• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُكْسَرُ لَهُ الشَّيْئُ مَا يُحْكَمُ لَهُ مِنْ مَالِ الْكَاسِرِ
۲۳-باب: جس کی کوئی چیز توڑدی جائے توتوڑنے والے کے مال سے اس کاتاوان لیاجائے گا​


1359- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَهْدَتْ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ طَعَامًا فِي قَصْعَةٍ. فَضَرَبَتْ عَائِشَةُ الْقَصْعَةَ بِيَدِهَا. فَأَلْقَتْ مَا فِيهَا. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "طَعَامٌ بِطَعَامٍ، وَإِنَائٌ بِإِنَائٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۷۷)، وراجع : خ/المظالم ۳۴ (۲۴۸۱)، والنکاح ۱۰۷ (۵۲۲۵)، د/البیوع ۹۱ (۳۵۶۷)، ن/عشرۃ النساء ۴ (۳۴۰۷)، ق/الأحکام ۱۴ (۲۳۳۴)، حم (۳/۱۰۵، ۲۶۳)، دي/البیوع ۵۸ (۲۶۴۰) (صحیح)
۱۳۵۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرمﷺکی کسی بیوی نے آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کوئی چیز ہدیہ کی ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے (غصّے میں) اپنے ہاتھ سے پیالے کو مارکر اس کے اندر کی چیز گرادیا ،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' کھانے کے بدلے کھانا اور پیالے کے بدلے پیالہ ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی کوئی چیز کسی سے تلف ہو جائے تووہ ویسی ہی چیز تاوان میں دے اورجب اس جیسی چیز دستیاب نہ ہوتواس صورت میں اس کی قیمت اداکرنا اس کے ذمہ ہے۔


1360- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَعَارَ قَصْعَةً، فَضَاعَتْ فَضَمِنَهَا لَهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَإِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي سُوَيْدٌ الْحَدِيثَ الَّذِي رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ. وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ أَصَحُّ. اسْمُ أَبِي دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۸۸) (ضعیف جداً)
(سند میں ''سوید بن عبد العزیز'' سخت ضعیف ہے، صحیح واقعہ وہ جو اگلی حدیث میں مذکورہے)
۱۳۶۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے ایک پیالہ منگنی لیا وہ ٹوٹ گیا، توآپ نے جن سے پیالہ لیاتھا انہیں اس کا تاوان اداکیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث محفوظ نہیں ہے، ۲- سوید نے مجھ سے وہی حدیث بیان کرنی چاہی تھی جسے ثوری نے روایت کی ہے ۱؎ ، ۳- ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ سوید بن عبدالعزیزکو مذکورہ حدیث کی روایت میں وہم ہوا ہے انہوں نے اسے حمید کے واسطے سے انس سے ''أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَعَارَ قَصْعَةً ''کے الفاظ کے ساتھ روایت کردیا جو محفوظ نہیں ہے بلکہ محفوظ وہ روایت ہے جسے سفیان ثوری نے حمید کے واسطے سے انس سے ''أهدت بعض أزواج النبي ﷺ''کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-بَاب مَا جَاءَ فِي حَدِّ بُلُوغِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ
۲۴-باب: مرد اور عورت کی بلوغت کی حد کا بیان​


1361- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يَقْبَلْنِي. فَعُرِضْتُ عَلَيْهِ مِنْ قَابِلٍ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَقَبِلَنِي. قَالَ نَافِعٌ: وَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالَ: هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ. ثُمَّ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ لِمَنْ يَبْلُغُ الْخَمْسَ عَشْرَةَ.
* تخريج: خ/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، د/المغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، م/الإمارۃ ۲۳ (۱۸۶۸/۹۱) ق/الحدود ۴ (۲۵۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۰۰) ویأتي عند المؤلف في الجہاد ۳۲ (۱۷۱۱) (صحیح)
1361/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَ هَذَا. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ "أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ كَتَبَ أَنَّ هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ".
وَذَكَرَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فِي حَدِيثِهِ. قَالَ نَافِعٌ: فَحَدَّثَنَا بِهِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ. فَقَالَ: هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الذُّرِّيَّةِ وَالْمُقَاتِلَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. يَرَوْنَ أَنَّ الْغُلاَمَ إِذَا اسْتَكْمَلَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَحُكْمُهُ حُكْمُ الرِّجَالِ. وَإِنْ احْتَلَمَ قَبْلَ خَمْسَ عَشْرَةَ فَحُكْمُهُ حُكْمُ الرِّجَالِ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: الْبُلُوغُ ثَلاَثَةُ مَنَازِلَ: بُلُوغُ خَمْسَ عَشْرَةَ، أَوْ الاِحْتِلاَمُ، فَإِنْ لَمْ يُعْرَفْ سِنُّهُ وَلاَ احْتِلاَمُهُ فَالإِنْبَاتُ (يَعْنِي الْعَانَةَ).
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۶۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک لشکر میں پیش کیاگیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی توآپ نے مجھے(لشکرمیں) قبول نہیں کیا، پھر آئندہ سال مجھے آپ کے سامنے ایک اور لشکر میں پیش کیاگیا اور اس وقت میری عمر پندرہ سال کی تھی تو آپ نے مجھے (لشکرمیں) قبول کرلیا۔
نافع کہتے ہیں: میں نے عمربن عبدالعزیز سے اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے کہا: بالغ اور نابالغ کے درمیان یہی حد ہے۔ انہوں نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ جو پندرہ سال کے ہوجائیں (مال غنیمت سے) ان کو حصہ دیاجائے۔
دوسری سند سے عمر نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اور اس میں یہ ذکر نہیں کیاکہ (عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ نابالغ اور بالغ کی یہی حد ہے) البتہ سفیان بن عیینہ نے اپنی حدیث میں یہ بیان کیا ہے کہ نافع کہتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: بچہ اور مقاتل (جوجنگ میں شرکت کا اہل ہو) کے درمیان یہی حد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے، سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب بچہ پندرہ سال مکمل کرلے تو اس کا حکم وہی ہوگا جومردوں کا ہوتا ہے اور اگر پندرہ سال سے پہلے ہی اس کو احتلام آنے لگے توبھی اس کا حکم مردوں جیساہوگا۔احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: بلوغت کی تین علامتیں ہیں: بچہ پندرہ سال کا ہوجائے، یا اس کو احتلام آنے لگے، اور اگر عمر اور احتلام نہ معلوم ہوسکے تو جب اس کے ناف کے نیچے کے بال اُگ آئیں تو وہ بالغ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-بَاب فِيمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ
۲۵-باب: باپ کی بیوی سے شادی کرنے والے پرواردسختی کا بیان​


1362- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: مَرَّ بِي خَالِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ وَمَعَهُ لِوَائٌ فَقُلْتُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ، أَنْ آتِيَهُ بِرَأْسِهِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ قُرَّةَ الْمُزَنِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَائِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْبَرَائِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ عَدِيٍّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَائِ، عَنْ أَبِيهِ. وَرُوِي عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ عَدِيٍّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَائِ، عَنْ خَالِهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الحدود ۲۷ (۴۴۵۶)، ۴۴۵۷)، ن/النکاح ۵۸ (۳۳۳۳)، ق/الحدود ۳۵ (۲۶۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۳۴)، وحم (۴/۲۹۲، ۲۹۵، ۲۹۷) (صحیح)
۱۳۶۲- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے ماموں ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے اوران کے ہاتھ میں ایک جھنڈاتھا، میں نے پوچھا:آپ کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجاہے جس نے اپنے باپ کی (دوسری) بیوی سے شادی کررکھی ہے تاکہ میں اس کا سرلے کرآؤں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- براء کی حدیث حسن غریب ہے ،۲- محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عدی بن ثابت سے اورعدی نے عبداللہ بن یزید سے اورعبداللہ نے براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۳- یہ حدیث اشعث سے بھی مروی ہے انہوں نے عدی سے اورعدی نے یزید بن براء سے اوریزیدنے براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۴- نیزیہ اشعث سے مروی ہے انہوں نے عدی سے اورعدی نے یزید بن البراء سے اوریزید نے اپنے ماموں سے اور ان کے ماموں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے ،۵- اس باب میں قرہ مزنی سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلَيْنِ يَكُونُ أَحَدُهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الآخَرِ فِي الْمَائِ
۲۶-باب: ان دوآدمیوں کا بیان جن میں سے ایک کاکھیت دوسرے سے پانی کے نشیب میں ہو​


1363- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَاللهِ ابْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ. فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَائَ يَمُرُّ. فَأَبَى عَلَيْهِ. فَاخْتَصَمُوا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِلزُّبَيْرِ: "اسْقِ يَا زُبَيْرُ! ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَائَ إِلَى جَارِكَ". فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ ﷺ ثُمَّ قَالَ: "يَازُبَيْرُ! اسْقِ ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ".
فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللهِ! إِنِّي لأَحْسِبُ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي ذَلِكَ {فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ} [النساء: 65]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ. وَرَوَاهُ عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ اللَّيْثِ وَيُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، نَحْوَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ.
* تخريج: خ/الشرب والمساقاۃ ۶ (۲۳۶۰)، و ۸ (۲۳۶۲)، والعلم ۱۲ (۲۷۰۸)، وتفسیر سورۃ النساء ۱۲ (۵۳۸۵)، م/الفضائل ۳۶ (۲۳۵۷)، د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۷)، ن/القضاۃ ۱۹ (۵۳۲۲)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۵)، والرہون ۲۰ (۲۴۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۷۵)، وحم (۱/۱۶۵) (صحیح)
۱۳۶۳- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک انصاری نے رسول اللہ ﷺ کے پاس زبیر سے حرہ کی نالیوں کے بارے میں جس سے لوگ اپنے کھجورکے درخت سینچتے تھے جھگڑاکیا، انصاری نے زبیر سے کہا: پانی چھوڑدو تاکہ بہتا رہے، زبیر نے اس کی بات نہیں مانی ، تودونوں نے رسول اللہ کی خدمت میں اپنا قضیہ پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے زبیر سے فرمایا:'' زبیر! (تم اپنے کھیت کو)سیراب کرلو،پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو''، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہوگیا اورکہا: اللہ کے رسول!(ایسافیصلہ) اس وجہ سے کہ وہ آپ کی پھوپھی کالڑکا ہے؟ (یہ سنتے ہی) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا ،آپ نے فرمایا: ''زبیر! تم اپنے کھیت سیراب کرلو،پھر پانی کوروکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیرتک پہنچ جائے'' ۱؎ ،زبیر کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میراگمان ہے کہ اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی:{ فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ} (النساء:۶۵) ( آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں (اے نبی) وہ آپ کو حکم نہ مان لیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اورزہری نے عروہ بن زبیرسے اورعروہ نے زبیرسے روایت کی ہے اورشعیب نے اس میں عبداللہ بن زبیر کے واسطے کاذکر نہیں کیا ہے۔ اور عبداللہ بن وہب نے اِسے پہلی حدیث کی طرح ہی لیث اوریونس سے روایت کیا ہے اوران دونوں نے زہری سے اورزہری نے عروہ سے اورعروہ نے عبداللہ بن زبیر سے روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان اور اگلے فرمان میں فرق یہ ہے کہ آپ نے زبیر سے اپنے پورے حق سے کم ہی پانی لے کر چھوڑ دینے کا حکم فرمایا، اور بعد میں غصہ میں زبیر کو پورا پورا حق لینے کے بعد ہی پانی چھوڑ نے کا حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُعْتِقُ مَمَالِيكَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَيْسَ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ
۲۷-باب: آدمی مرتے وقت اپنے غلاموں کو آزاد کردے اور اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی اورمال نہ ہوتوکیا کیاجائے؟​


1364- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ. فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ لَهُ قَوْلاً شَدِيدًا. ثُمَّ دَعَاهُمْ فَجَزَّأَهُمْ ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ. فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. يَرَوْنَ اسْتِعْمَالَ الْقُرْعَةِ فِي هَذَا وَفِي غَيْرِهِ. وَأَمَّا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ فَلَمْ يَرَوْا الْقُرْعَةَ. وَقَالُوا: يُعْتَقُ مِنْ كُلِّ عَبْدٍ الثُّلُثُ. وَيُسْتَسْعَى فِي ثُلُثَيْ قِيمَتِهِ. وَأَبُو الْمُهَلَّبِ اسْمُهُ عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ عَمْرٍو الْجَرْمِيُّ. وَهُوَ غَيْرُ أَبِي قِلاَبَةَ. وَيُقَالُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو. وَأَبُو قِلاَبَةَ الْجَرْمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدٍ.
* تخريج: م/الأیمان والنذور ۱۷ (۱۶۶۸)، د/الفتن ۱۰(۳۹۵۸)، ن/الجنائز ۶۵ (۱۹۵۷)، ق/الأحکام ۲۰ (۲۳۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۰)، وحم (۴/۴۲۶، ۴۳۱، ۴۴۰) (صحیح)
۱۳۶۴- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک انصاری شخص نے مرتے وقت اپنے چھ غلاموں کوآزاد کردیا جبکہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی اورمال نہ تھا، نبی اکرمﷺکو یہ خبر ملی تو آپ نے اس آدمی کو سخت بات کہی، پھر ان غلاموں کو بلایا اور دو دوکرکے ان کے تین حصے کئے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اورجن(دوغلاموں) کے نام قرعہ نکلاان کو آزاد کردیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوریہ اوربھی سندوں سے عمران بن حصین سے مروی ہے،۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ اوریہی مالک ،شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ یہ اوراس طرح کے دوسرے مواقع پر قرعہ اندازی کو درست کہتے ہیں،۵- اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم قرعہ اندازی کو جائز نہیں سمجھتے ، اس موقع پرلوگ کہتے ہیں کہ ہرغلام سے ایک تہائی آزاد کیاجائے گا اور دوتہائی قیمت کی آزادی کے لیے کسب (کمائی) کرایاجائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ
۲۸-باب: جو کسی مَحرَم رشتے دارکا مالک ہوجائے توکیاکرے؟​


1365- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مُسْنَدًا، إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُمَرَ، شَيْئًا مِنْ هَذَا.
1365/م- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ وَعَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَاصِمًا الأَحْوَلَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ". رَوَاهُ ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَلَمْ يُتَابَعْ ضَمْرَةُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ. وَهُوَ حَدِيثٌ خَطَأٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/الفتن ۷ (۳۹۴۹)، ق/الفتن ۵ (۲۵۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۵)، وحم (۵/۱۵، ۱۸ ۲۰) (صحیح)
(متابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ ثقات نے مرفوعاروایت کر نے میں حماد بن سلمہ کی مخالفت کی ہے ، دیکھئے : الإرواء رقم: ۱۷۴۶)
ٍ ۱۳۶۵- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جوشخص کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تووہ (رشتہ دار) آزاد ہوجائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے مسنداً (مرفوعاً) جانتے ہیں، ۲- اور بعض لوگوں نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو قتادہ سے اورقتادہ نے حسن سے اورحسن نے عمر رضی اللہ عنہ سے (موقوفاً) روایت کیا ہے۔
۱۳۶۵/م- اس سندسے محمد بن بکربُرسانی نے بیان کیا انہوں نے حماد بن سلمہ سے اورحمادنے قتادہ اورعاصم احول سے اورقتادہ اورعاصم نے حسن بصری سے اورحسن نے سمرہ سے اور سمرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''جو شخص کسی محرم قرابت دار کامالک ہوجائے تو وہ آزاد ہوجائے گا''، ۳- محمد بن بکر کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے عاصم احول کا ذکر کیاہواورانہوں (عاصم) نے حمادبن سلمہ سے روایت کی ہو، ۴- بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے، ۵- ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:''جو شخص کسی محرم قرابت دار کا مالک ہوجائے تو وہ آزاد ہوجائے گا''۔ اسے ضمرہ بن ربیعہ نے ثوری سے روایت کیا ہے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، اورعبداللہ نے ابن عمر سے اور ابن عمرنے نبی اکرمﷺسے۔اس حدیث کی روایت میں لوگوں نے ضمرہ کی متابعت نہیں کی ہے۔ محدثین کے نزدیک یہ حدیث غلط ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس حدیث کا سمرہ رضی اللہ عنہ کی مسند سے ہونا ہی صحیح ہے، ضمرہ مسند ابن عمر سے روایت کرکے وہم کا شکارہوگئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ زَرَعَ فِي أَرْضِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ
۲۹-باب: دوسرے کی زمین میں بغیر اجازت فصل بونے کا بیان​


1366- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "مَنْ زَرَعَ فِي أَرْضِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، فَلَيْسَ لَهُ مِنْ الزَّرْعِ شَيْئٌ، وَلَهُ نَفَقَتُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ، إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِاللهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ: لاَ أَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ إِلاَّ مِنْ رِوَايَةِ شَرِيكٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ. حَدَّثَنَا مَعْقِلُ بْنُ مَالِكٍ الْبَصْرِيُّ. حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ الأَصَمِّ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ.
* تخريج: د/البیوع ۳۳ (۳۴۰۳)، ق/الرہون ۱۳ (الأحکام ۷۴)، (۲۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۷۰)، وحم (۳/۴۶۵) (صحیح)
۱۳۶۶- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوشخص دوسرے کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیرفصل بوئے، اس کو فصل سے کچھ نہیں ملے گا وہ صرف خرچ لے سکتا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے بروایت ابواسحاق صرف شریک بن عبداللہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے اوریہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎ ۴- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: یہ حدیث حسن ہے، انہوں نے کہا:میں اسے بروایت ابواسحاق صرف شریک ہی کے طریق سے جانتاہوں،۵- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ہم سے معقل بن مالک بصری نے بسندعقبہ بن اصم عنعطائعن رافع بن خدیج عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اور یہی قول راجح ہے اس کے برخلاف کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ فصل تو غاصب کی ہوگی اورزمین کا مالک اس سے زمین کاکرایہ وصول کرے گا، مگر اس قول پرکوئی دلیل ایسی نہیں جسے اس حدیث کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مَا جَاءَ فِي الشُّفْعَةِ
۳۱-باب: شفعہ کا بیان ۱؎​


1368- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الشَّرِيدِ وَأَبِي رَافِعٍ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مِثْلَهُ. وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، حَدِيثُ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ. وَلاَ نَعْرِفُ حَدِيثَ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ، إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ. وَحَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ الطَّائِفِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فِي هَذَا الْبَابِ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ: كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ.
* تخريج: د/البیوع ۷۵ (۳۵۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۸)، وحم (۵/۱۲، ۱۳، ۱۸) (صحیح)
۱۳۶۸- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' گھر کا پڑورسی گھر (خریدنے) کا زیادہ حق دار ہے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اورعیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے اورقتادہ نے انس سے اور انس نینبی اکرمﷺسے اسی کے مثل روایت کی ہے۔نیزسعیدبن ابی عروبہ سے مروی ہے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حسن بصری سے اورحسن بصری نے سمرہ سے اورسمرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں شرید ، ابورافع اور انس سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- اور اہل علم کے نزدیک صحیح حسن کی حدیث ہے جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے۔اورہم قتادہ کی حدیث کو جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہے، صرف عیسیٰ بن یونس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورعبداللہ بن عبدالرحمن الطائفی کی حدیث جسے انہوں نے عمروبن شریدسے اورعمرونے اپنے والدسے اوران کے والدنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، اس باب میں حسن حدیث ہے۔اورابراہیم بن میسرہ نے عمروبن شرید سے اورعمرو نے ابورافع سے اورابورافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔
وضاحت ۱؎ : شفعہ اس استحقاق کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شریک (ساجھے دار)سے شریک کا وہ حصہ جودوسرے کی ملکیت میں جاچُکاہوقیمت اداکرکے حاصل کرسکے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے پڑوسی کے لیے حق شفعہ کے قائلین نے ثبوت شفعہ پر استدلال کیا ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس جگہ پڑوسی سے مرادساجھے دار ہے پڑوسی نہیں، کیونکہ اس حدیث میں اور حدیث '' إذا وقعت الحدود وصرفت الطريق فلا شفعة '' (یعنی: جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو شفعہ نہیں) جوآگے آرہی ہے میں تطبیق کا یہی معنی لینا ضروری ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَا جَاءَ فِي الشُّفْعَةِ لِلْغَائِبِ
۳۲-باب: غائب (جوشخص موجودنہ ہو) کے شفعہ کا بیان​


1369- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ. يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا، إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ. وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ. وَعَبْدُالْمَلِكِ هُوَ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ شُعْبَةَ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، هَذَا الْحَدِيثَ. وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ مِيزَانٌ. يَعْنِي فِي الْعِلْمِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا. فَإِذَا قَدِمَ فَلَهُ الشُّفْعَةُ. وَإِنْ تَطَاوَلَ ذَلِكَ.
* تخريج: د/البیوع ۷۵ (۳۵۱۸)، ق/الشفعۃ ۲ (۲۴۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۳۴)، وحم (۳/۳۰۳) (صحیح)
۱۳۶۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کازیادہ حق دار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیاجائے گا ۱؎ اگر چہ وہ موجودنہ ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم عبدالملک بن سلیمان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے اس حدیث کو عطاء سے اورعطاء نے جابر سے روایت کی ہو،۲- شعبہ نے عبدالملک بن سلیمان پراسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ محدّثین کے نزدیک عبدالملک ثقہ اور مامون ہیں، شعبہ کے علاوہ ہم کسی کونہیں جانتے ہیں جس نے عبدالملک پر کلام کیا ہو، شعبہ نے بھی صرف اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔اوروکیع نے بھی یہ حدیث شعبہ سے اور شعبہ نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی ہے۔اور ابن مبارک نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: عبدالملک بن سفیان میزان ہیں یعنی علم میں، ۲- اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے کہ آدمی اپنے شفعہ کا زیادہ حق دارہے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو، جب وہ (سفر وغیرہ) سے واپس آئے گا تو اس کو شفعہ ملے گا گرچہ اس پر لمبی مدّت گزرچکی ہو۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے، اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ'' جب حدبندی ہوجائے اورراستے جداجداہوجائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
33-بَاب مَا جَاءَ إِذَا حُدَّتِ الْحُدُودُ وَوَقَعَتِ السِّهَامُ فَلاَ شُفْعَةَ
۳۳-باب: جب حد بندی ہوجائے اور حصے تقسیم ہوجائیں تو شفعہ نہیں​


1370- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ، وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ مُرْسَلاً، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ. مِثْلَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ وَغَيْرِهِ. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ. مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ وَرَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: لاَ يَرَوْنَ الشُّفْعَةَ إِلاَّ لِلْخَلِيطِ. وَلاَ يَرَوْنَ لِلْجَارِ شُفْعَةً. إِذَا لَمْ يَكُنْ خَلِيطًا. وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: الشُّفْعَةُ لِلْجَارِ. وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ". وَقَالَ: "الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ". وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: خ/البیوع ۹۶ (۲۲۱۳)، و۹۷ (۲۲۱۴)، والشفعۃ ۱ (۲۲۵۷)، والشرکۃ ۸ (۲۴۹۵)، والحیل ۱۴ (۶۹۷۶)، د/البیوع ۷۵ (۳۵۱۴)، ق/الشفعۃ ۳ (۲۴۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۳)، وحم (۳/۲۹۶) (صحیح)
۱۳۷۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب حدبندی ہوجائے اور راستے الگ الگ کردیے جائیں تو شفعہ نہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے بعض لوگوں نے ابوسلمہ سے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا جن میں عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان بھی شامل ہیں اسی پرعمل ہے اور بعض تابعین فقہا جیسے عمر بن عبدالعزیز وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔اوریہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے، جن میں یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعہ بن ابوعبدالرحمن اور مالک بن انس شامل ہیں، شافعی ،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ صرف ساجھی دار کے لیے ہی حق شفعہ کے قائل ہیں۔ اور جب پڑورسی ساجھی دار نہ ہو تو اس کے لیے حق شفعہ کے قائل نہیں۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوسی کے لیے بھی شفعہ ہے اور ان لوگوں نے مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں: ''گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حق دار ہے ۲؎ '' ،نیز فرماتے ہیں:'' پڑوسی اپنے سے لگی ہوئی زمین یامکان کازیادہ حق دارہے اوریہی ثوری ، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو، محض پڑوسی ہو نا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں، یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت وصواب سے قریب تربھی ہے، حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیادپربھی شفعہ جائزہے، ان کی دلیل حدیث نبوی ''جار الدار أحق بالدار''ہے۔
وضاحت ۲؎ : جمہوراس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مرادشریک (ساجھی) ہے،مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتاہے، جب کہ راستہ الگ ہوجانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔
 
Top