• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ عَلَيْهِ الإِفْطَارُ
۱۰-باب: کس چیزسے صوم کھولنا مستحب ہے؟​


694- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لاَ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءِ فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ هَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلاَ نَعْلَمُ لَهُ أَصْلاً مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ. وَقَدْرَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ سَلْمَانَ. وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ (شُعْبَةُ عَنْ الرَّبَابِ) وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ: عَنْ عَاصِمٍ الأَحَوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. وَابْنُ عَوْنٍ يَقُولُ: عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَالرَّبَابُ هِيَ أُمُّ الرَّائِحِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶) (ضعیف)
(سندمیں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوابھی ہے ، دیکھئے الارواء رقم : ۹۲۲)
۶۹۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جسے کھجورمیسرہو،توچاہئے کہ وہ اسی سے صوم کھولے، اورجسے کھجور میسرنہ ہوتوچاہئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیزہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامرکے علاوہ کسی اورنے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۱؎ ، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیزکی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے ،اور شعبہ کے شاگروں نے یہ حدیث بطریق:''شعبة، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے ، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق : '' شعبة، عن عاصم، عن حفصة، عن سلمان بن عامر'' روایت کی ہے اوراس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کاذکرنہیں کیا گیا ہے اورصحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اوردیگرکئی لوگوں نے بطریق : '' عاصم الأحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر '' روایت کی ہے، اورابن عون کہتے ہیں : عن أم الرائح بنت صليع، عن سلمان بن عامر'' اور رَباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ سعیدبن عامر''عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس'' کے طریق سے اس کی روایت میں منفردہیں، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے اسے '' عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر''کے طریق سے روایت کی ہے، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اورابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں ''عن الرباب''کہنے کے بجائے ''عن ام الروائح بنت صلیع ''کہا ہے، اوررباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اورعورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔


695- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ. ح و حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ". زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ"فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءِ فَإِنَّهُ طَهُورٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الصوم ۲۱ (۲۳۵۵)، ق/الصیام ۲۵ (۱۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۶)، حم (۴/، ۱۷، ۱۹، ۲۱۳، ۲۱۵)، دي/الصوم ۱۲ (۱۷۷۳)، وانظر أیضا ما تقدم برقم ۶۵۸ (ضعیف)
(الرباب ام الرائح لین الحدیث ہیں،اس حدیث کی تصحیح ترمذی کے علاوہ : ابن خزیمہ اورابن حبان نے بھی کی ہے ، البانی نے پہلے اس کی تصحیح کی تھی بعد میں اسے ضعیف الجامع الصغیر میں رکھ دیا (رقم: ۳۶۹) دیکھئے: تراجع الألبانی رقم: ۱۳۲ و ارواء رقم : ۹۲۲ ۱ ؎ )
۶۹۵- سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی افطار کرے توچاہئے کہ کھجور سے افطارکرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے(کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیزہے ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ اگرافطارمیں کھجورمیسرہو توکھجورہی سے افطارکرے کیونکہ یہ مقوی معدہ، مقوی اعصاب اورجسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کابہترین بدل ہے اوراگرکھجورمیّسرنہ ہوسکے تو پھر پانی سے افطاربہترہے نبی اکرمﷺ تازہ کھجورسے افطارکیاکرتے تھے اگرتازہ کھجورنہیں ملتی تو خشک کھجورسے افطارکرتے اوراگروہ بھی نہ ملتی تو چندگھونٹ پانی سے افطارکرتے تھے۔ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجروثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اورچیزمثلاً نمک وغیرہ سے افطارکرنابدعت ہے، جوملاؤں نے ایجادکی ہے۔


696- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ.
* تخريج: د/الصیام ۲۱ (۲۳۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵) (صحیح)
۶۹۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ (مغرب ) پڑھنے سے پہلے چند ترکھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر ترکھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ
۱۱-باب: صوم کا دن وہی ہے جب سب صوم رکھیں ، عید الفطر کا دن وہی ہے جب سب عید منائیں اور عید الا ٔضحی کادن وہی ہے جب سب عید منائیں​


697- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ . وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا: أَنَّ الصَّوْمَ وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۹۷) وأخرجہ کل من : د/الصوم۵(۲۳۲۴) وق/الصیام۹ (۱۶۶۰) من غیر ہذا الطریق (صحیح)
۶۹۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''صیام کادن وہی ہے جس دن تم سب صوم رکھتے ہواور افطار کا دن وہی ہے جب سب عیدالفطر مناتے ہو اور اضحٰی کادن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اورعیدالفطر اجتماعیت اور سواد أعظم کے ساتھ ہونا چاہئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی کا اس حدیث پر عنوان لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب چاند دیکھنے میں غلطی ہوجائے اور سارے کے سارے لوگ غور و خوض کرنے کے بعد ایک فیصلہ کرلیں تو اسی کے حساب سے رمضان اور عیدمیں کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ
۱۲- باب: جب رات آجائے اور دن چلاجائے یعنی سورج ڈوب جائے تو صائم افطارکرے​


698- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرْتَ". قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصوم ۴۳ (۱۹۵۴)، م/الصیام ۱۰ (۱۱۰۰)، د/الصیام ۱۹ (۲۳۵۱)، ۲۸، ۳۵، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۷۴)، حم (۱/۴۸)، دي/الصوم ۱۱ (۱۷۴۲) (صحیح)
۶۹۸- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جب رات آجائے ،اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطارکرلیا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن ابی اوفیٰ اور ابوسعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ''تم نے افطارکرلیا'' کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تمہارے صوم کھولنے کا وقت ہوگیا، اوردوسرامطلب یہ ہے کہ تم شرعاً صوم کھولنے والے ہوگئے خواہ تم نے کچھ کھایاپیانہ ہوکیو نکہ سورج ڈوبتے ہی صوم اپنے اختتام کوپہنچ گیااس میں صوم کے وقت کاتعین کردیا گیا ہے کہ وہ صبح صاد ق سے سورج ڈوبنے تک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ
۱۳-باب: افطارمیں جلدی کرنے کا بیان​


699- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ. ح قَالَ: و أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَائَةً، عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ اسْتَحَبُّوا تَعْجِيلَ الْفِطْرِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/الصوم ۴۵ (۱۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۴۶)، ط/الصیام ۳ (۶)، حم (۵/۳۳۷، ۳۳۹) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/الصیام ۹ (۱۰۹۸)، وق/الصیام ۲۴ (۱۶۹۷)، حم (۵/۳۳۱، ۳۳۴، ۳۳۶)، ودي/الصوم ۱۱ (۱۷۴۱) من غیر ہذا الطریق۔
۶۹۹- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''لوگ برابرخیر میں رہیں گے ۱؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، ابن عباس، عائشہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوریہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیاہے، ان لوگوں نے افطارمیں جلدی کرنے کومستحب جاناہے اوراسی کے شافعی ،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : خیرسے مرادین ودنیاکی بھلائی ہے ۔
وضاحت ۲؎ : افطارمیں جلدی کریں گے، کامطلب یہ نہیں ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے صوم کھول لیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد صوم کھولنے میں تاخیرنہیں کریں گے جیساکہ آج کل احتیاط کے نام پرکیاجاتاہے۔


700- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۵)، وانظر: حم (۲/۲۳۸، ۳۲۹) (ضعیف)
(سندمیں قرۃ بن عبدالرحمن کی بہت سے منکر روایات ہیں، نیزولیدبن مسلم مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)۔
۷۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ عزوجل فرماتاہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس محبت کی وجہ شایدسنت کی متابعت ، بدعت سے دوررہنے اوراہل کتاب کی مخالفت ہے۔


701- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَأَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
(سابقہ حدیث کے رواۃ اس میں بھی ہیں)
۷۰۱- اس سند سے بھی اوزاعی سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


702- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! رَجُلاَنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلاةَ، وَالآخَرُ يُؤَخِّرُ الإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلاَةَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا يُعَجِّلُ الإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلاَةَ؟ قُلْنَا: عَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَتْ: هَكَذَا صَنَع رَسُولُ اللهِ ﷺ. وَالآخَرُ أَبُو مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو عَطِيَّةَ اسْمُهُ مَالِكُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ. وَيُقَالُ: ابْنُ عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ وَابْنُ عَامِرٍ أَصَحُّ.
* تخريج: م/الصوم ۹ (۱۰۹۹)، د/الصوم ۲۰ (۲۳۵۴)، ن/الصیام ۲۳ (۲۱۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۹۹)، حم (۶/۴۸) (صحیح) وأخرجہ حم (۶/۱۷۳) من غیر ہذا الطریق۔
۷۰۲- ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اورمسروق دونوں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ، ہم نے عرض کیا : ام المومنین! صحابہ میں سے دوآدمی ہیں، ان میں سے ایک افطار جلدی کرتا ہے اورصلاۃ ۱؎ بھی جلدی پڑھتاہے اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے اور صلاۃ بھی دیر سے پڑھتا ہے ۲؎ انہوں نے کہا:وہ کون ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور صلاۃ بھی جلدی پڑھتا ہے ، ہم نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعودہیں ،اس پر انہوں نے کہا:رسول اللہﷺاسی طرح کرتے تھے اور دوسرے ابوموسیٰ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوعطیہ کانام مالک بن ابی عامر ہمدانی ہے اورانہیں ابن عامر ہمدانی بھی کہاجاتاہے ۔ اورابن عامرہی زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : بظاہراس سے مرادمغرب ہے اورعموم پربھی اسے محمول کیا جاسکتاہے اس صورت میں مغرب بھی منجملہ انہی میں سے ہوگی ۔
وضاحت ۲؎ : پہلے شخص یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عزیمت اورسنت پرعمل پیراتھے اوردوسرے شخص یعنی ابوموسیٰ اشعری جواز اور رخصت پر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ السُّحُورِ
۱۴-باب: سحری تاخیرسے کھانے کا بیان​


703- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلاَةِ قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ قَدْرُ ذَلِكَ قَالَ : قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً.
* تخريج: خ/المواقیت ۲۸ (۵۷۵)، والصوم ۱۹ (۱۹۲۱)، م/الصیام ۹ (۱۰۹۷)، ن/الصیام ۲۱ (۲۱۵۷)، ق/الصوم ۲۳ (۱۹۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۶)، حم (۵/۱۸۲، ۱۸۵، ۱۸۶، ۱۸۸، ۱۹۲)، دي/الصوم ۸ (۱۷۰۲) (صحیح)
۷۰۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ سحری کی، پھر ہم صلاۃ کے لیے کھڑے ہوئے، انس کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اس کی مقدار کتنی تھی؟ ۱؎ انہوں نے کہا: پچاس آیتوں کے (پڑھنے کے) بقدر ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان دونوں کے بیچ میں کتنا وقفہ تھا۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہواکہ سحری بالکل آخری وقت میں کھائی جائے، یہی مسنون طریقہ ہے تاہم صبح صادق سے پہلے کھالی جائے اور یہ وقفہ پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدرہو۔


704- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ بِنَحْوِهِ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: قَدْرُ قِرَائَةِ خَمْسِينَ آيَةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. اسْتَحَبُّوا تَأْخِيرَ السُّحُورِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۷۰۴- اس سند سے بھی ہشام سے اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں یوں ہے: پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳- یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ان لوگوں نے سحری میں دیر کرنے کوپسندکیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيَانِ الْفَجْرِ
۱۵-باب: صبح صادق کے واضح ہوجانے کا بیان​


705- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُلاَزِمُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي عَبْدُاللهِ بْنُ النُّعْمَانِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ حَدَّثَنِي أَبِي طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ:"كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَيَهِيدَنَّكُمْ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَعْتَرِضَ لَكُمْ الأَحْمَرُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لاَ يَحْرُمُ عَلَى الصَّائِمِ الأَكْلُ وَالشُّرْبُ حَتَّى يَكُونَ الْفَجْرُ الأَحْمَرُ الْمُعْتَرِضُ وَبِهِ يَقُولُ عَامَّةُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/الصیام ۱۷ (۲۳۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۲۵) (حسن صحیح)
۷۰۵- قیس بن طلق کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''کھاؤ پیو ،تمہیں کھانے پینے سے چمکتی اورچڑھتی ہوئی صبح یعنی صبح کاذب نہ روکے ۱؎ کھاتے پیتے رہو، یہاں تک کہ سرخی تمہارے چوڑان میں ہوجائے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں عدی بن حاتم ، ابوذر اور سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اسی پراہل علم کاعمل ہے کہ صائم پر کھانا پینا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ فجر کی سرخ چوڑی روشنی نمودار نہ ہوجائے، اوریہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : الساطع المصعد سے مراد فجرکاذب ہے اورالاحمرسے مرادصبح صادق، اس حدیث سے بعض لوگوں نے اس بات پراستدلال کیا ہے کہ فجرکے ظاہرہونے تک کھاناپیناجائزہے، مگرجمہورکہتے ہیں کہ فجرکے متحقق ہوتے ہی کھاناپیناحرام ہوجاتاہے اوراس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ'' احمر''کہنامجاورت کی بناپرہے کیونکہ فجرکے طلوع کے ساتھ حمرہ (سرخی)آجاتی ہے پس فجرتحقق کو'' احمر'' کہہ دیا گیا ہے ۔


706- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ سَوَادَةَ بْنِ حَنْظَلَةَ - هُوَ الْقُشَيْرِيُّ - عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَيَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلاَلٍ وَلاَ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيلُ، وَلَكِنْ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الأُفُقِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: م/الصوم ۸ (۱۰۹۴)، د/الصیام ۱۷ (۲۳۴۶)، ن/الصیام ۳۰ (۲۱۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۴)، حم (۵/۷، ۹، ۱۳، ۱۸) (صحیح)
۷۰۶- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان بازنہ رکھے اور نہ ہی لمبی فجربازرکھے، ہاں وہ فجربازرکھے جوکناروں میں پھیلتی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْغِيبَةِ لِلصَّائِمِ
۱۶-باب: صائم کے غیبت کرنے کی شناعت کا بیان​


707- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلّهِ حَاجَةٌ بِأَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ" .
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصوم ۸ (۱۹۰۳)، والأدب ۵۱ (۶۰۵۷)، ق/الصیام ۲۱ (۱۶۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۲۱) (صحیح)
۷۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جو (صائم) جھوٹ بولنا اور ا س پرعمل کرنانہ چھوڑے تواللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس تنبیہ سے مقصودیہ ہے کہ صائم صوم کی حالت میں اپنے آپ کوہرقسم کی معصیت سے بچائے رکھے تاکہ وہ صیام کے ثواب کا مستحق ہوسکے، اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ وہ رمضان میں کھاناپیناشروع کردے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ السَّحُورِ
۱۷-باب: سحری کھانے کی فضیلت کا بیان​


708- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَعَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ".
* تخريج: م/الصوم ۹ (۱۰۹۵)، ن/الصیام ۱۸ (۲۱۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۸ و۱۴۳۳) (صحیح)
وأخرجہ کل من: خ/الصوم ۲۰ (۱۹۲۳)، وق/الصیام ۲۲ (۱۶۹۲)، وحم (۳/۹۹، ۲۱۵، ۲۵۸، ۲۸۱)، ودي/الصوم ۹ (۱۷۳۸)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۰۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''سحری کھاؤ ۱؎ ،کیونکہ سحری میں برکت ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ،عبداللہ بن مسعود ، جابر بن عبداللہ ، ابن عباس ، عمرو بن عاص ، عرباض بن ساریہ ،عتبہ بن عبداللہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
۳- نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''ہمارے صیام اوراہل کتاب کے صیام میں فرق سحری کھانے کاہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امرکاصیغہ ندب واستحباب کے لیے ہے سحری کھانے سے آدمی پورے دن اپنے اندرطاقت وتوانائی محسوس کرتاہے اس کے برعکس جو سحری نہیں کھاتااسے جلدی بھوک پیاس ستانے لگتی ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہواکہ سحری کھاناا س امّت کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے۔


709- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ.
قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عُلَيٍّ، وَهُوَ: مُوسَى بْنُ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيُّ.
* تخريج: م/الصوم ۹ (۱۰۹۶)، د/الصیام ۱۵ (۲۳۴۳)، ن/الصیام ۲۷ (۲۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴۹)، حم (۴/۱۹۷)، دي/الصوم ۹ (۱۷۳۸) (صحیح)
۷۰۹- اس سند سے عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل مصر موسى بن عَلِيّ (عین کے فتحہ کے ساتھ): کہتے ہیں اوراہل عراق موسى بن عُليّ(عین کے ضمہ کے ساتھ) کہتے ہیں اور وہ موسیٰ بن عُلَيّ بن رباح اللخمی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
۱۸-باب: سفرمیں صوم رکھنے کی کراہت کا بیان​


710- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ. فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ وَصَامَ النَّاسُ مَعَهُ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِمْ الصِّيَامُ، وَإِنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ؛ فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءِ بَعْدَ الْعَصْرِ؛ فَشَرِبَ، وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ؛ فَأَفْطَرَ بَعْضُهُمْ، وَصَامَ بَعْضُهُمْ فَبَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا؛ فَقَالَ:"أُولَئِكَ الْعُصَاةُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ". وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ: فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ أَفْضَلُ حَتَّى رَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الإِعَادَةَ إِذَا صَامَ فِي السَّفَرِ، وَاخْتَارَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ أَفْضَلُ، وَإِنْ أَفْطَرَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ"لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ" وَقَوْلِهِ - حِينَ بَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا فَقَالَ -"أُولَئِكَ الْعُصَاةُ" فَوَجْهُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْتَمِلْ قَلْبُهُ قَبُولَ رُخْصَةِ اللهِ. فَأَمَّا مَنْ رَأَى الْفِطْرَ مُبَاحًا وَصَامَ، وَقَوِيَ عَلَى ذَلِكَ، فَهُوَ أَعْجَبُ إِلَيَّ.
* تخريج: م/الصوم ۱۵ (۱۱۴۱)، ن/الصیام ۴۹ (۲۲۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۸) (صحیح)
۷۱۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے توآپ نے صوم رکھا، اورآپ کے ساتھ لوگوں نے بھی صوم رکھا،یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پرپہنچے توآپ سے عرض کیاگیاکہ لوگوں پرصوم رکھنا گراں ہورہاہے اور لوگ آپ کے عمل کودیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگاکرپیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، توان میں سے بعض نے صوم توڑدیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہواکہ کچھ لوگ (اب بھی) صوم سے ہیں ، آپ نے فرمایا: ''یہی لوگ نافرمان ہیں'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں کعب بن عاصم ،ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :'' سفرمیں صوم رکھنا نیکی نہیں ہے''، ۴- سفر میں صوم رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں صوم نہ رکھنا افضل ہے، یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں صوم رکھ لے تووہ سفرسے لوٹنے کے بعدپھردوبارہ رکھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں صوم نہ رکھنے کوترجیح دی ہے۔ ۵-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ اگروہ طاقت پائے اور صوم رکھے تو یہی مستحسن اورافضل ہے۔ سفیان ثوری ، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں،۶- شافعی کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے قول '' سفر میں صوم رکھنا نیکی نہیں '' اورجس وقت آپ کو معلوم ہواکہ کچھ لوگ صوم سے ہیں توآپ کا یہ فرماناکہ ''یہی لوگ نافرمان ہیں '' ایسے شخص کے لیے ہے جس کادل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے، لیکن جولوگ سفرمیں صوم نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے صوم رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتاہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک وادی کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پرسختی کی اورصوم افطارکرنے کے بارے میں انہیں جورخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکارکیا،اوریہ اس شخص پرمحمول کیاجائے گاجسے سفرمیں صوم رکھنے سے ضررہو رہاہو، رہاوہ شخص جسے سفرمیں صوم رکھنے سے ضررنہ پہنچے تو وہ صوم رکھنے سے گنہگار نہ ہوگا، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں صوم نہ رکھناہی افضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
۱۹-باب: سفر میں صوم نہ رکھنے کی رخصت کا بیان​


711- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ سَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَكَانَ يَسْرُدُ الصَّوْمَ فَقَال رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنْ شِئْتَ فَصُمْ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الصوم ۵۸ (۲۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۷۱) (صحیح)
وأخرجہ کل من: خ/الصوم ۳۳ (۱۹۴۲، ۱۹۴۳) وم/الصیام ۷ (۱۱۲۱)، ود/الصوم ۴۲ (۲۴۰۲)، ون/الصیام ۵۸ (۲۳۰۸-۲۳۱۰)، و۷۴ (۲۳۸۶)، وق/الصوم ۱۰ (۱۶۶۲)، ط/الصیام ۷ (۲۴) وحم (۶/۴۶، ۱۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷)، ودي/الصوم ۱۵ (۱۷۴۸)، من غیر ہذا الطریق۔
۷۱۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے سفر میں صوم رکھنے کے بارے میں پوچھا ، وہ خود مسلسل صوم رکھا کرتے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''چاہو تو رکھو اور چاہوتو نہ رکھو ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث کہ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا ، حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس بن مالک ، ابوسعیدخدری ، عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عمرو، ابوالدرداء اور حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔


712- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي رَمَضَانَ فَمَا يَعِيبُ عَلَى الصَّائِمِ صَوْمَهُ وَلاَ عَلَى الْمُفْطِرِ إِفْطَارَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الصوم ۱۵ (۱۱۱۶)، ن/الصیام ۵۹ (۲۳۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۴۴) (صحیح)
۷۱۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان میں سفر کرتے تونہ آپ صوم رکھنے والے کے صوم رکھنے پر نکیرکرتے اور نہ ہی صوم نہ رکھنے والے کے صوم نہ رکھنے پر۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


713- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، ح قَالَ: وحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، فَلاَ يَجِدُ الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ وَلاَ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ. فَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ مَنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ، فَحَسَنٌ وَمَنْ وَجَدَ ضَعْفًا فَأَفْطَرَ فَحَسَنٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الصوم ۱۵ (۱۱۱۶)، ن/الصیام ۵۹ (۲۳۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۵) (صحیح)
وأخرجہ حم (۳/۴۵، ۷۴، ۸۷) من غیر ہذا الطریق۔
۷۱۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے تو ہم میں سے بعض صوم سے ہوتے اوربعض صوم سے نہ ہوتے۔تو نہ تو صوم نہ رکھنے والارکھنے والے پر غصہ کرتا اور نہ ہی صوم رکھنے والے نہ رکھنے والے پر، ان کا خیال تھا کہ جسے قوت ہو وہ صوم رکھے تو بہتر ہے، اورجس نے کمزوری محسوس کی اور صوم نہ رکھا توبھی بہترہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 
Top