ہے۔ اور بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یا توسفرکی وجہ سے یا طاقت کے لیے تاکہ دشمن سے مڈبھیڑکے وقت کمزوری لاحق نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ جہادمیں دشمن سے مڈبھیڑکے وقت صوم نہ رکھناجائزہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الإِفْطَارِ لِلْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ
۲۱-باب: حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو صوم نہ رکھنے کی رخصت​


715- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُوهِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ (رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ)، قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَوَجَدْتُهُ يَتَغَدَّى فَقَالَ:"ادْنُ فَكُلْ" فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ:"ادْنُ أُحَدِّثْكَ عَنْ الصَّوْمِ أَوْ الصِّيَامِ إِنَّ اللهَ تَعَالَى وَضَعَ عَنْ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلاَةِ، وَعَنْ الْحَامِلِ، أَوْ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوْ الصِّيَامَ". وَاللهِ! لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ ﷺ كِلْتَيْهِمَا أَوْ إِحْدَاهُمَا فَيَا لَهْفَ نَفْسِي أَنْ لاَ أَكُونَ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْكَعْبِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلاَ نَعْرِفُ لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ هَذَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ تُفْطِرَانِ وَتَقْضِيَانِ وَتُطْعِمَانِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: تُفْطِرَانِ وَتُطْعِمَانِ وَلاَ قَضَاءَ عَلَيْهِمَا. وَإِنْ شَائَتَا قَضَتَا وَلاَ إِطْعَامَ عَلَيْهِمَا وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاقُ.
* تخريج: د/الصیام ۴۳ (۲۴۰۸)، ن/الصیام ۵۱ (۲۲۷۶)، و۶۲ (۲۳۱۷)، ق/الصیام ۱۲ (۱۶۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۲)، حم (۴/۳۴۷)، و(۵/۲۹) (حسن صحیح)
۷۱۵- انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سواروں نے ہم پر رات میں حملہ کیا، تومیں رسول اللہﷺکے پاس آیا،میں نے آپ کو پایاکہ آپ دوپہرکاکھاناکھارہے تھے، آپ نے فرمایا: ''آؤ کھالو'' ، میں نے عرض کیا: ''میں صوم سے ہوں''۔ آپ نے فرمایا: ''قریب آؤ، میں تمہیں صیام کے بارے میں بتاؤں، اللہ تعالیٰ نے مسافر سے صوم اور آدھی صلاۃ ۲؎ معاف کردی ہے، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی صوم کو معاف کردیاہے۔ اللہ کی قسم نبی اکرمﷺ نے حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت دونوں لفظ کہے یا ان میں سے کوئی ایک لفظ کہا، توہائے افسوس اپنے آپ پر کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ کیوں نہیں کھایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- انس بن مالک کعبی کی حدیث حسن ہے، انس بن مالک کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث ہم نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو،۲- اس باب میں ابوامیہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کااسی پر عمل ہے،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتیں صوم نہیں رکھیں گی، بعد میں قضا کریں گی،اور فقراء ومساکین کو کھانا کھلائیں گی۔ سفیان ، مالک ، شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں،۵- بعض کہتے ہیں: وہ صوم نہیں رکھیں گی بلکہ فقراء ومساکین کو کھانا کھلائیں گی۔اوران پر کوئی قضا نہیں اور اگروہ قضا کرناچاہیں توان پر کھانا کھلانا واجب نہیں۔ اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ وہ انس بن مالک نہیں ہیں جو رسول اللہﷺ کے خادم ہیں،بلکہ یہ کعبی ہیں۔
وضاحت ۲؎ : مرادچاررکعت والی صلاۃ میں سے ہے۔
وضاحت ۳؎ : اوراسی کو صاحب تحفہ الأحوذی نے راجح قراردیا ہے اورکہا ہے کہ میرے نزدیک ظاہریہی ہے کہ یہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لہذا ان پر صرف قضالازم ہو گی۔ واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّوْمِ عَنِ الْمَيِّتِ
۲۲-باب: میت کی طرف سے صوم رکھنے کا بیان​


716- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَطَاءِ، وَمُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، قَالَ:"أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُخْتِكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:"فَحَقُّ اللهِ أَحَقُّ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ.
* تخريج: خ/الصوم ۴۲ (۱۹۵۳)، م/الصیام ۲۷ (۱۱۴۸)، (وعندہما ''أمي'' بدل '' أختي'' وقد أشار البخاري إلی اختلاف الروایات)، د/الأیمان ۲۶ (۳۳۱۰)، (وعندہ إیضا ''أمي'')، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۲ و۵۹۶۱ و۶۴۲۲) (صحیح)
۷۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرکہا: میری بہن مرگئی ہے۔ اس پرمسلسل دوماہ کے صیام تھے۔بتائیے میں کیا کروں؟آپ نے فرمایا: ''ذرابتا ؤاگر تمہاری بہن پرقرض ہوتا توکیا تم اسے اداکرتیں؟'' اس نے کہا : ہاں(اداکرتی)، آپ نے فرمایا: ''تو اللہ کاحق اس سے بھی بڑاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں بریدہ ، ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جوشخص مرجائے اوراس کے ذمہ صوم ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے صوم رکھے، محدثین کا یہی قول ہے اوریہی راجح ہے۔


717- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ الأَعْمَشِ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: جَوَّدَ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الأَعْمَشِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رَوَى غَيْرُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الأَعْمَشِ، مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي خَالِدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَبُو مُعَاوِيَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ، وَلاَ عَنْ عَطَاءِ، وَلاَ عَنْ مُجَاهِدٍ، وَاسْمُ أَبِي خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۷۱۷- اس سند سے بھی اعمش سے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوخالد احمر نے اعمش سے یہ حدیث بہت عمدہ طریقے سے روایت کی ہے، ۳- ابوخالدالأحمرکے علاوہ دیگرلوگوں نے بھی اسے اعمش سے ابوخالد کی روایت کے مثل روایت کیا ہے، ابومعاویہ نے اور دوسرے کئی اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: ''الأعمش، عن مسلم البطين، عن سعيدبن جبير، عن ابن عباس، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے، اس میں ان لوگوں نے سلمہ بن کہیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اورنہ ہی عطاء اور مجاہدکے واسطے کا، ابوخالد کانام سلیمان بن حیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ مِنَ الْكَفَّارَةِ
۲۳-باب: میت کے چھوڑے ہوئے صوم کے کفارہ کا بیان​


718- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ؛ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفٌ قَوْلُهُ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَابِ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَامُ عَنْ الْمَيِّتِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. قَالاَ: إِذَا كَانَ عَلَى الْمَيِّتِ نَذْرُ صِيَامٍ، يَصُامُ عَنْهُ. وَإِذَا كَانَ عَلَيْهِ قَضَاءُ رَمَضَانَ، أُطْعِمَ عَنْهُ. و قَالَ مَالِكٌ وَسُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ لاَ يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ. قَالَ: وَأَشْعَثُ (هُوَ ابْنُ سَوَّارٍ) وَمُحَمَّدٌ هُوَ عِنْدِي ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى.
* تخريج: ق/الصیام ۵۰ (۱۷۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۸۴۲۳) (ضعیف)
(سندمیں اشعث بن سوار کندی ضعیف ہیں، نیز اس حدیث کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے)
۷۱۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا صوم باقی ہو تو اس کی طرف سے ہردن کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلایا جائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کوہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۲-صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمرسے موقوف ہے یعنی انہیں کا قول ہے، ۳- اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے صیام رکھے جائیں گے۔ یہ قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں: جب میت پر نذروالے صیام ہوں تو اس کی طرف سے صوم رکھا جائے گا، اور جب اس پر رمضان کی قضا واجب ہو تو اس کی طرف سے مسکینوں اورفقیروں کو کھانا کھلایاجائے گا، مالک، سفیان اور شافعی کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے صوم نہیں رکھے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّائِمِ يَذْرَعُهُ الْقَيْئُ
۲۴- باب: صائم کو (خود بخود) قے آجائے اس کے حکم کا بیان​


719- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"ثَلاَثٌ لاَيُفْطِرْنَ الصَّائِمَ الْحِجَامَةُ وَالْقَيْئُ وَالاحْتِلاَمُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَقَدْ رَوَى عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَعَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ مُرْسَلاً، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ. قَالَ: سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَقَالَ: أَخُوهُ عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدٍ لاَبَأْسَ بِهِ قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللهِ الْمَدِينِيِّ قَالَ: عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلاَ أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۱۸۲) (ضعیف)
(سندمیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے)
۷۱۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''تین چیزوں سے صائمکا صوم نہیں ٹوٹتا : پچھنا لگوانے سے ۱؎ ، قے آجانے سے اور احتلام ہوجانے سے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے، ۲- عبداللہ بن زید بن اسلم اور عبدالعزیز بن محمد اوردیگر کئی رواۃ نے یہ حدیث زید بن اسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ اورا س میں ان لوگوں نے ابوسعیدخدری کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ۳- عبدالرحمن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں، ۴- میں نے ابوداود سجزی کوکہتے سناکہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا؟ توانہوں نے کہا : ان کے بھائی عبداللہ بن زید بن اسلم میں کوئی حرج نہیں،۴- اور میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے سناکہعلی بن عبداللہ المدینی نے عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں ۲؎ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : میں ان سے کچھ روایت نہیں کرتا۔
وضاحت ۱؎ : بظاہریہ روایت''أفطر الحاجم والمحجوم'' کی مخالف ہے، تاویل یہ کی جاتی ہے کہ''أفطر الحاجم والمحجوم'' کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے آپ افطارکے لیے خودکو پیش کردیاہے بلکہ قریب پہنچ گئے ہیں، جسے سینگی لگائی گئی وہ ضعف وکمزوری کی وجہ سے اورسینگی لگانے والا اس لیے کہ اس سے بچنامشکل ہے کہ جب وہ خون کھینچ رہاہوتوخون کا کوئی قطرہ حلق میں چلا جائے اورصوم ٹوٹ جائے اورایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اورناسخ انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے دارقطنی نے روایت کیا ہے، اس میں ہے'' رخص النبي ﷺ بعد في الحجامة الصائم وكان أنس يحتجم وهو صائم''۔
وضاحت ۲؎ : زیدبن اسلم کے تین بیٹے ہیں: عبداللہ ، عبدالرحمن اوراسامہ۔امام احمد کے نزدیک عبداللہ ثقہ ہیں اورعبدالرحمن اور اسامہ دونوں ضعیف اوریحییٰ بن معین کے نزدیک زیدبن اسلم کے سبھی بیٹے ضعیف ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا
۲۵-باب: جان بوجھ کر قے کر دینے والے کے حکم کا بیان​


720- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْئُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَائٌ وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَثَوْبَانَ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ هِشَامٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ. و قَالَ مُحَمَّدٌ: لاَ أُرَاهُ مَحْفُوظًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلاَ يَصِحُّ إِسْنَادُهُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَثَوْبَانَ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَاءَ فَأَفْطَرَ وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ صَائِمًا مُتَطَوِّعًا فَقَاءَ فَضَعُفَ فَأَفْطَرَ لِذَلِكَ هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ الصَّائِمَ إِذَا ذَرَعَهُ الْقَيْئُ فَلاَ قَضَاءَ عَلَيْهِ وَإِذَا اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: د/الصیام ۳۲ (۲۳۸۰)، ق/الصیام ۱۶ (۱۶۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۴۲)، حم (۲/۴۹۸)، دي/الصوم ۲۵ (۱۷۷۰) (صحیح)
۷۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' جسے قے آجائے اس پر صوم کی قضالازم نہیں ۱؎ اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے صوم کی قضا کرنی چاہئے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے بسندہشام عن ابن سیرین عن أبی ہریرہ عن النبی ﷺ عیسیٰ بن یونس ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا، ۲- یہ حدیث دوسری اورسندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے،۳- اس باب میں ابوالدرداء ، ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۴- ابوالدرداء ، ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے قے کی تو آپ نے صوم توڑ دیا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرمﷺنفلی صوم سے تھے۔ قے ہوئی توآپ نے کچھ کمزوری محسوس کی اس لیے صوم توڑد یا، بعض روایات میں اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے، ۵- اور اہل علم کا عمل ابوہریرہ کی حدیث پر ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ صائم کوجب قے آجائے توا س پر قضا لازم نہیں ہے۔ اورجب قے جان بوجھ کر کرے تواسے چاہئے کہ قضا کرے۔سفیان ثوری، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس میں صائمکی کوئی غلطی نہیں ۔
وضاحت ۲؎ : اکثرلوگوں کی رائے ہے کہ اس میں کفارہ نہیں صرف قضاء ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّائِمِ يَأْكُلُ أَوْ يَشْرَبُ نَاسِيًا
۲۶-باب: صائم بھول کر کچھ کھاپی لے توکیسا ہے؟​


721- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ أَكَلَ أَوْ شَرِبَ نَاسِيًا فَلاَ يُفْطِرْ فَإِنَّمَا هُوَ رِزْقٌ رَزَقَهُ اللهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۹۷) (صحیح)
۷۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ' ' جس نے بھول کرکچھ کھاپی لیا ، وہ صوم نہ توڑے ، یہ روزی ہے جو اللہ نے اُسے دی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بخاری کی روایت ہے '' فإنما أطعمه الله وسقاه''۔


722- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ وَخَلاَّسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ أَوْ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ إِسْحَاقَ الْغَنَوِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِذَا أَكَلَ فِي رَمَضَانَ نَاسِيًا فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۹)، ق/الصیام ۱۵ (۱۶۷۳)، و(تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۰۳، و۱۴۴۷) (صحیح) وأخرجہ د/الصیام ۳۹ (۲۳۹۸) من غیر ہذا الطریق والسیاق، وانظر ما قبلہ
۷۲۲- اس سند سے بھی ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری اورام اسحاق غنویہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ سفیان ثوری ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۴- مالک بن انس کہتے ہیں کہ جب کوئی رمضان میں بھول کر کھاپی لے توا س پرصیام کی قضا لازم ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَا جَاءَ فِي الإِفْطَارِ مُتَعَمِّدًا
۲۷-باب: جان بوجھ کر صیام رمضان چھوڑدینے کے حکم کا بیان​


723- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُطَوِّسِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ، وَلاَ مَرَضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: أَبُو الْمُطَوِّسِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ الْمُطَوِّسِ وَلاَ أَعْرِفُ لَهُ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/الصیام ۳۸ (۲۳۹۶، ۲۳۹۷)، ق/الصیام ۱۵ (۱۶۷۲)، حم (۲/۴۵۸، ۴۷۰)، دي/الصوم ۱۸ (۱۷۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۶) (ضعیف)
(سندمیں ابوالمطوس لین الحدیث ہیں اوران کے والد مجہول )
۷۲۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اوربغیرکسی بیماری کے رمضان کاکوئی صوم نہیں رکھا توپورے سال کا صوم بھی اس کوپورانہیں کرپائے گاچاہے وہ پورے سال صوم سے رہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ابوہریرہ کی حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوالمطوس کانام یزید بن مطوس ہے اور اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی اور حدیث معلوم نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ الْفِطْرِ فِي رَمَضَانَ
۲۸-باب: رمضان میں صوم نہ رکھنے پر عائد کفارہ کا بیان​


724- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَأَبَو عَمَّارٍ (وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، وَاللَّفْظُ لَفْظُ أَبِي عَمَّارٍ) قَالاَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! هَلَكْتُ قَالَ: وَمَا أَهْلَكَكَ؟ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: اجْلِسْ. فَجَلَسَ. فَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ - وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ - قَالَ: تَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ: مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا أَحَدٌ أَفْقَرَ مِنَّا قَالَ فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ. قَالَ: فَخُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ جِمَاعٍ وَأَمَّا مَنْ أَفْطَرَ مُتَعَمِّدًا مِنْ أَكْلٍ أَوْ شُرْبٍ فَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدْ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَالْكَفَّارَةُ. وَشَبَّهُوا الأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِالْجِمَاعِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَلاَ كَفَّارَةَ عَلَيْهِ لأَنَّهُ إِنَّمَا ذُكِرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الْكَفَّارَةُ فِي الْجِمَاعِ وَلَمْ تُذْكَرْ عَنْهُ فِي الأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَقَالُوا: لاَ يُشْبِهُ الأَكْلُ وَالشُّرْبُ الْجِمَاعَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ لِلرَّجُلِ الَّذِي أَفْطَرَ فَتَصَدَّقَ عَلَيْهِ خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ يَحْتَمِلُ هَذَا مَعَانِيَ: يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَى مَنْ قَدَرَ عَلَيْهَا وَهَذَا رَجُلٌ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْكَفَّارَةِ فَلَمَّا أَعْطَاهُ النَّبِيُّ ﷺ شَيْئًا وَمَلَكَهُ فَقَالَ الرَّجُلُ مَا أَحَدٌ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنَّا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ لأَنَّ الْكَفَّارَةَ إِنَّمَا تَكُونُ بَعْدَ الْفَضْلِ عَنْ قُوتِهِ. وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ لِمَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ هَذَا الْحَالِ أَنْ يَأْكُلَهُ وَتَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَيْهِ دَيْنًا فَمَتَى مَا مَلَكَ يَوْمًا مَا كَفَّرَ.
* تخريج: خ/الصوم ۳۰ (۱۹۳۶)، م/الصیام ۱۴ (۱۱۱۱)، د/الصیام ۳۷ (۲۳۹۰)، ق/الصیام ۱۴ (۱۶۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۵)، ط/الصیام ۹ (۲۸)، حم (۲/۲۴۱)، دي/الصوم ۱۹ (۱۷۵۷) (صحیح)
۷۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص نے آکرکہا: اللہ کے رسول ! میں ہلاک ہوگیا،آپ نے پوچھا :''تمہیں کس چیز نے ہلاک کردیا ؟'' اس نے عرض کیا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کربیٹھا۔ آپ نے پوچھا : ''کیاتم ایک غلام یا لونڈی آزاد کرسکتے ہو؟'' اس نے کہا :نہیں ، آ پ نے پوچھا: '' کیا مسلسل دوماہ کے صیام رکھ سکتے ہو؟'' اس نے کہا :نہیں، توآپ نے پوچھا: ''کیاساٹھ مسکین کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: ''بیٹھ جاؤ تووہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں آپﷺ کے پاس ایک بڑاٹوکرہ لایاگیا جس میں کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا: ''اسے لے جاکرصدقہ کردو''، اس نے عرض کیا: ان دو نوں ملے ہوئے علاقو ں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ نبی اکرمﷺ ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے ۔آ پ نے فرمایا: ''اسے لے لو اورلے جاکر اپنے گھروالوں ہی کو کھلادو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، عائشہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں جورمضان میں جان بوجھ کربیوی سے جماع کرکے صوم توڑدے ، اسی حدیث پرعمل ہے، ۴- اور جو جان بوجھ کر کھاپی کر صوم توڑے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں: اس پرصیام کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے، ان لوگوں نے کھانے پینے کو جماع کے مشابہ قرار دیاہے۔ سفیان ثوری ، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔بعض کہتے ہیں: اس پر صرف صیام کی قضا لازم ہے،کفارہ نہیں۔ اس لئے کہ نبی اکرمﷺ سے جوکفارہ مذکورہے وہ جماع سے متعلق ہے، کھانے پینے کے بارے میں آپ سے کفارہ مذکورنہیں ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے۔ یہ شافعی اور احمد کا قول ہے۔
شافعی کہتے ہیں : نبی اکرمﷺ کا اس شخص سے جس نے صوم توڑدیا ، اورآپ نے اس پر صدقہ کیایہ کہناکہ '' اسے لے لو اورلے جاکر اپنے گھر والوں ہی کوکھلادو ''، کئی باتوں کا احتمال رکھتا ہے: ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کفارہ اس شخص پر ہوگا جو اس پرقادرہو ، اور یہ ایسا شخص تھا جسے کفارہ دینے کی قدرت نہیں تھی، تو جب نبی اکرمﷺ نے اسے کچھ دیا اور وہ اس کا مالک ہوگیا تواس ا ٓدمی نے عرض کیا: ہم سے زیادہ اس کاکوئی محتاج نہیں ۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''اسے لے لو اور جاکراپنے گھروالوں ہی کو کھلادو''، اس لیے کہ روزانہ کی خوراک سے بچنے کے بعد ہی کفارہ لازم آتا ہے، تو جواس طرح کی صورت حال سے گزررہاہو اس کے لیے شافعی نے اسی بات کو پسند کیا ہے کہ وہی اسے کھالے اور کفارہ اس پر فرض رہے گا ،جب کبھی وہ مالدار ہوگاتو کفارہ اداکرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَا جَاءَ فِي السِّوَاكِ لِلصَّائِمِ
۲۹-باب: صائم کے مسواک کرنے کا بیان​


725- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مَا لاَ أُحْصِي يَتَسَوَّكُ وَهُوَ صَائِمٌ.
قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يَرَوْنَ بِالسِّوَاكِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا إِلاَّ أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا السِّوَاكَ لِلصَّائِمِ بِالْعُودِ الرُّطَبِ وَكَرِهُوا لَهُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ. وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ بِالسِّوَاكِ بَأْسًا أَوَّلَ النَّهَارِ وَلاَ آخِرَهُ. وَكَرِهَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ.
* تخريج: د/الصیام ۲۶ (۲۳۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۴) (ضعیف)
(سندمیں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے)
۷۲۵- عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کوصوم کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمارنہیں کرسکتا۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے ،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- اسی حدیث پراہل علم کا عمل ہے۔یہ لوگ صائم کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ۱؎ سمجھتے، البتہ بعض اہل علم نے صائم کے لئے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قراردیا ہے، اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہاہے۔ لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قراریاہے۔
وضاحت ۱؎ : خواہ زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد، خواہ تازی لکڑی سے ہو، یا خشک، یہی اکثراہل علم کا قول ہے اوریہی راجح ۔
 
Top